Wednesday, 20 March 2019

دسویں کے امتحانات اور نقل مکاریاں

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک

8105493349

فکر سود و زیاں میں رہنا ہے
بس یہی اس جہاں میں رہنا ہے
کمرۂ امتحان ہے دنیا
ہر گھڑی امتحاں میں رہنا ہے

نیم ادبی محفلوں میں آپ نے لوگوں کو تبصرہ  کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہوگا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلمان بچے بہت ہی کم  نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ یہ لوگ حکومت کو ٹہراتے  ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی جس کی وجہ سے ہمارے بچے ان امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں یہ جملے کتنے سچے ہیں یہ کہنا مشکل ہے،  یوں تو اس کی سینکڑوں وجوہات ہیں اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے تو "ایس ایس ایل سی" کے امتحان میں ہونے والی نقل مکاری بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے قوم کے نونہال اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو نہیں پاتے ۔اب آپ کہیں گے کہ امتحان کی نقل مکاری اور اعلیٰ عہدوں کا کیا جوڑ ہے۔ آئیے اس نکتے کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نقل مکاری کا آغاز کب؟ اور کیسے ہوتا ہے۔
در اصل اس کی شروعات پرائمری سطح  سے ہوتی ہے،آپ ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ ہر پرائمری اسکول  کی بات کی جارہی ہے بلکہ اکثر و بیشتر  اسکولوں میں یہی حال ہے۔ اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ دورانِ امتحانات جو بچے کند ذہن ہوتے ہیں ایسے بچوں کو استاد ایسے ذہین بچوں کے ساتھ جوڑ کر بٹھا دیتے ہیں جو ان کو پرچہ دکھا کر ان کو پاس کرا سکے ہوتا یوں کے تعلیم کے مکمل ہونے تک اس طرح کے  کند ذہن بچے اپنی ہمت کھو کر ذہین بچوں کے بھروسے رہ جاتے ہیں ، اگر استاد چاہتے تو شروع سے  ہی ان بچوں کی ذہنی سطح کو پہچان کر ان ہی ذہین بچوں کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط کرواتے تو ممکن ہے ان ذہین بچوں کی صحبت سے ان بچوں میں  بھی پڑھنے کا جذبہ آجاتا  بہت ممکن تھا کے یہ بچے محنت اور لگن سے کامیاب ہو سکتے،

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

اب اگلی کڑی آتی ہے ہائی اسکول کی ، سب سے زیادہ لا پرواہی ان تین سال کے عرصے میں ہوتی ہے یوں سمجھ لیں یہ تین سال بچے کے بننے یا بگڑنے کے سال ہیں دو سال تو دھکا مکی میں گزر جاتے ہیں اور ان دو سالوں میں خود مختاری کے ساتھ بچے نقل مکاری میں ماہر ہو جاتے ہیں،اساتذہ بھی خوف اور پریشانی کے عالم میں رہتے ہیں اور ان کو ڈر رہتا ہے  کہ کہیں میرے مضمون میں یہ بچے  کم مارکس نہ لیں اس لئے امتحان بھی اتنی سختی کے ساتھ نہیں لیے جاتے اور پرچوں کی جانچ کا کیا کہنا سارے طلبہ 80 فیصد سے اوپر، جب یہی بچے دسویں جماعت تک پہنچ جاتے ہیں تو نقل مکاری میں اتنے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں۔

شعلہ ہوں، بھڑکنے کی گزارش نہيں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے، کوشش نہيں کرتا
گرتی ہوئی ديوار کا ہمدرد ہوں، ليکن
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہيں کرتا

اللہ رحم کرے اُن نجی اداروں کے مینجمنٹ پر جو پورا سال اسلامیات اور دینیات جیسے پاکیزہ کورسس میں بچوں کو دیانتداری ایمانداری کا سبق پڑھواکر آخر میں  انہیں اساتذہ کو مجبور کرکے ان سے بچوں کے لئے نقل مکاری کروائی جاتی ہے یہی مینیجمنٹ  امتحان کے نتائج کے بعد بچوں کے ریزلٹ ان کی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے بینرز پوسٹر گلی محلوں میں لٹکاتے ہیں، ارے ہمارے ادارے کا ریزلٹ تو 100 فیصد ہوگیا خاک ڈالو ایسے نتیجے پر جو بچوں کو محض سرٹیفیکٹ میں تو کامیاب بناتے ہیں اور سماج میں ایک ناکام انسان بنے پھرتے ہیں  اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو  امتحان گاہوں کے پاس مسلمانوں کا بڑا مجمع طلبہ کی امداد کے لئے آپ کو کھڑا نظر آتا ہے جب یہی بچے بارویں جماعت تک پہنچتے ہیں تو ان کے نتائج کیا آتے ہیں ، 50،60،70 اس سے زیادہ نمبرات تو کوئی محنتی بچہ ہی حاصل کر لیتا ہے ورنا عموماً یہی نتائج آتے ہیں،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نقل مکاری کی سماجی برائی کو تعلیمی نظام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے  دور کیا جائے اور ملک اور قوم کے لئے سچے اور دیانتدار لوگ دئے جائیں۔

1 comment:

  1. آپ نے صحیح کہا، ہماری قوم کی مستقبل کی بگاڑ کہ وجہ ہم اساتذہ ہی ہیں ۔ ہم سب کو اس کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔

    ReplyDelete