Tuesday, 10 September 2024

’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘‘ ڈابھیل، گجرات کا روحانی سفر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘‘  ڈابھیل، گجرات کا روحانی سفر

حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ایک خوبصورت بات تحریر فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں "علم کی وجہ سے بندہ امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے" ۔ حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بات علم اور علماء کی فضیلت میں لکھی ہے ۔ ۔ میں حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں "اہل علم اور جید علمائے دین علمائے حق کی صحبت کی برکت سے ایک عام آدمی بھی امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے"

یوں تو ڈابھیل جانے کی خواہش برسوں سے دل میں تھی مگر زندگی میں کبھی ایسے حالات نہیں آئے جس کی وجہ سے میں ڈابھیل کا سامان سفر باندھتا ۔ ڈابھیل جانے کی خاص وجہ جو شروع سے میرے دل میں تھی وہ یہ کہ بڑے حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم سے ملاقات اور ہندوستان کے قدیم مدرسہ جامعہ ڈابھیل کو دیکھنا جہاں جید اکابر علماء مشائخ نے اپنی خدمات انجام دی تھیں ۔ اس بار کے سفر میں، میں نے ایک بات یہ بھی شامل کر لی تھی کہ بڑے حضرت سے ملاقات پر ان سے ایک مخصوص دعا کی گزارش کرنی تھی ۔

میرے لیے یہ راستہ حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کے خلیفہ حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب اتھنی ان کے ذریعے آسان ہوا۔ ۔

سن لے اے دوست! جب ایام بھلے آتے ہیں

گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

چند روز پہلے حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب کا مجھے فون آیا وہ کہنے لگے کہ میں ڈابھیل جا رہا ہوں اگر آپ کا آنے کا ارادہ ہے تو بروقت بتا دیں کیونکہ مجھے پہلے سے قاری عبدالحنان صاحب کو اطلاع دینی اور اجازت لینی ہوتی ہے ۔ میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی اس چیز کا انتظار تو مجھے برسوں سے تھا میں نے فورا حامی بھر لی ۔ ۔ ۔ مولانا نے سعید بھائی اتھنی ان کے ذریعے ہم دونوں کا ریزرویشن مریج سے سورت سنیچر 7 ستمبر 2024 کا کروایا ۔ ۔ ۔ چونکہ میرا سسرال میرج سے بالکل قریب ہے اور بچوں کے دو دن کی چھٹیاں بھی تھیں اسی غرض سے میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اپنے سسرال شیڑشال مہاراشٹرا ڈابھیل سفر سے ایک روز پہلے ہی جمعہ کے شام میں چلا گیا ۔ ۔ رات کا کھانہ میں نے اپنی خالہ کے گھر کھایا جو یہیں شیڑشال میں رہتی ہیں ۔ ۔ رات عشاء کی نماز کے بعد فورا سو گیا چونکہ اگلے دن کا طویل سفر تھا ۔ ۔ صبح بعد نماز فجر چائے ناشتے کے بعد اپنے کچھ سسرالی رشتہ داروں کی ملاقات کر لی ۔ ۔ صبح ساڑھےگیارہ بجے میرے فرزند محمد تمیم اور میری دختر نائلہ ان دونوں کو لے کر میرے سسر مجھے بس اسٹاپ چھوڑنے کے لئے کاگواڑ کی طرف نکل پڑے ۔ ۔ ۔ چند منٹوں میں ہم لوگ کاگواڑ کے بس سٹاپ پر پہنچے ہی تھے کہ میرج کے لیے بس لگی ہوئی تھی جب میں اتر کر جانے لگا تو مجھے تنہا بس میں چڑھتا دیکھ میری دختر رونے لگی اور میرے ساتھ آنے کی ضد کرنے لگی میرے سسر نے بہلا پھسلایا  ۔ ۔ ۔ بس میں سوار ہوا کئی کلو میٹر تک دختر کا روتا ہوا چہرہ نظروں کے سامنے آ رہا تھا ۔ ۔  تقریبا 12 بج کر 45 منٹ کے قریب میرج بس سٹاپ پہنچ گیا ۔ ۔ وہاں پہنچ کر میں نے اول وقت میں ہی نمازِ ظہر ادا کر لی اور وہاں سے نزدیک ایک ہوٹل میں گیا اور دوپہر کے لیے کھانا پیک کروا لیا ۔ ۔ ویسے گھر سے نکلتے ہوئے اہلیہ محترمہ نے تلی ہوئی مچھلیاں پیاک کر دی تھیں ۔ ۔ میرج بس اڈے سے میرج کا ریلوے اسٹیشن زیادہ دور نہیں ہے ۔ ۔ وہاں سے میں پیدل ہی اسٹیشن کی طرف بڑھا،راستے میں چیزیں فروخت کرنے والے لوگوں کی آوازوں کے شور کے درمیان سے گزرتا ہوا آخر کار میں ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر میں نے اپنے کرم فرما مولانا حبیب اللہ صاحب کو فون کیا وہ بھی میرج سے بالکل قریب تھے ۔ اسٹیشن پر ایک بینچ پر بیٹھ گیا چند لمحوں بعد ایک صاحب میرے قریب آ کر بیٹھے جو دراصل کڑچی کے باشندے تھے کئی دیر تک ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا حبیب اللہ صاحب کی تشریف آوری ہوئی ۔ ویسے تو ٹرین کا ٹائمنگ دوپہر 2:10 کا تھا مگر آدھے گھنٹہ کی تاخیر سے ٹرین پلیٹ فارم پر نمودار ہوئی ۔ ۔ ٹرین میں بیٹھنے کے دس پندرہ منٹ کے بعد ہم نے اپنا توشہ دان کھولا جس میں چکن بریانی اور شیڈشال سے اہلیہ محترمہ نے جو مچھلیاں فرائی کر کے بھیجی تھی ہم نے خوب سیر ہو کر کھائیں ۔ ۔ ۔ الحمدللہ مولانا کو مچھلیاں بہت پسند آئیں ۔ ۔ ۔کچھ دیر کے بعد میں نے وہیں سے زومیٹو پر پونہ مدینہ ہوٹل سے رات کے کھانے کا آڈر کر لیا ۔ ۔ جو بر وقت ٹھیک رات آٹھ بجے پارسل مل گیا ۔ ۔ ۔ کھانا کھا کر عشاء کی نماز ادا کر کے سو گئے ۔ ۔ رات کے تقریبا تین بجے کے قریب ہم لوگ سورت اسٹیشن پہنچ گئے باہر آ کر دیکھا تو سورت اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے لوگ تہوار کی خریداری کے لئے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں ۔ یقینا سورت شہر بہت جلدی جاگتا ہے اور شاید اسی وجہ سے یہ ہندوستان کے ترقی یافتہ شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔ چائے پینے کے بعد ہم لوگ ایک آٹو رکشہ میں جامعہ ڈابھیل کی طرف روانہ ہو گئے جو وہاں سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔

 

جامعہ دھابیل کی مختصر تاریخ


احمد میاں لاجپوری کے ایک شاگرد احمد حسن بھام سملکی نے سملک مسجد، سملک میں "مدرسہ تعليم الدین" کو قائم کیا تھا، پھر احمد ابراہیم بزرگ سورتی سملکی کے انتقال کے بعد مدرسہ کو ڈابھیل منتقل کیا گیا۔ احمد ابراہیم بزرگ سورتی سملکی کو بطور پرنسپل مقرر کیا گیا تھا اور انھوں ہی نے مدرسہ تعلیم الدین کا نام جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل تبدیل کیا تھا۔

انور شاہ کشمیری، شبیر احمد عثمانی، عبد الرحمن امروہوی، علامہ محمد یوسف بنوری ، محمد شفیع دیوبندی ، مولانا محمد ایوب اعظمی، مولانا اکرام علی بھاگلپوری اور مولانا واجد حسین دیوبندی اس جامعہ کے اساتذۂ حدیث رہے ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کو علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات کے بعد جامعہ کا شیخ الحدیث مقرر کیا گیا تھا۔مفتی احمد صاحب خان پوری موجودہ شیخ الحدیث ہے۔

حوالہ : ویکی پیڈیا

جب ہم جامعہ میں داخل ہوئے تو گیٹ مین نے تفصیلات پوچھیں مولانا صاحب نے تفصیلات بتائیں ہم لوگ گیٹ کے اندر داخل ہوئے اور اپنا سامان مسجد کے سامنے موجود حوض کے اوپر رکھا جسے یہاں کشتی کہتے ہیں ۔ ۔ ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کیا تہجد کی نماز ادا کی اور فجر کی اذان تک ذکر و دعا میں مصروف ہو گئے ۔ کچھ طلبہ اس وقت بھی مسجد کے کونے میں بیٹھے ذکر جہری میں صروف تھے ۔ فجر کی اذان کے بعد ایک ایک کر کے مہمانان رسول کی آمد مسجد میں ہونے لگی چند منٹوں میں مسجد طلبہ سے بھر گئی ان میں اکثروں کے چہرے سرخی و سفیدی مائل نورانی چہرے تھے چونکہ جماعت میں تاخیر تھی کوئی ذکر کوئی تلاوت میں مسلسل مصروف تھا ۔

بعد نماز فجر مولانا صاحب کے فرزند مولانا اسد اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی جو عربی ششم میں پڑھتے ہیں ۔ وہاں سے مولانا  کے فرزند ہمیں چائے پینے کے لئے لے گئے ایک بڑے ہال میں سلیقے سے دسترخوان بچے تھے اور بٹر رکھے ہوئے ہم لوگ چائے اور بٹر کھا کر مہمان خانے کی طرف گئے ۔ ۔ ۔ جہاں ہم لوگوں نے آرام کیا ۔ تقریبا صبح کے 10 بجے تک نہانے دھونے ناشتے سے فارغ ہو کر ہم مسجد کے طرف چلے جہاں حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کا درسِ بخاری تھا ۔ حضرت 10:20 پر بذریعہ ویل چیئر کے مسجد میں داخل ہوئے ۔ حضرت کا پرنور چہرہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔ ۔ ان طلبہ کے ساتھ بیٹھے جب حضرت کا درس سن رہا تھا بار بار دل میں حدیث کا یہ ترجمہ گونج رہا تھا وہ یہ کہ جو کسی جماعت کی تعداد بڑھا دے اس کا شمار انہی لوگوں میں ہے ۔ ۔ حضرت کی شخصیت تو بحر العلوم ہے درس کے دوران ایسے ایسے نقطے بیان کرتے تھے گویا انسان کی عقل حیران رہ جائے ۔ ۔ درس بخاری کی حضرت کی تشریح کردہ احادیث کو بہت مرتبہ پڑھا اور سنا تھا مگر جس انداز سے حضرت نے سمجھایا اور بیان کیا شاید ان احادیث کو میں زندگی بھر کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ۔ درس کے بعد طلبہ اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے اور حضرت کو ویل چیئر کے ذریعے سے کار تک پہنچایا گیا حضرت کار میں سوار ہو کر محمود نگر کی طرف چلے گئے جہاں حضرت کا مکان تھا اور ان کے پیچھے پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت کی گھر کی طرف روانہ ہوا اور ہم بھی اس  قافلے میں شریک ہو گئے ۔ وہاں ایک بڑے ہال میں قاری عبدالحنان صاحب نے تعلیم شروع کی تعلیم کے بعد حضرت نے دعا فرمائی اور آئے ہوئے احباب نے اپنے اپنے احوال سنائے اور حضرت سب سے مصافحہ کر کے وہاں سے اپنے مکان کی طرف چلے گئے جو وہاں سے چند قدم کی دوری پر تھا ۔ ۔ ۔ سارے لوگوں نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد قاری عبدالحنان صاحب سے مولانا نے میری ملاقات کروائی اور ہمیں خصوصی مہمان خانے میں ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا ۔ ۔ اور ہمیں حضرت سے ملنے کا وقت عصر کے بعد دیا گیا ۔ ۔ ظہر کی نماز کے بعد ہم لوگ دوبارہ مہمان خانے میں آ گئے میں نے مولانا کی اجازت لے کر اہل خانہ کے لیے کچھ خریدداری کے لیے سورت چلا گیا ۔ ۔ مگر وہاں جا کر پتہ چلا کہ اتوار کے دن بازار بند رہتا ہے جس کی وجہ سے میں واپس تقریبا چار بجے لوٹ آیا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کی نماز کے لیے چلے گئے ۔ ۔ حضرت سے ملنے کے لیے لوگ قافلہ در قافلہ یکے بعد دیگرے حضرت کے گھر میں جاتے رہے اور ہم لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد ہمیں اجازت مل گئی ہم اندر مکان میں داخل ہوگئے ۔ دیکھا تو حضرت سفید رنگ کا بنیان اور سفید رنگ کی لنگی پہننے کرسی پر بیٹھے تھے ۔ ہم دونوں نے مصافحہ کیا اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئے ۔ یوں تو میں حضرت مفتی صاحب کی زیارت برسوں سے کرتا رہا ہوں مگر اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع آج زندگی میں پہلی مرتبہ ملا اتنا نورانی چہرہ  روشن چہرہ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کا نہیں دیکھا تھا ۔ مولانا حبیب اللہ صاحب نے حضرت کے مزاج پوچھے کے بعد اپنے مکان میں اجتماعی ذکر کی اجازت چاہی تو حضرت نے برجستہ اجازت دے دی ۔ ۔ مولانا نے جب طبیعت کے بارے میں جب پوچھا تو کہا کہ پیروں میں درد رہتا ہے اور واقعتا حضرت کے پیر بہت سوجھے ہوئے تھے ۔ مولانا نے حضرت سے اجازت لے کر حضرت کے قدموں کے قریب بیٹھے اور پیروں کو پکڑ کر دباتے ہوئے کچھ پڑھتے رہے ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں حضرت کے قریب گیا اور میں نے اپنا تعارف کرایا کہ حضرت میرا نام آفتاب عالم پٹیل ہے ۔ ۔ اور جس نیت سے میں نے یہ سفر کیا تھا اس دعا کا ذکر میں نے حضرت سے کیا حضرت نے دعا دی اور میں نے اس پر آمین کہا اور اللہ کی ذات سے امید بھی رکھی کہ حضرت کی زبان سے نکلی ہوئی اس دعا کو اللہ تعالی ضرور قبول کرے گا ۔ حضرت سے اجازت لے کر ہم ان کے مکان سے باہر نکل کر جامعہ کی طرف گئے جہاں مولانا اپنے پرانے اساتذہ سے ملاقات کرنا چاہ رہے تھے ۔ ۔ مغرب کی نماز جامعہ کی مسجد میں ادا کی ۔ مغرب کے بعد میں نے روزانہ کے معمولات پورے کیے ۔ ۔ بعد نماز عشاء کھانا کھایا اور حضرت کے چھوٹے فرزند مولانا ارشد صاحب سے مختصر سی ملاقات ہوئی ۔ کھانے کے بعد فورا سو گئے ۔ ۔ رات کے تقریبا 4:15 بجے مولانا نے مجھے جگایا ۔ ۔ جلدی اٹھو ذکر جہری کے لیے حضرت کے مکان پر جانا ہے ۔ ۔ اتنا سننا تھا میں فورا اٹھا وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر حضرت کے مکان کی طرف گئے ۔ حضرت کے چھوٹے فرزند کے علاوہ ہم  پانچ چھ لوگ تھے جو ذکر جہری میں شامل تھے ۔ میں حضرت کے بالکل قریب ہو کر بیٹھا تھا ۔ جب حضرت الا اللہ کی ضرب لگاتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ضرب میرے سینے پر لگ رہی ہے ۔

نفیِ ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا للہ کا

علامہ اقبال

مطلب: جو شخص معرفت حق سے آگاہ ہو جاتا ہے اسے یہ باور کرنے میں تاخیر نہیں ہوتی کہ نفی کے بعد ہی اثبات کا مرحلہ آتا ہے ۔ اپنے وجود کو مٹانے سے ہی رب ذوالجلال کی معرفت نصیب ہوتی ہے ۔

ذکر مکمل ہونے کے بعد ہم لوگ مہمان خانے کی طرف چلے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد فجر کی اذان ہوئی ہم لوگ نماز ادا کرنے کے لیے قریب کی مسجد میں چلے گئے ۔ نماز فجر کے فورا بعد مہمان خانے میں ناشتے کا انتظام کیا گیا تھا گجراتی ناشتہ کرنے بعد مولانا ذکر میں مصروف ہو گئے میں ادھرادھر ٹہلتا رہا ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آرام کرنے لیٹ گیا ۔ ۔ اور تقریبا ساڑھے نو بجے اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہوا اور ٹھیک 10 بجے مولانا حضرت کے درسِ بخاری میں شرکت کے لئے آگے نکل گئے ۔ ۔ میں نے درس بخاری میں شرکت کی نیت سے نئے کپڑے اور نئی ٹوپی لی تھی ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں بھی تیار ہو کر حضرت کے درس میں شامل ہو گیا ۔ آج کے درس میں حضرت پاکی ناپاکی اور غسل کے متعلق احادیث بیان کر رہے تھے ۔ اس درس میں ایسی کئی نئی باتیں تھیں جو میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سنی تھیں اور واقعتا اس درس سے مجھے بہت بڑا فائدہ ہوا ۔ درس کے بعد حضرت کو قاری عبدالحنان صاحب  ویل چیئر کے ذریعے  کار کی طرف لے گئے اور وہاں سے حضرت اپنے مکان کی طرف گئے ۔ ۔ تقریبا 12 بجے کے قریب ہم لوگ مہمان خانے میں گئے جہاں پہنچنے کے بعد مہمان خانے کے ناظم نے ہمیں دوپہر کا کھانا کھلایا ۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے ظہر کی نماز ادا کی ظہر کی نماز کے بعد میں جامعہ کا کتب خانہ دیکھنے کے لیے چلا گیا ۔ کتب خانے کے ذمہ دار سے میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان سے اجازت چاہی کہ میں کتب خانہ دیکھنا چاہتا ہوں انہوں نے بخوشی اجازت دے دی ۔ ۔ کتب خانے میں داخل ہوتے ہی کتب خانے کے بائیں جانب ایک کانچ کی الماری میں  کتابوں کے قلمی نسخے ، پرانے خطوط، قران کے قلمی نسخے ، اور بھی بہت سی پرانی تحریریں تھیں ۔ ۔ اس کتب خانے میں تقریبا 40 ہزار کتابیں ہیں ۔ میں بہت دیر تک کتب خانے میں الگ الگ موضوعات کی کتابوں کی ہیڈنگ پڑھتے ہوئے سارے کتب خانے کا دورہ کیا اور کتب خانے کے ذمہ دار کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے باہر نکل آیا ۔ ۔ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم جامعہ سے واپسی کے سفر کے لئے نکلے ۔ بیکری سے بچوں کے لیے کھانے کے لیے چیزیں اور عطر وغیرہ خریدنے کے بعد ہم لوگ وہاں پہنچے جہاں سے ہم کو بس پکڑنی تھی ۔ رات کے کھانے کے لیے چکن بریانی کا پارسل ساتھ میں لے لیا ۔ اور ہائی وے سے ذرا دور ہٹ کر مغرب کی نماز ادا کی ۔ تھوڑی دیر کے بعد بس آئی ۔ ہم لوگ بس میں سوار ہوئے ۔ بس جب نکلی تو مجھے بار بار حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کا نورانی چہرہ نظر آ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں گونج رہا تھا ۔

جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی

الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کی سینوں میں

علامہ اقبال

مطلب: اے رب ذوالجلال! یہ تو بتا کہ اہل دل ( اللہ والوں)  کے سینوں میں وہ کون سی قوت پوشیدہ ہو سکتی ہے جو اپنی ایک پھونک سے بجھی ہوئی شمع کو پھر سے روشن کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تو نے ایسی کون سی صلاحیت پیدا کی ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تقریبا رات کے 10 بجے بس ایک جگہ ٹھہر گئی جہاں ہم لوگوں نے عشاء کی نماز ادا کی اور کھانا کھایا اور دوبارہ بس میں سوار ہو گئے رات کے تقریبا ڈھائی بجے کے قریب جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہم لوگ ممبئی شہر میں داخل ہو چکے ہیں ۔ ۔ ممبئی میں زوردار بارش ہو رہی تھی ۔ ۔ اور جا بجا سڑکوں پر گاڑیاں چل رہی تھیں چائے کے ٹھیلے شروع تھے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے گویا کہ شاید رات کو جگتے ہوں گے اور دن کو سوتے ہوں گے ۔ بارش تیز تھی مگر اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہے تھی البتہ بجلی کے کھمبوں سے نکلنے والی روشنی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ بارش کے قطرے اسی روشنی سے نکل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ممبئی شہر کی گھٹتی بڑھتی عمارتوں کو دیکھتے دیکھتے میں سو گیا ۔ ۔ اور دوپہر کے 12 بجے کے قریب کولہاپور پہنچا جہاں میرے سسر پہلے سے میری بائک لے کر میرا انتظار کر رہے تھے ۔ ۔ مولانا سے اپنے سسر کی ملاقات کرائی ۔ ۔ وہاں سے مولانا میرج کی بس کے لئے نکلے ۔ ۔ میرے سسر بس اسٹاپ کی طرف اور میں وہاں سے کاگل نیپانی ہوتا ہوا کروشی کی طرف نکلا ۔ ۔ ۔ اس طرح الحمد للہ بخیر عافیت سے واپس لوٹا ۔ ۔ ۔

 

آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل(  شاہ نوری )

کروشی بلگام کرناٹک انڈیا

8105493349

 

 


3 comments:

  1. ماشاء االلہ ایسا لگا کہ میں نے خود نے ہے صفر کیا ہو اور حسرت سے ملاقات کی ہو اللہ ہمیں بھی علماء کی زیارت نصیب فرمائے ، آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین جزاک اللہ خیرا

      Delete
  2. Mashallaha. Bhut bahter andaaz me Safar Nama tahreer huwa. Allaha khub barkat de

    ReplyDelete