Sunday, 28 July 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 23
خاندان ِمغلیہ
ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ غازی1526 سے 1530


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


فہرستِ شاہانِ مغل[ترمیم]
خاندان مغول یا سلسلہ مغل یا آل تیموری یا گورکانیان
تصویر
لقب
پیدائشی نام
پیدائش
دورِ حکومت
وفات
نوٹس
Babur of India.jpg
بابر
ظہیر الدین محمد
23 فروری 1483
30 اپریل 1526ء – 26 دسمبر 1530ء
26 دسمبر 1530
(عمر 47)
Humayun of India.jpg
ہمایوں
نصیر الدین محمد ہمایوں
17 مارچ 1508
26 دسمبر 1530ء – 17 مئی 1540ء
22 فروری 1555ء – 27 جنوری 1556ء
27 جنوری 1556
(عمر 47)
Akbar Shah I of India.jpg
اکبر اعظم
جلال الدین محمد اکبر
14 اکتوبر 1542
27 جنوری 1556 – 27 اکتوبر 1605
27 اکتوبر 1605ء
(63 سال)
Jahangir of India.jpg
جہانگیر
نور الدین محمد سلیم
20 ستمبر 1569
15 اکتوبر 1605 – 8 نومبر 1627
8 نومبر 1627
( 58 سال)
Shah Jahan I of India.jpg

شاہ جہان اعظم
شہاب الدین محمد خرم
5 جنوری 1592
8 نومبر 1627 – 2 اگست 1658
22 جنوری 1666
( 74 سال )
تاج محل بنوایا
Alamgir I of India.jpg
عالمگیر
محی الدین محمداورنگزیب
4 نومبر 1618
31 جولائی 1658 – 3 مارچ 1707
3 مارچ 1707
(88 سال)
Muhammad Azam of India.jpg
اعظم شاہ
28 جون 1653
14 مارچ 1707 – 8 جون 1707
8 جون 1707
( 53 سال)
Bahadur Shah I of India.jpg
بہادر شاہ
14 اکتوبر 1643
19 جون 1707 – 27 فروری 1712
(4 سال، 253 دن)
27 فروری 1712 (عمر 68)
Jahandar Shah of India.jpg
جہاں دار شاہ
9 مئی 1661
27 فروری 1712 – 11 فروری 1713
(0 سال، 350 دن)
12 فروری 1713 (عمر 51)
Farrukhsiyar of India.jpg
فرخ سیر
20 اگست 1685
11 جنوری 1713 – 28 فروری 1719
(6 سال، 48 دن)
29 اپریل 1719 (عمر 33)
Rafi ud-Darajat of India.jpg
رفیع الدرجات
30 نومبر 1699
28 فروری – 6 جون 1719
(0 سال، 98 دن)
9 جون 1719 (عمر 19)
Shah Jahan II of India.jpg
شاہجہان ثانی
جون 1696
6 جون 1719 – 19 ستمبر 1719
(0 سال، 105 دن)
19 ستمبر 1719 (عمر 23)
----
Muhammad Shah of India.jpg
محمد شاہ
17 اگست 1702
27 ستمبر 1719 – 26 اپریل 1748
(28 سال، 212 دن)
26 اپریل 1748 (عمر 45)
Ahmad Shah Bahadur of India.jpg
احمد شاہ بہادر
23 دسمبر 1725
26 اپریل 1748 – 2 جون 17
1 جنوری 1775 (عمر 49)
Alamgir II of India.jpg
عالمگیر ثانی
6 جون 1699
2 جون 1754 – 29 نومبر 1759
(5 سال، 180 دن)
29 نومبر 1759 (عمر 60)
Sin foto.svg
شاہجہان ثالث
1711
10 دسمبر 1759 – 10 اکتوبر 1760
1772
Ali Gauhar of India.jpg
شاہ عالم ثانی
25 جون 1728
24 دسمبر 1759 – 19 نومبر 1806 (46 سال، 330 دن)
19 نومبر 1806 (عمر 78)
Akbar Shah II of India.jpg
اکبر شاہ ثانی
22 اپریل 1760
19 نومبر 1806 – 28 ستمبر 1837
28 ستمبر 1837 (عمر 77)
Bahadur Shah II of India.jpg
بہادر شاہ ثانی
24 اکتوبر 1775
28 ستمبر 1837 – 14 ستمبر 1857 (19 سال، 351 دن)
7 نومبر 1862
انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کو جنگ آزادی ہند 1857ء میں شکست دینے کے بعد مکمل طور پر قبضہ بھی کر لیا اور خاندان مغول کو برطرف کر دیا


دور حکومت
30 اپریل 1526 (قدیم تقویم) — 26 دسمبر 1530 (قدیم تقویم)
تاج پوشی
رسمی تاجپوشی نہیں ہوئی
بابر
خطاب
السلطان الاعظم والخاقان المکرم پادشاہ غازی شاہِ فرغانہ (1495–1497) ، شاہِ سمرقند (1497) ، شاہِ کابل (1501–1530)
معلومات شخصیت
پیدائش
وفات
26 دسمبر 1530 (47 سال)  خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں تاریخ وفات (P570) ویکی ڈیٹا پر
مدفن
تاریخ دفن
1531
شہریت
مذہب
زوجہ
اولاد
خاندانِ تیمور
نسل
ہمایوں ، کامران مرزا ، عسکری مرزا ، ہندال مرزا ، گلبدن بیگم ، فخر النساء ، التون بِشِک
خاندان
دیگر معلومات
پیشہ
شاعر،  آپ بیتی نگار  خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں پیشہ (P106) ویکی ڈیٹا پر
کارہائے نمایاں

مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر مغل قوم سے تھا اس کا باپ عمر شیخ مرزا ترکستان کی ایک چھوٹی سی ریاست فرغانہ کا حکم تھا ۔ 1483 میں پیدا ہوا ۔ وہ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا وہ ابھی بارہ برس کا نہ ہوا تھا کہ اس کا باپ مر گیا اور سلطنت کا تمام بوجھ اس کے سر پر آ پڑا اس کے چچا نے چڑھائی کی اور شکست دے کر اس کی سلطنت پر قبضہ کرلیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور بہادری سے مصیبتوں کا مقابلہ کرتا رہا اور اس طرح دس سال گزار دیئے ۔ آخر اپنے وطن کو چھوڑ کر 1504 میں افغانستان چلا گیا ۔ یہاں اس کی قسمت نے ساتھ دیا اور کابل کا بادشاہ بن گیا اس نے 1504 سے 1526 تک کابل پر حکومت کی ۔ اس عرصہ میں اس نے غزنی بدخشاں اور قندھار کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اس نے پانی پت کی لڑائی سے پہلے ہندوستان پر تین دفعہ حملے کیے مگر پنجاب سے آگے نہ بڑھ سکا آخر 1526 میں پانی پت کی لڑائی میں فتح حاصل کر کے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ہوا ۔


پانی پت کی پہلی لڑائی 1526    

وجہ
ابراہیم لودی کے سلوک سے تمام امراءتنگ تھے اس لئے دولت خان لودھی حاکم پنجاب اور رانا سانگا والیے میواڑ نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی گئی ۔

واقعات

بابر بارہ ہزار سپاہیوں اور توپ خانہ کے ساتھ ابراہیم لودھی کے مقابلہ کے لیے پانی پت میں آ موجود ہوا ابراہیم کے پاس ایک لاکھ سپاہی اور دو ہزار جنگجو ہاتھی دے مگر ابراہیم کوئی اعلیٰ پایا کا جرنیل نہ تھا ۔ آخر ٢١ اپریل ١۵٢٦ کو بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی ہندوستان میں یہ پہلا موقع تھا کہ توپ خانہ کا استعمال ہوا ابراہیم کے ہاتھی گولا باری سے ڈر کر بھاگ نکلے ابراہیم کو شکست ہوئی اور چالیس ہزار سپاہیوں سمیت جنگ میں قتل ہوا اس سے بابر دہلی اور آگرہ کا بادشاہ بن گیا ۔

جنگ کنواہہ 1527

راجپوتوں کا خیال تھا کہ بابر بھی امیر تیمور کی طرح لوٹ مار کر کے واپس چلا جائے گا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ہندوستان میں ایک مستقل حکومت قائم کرنے کا ہے تو انہوں نے راناسانگا والئے چتوڑ کی سرگردگی میں بابر کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور یہ جنگ بابر اور راناسانگا کے درمیان سیکری کے قریب کے کنواہہ کےمیدان میں 1527 میں ہوئی ۔ اس لڑائی میں راناسانگا والئے میواڑ نے سب راجپوت راجاؤں کو بابر کے خلاف شامل ہونے کے لئے بلایا ۔ ایک لاکھ راجپوت بابر کے مقابلہ کے لیے آموجود ہوئے راناسانگا بڑا جواں مرد اور بہادر جرنیل تھا اور کئی لڑائیوں میں جوانمردی کے جوہر دکھا چکا تھا اس کے جسم پر اسی  زخموں کے نشانات موجود تھے راجپوتوں کی اتنی بڑی فوج دیکھ کر بابر کے سپاہی بہت گھبرائے ۔ مگر بابر نے بڑے حوصلہ سے کام لیا اور ایک جوشیلی تقریر کرکے اپنی فوج کی ہمت بڑھائی اور قسم کھائی کہ وہ آئندہ کبھی شراب نہ پیئے گا ۔ اس لڑائی میں راجپوتوں نے جان توڑ کر مقابلہ کیا لیکن بابر کے توپ خانوں  کے سامنے ان کی کوئی نہ چلی ۔ راجپوتی سپاہ کے پاؤں اکھڑ گئے اور بابر کو فتح نصیب ہوئی ۔

فتح چندیری  1528

1528 میں بابر نے چندیری کے مضبوط قلعہ پر حملہ کیا اس پر رانا سانگا کے باقی ماندہ راجپوت سردار میدنی رائے کے ساتھ موجود تھے ۔ یہ ابھی راجپوتوں نے خوب مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور اس قلعہ پر بابر کا قبضہ ہوگیا اس لڑائی کے بعد راجپوتوں کی طاقت کا خاتمہ ہوگیا ۔

گھاگرا کی لڑائی 1529


راجپوتوں کی طرف سے جب بابر کو کوئی خطرہ نہ رہا تو اس نے بنگال اور بہارکے افغان سرداروں کو دریائے گھاگھرا کے کنارے پر 1529 میں ہرایا ۔اور بیھار پر قبضہ کرلیا لیکن نصرت شاہ حاکم بنگال نے بابر کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کر لئے اور اپنی سلطنت کو بچالیا ۔

بابر کی موت

1530 میں بابر کا سب سے بڑا بیٹا ہمایوں سخت بیمار ہوا شاہی حکماء علاج کرتے ہوئے تھک گئے کہتے ہیں کہ جب ہمایوں کے بچنے کی امید باقی نہ رہی تو بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کی چارپائی کے گرد تین دفعہ چکر لگایا اور خدا سے دعا کی کہ ہمایوں کی بیماری مجھے لگ جائے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی وقت سے ہمایوں تندرست ہوتا گیا اور بابر بیمار پڑ گیا اور ،1530 میں مر گیا اس کی نعش اس کی وصیت کے مطابق کابل میں لے جا کر دفن کر دی گئی ۔

بابرکا چال چلن

بابر ناصرف غضب کا بہادر اور دلیر سپاہی تھا بلکہ تجربہ کار جرنیل بھی تھا وہ زبردست تیراک ۔ مشہور تیر انداز اور گھوڑے کی سواری کا شائق تھا وہ اتنا طاقتور تھا کہ دو آدمیوں کو بغل میں دبا کر آگرہ کے قلعہ کی فصیل پر بھاگ سکتا تھا اس کی تمام عمر مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھانے میں گزری لیکن وہ بڑا صابر مستقل مزاج اور زبردست قوت ارادی کا مالک تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تکلیفوں کی کچھ پروا نہ کی بابر پہلے مغل بادشاہوں کی طرح بے رحم نہ تھا بلکہ وہ رحم دل اور رعایہ کا ہمدرد بادشاہ تھا  ۔ بابر ایک اچھا مصنف اور شاعر بھی تھا وہ علم ادب کا مربی اور علماء کی مجلس کا مشتاق تھا علاوہ ازیں اور قدرتی نظاروں کا شوقین تھا اس نے اپنی سوانح عمری خود لکھی جو تزک بابری کے نام سے مشہور ہے ۔