ایک بستی، سولہ پشتیں
کروشی
آفتاب عالم ؔ دستگیر پٹیل ( شاہ
نوری)
کروشی ، بلگام ،کرناٹک (انڈیا)
بسم
اللہ الرحمن الرحیم
ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی ؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولاد کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔ مسند احمد
تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جس کہ ذریعہ انسان ماضی کے آئینے
میں جھانک کر حال کو سنوار سکتا ہے ۔مجھے بچپن ہی سے تاریخ سے دلچسپی رہی ہے، اس
کی ایک وجہ یہ بھی رہی ،کہ گھر کے بڑے بزرگوں سے اپنے آبا و اجداد کے قصے سننا ،
ان کے طور طریقے ،ان کا انداز ِ زندگی ، ان کا رہن سہن ،موسم ، کھیت کھلیان ، تہذیب
و تمدن، اِن ساری چیزوں کی وجہ سے میرا ذہن تاریخ سے دلچسپی لینے لگا
، جب اسکول جانے لگے تو اساتذہ نے مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کا وہ نقشہ ہمارے سامنے
پیش کیا جس کے نقش اب تک دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں اور انہیں ایام میں ہر
سال ایک شخص آیا کرتا تھا جو اب بھی آتا ہے جسے کنڑا زبان میں
"ہیڑوا" اور اردو میں میراثی کہتے ہیں، جو اپنی بڑی ڈائیری میں گھر کے نئے پیدا شدا
بچوں کے ناموں کا اندراج کرکےہمارے خاندان کا شجرہ نسب پڑھ کرسناتا ہے اور
اس وقت کی موجودہ فصل یا روپئے پیسے لے کر چلا جاتا ہے۔اس کا پچھلا
سفر 2022کو ہوا تھا جس میں اس نے گھر میں نئے پیدا شدہ بچوں کے ناموں کا اندارج
کرلیا تھا اس شخص کی وجہ سے اور بھی زیادہ ہمارے بزرگوں کی تاریخ جاننے
کا شوق پیدا ہوا ، جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو وہاں عالمی تاریخ پڑھنے کا
موقع ملا اور بیجاپور کے دو سالہ قیام اور وہاں سے واپسی کے بعد، حال
ایسا ہوا کہ ہر پرانی چیز جس پر قدامت کے آثار ظاہر ہوتے تھے چاہے وہ کسی
کتاب کا ایک بوسیدہ صفحہ ہی نہ کیوں ہو اسے سنبھال کر رکھنے کی عادت پڑھ
گئی،جو آج تک قائم ہےجب اس "ہیڑوے" کا پچھلا سفر ہوا تھا اس وقت میں نےاپنے
آباواجداد کے نام تحریر کروا لئے تھے جسے میں نے مندرجہ ذیل تحریر کر دئے ہیں
۔
ہیڑوے
کا تیار کردہ کروشی پٹیل برادری شجرۂ نسب
دل
میں ایک خواہش ہورہی تھی کے کرویش کی ایک مستند تاریخ تلاش کرکے لکھی جائے
اچانک مجھے پتا چلا کے بلگام کے مصنف ع ۔صمد خانہ پوری صاحب نے اور مولانا حبیب اللہ عنایت بیگ جامعی غفرلہ نے
اپنی کتاب " بلگام۔ تاریخ کے آئینے میں(تحقیق) " اور ہ تذکرۂ علماء و مشائخ ِ کرناٹک کے عنوان
سے مستند حوالوں کے ساتھ کتابیں لکھی ہے ، جس میں کروشی کا مفصل ذکر کیا
گیا ہے انہوں نے میرے اس کام کو آسان بناد یا ،اب اسی کتاب سے کروشی کی تاریخ آپ
قاریئن کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
کروشی (کرویش)
چکوڑی سے 7 کلو میٹر کے فاصلہ پر
موجود یہ گاؤں یہاں پر موجود حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا
ؒ کی ذات اقدس اور گٹی بسونا مندر کی وجہ سے عام و خاص کا مرکوز نظر رہا ہے۔درگاہ
حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کے تعلق سے لوگوں کا عقیدہ
ہے کہ یہاں ہر آسیب زدہ انسان بابا کی کرامت کی وجہ سے تندرست ہو جاتے ہیں ۔یہی
وجہ ہے کہ یہاں ہر مذہب و زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کا ہمیشہ ایک اژدہام رہا
کرتا ہے۔کروشی کو چکوڑی کی ایک بڑی اور اہم بستی ہونے کا فخر حاصل ہے۔اس مقام کو
ایک اہم تعلیمی مرکز ہونے کا بھی شرف رہا ہے۔اس گاؤں کا جغرافیائی رقبہ
2407.6 ہیکٹر ہے۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 8،481 بتائی جاتی
ہے۔ایک سروے کے مطابق یہاں پر کم و بیش 1،919 مکانات ہیں۔یہ علاقہ
اپنی زراعت اور کاشتکاری کے لئے مانا جاتا ہے۔
حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ درگاہ
کروشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس سر
زمین کو دارالاولیا ء و بیت الفقراء ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس سر زمین پر
حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ ببانگ دہل اعلان کررہا ہے کہ " یہ وہ
لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور عہد کرلیتے ہیں ، اس کو پورا کرتے ہیں
اور اپنے اقرار کو نہیں توڑتے ۔"(۱۳ رعد ۳ ع
)۔
آپ صاحب کشف و کرامات تھے
اُس وقت بیجاپور علوم و فنون کا مرکز
مانا جاتا تھا جہاں بڑے برے صاحب کشف و کرامات بزرگان موجود تھے۔ آپ کی ذاتِ اقدس
بھی کشف کرامات تھی اور ہمہ وقت اپنی خانقاہ میں ریاضت اور مجاہدات میں مشغول رہنے
لگے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں روشنی کا وجود بہت جلد پہچانا جاتا ہے، آپ
کی آمد اور قیام کی خبر دور دور تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، بادشاہ وقت یوسف
عادل شاہ تک بھی یہ خبر پہنچ گئی جو اس وقت تخت نشین تھا۔ آپ کی خانقاہ میں دور
دور سے لوگ پہنچ کر فیوض سے مستفیض ہونے لگے۔ یوسف عادل شاہ بھی آپ کے حلقہ ارادت کا
طلب گار ہوا اور ہر ماہ کم سے کم دو ایک بار آپ کی خدمت میں پہنچنے لگا۔
کرویش گاؤں کی فتح
روایت ہے کہ یوسف عادل شاہ کو آپ سے گہری نسبت تھی ایک دن جب بادشاہ آپ کے پاس تھا ، خبر ملی کے کہ کرویش گاؤں فتح ہوگیا ہے۔بادشاہ نے اس کو حضرت شاہ نور بابا کی دعاؤں کا نتیجہ سمجھ کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ گاؤں محض آپ کی دعاؤں کی وجہ سے فتح ہوا ہے اس لئے یہ گاؤں آپ کو مبارک ہو۔عادل شاہ نے فرمان شاہی جاری کرتے ہوئے کروشی کی جاگیر آپ کے نام معنون انعام کردی اور اس کی پیشگی کا فرمان جاری فرمایا اور پورے عزت و احترام کے ساتھ کرویش روانہ کردیا کہ اس گھٹاٹوپ اندھیر میں اسلام کی شمع روشن ہو سکے
حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ
کہا جاتا ہے کہ اپنے کئی سال تک کرویش
کے پٹیل کی حیثیت سے اس گاؤں کا نظم و نسق سنبھالا لیکن آپ کی شخصیت ایک مجرد سیاح
کی تھی جو خانگی امور کی جکڑ بندیوں سے مبرا رہا کرتا ہے،دنیاداری آپ کا شیوا نہ
تھا لیکن بادشاہ وقت کی دی گئی انعامی زمین سے دستبردار ہونا بھی ناگوار تھا۔اس
لئے آپ نے پوری جاگیر اپنی بہن کے بیٹے حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد
کردی اس طرح آج پانچ سو سال کا عرصہ ہوا کہ اس گاؤں کی پاٹیلگی اور زمینداری حضرت
محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے اولاد در اولاد میں جاری و ساری ہے ۔اور اس خاندان
کے لوگ آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت عوامی خدمات کا کام کر رہےہیں۔ان کی اولاد میں
آج حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی )اس کتاب کی
تالیف کےوقت حیات ہیں اور انہیں کی سعی مسلسل کی وجہ سے حضرت راجےنور
عرف شاہ نور رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے آگاہی ہوئی ہے
عادل شاہی فرمان
کرویش کی حوالگی اور زمین داری کے
تعلق سے سلطان عادل شاہ کی طرف سے جاری کردہ شاہی فرمان آج بھی کرویش کے پٹیل
خاندان کی تحویل میں بابا رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مقدس امانت کے طور پر نسل درنسل
محفوظ ہے ،یہ وہ فرمان ہے جس پر عادل شاہ کی مہر ثبت ہے۔ اس میں درج ہے کہ حضرت
راجی نور شاہ درویش کو بادشاہ کی فرمائش پر کرویش کی زمین عطا کر دی گئی ہے اور اس
خاندان کو کلی اختیارات دیئے گئے ہیں کہ سال در سال اس زمین کا محصول حاصل کرتے
رہیں۔ اسی خانوادے سے حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی ) ہیں
حضرت شاہ نور بابا رحمتہ اللہ علیہ کا
آستانہ:
کرویش میں حضرت شاہ نور بابا رحمۃ
اللہ علیہ کا آستانہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں پر آج بھی ہزاروں عقیدت مند اور
ارادت مند لوگوں کا ایک جم غفیر اور ہجوم ہوا کرتا ہے آپ جس مقام پر آسودہ خاک ہیں
اس مزار مقدس پر ایک بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر کیا گیا ہے ہر سال گھڑی
پاڑوا کے کچھ عرصہ بعد آپ کا عرس بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس
میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلاتفریق مذہب وملت شریک ہوتے ہیں۔
" بلگام۔
تاریخ کے آئینے میں(تحقیق) " ص نمبر 150
عارف کامل ذبدۃ الواصلین وقدوۃالسالکین عارف باللہ حضرت راجی نور شاہ عرف شاہ نور بابا قدس سرہ کے مختصرا احوال زندگی
ریاست کرناٹک، ہندوستان کے دیگر علاقوں
کی طرح علمی و روحانی فیوض کا ماویٰ و معدن رہا ہے ۔ یہاں کی سرزمین پر بے شمار اساطین
علم و فن اور اصحاب طریقت و حقیقت ارباب صدق و صفا اور جامع شریعت و طریقت اولیائے
کرام پیدا ہوئے اور مختلف ملکوں سے یہاں آ کر بود و باش اختیار فرمائی اور یہاں بسے
اور رہے اور یہاں کی سرزمین کو اپنے علم و فن سے مامور اور اپنے صدق و صفا سے منور
کرتے رہے ۔ انہی اولیاء کرام میں کرویش کے عارف باللہ حضرت راجی نور شاہ عرف شاہ نور
بابا قدس سرہ بھی ہیں ۔ جن کا مبارک تذکرہ کتاب تذکرہ علماء و مشائخِ کرناٹک مصنف حضرت
مولانا حبیب اللہ عنایت بیگ حفظ اللہ ساکن اتھنی میں مذکور ہے ۔ یہ کتاب کرناٹک کے
علمی و روحانی ادبی و شعری سیاسی و ملی احوال پر ایک نہایت جامع دستاویز کی حیثیت رکھنے
والی پونے چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ہے ۔ جس میں صدیوں پہلے کے تقریبا 175 جید علماء
و اولیائے کرام کے مبارک تذکروں کے ساتھ 186 شہروں میں مدفون خاصانِ حق وہ مقبولان
الہی کے احوال مذکور ہیں جس کے صفحہ نمبر 510 پر حضرت موصوف رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح
عمری مستور ہے یہ احوال وہیں سے ماخوذ ہیں ۔ ۔ ۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں :
مولانا حبیب عنایت اللہ بیگ 9945508352
منقبت
حضرت
راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ
کروشی
ضلع بلگام ،کرناٹک
ہمارے
حضرتِ راجی کی اونچی شان ہے لوگو
انہی
کے نام سے بستی کی اک پہچان ہے لوگو
ہٹا
کر کفر کی چادر کو اس بستی کے ذروں سے
عطا
کی ثروتِ ایماں بڑا احسان ہے لوگو
محمد
میراں تھے ہمشیر زادہ میرے حضرت کے
مرے
اجداد کو حاصل بڑا یہ مان ہے لوگو
عقیدت
سے محبت سے نظر والے یہ کہتے ہیں
کہ
ان کا آستانہ تو ہماری شان ہے لوگو
قیامت
تک رہے جاری جہاں میں فیض حضرت کا
یہی
میری تمنا ہے یہی ارمان ہے لوگو
کہاں
جاؤں میں ان کی قربتوں کو چھوڑ کر عالمؔ
نکلنا
جسم سے کیا روح کا آسان ہے لوگو
آفتاب
عالمؔ شاہ نوری
تربیت سے تیری مَیں انجم
کا ہم قسمت ہُوا
گھر مِرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہُوا
علامہ اقبالؒ
اللہ
تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر ایک محقق بنا کر پیدا کیا ہے، انسان ہر اس چیز کی
تحقیق کرنا چاہتا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہے، بعض کے سوالوں کے
جوابات تو آسانی سے مل جاتے ہیں بعض کے جوابات نہیں مل پاتے
،اسی قسم کے تین بنیادی سوالات ہیں جس کے متعلق ہر انسان سوچتا رہتا
ہے۔۔۔۔ کہ"میں کون ہوں؟ "ہم کون ہیں ؟" ،"ہمارے کون
ہیں"؟ میں کون ہوں یا ہم کون ہیں اس کا جواب عام طور پر گھر کے افراد کے
واسطے سے مل جاتا ہے، تیسرا سوال ہمارے کون ہیں اور کہاں
ہیں یعنی خونی رشتے دار ،اس کا جواب کم ہی افراد جانتے ہیں ، اللہ
جزائے خیر دے مرحوم نثار احمد پٹیل چچا کے خاندان کے سارے
افراد کو جنہوں نے کروشی کی پٹیل برادری کا نسب نامہ سنبھال رکھا تھا ،
میں احسان مند ہوں محمد صدیق پٹیل چچا، محبوب پاشا چچا ، توصیف بھائی،شاہد
بھائی،اسد الزماں بھائی کا جنہوں نے 13 جنریشن تک کا مکمل نسب نامہ مجھے دیا
، اگلی دو تین جنریشن کے ناموں کو
میں نے اللہ کا نام لے کر شروع کیا تو میں حیران رہ گیا کہ
ہماری برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ملک اور بیرون ملک میں کئی
جگہ بسے ہیں جن جن لوگوں سے بات کرتا ان میں سے کئی
افراد تو میرے اتنے قریبی رشتے دار نکلے جس کا مجھے علم ہی نہیں
تھا الحمد للہ تقریباً مسلسل 22 دن کے بعد یہ کام
مکمل ہوا جب اسے چارٹ پر لکھنے لئے بیٹھا تو اس نسب نامے کا ایک کارڈ
شیٹ میں سمانا نا ممکن تھا شروع سے کروشی کی پٹیل
برادری 6 گڈّوں میں تقسیم ہے اس لئے میں نے اپنی آسانی کے
لئے ہر گڈّے کے ناموں کو الگ الگ صفحے میں تحریر کر دیا ۔جس سے کسی حد
تک یہ کا آسان ہوگیا،
کروشی
کے پٹیلوں کی نذر
جہاں
والوں نے اپنوں سے عداوت کی سیاست کی
کروشی
کے پٹیلوں نے یہاں ہر دم محبت کی
ہمارے
نوجوانوں کے بڑے پرنور چہرے ہیں
کہوں
تعریف میں کیا کیا میں ان کے جاہ و حشمت کی
رگوں
میں خون بہتا ہے جواں مردوں جسوروں کا
مثالیں
دے رہی دنیا پٹیلوں کی شجاعت کی
خدا
کے دین کی تبلیغ کا مقصد لیے دل میں
کروشی
کی زمیں تک میرے آبا نے ہی ہجرت کی
اسے
خوبی کہو گاؤں کی یا تحفہ کہو رب کا
بڑی
ہے دھوم دنیا میں کروشی کی ضیافت کی
ہمیں
ہے فخر عالمؔ حضرتِ راجی کی نسبت پر
پٹیلوں
پر نوازش ہے انہی کے نیک نسبت کی
آفتاب
عالمؔ شاہ نوری
کروشی
کے پٹیل خاندان کا شجرہ نسب
(1)مکتوم پٹیل کی
اولاد محمد پٹیل گڈّا کہلاتی ہے
(2)سراج پٹیل کی
اولادبالا پٹیل گڈّا کہلاتی ہے
(3)قادرپٹیل کی
اولادلاڈو پٹیل گڈّا کہلاتی ہے
(4)امام پٹیل کی
اولاد مکتوم پٹیل گڈّا کہلاتی ہے
(5)درویش پٹیل کی
اولاد میراں پٹیل گڈّا کہلاتی ہے
(6)باپو عرف بالا
پٹیل کی اولادگھوڑو پٹیل گڈّا کہلاتی ہے
ہر
گڈّے کے افراد کا مختصر تعارف
1۔
محمد پٹیل گڈّا
آبادی
کے اعتبار سےیہ گڈّا اول نمبر پر ہے،اس گڈّے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے اس گڈّے کے افراد کو بہادری شجاعت اور کسی کام کو آگے بڑ چڑھ کر
کرنے کی نعمت سے نوازہ ہے ، اس گڈّے اکثر و بیشتر افراد دنیاوی اعتبار سے
بڑے بڑے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔
2۔
بالا پٹیل گڈّا
اس
گڈّے کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اس گڈّے میں ایسے افراد پیدا کئے
ہیں جو دینوی اور دنیوی زندگی میں اپنا نام روشن کیا ،
3۔
لاڈو گڈّا
اس
گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد کو اللہ تعالیٰ سیاسی سمجھ بوجھ عطا کی ہے۔
6،5،4
: مکتوم پٹیل گڈّا،میراں پٹیل گڈّا، گھوڑو پٹیل گڈّا
اس
گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد خاموش طبیعت ہیں اس کے علاوہ دین دنیا میں اعلیٰ سے
اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔۔
کروشی
پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے گاؤں اور شہر :
مندرجہ
ذیل میں شہروں اور گاؤں کا ذکر ہے جہاں سالوں سے ان کے درمیان
رشتہ
داریاں رہی ہیں،
شیڑشال،بستواڑ،الاس،
اورواڑ، میرج،وڈی، بلگام،کڑےگاؤں،فقیرباڑا،رکڑی، شیرولی، کتیانی،
ہیرےکوڑی،الہ اباد،ہلدی،بیلےواڑی،جنیاڑ،ارجن باڑہ، تمنک باڑا،کاساری،باروا،روزے
باغنی،دیندےواڑی،ہکیری،مسرگوپا،مغل بستواڑ،گوڑاڑ،اکتن
ناڑ،کندرگی،پاچاپور،انکلا،ماونور،گوڑچنملکی،چمپا ہسور،بساپور، کڑچی،
اس کے علاوہ پچاسوں ایسے گاؤں شہر ہیں جہاں پر کروشی کی پٹیل برادی روزگار کے سلسے میں برسوں سے مقیم ہے جن میں کولھاپور، ستارا،پونا،بمبئی،بیجاپور،گلبرگہ،بنگلور، مہاراشڑرا کرناٹک کے کئی اضلاع اور عرب ممالک، امریکہ (مچیگن) لندن، ملیشیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
نسب
نامہ بھیجنے کا مقصد: اس نسب نامے کو ترتیب دے کر بھیجنے کا یہی
مقصد ہے کہ آپسی تعلقات مضبوط ہوں جو گاؤں سے دور ہیں وہ کم از کم سال میں ایک دو
بار آکر ملاقات کریں اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل جھل کر
رہیں۔۔۔
عادل شاہی دور کا پٹیل برادری قبرستان
اس
قبرستان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تقریبا 500 سال سے بھی زائد مدت کی پانچ
پرانی قبریں ہیں جو دراصل پٹیل برادری کے اجداد کہ ہیں،اس قبرستان کو چھ حصوں میں
تقسیم کیا گیا ہے،جس میں اپنے اپنے گڈے کے اعتبار سے تدفین ہوتی ہے، ایک صاحبِ کشف
بزرگ جب اس پرانے قبرستان میں آ کر تھوڑی دیر مراقبہ کرنے کے بعد فرمایا کہ بھائی
یہاں تو بڑی پاک روحیں دفن ہیں۔
ڈیجیٹل نسب نامہ
چونکہ
موجودہ زمانہ ٹیکنولوجی کا زمانہ ہے ، اور زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے، اس
خاکسار آفتاب عالم شاہ نوری نے اپنے بہنوی وسیم سید عظیم پاشا انعامدار (باشیبان انعامدار بلگام) جو کے ایک
انجئیر ہیں ان کی مدد سے یہ نسب نامہ ڈیجیٹل کروا لیا ۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس
میں کروشی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کا نام لکھا جائے تو اس فردکی اوپر کے 16 اجداد کے نام آجائیں گے۔اس کا
لنک بھی شئیر کر رہا ہوں۔۔
Jazakallah for sharing our shijra.
ReplyDeleteجزاکم الله احسن الجزاء فی الدنیاوالاخرہ
ReplyDelete