Sunday, 2 July 2023

مخلص استاد ،حساس شاعر ڈاکٹر یاسین راہیؔ تراسگر

 مخلص استاد  ،حساس شاعر

ڈاکٹر یاسین راہیؔ تراسگر


 

ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد

ذاتِ نبی ﷺ بلند ہے ذات ِخدا کے بعد

دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ

میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفٰیﷺ کے بعد

 

دنیا کی اس مختصر سی زندگی میں مجھے بہت سارے اساتذہ اور شعرا ء سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ مگر جتنا میں ڈاکٹر یاسین راہی ؔصاحب سے متاثر ہوا ہوں ،شاید ہی اتنا کسی سے متاثر ہو سکا،اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ ان کی منکسر المزاجی اور اخلاص ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو انسان ڈاکٹر صاحب سے ایک بار مل لے وہ بار بار ملنے کی تمنا کرے گا، کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں  ایسی جاذبیت ہے جو انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے قریب کرتی ہے ۔ اور ان میں وہ تمام خصوصیات اور قابیلتیں موجود ہیں جو اعلیٰ انسانوں اور شخصیات میں پائی جاتی ہیں ۔ یوں تو ہر انسان کو اپنے متعلق کسی نہ کسی چیز کے پانے یا کھونے کا افسوس ہوتا  ہی ہے ۔ مجھے جس چیز کا افسوس ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات پہلے کیوں نہیں ہوئی ۔ ۔ ؟

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

ائے کاش ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات طالب ِعلمی کے زمانے میں ہوئی ہوتی تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ذریعے مجھےبہت سارا علمی فیض  مل جاتا ۔ خیر یہ تو مقدر کی بات تھی مگر ان کے ذریعے مجھے جتنافیض  ملا ہے وہ بھی کم نہیں ہے ۔ کیونکہ ان جیسی پاک ہستیوں کا زندگی میں آنا ہی  بہت بڑی سعادت ہے ۔ اس بات پر میں جتنا الله کا شکر ادا کروں وہ کم ہے ۔

جہاں تک درس و تدریس کا معاملہ ہے میں سمجھتا ہوں ہمارے پورے علاقے میں ان جیسے مخلص اساتذہ  کم ہی ملیں گے  ۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے پیشے سے والہانہ محبت ہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برسوں گزر جاتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب چھٹی نہیں لیتے ۔اپنے مضمون پر گہرا علم رکھتے ہیں،بات کو اس طرح سمجھاتے ہیں کہ غبی سے غبی ذہن کا بچہ آسانی سے سمجھ لے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجھے کئی مرتبہ سفر کرنے کا بھی موقع ملا اور جہاں جہاںہمارا  جانا ہوا وہاں وہاں ان کے شاگردوں کا ایک بڑا ہجوم ملا ۔ اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے قابل اور با صلاحیت  شاگردوں کا خلوص اور پیار دیکھ کر ذہن میں یہ شعر گونج اٹھتا تھا ۔

ہر آں کارے کہ بے استاد باشد

یقین دانی کہ بے بنیاد باشد

ترجمہ : ہر وہ بندہ جو بے استاد ہوتا ہے یقین مانو کہ وہ بے بنیاد ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے شاگردوں کا  جو ادب و احترام  معاملہ ہے اس طرح کا ادب و احترام آج کے زمانے میں بہت کم نظر آتا ہے،ویسے تو ڈاکٹر صاحب کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ان میں سے کئی ایک سے ملنے کا موقع بھی ملا ۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے دو شاگرد ایسے ہیں جن سے بار بار فون پر بات چیت بھی ہوتی رہی اور کئی مرتبہ ملنے کا موقع بھی ملا ۔ ان میں سے  ایک ہیں ارشاد احمد سوداگر صاحب مالک ہوٹل نیاز بلگام ۔ اور دوسرے ہیں شفیق صاحب مالک ہوٹل گرین تاج بلگام ۔ جب جب ان دونوں صاحبان سے بات چیت یا ملاقات ہوئی ہے میرا جہاں تک خیال ہے صرف علمی بات چیت ہی ہوئی ہے ۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا ایسی علمی صلاحیت، اردو سے ایسی محبت ،سخن فہمی  اور مطالعہ کا ایسا نکھرا ذوق ایسے مصروف اشخاص میں کیسے آیا ۔ ۔ ؟ میرے دل میں صرف ایک ہی جواب آتا رہا وہ ہیں ڈاکٹر یاسین راہیؔ تراسگر صاحب کی شاگردگی کی برکتیں ۔ ۔

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

ڈاکٹر صاحب کے دو شعری مجموعے " قطرہ قطرہ دریا  دیکھوں " اور گلاب لہجہ " منظر  عام پہ آچکے  ہیں  ۔ ڈاکٹر صاحب اس برق رفتاری کی ساتھ غزلیں کہتے ہیں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ مشکل سے مشکل موضوعات کو آسانی سے پیش کرتے ہیں گویا الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں اور وہ جس طرح  چاہتے ہیں چُن لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ مگر ان کی سہل ممتنع میں کہی گئی غزلوں کا جواب نہیں ۔ میں اکثر ان سے کہتا بھی رہتا ہوں کہ آپ اس دور کے ناصر کاظمی ہیں ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب کی سینکڑوں سہل ممتنع  میں کہی گئی غزلیں ہیں جنہیں آئیندہ آنے والے ایام میں کتابی شکل دینا باقی ہے ۔شہرت اور صلے سےدور  اردو  زبان و ادب کی خاموشی سے  خدمت کرنے والے دورِ حاضر میں بہت کم ملیں گے، جہاں تک ڈاکٹر صاحب کی مشاعر وں میں شرکت کی بات ہے ان کا پڑھنے کا انداز سیدھا سادھا اور  دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے، ان کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ دوسرے شرکاء کو  بھی مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملے،  بار بار ایک ہی کلام سنانے سے گریز کرتے ہیں ہر بار نئی غزلیں سامعین کو سننے کا موقع ملتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو بناوٹ سے چِڑھ ہے، خاص طور پر آج کل کے شعرا ءجس انداز  سےداد بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں یہ انہیں سخت نا پسند ہے اس طرح کرنے والوں کے لئے یہ کہتے تھے کہ یہ مشاعرہ نہیں پڑھ رہے  بلکہ اداکاری کر رہے ہیں ۔

کچھ باتیں مصنف کے بارے میں : مفتی نوشاد زاہد صاحب جید عالمِ دین ،شاعر،مصنف اور ایک بہترین شخصیت کے مالک ہیں، مدرسہ بالیکندری میں بحیثیتِ صدر مدرس اپنی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ طبیعت میں سادگی ، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں پر شفقت ، شعلہ بیاں مقرر ،  شاعری سے لگاؤ ، بالخصوص نعتیہ شعر رقم کرنا ، ان کی اہم خصوصیات ہیں  ۔مفتی صاحب کو میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے ایسی معتبر شخصیت کی حیات و خدمات پر قلم اٹھایا ہے جسے آنے والی نسلیں ان کے کلام اور زندگی کو  بڑے ذوق و  شوق سے پڑھیں گی۔

پنشن ہوگئی ہے کیا بات ہے اپنی

اب دن بھی ہے اپنا اور رات بھی اپنی

اب اور ہی کچھ ہے مرے دن رات کا عالم

ہر وقت ہی رہتا ہے ملاقات کا عالم

میرا خیال ہے اس کتاب کی رسم اجرا تک ڈاکٹر صاحب  بلگام کے معروف ادارے اسلامیہ ہائی  اسکول و کمپوزٹ پی یو کالج سے بحسن ِ خوبی ریٹائیرڈ ہوجائیں گئ۔اللہ سے دعا ہے ڈاکڑ صاحب کی عمر عافیت کے ساتھ دراز ہو ،اور ریٹائیرڈمنٹ کے بعد کی زندگی پُر سکون گزرے۔۔








آفتاب عالم ؔ دستگیر پٹیل (شاہنوری)

کروشی ،بلگام کرناٹک

8105493349