Sunday, 30 June 2019

 محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 20
سلطان ابراہیم لودھی 1517 سے 1526

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

سکندر لودھی کی وفات پر اس کا بیٹا ابراہیم لودھی تخت پر بیٹھا وہ خاندان لودھی کا بادشاہ تھا وہ بڑا ضدی اور ظالم بادشاہ تھا اس کا سلوک افغان سرداروں کے ساتھ بہت برا تھا تمام افغان سردار دربار کے وقت کے بادشاہ کے سامنے دست بستہ بت کی طرح کھڑے رہتے تھے ۔باپ دادا کے برعکس مزاج کا اکھڑ اور غصیلا تھا۔ امرا ناراض ہو گئے۔ بزور دبانا چاہا تو زیادہ بگڑ گئے اور بغاوتیں کیں۔ اس کے بھائی جلال خان نے بغاوت کی اور مارا گیا۔ چچیرے بھائی اعظم ہمایون کو شبہے کی بنا پر پکڑا۔ اس کے بیٹے فتح خان کو بھی قید میں ڈال دیا۔ ان واقعات سے مشتعل ہو کر سب افغان باغی ہو گئے۔ خانہ جنگی میں قوت ضائع ہوئی۔ میواڑ کے رانا سانگا کو شکست دی۔ بہادر خان بہار میں خود مختار ہو گیا۔ ابراہیم اس کی سرکوبی نہ کر سکا۔ اسی اثنا میں رانا سانگا نے کابل سے ظہیر الدین بابر کو بلایا۔ پانی پت کی پہلی لڑائی میں ابراہیم مارا گیا۔ اور یوں 1526ء میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا آغاز ہوا۔
 
 1206 میں قطب الدین ایبک نے شمالی ہندوستان میں سلطنت دہلی کی بنیاد ڈالی 1526 میں بابر نے اس کے آخری بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اس سلطنت کا خاتمہ کردیا اس عرصہ میں پانچ خاندان سلطنت دہلی پر حکمران ہوئے اور انہوں نے ،320 سال تک حکومت کی ۔

سلاطین دہلی کے زوال کے اسباب

افغان بادشاہ مطلق العنان تھے اگر بادشاہ طاقتور ہوتا تو سب سلطنت کے ماتحت ہوجاتے اور حکومت دور تک پھیل جاتی اگر بادشاہ کمزور ہوتا تو صوبےدار خود مختار ہوجاتے اور سلطنت کی وسعت اردگرد تک ہی رہ جاتی ۔

اس زمانہ میں ذرائع آمد و رفت اچھے نہ تھے اس لیے دور دراز علاقوں پر ضبط رکھنا آسان نہ تھا اس لئے کمزور بادشاہوں کے عہد میں صوبےدار خودمختار ہوتے گئے 

محمد تغلق کی جاہلانہ تجاویز نے سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا جس سے جابجا بغاوتیں ہوئیں اور کئی خودمختار سلطنتیں قائم ہوگی ۔

فیروز تغلق کا تنخواہ کی بجائے جاگیریں دینے کا طریقہ ایک بڑی سیاسی غلطی تھی اس سے جاگیرداروں کے لئے بغاوت کرنا آسان ہوگیا اور مرکزی حکومت کمزور ہو گئی ۔

تیمور کے حملہ نے سلطنت دہلی کو زبردست نقصان پہنچایا ۔

مغلوں کے درپے حملوں نے بھی سلطنت دہلی کو کمزور کردیا ۔

سلاطین دہلی سرد ملکوں سے آئے تھے اس لئے شروع میں بڑے بہادر اور جفاکش تھے مگر ہندوستان کی گرم آب و ہوا نے انہیں  اور سست بنا دیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شمال سے مغل حملہ آور ہوئے تو ان کا مقابلہ نہ کرسکے ۔

ابراہیم لودھی بڑا مغرور اور ظالم بادشاہ تھا تمام اُمرا اس کی سخت گیری سے ناراض تھے چنانچہ بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا اور ابراہیم کو شکست دے کر سلاطین دہلی کا خاتمہ کر دیا ۔




Saturday, 29 June 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 19
سلطان عادل نظام خاں سکندر لودھی

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

بہلول خان لودھی کے بعد اس کا بیٹا سکندر لودھی دہلی کے تخت پر بیٹھا وہ بڑا بہادر اور طاقتور بادشاہ تھا اس نے اپنی سلطنت کو کافی وسعت دی بہار ترہت کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور دہلی کی بجائے آگرہ کو اپنا پایہ تخت بنایا اور اس کے قریب اپنے نام پر ایک نیا شہر سکندرآباد بسایا جہاں شہنشاہ اکبر کا مقبرہ ہے ۔ اس کے عہد میں ہندو مسلم کو بہت ترقی ہوئی ۔ اور کبیر پنتھ ہو فروغ ہوا ۔ اس نے پولیس اور ڈاک کے محکمہ قائم کے ملک میں نئی سڑکیں بنوائیں اس کے عہد میں کھانے کی چیزیں بہت سستی تھی ملک میں امن اوررعایا خوشحال تھی ۔

سکندر لودھی کا کردار شخصیت

نظام الدین احمد اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ سکندر لودھی کی زندگی کے حالات لکھنے میں مورخوں نے مبالغہ سے کام لیا ہے اور خاص کر اس کی تعریف کرنے میں مغالطہ کیا ہے بہر کیف جو کچھ مؤرخین نے لکھا ہے اس کا اجمالی اور قابل ذکر تذکرہ ہے کہ سکندر لودھی ظاہری اور باطنی دونوں خوبیوں سے مالا مال تھا ۔ اس کا شہرہ دور دور تک تھا ۔ اس کے دوران حکومت میں ہر چیز کی قیمت بہت کم تھی اور رعایا نہایت سکون و آرام کی زندگی گزارتی تھی ہر روز دربار منعقد کرتا عوام کی ایک ایک فریاد سنتا بعض اوقات تو ایسا ہو تا کہ بادشاہ امور سلطنت سر انجام دینے میں صبح سے شام تک مصروف رہتا پانچوں وقت کی نماز ایک ہی مجلس میں پڑھ لیتا ۔ اس کے دور حکومت میں زمیندار بہت کم سرکشی کرتے تھے اور سب نے بادشاہ کی اطاعت و فرماں برداری قبول کرلی تھی ۔ بادشاہ امیر غریب توانا اور کمزور بوڑھے جوان سب کے ساتھ ایک طرح کا برتاؤ کرتا اور انصاف و عدل سے کام لیتا خدا سے بہت ڈرتا خلق خدا پر رحم و کرم کی بارش کرتا خواہشات نفسانی کو ترجیح نہیں دیتا تھا ۔روایت ہے کہ جس زمانہ میں سکندر لودھی اپنے بھائی باربک شاہ سے جنگ میں مصروف تھا اس وقت ایک فقیر آیا اس نے سلطان سکندر کا ہاتھ دیکھ کر کہا کہ تیری فتح ہوگی ۔ اس پر بادشاہ نے غصہ میں اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور کہا کہ جب دو مسلمانوں میں معرکہ آرائی ہو رہی ہو تو کبھی یک طرفہ فیصلہ نہ کرنا چاہیے اور یہ کہنا درست ہے کہ خدا کرے ایسا ہو جس میں اسلام کی بھلائی ہو ۔ سکندر لودھی ہر سال میں دو مرتبہ فقراء اور غرباء اور درویشوں کی فہرست منگواتا پھر حسب ضرورت ہر ایک کو وظائف اور عطیات دیا کرتا اور چھ مہینے کے بعد ہر ایک کو وظیفہ دیا کرتا سردیوں میں شالیں اور گرم کپڑے عطا کرتا ہر جمعہ کو شہر کے تمام فقراء کو روپیہ تقسیم کرتا روزانہ اناج اور غریبوں میں بانٹتا اس کے علاوہ تقریبا ہر سال حیلہ کرکے کثیر تعداد میں روپیہ فقیروں اور غریبوں کو دیتا تھا ۔ سکندر لودی کے دربار کا جو امیر اور درباری راہ خدا میں روپیہ دیتا اور خیرات وغیرہ کرتا غریبوں کو وظیفہ دیتا بادشاہ اس سے بہت خوش رہتا اور کہتا کہ تم نے خیروبرکت کی بنیاد رکھی ہے اس لیے امور دنیا میں کبھی ناکامی نہ ہوگی ایسے لوگ بادشاہ کی نگاہوں میں اپنی عزت بڑھانے کے لئے شرعکے موافق اپنا مال مستحقین کو بھجواتے اور بادشاہ ایسے لوگوں سے بہت خوش رہتا تھا ۔
 قطب مینار کی بالائی دو منزلیں سکندر لودھی نے تعمیر کروائیں۔


سکندر لودھی کا انتقال

بادشاہ کو ایک بہت ہی خطرناک مرض ہوا دنیا نے اپنے دستور کے موافق سکندر لودھی کو بھی آرام کی نیند سلا نا چاہا لہذا بادشاہ کا مرض بڑھتا گیا بادشاہ نے شرم و غیرت کی وجہ سے کسی کو اپنا مرض نہ بتایا اور اسی حالت میں امور سلطنت انجام دیتا رہا اور دربار عام بھی کرتا رہا لیکن انجام کار مرض اتنا بڑھ گیا کہ بادشاہ کے حلق کے نیچے نوالہ جانا دشوار ہوگیا اور سانس لینا مشکل ہوا اسی حالت میں ذیقعدہ کی 7 تاریخ کو 923 ھ میں اس کا انتقال ہوگیا اور راہی ملک عدم ہوا ( تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 405)

Sunday, 23 June 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 18
خاندان لودھی 1450 سے 1526
بہلول خان لودھی 1450 سے 1488

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

لقب
نام
دور حکومت


بہلول خان ابن کالا خان
1451ء تا 1489ء

سلطان سکندر لودھی

نظام خان ابن بہلول خان
1489ء تا 1517ء


ابراہیم خان ابن نظام خان
1517ء تا 1526ء

ہندوستان میں افغان لودھی سلطنت کا بانی۔ سادات کی بادشاہی میں سرہند کا حاکم تھا۔ اصل میں یہ افغانستان سے آئے ہوئے پٹھان قبیلہ سے تھے۔ لودھی /لودی ، پشتو: لودی ، ایک بتانی پشتون (غلزئی) قبیلہ ہے جو بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔’’لودھی‘‘ اُن پشتون قبائل کا حصہ ہیں جنہیں مشرق میں ان علاقوں میں دھکیل دیا گیا تھا جو آج کل پاکستان کا حصہ ہیں۔ لودھی اکثر اپنے بنی اسرائیلی نسل ہونے پر فخر کرتے ہیں یہ اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک گمشدہ قبیلہ ہے جو افغانستان میں آکے آباد ہوئے یہاں سے لودھی سوری خلجی پٹھان کے افراد ہندوستان میں جا آباد ہوئے ۔ جس نے جنوبی ایشیا (ہندو و پاک) کا علاقہ فتح کیا تھا۔ لودھی قبیلہ نے اپنے آپ کو منظم کیا اور مسلمانوں کے ابتدائی دور میں اس خطۂ زمین (ہندُستان) پر حکمران ہوئے۔ یہ بہترین لڑاکا افراد تھے۔ ان کے جد قیس عبدالرشید تھے جو انہیں اس مقام تک لانے میں اہم کردار کے حامل ہیں۔ پشتو زبان میں ارتقائی منازل طے کرتے کرتے یہ لفظ ’’لودی‘‘ بنا، جو دراصل ’’لوئے دھا‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی بڑا شخص (اعلیٰ شخصیت) کے ہیں۔ اس قبیلے کے افراد نے حیرت انگیز ترقی پائی اور سلطنتِ دہلی پر حکومت کی۔ اس قبیلے کی ایک ممتاز شخصیت ’’ابراہیم لودھی ‘‘ہے (یہ دہلی کی سلطنت کا حکمران رہا ہے)۔ ’’لودھیی/لودھی خاندان‘‘ کے افراد اپنے نام کے آخر میں ’’خان‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں جو ایک لقب ہے اور ان کی شخصیت کو امتیاز عطا کرتاہے۔ گویا ’’خان لودی‘‘ یا ’’خان لودھی‘‘ ، بعض اوقات صرف’’ خان‘‘ یا’’ لودی/لودھی‘‘ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’خان‘‘ ایک امتیازی نام ہے جو امتیازی طور پر لکھا جاتا ہے مگر اس کے قطعی یہ مطلب نہیں کہ ’’خان‘‘ کا لفظ استعمال کرنے والا ’’لودھی‘‘ یا اس زمرے میں آتا ہو ، اسی لیے ’’لودھی‘‘ کا ٹائیٹل استعمال کیا جاتا ہے جس میں ’’خان‘‘ پوشیدہ ہے اور ’’لودی/ لودھی ‘‘ اس میں اپنے قبیلے کی امتیازیت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔(ویکی پیٹیا)
خاندان لودھی کا بانی بہلول خان لودھی تھا وہ بڑا فیاض اور قابل شخص تھا اس نے پنجاب کا صوبہ بھی دہلی کی سلطنت میں شامل کر لیا اس نے 26 سال کی لگاتار کوششوں سے جونپور کی سلطنت کو فتح کیا

بہلول لودھی نے اڑتیس سال آٹھ ماہ اور سات دن حکمرانی کی اس کی ظاہری خوبیاں ناقابل بیان ہے مذہب اور شاع کا بہت پابند تھا زیادہ تر سفر میں فقراء اور درویش صفت لوگوں کی خدمت میں رہتا تھا اور انہیں کی صحبت میں زندگی گزارتا ۔ اپنے افغان بھائیوں سے بہت اچھا برتاؤ کرتا تھا اور افغانی امراء کے سامنے کبھی تخت پر جلوہ افروز نہ ہوتا بلکہ مساوات کے قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کے ساتھ ہمیشہ فرش پر جلوہ نشین ہوتا دہلی فتح کرکے سابق بادشاہوں کی جو ملکیت اور خزانہ ہاتھ آیا وہ تمام افغانی امراء میں برابر تقسیم کیا اور خود بھی ایک ہی حصہ اپنے لیے رکھا اپنے گھر میں کبھی کھانا نہیں کھاتا طویلہ خاص کے شاہی گھوڑوں پر کبھی سواری نہیں کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ میرے لیے صرف سلطنت کا نام ہی کافی ہے مغل سپاہ کی بہادری پر بڑا اعتماد تھا یہی وجہ تھی کہ مغل شہزادوں بادشاہوں اور سپاہیوں کی تعداد تقریبا بیس ہزار ہو گئی تھی جہاں کہیں کسی مقام کے لئے سن لیتا کہ یہاں پر کوئی بہادر نوجوان موجود ہے اس کو فورا بلاتا اور حسن سلوک سے پیش آتا یہ بادشاہ بہت زیادہ عقلمند دلیر شجاع تھا آئین جہانداری اور حکومت کے اور عمر میں اس کو ملکہ حاصل تھا ۔ کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیتا تھا ہمیشہ رعایاپروری اور عدل و انصاف میں اپنی زندگی گزاری 1488 میں اس نے وفات پائی( تاریخ فرشتہ جلد دوم ص 393) .


Sunday, 16 June 2019



آخری صف کے مقتدی

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


دنیا میں کئی سارے مذاہب ہیں جو اپنے اپنے عقیدے اور اعتقاد کے مطابق اپنے اپنے معبودوں کی پوجا و پرستش کیا کرتے ہیں،اور اپنے دلوں کو تسکین پہنچانے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں جب کے قرآن میں آتا ہے۔)
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل تسکین پاتے ہیں" اگر ان  تمام مذہبوں کو مذہب اسلام کی عبادتوں سے مقابلہ کیا جائے تو مذہب اسلام ہی واحد مذہب ہے جو دلوںکو  تسکین دیتا ہے ۔ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں اور ان کی عبادت کے انداز کو دیکھا جائے تو بڑے ہی عجیب و غریب انداز میں اپنی عبادتیں کیا کرتے ہیں ۔ اگر کفار و مشرکین کی بات کی جائے تو وہ اپنے علاوہ ہر چیز کی پوجا کرتے ہیں جیسے چاند سورج پیڑ پودے جانور پتھر کی مورتیاں وغیرہ وغیرہ ۔ اگر عیسائیوں کی بات کی جائے تو ہفتے میں ایک مقررہ دن گرجا گھر جاکر اپنی عبادت کرتے ہیں اسی طرح یہودیوں بھی قریب قریب یہی معاملہ ہے ،اگر بدھ مت اور جین مت کی بات کی جائے تو ان کے یہاں بھی گوتم بدھ اور مہاویر کی پوجا کی جاتی ہے، اور سکھوں کے یہاں مزار کے سامنے سجدہ کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مذہب اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں عبادت کا ایسا طریقہ نہیں جس سے بندے کو قلبی سکون ملے ۔ مذہب اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب والوں کو قلبی سکون نہ ملنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جیسا جس کا معبود ہوگا ویسے اس پر اثرات مرتب ہونگے ، عابد پر معبود کے اثرات ضرور پڑتے ہیں اگر کسی کا معبود پتھر کا ہوگا عابد پر اس کے اثرات ضرور ہوں گے ۔ جس سے اس عابد کے دل پر سختی آئے گی اور جس دل میں سختی ہو گئی تو اس بندے کو قلبی سکون کیسے ملے گا ۔ اس کے برخلاف اللہ کی ذات میں تمام خوبیاں اور صفات موجود ہیں جس کے ذریعے عابد میں حلم و بردباری کی خصوصیات آنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے موجودہ دور کے مسلمانوں نے نماز جیسی عبادت کو پس پشت ڈال دیا ہے نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں قیام سے لے کر سلام تک بندے اور مولیٰ کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس سے قلبی سکون کے ساتھ ساتھ دینی و دنیاوی مسائل حل ہونے شروع ہوتے ہیں ۔


ہم اکثر مسجدوں میں دیکھتے ہیں ننھے منے نمازی مسجد میں آتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ پہلی صف میں نماز ادا کریں مگر مسجد میں موجود بڑے بزرگ ان کو آخری صف میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں،بعض مرتبہ یہ بچے پہلی صف میں کھڑے ہونے کے خواہش میں اتنی سختی سے پیروں کو جما دیتے ہیں کہ جتنی مرضی کھینچنے کی کوشش کریں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ بعض مرتبہ ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے پیچھے کرنا پڑتا ہے پھر آخر کیا وجہ ہوتی ہے کہ جب یہی بچہ جب جوان ہوتا ہے تو پہلی صف میں کھڑے ہونے کی وجہ سے خود کو آخری صف میں کھڑے ہونے پر ترجیح دیتا ہے جو کہ حدیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کا ثواب زیادہ ہے جب ان نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ پہلی صف کو پورا کرو تو ایسے گھبراتے ہیں جیسے پہلی صف میں کانٹے بچھے ہوئے ہو میں اس بات کے متعلق کافی سوچتا رہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ نوجوان پہلی صف میں کیوں نہیں کھڑے رہتے اس کی ایک وجہ میرے ذہن میں آئی یہ نوجوان فرضی نمازی ہیں یعنی نماز فرض ادا کر کے فورا سنتیں اور نفل پڑھے بغیر باہر بھاگنے کی کوشش کرنے والے ہیں اگر پہلی صف میں کھڑے ہوں گے تو ان کا باہر بھاگنا مشکل ہوگا ماہ رمضان میں تو نہ آخری صف کے مقتدی بڑا ہی ہنگامہ مچاتے ہیں اور عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں جب امام تراویح کے لئے اللہ اکبر کی نیت باندھ دیتا ہے تو بعض نوجوان تو بیٹھ کر نیت باندھ دیتے ہیں اور بعض رمضانی مسلمان امام صاحب کے رکوع کرنے کے انتظار کرتے ہیں جیسے ہی امام رکوع کی تسبیح کہتے ہیں فوراً کھڑے ہو کر رکوع میں چلے جاتے ہیں افسوس ہے اس نوجوان پر جو بچپن سے جوانی تک آخری صف کا مقتدی بن کر زندگی بسر کر رہا ہے ۔

جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں


Tuesday, 11 June 2019

ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی
(اردو اسکول کیسے ہوں۔۔؟)
قسط نمبر 5

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

دل میں سوز اردو ہو لب پر ذکر اردو ہو
معلم ہو تم اردو کے تمہاری فکر اردو ہو
بنے ہو آج جو کچھ تم مہربانی ہے اردو کی
رہے یہ احساس ہر دم کہ تم مقروض اردو ہو

عصری تعلیم کے متعلق جس سنجیدگی اور فکر کےساتھ  موجودہ دور  کے والدین اور سر پرست فکر مند ہیں شاید ہی کسی زمانہ میں ایسے فکر مند رہے ہونگے۔جس طرف دیکھئے ،جہاں دیکھئے، والدین پر ایک جنون سا  سوار ہے کہ ہمارے  بچوں کو اعلیٰ میعار ی تعلیم ملے جس کے لئے والدین دن رات محنت کرکے اپنے گاڑے پسینے کی کمائی انگریزی میڈیئم اسکولوں کی جھولیوں میں ڈال رہے ہیں،مگر بدقسمتی سے اس کے نتائج سوائے اکا دکا بچے کی کامیابی کے ساتھ ہی محدود ہیں ،ان برے نتائج کے باوجود والدین اور سر پرست پھر بھی انگریزی میڈیم اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ اردو اسکولوں میں میعارِ تعلیم کی گراوٹ، اردو اساتذہ میں اعتماد کی کمی کے اردو میڈیم سے پڑھ کر بچہ کچھ بن سکتا ہے ! اگر اعتماد میں کمی نہ ہوتی تو اردو  کی برکت سے اپنے گھر کے چولھے جلانے والے اساتذہ ہرگز اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں نہ ڈالتے،بلکہ اردو مدرسوں میں ہی تعلیم دلواتے ان حالات میں اردو میڈیم اسکولوں کو بہت فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ کیسے قوم کے ننھے منے بچوں کو کامیابی سے ہمکنار کرایا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کے موجودہ وقت کے جتنے بھی سرکاری اساتذہ ہیں وہ نہایت قابل اور ماہر ہیں مگر اتنی بات ضرور ہے ان پر سُستی اور کاہلی کی دھول جمی ہے وگرنہ یہ اساتذہ بڑے کام کے ہیں میں یہ نہیں کہتا کے ہر استاد سست اور کاہل  ہے بلکہ اکثر و بیشتر ایسے ہی ہیں۔یاد رکھیں جو استاد درس و تدریس کے پیشے میں رہ کر اپنی ذمہ داری صحیح ڈھنگ سے نہیں نبھاتا اس کا نقصان اس کی اولاد کو ہوگا اس کی اولاد تعلیمی میدان میں کوئی کارنامہ سر  انجام نہیں دے سکے گی۔


تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!
دفعِ مَرض کے واسطے پِل پیش کیجیے
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوَض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دِل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبَق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ “بِل پیش کیجیے!

یہ مختصر تمہید اور کڑوا سچ تھا جس کے متعلق ہمارے اساتذہ جان کر انجان بنے بیٹھے ہیں  اب اس خوابِ غفلت سے نکلنا ہوگا اور اسی اردو کے ذریعہ نونہالوں کو آسمان کی بلندی تک پہنچانا ہوگا،وہ کیا نکات ہیں جس کے ذریعے ہمارے اردو اسکول بہتر ہوسکتے ہیں ۔
میر معلم

درس و تدریس میں میر معلم مرکزی کردار ادا کرتا ہے ، اسکول کا میعار اگر جاننا ہو تو اس اسکول کے میر معلم کو دیکھا جائے ،میر معلم پوری اسکول کی روح ہوا کرتا ہے مگر بدقسمتی سے عام طور پر دیکھا گیا ہے کے میر معلم اپنے معاون اساتذہ کے ساتھ اس درجہ گھُل مل جاتا ہے  کہ دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے یہ سارے ایک  ہی جماعت کے ساتھی رہے ہوں گے نہ عمر کا خیال ، نہ میر معلم کا ڈر ، نہ سنجیدہ مزاجی اب ایسا اسٹاف  کیا میر معلم کی قدر کرے گا بعض جگہ تو حد ہی کردی میر معلم اور معاون اساتذہ مل بیٹھ کر پان گٹھکا کھاتے رہتے ہیں ،ہونا تو یہ چاہیئے تھا  کہ میر معلم  سونے کا لقمہ کھلاکرشیر کی نگرانی کرتا۔

مثالی میر معلم کی خوبیاں

میر معلم با اخلاق ہو۔

اسلامی تعلیم اور اپنی تہذیبی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے۔

میر معلم نظم و ضبط او ر وقت کا پابند  ہو۔

معاون اساتذہ کی رائے کا خیال رکھتا ہو۔

میر معلم جذبات میں فیصلے لینے والا نہ ہو۔

میر معلم کو چاہیئے کے ہفت وار میٹنگ منعقد کرے جہاں درس و تدریس اور کام کی باتیں ہوں وگرنہ چائے کی میٹینگیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔

والدین اور سرپرستوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے والا ہو۔

بچوں پر مشفق اور مہربان ہو۔

پاکی صفائی کا خاص خیال رکھتا ہو ،اگر پان تمباکو کا شوقین ہو تو مدرسے سے باہر ہی فراغت حاصل کرکے آئے
ہر کلاس کا بالخصو ص بڑی جماعتوں کا  ہفتے میں دو تین بار معائنہ کرے، جسمیں ان کے ہوم ورک وغیرہ پر سرسری نظر ڈالے۔

مطالعہ کا شوقین ہو  اس بات کا عادی  معاون اساتذہ  کو بھی بنائے ۔

معاون اساتذہ کے ساتھ مخصوص گروہ بندی سے پرہیز کرے۔

سب سے اول آئے اور سب سے آخر جائے۔

میٹنگوں کا بہانہ کرکے ذاتی کام نا کرے اگر معاون اساتذہ نہ دیکھتے ہوں تو خدا ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔

طلبہ کو سخت سزائیں دینے سے گریز کرے۔

جماعتی کمروں، کھیل کے میدان اور بچوں کی صفائی پر خاص توجہ دیں۔

لائبریری ،لایبروٹری ، کمپیوٹر لیاب وغیرہ میں بچوں کا داخلہ پابندی سے کرایں۔

کبھی کبھاراخلاقی تعلیم کی  کلاسس بھی لیا کرے کیونکہ عام طور پر بچے میر معلم کی باتیں دھیان سے سنتے اور مانتے ہیں۔


مثالی معلم کی خوبیاں


بعض تعلیمی کمیشن کہتے ہیں  معلم پورے تعلیمی میعار کی اہم شخصیت ہے، وسطی تعلیمی کمیشن معلم کی شخصیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے مدرسہ کا سارا تعلیمی نظام جس کھونٹی سے بندھ کر گردش کر رہا ہے وہ ہے معلم کی شخصیت ہے ، مشہور ماہر تعلیم ہمایوں کبیر کی رائے کے مطابق ،، معلم صد فیصد قوم کی تقدیر کے منصف ہیں،، کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ کا پہلا جملہ یہ کہتا ہے کہ ،، بھارت کی تقدیر مدرسہ کے جماعتی کمرے میں سنورتی ہے،، ۔

معلم میں عمدہ اخلاق و اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔

معلم کا مخلص ہونا بے حد ضروری ہے

اپنے فرائض سے شدید الفت، دلچسپی، امنگ، اور عمدہ احساسات کا ہونا ضروری ہے۔

خود اعتمادی اور ایمانداری کے ساتھ اپنے کام کو انجام دینے والا ہو۔

دوران اکتساب بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بہتر ڈھنگ سے حل کرنے میں ماہر ہو۔

طلبہ کے ساتھ مشفق و مہربان ہو۔

وقت کا پابند ہو۔

معلم کو چاہیئے کے بچوں کو سیاست سکھائے نہ کہ بچوں اور دیگر اساتذہ کے ساتھ سیاست کرے۔

شدید مطالعہ کا شوقین ہو ، اس کا مزاج ایسا  ہو بغیر مطالعہ اسے چین نہ آئے۔

گھر اور اسکول کے لئے اردو رسالے منگواتا رہے۔

مدرسہ آنے سے پہلے پڑھائے جانے والے سبق کو مکمل طور پر پڑھ کر آیا

اپنی غلطیوں کو ماننے کا جذبہ ہو

میر معلم اور معاون اساتذہ کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آئے

زیادہ سے زیادہ وقت کھڑے ہو کر پڑھائے

جماعتیں کمرے کی پاکی صفائی اور بچوں کی پاکی صفائی کا خاص خیال رکھے

وقت سے پہلے مدرسہ پہنچنے کی فکر کرے

بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے

بچوں کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاو نہ کرے

وقفے وقفے سے والدین کے ساتھ ملاقات کر کے بچوں کے متعلق بتاتا رہے

بچوں کی عادات و اخلاق کی طرف خصوصی توجہ دے اور انہیں اپنا بچہ سمجھ کر ان کے اخلاق و عادات پر خاص توجہ دے

بچوں کی ذہنی سطح کے حساب سے تقسیم کریں اور اسی کے مطابق سال بھر کام کرتے رہے

بچوں کے پرچوں کو دھیان توجہ کے ساتھ بنا کسی بھید بھاوکے ساتھ جانچے،

والدین اور سرپرستوں کو اسکول بلا کر بچے کے متعلق مطلع کرتے رہیں

بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کریں اس کے لئے ہر ہفتے میں ایک مرتبہ لائبریری کا پریڈ متعین کریں


مندرجہ ذیل مضامین پڑھانے کے بعد بچوں میں کن کن معلومات کا آنا ضروری ہے

اردو

اردو ہماری مادری زبان ہے مگر بدقسمتی سے دیکھا گیا ہے کہ اردو مدرسوں میں پڑھنے والے اکثر و بیشتر  بچوں کی نہ خطاطی اچھی ہوتی ہے نہ وہ فصیح اردو بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں، اس کی ایک اہم وجہ بنیادی تعلیم کا کمزور ہونا، اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بنیادی تعلیم مضبوط دیں ، معلم کو چاہیے کہ جماعتی کمروں میں بچوں کی ذہنیت کے اعتبار سے  فصیح اردو الفاظ کا استعمال کرتا رہے تاکہ بچوں کے کانوں میں بار بار فصیح اردو الفاظ پڑھنے کی وجہ سے وہ بھی بولنے کے قابل ہو جائیں ۔

کنڑا اور انگریزی

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے بچے کنڑا اور انگریزی میں بہت کمزور ہوتےہیں ، سب سے پہلی چیز اساتذہ کو یہ کرنی چاہیے کہ جس کلاس میں جس مضمون کو پڑھایا جاتا ہے اکثر و بیشتر الفاظ اسی زبان کے استعمال کریں اگر فرض کیجئے اردو کی کلاس چل رہی ہے تو فصیح اردو کے الفاظ استعمال کریں کنڑا اور انگریزی کی کلاس کے وقت اسی زبان کے الفاظ کا استعمال ہونا ضروری ہے اس سے بچوں کے حافظے میں الفاظ کا ذخیرہ جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے

سائنس، علم ریاضی

میں سمجھتا ہوں کہ سائنس اور علم ریاضی اتنے مشکل مضامین  نہیں ہیں جتنا ہمارے اساتذہ نے بچوں کو بتایا ہے،ہم نے اکثر و بیشتر اسکولوں میں دیکھا ہے جب بھی سائنس علم ریاضی کی بات آتی ہے تو اس اسکول کے اساتذہ بچوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ دیکھو بچوں تم جس سے آسان سمجھ رہے ہو وہ مضامین اتنے آسان نہیں ہیں بلکہ بہت ہی مشکل ہیں جب بچے کے ذہن کے اندر ایسے الفاظ اتریں گے تو بچہ اس مضمون کو مشکل سمجھنا شروع کرے گا ۔

عمدہ کتب خانہ


عام طور پر اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں عمدہ کتابیں ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ان کتابوں کو نہ ہمارے اساتذہ کبھی پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کبھی دیتے ہیں،کتب خانہ ہی ایک واحد ذریعہ ہے جہاں بچے پڑھنا سیکھ جاتے ہیں آگے چل کر بھی اپنے اس مطالعہ کی عادت کو ہمیشہ قائم اور دائم رکھ سکتے ہیں ۔

تجربہ گاہ


اساتذہ کو چاہیے کہ دورانی تدریس سائنس بچوں کو تجربہ کرکے دکھاتے رہیں اس سے بچوں کے اندر  تجربہ کرنے کی عادت پیدا ہوگی اور سائنس مضمون کو آسانی سے سمجھنے لگیں گے جب تک تجربہ کرکے نہیں دکھایا جائے گا بچے اس چیز کو نہیں سمجھیں گے


کھیل کود


طالب علمی کے زمانے میں جتنا پڑھائی کرنا ضروری ہے اتنا ہی کھیل کود ضروری ہے بچے کا صحت مند رہنا ضروری ہے صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوا کرتا ہے اس لیے بچوں کی نگرانی کے ساتھ کھیل بھی کھلایا کریں ایسا کھیل جس میں بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہو ضرور کھلایں ۔

کمپیوٹر کلاس


موجودہ زمانے میں کمپیوٹر ایک ضروری چیز بن گئی ہے اور اس کا استعمال درس و تدریس کے لئے بھی کیا جانے لگا ہے ہفتے میں ایک دو بار اس کے بھی کلاسییس متعین کریں تاکہ بچوں کو کمپیوٹر اور جدید معلومات ملتی رہے،حد سے زیادہ بھی بچوں کو کمپیوٹر کلاسس نہ دیں کیونکہ جو کام تخت سیاہ اور کھڑیئے سے ہوتا ہے وہ کمپیوٹر سے نہیں ہوتا۔

چونکہ یہ عنوان طویل ہے مستقل اس پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اس مختصر سے مضمون کے ذریعے پوری بات کو سمجھا ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اتنی ہی باتوں پر عمل کیا جائے تو انشاءاللہ امید ہے کہ ہمارے نونہال بچے قوم کے رہبر اور رہنما بن سکتے ہیں اور ملک و قوم کے نام کو روشن کر سکتے ہیں ۔

Saturday, 8 June 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 17
معززالدین ابوالفتح سید مبارک شاہ بن خضر خان

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


دوران عدالت ہی خضر خان کو اندازہ ہو گیا تھا اب اس کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور یہ مرض الموت ہے اور اس سے نجات نہ ہوگی لہذا اس نے عاقبت اندیشی سے کام لیتے ہوئے اپنے بڑے بیٹے مبارک شاہ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا مبارک شاہ نے اپنے باپ کے مرنے کے تین دن کے بعد تاج پوشی کی رسم ادا کی اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس نے اپنا لقب معزالدین ابوالفتح مبارک شاہ رکھا ۔

جاگیریں اور عہدے

مبارک شاہ نے اپنے پرانے امراء اور مشائخ کے عہدوں کو حسب سابق بحال رکھا اور ان کی جاگیریں وظیفہ بھی وہی رہے بعض لوگوں کو جو روزینہ ملتا تھا اس میں اضافہ بھی کردیا اپنے بھتیجے ملک بدر کے عہدے کو بڑھا دیا اور اس کو فیروزآباد اور ہانسی کا صوبہ دار بنا دیا ملک رجب جو سدھو نادری کا بیٹا تھا اس کو ہاہنسی اور فرویزآباد سے ہٹا کر پنجاب اور دیپالپور کا صوبیدار بنا دیا ٧٢٣ جمادی الاول میں کشمیر کے بادشاہ سلطان علی ٹھٹ کو مسخر کیا اور وہاں سے واپسی پر سفر کی منازل طے کرتا ہوا فوج سے الگ ہو گیا ادھر جیرت کھکھر جو اپنے شیخا کھکھر کے انتقال کے بعد اب اپنے قبیلہ  کی سردار ی کر رہا تھا اور قوت بھی حاصل کر لی تھی سلطان علی سے برسر پیکار ہو گیا اور کشمیر کے حکمران کو زندہ گرفتار کر لیا اس نے بےشمار مال و دولت حاصل کی اس کے بعد اس کی ہمت بڑی اور دہلی کو فتح کرنے کا سودا اس کے سر میں سمایا اس نے ملک کا طغا کو جو خضرخان کے خوف سے پہاڑوں میں پناہ گزین تھا بلا کر اپنے ہاں وزرات کے عہدے کر امیرالامراء مقرر کیا اس طرح جیرت لاہور پنجاب کا حکمران بن گیا جیرت نے لاہور کو تباہ و برباد کر کے پھر دریائے ستلج کو پار کیا اور شہر تلونڈی جو رائے کمال کی جاگیر تھی اس کو خوب لوٹا تلونڈی کا زمیندار شہر چھوڑ کر بھاگ گیا اور دریائے جمنا کے ساحل پر پناہ گزین ہوا جیرت لدھیانا پہنچا لدھیانے کے بالائی حصہ تک تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتا ہوا چلا گیا اس نے دریائے ستلج کے دوسرے ساحل تک جاکر جالندھر کے قلعہ کو گھیر لیا حصار کا حاکم زیرک خان پہلے خود قلعہ بند ہو گیا اس کے بعد جیرت کا مقابلہ کرنے لگا جیرت چالبازی سے کام لے کر صلح کی بات چیت کی دونوں میں یہ عہد ہوا کہ زیرک خان جالندھر کو طغا کے حوالے کر دے اور طغا کے بیٹے کو قیمتی تحائف نظر کرکے مبارک شاہ کے پاس بھیج دے دوسری جماعت الاول   ٧٢۴ زیرک خان نے قلعہ سے نکل کر جیرت کے لشکر سے تین کوس دور دریا سرستی کے ساحل پر قیام کیا جیرت اپنے عہد پر قائم نہ رہا اور اس نے زیرک خان پر حملہ کرکے اس کو زندہ گرفتار کر لیا اور لودھیانا واپس چلا گیا بی سی جمادی الاخر ٧٢۴ میں اسلام خان حاکم سر ہند میں سرحد پر لشکر کشی کی اور اسلام خان بھی چھپ گیا ( تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 369 )

مبارک شاہ نے تیرہ سال تک حکومت کی اس حکومت کے دوران کی سارے علاقوں کو فتح کیا اور بہت سارے حکمرانوں کو شکست دی
اسی عرصہ  میں مبارک شاہ نے ایک نئے شہر کی ربیع الاول کی 17 تاریخ کو بنیاد ڈالی اور اس کا نام مبارک آباد رکھا

مبارک شاہ کا قتل

٩ رجب ٧٣٦ کو بادشاہ حسب سابق چند خاص درباریوں کے ساتھ مبارک آباد گیا اور عمارتوں کی سیر و تفریح کرکےجمعہ کی نماز کے لئے تیاری کرنے لگا اس وقت اس کے نمک خوار غلاموں نے نمک حرامی  کی اور یہ جماعت جس میں میراں صدر اور قاضی عبدالصدر اور کانکو کا بیٹا سدران شامل تھا یہاں آئے ۔ ہندوؤں کی ایک مسلح جماعت کے ساتھ میراں صدر اور قاضی الصدر تو اندر چلے گئے اور سدران مع کچھ لوگوں کے باہر رہا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے ۔ بادشاہ نے ان لوگوں کو ھتیاربندن دیکھا مگر اس کے دل میں کوئی برا خیال نہ گزرا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھا رہا ہیلو بادشاہ کے نزدیک پہنچے اور سدپال نے تلوار کھینچ کر ماری اور بادشاہ کے سر پر کاری ضرب لگی اور اس کے ساتھ ہی دوسرے ہمراہیوں نے بادشاہ پر پے در پے کئی وار کیے جس سے بادشاہ شہید ہوگیا افسوس کے اس موذی جماعت نے ایک مدبر اور منصف مزاج بادشاہ کو ختم کردیا ۔ میراں صدر کی یہ جرات کہ بادشاہ کی خون میں بھری بھی لاش وہیں رہنے دی اور خود فورا سرور الملک کے پاس گیا اور کہا کہ وعدے کے مطابق میں نے اپنا فرض پورا کیا سرور ملک نے تو محمد شاہ کو بادشاہ بنانے کا منصوبہ پہلے ہی تیار کر رکھا تھا ۔ سلطان مبارک شاہ اچھا اور کامیاب حکمران تھا اس نے 13 سال تین مہینے اور 16 دن تک حکومت کی نہایت عقل مند اور بااخلاق تھا اس نے اپنے عہد حکومت کے پورے عرصہ میں اپنے منہ سے کوئی بد کلمہ نہ نکالا کبھی کسی کو گالی نہ دی مکروہات سے بہت دور بھاگتا تھا سلطنت کے سارے کاموں کو خود سرانجام دیتا اور خود ان کی تخلیق کرتا تھا ذمہ داری کا امراء پر کبھی نہیں چھوڑتا تھا "تاریخ مبارک شاہی" اسی نامی گرامی بادشاہ کے نام سے مشہور ہے ۔