Saturday, 4 May 2019




ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی ؟؟
اردو ہی کیوں۔۔۔؟؟ قسط نمبر03


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
918105493349+
917019759431+

اللہ تعالی نے اس دنیا میں کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے،اور ہر مخلوق کو پیدائش سے لے کر موت کے درمیان آنے والے ہر ہر مرحلے کے متعلق علم، قوت،طاقت اور بولی یہ ساری چیزیں عطا فرمائیں ہیں، جس پر وہ تا دم آخر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں آپ ایک کسان کے گھر میں دیکھ لیجئے کئی سارے جانور ایک چھپر تلے رہتے ہیں، جس میں گائے، بیل،بکری، مرغی، کتا، بلی رہتے ہیں ۔ ان سارےجانوروں کی بولی اور آواز جدا جدا ہے،آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بکری کو چارہ اور پانی کے لئے گائے کی آواز نکالی ہو، یا کسی مرغی کو آپ نے کتے کی طرح بھونکتے دیکھا ہو،نہیں ہرگز نہیں بس جانور ہی نہیں بلکہ آپ پیڑ پودوں کو بھی دیکھ لیجئے کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ آم کے پیڑ نے کریلا اگایا ہے! یہ اپنی فطرت پر قائم و دائم رہتے ہیں،مگر ایک انسان ہی ہے جو بیک وقت کئی ساری بولیاں بولتا اور سمجھتا ہے خدا نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں زبان خدا کی عظیم دین ہے جو صرف انسان کو عطا ہوئی ہے انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے زبان ہی کی بدولت اسے جانوروں پر فوقیت حاصل ہے جب انسان بولنا شروع کرتا ہے تو گویا اپنے مستقبل کے ارتقا کی بنیاد ڈالتا ہے زبان تہذیب و تمدن کی سیڑھی ہے جس کے بغیر انسان انسان نہیں کہلاتا انسان نے زبان بنائی اور زبان نے انسان کو نکھار کر صحیح معنوں میں انسان بنایا
زبان خیالات کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہے جو کئی آوازوں پر مشتمل ہے،یہ آوازیں تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ حروف الفاظ اور جملوں کی شکل اختیار کرتی گئی،نسل در نسل تہذیب کی ترسیل کے لیے بھی زبان لازم اور ضروری سمجھی گئی زبان زبان سے پیدا ہوتی ہے زبان قدرت کی سب سے بڑی دین ہے جس پر انسان جتنا بھی فخر کرے کم ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں فرد واحد سماج کا حصہ ہوتا ہے اور انسانی سماج میں مادری زبان کی بہت اہمیت ہے ۔
مادری زبان وہ زبان ہے جس سے انسان جذباتی طور پر منسلک ہوتا ہے ورنہ اس ذہنی طور پر زندہ تو رہ سکتا ہے مگر جذباتی طور پر مفلوج اور سپاٹ ہوجاتا ہے موجودہ صدی کے نامور اسکالر البرٹ شولزر اپنی سوانح عمری میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے " جو شخص روزانہ کی استعمال کی چیزوں کے نام جس زبان میں استعمال کرتا ہے  حتیٰ کہ وہ جس زبان میں خواب دیکھتا ہے وہی اس کی مادری زبان ہے''
بچہ ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ زبان بھی پیتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا اظہار صرف اپنی مادری زبان میں بخوبی کہہ سکتا ہے،مادری زبان بچے کی زندگی اور اس کا مستقبل ہوتی ہے،
ڈبلیو یم رئیبرن " مادری زبان بیک وقت ایک اعلی ہے جو راحت،مسرت اور معلومات کے ساتھ ساتھ احساسات و جذبات کا بہترین ذریعہ سمجھا گیا ہے"انسان بذات خود ایک شہنشاہ ہے اس کی ذات پر اپنی نجی حکومت ہوتی ہے جس کی زبان مادری زبان ہے وہ اسی زبان میں پیدا ہوتا ہے اور پرورش پاتا ہے اور جوان ہوتا ہے خواب دیکھتا ہے جاگتا ہے ہنستا ہے قہقہے لگاتا ہے اور آنسو بھی بہاتا ہے ۔ اپنی سماجی قومی اور انفرادی زندگی کے تقاضوں کی حفاظت کرتا ہے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مادری زبان کی حیثیت مسلم ہے ۔ لکھنا پڑھنا سوچنا اور تخلیقی کام وغیرہ مادری زبان میں آسان ہوتے ہیں،وہ اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کر کے دنیا کے بلند ترین مقام تک پہنچ جاتا ہے،لیکن جب کسی مسئلہ کو سوچتا ہے پرکھتا ہے یا اپنے تخیلات کے گھوڑے دوڑاتا ہے تو اس وقت او صرف مادری زبان کا سہارا لیتا ہے ۔ مادری زبان سے ہم صرف اپنے ہی ادب اور تہذیب و تمدن سے مستفید نہیں ہوتے بلکہ دوسری زبان تہذیب و تمدن سائنس، معاشیات،آرٹ،  کلچر سے واقف اور لطف اندوز ہوتے ہیں اور انھیں بروئے کار لاتے ہیں

پرائمری سطح پر مادری زبان سیکھنے کے فوائد

بچہ اپنے خیالات کا بہتر اظہار صرف اور صرف اپنی مادری زبان ہی میں کرسکتا ہے
مادری زبان کے ذریعے بچہ اپنی زندگی کے متعلق آزادی سے سوچ سکتا ہے اور اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے
مادری زبان کے ذریعے بچے تہذیب و تمدن فنون لطیفہ اور تجارت و صنعت کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ان کی تدریس کی خوبصورتی اور ترقی میں اضافہ ہوتا ہے
بچوں کے حسین و جمیل وعمدہ تصورات وتفکرات کو بڑھاوا ملتا ہے
طلباء میں نجی انفرادی سماجی اور قومی زندگی سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے
مادری زبان کے ذریعے دوسری زبان کے علوم و فنون کو حاصل کرنا اور سمجھنا آسان ہوتا ہے
سننے بولنے پڑھنے اور تحریر و تقریر میں صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور قواعد پر عبور زبان میں سلاست اور سادگی قوت مشاہدہ فکرونظر کی نشوونما اور خیالات کو بہتر اظہار خیال ملتا ہے
ایک اچھا شہری بنانے کے علاوہ عمدہ لیڈرشپ کی تربیت اور انفرادی صلاحیتوں کا مالک بننا آسان ہوتا ہے ۔
مادری زبان کی تدریس میں معلم محاسن کی نشاندہی کرتے ہیں ،جبکہ لکھنا اور پڑھنا ا فہم اور ادراک کو اجاگر کرنے کی صورتیں ہیں بچہ گھر سن کر زبان سمجھ سکتا ہے تو پڑھنا سیکھنے کے بعد پڑھ کر بھی سمجھ سکتا ہے اسی طرح جب وہ گفتگو کے ذریعے اظہار خیال کر سکتا ہے تو لکھنا سیکھنے کے بعد لکھ کر بھی اظہار خیال کر سکتا ہے،اسی لیے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مادری زبان کی تعلیم کا مقصد ان چاروں امور میں صلاحیت پیدا کرنا ہے ۔(کورس برائے فروغ زبان اردو  ص 114)

کسی دانشور کا مقولہ ہے" کسی تہذیب کو ختم کرنے کے لیے اسکی زبان کا خاتمہ ضروری ہے"

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین ؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
ان اشعار میں ہندوستانی یا مسلم لڑکیوں کے کالج میں جاکر اور مخلوط کلاسوں میں بیٹھ کر انگریزی پڑھنے کے نتائج کو روشِ مغرب کے ساتھ وضع مشرق کے مقابلے سے واضح کیا گیا ہے اور مخلوط کالجوں کی تعلیم کو تھیٹر کا تماشا قرار دیتے ہوئے بڑے لطیف انداز میں انگریزی تعلیم کے اثر سے پیدا ہونے والی بے پردگی اور بے حیائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،بانگےدرا ہی میں ایک سنجیدہ نظم تعلیم اور اس کے نتائج کے عنوان سے درج ہے ،

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ



گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ

تعلیم و تہذیب کے اس قریبی تعلق کی نشاندہی کرتے ہوئے ضرب کلیم کے باب تعلیم و تربیت میں دین و تعلیم کے عنوان سے اقبال نے مغربی نظام تعلیم پر قطعی تبصرہ کیا

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم !!
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف

اب یہ بھی دیکھیے کہ اس مغربی تہذیب کے بارے میں اقبال کا کیا خیال ہے جس کے حصول کے لیے مغربی طرز تعلیم کے منصوبے بنائے جاتے ہیں مذکورہ باب میں خاص مغربی تہذیب ہی کے موضوع پر ایک چھوٹی سی فکر انگیز نظم ہے

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف

یہ محض کسی شاعر کا تخیل یا کسی واعظ کا وعظ نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں اقبال کے سارے خیالات آج کے امریکہ اور یورپ کی تہذیب و معاشرت کے تلخ ترین حقائق ہیں،اقبال نے اپنے وقت کے مغرب پرستوں کی بالکل صحیح کردارنگاری کی تھی جب انہوں نے اقوام مشرق کے عنوان سے زیر نظر باب میں کہا تھا

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور ؟؟

طرز تعلیم پروفیسر عبدالمغنی (ص 21)


1 comment: