Sunday, 28 June 2020

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 31
انگریزوں کا زمانہ
یورپین اقوام کی آمد



آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک ( انڈیا )
8105493349
7019759431
Patelkaroshi111@gmail.com

قدیم تجارت

 قدیم زمانہ سے ہندوستان اور یورپ کے درمیان تجارتی تعلقات قائم رہے ہیں کئی صدیوں تک ہندوستان سے جواہرات،نیل،افیون،سیاہ مرچ گرم مصالح اور سوتی اور ریشمی کپڑے یورپ کی منڈیوں میں برائے فروخت جاتے رہے مہاراجہ کنشک کے زمانہ میں یہ تجارت بہت ترقی پر تھی مغربی ایشیا میں اس وقت بابل،سیڈن اور نینوا اور بحر روم میں سکندریہ وینس اور جنیوا مشہور منڈیاں تھیں ۔

قدیم تجارتی راستے


ہندوستانی مال یورپ میں تین راستوں سے بھیجا جاتا تھا،سب سے مشہور قدیم راستہ خلیج فارس سے تھا ہندوستان کا تمام مال خلیج فارس سے بغداد پہنچتا تھا وہاں سے دمشق شام اور مصر ہوتا ہوا وینس اور جنیوا جاتا تھا پھر وہاں سے یورپ کے ملکوں میں جا کر بکتا تھا۔
دوسرا راستہ بحرقلزم کی راہ سے سکندر یہ اور وہاں سے وینس اور جنیوا پہنچ جاتا تھا
تیسرا خشکی کا راستہ : تجارتی مال درہ خیبر کی راہ افغانستان فارس اور ایشیائے کوچک سے ہوتا ہوا قسطنطنیہ پہنچتا تھا اور وہاں سے یورپ کے تمام ملکوں کو بھیجا جاتا تھا

ہندوستان میں پرتگیزیوں کی طاقت کا عروج و زوال

پندرہویں صدی میں مغربی ایشیاء کے ممالک پر ترکوں نے قبضہ کرلیا اس لئے تمام ہندوستانی تجارت بند ہو گئی اور یورپین اقوام کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ہندوستان کا کوئی ایسا بحری راستہ دریافت کریں جو ترکوں کے علاقے میں سے نہ گزرتا ہوں

اس تلاش میں 1496 میں ایک مشہور سیاح کولمبس نے نئی دنیا یعنی امریکہ دریافت کر ڈالی اور 1498 میں پرتگیزیوں کا ایک جہاز ران واسکوڈی گاما افریقہ کے جنوب میں راس امید تک پہنچا اور پھر وہاں سے ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ پر پہنچا اس طرح ایک نیا راستہ دریافت ہوگیا

پرتگیزوں کا عروج


کالی کٹ کا راجہ زمورن واسکوڈی گاما سے بڑی مہربانی سے پیش آیا اور اپنے علاقہ میں تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی آہستہ آہستہ پرتگیزیوں نے ساحل مالابار پر اپنا اقتدار قائم کر لیا ۔1500  میں فرانسسکو المیڈا ہندوستان میں پرتگیزیوں کے مقبوضات کا پہلا وائسرائے مقرر ہو کر آیا اس نے اہل عرب کو شکست دی جس سے ہندوستانی تجارت پر پرتگیزیوں کے قبضہ میں آگئی ۔

البوقرق


المیڈا کے بعد 1505 میں البوقرق ہندوستان میں پرتگیزیوں کا وائسرائے مقرر ہو کر آیا،وہ درحقیقت ہندوستان پر پرتگیزی حکومت کا بانی خیال کیا جاتا تھا اس نے بمبئی سے قریب سلطان بیجا پور سے گوا کا علاقہ چھین کر اسے اپنا دارالخلافہ بنایا اس کے بعد اس نے جزیرہ ملکا پر قبضہ کرلیا وہ ایک قابل جرنیل اور منتظم حاکم تھا اس نے دس سال کے عرصہ میں تجارت کو اتنی ترقی دی کہ پرتگیزوں کی تجارتی کوٹھیاں افریقہ خلیج فارس ہندوستان اور جزائر شرق الہند میں قائم ہوگی،اس نے تعلیم کے لیے اسکول جاری کیے رسم ستی کو بند کرنے کی کوشش کی ۔ البوقرق کے بعد گوا دمن دیو اور بیسین پر پرتگیزیوں کا قبضہ ہوگیا مگر سترہویں صدی کے شروع میں ان کو زوال آنا شروع ہو گیا اب صرف گوا دمن اور دیو کے علاقے رہے ۔

پرتگیزیوں کے زوال کے اسباب

پرتگیز افسر بڑے مغرور اور جابر تھے ان کا سلوک اپنی رعایا کے ساتھ بہت برا تھا اور مسلمانوں سے خاص کر بڑی نفرت کرتے تھے

پرتگیزوں نے مذہبی رواداری کو چھوڑ کر لوگوں کو زبردستی عیسائی بناناشروع کردیا
خزانہ خالی ہونے کے باعث پرتگال سے مالی مدد بالکل بند ہو گئی تھی
1580 میں میں پرتگال کا ملک شاہ اسپین کے ماتحت ہوگیا اور اسپین اپنے وسیع مقبوضات کے مقابلہ میں پرتگال کے مقبوضات کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکا
البوقرق کے جانشین اتنے قابل اور منتظم نہ تھے انہوں نے دیسی ریاستوں کے جھگڑوں میں مداخلت شروع کر دی جس سے انتظام خراب ہوگیا
سترہویں صدی میں دیگر یورپین اقوام بھی ہندوستان میں تجارت کے لیے آئیں جن کا مقابلہ پرتگیز نہ کر سکے

ڈچ

ہالینڈ کے باشندے ولندیز یا ڈچ کہلاتے ہیں سترویں صدی میں ڈچ سب سے زیادہ بحری طاقت کے مالک تھے وہ جہاز سازی اور جہاز رانی میں بہت ماہر تھے پرتگیزیوں کو ہندوستان کی تجارت سے مالا مال ہوتے دیکھ کر انہوں نے بھی ہند کی تجارت سے ہاتھ رنگنے چاہے چنانچہ ہالینڈ میں بھی بہت سی تجارتی کمپنیاں مشرقی ممالک سے تجارت کرنے کی غرض سے قائم ہوگییں ۔ 1602 می ان تمام کمپنیوں کو ملا کر ایک ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی گئی جس کو حکومت ہالینڈ نے بھی امداد دینے کا وعدہ کیا ۔ ولندیزوں نے جزیرہ جاوا میں بیٹھو یا کو مشرقی مقبوضات کا صدر مقام بنایا اور آہستہ آہستہ تمام جزائر پر قابض ہوگئے ۔ بعد ازاں انہوں نے مچھلی پٹنم ہگلی چنسرا قاسم بازار پٹنہ ڈھاکہ سورت احمد آباد اور اگرہ ہمیں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کرلی ۔
اسی زمانہ میں انگریزوں نے بھی ہندوستان سے تجارت شروع کر دی اس لیے ولندیزوں کے  بہت سے مقامات چھن گئے 1759 میں انگریزوں نے چنسرہ کا مقام بھی فتح کرلیا اس سے ولندیزوں کی  طاقت کا خاتمہ ہو گیا صرف جاوا اور سمارٹرا دو جزیرے ولندیزوں کے پاس رہ گئے ۔

انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی


پرتگیزیوں اور ڈچ ہندوستان کی تجارت سے فائدہ اٹھاتے دیکھ کر انگریزوں کو بھی ہندوستان سے تجارت کرنے کا خیال پیدا ہوا چنانچہ 1600 میں ملکہ الزبتھ کی اجازت سے انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی شروع شروع میں انگریزوں نے گرم مصالح کی تجارت کے لئے جزائر شرق الہند کا رخ کیا لیکن ڈچ لوگوں نے بڑا مقابلہ کیا اس لئے مجبور ہوکر انہیں ہندوستان کا رخ کرنا پڑا ۔

انگریزوں کی ابتدائی بستیاں


1608 میں  کیپٹن ہاکس نے بادشاہ جہانگیر سے سورت میں کوٹھی بنانے کی اجازت حاصل کرلی مگر بعد ازاں پرتگیزیوں کے مخالف سے منسوخ ہو گئی ۔ 1612 میں انگریزوں نے پرتگیزیوں کو سوالی کی بحری لڑائی میں شکست فاش دے کر ان کی طاقت کو ملیامیٹ کر دیا ۔
1615 میں شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں سر طامس رو انگلستان کا سفیر بن کر آیا اور کمپنی کے لئے تجارتی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوا،شاہی فرمان کے مطابق سورت احمد آباد میں انگریزوں کو تجارتی کوٹھیاں کھولنے کی اجازت مل گئی،
1636 میں  ڈاکٹر بٹن نے شاہجہان کی لڑکی جہاں آرا بیگم کا علاج کیا اس سے بادشاہ نے خوش ہو کر انگریزوں کو بنگال میں بلا محصول تجارت کرنے اور تجارتی کوٹھیاں کھولنے کی اجازت دے دی چنانچہ بالاسور کے مقامات پر انگریزوں نے تجارتی کوٹھیاں بنا لی ۔

1640 میں  کمپنی نے چندر نگری کے راجہ سے کچھ زمینی علاقہ لے کر مدراس شہر کی بنیاد ڈالی اور وہاں قلعہ سینٹ جارج تعمیر کرایا،1690 میں انگریزوں نے دریائے ہگلی کے کنارے کلکتہ شہر کی بنیاد ڈالی اور بعد میں قلعہ فورٹ ولیم بنوایا ۔ 1698 میں انگلستان کے کچھ تاجروں نے ملکہ ایک نئی کمپنی کھول دی ۔ کچھ عرصہ ایک دونوں کمپنیاں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی رہی مگر بعد میں دونوں کمپنیاں متحد ہوگئی اور ان کا نام متحدہ ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا گیا آہستہ آہستہ اس  متحد کمپنی نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کی بنیاد ڈالی 1857 کے غدر کے بعد اس کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ہندوستان پر شاہ برطانیہ حکومت کرنے لگے ۔

فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی


دوسرے ملکوں کی دیکھا دیکھی اہل فرانس نے بھی ہندوستان کی تجارت سے فائدہ اٹھانا چاہا چنانچہ 1604 میں ایک تجارتی کمپنی قائم بھی لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی اس کے بعد 1664 میں شاہ فرانس کے وزیر کولبرٹ فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی جس نے بہت جلد ہی ہندوستان میں سورت اور مسولی پٹم پر تجارتی کوٹھیاں قائم کرلی ۔ 1692 میں چندر نگر واقع بنگال کے مقام پر ایک فیکٹری بنائی گئی اور اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی اور ماہی اور کاریکل پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا ۔ کمپنی نے ڈیوماس کو فرانسیسی مقبوضہ کا پہلا گورنر بنا کر بھیجا اس نے ہندوستانی فوج بھرتی کرکے فرانسیسی طاقت کو مضبوط کیا اس کے بعد ڈوپلے جیسے لائق اور مدبر گورنر ہندوستان میں آئے جن کی قابلیت اور حسن انتظام سے فرانسیسی اقتدار کو بہت ترقی ہوئی ۔
تقریبا ایک سو سال تک اپنی محض تجارتی کمپنی رہیں بعد ازاں حالات کی تبدیلی نے ان کو جنگ کرنے پر مجبور کیا چنانچہ ان کی انگریزوں کے ساتھ بہت سی لڑائیاں ہوئیں اور انجام کار فرانسیسیوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا

No comments:

Post a Comment