ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی ؟؟
انگریزی
اسکولوں کا سراب قسط نمبر 02
آفتاب
عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام
کرناٹک
8105493349
بہت مشکل
ہے نبھنامشرق و مغرب کا یارانہ
ادھر صورت فقیرانہ ادھرصورت سامان شاہانہ
ادھر صورت فقیرانہ ادھرصورت سامان شاہانہ
ریگستان
میں نظر آنے والے سراب اور اس کا دھوکا چند قدم چلنے کے بعد معلوم ہوسکتا ہے،مگر
انگریزی میڈیم اسکولوں کا دھوکا عمرکاایک لمباحصہ گزرنے کے بعد ہی والدین،سرپرست اور طلبہ کو معلوم
ہوجاتا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی غلطی کی جو سال در سال دھوکے پر دھوکے کھاتے رہے،
ادارے اور اساتذہ نے تو ان بچوں کو% 100 میں سے %99.99 مارکس دے کر ریجسٹروں میں
پاس کروا دیا مگر جو علوم ان کو دینے تھے وہ صحیح معنوں میں دے نہ
سکے،میرا اتفاق کئی مرتبہ ایسے انگریزی میڈیم اسکولوں میں جانے کا ہوا ہے جہاں
اسکولوں کا نام تو انگریزی میڈیم ہوتا ہے مگر تعلیم بچوں کو مادری
زبان کا سہارا لے کر ہی دی جاتی ہے میں نے دیکھا کے بچوں کو تعلیم دینے کا طرز اور طریقہ ان کو
سمجھانا ان بچوں کو اس مواد تک پہنچانا یہ ساری چیزیں مادری زبان میں ہی ہوا کرتی
ہیں،بڑی بڑی جماعتوں تک پہنچنے تک بھی بچوں کو انگریزی سے مادری زبان میں
ٹرانسلیشن کر کے ہی سمجھایا جاتا ہے، میں نے بیسیوں کلاسوں کا خود مشاہدہ کیا ہے
جب تک بچوں کو مادری زبان میں اس لفظ کا معنیٰ نا بتایا تب تک
بچوں کو وہ بات سمجھ نہیں آتی ،میرا کہنا یہی ہے جب بچہ مادری زبان کی مدد کے بغیر
انگریزی سیکھ نہیں پا رہا تو کیا ضرورت ہے کہ بچوں کو انگریزی میڈیم میں ہی داخل
کروایا جائے، بہتر ہے کہ بچوں کو اردو میڈیم میں داخلہ کروایا جائے اور ساتھ ہی
ساتھ انگریزی پر خاص توجہ دی جائے ب تاکہ اعلیٰ تعلیم میں ان کو مدد مل سکے۔مادری زبان
کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر بچہ خواب دیکھے تو وہ بھی اپنی مادری زبان میں ہی دیکھتا
ہے۔
دنیا کے
جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں اگر ان کا مجموعی طور پرجائزہ لیا جائے تو ایک بات
صاف ابھر کر آتی ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا اہل جاپان جاپانی
زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی کر رہے ہیں،ترکی میں سنتری سے کر منتری سارے
افراد ترکی بولتے نظر آتے ہیں، چینی لوگ چینی زبان بول کر طاقتور ممالک میں خود کو
شمار کر رہے ہیں اسی طرح جرمنی، اٹلی، فرانسیسی یہ سارے وہ ممالک ہیں جہاں انہوں
نے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے،مگر افسوس اس بات کا ہے ہم انگریزی زبان کے
ایسے پاگل ہو گئے ہیں کہ اس کی حد نہیں۔
خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
مانگا تھا
جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں
دادا بڑے
بھولے تھے سب سے یہی کہتے تھے
کچھ زہر
بھی ہوتا ہے انگریزی دواؤں میں
ذریعہ
تعلیم پر گفتگو آج ہم اسی بصیرت افروز سوال کی روشنی میں کررہے ہیں،سوال صرف تعلیم
یا ذریعہ تعلیم کا نہیں ہے پوری تہذیب اور نظریہ حیات کا ہے،زبان سیکھنا اور علم
حاصل کرنا ایک بات ہے جس میں مغرب و مشرق کی کوئی تفریق نہیں ایک حدیث رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے مطابق علم کی تلاش میں عرب سے چین تک کا سفر اس زمانے میں بھی
کیا جانا چاہئے تھا جب اونٹ اور گھوڑے کے سوا کوئی سواری نہ تھی، جن لوگوں کو موقع
ہو وہ انگریزی فرانسیسی جرمن روس سب سیکھیں اور مغربی تمدن و تہذیب کا اچھے سے
اچھا مطالعہ کریں لیکن نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم جیسی بنیادی چیز کا فیصلہ کسی
بین الاقوامی کہلانے والی مغربی زبان کے حق میں کرنا بالکل دوسری بات ہے جو بالکل
غلط اور سراسر نقصان دہ بلکہ تہذیبی لحاظ سے ہلاکت خیز ہے یہ مقصد تعلیم کو یکسر
نظر انداز کر کے ذریعہ تعلیم پر زور دینے کی نادانی ہے،اس معاملے میں ابتدائی و
ثانوی اور اعلی تعلیم کی تفریق بھی دانائی نہیں ہے اول تو ذریعہ تعلیم کے سلسلے
میں مادری اور بین الاقوامی زبانوں کو ترتیب بتدریج ہی مشکل ہے دوسرے علوم وفنون
کی تعلیم کسی بھی ایسی زبان میں دی جاسکتی ہے جو الفاظ کی بنیادی سرمایہ رکھتی ہو
ہماری مادری زبان اردو ایسی ہی ایک زبان ہے ہے جو مثال کے طور پر انگریزی ہی کی
طرح علمی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے ذریعہ ہر قسم کے علوم وفنون کی تعلیم و تصنیف
کے تجربات بھی ہوچکے ہیں ۔ اور مسلسل ہو رہے ہیں پھر اس کی پشت پر عربی و فارسی کے
علمی وسائل بھی ہیں اور خود انگریزی کے اثرات بھی اردو نے اپنے لسانی معمول کے
مطابق قبول کیے ہیں اور کررہی ہے گرچہ اپنے خاص معیار سے اور مخصوص مزاج کے مطابق
لہذا
ذریعہ تعلیم ہر سطح پر مادری زبان ہی ہونی چاہئے البتہ مطالعہ کی زبان علوم و فنون
کی جدید ترین ترقیات سے آگاہی کے لئے انگریزی یا کوئی اور مغربی زبان اس طرح ہو
سکتی ہے،جس طرح بہت ہی بیش قیمت قدیم علوم و فنون کے مطالعے کے لیے عربی و فارسی
بلکہ سنسکرت یونانی اور لاطینی تک کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ہندوستانی فارمولے
میں تجویز کیا گیا ہے لیکن یہ معاملہ ذریعہ تعلیم کا نہیں ہے صرف ایک زبان سیکھنے
کا ہے،
لہٰذا اس
ملک کی اردو آبادی کا حق اور فرض دونوں ہے کہ اس کی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت
ابتدا سے انتہا تک اردو کے ذریعے ہوں اور اردو داں بچوں اور بچیوں کو جملہ علوم و
فنون اردو ہی میں پڑھائے جائیں جو لوگ اپنے دین اور تہذیب کے تحفظ و ترقی کے لئے
فکرمند ہیں انہیں تو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ عصرحاضرکے ہندوستان میں اردو کو
ذریعہ تعلیم بنائے بغیر ممکن نہیں،جس طرح انگریزی ذریعہ تعلیم دین و تہذیب کے لیے
غارت گر ثابت ہوا ہے اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے لیے عربی فارسی اور اردو کے
سوا کوئی اور ذریعہ تعلیم بھی ہوگا بلکہ شاید ہونے لگا ہے لہذا بہت ہی سختی اور مضبوطی
کے ساتھ اردو ذریعہ تعلیم کو ہر سطح پر اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی سے جدید
علوم و فنون پر ماہرانہ دسترس بھی حاصل ہوگی اور دینی عقائد و تہذیبی
اقدار کا
تحفظ و فروغ میں ہوگا۔
طرز تعلیم پروفیسر عبد المغنی
صفحہ نمبر
25