Sunday, 20 October 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,26
جلال الدین محمد اکبر اعظم
1556 سے 1605تک




آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


اکبر کی اوائل عمر

اکبر ہمایوں کی صحرا گردی کے ایام میں امرکوٹ سندھ کے مقام پر حمیدہ بانو بیگم کے بطن سے 1546 میں پیدا ہوا ۔ ہمایوں ایران جاتے ہوئے اپنے ننھے بیٹے اکبر کو اپنے بھائی کامران کے پاس چھوڑ گیا اس لیے اکبر کا بچپن کا زمانہ اپنے چچا کے پاس گزرا اور اس طرح کی خاطرخواہ تعلیم نہ ہوئی جب ایران سے واپسی پر ہمایون کابل فتح کیا تو اکبر اپنے والد کے پاس پہنچ گیا ۔

اکبر کی تخت نشینی

جب ہمایوں فوت ہوا اس وقت اکبر کی عمر 14 سال کی تھی اور اپنے اتالیق بیرم خان کے ساتھ پنجاب میں سکندر سوری کا تعاقب کر رہا تھا بیرم نے موقع کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کلانور واقعہ ضلع گورداسپور میں ہی اکبر کی رسم تاج پوشی ادا کی اور خود اس کا سرپرست بنا ۔

پانی پت کی دوسری لڑائی 1556

اکبر کو ہندوستان کا بادشاہ بننے سے پہلے بہت سی تکلیفوں کا سامنا ہوا پنجاب میں سکندر سوری نے اودھم مچا رکھا تھا ادھر ہیمو نے آگرہ اور دہلی کو فتح کرلیا تھا اور پنجاب پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اکبر نے بیرم خان کی ہدایت کے مطابق دہلی کی طرف کوچ کیا ۔ہیمو ایک بڑی فوج کے ساتھ اکبر کے مقابلہ کے لیے دہلی سے روانہ ہوا پانی پت کے مقام پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا بڑے گھماسان کی لڑائی ہوئی ۔ آخر اکبر کے تجربہ کار جرنیل بیرم خان نے ہیمو کو شکست فاش دی ہیمو زخمی ہوکر گرفتار ہوا اور اکبر کے سامنے لایا گیا جہاں بیرم خان نے اسے قتل کر دیا اس لڑائی سے اکبر کا دہلی اور آگرہ پر قبضہ ہوگیا اور سوری خاندان کا خاتمہ ہوا اس لڑائی کے کچھ دنوں بعد سکندر سوری بھی مطیع ہوگیا ۔

بیرم خان

بیرم خان ہمایوں کا وفادار اور جانثار سپہ سالار تھا اس نے ہمایوں کی تمام مصیبتوں میں ساتھ دیا ہمایوں کی وفات پر ہو اکبر کا اتالیق اور سرپرست مقرر ہوا نیز یہ اس کوشش کا نتیجہ تھا کہ اکبر نے پانی پت کی دوسری لڑائی میں فتح حاصل کرکے اپنے باپ کا کھویا ہوا ملک دوبارہ حاصل کیا ۔ بیرم خان نے اکبر کے نابالغی کی زمانے میں پنجاب اجمیر گوالیار لکھنؤ اور جونپور کو مغلیہ سلطنت میں شامل کرلیا تھا ۔بیرم خاں بڑا سخت مزاج اور مغرور آدمی ثابت ہوا تھا اور کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اس لئے دربار میں اس کے کئی دشمن پیدا ہوگئے بیگمات بھی اس سے ناخوش تھی اکبر خود بھی اس پر کئی باتوں سے ناراض تھا ۔ 1560 میں بادشاہ بالغ ہو گیا اور اس نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں بیرم خان کو حج کے لیے مکہ جانے کو کہا اس پر بیرم خان نے بغاوت کردی مگر شکست کھائی اکبر نے اسے معاف کر دیا اور بہت سا روپیہ دے کر مکہ جانے کی اجازت دی لیکن اسے مکہ پہنچنا نصیب نہ ہوا راستے میں گجرات میں پاٹن کے مقام پر ایک پٹھان نے اسے قتل کر ڈالا ۔

اکبر کی فتوحات

تخت نشین ہونے کے بعد اکبر نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی ٹھانی چنانچہ اس نے مندرجہ ذیل فتوحات سے ایک وسیع سلطنت کی بنیاد ڈالی ۔

1556 میں اکبر نے پانی پت کی دوسری لڑائی کی فتح سے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کرلیا ۔

بیرم خان نے 1556 سے 1560 تک پنجاب اجمیر گوالیار اور جون پور کے علاقے فتح کیے ۔

مالووا کا حاکم باز بہادر باغی ہو گیا اسے شکست ہوئی اور 1563 میں مالوی مغلیہ سلطنت میں شامل ہوگیا ۔

گونڈوانا کا علاقہ موجودہ وسط ہند کا شمالی حصہ تھا یہاں پر بہادر راجپوت رانی درگاوتی حکمران تھی اکبر کی فوجوں نے 1564 میں اس علاقہ پر چڑھائی کی رانی درگاوتی نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا آخر شاہی فوجوں کو فتح نصیب ہوئی اور رانی نے رسم جوہر ادا کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ۔

چتوڑ 1567 ۔ میں اکبر نے راجپوتانہ کی مشہور ریاست میواڑ کے دارالخلافہ چتّوڑ پر حملہ کیا اس جگہ راناسانگا کا بیٹا اودے سنگھ راج کرتا تھا ۔ رانا اودے سنگھ خود تو ارولی پربت کی طرف بھاگ گیا لیکن اس کے سپہ سالار جے مل نے خوب مقابلہ کیا چتوڑ کامحاصرہ عرصہ تک جاری رہا ایک دن اکبر نے جے مل کو قلعہ کی فصیل پر کھڑا دیکھ کر نشانہ بنایا ۔ اس کے بعد راجپوت فتا کی سرگردگی میں قلعہ کے باہر مغلوں سے لڑے ۔ مگر شکست کھائی آخر قلعہ فتح ہوگیا اودے سنگھ نے اپنے نام پر ایک نیا شہر اودے پور آباد کیا اور اسے دارالخلافہ بنا کر راج کرنے لگا ۔

رنتھمبور اور کالنجر 1568 میں اکبر نے رنتھمبور اور کالنجر کے قلعوں پر حملہ کیا اور انہیں فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔

گجرات مظفر شاہ حاکم گجرات کمزور ہونے کی وجہ سے برائے نام بادشاہ تھا اکبر نے 1572 میں گجرات پر حملہ کیا اور اسے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔

بنگال 1576 میں داود خاں صوبیدار بنگال نے اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا اکبر نے اپنے لائق وزیر راجہ ٹوڈرمل کو بنگال کی فتح کے لیے بھیجا داودخان شکست کھا کر مارا گیا اور 1576 میں بنگلہ وبہار شاہی حکومت میں شامل ہوئے ۔

کابل 1579 میں اکبر کے سوتیلے بھائی حکیم مرزا حاکم قابل نے بغاوت کی اور پنجاب پر حملہ آور ہوا اکبر خود اس کے مقابلہ کے لیے نکلا حکیم مرزا کو شکست ہوئی ۔ 

کشمیر 1586 میں اکبر نے راجہ بھگوان داس کو ایک بڑی فوج دے کر کشمیر فتح کرنے کے لئے روانہ کیا اس نے یوسف شاہ والئے کشمیر کو شکست دے کر کشمیر کو مغلیہ سلطنت میں شامل کیا ۔

سندھ اڈیسہ اور قندھار اکبر نے سندھ کے پار یوسف زئی افغان کی سرکوبی کے لیے راجہ بیربل کو روانہ کیا راجہ بیربل آٹھ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ مارا گیا آخر راجہ ٹوڈرمل اور مان سنگ نے بڑی سخت جنگ کی بعد 1592 میں اس علاقے کو فتح کیا اسی سال اکبر نے اڑیسہ کو فتح کیا
1595 میں اکبر نے قندھار کا علاقہ ایرانیوں سے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا ۔

دکن کی فتوحات

احمد نگر کی فتح : نظام شاہ کی وفات پر ملک میں ابتری پھیل گئی اکبر نے 1595 میں شہزادہ مراد کو احمد نگر کی فتح کے لیے روانہ کیا ۔ احمد نگر  پر اس وقت علی عادل شاہ والئے بیجاپور کی بیوہ چاند بی بی حکمران تھی اس نے بڑی بہادری سے شاہی فوجوں کا مقابلہ کیا اس لیے مغلیہ فوج کو محاصرہ اٹھا لینا پڑا ۔ 1599 میں چاند بھی کو اپنے ہی سپاہیوں نے قتل کر دیا اس لیے اکبر نے 1600 میں احمد نگر کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا 1601 میں اکبر نے خاندیش کے مشہور قلع اسیر گڑھ کو فتح کیا ۔

وسعت سلطنت

ان فتوحات سے اکبر کی سلطنت کی وسعت کابل سے لے کر بنگال اڑیسہ تک اور کشمیر سے لے کر دکن میں دریائے گوداوری تک پھیل گئی تھی ۔

اکبر کا ملکی نظام

اکبر نے اپنی سلطنت کو انتظام کی خاطر 15 صوبوں میں تقسیم کر رکھا تھا ۔ کابل، لاہور، ملتان، دہلی، آگرہ،اودھ،الہ آباد، اجمیر،مالوہ،گجرات،بہار،بنگال خاندیش،برار،احمد نگر ہر ایک صوبہ ضلعوں میں تقسیم تھا ۔ ضلع پرگنوں میں اور پرگنے دستور میں تقسیم تھے ہر ایک صوبہ  ایک صوبے دار کے ماتحت تھا جو یاتو بادشاہ کا کوئی رشتہ دار یا اعلیٰ رتبہ کا کوئی امیر ہوتا تھا اسے اپنے صوبہ میں پورے اختیارات حاصل تھے اس کی مدد کے لیے ایک دیوان اور ایک فوجدار مقرر تھا دیوان سرکاری آمدنی و خرچ کا حساب رکھتا تھا اور فوجدار صوبہ کی فوج کا اعلیٰ افسر ہوتا تھا ۔ گاؤں کی حفاظت کے لیے چوکیدار اور شہر و قصبوں کی حفاظت کے لیے پولیس تھی جس کا اعلی افسر کوتوال ہوتا تھا مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے میرعدل اور قاضی مقرر تھے ۔

اکبر کا فوجی نظام

اکبر کے پاس مستقل فوج 25000 تھی جس میں ساڑھے بارہ ہزار سوار اور باقی پیادہ توپچی تھی ۔ اکبر کے زمانہ میں مغلیہ فوج بڑی طاقتور تھی فوج کے کارکن اور اعلی افسر منصبدار کہلاتے تھے منصب داروں کے 23 درجے تھے ۔ جن کا امتیاز گھوڑ سواروں کی تعداد پر تھا جوان افسروں کو بوقت ضرورت بادشاہ کے لئے مہیا کرنے پڑتے تھے سب سے ادنیٰ منصب دار کے پاس دس سوار تھے اور سب سے اعلیٰ کے پاس دس ہزار ۔  منصب داروں کو صوبے یا جاگیر عطا ہوتی تھیں جن کے عوض انہیں اپنے سپاہیوں کو تنخواہیں دینی پڑتی تھی چھوٹے افسروں اور سپاہیوں کو خزانہ سے نقد تنخواہ ملتی تھی ۔ کبھی کبھی منصب داروں کو اپنے سواروں کو بادشاہ کے ملاحظہ کے لئے پیش کرنا پڑتا تھا اکبر نے گھوڑوں کو داغ لگانے کا طریقہ جاری کیا ہوا تھا ۔

اکبر کا مالی نظام

اکبر نے مظفرخاں اور راجہ ٹوڈرمل کے مشورہ سے بندوبست اراضی میں بڑی مفید اصلاحات جاری کی ۔

تمام قابل کاشت زمین کی پیمائش کرائی ۔

تمام زمین کو زرخیزی کے لحاظ سے تین درجوں میں تقسیم کیا ۔

ہر ایک بیگھ زمین کی پیداوار کا اندازہ لگا کر اس پر ایک تہائی سرکاری لگان مقرر کیا۔

سرکاری لگان جنس کی بجائے نقد روپیہ میں وصول کرنے کا حکم دیا ۔

بندوبست اراضی کی میاد بجائے ایک سال کے دس سال مقرر کی ۔

قحط سالی میں سرکار کی طرف سے زمینداروں کو روپیہ بطور قرضہ دینا منظور کیا ۔

لگان وصول کرنے والے افسروں کو رشوت یا نذرانہ لینے کی سخت ممانعت کی ۔

اکبر کا یہ بندوبست اراضی اس کے عہد کا سب سے شاندار کارنامہ خیال کیا جاتا ہے اور ان میں سے اکثر قوانین پر آج تک عمل ہورہا ہے ۔

سماجی اصلاحات

اکبر نے اپنے عہد میں کی سماجی اصلاحات بھی کی جن میں سے حسب ذیل بہت مشہور ہیں

اس نے بچپن کی شادی کو ممنوع قرار دیا

اس نے رسم ستی کو بند کرنے کی کوشش کی

اس نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت دی

اس نے یاترا ٹیکس اور جزیہ منسوخ کر دیے اور ریا کو مذہبی آزادی دے دی

اس نے خاص خاص دنوں پر جانوروں کا قتل کرنا ممنوع قرار دیا

اکبر کی حکمت عملی

اکبر ایک اعلی پایا کا حکمران تھا اس نے اپنی حکمت عملی سے تمام لوگوں کو خوش رکھا اس نے اپنے عہد حکومت میں ہر شخص کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی اور وہ تمام آدمیوں کو ایک نظر سے دیکھتا تھا اس کے کاروبار میں دے دیئے اور راجپوتوں کے ساتھ ایسا اچھا سلوک کیا کہ جس سے وہ اس کے دوست بن گئے ۔اکبر نے راجپوت خاندانوں میں کئی شادیاں کی چنانچہ اس نے راجہ بہاری مل والئےجئے پور کی لڑکی سے شادی کی اور اس کے لڑکے بھگوان داس کو شاہی ملازمت میں لے لیا اکبر نے سلیم کی شادی پہلے بھگوان داس کی لڑکی اور بعد میں اودح سنگھ والیے جودھپور کی دختر جودھابائی سے کی اس طرح سے اس نے راجپوتوں سے رشتے ناطے پیدا کرکے انہیں اپنا سچا خیرخواہ بنا لیا ۔ اس نے لائق اور قابل راجپوتوں کو اپنے دربار میں اعلی عہدوں پر لگایا ۔ ایسی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام ہندو اکبر کے جانثاری آیا بن گئے اور ہر ایک ہندو کے دل میں اکبر کے لئے عزت ہوگی جس سے مغلیہ سلطنت کی جڑیں ہند کی سرزمین میں مضبوط ہوگیں ۔

اکبر کے مذہبی خیالات

اکبر ایک آزاد خیال شخص تھا اور اس میں مذہبی رواداری حددرجہ کی تھی وہ مذہب کے نام پر کسی کو دکھ نہیں دیتا تھا اس کے مشہور مشیر فیضی اور ابوالفضل جیسے آزاد خیال عالموں کی تعلیم نے اکبر پر بڑا اثر کیا تھا نیز اس کی ہندو رانیوں نے بھی اس کے خیالات میں خاص تبدیلی پیدا کر دی تھی اس نے ان رانیوں کو پوجا کرنے کے لیے محلات میں مندر بنوا دیے تھے ۔اکبر کا خیال تھا کہ ہر مذہب میں نیکی اور سچائ موجود ہے چنانچہ اس نے سلطنت میں ہر شخص کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی اکبر آخری عمر میں ہندوؤں کی طرح پوشاک پہنتا اور ڈاڑھی منڈواتا تھا نیز اس نے گوشت کھانا بھی کم کر دیا تھا ۔

دین الہی

اکبر کو شروع سے ہی تحقیق کا بڑا شوق تھا وہ مذہب کی اندھا دھند پیروی نہیں کرتا تھا اور کسی مذہبی مسئلہ کو بغیر جانچ پڑتال کے قبول نہیں کرتا تھا ہندو رانیوں سے شادی کرنے اور شیخ مبارک اور اس کے دو بیٹوں کے صوفیانہ خیالات سے اکبر کے دل پر گہرا اثر پڑا اس نے 1505 میں فتح پور سیکری میں ایک عبادت خانہ بنوایا جہاں تمام مذاہب کے علماء جمع ہوتے تھے ۔ اور اپنے اپنے مذاہب کی سچائی کے متعلق بحث کرتے تھے بادشاہ ان مباحثوں کو سن کر اس نتیجے پر پہنچا کہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور موجود ہے چنانچہ 1582 میں اس نے اپنے وزیر ابوالفضل کے مشورہ سے ایک نیا مذہب دین الہی کے نام سے چلایا اس میں تمام مذاہب کی اچھی اچھی باتیں جمع کر دیں اس کے بڑے بڑے اصول یہ تھے خدا ایک ہے اس کی پوجا کرنا انسان کا فرض ہے اکبر اس کا خلیفہ ہے اکبر ہر صبح مجموعہ عام میں سورج کی پوجا کرتا تھا اس سورج آگ ستاروں اور چاند کو خدا کی طاقت کا نشان مانتا تھا اس کے پیرو اکبر کے سامنے سجدہ کرنا ضروری خیال کرتے تھے اگرچہ یہ نیا مذہب اکبر جیسے عظیم شہنشاہ کا جاری کیا ہوا تھا مگر صرف 18 خوشامدی درباریوں تک ہی محدود رہا اور عام لوگوں میں نہ پھیلا بلکہ اس کے مرتے ہی ختم ہوگیا ۔

اکبر کے نورتن  

اکبر کا دربار بڑا شاندار تھا اس کے دربار میں نواش کا خاص طور پر قابل ذکر تھے انہیں نورتنا کہا جاتا تھا

ابوالفضل

ابوالفضل شیخ مبارک کا بیٹا اور فیضی کا بھائی تھا وہ عالم اور کمال درجہ کا ذہین تھا اکبر کا مشہور وزیراعظم تھا امور سلطنت اس کے مشورہ سے سرانجام پاتے تھے عالم ہونے کے علاوہ بہادر سپاہی بھی تھا اور دنیا کے تمام مذاہب کا اسکالر تھا دین الہی جاری کرنے میں و اکبر کا خاص صلح کار تھا اس نے اکبرنامہ اور آئین اکبری دو مشہور کتابیں لکھیں جن میں اکبر کے عہد کے واقعات درج ہیں ۔ 1603 میں شہزادہ سلیم کے ایما پر راجہ نرسنگھ دیو نے بندیل کھنڈ میں اسے قتل کروایا اکبر کو اس کی موت پر صدمہ پہنچا ۔

فیضی

شیخ مبارک کا لڑکا ابوالفضل کا بڑا بھائی تھا علم و حکمت شاعری اور علم ادب میں بڑا لائق تھا سنسکرت اور فارسی زبان کا بڑا اسکالر تھا اس نے بھگوت گیتا رامائن اور مہابھارت کا سنسکرت سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا ۔ اکبر نے اسے ملک الشعرا کا خطاب دے رکھا تھا وہ اکبر کے بیٹوں کا استاد تھا دین الہی جاری کرنے میں وہ بھی اکبر کاخاصہ کار تھا اس کے کتب خانہ میں 4 ہزار سے زائد قلمی نسخے موجود تھے ۔ 

راجہ ٹوڈرمل

راجہ ٹوڈرمل پنجاب کا ایک کھتری تھا وہ پہلے شیرشاہ سوری کا وزیر مال تھا پھر اکبر نے اسے وزیرمال مقررکیا اکبر کے زمانہ کا بندوبست اراضی اور مال گزاری اسی کے ہی اعلیٰ دماغ کا نتیجہ تھا علاوہ ازیں اعلی پایا کا جرنیل تھا چنانچہ اس نے بنگال کو فتح کرکے اکبر کی سلطنت میں شامل کیا ۔

بیربل

بیربل کالپی کا ایک برہمن تھا یہ بڑا ذہین  ہنس مکھ اور لطیفہ گو تھا اپنی لطافت اور حاضر جوابی کے لئے مشہور تھا اس کی کہانیوں ولطائف اب بھی بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں اس نے سندھ میں یوسف زئی پٹھانوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اس کا اصلی نام مہیش داس تھا ۔

عبدالرحیم خانخاناں

وہ بیرم خان کا بیٹا اور بہادر جرنل تھا اس نے کئی لڑائیوں میں اپنی بہادری کے جوہر دکھا کر نام پیدا کیا اور بڑا عالم تھا اس نے تزک بابری کا ترکی زبان سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ۔

مان سنگھ

مان سنگھ جےپور کے راجہ بھگوان داس کا متبنی تھا ۔وہ اکبر کا جرنیل تھا اس نے اکبر کے عہد میں کئی صوبے فتح کرکے سلطنت مغلیہ میں شامل کیے اور بنگال کا صوبہ دار بھی تھا ۔

ملا دوپیازا

بیربل کی طرح یہ بھی حاضرجوابی میں بڑا مشہور تھا اکبر کے خاص مصاحبوں میں اس کا شمار ہوتا تھا ۔

حکیم ابوالفتح
یہ اعلیٰ پایا کا حکیم تھا بڑا ذہین اور معاملہ فہم تھا دین الہی کے جاری کرنے میں اکبر کا معاون تھا ۔

عزیز مرزا کوکلتاس
یہ اکبر کی دایہ کا لڑکا تھا اکبر کو اس سے بڑی محبت تھی اس سے جب کوئی قصور سرزد ہوتا تو اکبر یہ کہہ کر معاف کر دیتا کہ میرے اور عزیز کے درمیان دودھ کا دریا بہتا ہے جسے میں عبور نہیں کر سکتا اکبر نے اسے خان اعظم کا خطاب دیا تھا ۔

نوٹ
اس کے علاوہ اکبر کے زمانے میں کئی اور مشہور آدمی ہو گزرے ہیں ان میں ہندی کا مشہور شاعر تلسی دس بہت مشہور تھا جو کہ ہندی رامائن کا مصنف تھا آگرہ کا نابینا شاعر سورداس بھی بہت مشہور تھا ہندی زبان میں لکھی ہوئی مشہور کتاب سور ساگر اسی کی تصنیف ہے تان سین مشہورعالم گویا اور خواجہ عبدالصمد شیراز کا مشہور مصور بی اس کے دربار کی زینت تھے ۔

اکبر کا چال چلن


اکبر کا قد میانہ اورنگ گندمی تھا آنکھیں سیاہ داڑھی منڈی ہوئی جسم فربہ سینہ کشادہ اور ہاتھ و بازو لمبے تھے ناک کے دائیں طرف ایک مسہ تھا جو بڑا خوبصورت اور اقبال مندی کا نشان سمجھا جاتا تھا آوازبلند طرز گفتگو شیریں دلکش تھی ۔ اس کے چہرے سے جلال ٹپکتا تھا وہ ہر قسم کی کھیلوں خصوصا چوگان کا بڑا شوقین تھا اعلی درجے کا شہسوار اور تیر انداز ہونے کے علاوہ تیراندازی تیغ زنی اور اس کے علاوہ ہر طرح کے مردانہ فن میں اسے کمال حاصل تھا ۔13 اکتوبر 1605 (63 سال کی عمر میں اکبر فوت ہوگیا ۔

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...