Tuesday, 11 June 2019

ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی
(اردو اسکول کیسے ہوں۔۔؟)
قسط نمبر 5

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

دل میں سوز اردو ہو لب پر ذکر اردو ہو
معلم ہو تم اردو کے تمہاری فکر اردو ہو
بنے ہو آج جو کچھ تم مہربانی ہے اردو کی
رہے یہ احساس ہر دم کہ تم مقروض اردو ہو

عصری تعلیم کے متعلق جس سنجیدگی اور فکر کےساتھ  موجودہ دور  کے والدین اور سر پرست فکر مند ہیں شاید ہی کسی زمانہ میں ایسے فکر مند رہے ہونگے۔جس طرف دیکھئے ،جہاں دیکھئے، والدین پر ایک جنون سا  سوار ہے کہ ہمارے  بچوں کو اعلیٰ میعار ی تعلیم ملے جس کے لئے والدین دن رات محنت کرکے اپنے گاڑے پسینے کی کمائی انگریزی میڈیئم اسکولوں کی جھولیوں میں ڈال رہے ہیں،مگر بدقسمتی سے اس کے نتائج سوائے اکا دکا بچے کی کامیابی کے ساتھ ہی محدود ہیں ،ان برے نتائج کے باوجود والدین اور سر پرست پھر بھی انگریزی میڈیم اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ اردو اسکولوں میں میعارِ تعلیم کی گراوٹ، اردو اساتذہ میں اعتماد کی کمی کے اردو میڈیم سے پڑھ کر بچہ کچھ بن سکتا ہے ! اگر اعتماد میں کمی نہ ہوتی تو اردو  کی برکت سے اپنے گھر کے چولھے جلانے والے اساتذہ ہرگز اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں نہ ڈالتے،بلکہ اردو مدرسوں میں ہی تعلیم دلواتے ان حالات میں اردو میڈیم اسکولوں کو بہت فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ کیسے قوم کے ننھے منے بچوں کو کامیابی سے ہمکنار کرایا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کے موجودہ وقت کے جتنے بھی سرکاری اساتذہ ہیں وہ نہایت قابل اور ماہر ہیں مگر اتنی بات ضرور ہے ان پر سُستی اور کاہلی کی دھول جمی ہے وگرنہ یہ اساتذہ بڑے کام کے ہیں میں یہ نہیں کہتا کے ہر استاد سست اور کاہل  ہے بلکہ اکثر و بیشتر ایسے ہی ہیں۔یاد رکھیں جو استاد درس و تدریس کے پیشے میں رہ کر اپنی ذمہ داری صحیح ڈھنگ سے نہیں نبھاتا اس کا نقصان اس کی اولاد کو ہوگا اس کی اولاد تعلیمی میدان میں کوئی کارنامہ سر  انجام نہیں دے سکے گی۔


تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!
دفعِ مَرض کے واسطے پِل پیش کیجیے
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوَض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دِل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبَق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ “بِل پیش کیجیے!

یہ مختصر تمہید اور کڑوا سچ تھا جس کے متعلق ہمارے اساتذہ جان کر انجان بنے بیٹھے ہیں  اب اس خوابِ غفلت سے نکلنا ہوگا اور اسی اردو کے ذریعہ نونہالوں کو آسمان کی بلندی تک پہنچانا ہوگا،وہ کیا نکات ہیں جس کے ذریعے ہمارے اردو اسکول بہتر ہوسکتے ہیں ۔
میر معلم

درس و تدریس میں میر معلم مرکزی کردار ادا کرتا ہے ، اسکول کا میعار اگر جاننا ہو تو اس اسکول کے میر معلم کو دیکھا جائے ،میر معلم پوری اسکول کی روح ہوا کرتا ہے مگر بدقسمتی سے عام طور پر دیکھا گیا ہے کے میر معلم اپنے معاون اساتذہ کے ساتھ اس درجہ گھُل مل جاتا ہے  کہ دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے یہ سارے ایک  ہی جماعت کے ساتھی رہے ہوں گے نہ عمر کا خیال ، نہ میر معلم کا ڈر ، نہ سنجیدہ مزاجی اب ایسا اسٹاف  کیا میر معلم کی قدر کرے گا بعض جگہ تو حد ہی کردی میر معلم اور معاون اساتذہ مل بیٹھ کر پان گٹھکا کھاتے رہتے ہیں ،ہونا تو یہ چاہیئے تھا  کہ میر معلم  سونے کا لقمہ کھلاکرشیر کی نگرانی کرتا۔

مثالی میر معلم کی خوبیاں

میر معلم با اخلاق ہو۔

اسلامی تعلیم اور اپنی تہذیبی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے۔

میر معلم نظم و ضبط او ر وقت کا پابند  ہو۔

معاون اساتذہ کی رائے کا خیال رکھتا ہو۔

میر معلم جذبات میں فیصلے لینے والا نہ ہو۔

میر معلم کو چاہیئے کے ہفت وار میٹنگ منعقد کرے جہاں درس و تدریس اور کام کی باتیں ہوں وگرنہ چائے کی میٹینگیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔

والدین اور سرپرستوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے والا ہو۔

بچوں پر مشفق اور مہربان ہو۔

پاکی صفائی کا خاص خیال رکھتا ہو ،اگر پان تمباکو کا شوقین ہو تو مدرسے سے باہر ہی فراغت حاصل کرکے آئے
ہر کلاس کا بالخصو ص بڑی جماعتوں کا  ہفتے میں دو تین بار معائنہ کرے، جسمیں ان کے ہوم ورک وغیرہ پر سرسری نظر ڈالے۔

مطالعہ کا شوقین ہو  اس بات کا عادی  معاون اساتذہ  کو بھی بنائے ۔

معاون اساتذہ کے ساتھ مخصوص گروہ بندی سے پرہیز کرے۔

سب سے اول آئے اور سب سے آخر جائے۔

میٹنگوں کا بہانہ کرکے ذاتی کام نا کرے اگر معاون اساتذہ نہ دیکھتے ہوں تو خدا ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔

طلبہ کو سخت سزائیں دینے سے گریز کرے۔

جماعتی کمروں، کھیل کے میدان اور بچوں کی صفائی پر خاص توجہ دیں۔

لائبریری ،لایبروٹری ، کمپیوٹر لیاب وغیرہ میں بچوں کا داخلہ پابندی سے کرایں۔

کبھی کبھاراخلاقی تعلیم کی  کلاسس بھی لیا کرے کیونکہ عام طور پر بچے میر معلم کی باتیں دھیان سے سنتے اور مانتے ہیں۔


مثالی معلم کی خوبیاں


بعض تعلیمی کمیشن کہتے ہیں  معلم پورے تعلیمی میعار کی اہم شخصیت ہے، وسطی تعلیمی کمیشن معلم کی شخصیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے مدرسہ کا سارا تعلیمی نظام جس کھونٹی سے بندھ کر گردش کر رہا ہے وہ ہے معلم کی شخصیت ہے ، مشہور ماہر تعلیم ہمایوں کبیر کی رائے کے مطابق ،، معلم صد فیصد قوم کی تقدیر کے منصف ہیں،، کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ کا پہلا جملہ یہ کہتا ہے کہ ،، بھارت کی تقدیر مدرسہ کے جماعتی کمرے میں سنورتی ہے،، ۔

معلم میں عمدہ اخلاق و اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔

معلم کا مخلص ہونا بے حد ضروری ہے

اپنے فرائض سے شدید الفت، دلچسپی، امنگ، اور عمدہ احساسات کا ہونا ضروری ہے۔

خود اعتمادی اور ایمانداری کے ساتھ اپنے کام کو انجام دینے والا ہو۔

دوران اکتساب بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بہتر ڈھنگ سے حل کرنے میں ماہر ہو۔

طلبہ کے ساتھ مشفق و مہربان ہو۔

وقت کا پابند ہو۔

معلم کو چاہیئے کے بچوں کو سیاست سکھائے نہ کہ بچوں اور دیگر اساتذہ کے ساتھ سیاست کرے۔

شدید مطالعہ کا شوقین ہو ، اس کا مزاج ایسا  ہو بغیر مطالعہ اسے چین نہ آئے۔

گھر اور اسکول کے لئے اردو رسالے منگواتا رہے۔

مدرسہ آنے سے پہلے پڑھائے جانے والے سبق کو مکمل طور پر پڑھ کر آیا

اپنی غلطیوں کو ماننے کا جذبہ ہو

میر معلم اور معاون اساتذہ کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آئے

زیادہ سے زیادہ وقت کھڑے ہو کر پڑھائے

جماعتیں کمرے کی پاکی صفائی اور بچوں کی پاکی صفائی کا خاص خیال رکھے

وقت سے پہلے مدرسہ پہنچنے کی فکر کرے

بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے

بچوں کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاو نہ کرے

وقفے وقفے سے والدین کے ساتھ ملاقات کر کے بچوں کے متعلق بتاتا رہے

بچوں کی عادات و اخلاق کی طرف خصوصی توجہ دے اور انہیں اپنا بچہ سمجھ کر ان کے اخلاق و عادات پر خاص توجہ دے

بچوں کی ذہنی سطح کے حساب سے تقسیم کریں اور اسی کے مطابق سال بھر کام کرتے رہے

بچوں کے پرچوں کو دھیان توجہ کے ساتھ بنا کسی بھید بھاوکے ساتھ جانچے،

والدین اور سرپرستوں کو اسکول بلا کر بچے کے متعلق مطلع کرتے رہیں

بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کریں اس کے لئے ہر ہفتے میں ایک مرتبہ لائبریری کا پریڈ متعین کریں


مندرجہ ذیل مضامین پڑھانے کے بعد بچوں میں کن کن معلومات کا آنا ضروری ہے

اردو

اردو ہماری مادری زبان ہے مگر بدقسمتی سے دیکھا گیا ہے کہ اردو مدرسوں میں پڑھنے والے اکثر و بیشتر  بچوں کی نہ خطاطی اچھی ہوتی ہے نہ وہ فصیح اردو بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں، اس کی ایک اہم وجہ بنیادی تعلیم کا کمزور ہونا، اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بنیادی تعلیم مضبوط دیں ، معلم کو چاہیے کہ جماعتی کمروں میں بچوں کی ذہنیت کے اعتبار سے  فصیح اردو الفاظ کا استعمال کرتا رہے تاکہ بچوں کے کانوں میں بار بار فصیح اردو الفاظ پڑھنے کی وجہ سے وہ بھی بولنے کے قابل ہو جائیں ۔

کنڑا اور انگریزی

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے بچے کنڑا اور انگریزی میں بہت کمزور ہوتےہیں ، سب سے پہلی چیز اساتذہ کو یہ کرنی چاہیے کہ جس کلاس میں جس مضمون کو پڑھایا جاتا ہے اکثر و بیشتر الفاظ اسی زبان کے استعمال کریں اگر فرض کیجئے اردو کی کلاس چل رہی ہے تو فصیح اردو کے الفاظ استعمال کریں کنڑا اور انگریزی کی کلاس کے وقت اسی زبان کے الفاظ کا استعمال ہونا ضروری ہے اس سے بچوں کے حافظے میں الفاظ کا ذخیرہ جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے

سائنس، علم ریاضی

میں سمجھتا ہوں کہ سائنس اور علم ریاضی اتنے مشکل مضامین  نہیں ہیں جتنا ہمارے اساتذہ نے بچوں کو بتایا ہے،ہم نے اکثر و بیشتر اسکولوں میں دیکھا ہے جب بھی سائنس علم ریاضی کی بات آتی ہے تو اس اسکول کے اساتذہ بچوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ دیکھو بچوں تم جس سے آسان سمجھ رہے ہو وہ مضامین اتنے آسان نہیں ہیں بلکہ بہت ہی مشکل ہیں جب بچے کے ذہن کے اندر ایسے الفاظ اتریں گے تو بچہ اس مضمون کو مشکل سمجھنا شروع کرے گا ۔

عمدہ کتب خانہ


عام طور پر اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں عمدہ کتابیں ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ان کتابوں کو نہ ہمارے اساتذہ کبھی پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کبھی دیتے ہیں،کتب خانہ ہی ایک واحد ذریعہ ہے جہاں بچے پڑھنا سیکھ جاتے ہیں آگے چل کر بھی اپنے اس مطالعہ کی عادت کو ہمیشہ قائم اور دائم رکھ سکتے ہیں ۔

تجربہ گاہ


اساتذہ کو چاہیے کہ دورانی تدریس سائنس بچوں کو تجربہ کرکے دکھاتے رہیں اس سے بچوں کے اندر  تجربہ کرنے کی عادت پیدا ہوگی اور سائنس مضمون کو آسانی سے سمجھنے لگیں گے جب تک تجربہ کرکے نہیں دکھایا جائے گا بچے اس چیز کو نہیں سمجھیں گے


کھیل کود


طالب علمی کے زمانے میں جتنا پڑھائی کرنا ضروری ہے اتنا ہی کھیل کود ضروری ہے بچے کا صحت مند رہنا ضروری ہے صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوا کرتا ہے اس لیے بچوں کی نگرانی کے ساتھ کھیل بھی کھلایا کریں ایسا کھیل جس میں بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہو ضرور کھلایں ۔

کمپیوٹر کلاس


موجودہ زمانے میں کمپیوٹر ایک ضروری چیز بن گئی ہے اور اس کا استعمال درس و تدریس کے لئے بھی کیا جانے لگا ہے ہفتے میں ایک دو بار اس کے بھی کلاسییس متعین کریں تاکہ بچوں کو کمپیوٹر اور جدید معلومات ملتی رہے،حد سے زیادہ بھی بچوں کو کمپیوٹر کلاسس نہ دیں کیونکہ جو کام تخت سیاہ اور کھڑیئے سے ہوتا ہے وہ کمپیوٹر سے نہیں ہوتا۔

چونکہ یہ عنوان طویل ہے مستقل اس پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اس مختصر سے مضمون کے ذریعے پوری بات کو سمجھا ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اتنی ہی باتوں پر عمل کیا جائے تو انشاءاللہ امید ہے کہ ہمارے نونہال بچے قوم کے رہبر اور رہنما بن سکتے ہیں اور ملک و قوم کے نام کو روشن کر سکتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment