Thursday, 25 April 2019

ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی ؟؟
انگریزی اسکولوں کا سراب قسط نمبر 02


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

بہت مشکل ہے نبھنامشرق و مغرب کا یارانہ
ادھر صورت فقیرانہ ادھرصورت سامان شاہانہ

ریگستان میں نظر آنے والے سراب اور اس کا دھوکا چند قدم چلنے کے بعد معلوم ہوسکتا ہے،مگر انگریزی میڈیم اسکولوں کا دھوکا عمرکاایک لمباحصہ گزرنے کے بعد ہی والدین،سرپرست اور طلبہ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی غلطی کی جو سال در سال دھوکے پر دھوکے کھاتے رہے، ادارے اور اساتذہ  نے تو ان بچوں کو% 100 میں سے %99.99 مارکس دے کر ریجسٹروں میں پاس کروا دیا مگر جو علوم ان کو دینے تھے  وہ صحیح معنوں میں دے نہ سکے،میرا اتفاق کئی مرتبہ ایسے انگریزی میڈیم اسکولوں میں جانے کا ہوا ہے جہاں اسکولوں  کا نام تو انگریزی میڈیم ہوتا ہے مگر تعلیم بچوں کو  مادری زبان کا سہارا لے کر ہی دی جاتی ہے  میں نے دیکھا کے بچوں کو تعلیم دینے کا طرز اور طریقہ ان کو سمجھانا ان بچوں کو اس مواد تک پہنچانا یہ ساری چیزیں مادری زبان میں ہی ہوا کرتی ہیں،بڑی بڑی جماعتوں تک پہنچنے تک بھی بچوں کو انگریزی سے مادری زبان میں ٹرانسلیشن کر کے ہی سمجھایا جاتا ہے، میں نے بیسیوں کلاسوں کا خود مشاہدہ کیا ہے جب تک بچوں کو مادری زبان میں اس لفظ کا معنیٰ    نا بتایا تب تک بچوں کو وہ بات سمجھ نہیں آتی ،میرا کہنا یہی ہے جب بچہ مادری زبان کی مدد کے بغیر انگریزی سیکھ نہیں پا رہا تو کیا ضرورت ہے کہ بچوں کو انگریزی میڈیم میں ہی داخل کروایا جائے، بہتر  ہے کہ بچوں کو اردو میڈیم میں داخلہ کروایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ انگریزی پر خاص توجہ  دی جائے ب تاکہ اعلیٰ تعلیم میں ان کو مدد مل سکے۔مادری زبان کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر بچہ خواب دیکھے تو وہ بھی اپنی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔
دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں اگر ان کا مجموعی طور پرجائزہ لیا جائے تو ایک بات صاف ابھر کر آتی ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا اہل جاپان جاپانی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی کر رہے ہیں،ترکی میں سنتری سے کر منتری سارے افراد ترکی بولتے نظر آتے ہیں، چینی لوگ چینی زبان بول کر طاقتور ممالک میں خود کو شمار کر رہے ہیں اسی طرح جرمنی، اٹلی، فرانسیسی یہ سارے وہ ممالک ہیں جہاں انہوں نے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے،مگر افسوس اس بات کا ہے ہم انگریزی زبان کے ایسے پاگل ہو گئے ہیں کہ اس کی حد نہیں۔


خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں
دادا بڑے بھولے تھے سب سے یہی کہتے تھے
کچھ زہر بھی ہوتا ہے انگریزی دواؤں میں

ذریعہ تعلیم پر گفتگو آج ہم اسی بصیرت افروز سوال کی روشنی میں کررہے ہیں،سوال صرف تعلیم یا ذریعہ تعلیم کا نہیں ہے پوری تہذیب اور نظریہ حیات کا ہے،زبان سیکھنا اور علم حاصل کرنا ایک بات ہے جس میں مغرب و مشرق کی کوئی تفریق نہیں ایک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق علم کی تلاش میں عرب سے چین تک کا سفر اس زمانے میں بھی کیا جانا چاہئے تھا جب اونٹ اور گھوڑے کے سوا کوئی سواری نہ تھی، جن لوگوں کو موقع ہو وہ انگریزی فرانسیسی جرمن روس سب سیکھیں اور مغربی تمدن و تہذیب کا اچھے سے اچھا مطالعہ کریں لیکن نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم جیسی بنیادی چیز کا فیصلہ کسی بین الاقوامی کہلانے والی مغربی زبان کے حق میں کرنا بالکل دوسری بات ہے جو بالکل غلط اور سراسر نقصان دہ بلکہ تہذیبی لحاظ سے ہلاکت خیز ہے یہ مقصد تعلیم کو یکسر نظر انداز کر کے ذریعہ تعلیم پر زور دینے کی نادانی ہے،اس معاملے میں ابتدائی و ثانوی اور اعلی تعلیم کی تفریق بھی دانائی نہیں ہے اول تو ذریعہ تعلیم کے سلسلے میں مادری اور بین الاقوامی زبانوں کو ترتیب بتدریج ہی مشکل ہے دوسرے علوم وفنون کی تعلیم کسی بھی ایسی زبان میں دی جاسکتی ہے جو الفاظ کی بنیادی سرمایہ رکھتی ہو ہماری مادری زبان اردو ایسی ہی ایک زبان ہے ہے جو مثال کے طور پر انگریزی ہی کی طرح علمی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے ذریعہ ہر قسم کے علوم وفنون کی تعلیم و تصنیف کے تجربات بھی ہوچکے ہیں ۔ اور مسلسل ہو رہے ہیں پھر اس کی پشت پر عربی و فارسی کے علمی وسائل بھی ہیں اور خود انگریزی کے اثرات بھی اردو نے اپنے لسانی معمول کے مطابق قبول کیے ہیں اور کررہی ہے گرچہ اپنے خاص معیار سے اور مخصوص مزاج کے مطابق

لہذا ذریعہ تعلیم ہر سطح پر مادری زبان ہی ہونی چاہئے البتہ مطالعہ کی زبان علوم و فنون کی جدید ترین ترقیات سے آگاہی کے لئے انگریزی یا کوئی اور مغربی زبان اس طرح ہو سکتی ہے،جس طرح بہت ہی بیش قیمت قدیم علوم و فنون کے مطالعے کے لیے عربی و فارسی بلکہ سنسکرت یونانی اور لاطینی تک کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ہندوستانی فارمولے میں تجویز کیا گیا ہے لیکن یہ معاملہ ذریعہ تعلیم کا نہیں ہے صرف ایک زبان سیکھنے کا ہے،

لہٰذا اس ملک کی اردو آبادی کا حق اور فرض دونوں ہے کہ اس کی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت ابتدا سے انتہا تک اردو کے ذریعے ہوں اور اردو داں بچوں اور بچیوں کو جملہ علوم و فنون اردو ہی میں پڑھائے جائیں جو لوگ اپنے دین اور تہذیب کے تحفظ و ترقی کے لئے فکرمند ہیں انہیں تو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ عصرحاضرکے ہندوستان میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر ممکن نہیں،جس طرح انگریزی ذریعہ تعلیم دین و تہذیب کے لیے غارت گر ثابت ہوا ہے اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے لیے عربی فارسی اور اردو کے سوا کوئی اور ذریعہ تعلیم بھی ہوگا بلکہ شاید ہونے لگا ہے  لہذا بہت ہی سختی اور مضبوطی کے ساتھ اردو ذریعہ تعلیم کو ہر سطح پر اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی سے جدید علوم و فنون پر ماہرانہ دسترس بھی حاصل ہوگی اور دینی عقائد و تہذیبی 
اقدار کا تحفظ و فروغ میں ہوگا۔

طرز تعلیم پروفیسر عبد المغنی 
صفحہ نمبر 25 


Wednesday, 17 April 2019


ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی ؟؟

لارڈ میکالے قسط نمبر 01

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


"روسو کے مطابق تعلیم ایسی چیز نہیں جو بچوں کے دماغوں میں ٹھوس دی جائے بلکہ وہ پوشیدہ قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی نشوونما ہے"

اس جملے کو پڑھیں اور اپنے سامنے ان سارے انگریزی میڈیم اسکولوں کا تصور کریں جہاں بچے کا داخلہ تین چار سال کی عمر میں کروایا جاتا ہے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہر انگریزی میڈیم اسکول میں معلومات کو زبردستی ٹھونسنے کا کام ہی کیا جا تا ہے جس سے بچوں کی صلاحیتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اور اس کے ذمہ دار صرف اور صرف والدین اور سرپرست ہیں جو اپنے بچوں کو ایسے دلدل میں دھنسا رہے ہیں جہاں ان کی صلاحیتیں روزبروز دھنستی ہی چلی جارہی ہیں،دوسروں کی دیکھا دیکھی بچوں کو انگریزی میڈیم کے حوالے کرنا نادانی نہیں بے وقوفی ہے ۔ موجودہ زمانے کے والدین اور سرپرستوں پر انگریزی کا ایسا بھوت سوار ہے جو آسانی سے نہیں اتر سکتا اچھے اچھے لوگ اس جھانسے مین پھنس رہے ہیں ،ان کی خواہش ہے کہ ان کا بچہ فرفر انگریزی بولے ارے بھائی! انگریزی بولنا کونسی فخر کی بات ہے یہ تو لندن اور امریکہ کا بھنگی بھی بول لیتا ہے۔

اردو سے ہو کیوں بیزار انگلیش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوینکل ٹوینکل لٹل اسٹار

اگر دیکھا جائے تو آج بھی ہم ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام ہیں مجھے ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون ” لارڈ میکالے” کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب سے اقتباس یاد آتا ہے
 
"میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں، میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو انکی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں"

اس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی تھی
اس تقریر کے بعد لارڈ میکالے کو ہندوستان کے لیے نظام تعلیم مرتب کرنے کا کام سونپا گیا اور اس نظام کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی بات کو ان اشعار میں واضح کیا جا سکتا ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
(اقبال)

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
(اکبر الہ آبادی)

لارڈ میکالے نے اپنے والد کو 1836 میں ایک خط لکھا جس کا حسب ذیل اقتباس عبرت انگیز ہے

"ہمارے انگریزی اسکول دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ طلبا کے لیے گنجائش نکلنے مشکل ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ اس تعلیم کا بہت زیادہ اثر ہندوؤں پر ہو رہا ہے کوئی ہندو انگریزی پڑھنے کے بعد اپنے مذہب پر فی الواقع ایمان نہیں رکھ سکتا مجھے پورا اعتماد ہے کہ اگر ہماری تعلیمی پالیسی کامیاب ہوئی تو بنگال میں کوئی بت پرست باقی نہ رہے گا یہ سب فطری طور سے ہوگا بغیر کسی مذہبی وعظ پر مداخلت کے"
اس طرح صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے لئے انگریزی کی شکل میں جو ایک بین الاقوامی زبان کو ذریعہ تعلیم تجویز کیا جا رہا تھا وہ درحقیقت نہ صرف ایک تعلیمی پالیسی بلکہ سوچی سمجھی تہذیبی اسکیم کا جز تھا جس کی زد میں مذہبی عقیدہ تک آجاتا تھا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ سب کچھ اس دعوے کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔
(طرز تعلیم پروفیسر عبد المغنی ص 7)

جدید مغربی تہذیب کی اصلیت اردو ادب کی دو عظیم شخصیتوں کو آج سے تقریبا ایک صدی قبل ہی معلوم تھی جب اس کے پرفریب چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا اور اس کے گرد حالہ کئے ہوئے اقتدار مطلق کی تیز روشنی نگاہوں کو خیرہ کر رہی تھی، اکبر الہ آبادی نے اپنے طنز و مزاح کی تیز نشتر کی نوک سے چھید چھید کر مغربی تعلیم و تہذیب کے ایک ایک فتنے کو نشانہ بنایا،یہ زیادہ تر اس تعلیم و تہذیب کے اثرات کا تنقیدی جائزہ تھا جس میں انہوں نے کالجوں کو مشرق کی آئندہ نسلوں کی قتل گاہ قرار دے دیا اور برطانوی اقتدار کو فرعون سے بھی زیادہ چالاک ظالم ثابت کردیا،اقبال نے بعض وقت اکبر ہی کہ ظریفانہ رنگ میں انگریزی تعلیم پر طنز کرنے سے آگے بڑھ کر نظریاتی طور سے مغربی تعلیم کے تصورات و مضمرات پر سخت تنقید کی،بانگ درا کے ظریفانہ کلام کا یہ مشہور قطعہ ایک بار پھر سنئیے اور اس کے حقیقی مفہوم پر غور کیجئے ۔

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین ؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

ان اشعار میں ہندوستانی یا مسلم لڑکیوں کے کالج میں جاکر اور مخلوط کلاسوں میں بیٹھ کر انگریزی پڑھنے کے نتائج کو "روش مغرب" کے ساتھ "وضع مشرق" کے مقابلے سے واضح کیا گیا ہے،اور مخلوط کالجوں کی تعلیم کو تھیٹر کا تماشا قرار دیتے ہوئے بڑے لطیف انداز میں انگریزی تعلیم کے اثر سے پیدا ہونے والی بے پردگی اور بے حیائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بانگ درا ہی میں ایک سنجیدہ نظم تعلیم اور اس کے نتائج کے عنوان سے درج ہے ۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ

(طرز تعلیم پروفیسر عبد المغنی ص 21)


Sunday, 14 April 2019




محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 16
خاندان سادات 1414 سے 1450
سید خضر خان بن ملک سلیمان 1414 سے 1421

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


لقب
نام
دور حکومت

مسناد عالی، رعایۃ اعلی
1414 - 1421

سلطان
1421 - 1434

سلطان
1434 - 1445

عالم شاہ
1445 - 1451

محمد تغلق کے بعد تیمور کا نائب سید خضر خان دہلی کے تخت پر بیٹھا اس طرح خاندان سادات سید کی بنیاد پڑی،اس خاندان میں چار بادشاہ ہوئے مگر یہ تمام بادشاہ برائے نام تھے ان کی حکومت دہلی آگرہ اور اس کے گردونواح کے علاقوں تک محدود رہی،

خضر خان کا حسب و نسب

منصف تاریخ مبارک شاہی نے خضر خان کے خاندان اور حسب نسب کے بارے میں دو بین ثبوت پیش کئے ہیں اور ان کی صحت کے لیے دلائل بھی دئے ہیں لہذا ان دلائل کا تذکرہ اس کتاب میں کرنا ضروری ہے،
جس زمانہ میں خضر خان کا باپ سید ملک سلیمان مردان دولت کے یہاں تعلیم و تربیت حاصل کر رہا تھا تو اس دوران میں ایک بار سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ملک مردان کے یہاں بطور مہمان کے تشریف لائے،جب دسترخوان بچھا اور سب کھانے پر بیٹھے تو سید ملک سلیمان لوٹا اور طشت لے کر مہمان کے ہاتھ  دلانے کے لئے آیا ۔ حضرت مخدوم بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ سیدوں کو ایسے کاموں پر مقرر کرنا بہت گستاخی اور بے ادبی ہے اس سے پہلے کہ ملک سلیمان نے کبھی سید ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا ۔ اغلب خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ الفاظ ایک ولی کامل اور بزرگ کے منہ سے نکلے تھے لہذا ملک سلیمان قطعی سید ہوگا اور خضر خان بھی اس طرح سید کہلانے کا مستحق ہے

 دوسری دلیل یہ ہے کہ خضر خان کا کردار اخلاق برتاؤ اور دیگر صفات ایسی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات پاکیزہ سے مشابہت رکھتی تھی لہٰذا یہ بات بھی خضر خان کے سید ہونے کو تقویت بخشتی ہے ۔ (تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 365)

خضر خان نے سارے عہد کی مختصر داستان یہ ہے کہ ملک میں ہر طرف بغاوتیں اور شورشوں کی آگ بھڑک اٹھی خضر خان کو تقریبا ہر بغاوت کو وقتی طور پر فرو کرنے میں کامیابی ہوئی لیکن ملک میں مکمل طور پر امن و امان قائم نہ کیا جا سکا خضرخان اس فساد کا علاج نہ کر 
سکا جو ملک کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گیا تھا ۔خضر خان کا انتقال

خضر خان کا انتقال 17 جمادی الاول سن ہجری 824 کو ہوا اس نے سات سال چار مہینے تک حکمرانی کی یہ عدل و انصاف میں بہت پکا تھا اس کی ایمانداری اور سچائی ایک ضرب المثل بن چکی تھی بہت زیادہ سخی بھی تھا اور اس کی رعیت بہت ہی زیادہ خوشحال تھی اس کے انتقال پر شہر کے بچے بچے نے اس کا غم منایا اور اس کی موت کے تیسرے دن میں رعایا اور عوام نے ماتمی لباس بدلہ تین دن تک باقاعدگی سے اس کا غم مناتے رہے خضر خان کے بعد اس کا فرزند اکبر مبارک شاہ تخت نشین ہوا  ( تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 368 )

Wednesday, 3 April 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 15
ناصر الدین محمود بن ناصر الدین محمد

                                                                              آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

سکندر کی وفات کے بعد جانشینی کا معاملہ معرض التوا میں پڑا رہا اور پندرہ دن تک تختَ دہلی خالی پڑا تھا اس بارے میں اختلاف آراء تھا، بالاآخر خواجہ جہاں کی کوشش سے ناصر الدین محمد کا سب سے چھوٹا فرزند محمود حکمرانی کے لیے چنا گیا امراء نے اس کو تخت پر بٹھا کر اس کا لقب بھی ناصرالدین ہی رکھا اور تمام اراکین نے محمود کی حکومت پر بیعت کی اور اس کے آگے اطاعت شعاری کا عہد کیا ۔ خواجہ جہاں حسب سابق عہدہ وزرات پر قائم رہا مکرم خان کو مقرب الملک کا خطاب اور وکیل سلطنت و امیرالامراء بنا دیا گیا ۔ دولت خان کو دبیر عارض مملکت مقرر کیا گیا ۔ صادق خان بار بکی کے عہدہ پر رکھے گئے ،سارنگ خان کو دیبالپور حاکم بنا دیا گیا دہلی میں مختلف ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ایک طرح کا انقلاب آچکا تھا سلطنت کی مضبوطی اور طاقت ختم ہو رہی تھی ملک میں چاروں طرف بغاوت و سرکشی کی آگ پھیلی رہی تھی ہندو ہر طرف خوابیدہ فتنوں کو بیدار کرنے میں مصروف تھے خصوصا مشرقی ہندووں  نے فتنہ پردازی شروع کی تھی

امیر تیمور

امیر تیمور مشہور مغل سردارچنگیزخان کی نسل سے تھا بچپن میں اس کی ٹانگ لنگڑی ہو گئی تھی اس لیے اسے تیمور لنگ کیا تمرلنگ بھی کہتے ہیں یہ ترکستان کا بادشاہ تیمور بڑا بہادر اور جنگجو جرنیل تھا وسط ایشیا اور ایشیا کوچک کو فتح کرنے کے بعد اس نے ہندوستان کا رخ کیا

تیمور کا حملہ

تیمور نے 1398  میں ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت خاندان تغلق کا آخری بادشاہ محمود تغلق دہلی کے تخت پر حکمران تھا وہ بڑا کمزور بادشاہ تھا اس لیے ملک میں بدامنی پھیلی ہوئی تھی ملک کی حالت دیکھ کر تیمور ایک بڑی بھاری فوج افغانستان کی راہ ہند میں داخل ہوا اور لوٹ مار کرتا ہوا آندھی کی طرح دہلی تک بڑھایا محمود طالب نے مقابلہ کیا لیکن شکست کھا کر گجرات کی طرف بھاگ گیا اور دہلی پر تیمور کا قبضہ ہو گیا،تیمور شہر میں داخل ہوا لیکن بدقسمتی سے دہلی کے لوگوں اور تیمور کے سپاہیوں میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا جس پر تیمور کے چند سپاہی مارے گئے اس پر غصہ میں آکر تیمور نے قتل عام کا حکم دیا پانچ دن تک دہلی میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا ہزارہ لوگ مارے گئے اور شہر بری طرح سے لوٹا جب لوٹ کھسوٹ کے لیے کچھ باقی نہ رہا تو تیمور ہزاروں غلام اور بے بہا دولت لے کر میرٹ ہریدوار اور جموں کو لوٹتا ہوا واپس سمرقند کو چلا گیا ۔ اور سید خضر خان ہاکی میں پنجاب کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کر گیا

حملے کے اثرات

سلطنت دہلی کا شیرازہ بکھر گیا اور تغلق خاندان کا خاتمہ ہو گیا

دہلی کا شہر بالکل تباہ ہوگیا

ملک میں زبردست قحط پڑ گیا جس سے ہزاروں جانیں موت کا شکار ہوئیں

تیمور بہت سا لوٹ کا مال ہمراہ لے گئے جس سے ملک غریب ہوگیا

تیمور بہت سے کاریگر اپنے ہمراہ لے گئے جس سے ملک کی صنعت و حرفت کو بہت نقصان پہنچا