Friday, 15 February 2019

محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 9
غیاث الدین بلبن 1266 ء سے1287 ء

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

غیاث الدین بلبن ناصر الدین کی وفات کے بعد ساٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا بلبن در اصل التمش کا ایک زرخرید غلام تھا ۔ اور اپنی بہادری اور وفاداری کی وجہ سے بادشاہ کے اعلی رتبہ تک جا پہنچا وہ بڑا بارعب بادشاہ تھا اور دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا تھا ۔
بلبن کے عہد میں بغاوتیں
 اس کے عہد میں میواتیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا بادشاہ نے اسے بڑی سختی سے فرو کیا بنگال کے صوبہ دار طغزل خان نے بادشاہ کو بوڑھا سمجھ کر خراج دینا بند کردیا اور بغاوت کا جھنڈا بلند کیا اس نے دو دفعہ شاہی فوجوں کو بھی شکست دی آخر بلبن خود فوج لے کر بنگال پر حملہ آور ہوا جہاں طغرل خان نے شکست کھائی اور قتل ہوا ۔ بلبن نے اس کے ساتھیوں کو قتل کروا دیا اور اپنے بیٹے بغرا خان کو گورنر بنگال مقرر کردیا
مغلوں کی روک تھام





بلبن کے عہد میں مغلوں نے ہندوستان پر کئی بار حملے کیے بادشاہ نے ان کی روک تھام کے لیے شمال مغربی سرحد پر کی مضبوط قلعے بنوا دیے اور ان میں مسلح فوج رکھ دی اور ان کی نگرانی کا کام اپنے بیٹے محمد شہید خان کے سپرد کیا محمد نے کئی بار شکست دے کر مغلوں کو واپس لوٹا دیا ۔ آخر 1285 ءمیں مغلوں سے لڑتا ہوا لڑائی میں مارا گیا بلبن کو اس کی موت کا اتنا صدمہ ہوا کہ وہ 1286 ءمیں اسی غم میں فوت ہو گیا ۔
بلبن کا دربار
بلبن کا دربار بڑی شان و شوکت والا تھا اس کے درباری قوانین بڑے سخت تھے دربار میں نہ تو خود کبھی ہنستا تھا اور نہ کسی دوسرے کو ہنسنے کی جرات ہوتی تھی کوئی سردار درباری لباس پہنے بنا اس کے دربار میں نا آسکتا تھا اس کے دربار میں کئی بادشاہ مغلوں سے بھاگ کر پناہ گزیں تھے بلبن بڑا علم دوست بادشاہ تھا اسی وجہ سے اس کے دربار میں عربی اور فارسی کے شاعر جمع رہتے تھے فارسی کے مشہور شاعر امیر خسرو دہلوی اس کے درباری شاعر تھے ۔

بلبن کا نظام سلطنت
بلبل بڑا کابل بادشاہ تھا اس نے مغلوں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے دہلی سے لے کر اپنی سلطنت کی سرحد تک کے تمام قلعوں کی مرمت کرائی اور کئی نئے قلعے تعمیر کروائے اس نے اپنی فوج کو اس سر نو ترتیب دی نکمے افسروں کو نکال کر بہادر وفادار سرداروں کو ملازم رکھا اس نے امراکی طاقت کو ختم کر دیا اور اپنی حکومت کو مضبوط کیا اس نے محکمہ انصاف قائم کیا جہاں بلا رد و رعایت تمام مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا تھا ۔ اس نے محکمہ جاسوسی کو بہت مضبوط کیا اس سے اپنے تمام سلطنت کے واقعات کی خبر ملتی رہتی تھی اس نے شراب پینا بند کردیا اور اخلاقی سختیوں کو بڑی سختی سے دبا دیا ۔

دستور جہانبانی

بلبن اپنے بیٹوں سے ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ سلطان شمس الدین التمش فرماتے تھے کہ میں نے معزالدین بنا بہاؤالدین سام کی محفل میں دو بار سید مبارک غزنوی سے سنا ہے کہ بادشاہوں کے اکثر افعال شرک کی حدود کو چھو لیتے ہیں اور بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتے ہیں لیکن وہ اس وقت اور بھی زیادہ گنہگار ہو جاتے ہیں جبکہ ان چار باتوں پر عمل نہیں کرتے اور چار باتیں یہ ہیں
بادشاہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنی شان و شوکت کے اور رعب و داب کو مناسب موقع پر استعمال کرے اور خدا ترسی اور خلق خدا کی بھلائی ہمیشہ اس کے پیش نظر رہے

بادشاہ کو ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے ملک میں بدکاری مروج نہ ہو فاسقوں اور بے غیرتوں کو ہمیشہ ذلیل اور رسوا کرنا چاہیے

امور سلطنت کو عقلمند اور مہذب لوگوں کے سپرد کرنا چاہیے خلق خدا پر جن کو حاکم مقرر کیا جائے وہ دیندار اور خدا ترس لوگ ہونے چاہیے بد عقیدہ لوگوں کو ملک میں پنپنے نہیں دینا چاہیے کیونکہ ایسے لوگ رعایہ کو غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں

چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ بادشاہ کو چاہیے کہ وہ انصاف سے پورا پورا کام لے ماتحتوں کی کارگزاری کا  بنظر عدل جائزہ لیتا رہے تاکہ ملک سے ظلم و ستم کا نشان تک مٹ جائے پس تم سب جو میرے جگر گوشے ہو یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر تم میں سے کسی نے کسی عاج اور لاچار کو ستایا تو اس کی پوری پوری سزا دوں گا تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 194

خاندان غلاماں کا خاتمہ

بلبن کی موت کے بعد اس کے بیٹے بغرا خان کو تخت پیش کیا گیا مگر اس نے بادشاہ بننے سے انکار کردیا اس لئے اس کا بیٹا کا کیقباد تخت پر بیٹھا ۔ وہ بڑا نالائق اور عیاش تھا اس کے عہد میں بڑی بدنظمی پھیلی اور بہت سے صوبیدار خود مختار ہو گیا آخر 1290 ء میں جلال الدین خلجی حاکم پنجاب نے اسے قتل کروا دیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا اس طرح خاندان غلاماں کا خاتمہ ہوا

No comments:

Post a Comment