Monday, 8 July 2024

شہرِ بنگلور کا’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘ ایک ماں ایسی بھی دیکھی (سفر نامہ)

  


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شہرِ بنگلور کا’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘

ایک ماں ایسی بھی دیکھی

(سفر نامہ)


 

          آفتاب عالم شاہ نوری کرناٹک انڈیا

       موبائل:8105493349

 

  الله تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ صحت ان میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِسی لئے کہا گیا ہے سفر کرو، صحت پاؤ ۔ میرے والد صاحب کی برکت سے مجھ خاکسار کو بچپن سے ملک کے الگ الگ ریاستوں میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ چونکہ میرے والد نے 24 سال تک ہندوستانی افواج میں اپنی خدمات انجام دی ہیں ، اسی وجہ سے شمال میں جموں و کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں سے لے کر جنوب میں کنیا کماری کے اُس علاقے تک کا سفر کرنے کا موقع ملا، جہاں تین سمندر ایک جگہ ملتے ہیں ۔ ہر سفر نے مجھے زندگی کا ایک نیا سبق، نیا تجربہ دیا ۔ اس بار بتاریخ 5 جولائی 2024 تا 8 جولائی 2024 بنگلور کا سفر میرے لئے ہر لحاظ سے یاد گار سفر رہا۔اس کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو ملنے کے لئے میں نے زادِ سفر باندھا تھا، وہ اردو زبان و ادب کی عظیم شخصیت ، جس کا طوطی دنیا کے 6 براعظموں میں بولتا ہے ۔ جہاں جہاں اردو بولی، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں محترم جناب عزیز بلگامی صاحب کا نام بڑے ہی ادب و احترام سے لیا جاتا ہے:

 فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں

یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے

(نامعلوم)

عالمی شہرت یافتہ شاعر محترم عزیز بلگامی صاحب ہمارے گھر کروشی میں سالِ رواں فروری میں تشریف لائے تھے اور ان کی طرف سے کتابوں کا ہدیہ بھی ملا تھا۔یوں تو محترم عزیز بلگامی صاحب میرے ہم وطن ہیں اور ان کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ کڑچی اور بلگام میں گزرا ہے ، مگر روزگار اور بچوں کی تعلیم نے انہیں بنگلور کا بنا دیا ۔ مگر سال میں دو تین مرتبہ وہ اپنے وطن آ کر اپنے پرانے رفقاء سے ضرورملتے ہیں :

 گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

 لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

(مرزا غالبؔ)

شہرِ گلستاں بنگلور کے سفر کی وجہ میرے کرم فرما عزیز بلگامی صاحب ہیصادقہ ہیں ،جن کی مخلصانہ دعوت میں رد نہ کر سکا ۔ میرے اس سفر کا آغاز بذریعہ ٹرین بروز جمعہ 5 جولائی 2024 کو شام ساڑھے چار بجے مرج جنکشن ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوا ۔ ۔ شام کے تقریباً 7 بجے میرے ایک قریبی دوست حضرت مولانا امیر حمزہ صاحب بلگامی جو ایک مشہور عالمِ دین اور شاعر ہیں، انہوں نے اپنے ایک ساتھی حافظ عبدالحسیب صاحب کے ہاتھوں بلگام کے معروف’’ ہوٹل نیاز‘‘ کی گرما گرم بریانی بلگام ریلوے  اِسٹیشن پہنچائی، جسے میں نے بعد نمازِ مغرب اپنے روزانہ کے دینی معمولات مکمل کرنے کے بعد خوب پیٹ بھر کر کھائی ۔ عشاء کی نماز کے بعد پر سکون ہو کرسو گیا ۔ صبح کے تقریباً ساڑھے پانچ کے قریب ٹرین یشونتپور بنگلورریلوے اسٹیشن پہنچ گئی ۔ اسٹیشن سے قریب والی مسجد میں ہی میں نے نمازِ فجر ادا کی ۔اِس سے قبل دیر رات گئے عزیز بلگامی صاحب کا واٹس ایپ مسیج تھا کہ مجھے رسیو کرنے کے لئے محمد اسلم باغسراج صاحب اپنی کار لے کر اسٹیشن تشریف لا رہے ہیں ۔ چونکہ اسلم بھائی سے میری ملاقات پہلے بھی ہوئی تھی ۔اگرچہ کہ ان کا آبائی وطن کڑچی ہے، مگر برسوں پہلے ہی وہ بنگلور شفٹ ہو گئے تھے ۔ساڑھے چھ بجے صبح جب میں نے اسلم بھائی کو کال کی تواس وقت اسلم بھائی اسٹیشن سے بالکل قریب پہنچ چکے تھے ۔ پھر وہیں سے اسلم بھائی مجھے اپنے گھر لے گئے ۔ چائے کے بعد انہوں نے محلے کے آس پاس موجود معروف جگہوں کے بارے میں جانکاری دی ۔ انہوں نے ہندوستان کے مشہور دینی ادارے سبیل الرشاد کا بھی ذکر کیا، جو ان کے مکان سے پیدل صرف پانچ منٹ کی دوری پر ہے ۔ میں نے اسلم بھائی سے سبیل الرشاد لے جانے کی گزارش کی اور وہ مجھے مدرسہ لے گیے ۔ مدرسے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک نورانی ماحول نظر آیا ۔ چاروں جانب عمارتیں درمیان میں بڑا سا میدان ۔ چلتے چلتے ہم لوگ سبیل الرشاد کے کتب خانے میں بھی حاضری دی ۔ نچھلے فلور پر طلبہ کمپیوٹر پر ٹائپنگ کی مشق کرتے نظر آئے ۔ اوپری حصے میںدیگر طلبہ مطالعہ میں مصروف تھے ۔ جب کتب خانے کے ذمہ دارسےمیں نے اپنا تعارف کرایا تو میں حیران رہ گیاکہ وہ میری غزلیات،منظومات و نثر کے حوالے سے وہ پہلے ہی سے مجھ سے متعارف رہے ہیں ۔ کہنے لگے ’’وہ مجھے جانتے ہیں اور میرا کلام اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں ‘‘۔اس بات پر حیرانی ہوئی اور خوشی بھی ۔ انہوں نے کتب خانہ دکھایا اور ہمارے لئے چائے کا انتظام بھی کیا ۔ دیگر علمائے کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ اس عظیم درس گاہ کو دیکھ کر دل مسرور ہوگیا ۔ وہاں سے اسلم بھائی کے مکان پر واپسی ہوئی ۔جب میرے وطن کرویش کا ذکر چھڑا تو اُن کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں کہ ان کی چچا زاد بہن کرویش کی پٹیل برادری میں بیاہی گئی ہیں۔ جب انہوں نے نام بتایا تو وہ ہمارے رشتہ داروں میں سے ہی نکلیں ۔ وہیں سے میں نے ان کی چچا زاد بہن کو اپنے فون سے کال کر کے اسلم بھائی کی اہلیہ سے بات کروائی ۔ کئی سارے ایسے لوگوں کا ذکر ہوا جو میرے اور اسلم بھائی کے مشترکہ رشتہ دار تھے ۔

محترم عزیز بلگامی صاحب شدت سے ہم دونوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ دراصل عزیز صاحب دارالسلام میں بحیثیت مہمان مدعو تھے جہاں ان کو جماعت اسلامی ہند پر ایک تعارفی نظم پڑھنی تھی ۔شہر کی بھیڑبھاڑ اوربے تحاشہ ٹرافک سے گزرتے ہوئے آخر کار ہم لوگ عزیز بلگامی صاحب کے گھر پہنچ گئے ۔ جہاں انہوں بڑے ہی پُر جوش انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔ چائے کے بعد ہم لوگ وہاں سے دارالسلام بفٹ ہال کے لئے نکلے اورحسبِ منصوبہ ہم پہلے سیشن کے اِختتام تک پہنچ تھا ۔ ظہر کی نماز کے بعد  طعام کا بھی نظم تھا ۔ٹھیک ڈھائی بجے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا اور دو بج کر پینتالیس منٹ سے  تین بجے تک محترم عزیز بلگامی صاحب نے نوے اشعار پر مشتمل ’’جماعتِ اِسلامی ہند کا منظوم تعارف‘‘کے عنوان سے ایک یادگار نظم سنائی ،جس کا ہر شعر سونے کی سیاہی سے لکھنے کے قابل تھا ۔ سامعین عزیز صاحب کی نظم میں جیسے کھو سے گئے ۔ اور بے انتہا داد و تحسین سے نوازا ۔ گویا انہوں نے جماعت کے نام اور کام کا مکمل نقشہ کھینچ دیا تھا ۔

 دیگر جگہوں پر بھی ہمارے جانے کا منصوبہ بن گیا تھا ، چنانچہ جماعت کے میزبانوں سے ہم نے اجازت لی اور سیدھے’’ سیدھی بات ٹی وی چینل‘‘ کے دفتر پہنچ گئے ۔یہ وہی چینل ہے جس کے چیف ایڈیٹر و مالک مولانا انصار عزیز ندوی صاحب ہیں،جن سےملاقات کی خواہش کے ساتھ ہم یہاں پہنچے تھے۔ اِسی چینل کے تحت عزیز بلگامی صاحب ’’فکر وفن شعر و سخن‘‘ کا ادارہ چلاتے ہیں، جس پر اب تک 114 شعراء و ادباء کے انٹرویوز محترم عزیز بلگامی صاحب نے پیس کیے ہیں ۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ قسط نمبر 83 میں عزیز صاحب نے میری انٹرویو لے کر سارے عالم میں مجھے متعارف کرایا تھا ۔ ۔مولانا انصار عزیز ندوی صاحب چونکہ بھٹکل کے سفرپر تھے تو موصوف کی ملاقات سےمحرومی رہی ۔ اس کے بعد کرناٹک اردو اکادمی اور دوردرش جانے کا بھی ارادہ تھا، مگر وقت کی کمی کی وجہ سے نہ ہو سکا ۔ شام ساڑھے پانچ بجے عزیز صاحب کی رہائش پر ہماری واپسی ہوئی۔ اسلم بھائی ہمیں الوداع کہہ کر روانہ ہوگئے ۔ عصر کی نماز کے بعد گھر آیا اور مغرب کی اذاں تک آرام کرتا رہا ۔ مغرب کی نماز کے بعد کچھ دینی معمولات تھے، جسے پورا کر کے واپس عزیز صاحب کے گھر پہنچا ۔ محترم عزیز صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ سے مختلف اُمورپر گفتگو ہوتی رہی۔دورانِ گفتگوعزیز صاحب نے اپنی چھوٹی بیٹی یعنی صادقہ باجی اور اُن کے دامادجناب سعید رجیب اور ان کے 3 سالہ نواسے اِلحان یحییٰ کا ذکر فرمایا ۔یہ لوگ بھی عزیز بلگامی والے اپارٹمنٹ کی چوتھی منزل پر قیام پذیر ہیں۔عزیز صاحب نے جب کہا کہ صادقہ باجی ہوم اسکولنگ کے ذریعہ اپنے بیٹے کی دینی و دنیاوی تربیت میں مصروف ہیں۔ میں چونک گیا۔ہوم اسکولنگ کی تفصیلات کو سننے کے بعد میرے تجسس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے صادقہ باجی سے اجازت طلب کی کہ میں اُن کے ہوم اسکول کو دیکھنے کا خواہشمند ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ ہوم اسکولنگ کے کانسیپٹ کے بارے میں معلومات حاصل کروں ۔ہم فورتھ فلور پر پہنچے جہاں عزیز بلگامی صاحب کا نواسہ دروازے کے باہر کھڑا ہوا تھا ۔ عزیز صاحب نے دور سے سلام کرتے ہوئے بچے کو پاس بلایا۔ بچے نے انگریزی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی امی سے اجازت نہیں لی ہے، اجازت لے کر آوٴں گا ۔ اندر جا کربچے نے اِجازت لی اور اپنے نانا سے لپٹ گیا ۔ تین سال کا بچہ اور ماں کی اطاعت کا ایسا جذبہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حیرانی کے عالم میں ہم گھر میں داخل ہوئے۔عزیز صاحب نے ہمیں اپنے داماد سعید رجیب صاحب اورصادقہ باجی سے متعارف کرایا ۔ عزیز صاحب کے داماد کیرلا کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بر سرِ روزگار ہیں ۔ جب ہوم اسکولنگ کا ماڈل دیکھنے ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ گویا یہ کمرہ نہیں، بلکہ بیک وقت اسکول، اِن ڈور کھیل کا میدان اورتعلیمی سرگرمیوں کا ایک کمرہ ہے ۔ میں صادقہ باجی کے متعلق بتاتا چلوں ،کہ صادقہ باجی ایم ایس سی میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔ کئی سارے اداروں میں تدریسی تجربہ رکھتی ہیں ۔ پی ایچ ڈی کا ارادہ تھا، انہی ایام میں الله نے ان کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ۔ تو انہوں نے سارے کاموں کو موقوف کیا اور اپنی ساری توجہ بچے کی پرورش اور تربیت پر لگا دی ۔ میں نے باجی سےپوچھا کہ یہ ہوم اسکولنگ کا کانسیپٹ کیا ہے اور آپ نے کس طرح اسے شروع کیا ۔ ہوم اسکولنگ کے فائدوں، ان کی محنت اور اس کے نتائج دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔ بعض باتیں ایسی تھیں جنہیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گیے تھے ۔ میں سوچتا رہا کہ اس انداز سے بھی کیا کوئی ماں فی زمانہ اپنے بچے کی تربیت کر سکتی ہے ۔!! یہ تین سال کا بچہ نظام شمسی کے سیاروں کے نام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے دوری اور دیگر تفصیلات فر فر بتا سکتا ہے۔ ریاضی ،ماحولیات ،زبان دانی، عربی و دینی معلومات کی ایک ایک چیز کے بارے میںاس قدر معلومات رکھتا ہے کہ یوں لگتا تھا ایک بڑا مفکر میرے سامنے چھوٹے سائز میں بیٹھا ہوا علم کے دریا بہا رہا ہے ۔ ادب، اخلاق ،اعلیٰ سطح کا ڈسپلن ۔اللہ اللہ۔ نظرِ بد کا خطرہ نہ ہوتا تومزید تفصیل بتاتے ہوئے مجھے یقیناً خوشی ہوتی۔ تیسری یاچوتھی جماعت کے بچے سے زیادہ معلوماتِ عامہ میں نے اس بچے میں محسوس کی ۔ صادقہ باجی نے اپنے بچے کے لئے اپنی صواب دید کے ذریعے پورے سال کا نصاب تیار کر لیا ہے، جسے اُنہوں نے ہفتہ وار کے حساب سے تقسیم کر رکھا ہے ۔ یہ ساری چیزیں ’’ایکٹیویٹی بیس‘‘ ہیں ۔ جسے بچہ ماں کی گود میں دن بھر ہنستے کھیلتے سیکھ رہا ہے ۔ میرا خیال ہے اسی انداز سے اگر اس کی تربیت ہوتی رہے گی تو یہ بچہ دُنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔’’ہونہار برْوے کے چِکْنے چِکْنے پات‘‘۔ موجودہ دور میں جہاں ماؤں کو اپنے تین چار سال کے بچے بوجھ بنے ہیں اور وہ انہیں اسکول کے حوالے کر کے اپنی محبت و شفقت سے دور کر رہی ہیں ، ان کے لئے صادقہ باجی ایک مثال ہیں ۔ میں صادقہ باجی سے درخواست کر کے آیا ہوں کے اس موضوع پر کوئی کتاب تحریر کریں، جس سے ملک اور قوم کے دیگر لوگوں کو بھی اس سے فائدہ ہو ۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ اس کانسیپٹ کو اور سمجھا جائے ۔چونکہ اگلے دن میرے واپسی کا سفر تھا اور رات بھی کافی ہوگئی تھی ۔چنانچہ صادقہ باجی سے رُخصت لی ۔ رات کا کھانا ہم نے عزیز بلگامی صاحب کے بڑے فرزندمحمد اطہر بھائی کےساتھ کھایا۔ جو اسی بلڈنگ میں رہتے ہیں ۔ لذیذ بریانی کا مزہ لینے کے بعد ہم نے عشاء کی نماز ادا کی اور بہت دیرتی اسی’’ ہوم اسکولنگ‘‘ کے متعلق سوچتے ہوئے نیندکی آغوش میں چلا گیا۔ صبح کے ٹھیک ساڑھے پانچ بجے آنکھ کھلی، اور اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر فجر کی نماز ادا کی ۔ عزیز صاحب کی اہلیہ نے چائے پیش کی ۔ چونکہ ٹرافک کی زیادتی کی وجہ سے گھر سے جلدی نکلنا ضروری تھا ،چنانچہ عزیز صاحب نے ’’کیاب ‘‘بُک کرائی اور دو رسالے کے تحفوں اور دعاؤں کے ساتھ مجھ جیسے طالبِ علم کو چھوڑنے کار تک آگئے ۔ وہاں سے ایشونت پور ریلوے اسٹیشن پہنچا ۔کچھ دیر بعد ناشتے سے فارغ ہوا ۔ ایک لمبے انتظار کے بعد ٹرین ٹھیک 9 بجے اسٹیشن پر نمودار ہوئی ۔ ٹرین میں سوار ہوا ۔ محترم عزیز بلگامی صاحب کے دئے ہوئے رسالوں کا مطالعہ کرتا رہا اور وقفے وقفے سے آس پاس بیٹھے مسافروں کے چہروں کو بھی پڑھتا رہا، جن میں خوشی، غم اور نہ جانے کیسی کیسی عجیب عجیب چیزوں کا حسین امتزاج نظر آتا تھا ۔بہر کیف میری زندگی کا ایک یاد گار سفر بخیر و عافیت مکمل ہوا۔

.....