Friday, 29 March 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 14
فیروز شاہ تغلق  1351 سے 1388

آفتاب عالم دستگیر پٹیل  کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

محمد تغلق کے بعد اس کا چچازاد بھائی فیرو شاہ تغلق تخت پر بیٹھا، اس نے 37 سال حکومت کی اس کا عہد ملک گیری کے لیے نہیں بلکہ رفاع عام کے کاموں کے لئے مشہور ہے ۔

فوجی مہمات

بنگال کا صوبہ محمد تغلق کے عہد میں خود مختار ہو گیا تھا اس لئے فیروز تغلق نے اس صوبہ پر دو دفعہ چڑھائی کی لیکن چنداں کامیابی نہ ہوئی اس لئے اس نے بنگال کو خودمختار تسلیم کر لیا ۔
1361 میں فیروز تغلق نے سندھ کے حاکم کو جو کہ باغی ہو گیا تھا شکست دے کر اطاعت قبول کرنے پر مجبور کیا اس نے اڑیسہ کے راجہ کو مطیع کیا اور نگرکوٹ کو باجگزار بنایا مگر اس نے دکن کو دوبارہ فتح کرنے کی بھی کوشش نہ کی ۔

انتظام سلطنت

محمد تغلق نے فتوحات کی طرف بہت دھیان نہ دیا بلکہ زیادہ توجہ ریا کی بہتری کی طرف دی اس کا نام رفاہ عام کے کارناموں کے لیے ہمیشہ یاد رہے گا ۔

اس نے محمد تغلق کے زمانہ کا تمام سرکاری قرضہ رعایا کو معاف کردیا

اس نے غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایک الگ محکمہ دیوانہ خیرات قائم کیا اور غریب لڑکیوں کی شادی کا انتظام بھی اسی محکمہ کے سپرد کیا

اس نے بوڑھے ملازموں کے لئے پینشن مقرر کی  بے روزگاروں کے لئے کام مہیا کیا

اس نے کی ہسپتال کھولے جن میں غریبوں کو دوا اور خوراک مفت دی جاتی تھی

اس نے تمام وحشیانہ سزائیں منسوخ کردی

اس نے قیدیوں کو دستکاریاں سکھاکر سوسائٹی کا مفید رکن بنایا اور غلاموں کو کام سکھا کر فوج میں ملازم رکھ لیا

اس نے زراعت کی ترقی کی طرف خاص توجہ دی اس نے دریائے جمنا اور ستلج سے نہریں  نکال کر موجودہ نہر جمن غربی  اس کے زمانہ کی یادگار ہے، اس نے مالیہ زمین کم کردیا اور وصولی لگان میں بہت نرمی کا برتاؤ کیا کاشتکاروں کو تنگ کرنے والے افسروں کو سخت سزائیں دیی

اس نے رفاہ عام کے کاموں میں خاص دلچسپی لی اس نے 854 تعمیرات کروائیں اس نے لوگوں کے لئے سڑکیں ،سراۓ، مسجدیں حمام ،ہسپتال، پل،بند، مدرسے اور مسافر خانے بنوائے، دہلی کے گرد کی باغات لگوائے اور پرانے زمانہ کی یادگاروں کی مرمت کا انتظام کیا

اس نے کی شہر آباد کئے دہلی کے قریب اپنے نام پر فیروزآباد شہر بسایا جو آج کل کوٹلہ فیروز شاہ کے نام سے مشہور ہے اس نے حصار فیروزہ اور فتح آباد کے نئے شہر بسائے اور سلطان جونا خان کے نام پر جونپور شہر آباد کیا 

اس نے طریق منصبداری جاری کیا جس کی رو سے سرداروں کو جاگیریں عطا کی اور فوجی افسروں کو نقد تنخواہ کی بجائے جاگیریں دینی شروع کی یہ اس کی بڑی سیاسی غلطی تھی کیونکہ اس سے ان کی طاقت بڑھ گئی اور انہیں بغاوت کرنے کا موقع مل گیا اور آخر یہ طریق تغلق خاندان کے زوال کا بڑا سبب بنا


فیروز تغلق بڑا رحم دل خداترس اور ہمدرد بادشاہ تھا وہ رعایا کا دلی خیرخواہ تھا وہ پکا مسلمان تھا اور شریعت کا بڑا پابند تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے عہد حکومت میں تمام ٹیکس منسوخ کر دیے جو اسلامی شریعت کے خلاف تھے اس کا سلوک ہندوؤں اور شیعوں کے ساتھ اچھا نہ تھا وہ فن سپاہ گری میں قابل نہ تھا مگر فن تعمیر میں  اسے خاص دلچسپی تھی اس کے نظام حکومت کے کاموں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے تغلق خاندان کا بلند مرتبہ بادشاہ خیال کیا جاتا ہے،فیروز تغلق نے 1388 میں 90 سال کی عمر میں وفات پائی

Wednesday, 20 March 2019

دسویں کے امتحانات اور نقل مکاریاں

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک

8105493349

فکر سود و زیاں میں رہنا ہے
بس یہی اس جہاں میں رہنا ہے
کمرۂ امتحان ہے دنیا
ہر گھڑی امتحاں میں رہنا ہے

نیم ادبی محفلوں میں آپ نے لوگوں کو تبصرہ  کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہوگا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلمان بچے بہت ہی کم  نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ یہ لوگ حکومت کو ٹہراتے  ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی جس کی وجہ سے ہمارے بچے ان امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں یہ جملے کتنے سچے ہیں یہ کہنا مشکل ہے،  یوں تو اس کی سینکڑوں وجوہات ہیں اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے تو "ایس ایس ایل سی" کے امتحان میں ہونے والی نقل مکاری بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے قوم کے نونہال اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو نہیں پاتے ۔اب آپ کہیں گے کہ امتحان کی نقل مکاری اور اعلیٰ عہدوں کا کیا جوڑ ہے۔ آئیے اس نکتے کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نقل مکاری کا آغاز کب؟ اور کیسے ہوتا ہے۔
در اصل اس کی شروعات پرائمری سطح  سے ہوتی ہے،آپ ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ ہر پرائمری اسکول  کی بات کی جارہی ہے بلکہ اکثر و بیشتر  اسکولوں میں یہی حال ہے۔ اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ دورانِ امتحانات جو بچے کند ذہن ہوتے ہیں ایسے بچوں کو استاد ایسے ذہین بچوں کے ساتھ جوڑ کر بٹھا دیتے ہیں جو ان کو پرچہ دکھا کر ان کو پاس کرا سکے ہوتا یوں کے تعلیم کے مکمل ہونے تک اس طرح کے  کند ذہن بچے اپنی ہمت کھو کر ذہین بچوں کے بھروسے رہ جاتے ہیں ، اگر استاد چاہتے تو شروع سے  ہی ان بچوں کی ذہنی سطح کو پہچان کر ان ہی ذہین بچوں کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط کرواتے تو ممکن ہے ان ذہین بچوں کی صحبت سے ان بچوں میں  بھی پڑھنے کا جذبہ آجاتا  بہت ممکن تھا کے یہ بچے محنت اور لگن سے کامیاب ہو سکتے،

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

اب اگلی کڑی آتی ہے ہائی اسکول کی ، سب سے زیادہ لا پرواہی ان تین سال کے عرصے میں ہوتی ہے یوں سمجھ لیں یہ تین سال بچے کے بننے یا بگڑنے کے سال ہیں دو سال تو دھکا مکی میں گزر جاتے ہیں اور ان دو سالوں میں خود مختاری کے ساتھ بچے نقل مکاری میں ماہر ہو جاتے ہیں،اساتذہ بھی خوف اور پریشانی کے عالم میں رہتے ہیں اور ان کو ڈر رہتا ہے  کہ کہیں میرے مضمون میں یہ بچے  کم مارکس نہ لیں اس لئے امتحان بھی اتنی سختی کے ساتھ نہیں لیے جاتے اور پرچوں کی جانچ کا کیا کہنا سارے طلبہ 80 فیصد سے اوپر، جب یہی بچے دسویں جماعت تک پہنچ جاتے ہیں تو نقل مکاری میں اتنے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں۔

شعلہ ہوں، بھڑکنے کی گزارش نہيں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے، کوشش نہيں کرتا
گرتی ہوئی ديوار کا ہمدرد ہوں، ليکن
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہيں کرتا

اللہ رحم کرے اُن نجی اداروں کے مینجمنٹ پر جو پورا سال اسلامیات اور دینیات جیسے پاکیزہ کورسس میں بچوں کو دیانتداری ایمانداری کا سبق پڑھواکر آخر میں  انہیں اساتذہ کو مجبور کرکے ان سے بچوں کے لئے نقل مکاری کروائی جاتی ہے یہی مینیجمنٹ  امتحان کے نتائج کے بعد بچوں کے ریزلٹ ان کی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے بینرز پوسٹر گلی محلوں میں لٹکاتے ہیں، ارے ہمارے ادارے کا ریزلٹ تو 100 فیصد ہوگیا خاک ڈالو ایسے نتیجے پر جو بچوں کو محض سرٹیفیکٹ میں تو کامیاب بناتے ہیں اور سماج میں ایک ناکام انسان بنے پھرتے ہیں  اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو  امتحان گاہوں کے پاس مسلمانوں کا بڑا مجمع طلبہ کی امداد کے لئے آپ کو کھڑا نظر آتا ہے جب یہی بچے بارویں جماعت تک پہنچتے ہیں تو ان کے نتائج کیا آتے ہیں ، 50،60،70 اس سے زیادہ نمبرات تو کوئی محنتی بچہ ہی حاصل کر لیتا ہے ورنا عموماً یہی نتائج آتے ہیں،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نقل مکاری کی سماجی برائی کو تعلیمی نظام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے  دور کیا جائے اور ملک اور قوم کے لئے سچے اور دیانتدار لوگ دئے جائیں۔

Monday, 18 March 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 13
سلطان محمد شاہ تغلق 1325ء سے 1351ء

آفتاب عالم دستگیر پٹیل  کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

غیاث الدین تغلق کی وفات کے بعد اس کا بیٹا الغ خان محمد تغلق کے لقب سے تخت نشین ہوا وہ بڑا فاضل بادشاہ تھا فلسفہ و ریاضی کا اسکالر علم نجوم کا ماہر فارسی کا اعلیٰ شاعر اور کمال کا خوش نویس تھا ۔ اس نے رعایا کے لئے اسپتال اور یتیم خانے جاری کیے وہ اپنے مذہب کا بڑا پابند تھا،تاہم اس کا سلوک ہندو رعایا کے ساتھ بہت اچھا تھا اس کے دربار میں چین خراسان ترکستان اور فارس کے لوگ موجود تھے مشہور مورخ ابن بطوطہ اس کے عہد میں ہندوستان میں آیا تھا ۔ مگر ان اوصاف کے ہوتے ہوئے اس کے عہد کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کوتاہ اندیش سخت گیر اور ضدی تھا،مزاج ایسا کہ ذرا سی مخالفت بھی برداشت نہ کرتا تھا،اور معمولی سی بات پر غصہ میں آکر رعایا کو سخت سزائیں دیتا تھا اس لئے کہا گیا ہے کہ محمد تغلق کا چال چلن متضاد اور صاف کا مجموعہ
 تھا Mixture Of Opposite 
محمد تغلق ہمیشہ نئی نئی اسکیمیں سوچتا اور رعایا کو ان پر عمل کرنے کو کہتا مگر عام لوگ ان اسکیموں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اس لئے ان کو بڑی مصیبتیں اٹھانی پڑتی تھی اس وجہ سے محمد تغلق بطور ایک  بادشاہ کے ناکام ثابت ہوا اور لوگوں کی نظروں میں گر گیا اور بد نام ہو گیا ۔ ملک کا امن تباہ ہو گیا اور سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں اس کی فضول اسکیموں کی وجہ سے بعض مورخ محمد تغلق کو پڑھا لکھا بیوقوف بھی کہتے ہیں ۔

محمد تغلق کی عجیب تجویزیں

  ۔ دہلی کی بجائے دیو گری دارالخلافہ 1
محمد تغلق کی سلطنت بہت وسیع تھی اس کا خیال تھا کہ کسی مرکزی مقام کو دارالخلافہ بنایا جائے چنانچہ اس نے دہلی کی بجائے دیو گری کا اپنا دارالخلافہ بنایا اور اس کا نام دولت آباد رکھا دہلی سے دولت آباد کی درمیان سات سو میل لمبی سڑک تیار کی گئی اس نے امیروزروں کے علاوہ دلی کے تمام لوگوں کو نئے دارالخلافہ میں جانے کا حکم دیا اتنے لمبے سفر سے رعایا کو بڑی پریشانی ہوئی جب نئے دارالخلافہ میں دل نہ لگا تو بادشاہ نے ان کو دہلی واپس جانے کا حکم دیا ہزاروں آدمی سفر کی مشکلات سے راستہ میں ہی مرگئے ۔

۔ ایران اور چین پر لشکر کشی 2
بادشاہ نےایران کو فتح کرنے کا خیال کیا چنانچہ اس کام کے لیے چار لاکھ فوج جمع کی اتنی فوج کو تنخواہیں دینا مشکل ہو گیا اس لئے ایران کی فتح کا ارادہ چھوڑ دیا اور فوج کو منتشر کردیا جس کے بعد بادشاہ نے ایک لاکھ فوج کوہ ہمالیہ کے دشوار گزار دروں کی راہ چین کو فتح کرنے کے لئے بھیجی بہت سے سپاہی برف اور سردی کی وجہ سے راستہ میں ہی مر گئے ۔ جو بچ گئے انھوں نے چین کے علاقے پر حملہ کیا مگر شکست کھائی جو بچ کر واپس لوٹے بادشاہ نے انھیں قتل کروا دیا ۔

۔ تانبے کے سکے 3

محمد تغلق کی فضول تجاویز سے شاہی خزانہ خالی ہو گیا چنانچہ اس نے چاندی کی بجائے تانبے کا سکہ چلایا اور حکم دیا کہ ان تانبے کے سکوں کی قیمت چاندی کے سکوں کے برابر ہے لوگوں نے گھر گھر جعلی سکے بنانے شروع کر دیے ۔جس سے ان سکوں کی ساکھ جاتی رہی غیر ملکی تاجروں نے اس کے لینے سے انکار کردیا ۔ اس طرح ملک کی تجارت بند ہوگئی آخر بادشاہ نے یہ سکے واپس لے لیے اور ان کی بجائے سونے اور چاندی کے سکے دے دی ہے اس تبادلہ سے شاہی خزانہ کو بہت نقصان پہنچا ۔

۔ لگان کا بڑھانا 4
جب بادشاہ کی فضول تجویزوں سے شاہی خزانہ خالی ہو گیا تو بادشاہ نے مالی خسارہ کو پورا کرنے کے لئے زمین کا لگان بڑھا دیا اور مالیہ وصول کرنے میں اتنی سختی سے کام لیا کہ زمیندار ڈر کے مارے کھڑی فصلوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں بھاگ گئے،بادشاہ نے ان کو گرفتار کرکے قتل کروادیا اس سے ملک کی زراعت تباہ ہوگئی اور قحط پڑ گیا اور لوگ بھوکے مرنے لگے جب بادشاہ کو ان کی بدحالی کا علم ہوا تو انہیں واپس بلایا لگان اور ٹیکس معاف کردیئے نئے کنوئیں بنوائے اور شاہی خزانے سے روپیہ قرض دیا مگر اس سے بھی لوگوں کی حالت بہتر نہ ہوئی ۔ 

محمد تغلق کی پالیسی کا نتیجہ
بادشاہ کی ناقابل عمل تجویزوں سے ملک کی زراعت تباہ ہو گی خزانہ خالی ہو گیا بادشاہ بد نام اور سلطنت کمزور ہوگئی،اور ملک کے چاروں طرف بغاوتیں شروع ہوگی بنگال اور دکن کے صوبے ہمیشہ کے لئے خود مختار ہو گئے دکن میں مسلمانوں کی بہمنی سلطنت اور ہندوؤں کے وجے نگر کے دونوں سلطنتیں قائم ہو گئ تلنگانہ اور کرناٹک کے ہندو راجے بھی خود مختار ہو گئے پنجاب اور سندھ کے صوبے بھی باغی ہوگئے اور گجرات کا صوبہ بھی آزاد ہو گیا ۔

وفات
 ء میں محمد تغلق سندھ کی بغاوت دور کرنے کے لئے جا رہا تھا کہ راستہ میں موسمی بخار سے بیمار ہو گیا اور سندھ کے علاقے ٹھٹھ میں انتقال کر گیا1351

Saturday, 2 March 2019


محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 12
خاندان تغلق
سلطان غیاث الدین تغلق شاہ 1320 سے 1325

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

شمار
نام سلاطین
عہدِ حکومت
1
8 ستمبر 1321ء – فروری 1325ء
2
فروری 1325ء – 20 مارچ 1351ء
3
23 مارچ 1351ء – 20 ستمبر 1388ء
4
20 ستمبر 1388ء – 14 مارچ 1389ء
5
15 مارچ 1389ء – 1390ء
6
1390ء  – 1393ء
7
مارچ/ اپریل 1393ء
8
1393ء  – 1394ء
9
1394ء  – فروری 1413ء
10
1399ء  – 1412ء

ہندوستان کے نئے اور پرانے مورخین میں سے کسی نے بھی خاندان تغلق کے حسب و نسب کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی اور نہ ہی اس نامور خاندان کے آباؤ اجداد کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کی ۔ جب سلطان عصر ابراہیم عادل شاہ نے مورخ فرشتہ کو بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے ابتدائی دور حکومت میں لاہور بھیجا تو اس نے وہاں کے ان اہل علم اور باذوق لوگوں سے جو خاندان شاہی سے متعلق رہے تھے اور دلچسپی رکھتے تھے خاندان تغلق کے حسب نسب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں ۔ لیکن اسے بھی صرف یہی معلوم ہوسکا کہ کسی تاریخ میں بھی اس خاندان کا حال مفصل طور پر نہیں لکھا گیا یہ عام روایت ہے کہ ملک سلطان غیاث الدین بلبن کا ترکی غلام تھا اور غیاث الدین تغلق اس کا بیٹا ملک تغلق نے خاندان بھٹ سے رشتہ ازدواج قائم کیا اور اسی خاندان کی لڑکی سے شادی کی جو غیاث الدین کی ماں تھی ۔

لفظ تغلق کا ماخذ

جیسا کہ ملحقات ناصری میں بیان کیا گیا ہے کہ لفظ "تغلق" ترکی لفظ "قنلغ" سے نکلا ہے بلکہ یہ کہہ دینا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستانیوں نے کثرت استعمال سے قنلغ لفظ کو توڑ مروڑ کر تغلق بنا دیا اور بعض لوگ اس لفظ کا تلفظ قتلو ادا کرتے ہیں ( تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 293 

 
غیاث الدین تغلق جس کا اصلی نام غازی بیگ تھا لاہور کا صوبے دار تھا ۔ اس نے خسرو خان کو قتل کرکے  خلجی خاندان کا خاتمہ کیا اور دہلی کا تخت حاصل کرکے تغلق خاندان کی بنیاد ڈالی وہ بڑا مدبر تجربہ کار اور منتظم بادشاہ تھا اس کے تخت پر بیٹھتے ہی ملک میں امن قائم ہو گیا اس نے مغلوں کے حملوں سے ملک کی حفاظت کی اس نے اپنے بیٹے جونا خان کو دکن میں بھیج کر وارنگل اور دیگر کئی ریاستوں کو دوبارہ مطیع کیا ۔  1325 میں بنگال میں بغاوت ہو گئی بادشاہ خود اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے وہاں پہنچا جب بغاوت فرو کر کے بادشاہ وہاں واپس پہنچا تو اس کے بیٹے جونا خان نے دہلی سے کچھ فاصلہ پر اس کے استقبال کے لئے ایک لکڑی کا محل تیار کرایا بادشاہ اس میں کھانا کھا رہا تھا کہ محل کی چھت اچانک گر پڑی اور وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ دب کر مر گیا ۔ بعض مورخ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب جونا خان کی تخت حاصل کرنے کے لئے شرارت تھی اورا یہ حادثہ اتفاقیہ نہ تھا اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا جونا خان محمد تغلق کے لقب سے بادشاہ بنا ۔ ۔ ۔