Tuesday, 19 February 2019


محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 10
جلال الدین فیروز شاہ خلجی 1290 سے 1296

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

جلال الدین خاندانی خلجی کا بانی تھا وہ ستر سال کی عمر میں کیقباد کو قتل کرکے دہلی کے تخت پر بیٹھا وہ بڑا کابل جرنیل اور دلیر بادشاہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا ۔ اس لئے اس کے عہد میں بغاوتیں ہونےلگیں اس کے عہد میں مغلوں نے بھی ہندوستان پر کئی حملے کیے لیکن جلال الدین نے انہیں شکست دی اس کے عہد میں کچھ مغل دہلی کے قریب ہی آباد ہو گئے اور انہوں نے مغلپورہ نام کی 
بستی بسائی جلال الدین نے مالوہ پر بھی حملہ کیا مگر ناکام رہا اس کے عہد کا سب سے مشہور واقعہ دکن کی مہم ہے ۔


شمار
نام سلاطین
عہدِ حکومت
1
13 جون 1290ء – 20 جولائی 1296ء
2
20 جولائی 1296ء – 4 جنوری 1316ء
3
5 جنوری 1316ء – 13 اپریل 1316ء
4
14 اپریل 1316ء – مئی 1320ء
5
مئی 1320ء – 8 ستمبر 1321ء

لفظ خلجی کی اصل

جب غوری فرمانرواؤں اور ان کے پروردہ غلاموں نے ہندوستان فتح کیا تو خلجیوں کے گروہ کے گروہ ہندوستان آکر شاہی ملازمتیں اختیار کرنے لگے ان خلجیوں میں سے بعض افراد نے بہت اقتدار اور رسوخ حاصل کیا اور شاہی امراء اور اراکین سلطنت کے معزز عہدوں تک پہنچے ۔ ان مقتدرامرائے خلجی میں سلطان جلال الدین فیروز شاہ اور سلطان محمود خلجی مندوی کے باپ بھی تھے ۔ متذکرہ بالا مورخ کا بیان ہے کہ کالج خان کی نسبت سے ان امراء کو عام طور پر قالجی کہا جاتا تھا کثرت استعمال سے الف گر گیا اور "ق"  کا "خ" سے تبادلہ ہو گیا اور یوں کالجی سے خلجی بن گیا ۔ لیکن تاریخی سلجوقیاں کے مصنف کی رائے اس سے مختلف ہے اس کا بیان ہے کہ ترک بن یافث کے 11 بیٹوں میں سے ایک کا نام خلج تھا خلجی اسی کی اولاد کو کہا جاتا ہے مورخ فرشتہ بھی اسی رائے کو تسلیم کرتا ہے اس لیے کہ اگر نظام الدین کے بیان کو مان لیا جائے تو پھر خلجیوں کا وجود چنگیزی احد کے بعد ثابت ہوتا ہے اور بالکل غلط ہے کیونکہ معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر ناصرالدین اور سلطان محمود غزنوی کے بہت سے امیر خلجی کہلاتے تھے اور ایک بات مسلم ہے کہ یہ دونوں حکمران چنگیز سے پہلے گزرے ہیں ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قالج خان خود بھی خلجی خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور سلطان جلال الدین دہلوی اور سلطان محمود مندوی اس کی نسل سے ہوں ۔ تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 218

جلال الدین کا قتل

جلال الدین خلجی کشتی میں بیٹھا ہوا کلام مجید کی تلاوت کرتا رہا عصر کے وقت کشتی کنارے سے لگے بادشاہ کشتی سے اترا علاوالدین نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور اپنا سر رکھ دیا جلال الدین نے پیار سے اس کے گال پر ایک ہلکی سی چپت ماری  اور بڑے لطف آمیز لہجے سے کہا میں نے تجھے پیار اور لاڈ سے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اپنے حقیقی بیٹوں سے زیادہ تجھے عزیز رکھا ہے تیرے بچپن کی بو اب تک میرے کپڑوں سے نہیں گئی پھر بھلا تیرے دل میں خیال کیسے پیدا ہوا کہ میں  تیرے خلاف ہوں اور تیرا برا چاہتا ہوں یہ کہہ کر بادشاہ نے علاوالدین کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے کر کشتی کی طرف روانہ ہوا علاوالدین نے اس موقع پر ان لوگوں کو اشارہ کیا جو بادشاہ کو قتل کرنے کے لئے متعین کئے گئے تھے سمانہ کے ایک ذلیل سپاہی نے جس کا نام محمود بن سالم تھا بادشاہ پر تلوار کا وار کیا بادشاہ زخم کھا کر کشتی کی طرف دوڑا اور کہا اے بدبخت علاوالدین تو نے کیا کیا ابھی جلال الدین کشتی تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اختیارالدین اس کی طرف لپکا اختیارالدین جو جلال الدین کا پروردہ نعمت تھا اس نے بادشاہ کو پچھاڑ کر اس کا سر کاٹ لیا اس وقت غروب آفتاب کا وقت تھا بادشاہ کا سر لے کر اختیار الدین علاء الدین کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ کے وہ ہمراہی جو کشتی میں بیٹھے تھے کہ ملک خرم وغیرہ انہیں بھی علاوالدین کے حواریوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 236

No comments:

Post a Comment