Saturday, 15 February 2020

مشعل ِ راہ
حکومت کرناٹک کے نصاب پر مبنی
(ٹی ای ٹی )اور (سی ای ٹی ) کا  آن لائن مواد
سماجی سائنس ( جین مت او ر بدھ مت)

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام (کرناٹک)
8105493349

جین مت


جین مت جو جین شاسن اور جین دھرم (سنسکرت: जैन धर्म) کے ناموں سے بھی معروف ہے، ایک غیر توحیدی بھارتی مذہب ہے جو تمام ذی روح اور ذی حیات اجسام کے حق میں اہنسا (عدم تشدد) کی تعلیم دیتا ہے، نیز جملہ مظاہر زندگی میں مساوات اور روحانی آزادی کا حامی ہے۔ جین مت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ عدم تشدد اور ضبط نفس کے ذریعہ نجات (موکش) حاصل کرسکتے ہیں۔
اس وقت جین مت دو بڑے فرقوں میں تقسیم ہے، شویتامبر اور دگمبر۔
لفظ جین مت سنسکرت کے ایک لفظ جِن (
जिन) سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہے فاتح۔ جین مت کے بھکشوؤں میں جذبات اور جسمانی آسائشوں کے حصول کے درمیان جو معرکہ جاری رہتا ہے، یہ لفظ دراصل اس کے جانب اشارہ کرتا ہے۔ جس شخص نے اپنے جذبات اور نفس پر فتح حاصل کرلی وہ فاتح (जिन) سمجھا جاتا ہے۔
جین مت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں کیا جاتا ہے۔[1] اس کی بنیاد کب، کس نے، کہاں پر رکھی اس بارے میں ماہرین آج تک کسی نتیجے پر نہیں پائے۔ جین گرنتھوں کے مطابق 527 ق م سے قبل وردھمان مہاویر (599-527 ق-م) نے نروان حاصل کیا تھا۔ روایتی طور پر جین مت کے پیروکار اپنے مذہب کی ابتدا ان چوبیس تیرتھنکروں (
तीर्थंकर) کے سلسلہ کو قرار دیتے ہیں جن میں پہلا تیرتھنکر رشبھ دیو (ऋषभदेव) اور آخری مہاویر تھے۔ جین مت کے پیروکار یہ یقین رکھتے ہیں کہ جین مت ابدی اور لافانی ہے۔ یہ اسی وقت سے ہے، جب سے دنیا بنی ہے۔ اور تب تک رہے گا، جب تک دنیا باقی ہے۔ جین مت کے لوگ مہاویر کو آخری اوتار یا دیوتا مانتے ہیں۔
ہندوستان میں ایک طویل عرصہ تک جین مت ہندوستانی ریاستوں اور مملکتوں کا سرکاری مذہب رہا ہے، نیز برصغیر ہند میں اس مذہب کی کافی اشاعت ہوئی تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی سے جین مت کی شہرت اور اشاعت میں کمی آنے لگی، جس میں اس خطہ کے سیاسی ماحول نے بھی اثر ڈالا تھا۔
جین مت کے پیروکار بھارت میں 4.2 ملین ہیں، نیز دنیا کے دیگر ممالک بیلجیئم، کینیڈا، ہانگ کانگ، جاپان، سنگاپور اور ریاستہائے متحدہ امریکا میں مختصر تعداد میں موجود ہیں۔ بھارت میں جین مت کے ماننے والوں میں شرح خواندگی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ (94.1 فیصد) ہے۔ بھارت میں مخطوطات کا قدیم ترین کتب خانہ جین مت کا ہی ہے۔ عالمی سطح پر جین مت کے پیروکاروں کی تعداد 6.1 ملین ہے۔

آغاز


رشبھ دیو کا مجسمہ، جو پہلے تیر تھنکر اور جین مت کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔

رشبھ دیو کا مجسمہ، جو پہلے تیر تھنکر اور جین مت کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔
جین مت کے آغاز کی صحیح تاریخ یا دور کے متعلق معلومات موجود نہیں ہیں۔ تاہم پانچویں اور چھٹی صدی ق م کے درمیان وردھمان مہاویر جین مت کی انتہائی موثر شخصیت اور معلم رہے ہیں۔ مہاویر جو جین مت میں اپنے دور کے آخری عظیم تیرتھنکر ہونے کی وجہ سے انتہائی قابل تعظیم سمجھے جاتے ہیں، غالب گمان یہی ہے کہ وہ جین مت کے بانی نہیں ہیں۔
پارشوناتھ جو مہاویر کے پیشرو کہلاتے ہیں، وہ پہلے جین مت کی شخصیت ہے جن کی تاریخی شہادت میسر ہے۔ پارشوناتھ نویں سے ساتویں صدی ق م کے درمیان کسی زمانہ میں تھے۔پارشو کے پروکاروں کا ذکر گرنتھوں میں ملتا ہے۔

عقائد

جین مت خدا کی ہستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بڑا ہے وہی انسان کی روح میں پائی جانے والی طاقت خدا ہے۔ دنیا میں ہر چیز جاودانی ہے۔ روحیں جسم بدل بدل کر آتی ہیں مگر اپنی الگ ہستی کا احساس باقی رہتا ہے۔ نروان یعنی روح کی مادے اور جسم سے رہائی نویں جنم کے بعد ممکن ہو سکتی ہے۔[حوالہ درکار] جین مت کے عقائد سات کلیوں کی شکل میں بیان کیے جاتے ہیں، جن کو جین مت کی اصطلاح میں سات تتو یا سات حقائق کہا جاتا ہے۔ یہ کائنات اور زندگی کے بنیادی مسئلہ اور اس کے حل کے بارے میں سات نظریات ہیں۔ جن میں جین مت کا بنیادی فلسفہ بخوبی سمٹ کر آ گيا ہے۔
جیو: روح (جیو) ایک حقیقت ہے۔
اجیو: غیر ذی روح (اجیو) بھی ایک حقیقت ہے، جس کی ایک قسم مادہ ہے۔
اسرو: روح میں مادہ کی ملاوٹ ہوجاتی ہے۔
بندھ: روح میں مادہ کی ملاوٹ سے روح مادہ کی قیدی بن جاتی ہے۔
سمورا: روح میں مادہ کی ملاوٹ کو روکا جا سکتا ہے۔
نرجرا: روح میں پہلے سے موجود مادہ کو زائل کیا جا سکتا ہے۔
موکش: روح کی مادہ سے مکمل دوری کے بعد نجات (موکش) حاصل ہو سکتی ہے۔
پابندیاں
جانوروں کا ہلاک کرنا
درختوں کو کاٹنا
حتٰی کہ پتھروں کو کاٹنا
بھی ان کے قریب گناہ ہے۔ سادھو بارہ برس کے بعد نروان حاصل کر سکتا ہے۔
دو دھڑے
وردھمان مہاویر کی وفات کے 160 سال بعد، یہ دھرم کے پیروکار دو حصوں میں یا دو فرقوں میں بٹ گئے۔ ایک فرقہ دگمبر یا دگامبر کہلانے لگا اور دوسرا فرقہ شویت امبر یا شویتامبر۔

دگمبر

سنسکرت میں “امبر“ کے ایک معنی “کپڑے“ یا “لباس“ کے ہیں۔ دگمبر یا دگامبر کے معنی وہ شخص جو بغیر لباس کے یا عریاں رہتاہے۔ اس فرقے کے سادھو سنت بغیر لباس کے رہتے ہیں، ان کو دگمبر کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم دور حکومت میں انہیں زبردستی کپڑے پہناءے گئے۔ لیکن آج بھی ان سادھئوں کا یہی رویہ ہے کہ یہ بغیر لباس ہی رہتے ہیں۔ کنبھ میلا اجلاس میں یہ سادھو آج بھی عریاں ہی حصہ لیتے ہیں۔
شویت امبر

سنسکرت زبان میں “اشویت“ کے معنی سفید رنگ کے ہیں اور امبر کے معنی لباس کے ہیں۔ یعنی شویت امبر یا اشویتامبر کے معنی ہوئے “سفید لباس“۔ وہ سادھو سنت جو سفید کپڑے پہنتے ہیں، انہیں اشویتامبر کہتے ہیں۔ یہ سنت اکثر اپنے مُنہ پر بھی سفید کپڑا باندھے رہتے ہیں۔

مقدس مقامات

ان کے مقدس مقامات میں سماتا کا پہاڑ جہاں مہا ویر کا انتقال ہوا تھا، کوہ آبو راجستھان، شراون بیلاگولہ اور گومٹھیشور کرناٹک مجسمہ ہے۔

مہاویر
مہاویر کا اصلی نام وردھمان تھا اور مہاویر پیروکاروں کی جانب سے دیا گیا خطاب تھا۔ وہ مہاویر یعنی (مہا=عظیم، ویر=سورما) عظیم سورما کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جین مت کے پیروکار انہیں ایک دیوتا مانتے ہیں۔ وردھمان 599 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔[10]۔ وردھمان اور گوتم بدھ کی زندگی میں کافی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ اتفاقاً یہ دونوں ایک ہی دور کے اور ایک ہی علاقے کے ہیں۔ وردھمان ایک شاہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ 30 سال کی عمر میں بیوی، بیٹی اور گھر بار چھوڑ کر تارک الدنیا ہو گئے اور ایک ہی لباس میں گھر سے نکل گئے۔ فقیرانہ زندگی گزاری، کوئی سر و سامان ساتھ نہیں رکھا۔ ایک ہی لباس میں رہتے رہے اور کسی قسم کا کوئی سامان پاس نہیں رکھا، حتی کہ پانی کا پیالہ تک نہیں۔ بعد میں لباس پھٹ جانے پر برہنہ رہنے لگے۔ 43 سال کی عمر میں اپنے نظریات کو عوام کے سامنے رکھا اور اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی۔ 527 قبل مسیح وفات پائی۔ اس وفات پانے کو جین مت میں “نروانا“ کہتے ہیں۔ آخری عمر تک بہت سے نوجوانوں کو تعلیم دیتے رہے۔ اہنسا (عدم تشدد) کا فلسفہ پیش کیا جو جین مت کا بنیادی اُصول ہے۔
جین مت کے 24ویں تیرتھانکر (گروؤں کا سلسلہ) مہاویر عدم تشدد کا ایک بہترین نمونہ تھے۔ ان کی زندگی قربانی اور مراقبہ سے لبریز تھی۔ انہوں نے اپنے ساتھ ایک لنگوٹی تک کا زاد نہیں رکھا۔ ان کے دور میں لوگوں میں تشدد عام تھا، لوگوں میں افراتفری، بد ترتیبی، غیر مذہبیت، جہالت، لاقانونیت عام تھی۔ ذات پات کے جھگڑے، اونچ نیچ کا رسم عام تھا۔ اس دور میں وردھمان پیدا ہوئے۔ سماج کی ان برائیوں کو دیکھ دہل گئے، گھر بار چھوڑ کر راہبانہ زندگی اختیار کرلی اور جنگل جنگل ہو گئے۔ انہوں نے دنیا کو سچائی، عدم تشدد کا سبق دیا۔ اور گھومتے گھومتے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کرنے لگے۔
انہوں نے دنیا کو پنچ شیل (شیل=نیک) کے اصول بتائے۔ اس کے مطابق؛
ستیہ = سچائی، صداقت
اہنسا = عدم تشدد،
آستییہ = چوری نہ کرنا یا پرہیزگاری کے بھی معنی لی جا سکتی ہے۔
برہم چریہ = رحبانیت، مجرد، سنیاس زندگی
اپری گرہ = جتنی ضرورت ہے اتنا ہی رکھو (قناعت پسندی)
ان تعلیمات کی تبلیغ کرتے رہے اور لوگوں کو راغب کرتے رہے۔ اس تشدد اور ظلم والے دور میں ان کی تعلیمات کا اثر خوب رہا۔ ہندو دھرم سے بیزار عوام ان کے پیروکار بننے لگے۔

پیدائش

وردھمان بچپن کا نام تھا، بعد میں مہاویر پکارا جانے لگا۔ ان کی پیدائش 599 قبل مسیح میں ہوئی۔ جائے پیدث تعلق سے کئی مختلف روایتیں ہیں۔ مورخین مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مورخین کی تجاویز کے مطابق تین گاؤں ہیں جو ان کی پیدائشی مقام ہوسکتے ہیں۔ پہلا، موجودہ ریاست بہار کے قدیم ضلع ویشالی کا کُنڈی گرام، دوسرا، جموئی ضلع کا لچھووار گاؤں، تیسرا نالندا ضلع کا کُنڈلپور گاؤں۔ ان کے والد سدھارتھ اور والدہ تریشالا، ایک شاہی خاندان کے تھے۔ مہاویر کا بچپن اور جوانی بڑے ہی عیش و عشرت میں گزری۔
جین دھرم یا مت کے مطابق جین مت کے بانی “وراشبھ ناتھ“ تھے، جنہیں پہلا تیرتھانکر (گرو) مانا جاتا ہے۔ یہ گروؤں کا سلسلہ چلتا رہا اور آخری تیرتھانکر (گرو) وردھمان مہاویر تھے۔
جین مت کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ ایشور کے حکم کے مطابق مہاویر 24 ویں اور آخری تیرتھانکر تھے۔ ان کے بعد کوئی تیرتھانکر یا گرو نہیں آیا۔
جیسے ہی گھر بار ترک کیے جنگل کی راہ لی، جنگل میں تپسیا (مراقبے) کرتے رہے۔ لوگوں کو تعلیم بھی دیتے رہے۔ لوگوں کو نجات کا راستہ دکھاتے رہے۔
عوامی فلاح کے لیے انہوں نے اپنے شاگردوں کے چار گروہ بنائے، سادھو (مرد)، سادھوی (خاتون)، شراوک (خادم)، شراوکا (خادمہ). ان کے پیروکاروں میں کوئی ذات پات، اونچ نیچ کا فرق نہیں رہا کرتا تھا۔ سب کو ایک مانا جاتا اور اسی نظریہ اور نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
اُس دور کے عوام میں آزادی کم اور غلامی زیادہ تھی، غلامی کے ساتھ ساتھ غلامانہ خیالات تھے۔ توہم پرستی، بت پرستی، غلط رسم و رواج کا انبار تھا۔ ایسے دور میں سیدھے سادے روایات کی تبلیغ ممکن بھی نہیں تھی اور سماج کے مختلف گروہوں سے انہیں ٹکراؤ بھی ہوا۔ لیکن سادھو (فقیر) ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی عزت بھی کرتے تھے اور اپنے پرانے مذہب کے لیے خطرہ بھی نہیں سمجھتے تھے۔
جین مت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ مہاویر نے انسانوں کو غلامی سے آزاد کروایا، توہم پرستی کی غلامی سے، اونچ نیچ ذات پات کی غلامی سے ۔
موجودہ دور میں
موجودہ شورش زدہ، دہشت گرد، بدعنوان اور تشدد کے ماحول میں مہاویر کی عدم تشدد کی راہ ہی امن فراہم کر سکتی ہے۔ مہاویر کی عدم تشدد صرف براہ راست ذبح کو ہی تشدد نہیں مانتی ہے، بلکہ دل میں کسی کے فی برا خیال بھی تشدد ہے۔ جب انسان کا دل ہی صاف نہیں ہوگا تو عدم تشدد کو جگہ ہی کہاں؟
موجودہ دور میں مقبول نعرہ 'سوشلزم' تب تک بامعنی نہیں ہو گا جب تک اقتصادی حیثیتیں متوازن نہیں رہیں گی۔ ایک جانب بے انتہا دولت اور پیسہ، دوسری طرف فقدان ہے۔ اس عدم مساوات کی خلیج کو صرف مہاویر کی 'اپراگره' کا اصول ہی بھر سکتا ہے۔ اپراگره کا اصول کم وسائل میں قناعت پسندی کو زور دیتا ہے۔ جین مت کے مطابق آدمی دولت کو ضرورت سے زیادہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
جب ایسی چیزوں کو جمع کرے گا جن کی چوری نہیں ہوسکتی تو وہ بے خوف رہ سکتا ہے، کوئی روح کو چرا نہیں سکتا، روحانی تعلیم کو بھی چرا نہیں سکتا، اس لیے تبلیغ ہی کرنی ہو تو روح کی تبلیغ کرو۔ تمام دنیا میں ذہنی اور اقتصادی امن قائم ہو گا۔ کردار اور اخلاق کی گراوٹ سے بچو۔ ایسی تعلیمات سے لوگوں کو آراستہ کیا۔

تعلیم
وردھمان مہاویر نے “یوگ“ کے اُصولوں کو اپنایا۔ جوسہاجایوگا کے بھی اُصول مانے جاتے ہیں۔ انہیں میں سے ان کی تعلیمات کے اہم پانچ اُصول شامل ہیں۔ ان اصولوں کے علاوہ انہوں نے، موکش یا نِروانا (مغفرت)، کشاما (معاف کردینا)، جیسے اُصولوں کو بھی اپنی تعلیمات میں شامل کر لیا۔

ستیہ
حقیات پسندی کو ایک اہم مقام دیا گیا۔ حق کو سنسکرت زبان میں ست یا ستیہ کہتے ہیں۔ مہاوری نے تعلیم دی کہ لوگو، تم سچ ہی کو سچا عنصر سمجھو۔ جب ذہن و دل پر سچائی کی حکومت ہوتی ہے، وہ کسی تیرگی سے نہیں ڈرتا، وہی زندہ جاوداں ہو سکتا ہے جو سچائی کو مرتے دم تک تھامے رہتا ہے۔

اہنسا
اہمسا یعنی عدم تشدد، یہاں پر مہاویر نے اہمسا کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو مارنا بھی تشدد ہے۔ اگر آپ کے پیروں تلے چیونٹی بھی آجاتی ہے تو وہ تشدد ہے، ایسے تشدد کو روکو۔ جانوروں کو مار کر ان کو غذا کی شکل میں استعمال کرنا جین مت میں ممنوع ہے۔ مخلوق کے تئیں رحیمیت سے پیش آنا اور خدا ترسی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

آستییہ
آستییہ کا مطلب ہے چوری نہ کرنا۔ چوری بہت بڑا گناہ ہے۔ چوری شدہ چیز کسی کی امانت ہوتی ہے۔ اس کی چوری گویا کہ امانت میں خیانت کے برابر ہے۔

برہم چریہ
برہم چریہ “مجرد“ زندگی کو کہتے ہیں۔ مہاویر کے مطابق برہمچریہ ایک بہترین عبادت ہے۔ عباد ہی نہیں بلکہ قواعد، علم، فلسفہ، ضبط نفس اور ادب و احترام کی جڑ ہے۔ تپسیا (عبادت) یا مراقبہ میں برہم چریہ بہترین تپسیا ہے۔ جو مرد عورتوں سے تعلق نہیں رکھتے، وہ نجات کے راستے کی طرف بڑھتے ہیں۔

اپری گرہ
اپری گرہ کا مطلب ہے، ہوس سے دور رہنا۔ قناعت پسندی بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا کی دولت کی چاہ انسان کو دیوانہ بنادیتی ہے، یہاں تک کہ خود کو غم کے گڑھے میں دھکیل لیتا ہے۔ جمع خوری ایک لعنت ہے اور سارے دکھ درد کی وجہ حرص و ہوس ہی ہے۔ اس سے دور رہنا گویا کہ دکھوں سے دور رہنا۔

معذرت
معذرت کے بارے میں مہاویر کہتے ہیں - "میں سب جراثیم سے معذرت چاہتا ہوں۔ دنیا کے تمام جراثیم سے میرا دوستانہ رویہ ہے، میرا کسی سے بیر نہیں ہے۔ میں سچے دل سے دین میں مستحکم ہوا ہوں۔ سب جراثیم سے میں سارے جرائم کی معذرت خواہ ہوں۔ سب جاندار جن کو مجھ سے تکلیف ہوئی ہے میں ان سے معافی اور معذرت چاہتا ہوں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں 'میں نے اپنے دل میں جن جن گناہوں کا تصور بھی کیا ہے، جو گناہ زبان سے کیا ہے میں ان سب گناہوں سے معذرت چاہتا ہوں۔

مذہب
مذہب سب سے بہترین راستہ۔ عدم تشدد، صبر استقلال، عبادات (تپ یا تپسیا) ہی مذہب ہے۔ مہاویر کہتے ہیں جو حق پسند روح رکھنے والا (دھرماتما) ہے، جس کے دل میں ہمیشہ مذہب رہتا ہے، اسے دیوتا بھی سلام کرتے ہیں۔
مہاویر نے اپنے تعلیمات میں مذہب، حقیقت، عدم تشدد، مجرد زندگی اور قناعت پسندی، معذرت پسندی پر سب سے زیادہ زور دیا۔ قربانی اور صبر، محبت اور ہمدردی، تقوی اور نیکی ہی ان تعلیمات کا نچوڑ تھا۔ مہاویر نے چہار طریقہ (چتروِدھ) حلقے قائم کیے۔ ملک کے مختلف حصوں میں گھوم کر اپنا مقدس پیغام پھیلایا۔ مہاویر نے 72 سال کی عمر میں 527 ق م میں پاواپوری میں کارتک کرشن اماوسيا کو نروان (نجات، مغفرت یا وفات) حاصل کیا۔

بدھ مت 



بدھ مت ایک مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرز عمل كو محیط كيا ہوا ہے، جس کی زیادہ تر تعلیمات کی بنیاد سدھارتھ گوتم کی طرف منسوب ہیں، عام طور پر بدھ (سنسکرت "ايک جاگت") کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب بدھ مت بھی ہے۔ بدھا کچھ چوتھی سے پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیان میں شمال مشرقی بر صغیر میں رہتے تھے اور تعليمات ديتے تھے۔ انہيں بدھ مت لوگ "ایک جاگت" یا "روشن خیال ٹیچر" كے نام سے مانتے ہیں۔ انھوں نے حیات احساسی کو مشکلات سے نجات حاصل كرنا،نروان كو حاصل كرنا اور تکلیف اور دوسرے جنموں كی مشكلات سے بچنا سكھايا۔

گوتم بدھ


گوتم کپل وستو میں ہمالیہ کی ایک ریاست میں پیدا ہوئے تھے۔ جہاں آریائی قبیلہ ساکیہ یا شاکہہ آباد تھا، اس کے سردار یا راجا شدودھن کا لڑکا تھا۔ گوتم کی ماں کا نام مایا یا مہامایا تھا۔ گوتم کے سال ولادت میں سخت اختلاف ہے۔ عام طور پر 563 ق م بتایا جاتا ہے۔ نیز یہ مسئلہ تنازع فیہ ہے کہ گوتم کا اصل نام کیا تھا۔ بعض لوگوں نے سدارتھ پہلا نام اور گوتم قبائیلی نام بتایا ہے۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق ان کا اصل نام گوتم تھا اور سدارتھ، ساکیہ منی، ساکھیہ سہنا، جن بھاگوا، لوک ناتھ اور دھن راج وغیرہ ان کے القاب تھے، جو ان کے متعقدین نے انہیں دیے تھے۔ گوتم کے بچپن کے حالات مستند کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں وہ عقدت مندوں کی عقیدت سے اس طرح متاثر ہوئے ہیں کہ تاریخی معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ بہرحال اتنا پتہ چلتاہے کہ انہوں نے رواج کے مطابق علوم و فنون اور سپہ گری میں مہارت پیدا کی اور کمسنی میں ان کی شادی یشودھرا سے کردی گئی۔ آخر بعض روایات کے مطابق گوتم کی عمر جب تیس کی ہوئی تو ان میں ذہنی تبدیلی ہوئی اور کچھ طبعی رجحان اور کچھ زندگی کے تلخ واقعات نے گوتم کو مجبور کیا کہ وہ ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے حصول کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ اس ذہنی خلفشار کے زمانے میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہو گیا تو وہ بول بڑے مجھے یہ نیا رشتہ توڑ نا پڑے گا۔ آخر بعض روایات کے مطابق گوتم اسی شب گھر کو چھوڑ کر جنگل نکل گئے۔ جہاں انہوں نے چھ سال تک مختلف ریاضتوں میں گزارے۔ جس میں گھاس بھونس پر گزارہ، بالوں کے کپڑوں کا پہنا، گھنٹوں کھڑے رہنا، کانٹوں میں لیٹ جانا، جسم پر خاک ملنا، سر اور ڈارھی کے بال نوچنا۔ اس طرح کے سخت مجاہدات میں مشغول رہے۔ آخر ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ جسم کی آزادی اور اس طرح کے مجاہدات سے تسکین ناممکن ہے اور یہ طریقہ مسائل حل کرنے سے قاص رہیں۔ چنانچہ انہوں نے باقیدہ کھانا پینا شروع کر دیا اور اپنے چیلوں سے یہ کہا کہ ریاضت کے یہ تمام طریقہ غلط ہیں۔ چنانچہ وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

نروان

چیلوں کے چلے جانے کے بعد گوتم سخت ہیجان میں مبتلا ہو گئے۔ آخر وہ بدھ گیا میں جو اس وقت غیر آباد علاقہ تھا، وہاں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے تہیہ کر لیا کہ جب تک ان پر حقائق ظاپر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مراقب رہیں گے۔ دفعتاً غروب آفتاب کے وقت ان کے ذہن میں ایک چمک پیدا ہوئی اور ان پر یہ حقائق منکشف ہوئے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے اور تکلیف سے رہائی کے یہی دو طریقہ ہیں۔ انہوں نے حیات کے چشمہ موت اور زندگی کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا۔ ہر حیات کو موت سے اور موت کو حیات وابستہ پایا۔ ہر سکون اور ہر خوشی کو نئی خواہش نئی مایوسی اور نئے غم کے دوش بدوش پایا۔ زندگی کو موت سے ملاقاتی ہوتے پھر اپنے کرم کے مطابق جنم لیتے دیکھا۔ اس نوری کفیت اور انکشاف کے بعد وہ بدھ یعنی روشن ضمیر ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ غلطی اور جہالت کے دھندلکوں سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگی خواہشوں اور الائشوں سے آزاد ہوچکی ہے اور انہیں تناسخ کے چکر سے نجات مل چکی ہے۔ انسانی مصائب کا علاج جان لینے کے بعد وہ بنارس آئے اور وہاں ایک مقام مگادیہ میں قیام کیا۔ ان کے چیلے جو انہیں چھوڑ گئے یہاں آن ملے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چیلوں کو اپنی تعلیمات سے روشناس کرایا اور زندگی و موت کے حقائق انہیں سمجھائے۔ آخر وہ ان سے متاثر ہوکر ان کے دین میں داخل ہو گئے، پھر انہوں نے اپنی دعوت کو عام کیا اور تین ماہ یہاں قیام کیا۔ ان کی بزرگی و علم کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مذہب میں داخل ہو گئے۔ یہاں سے گوتم راج گڑھ گئے۔ اس وقت مگدھ کا راجا بمبارا تھا۔ اس نے گوتم کا خیر مقدم کیا اور ایک باغ ان کے قیام کے لیے وقف کر دیا۔ یہاں گوتم نے کئی سال گزارے۔ وہ ہر سال گرمی اور جاڑے میں تبلغ کے لیے نکلتے اور برسات میں واپس آجاتے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ راجا بہار ادر اجات سترہ نے گوتم سے ملاقاتیں کیں اور انہوں نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔ الغرض چند سال کے اندر گوتم کا مذہب تیزی سے پھیل گیا۔ پھر کپل وستو میں باپ کے بلانے پر آئے اور گھر والوں سے ملاقاتیں کیں، مگر راج گڑھ واپس آ گئے اور تقریباً چوالیس سال تک گوتم اپنے مذہب کی تبلخ کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر گئے۔ ان کی حیات میں ان کا مذہب تیزی سے مقبول ہو گیا اور دور دور تک ان کے مبلغین ہندوستان کے ہر حصہ میں پہنچ گئے اور لوگوں کو اس نئے مذہب سے روشناس کرایا۔ عام روایات کے مطابق گوتم نے 80 سال کی عمر میں 384 ق م میں وفات پائی۔ ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نذر آتش کردی گئی۔

تعلیمات

گوتم کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا۔ اس لیے ایک عرصہ تک ان کی تعلیمات زبانی منتقل ہوتی رہیں۔ تقریباً تین سو سال کے بعد 252 ق م میں اشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انہیں ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کتابیں تری پٹک یعنی تین ٹوکریوں کے نام سے منسوب ہوئیں۔ مگر حقیقت میں یہ تین سے زائد ہیں، یعنی ہر کتاب کئی کتابوں پر مشتمل ہیں۔ یہ اشوک کے عہد میں بہار کی زبان پالی میں قلمبند کی گئیں تھیں۔ مگر اصل جلدیں بہت جلد ناپید ہوگئیں۔ ان کی نقل مہند لنکا لے گیا تھا۔ وہاں ان کا ترجمہ سنگھالی زبان میں ہوا۔ وہ نقل بھی اصل کی طرح معدم ہوگئیں۔ مگر سنگھالی زبان کا ترجمہ رہے گیا، جسے 0341ء؁ میں ایک گیا کے راہب گھوش نے اصلی تسلیم کرتے ہوئے اس کا پالی میں ترجمہ کیا۔ پاک وہند میں اب یہی تری پٹک سے مستند اور قدیم سمجھی جاتی ہیں۔ حافظہ کی کمزوری اور ترجمہ کے ہیر پھیر کے بعد گوتم کی تعلیمات کہاں تک پہنچی یہ بتانا مشکل ہے۔ بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کر دیا ہے، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بات صاف کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے، بلکہ اسے مادہ کا جز کہے کر خاموشی اختیار کی ہے۔ جنت و جہنم، حشر ونشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت دال دیا ہے اور آواگون کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فناء ہوتی ہیں۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئی ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے۔ اس میں کوئی شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے۔ گوتم نے ان تمام مسائل کی وضاحت اور تشریح کے بغیر اخلاقی احکام کی تلفین کی ہے، جس کے ذریعے نروان حاصل کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں گوتم نے والدین، اولاد، استاد و شاگرد، خادم و آقا اور شوہر و بیوی کے فرائض، حقوق اور زمہ داریاں بتائیں ہیں۔ انہوں نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور انہیں برائی سے بچائیں، نیز ان کے لیے ترکے کی شکل میں معاش مہیا کریں۔ اولاد کو حکم دیا کہ وہ والدین کی اطاعت اور احترام کریں۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو شفقت، محبت، ہمدردی، احترام، وفاداری، ہنرمندی، مساوات، حسن سلوک، ادب اور تعظیم کی ہدایت کی ہے۔ گویا ایک فلسفی کی موجودات کے اجزاء ترکیبی سے بحث کی ہے۔ پھر انسان کی خصوصیات اور صفات و روپ پر ایک تفصیلی بحث کی ہے، جس سے ایک مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ گوتم مذہب کے تمام فطری مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے۔ یہی وجہ ہے بدھ مذہب ان لوگوں کے درمیان میں توپھیل سکا، جو بت پرست اور اوہام پرست تھے۔ مگر اہل مذہب کے مقابلے میں قطعی ناکام رہا۔

سنگھ
بدھ مذہب کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا۔ اس لیے جیسے جیسے معتقدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر جلد ہی گوتم نے محسوس کر لیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہو سکتاہے اور مذہب کو محض راہبوں تک محدود درست نہیں ہے۔ لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کر دیا۔ راہبوں کی ایک انجمن بنائی گئی، جو سنگھ کے نام سے موسوم ہے۔ سنگھ کے ممبروں کو بھکشو کا خطاب دیا گیا اور ان کے لیے اہم شرائط و احکام وضع کیے گئے۔ اوائل میں سنگھ کے تمام ممبر سمجھے جاتے تھے۔ پھر ان میں عہدہ دار ابھرنے لگے اور ان کا صدر مذہبی پیشوا بن گیا۔

سنگھ کی مجالس
عام روایات کے مطابق سنگھ کی پہلی مجلس گوتم کی موت کے فوراً بعد راج گڑھ میں منعقد ہوئی تھی اور دوسری مجلس سو سال کے بعد ویشالی میں بلائی گئی تھی اور اس میں نزاعی مسائل زیر بحث آئے تھے۔ مگر ان دونوں مجالس کے انعقاد کی مستند ذرائع سے تصدیق نہیں ہوتی ہے، اس لیے تین سو سال کے بعد اشوک کے عہد کے میں جو مجالس بلائی گئی، وہی پہلی مجلس سمجھی جاتی ہے۔ اس میں تقریباً ایک ہزار راہبوں نے شرکت کی تھی اور اس میں اختلافی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جیسا کہ بالا الذکر کیا گیا تھا کہ گوتم کی تعلیمات کو تین کتابوں میں جمع کی گئیں، نیز تبلغ کے لیے دور دراز مبلغ بھیجے گئے۔ سنگھ کی دوسری مجلس کنشک کی سرپرستی میں سری نگر کے قریب تقریباً 541ء میں منعقد ہوئی جس میں اختلافات ختم کرنے کی آخری کوشش کی گئی۔ نیز بدھ کی تعلیمات پر صخیم کتاب لکھی گئی، جس کو تانبے پر کندہ کرا کر ایک خاص استوپہ میں رکھیں گئیں۔

فرقے

بدھ مذہب میں اختلافات گوتم کی زندگی میں ہی پیدا ہو گئے تھے۔ ایک بھنگی کو سنگھ میں داخل کرنے پر اعلیٰ ذات کے ممبروں نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ذات کے علاوہ اور بہت سے مسائل نزاع کا باعث بن گئے تھے۔ مگر پھر بھی گوتم کی زندگی میں انہیں ابھرنے کا موقع نہیں ملا اور گوتم کی موت کے بعد انہوں نے شدت اختیار کرلی اور بہت جلد بدھ کے تابع اٹھارہ گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ اشوک اور کنشک کی سرپرستی میں جو مجالس منعقد ہوئیں، ان میں اختلافات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر دور نہ ہو سکے اور بالاآخر بدھ مذہب دو فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ جو ہنیان اور مہایان کے نام سے موسوم ہیں۔ اول الذکر مرکب اضغر (Lesser Wehicle) اور ثانی الذکر مرکب اکبر (Great Wehicle) بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں فرقوں میں سے ہر ایک متعدد ذیلی فرقوں میں تقسیم ہے۔ ہنیان فرقہ جزویات کو چھوڑ کر کلیات میں قدیم مذہب پر کاربند ہے۔ یہ گوتم کی تعلیمات کے مطابق روح اور خدائی کا قائل نہیں ہے، نیز گوتم کو ہادی مانتا ہے۔ مہایان اس کے برعکس گوتم کو ماقوق الانسان سمجھتا ہے اور اس کی مورت کو بحثیت دیوتا پوجا کرتا ہے۔ یہ گوتم کے علاوہ دوسرے دیوتاؤں کا قائل ہے اور ان کی پرستش بھی کرتا ہے۔ اس فرقے کی اشاعت کنشک کے دور میں زور شور سے ہوئی، اس لیے منگولیا، چین، جاپان اور تبت میں اسی کو غلبہ حاصل ہوا۔ مگر لنکا، برما، سیام اور مشرقی جزائر میں ہنیان نے پامردی سے مقابلہ کیا، لیکن بالاآخر اسے وہاں مغلوب کر لیا گیا۔

ترقی کا سبب

بدھ مت کی ترقی و مقبولیت کا راز اس کے بانی کی بے داغ زندگی میں تھا۔ اس کے علاوہ بدھ مت کے اصول نہایت سادہ تھے۔ مذہبی و راہبانہ جماعت سنگھ نے اس کی اشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ابتدا میں راجاؤں اور سرداروں نے بھی اس کی سرپرستی کی۔ عام رواداری اور محبت کا پیغام عوام کے لیے جو برہمنی نظام کی قیود میں بندھے ہوئے تھے۔ بدھ مذہب کو ابتدا میں نیچی زات کے لوگوں اور ویشوں نے اختیار کیا تھا۔ پھر سرحدی ریاستوں کے راجاؤں نے اختیار کیا۔ جب اشوک نے بھی بدھ مت کا پیرو ہوکر اسے اپنی سلطنت کے سرکاری مذہب کا درجہ دیا، تو اس کی شہرت دور دور تک پھیل گیا۔ یہ مذہب وادی سندھ سے افغانستان اور وسط ایشیاء میں داخل ہوا اور براہ چین کے راستے کوریا تک پہنچ گیا۔ اس طرح لنکا، برما، تبت، سیام، نیپال اور ملایا کے لوگوں نے اسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ اشوک کے مبلغ یا بھکشو گاؤں گاؤں پھرتے اور اہنسا کا پرچار کرتے اور لوگوں کو جانوروں کی قربانی سے منع کرتے۔ رفتہ رفتہ ان بھکشوؤں کے لیے وہار اور استوپے تعمیر ہونے لگے اور یہ جگہیں تعلیم اور عبادت کامرکز بن گئیں۔ ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ ٹیکسلا کی پاٹ شالائیں جو وید کے بھجنوں اور اپنشدکے اشلوکوں سے گونجتی تھیں، بدھ مت کی درستگاہوں میں تبدیل ہوگئیں۔ موریا سلطنت کے زوال کے بعد باختر کے یونانیوں نےٹیکسلا کو پایہ تخت بنایا، تو انہوں نے بھی بدھ مذہب قبول کر لیا۔ اشوک کے عہد میں بہت سے یونانیوں نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔ چنانچہ مشہور بھکشو دھرم راجیکا جس سے ٹیکسلا کا ایک اسٹوپہ منسوب ہے یونانی تھا۔ اشوک نے اسے یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے بھیجا تھا۔ منیانڈر نے پٹنہ تسخیر کر لیا، مگر وہاں سے آکر اشوک کی طرح جنگ و جدل سے تائب ہو کر بدھ مت اختیار کر لیا اور آخر عمر میں راج پاٹ سے کنارہ کشی کرکے بھکشو بن گیا۔ منیانڈر کے دربار میں بدھ مذہباور ہندو پنڈتوں میں بحث مباحثے ہوتے رہتے تھے۔ بدھ مت کے سنتوں میں منیانڈرر کا درجہ بہت اونچا ہے۔ اس کے گرو ناگا سین نے منیانڈر کے جو مکالمات اور اقوال ’ملندا شا‘ کے نام سے مرتب کیے وہ آج بھی لنکا، برما اور تھائی لینڈ میں گوتم بدھ کا سب سے مقدس صحیفہ سمجھے جاتے ہیں۔ جب کشن قوم کے راجا کنشک نے اپنی سلطنت قائم کی تو اسنے بھی بدھ مت قبول کر لیا۔ اس نے اس کی ترقی و ترویح کے لیے بحت سے اقدامات کیے۔ جن میں بدھ مت کے فرقوں کے اختلافات ختم کرانے کے لیے مجلس کا انعقاد اور اپنے دار الحکومت پرش پورہ (پشاور) میں ایک اسٹوپا کی تعمیر شامل ہے۔ اس طرح وردھن خاندان کے راجا ہریش نے بھی بدھ مت قبول کر لیا تھا۔ وادی سندھ میں بدھ مت کی مقبولیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشہور چینی سیاح ہیونگ سانگ یہاں سے گزرا تو فقط سندھ میں کئی سو سنگھران موجود تھے اور بھکشوؤں کی تعداد بھی دس ہزار سے زائد تھی۔ حالانکہ اس وقت بدھ مت کو زوال آچکا تھا اور ہندو مذہب دوبارہ حاوی ہو تاجا رہا تھا۔

بدھ مت کا زوال

بدھ مت پانچ سو سال تک برابر ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ ہندوستان کے علاوہ افغانستان، چین، برما، سیام اور مشرقی جزائر میں پھیل گیا۔ گو ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا۔ ہندوستان میں اس کے پیرؤں کی تعداد دن بدن گھٹی گئی، آخر نویں صدی عیسوی آخر تک ہندوستان میں یہ بالکل ناپید ہو گیا۔ برصغیر میں بدھ مت کا زوال کا اہم سبب برہمنوں کی مخالفت تھی۔ وہ یہ جانتے تھے کہ اس مذہب کی ترقی میں ان کی موت پوشیدہ ہے، اس لیے وہ اسے ہر قیمت پر مٹانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک طرف گوتم کو شیوکا اوتار تسلیم کرکے اس مذہب کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف لوگوں کو تشدد پر اکسایا۔ کمارل بھٹ اور شنکر اچاریہ جیسے پرجوش ہندو مبلغین نے باضابطہ بدھوں کے خلاف مہم چلائی اور اپنی تقریروں سے لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت اور دشمنی کا جذبہ پیدا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا اس کے خلاف اکثر مقامات پر بلوے ہوئے اور بڑی بے دردی سے بدھوں کا قتل عام کیا گیا۔ بلاآخر بدھ مت اس سرزمین سے ناپید کر دیا گیا۔
گوتم نے جن بنیادی عقائد پر ایک مذہب کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے، نظر انداز کر دیا اور نہ ہی وجود اللہ تعالٰی کے بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی آخرت کا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھایا، بلکہ روح کے وجود سے انکار کرکے اخلاقی احکامات کی تمام بندشوں کو ڈھیلا کر دیا۔ اس بنیادی کمزوری کی وجہ سے یہ مذہب علم کے لوگوں میں مقبول نہیں ہو سکا۔ انہوں نے اسے ایک اصلاحی تحریک سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ نیز مسائل محتاج تشریح کی رہنے کی وجہ سے اس کے متعبین میں وہ شدت پیدا نہیں ہو سکی جو ہونی چاہیے تھے۔ اس مذہب کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ اس نے رہبانیت اور ترک دنیا پر زور دیا تھا۔ حلانکہ یہ تعلیم چند افرد کے لیے مناسب ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے ناقابل قبول اور ناممکن عمل ہے۔ یہ نقص اس مذہب کو ہمہ گیر بنانے میں سخت حائل رہا۔ علاوہ ازیں اس سے ایک طرح بدھوں کے اندر مختلف سفینہ حیات کو ترقی دینے اور منوانے کے جذبہ کو مردہ کر دیا۔ دوسری طرف راجاؤں کی سرپرستی ان کے اخلاقی انحاد کا باعث بنی۔ راہبانہ زندگی میں راجاؤں کی قربت اور نواشات ان کی اخلاقی طاقتوں کے لیے صبر آزما ثابت ہوئی۔ فطرتی کمزوریاں انہیں آرام طلب عیش پسند اور حریض بنے سے نہیں روک سکیں اور کچھ دنوں کے اندر ان کے سنگھ برائیوں کے مرکز بن گئے۔ اس مذہب کے اندر ایک اہم نقص عدم تشدد کی تعلیم تھی۔ جو اس کے زوال کا اہم سبب بنی۔ یہ تعلیم ممکن ہے راہبیانہ زندگی کے لیے اہمیت رکھتی ہو، مگر اجتماعی زندگی میں بہت تباہ کن اور مہلک چابت ہوئی۔ بدھوں نے اس اصول پر ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جو کرشن کے عدم تشدد کے قائل تھے اور انہوں نے تشدد کے لفظ کو بے معنی بنا دیا تھا۔ ایسی حالت مین جب کرشن کے ماننے والے ان کے خلاف آرستہ ہوئے، تو بچاؤ کی کوئی صورت پیدا ہو نہ سکی اور وہ تباہ ہو گئے۔

سدھارتھ گوتم كا بت بودھ گیا، بھارت

چار عظیم سچائیاں
زندگی دکھ ہی دکھ ہے
دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔
خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے۔
خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چائیے۔
اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم (ترک خواہشات نفسانی اور اہنسا وغیرہ) راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی(Right Ecstasy) شامل ہیں۔

عقیدے کی تفصیل
دیندار کی منزل مقصود یہ ہے کہ وہ خواہشات کی قید سے نکل کر وجود (نروان) میں پہنچ جائے۔ فرد ایسے عناصر سے بنا ہے جو اس سے پہلی موجود تھے اور جو اس کے مرنے کے بعد منتشر ہو جائیں گے۔ اور جو دوبارہ تقریباً اسی شکل میں مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ آدمی اسی آواگون کے چکر سے نکلنے کے لیے مذہبی زندگی کے ذریعے کوشش کرتا ہے۔
اس مذہب میں ذات کو کوئی دخل نہیں ہے۔ مردوں ‘ عورتوں ‘ جوان اور بچے سب کو رحم دلی اختیار کرنے اور تکلیفیں سہنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے ’’ساکیہ منی‘‘ (گوتم بدھ) کے نزدیک نجات ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان کو خوشی و رنج‘ دوستی و دشمنی بلکہ تمام مصائب اور خواہشوں سے چھوٹ مل جاتی ہے۔
ایک بدھ مت کے فرقے کا قول ہے کہ خدا کچھ چیز نہیں سب سے بڑا ’’بدھ‘‘ ہوتا ہے۔ اب تک کئی بدھ ہوچکے ہیں گوتم بدھ پچیسواں بدھ ہے۔ اس مذہب کے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خدا موجود ہے لیکن اس نے دنیا کو پیدا نہیں کیا اور نہ ہی اس کو دنیا کے کاموں اور انسانوں کے نیک و بد سے کوئی واسطہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ پھر بھی تمام چیزیں خدا کی مرضی سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ بدھ مت کے اکثر پیروکار ہندوؤں کے دیوتاؤں کو بھی مانتے ہیں لیکن ان کا درجہ بدھ سے کم مانتے ہیں۔ بدھ مت کے تصور معبود پر ہندو مذہب کی چھاپ پائی جاتی ہے۔ اس مذہب میں خواہشات کو سب مصیبتوں کی جڑ گردانا گیا ہے۔ خواہشات پر قابو پانے کے لیے آٹھ اصول بیان کیے ہیں :

صحیح علم و عقیدہ
صحیح ارادہ
صحیح کلام
صحیح عمل
صحیح سلوک
صحیح کوشش
صحیح یادداشت
صحیح غور و فکر ہیں

بدھ مت کے کچھ خصوصی اجزاء

کرم یا کرما
لفظی معنی کام یا عمل کے ہیں۔ پس انسان کی زندگی پر بلکہ ہر زندہ جان کی زندگی پر اس کے اپنے اعمال کا اثر ہوتا ہے، خصوصاً دکھ کا سبب ہمیشہ انسان کے اپنے غلط یا مضر اعمال ہوتے ہیں۔ گوتم بدھ کا کہنا ہے کہ دکھ سے نجات موجودہ دنیا کے دائرۂ تکلیف میں حاصل کرنا ناممکن ہے۔
اینتیہ
دنیا فانی ہے اس کا ثبوت اس بات میں ہے کہ وہ چیزیں جن سے ہم خوشی کی توقع کرتے ہیں مثلاً شہرت، اقتدار، بندھن اور پیسہ آخر کار دکھ کا باعث بنتے ہیں۔

اودیہ
بے حسی۔ بنیادی طور پر انسان حقیقت سے محروم ہے اور اپنی زندگی بے حسی میں گزارتا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی دکھ ہے اور دکھ سے نجات پانے کے لیے اور نروان حاصل کرنے کے لیے انسان کو آگاہی کی تلاش کرنا ہو گی۔
بدھی
اس آگاہی کا نام بدھ یا بدھی ہے۔سدھارتھ گوتم بدھ مت کے پہلے بدھ ضرور تھے لیکن ان کے بعد بھی کئی لوگ بدھ بن چکے ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار نہ صرف گوتم بدھ بلکہ اور بدھوں کے طریقے کی بھی پیروی کرتے ہیں۔
ارہٹ
وہ ذات جو دنیاوی بندھنوں کو مکمل طور سے چھوڑ کر نروان حاصل کر لیتا ہے۔
ناخدا پرستی
بدھ مت ناخدا پرست ہے۔ لیکن بدھ کے نظریات میں کہیں خدا کی مخالفت میں اشارہ نہیں ملتا۔ بدھ کے نظریہ ناخدا پرستی کا صرف یہی مطلب ہے کہ خدا کی پرستش نہ کر کے بھی نجات مل سکتی ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو یہ فلسفہ سانکھیہ کی بنیادوں سے ملتا جُلتا نظریہ ہے۔
بدھ مت کے فرقے
مہایان
اس مذہب کے مطابق زندگی کا مقصد نروان کی تلاش ہے اور دائرۂ تکالیف سے نجات ہے۔ اس کی کھوج میں کئی نیک افراد اپنی زندگی گزارتے ہیں تا کہ وہ خود بدھ بن سکیں۔ بدھ بننے کے بعد ان افراد کا فرض اور مقصد اور لوگوں کو انتیہ کا احساس دلانا ہے۔ ان افراد کو "بدھی ستوا" کہتے ہیں۔ یہ نروان حاصل کر سکتے ہیں لیکن گوتم بدھ کی طرح اپنے نروان کی قربانی دے کر وہ اوروں کو نروان کے راستے پر چلاتے ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار تبت، منگولیا، کوریا، جاپان، ویتنام اور چین میں پائے جاتے ہیں۔
تھیرواد
اس مذہب کے مطابق زندگی کا مقصد نروان حاصل کرنا ہے۔ اس لیے انسان کی بہترین شکل "ارہٹ" کی شکل ہوتی ہے۔ چونکہ نروان زندگی اور موت سے بعید ایک اور ہہی حالت ہوتی ہے۔ ہر انسان کی کھوج نروان کے لیے ہونی چاہیے۔ سری لنکا، تھائی لینڈ، لاؤس، برما اور کمبوڈیا میں اس مذہب کے پیروکار پائے جاتے ہیں۔


گوتم بدھ

گوتم بدھ کو بدھا اور بدھ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سدھارتھ تھا۔ یہ563قبل مسیح یا 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔ان کا باپ ایک ریاست، جو علاقہ اب موجودہ نیپال میں شامل ہے، کا راجا تھا اس ریاست کو کپل وستو کہا جاتا تھا۔ گوتم بدھ بدھ مت مذہب کے بانی ہیں۔

حالات

اب سے تقریباً 25 سو برس پیشتر قدیم برہمنوں کے عہد کے اختتام پر کوشل کی طاقتور سلطنت کے کچھ مشرق میں ساکیہ کشتری آباد تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی قوم تھی۔ سدھوون ان کا راجا تھا۔ کپل وستو اس کی راجدھانی تھی۔ یہ شہر بنارس سے سو میل کے قریب شمال میں واقع تھا۔ سدھوون بڑا بہادر جنگجو راجا تھا اور چاہتا تھا کہ میرے بعد میرا بیٹا گوتم بھی ایسا ہی بہادر اور جنگجو ہو۔ اس نے اسے سپہ گری کے سب فن سکھائے مثلاً نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی۔ گوتم جب 18 برس کا ہوا تو ایک خوبصورت شہزادی مسماۃ یشورا سے اس کی شادی ہوئی اور شادی کے دس سال بعد ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ گوتم جب پيدا ہوا تو نجوميوں نے اس كے باپ كو بتايا تھا كہ یہ بچہ بڑا ہو كر يا تو بادشاہ بنے گا يا پھر سادھو مگر جو بھی بنے گا اس جيسا دنيا ميں كوئی اور نہ ہو گا۔ اگر بادشاہ ہوا تو بہت بڑا بادشاہ ہوگا اور اگر سادھو بنا تو رہتی دنيا تک اس كا نام رہے گا۔
اس لیے اس كے باپ نے اس كو بادشاہ بنانے كے لیے اسے سپہ گری کے سب فن سکھائے مگر قدرت نے سدھارتھ كو سادھو بنانا تھا۔ گوتم بچپن ہی سے غور و فکر اور سوچ بچار میں رہا کرتا تھا۔ زبان کا میٹھا اور دل کا نرم تھا۔ تمام مخلوقات پر ترس کھاتا اور رحم کرتا تھا۔ شکار کو چلا ہے تیر چلے پر چڑھا ہوا ہے شست لگا لی ہے، کچھ کچھ کمان بھی تان لی ہے، مگر دیکھتا ہے کہ بھولا بھالا ہرن بے خبر بے کھٹکے ننھے ننھے دانتوں سے پتلی پتلی گھاس کی پتیاں کھا رہا ہے بس وہیں کمان کو چھوڑ دیا ہے اور فکر میں ڈوبا ہوا ہے! افسوس! اس معصوم جانور نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ یہ کسی کو ستاتا ہے جو میں اسے ماروں؟ تیر ترکش میں ڈال لیا ہے۔ اور واپس گھر چلا گیا ہے۔ گھڑ دوڑ میں شامل ہے، گھوڑے کو ہوا کر رکھا ہے، اغلب ہے کہ بازی جیتے گا مگر منزل پر پہنچنے سے ذرا پہلے گھوڑے کے ہانپنے اور زور زور سے سانس لینے کی طرف دھیان جا پڑا ہے، بس وہیں رک گیا ہے اور پشیمان ہے افسوس! کیا تفریح کی خاطر اس بے گناہ وفادار جانور کو ایسا ستانا روا ہے؟ تفریح جائے مگر گھوڑے کو دکھ دینا واجب نہیں ہےـ گھڑ دوڑ سے علاحدہ ہے اور گھوڑے کو چمکارتا دلاسا دیتا ایک طرف لے گیا ہے۔ ایک روز بہار کے موسم میں باپ نے کہا کہ آؤ باہر چلو، دیکھو درختوں اور کھیتوں پر کیا جوبن چھایا ہوا ہے۔ باپ بیٹا آہستہ آہستہ چلے جاتے تھے جدھر دیکھتے تھے بہار کا عالم تھا۔ باغ ہی باغ نظر آتے تھے۔ کونٹیں چل رہی تھیں۔ زمین پر ہری ہری گھاس کا فرش تھا۔ ہری بھری کھیتیاں لہلہا رہی تھیں۔ درختوں کی شاخیں میوے کے بوجھ سے جھکی جاتی تھیں۔ گوتم اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ایک کسان ہل چلا رہا ہے بیل کمزور ہے اس کی پیٹھ پر زخم ہے۔ کسان تک تک کر رہا ہے اور اس کو لکڑی سے مارے چلا جاتا ہے اور بیل ہے کہ بچارا درد کا مارا بیٹھا جاتا ہے۔ پھر کیا دیکھا کہ باز نے کبوتر پر جھپٹا مارا اور اسے کھا گیا۔ آگے بڑھ کر اسی قسم کی ایک اور بات دیکھی۔ ایک کبوتر مکھیوں پر ٹھونگ مارتا ہے اور دانے سے چبا رہا ہے۔ ان سب باتوں نے باغ اور بہار کے تماشے کا مزہ تلخ کر دیا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا ہیچ ہے جی کا بیری جی ہے۔ کیسا تماشا؟ چل اپنے گھر۔
اس کے کچھ دنوں بعد گوتم نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرد پیرانہ سال ہے جو بڑھاپے کی کمزوری سے نہ چل سکتا ہے۔ نہ کھڑا ہو سکتا ہے اور کوئی خواب ہی میں گوتم سے کہتا ہے کہ ایک دن تو بھی ایسا ہی بوڑھا اور بے کس ہو جائے گا۔ پھر دیکھا کہ کوئی بیمار ہے درد سے کراہ رہا ہے اور وہی آواز کہ رہی ہے کہ اے گوتم! ایک دن تو بھی بیمار ہوگا اور اسی طرح درد سے کراہے گا۔ پھر دیکھا کہ ایک شخص زمین پر پڑا ہے، موت سے ٹھنڈا ہو چکا ہے اور جسم کے اعضا لکڑی کی طرح سخت ہو چکے ہیں اور وہی آواز کہہ رہی ہے کہ گوتم! ایک دن تجھے بھی مرنا ہے۔
اس کے کچھ عرصے بعد گوتم ماں، باپ، بیوی، بچے، راج پاٹ کو چھوڑ کر گھر سے نکل گیا۔ اب اس کی عمر 30 سال کے قریب تھی۔ اپنے لمبے لمبے بال، جیسے کہ کشتری رکھا کرتے تھے، منڈوا ڈالے۔ محلوں میں جو قیمتی لباس و زیورات پہنا کرتا تھا اتار دیے اور فقیروں کے سے پھٹے پرانے چیتھڑے پہن لیے۔ سات برس تک بن میں جوگ اختیار کر کے اس فکر و تلاش میں پھرا کہ دنیا میں جو دکھ درد اور گناہ ہے اس سے کس طرح رہائی ہو۔ راجگڑھ کے قریب جو مگدھ کی راجدھانی تھی، جنگل میں دو برہمن عبادت گزار رہتے تھے۔ گوتم ان کے پاس گیا لیکن وہ اس کو دنیا کے غم و اندوہ سے بچنے اور سچی خوشی حاصل کرنے کی راہ نہ بتا سکے۔ پھر پٹنہ سے جنوب کو گیا کے پاس گھنے جنگلوں میں چلا گیا۔ 6 برس برابر تپسیا (بمعنی عبادت/ریاضت) کی، فاقے کیے اور جسم کو مارا۔ آخر معلوم ہوا کہ ابدی خوشی حاصل کرنے کا طریقہ یہ بھی نہیں ہے۔ بدھ گیا کا مندر اس بات کی یادگار ہے کہ یہاں گوتم بدھ نے 6 برس تپسیا کی تھی۔
آخر وہ دن آیا کہ گوتم بدھ نے راحت و تسکین حاصل کی۔ گوتم بدھ گيا ميں ایک املی کے پیڑ کے نیچے دھیان دھرے بیٹھا تھا، اس کے دل میں ایک قسم کی روشنی محسوس ہوئی، دل کو اطمينان سا آگيا۔ معلوم ہو اکہ فاقے اور جسم کو ایذا دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا اور عقبی، میں خوشی اور راحت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیک اور پاک زندگی بسر کر۔ سب پر رحم کر اور کسی کو مت ستا۔ گوتم کو یقین ہو گیا کہ نجات کا سچا راستہ یہی ہے۔
اب گوتم نے بدھ یعنی عارف کا لقب اختیار کیا، بن سے نکلا اور دنیا کی تعلیم و تلقین کی غرض سے دیس بدیس پھرنا شروع کیا۔ پہلے کاشی یعنی بنارس پہنچا۔ یہاں مرد عورت سب کو دھرم سنایا۔ تین مہینے کے قیام میں 60 چیلے جمع کیے اور ان کو روانہ کیا کہ جاؤ ہر طرف دھرم کا چرچا کرو۔ پھر راج گڑھ گیا۔ یہاں راجا پرجا سب اس کے دھرم کے پیرو بنے۔ پھر کپل وستو میں گیا جہاں اس کا بوڑھا باپ راج کرتا تھا، وطن سے رخصت ہونے کے وقت وہ شہزادہ تھا، اب جو واپس آیا تو زرد لباس' ہاتھ میں کاسئہ گدائی، سر منڈا جوگی تھا، باپ، بیوی، بیٹے اور ساکیہ قوم کے سب مرد عورتوں نے اس کا وعظ سنا اور چیلے ہو گئے۔ اس کے 45 برس کے بعد یعنی 80 برس کی عمر تک بدھ دیو نے جابجا پھر کر اپنے مت کو پھیلایا۔ اس طرح سے سارا مگدھ اور کوشل یعنی بہار اور صوبہ جات متحدہ آگرہ و اودھ میں یہ مت عام ہو گیا۔



No comments:

Post a Comment