Friday, 3 July 2020

ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
شکوہ جواب شکوہ شرح
شارح : ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی



آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349
7019759431

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ 

شکوہ 01




کیوں زیاں کار بنوں، سُود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بُلبل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نَوا مَیں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں
جُرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے، خاکم بدہن، ہے مجھ کو
تشریح
١) میں خود کیوں اپنا نقصان اپنے ہاتھوں سے یا خود کروں اور فائدے کو نظر انداز کردوں آنے والے/مستقبل کی فکر نہ کروں اور گزری ہوئی رات ہی کے غم میں کھویا رہوں ۔
٢) بلبل کے نالے سنوں اور خوب کان لگا کر سنتا رہوں میرے ہم نوا میں بھی کوئی پھول ہوں جو نالے سن کر خاموش رہوں ؟
٣) میری شعروسخن کی صلاحیت مجھ میں جرات پیدا کر رہی ہے خاکم بدہن مجھے اپنے اللہ سے شکوہ ہے ۔

جواب شکوہ 01
 
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قُدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چِیر گیا نالۂ بے باک مرا
تشریح
١) دل سے جو بھی بات نکلے اس میں بڑی تاثیر ہوتی ہے اس لئے کہ اس میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی اگرچہ اس کے پر نہیں ہوتے لیکن اس میں پرواز کی طاقت ہوتی ہے وہ بات آسمان تک پہنچتی ہے ۔
٢) ایسی بات اپنی اصلیت کے لحاظ سے پاک ومقدس ہوتی ہے اور اس کی نظر ہے اگرچہ وہ اٹھتی تو زمین سے ہے (انسان زمین پر ہوتا ہے) لیکن اس کا گزر آسمان تک ہوتا ہے ۔
٣) میرا عشق بڑا شوخ و سرکش اور چالاک تھا چنانچہ اس کی وجہ سے میری بے باک آہ و فریاد ("شکوہ") آسمان چیر کے آگے عرش کی طرف بڑھ گئی ۔

شکوہ 02


ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے
تشریح
١) اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس مولا کریم کی رضا پر راضی رہنے کے انداز میں مشہور ہیں،تاہم ہم اپنے دکھ کی داستان سناتے ہیں، اس لیے مجبور ہیں ۔
٢) ہم ایک طرح سے خاموش ساز ہیں اور فریاد سے بھرے پڑے ہیں ۔اس صورت میں اگر ہمارے ہونٹوں پر نالا/فریاد آتا ہے تو ہم معذور ہیں( ہم سے مراد خود علامہ جو قوم کی حالت پر دکھ کا شکار ہیں)
٣) اے خدا تو اپنے باوفا بندوں کا شکوہ بھی سن لے اور ہم جو تیری حمد وثنا کرنے کے عادی ہیں ہم سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ۔

جواب شکوہ 02
پیرِ گردُوں نے کہا سُن کے، کہیں ہے کوئی
بولے سیّارے، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا، نہیں! اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رِضواں سمجھا
مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تشریح
آسمان نے میری یہ آہ و فریاد سن کر کہا کہ یہاں کہیں کوئی ہے ۔ سیاروں نے کہا کہ یہاں نہیں، عرش بریں پر کوئی ہے چاند کا کہنا تھا کہ نہیں اہل زمین (انسان) ہے،جبکہ کہکشاں کہہ رہی تھی کہ یہیں کوئی چھپا ہوا ہے ۔ میرے اس شکوے کو اگر کوئی سمجھا تو وہ داروغے جنت رضواں تھا ۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ میں جنت سے نکالا ہوا انسان/ آدم ہوں ۔ ( حضرت آدم کو جنت سے نکالا گیا تھا اس حوالے سے خود کو جنت سے نکالا ہوا انسان کہاں ہے)

شکوہ 03




تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پھُول تھا زیبِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرطِ انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عمیم
بُوئے گُل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیّتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمّت ترے محبوبؐ کی دیوانی تھی؟
تشریح
١) اگرچہ تیری قدیم ذاتِ کریم ازل ہی سے موجود تھی ( اور موجود ہے) اور پھول چمن کی آرائش کرنے والا تھا لیکن اس کی خوشبو ابھی پھیلی نہ تھی یعنی تیری ذات ہی سے کائنات کی زیبائی تھی اور ابھی تیری صفات کا اظہار نہیں ہوا تھا ۔
٢) اے صاحب الطاف عمیم! تو ہی انصاف سے بتا دے کہ پھول کی خوشبو کیوں کر پھیلتی اگر نسیم نہ ہوتی؟صبح کی ہوا چلتی ہے تو خوشبو پھولوں کی پھیلتی ہے ۔ نسیم استعارہ ہے مسلمانوں کا جنہوں نے صفات الہی کو سارے جہاں میں اس طرح پھیلایا جس طرح باد نسیم خوشبو کو پھیلاتی ہے ۔
٣) ہمارے لئے یہ پریشانی (مراد وہ انتشار جو صفاتی الہی کو پھیلانے کے لیے دنیا میں ادھر ادھر بکھرنے میں پیش آیا) جمعیت خاطر کا باعث تھی ورنہ کیا (اے مولا! )تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت دیوانی تھی جو یوں دنیا میں بکھر کر تیری صفات پھیلا رہی تھی؟

جوابِ شکوَہ  03
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھُلتا نہیں یہ راز ہے کیا!
تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا!
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا!
غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!
تشریح
فرشتوں کو بھی اس بات پر حیرت تھی کہ یہاں کیسی آواز ہے ۔ پھر عرش والوں پر اس آواز کا راز نہیں کھل رہا تھا ۔ بھلا عرش پر بھی انسان کی ایک ایسی بھاگ دوڑ ہے؟کیا اس خاک کی چٹکی ( مٹی سے بنے ہوئے معمولی انسان) کو بھی اڑنا آگیا ہے جو یہاں تک پہنچ گئی ہے؟ زمین پر رہنے والے یہ لوگ ادب آداب سے کس قدر غافل ہیں یہ کیسے انسان ہیں؟ یہ پستی/ زمین کے باشندے کیسے شوخ اور گستاخ ہیں؟ بھلا عرش بریں پر اس طرح بے تکلفی سے بات یا آہ و فریاد کرنا کوئی اچھی بات ہے؟

شکوہ  04



ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھّر، کہیں معبود شجر
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوّتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
تشریح
1) ہم (امت مسلمہ) سے پہلے تیرے جہاں کا عجیب منظر تھا کہیں تو انسان پتھر کے بت بناکر ان کی پوجا کرتے تھے اور کہی انہوں نے درختوں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا ۔
٢)انسان کی نظر گویا نظر نہ آنے والے مادی جسم یا شئےکی عادی تھی (تیری طرف کہ تو عرش پر ہے ان کی کوئی توجہ نہ تھی) بھلا اس صورت میں کوئی نظر نہ آنے والے خدا کو کیوں کر مانتا اس پر ایمان لاتا؟
٣) یارب! تجھے معلوم ہے کہ کوئی تیرا نام لیتا تھا ؟ یعنی نہیں لیتا تھا ۔ تجھ پر ایمان لانے کا یہ کام تو مسلمانوں کی قوت بازو نے کیا یعنی باطل قوتوں کے خلاف جہاد کرکے توحید کی اشاعت کی نظریہ توحید ایزدی پھیلایا ۔

جوابِ شکوَہ 4
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملائک، یہ وہی آدم ہے!
عالِمِ کیف ہے، دانائے رموزِ کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
تشریح
وہ شکوہ کرنے والا (انسان) کس قدر شوخ ہے کہ اپنے خالق اللہ تعالی سے بھی ناراض/بگڑا ہوا ہے کیا یہ وہی آدم/انسان ہے جسے کبھی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا؟وہ بے شک کیف کا جاننے والا اور کم کو پوری طرح جانتا ہے ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ عاجزی و بندگی کے رازوں سے ناواقف ہے انسان کو اپنی بولنے کی طاقت پر بڑا فخر و غرور ہے لیکن درحقیقت نادان انسانوں کوبات کرنے کا سلیقہ تک نہیں ہے ۔ اگر یہ سلیقہ ہوتا تو یہ شخص کیوں اس قدر گستاخانہ انداز میں اللہ سے بات/شکوہ کرتا ۔

شکوَہ  05



بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تُورانی بھی
اہلِ چِیں چِین میں، ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے، نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی، وہ بنائی کس نے
تشریح
١) اسی دنیا میں سلجوقی بھی آباد تھے اور تورانی بھی،چین میں چین قوم آباد تھی جو بدھ مت کی پیروکار تھی، ایران میں ساسانی خاندان کی حکومت تھی جو آتش پرست تھے ۔
٢) پھر اسی جہان میں یونان میں یونانی بھی رہتے تھے اور یہودی اور عیسائی بھی اسی دنیا کے باشندے تھے ۔
٣) لیکن (اے میرے مولاکریم!)تو یہ دیکھ کے تیرے نام پر کس نے تلوار اٹھائی؟اور جو بات بگڑ چکی تھی اسے کس نے سنوارا،یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے باطل قوتوں اور بت پرستی کے خلاف جہاد کیا اور تیری توحید کی اشاعت میں لگے رہے اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کی اور یوں اس بگڑی ہوئی بات (:بت پرستی وغیرہ) کو سنوارا، توحیدکی تبلیغ کی

جوابِ شکوَہ 05
آئی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہُوا نعرۂ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا
شُکر شکوے کو کِیا حُسنِ ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
تشریح
(عرش سے) آواز آئی کے تیری داستان بڑی غمناک ہے اور تیرا پیمانہ (تیری آنکھیں) بے قرار آنسووں سے بھری پڑی ہیں ۔ (جو تیرے دکھ درد کا پتا دیتے ہیں) ۔ تیرا یہ مستانہ نعرہ ("شکوہ")آسمان تک پہنچا ہے ۔ تیرا دیوانہ دل کس قدر بے باک ہے ۔ یہ بھی شکر کی یعنی اچھی بات ہے کے تونے یہ شکوہ بہت اچھے انداز میں ادا کیا ہے اور یوں تو نے بندوں کو (اللہ) مجھ سے ہم سخن کر دیا (کہ وہ مجھے یوں مخاطب کریں)

شکوَہ  06



تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی
کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
تشریح
١) یہ ہم مسلمان ہی تھے جنہوں نے بڑی دلیری سے توحید کی اشاعت کی خاطر اپنی جان بازی کی اور باطل قوتوں اور حکمرانوں سے ٹکر لے کر ان کا خاتمہ کیا ۔ اس عظیم مقصد کی خاطر ہم بلا خوف وخطر کبھی خشکیوں میں اورکبھی دریاؤں، سمندروں میں ان قوتوں کے خلاف جہاد کرتے رہے ۔
٢ ) ہم نے اشاعت توحید کی خاطرکبھی تو یورپ کے کئی ممالک فتح کرکے وہاں کے گرجا گھروں میں اذانیں دیں اور کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں پہنچ کر یہ عظیم کام کیا اسلام کا پرچم لہرایا ۔
٣) ہم مجاہدین کی نظروں میں دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کی کوئی اہمیت نہ تھی ہم ان سے مرعوب نہ ہوتے تھے ہم ان سے پورے طور پر بے خوف تھے ۔ چنانچہ ان سے ٹکر لینے کے لئے اور توحید کی اشاعت کی خاطر ہم تلواروں کی چھاؤں میں کلمہ پڑھتے تھے ۔ ہم موت کی پرواہ کئے بغیر اپنا جہاد جاری رکھتے اور کسی بھی بڑی سے بڑی قوت سے دب کر اشاعت توحید کے جذبے سے خود کو خالی وہ محروم نہ کرتے تھے ۔

جوابِ شکوَہ  06
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
تشریح
ہم ( اللہ تعالی ) تو تم انسانوں پر مہربانی وکرم کرنے پر تیار و آمادہ ہیں لیکن تم میں کوئی سائل ہی نہیں ہے اب اس صورت میں ہم صحیح راستہ کسے دکھائیں کہ منزل کی طرف جانے والا ہی کوئی نہیں ہے ۔ (گویا خود انسان اپنی فلاح و بہبود کا خیال نہیں کر رہا تو اللہ تعالی اسے کیوں کر اس طرف لا سکتا ہے)اگرچہ تم انسانوں میں تربیت تو عام ہے لیکن ان میں قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں یعنی وہ اس مادہ سے محروم ہیں جو تربیت کو قبول کرےاور اس کا اثر لے ۔ اگر کوئی واقعی صلاحیتوں کا مالک ہو تو ہم اسے شان کئی دیتے ہیں ۔ اور تلاش میں لگے ہوئے انسان کو (کولمبس کی طرح جس نے نئی دنیا یعنی امریکہ دریافت کیا تھا نئی دنیا بھی دیتے ہیں)

شکوَہ  07



ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ‌زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟
قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بُت فروشی کے عَوض بُت شکَنی کیوں کرتی!
تشریح
اے آقا!ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہی جنگوں میں شریک ہونا تھا،ان کی مصیبتوں سے ہم بے نیاز رہتے تھے اور تیرے نام کی عظمت اور اشاعت توحید کے خاطر ہم ان جنگوں میں دشمنوں کی تلواروں کا نشانہ بھی بنتے تھے لیکن ہمارا یہ جہاد جاری رہتا تھا ۔ ہمیں اپنی جانوں کی کوئی پرواہ نہ تھی اور ہمارا جہاد کسی حکومت اور دنیاوی مفاد کی خاطر نہ ہوتا تھا ۔ کیا ہم جو جنگ کے میدانوں میں سربکف رہتے تھے یا ہر وقت جہاد پر آمادہ رہتے تھے یہ سب اس دنیا میں دولت کی خاطر کرتے تھے؟اگر اس سے ہمارا مقصد دنیاوی مال و دولت کا حصول ہوتا اور ہم اس مال و زر پر ہی لٹو ہوتے تو پھر ہم بت بیچنے کی بجائے( کہ اس سے دولت حاصل ہوتی ہے ) بت کیوں توڑتے تھے ۔ محمود غزنوی کے سومنات کے مندر توڑنے کی طرف اشارہ ہے اگر وہ ایسا نہ کرتا تو کافراسے بے پناہ دولت دیتے لیکن ہم نے بت توڑ کر توحید اور اسلام کا پرچم بلند کیا ۔

جوابِ شکوَہ 07
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبرؐ ہیں
بُت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پِسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خُم بھی نئے
حَرمِ کعبہ نیا، بُت بھی نئے، تُم بھی نئے
تشریح
تم لوگوں/مسلمانوں کے ہاتھوں میں طاقت نہیں(پہلے مسلمانوں کے سے قوت جذبے اور ولولے نہیں ہیں) جبکہ تمہارے دل کفر و الحاد کے عادی بنے ہوئے ہیں تم آج کے امتی پیغمبر (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسوائی کا باعث بن رہے ہو ۔ تمہارے اسلاف تو بت شکن تھے لیکن اب جو ہیں وہ بت تراش بنے ہوئے ہیں ۔ صورتحال کچھ اس قسم کی ہے کہ باپ تو ابراہیم علیہ السلام تھے جنون کعبہ کے بت توڑے تھے جبکہ آج انکی اولاد (مسلمان) آزربنی ہوئی ہے ۔ آج شراب پینے والے بھی نئے ہیں شراب بھی اور صراحیاں بھی نئی ہیں ۔ یعنی تم شراب معارفت سے بالکل بیگانہ ہوکر مغربی/یورپی تہذیب کے دلدادہ بنے ہوئے ہو تمہارے اسلاف کعبہ کے عاشق و پرستار تھے لیکن آج کا کعبہ بھی نیا اور بت بھی نئے ہیں ۔ اور وہی بات کے یوروپ کو تم نے اپنا کعبہ بنا رکھا ہے اور فرقوں، قومیت اور وطنیت کی پوجا میں لگے ہوئے ہو ۔

شکوَہ  08



ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اَڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اُکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہُوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے
تشریح
اے ذات کریم ! ہم باطل قوتوں کے خلاف جہاد میں پوری طرح ڈٹ جاتے تھے،چنانچہ دشمن قوت کا بڑے سے بڑا لشکر بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھا جبکہ بڑے بڑے دلیروں بہادروں کے پاؤں بھی میدان جنگ میں اکھڑ جاتے اور بھاگ کھڑے ہوتے تھے ۔ اگر کوئی ملک یا کام تیری توحید اور اسلام سے سرکشی و بغاوت کا مظاہرہ کرتی تو ہم اس سے بگڑ جاتے یا تیرا قہر بن کر اس پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اس موقع پر ہمارے لئے تلوار تو کیا چیز تھی ہم تو توپوں کے آگے بھی ڈٹ جایا کرتے تھے ہمیں اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی ۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف تیری توحید کی اشاعت اور باطل کا خاتمہ ہوتا تھا اپنے انہی عظیم جذبوں اور ولولوں سے ہم نے ہر دل پر تیری توحید کانقش بٹھایا اور اس سلسلے میں اس عظیم مقصد کے حصول میں اگر ہمیں دشمن کی تلواروں کا بھی نشانہ بننا پڑا پھر بھی ہم توحید کا پیغام سنائے بغیر نہ رہ سکے ۔

جوابِ شکوَہ  08
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گُل لالۂ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا، اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا یہی ہرجائی تھا
کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کر لو
ملّتِ احمدِؐ مرسَل کو مقامی کر لو!
تشریح
کبھی وہ بھی زمانہ تھا جب اسلام کو حسن و دلکشی کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا (لوگ اسلام کے سچے عاشق تھے اور موسم بہار کے لئے لالہ صحرائی باعث فخر تھا(اسلام کا عروج مسلمانوں کے لیے باعث فخر تھا) ۔ قدیم دور کا ہر مسلمان اپنے خالق اللہ تعالی(میرا) کا سچا عاشق تھا اور کبھی یہی ہرجائی ( شکوہ میں اللہ تعالی کو ہرجائی کہا گیا ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے ) تمہارا محبوب تھا ۔ اب اگر ہم ہرجائی ہیں تو تو کسی یکجائی کے ساتھ وابستگی پیدا کرلو اس کے غلامی کا عہد کر لو اور احمد مرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو مرکزی حیثیت دے کر ایک نقطہ پر جمع ہوجاؤ ۔ وطنیت کے چکر میں نہ پڑو اصل مقصد تو ایک قوم بننا ہے مصری ایرانی وغیرہ نہیں

شکوَہ  09

تُو ہی کہہ دے کہ اُکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا، اُس کو کِیا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کُفّار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کِیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کِیا تذکرۂ یزداں کو؟
تشریح
یا رب!تو ہی بتا دے کہ در خیبر کس نے اکھاڑا تھا اور قیصر کے شہر کو کس نے فتح کیا تھا؛قیصر روم کے بڑے لشکر کو کس نے شکست فاش دی تھے ۔ پھر کس نے لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا؟کفار کے بڑے بڑے لشکروں کو کس نے تلواروں سے کاٹ کے رکھ دیا تھا ؟نیز ایران کے آتش کدہ کو کس نے ٹھنڈا کیا تھا؟ پر کس نے یزداں کا تذکرہ/ذکر زندہ کیا تھا ۔ ( ایرانی آتش پرستوں کے نزدیک دو خدا تھے، یزداں نیکوں کا اور اہریمن برائیوں کا خدا تھا، اہریمن گویا شیطان) ایران کی فتح کے بعد وہاں تیزی سے اسلام پھیلا یہ سب کچھ کس نے کیا؟اس کا جواب ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے کیا ۔

جوابِ شکوَہ  09



کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمھیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمَضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو، یہی آئینِ وفاداری ہے؟
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
تشریح
تم (آج کے مسلمانوں پر)صبح سویرے اٹھ کر اللہ کی یاد میں محو رہنا کس قدر دشوار/بھاری ہے تمہیں ہم سے کب محبت ہے تمہیں تو بس نیند ہی پیاری ہے ۔ ( اللہ کی عبادت سے تم بے حد غافل ہو ) تمہاری آزاد طبیعت پر رمضان کی پابندی بھی بھاری ہے ۔ تم روزے رکھنا مصیبت سمجھتے ہو ۔ اب اس صورتحال میں تم خود ہی بتاؤ کیا یہ مجھ سے وفاداری کا طور طریقہ ہے؟ کسی ملت کا وجود مذہب کے حوالے سے ہے جب مذہب ہی سے بیگانہ ہو جاؤں تو ملت بھی نہ رہی ۔ ملت کا شیرازہ بھی بکھر گیا ۔ جب باہمی جذب و کشش نہیں تو ستاروں کی محفل بھی نہیں ستارے اسی باہمی کشش کے باعث قائم ہیں ورنہ باہم ٹکرا ٹکرا کر ٹوٹ جائیں سو اسی طرح مذہب کی باہمی کشش کے طفیل قوم کا وجود برقرار رہ سکتا ہے ۔

شکوَہ  10



کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کشِ پیکار ہوئی
کس کی شمشیر جہاں‌گیر ، جہاں‌دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
مُنہ کے بَل گر کے ’ھُوَاللہُاَحَد‘ کہتے تھے
تشریح
اے خداوند کریم! تو ہی بتا کہ دنیا میں اتنی قوموں کے ہوتے ہوئے بھی وہ صرف ایک قوم کون تھی جو تیرے عشق کے جذبے سے سرشار تھی اور جس نے صرف تیری خاطر جنگوں کی زحمتیں اٹھائیں اور دنیاوی دلچسپیوں اور مفادات سے کوئی سروکار نہ رکھا ۔ کس قوم کی تلوار نے دنیا کو فتح کرکے اس پر حاکم بنی یعنی تیرے نام کا دبدبہ پیدا کیا پھر کس نام کی تکبیروں سے تیری دنیا بیدار ہوئی یعنی تیری توحید سے دنیا روشن ہوئی ۔ وہ کونسی قوم تھی جس کے خوف و دبدبہ سے بتوں کے بے حس اور جسموں پر بھی کپکپی طاری ہو جاتی تھی اور وہ بت منہ کے بل گر کر تیری توحید کو تسلیم کرنے لگتے تھے اس کا جواب بھی یہی ہے کہ یہ عظیم کارنامہ امت مسلمہ نے انجام دیا اور اشاعت توحید کے سلسلے میں ہر طرح کی مصیبتیں اور جان کی قربانی وغیرہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔

جوابِ شکوَہ  10
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسُودہ، وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مِل جائیں صنَم پتھّر کے
تشریح
آج دنیا میں ایسے لوگ صرف تم (مسلمان)ہی ہو جو ہر طرح کے علم و ہنر اور لیاقت سے بے بہرہ ہیں اور جس قوم کو آشیانے کی پرواہ نہیں وی تم ہی ہو (تمہاری مثال آشیانے سے بےنیاز پرندے کی سی ہے) تمہاری مثال اس خرمن کی سی ہے جس میں بجلیاں آرام کر رہی ہیں تمہاری غیرت و حمیت کی حالت کچھ ایسی ہے کہ تم اپنے اسلاف /بزرگوں کی قبریں بیچ کھاتے ہو اگر قبروں کی تجارت سے تم خود کو اچھے نام والا سمجھتے ہو تو پھربھلا تم بت فروشی کرنے میں کیا قباحت محسوس کرو گے گویا وہ بھی تمہارے لئے باعث فخر ہوگا ۔ اپنے دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے تم ہر طرح کے غیر اسلامی طور طریقےاختیار کرلیتے ہو یا کرنے پر تیار رہتے ہو ۔

شکوَہ 11 



آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
تشریح
جب کسی جنگ کے موقع پر نماز کا وقت آجاتا اور امت مسلمہ، جو اس جنگ میں شریک ہوتی قبلہ رو ہوکر تیرے حضور سر بسجدہ ہوتی تو اس وقت ایک ہی صف میں محمود اور ایاز (آقا اور غلام) کھڑے ہوجاتے اور صورتحال یہ ہوتی کہ اس وقت غریب اور امیر سبھی ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ۔ ان میں آقا اور غلام کی کوئی تمیز و تفریق نہ رہتی ایسا کوئی امتیاز نہ رہتا چنانچہ تیرے حضور پہنچنے پر غلام اور آقا محتاج اور امیر سبھی ایک ہوجاتے ۔اس لئے کہ تیرے (خدا) کی نزدیک سب انسان برابر ہیں کسی کو کسی دوسرے پر سوائے تقوی و پرہیزگاری کے برتری حاصل نہیں ہے اس بند میں اسلامی مساوات کی بڑی زبردست اور حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے ۔

جوابِ شکوَہ 11
صفحۂ دہر سے باطل کو مِٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھُڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبِینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قُرآن کو سِینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
تشریح
زمانے کے صفحے(یعنی زمانے) سے باطل قوتوں کا نام و نشان کس نے مٹایا؟بنی نوع انسان کو ظالم باطل قوتوں کی غلامی سے کس نے نجات دلائی؟میرے کعبہ کو اپنی جبینوں/پیشانیوں کے سجدوں سے آباد کرنے اور میرے قرآن کو سینوں سے لگانے والے کون لوگ تھے؟(آگے جواب ہے) یہی عظیم لوگ تمہارےآبا/ اسلاف تھے لیکن ان کے مقابلے میں تم اپنی حالت دیکھو ہاتھ پر ہاتھ دھرے یعنی بیکار بیٹھے آنے والے خوشحال دنوں کے انتظار میں لگے ہوئے یا تقدیر کے چکر میں پڑے ہوئے ہو جدوجہد اور سعی و کوشش کے بغیر بھلا ایسے دن آ سکتے ہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں علامہ ہی کے بقول
عبث ہے شیوہ تقدیر یزداں
 تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

شکوَہ 12



محفلِ کون و مکاں میں سحَر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفَتِ جام پھرے
کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو، کبھی ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
تشریح
ہم (مسلمان) دنیا کی محفل میں صبح وشام پھرتے رہے اور ہماری یہ گردش اس صورت میں تھی کہ توحید کی شراب لے کر جام کی طرح پھرے اور تیری ذات کو معلوم ہے کہ کبھی اس مہم میں ناکام پھرے ؟ یعنی نہیں پھرے ۔ جنگل تو ایک طرف رہے ہم نے دریاؤں میں بھی اپنا یہ اہم کام جاری رکھا چنانچہ ہم نے بحراوقیانوس میں بھی گھوڑے دوڑا دیے ۔

جوابِ شکوَہ 12
کیا کہا! بہرِ مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور
مُسلم آئِیں ہُوا کافر تو مِلے حور و قصور
تم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طُور تو موجود ہے، موسیٰ ہی نہیں
تشریح
تمہارا یہ شکوہ بیجا ہے کہ مسلمان کے لئے آخرت میں صرف حور کا وعدہ ہے یعنی مسلمانوں کو جنت میں حوریں ملیں گی اور یوں انہیں ٹرخا دیا جائے گا ۔ چلو اگر اس قسم کا بے جا شکوہ کرنا بھی ہوتو اس کے لئے بھی فہم و شعور کی ضرورت ہے( مجھ ) خالق کائنات کا قانون ازل ہی سے عدل و انصاف پر مبنی ہے لہذا جب کوئی غیر مسلم اسلامی اصولوں پر چلے گا تو اس کے لیے حور و قصور ہونگے ۔ ( افسوس تو اس بات کا ہے کہ) تم میں حوروں کی خواہش رکھنے والا ہی کوئی نہیں ہے ۔ طورسینا کا جلوہ تو آج بھی موجود ہے لیکن تم میں موسٰی ہی کوئی نہیں ہے یعنی تم لوگ عشق حقیقی کے جذبے سے محروم ہو اور یہ حور و قصور تو صرف مجھ (خدا) سے سچا عشق ومحبت کرنے والوں ہی کے لیے ہیں ۔

شکوَہ 13



صفحۂ دہر سے باطل کو مِٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھُڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دِلدار نہیں!
تشریح
ہم نے صفحہ دہر/ زمانے سے باطل کو مٹا دیا (باطل قوتوں کو تباہ کردیا) یوں بنی نوع انسان کو غلامی سے نجات دلادی (انسان کو انسان کی اور باطل قوتوں کے غلامی کی لعنت سے چھٹکارا دلا دیا) اور یہ سب کچھ اشاعت توحید کی خاطر کیا ۔ پھر ہم نے تیرے کعبہ کو اپنی پیشانیوں یعنی سجدوں سے آباد کیا اور تیرے قرآن کریم کو اپنے سینوں سے لگایا ۔ اسے اپنے سینوں میں محفوظ کیا جتنا کچھ بھی ہم سے ممکن ہو سکا ہم نے تیری توحید اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہر طرح کے خطروں اور مصیبتوں سے بے پرواہ ہوکر جدوجہد کی ۔ ہماری اس تمام تر جدوجہد کے باوجود تجھے ہم سے گلا/شکوہ ہے کہ ہم وفادار نہیں ہیں تو ائےذات کریم تو بھی تو دلدار نہیں ہے (یا تجھ میں بھی دلداری نہیں رہی جو کبھی ماضی میں تھی)

جوابِ شکوَہ 13
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
تشریح
ملت اسلامیہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے افراد کا نفع و نقصان مشترک ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک اور دین و ایمان بھی ایک ہے،خانہ کعبہ اللہ اور قرآن بھی ایک ہے اس صورت میں اگر تم مسلمان بھی ایک ہو جاتے تو کیا کوئی مشکل بات نہ تھی لیکن افسوس کے متحد و متفق ہونے کی بجائے تم فرقہ پرستی ( سنی ،وہابی، بریلوی وغیرہ )اور ذاتوں (سید و ہاشمی وغیرہ) کے چکر میں پڑ گئے ۔ اور یوں ملت انتشار کا شکار ہو گی بھلا اس صورتحال میں ترقی و عظمت خوشحالی کا سامان ہو سکتا ہے؟ ( نہیں ہو سکتا

شکوَہ 14



اُمتّیں اور بھی ہیں، ان میں گنہ‌گار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
تشریح
اس دنیا میں اور بھی قومیں ہیں جن میں گناہ گار بھی ہیں پھر ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو عاجزی و انکساری کا نمونہ ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو غرور و تکبر کی شراب سے مست ہیں (سراپا غروروتکبر ہیں) ۔ ان قومیں سست الوجود بھی ہیں،غفلت کے مارے بھی عرصہ ہیں بانی ہوش و خرد بھی ہیں اور سینکڑوں ایسے ہیں جو ترا نام تک سننا بھی پسند نہیں کرتے، تیرے نام پر بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔اس واضح صورتحال کے باوجود تعجب اس بات پر ہے کہ دوسری قوموں میں غیروں کے گھروں پر تو تیری رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں یا تیری رحمتوں کے بادل موتی برساتے رہتے ہیں اور مسلمانوں پر صرف بجلی گرتی ہے عیش و نشاط کی زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ بیچارے مسلمان تنگدستی مفلسی اور مصیبتوں کا شکار ہیں ۔

جوابِ شکوَہ 14
کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، رُوح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمّدؐ کا تمھیں پاس نہیں
تشریح
(تم خود ہی بتاؤ) کے خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ کی پیروی کس نے چھوڑ دی ہے؟ اور وہ کون ہے جس نے وقت کی مصلحت کو اپنے عمل کا معیار بنا رکھا ہے؟کون ہے جس کی آنکھوں میں غیر قوموں کے طورطریقے سمائے ہوئے ہیں ۔ ( مغربی تہذیب کے رسیا کون ہیں؟ )اور وہ کون ہے جس کی نگاہ اپنے عظیم اسلاف بزرگوں کے طور طریقوں اور اصولوں سے بیزار ہو گئی ہے (ان پر عمل نہیں کر رہے) ۔ ظاہر ہے یہ سب غلط انداز آج کے مسلمانوں کے ہیں ۔ تم مسلمانوں کے دلوں میں نہ تو دین و ایمان کا سوزوگداز ہے اور نہ ہی روح میں احساس رہا اور محمد صلی اللہ وسلم کے پیغام کا بھی تمہیں کوئی لحاظ نہیں ہے جو بلاشبہ بدقسمتی کی بات ہے ۔

شکوَہ 15



بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حُدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کُفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
تشریح
بت خانوں میں بت اس خوشی سے سرشار ہیں کہ مسلمان (بت شکن) اب گئے ۔ ( عشق حقیقی کے جذبوں سے محروم ہوچکے ہیں ) انہیں اس بات کی بے حد مسرت و شادمانی ہے کہ اب کعبہ کی حفاظت کرنے والے جنہوں نے کبھی ہمیں توڑا تھا نہیں رہے یا دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ زمانے کی منزل سے اونٹوں کے حدی خوان یعنی مسلمان گئے،اور اس حالت میں گئے کہ انہوں نے قرآن کریم کو اپنی بغلوں میں دبائے رکھا تھا یعنی وہ قرآنی تعلیمات سے بہت دور ہو چکے ہیں ان میں جذبہ نہیں کہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوں،آج کفر ہم پر طعنہ زنی کر رہا ہے اور ہماری ہنسی اڑا رہا ہے ۔ اے ذات کریم! کیا تجھے اس دکھ بھری صورتحال کا کچھ احساس بھی ہے کہ نہیں؟اور کیا تجھے اپنی توحید کا بھی کچھ لحاظ/خیال ہے کہ نہیں؟دوسرے لفظوں میں کیا تو یہ گوارا کرتا ہے کہ آج پھر دنیا میں کفر چھا جائے اور اسلام توحید زوال کا شکار ہو جائیں ۔

جوابِ شکوَہ 15
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا، تو غریب
اُمَرا نشّۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے مِلّتِ بیضا غُرَبا کے دم سے

تشریح
آج تم مسلمانوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ مسجدوں میں صرف غریب لوگ جاکر نماز پڑھتے ہیں اور روزے کی تکلیف بھی غریب مسلمان ہیں برداشت کرتے ہیں( جبکہ دولت والے عیش و عشرت ہی کو زندگی کی ضرورت سمجھتے ہیں یا عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں )اور وہ تمہارے ( امیروں، مالداروں ) کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والے بھی غریب لوگ ہی ہیں اس کے برعکس دولت مند اپنی دولت کے نشے میں ہم سے غافل ہیں آج اگر دنیا میں روشن ملت مراد اسلام زندہ ہے تو وہ غریبوں ہیبکے دم سے ہے یعنی مسلمانوں کا اگر کوئی نام ونشان باقی ہے تو وہ ان غریبوں ہی کے طفیل ہے ۔


شکوَہ 16



یہ شکایت نہیں، ہیں اُن کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو مِلیں حُور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
اب وہ اَلطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
تشریح
یہ شکایت نہیں بلکہ ایک طرح سے حقیقت ہے کہ وہ لوگ ( کافر ) تو جنہیں محفل میں بات کرنے کا بھی شعور نہیں، مال و دولت دنیا سے خوب لطف اٹھا رہے ہیں، ان کے خزانے مال و زر سے بھرے پڑے ہیں، غضب کی بات تو یہ ہے کہ کافر تو ہر طرح کے عیش و آرام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں پھر ان کے پاس حسینائیں بھی ہیں اور عالی شان محل بھی، جب کہ بچارے مسلمان کو صرف حور کہ وعدے پر ٹرخادیا ہے( اگلے جہان میں اسے جنت میں حوریں ملیں گی ) اے مولا کریم ! اب ہم پر تیری وہ پہلی سی مہربانیاں اور عنایتں نہیں ہیں،کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں پر تیری وہ پہلی سی مدارات نہیں ہے؟

جوابِ شکوَہ 16
واعظِ قوم کی وہ پُختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شُعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، رُوحِ بِلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
تشریح
اسلام کا درس دینے والے قوم کے واعظ خود مذہب کی روح و حقیقت سے ناواقف ہیں ان کے خیالات سرسری قسم کے اور پختگی سے خالی ہیں ان کی تقریروں میں خلوص اور سچا جوش و جذبہ نہیں ہے جو لوگوں کے دلوں میں اسلام سے محبت کی آگ کو بھڑکا دے ۔ گو آج بھی مسجدوں سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے لیکن اس میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ جیسا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق موجود نہیں ہے فلسفہ پر تو بڑا زور ہے فلسفہ کی کتب پر بڑی توجہ ہے لیکن امام غزالی جیسی تلقین ناپید ہوگئی ہے ،مسجدیں رو رہی ہیں کہ ان میں نمازی نہیں آرہے اور وہ خالی پڑی ہیں انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ آج ایسے نمازی نہیں آتے جو پہلے مسلمانوں کی طرح سچے مسلمان اسلامی اوصاف کا عملی نمونہ تھے ۔

شکوَہ 17



کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قُدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تُو جو چاہے تو اُٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سیلی زدۂ موجِ سراب
طعنِ اغیار ہے، رُسوائی ہے، ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تشریح
کیا وجہ ہے کہ مسلمان بیچارے دنیاوی دولت سے محروم ہیں (مفلس اور کنگال) ہیں جب کہ تیری قدرت تو بے پناہ ہے جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب ہی ہے ۔ تو تو قادر مطلق ہے اور تیرے خزانے میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے اگر تو چاہے تو صحرا کے سینے سے بھی بلبلے اٹھنے لگیں اور موج سراب ( سراب سچ مچ پانی بن جائے)دشت کے مسافر پر طوفان کے تھپیڑے مارنے لگے،ناممکن کام بھی ممکن ہوجائے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہم دوسری قوموں کے طعنوں کا شکار ہیں اور ذلیل و خوار اور بد نام ہو رہے ہیں اور مفلسی میں ڈوبے ہوئے ہیں تو آئیے مولا کریم! کیا تیرے نام پر جان نثار کرنے کا صلہ یہی ذلت و رسوائی ہے (ایسا کیوں ہے؟)

جوابِ شکوَہ 17
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!
تشریح
آج ہر طرف یہی شور بلند ہے کہ مسلمان دنیا سے مٹ گئے ہیں دنیا میں نہیں رہے لیکن اپنا تو یہ کہنا ہے کہ آیا مسلمان کہیں موجود بھی تھے؟اس صورت میں ان کے نابود ہونے کی بات کیوں کر ہو سکتی ہے ۔ تم بظاہر تم مسلمان ہو یا خود کو مسلمان کہتے ہو لیکن تمہارے طور طریقے اور ظاہری وضع قطع عیسائیوں کی سی ہے اور تمہارے تہذیب و معاشرت کے انداز ہندوؤں کے سے ہیں ۔ کیا یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر یہودی بھی شرما جائیں یعنی یہودیوں سے بھی ان کی حالت بری ہے تم اپنے سید ہونے اور مرزا اور افغان ہونے کا دعوی کرتے ہو لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم سچے مسلمان بھی ہو؟( تم وطنیت اور ذاتوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہو لیکن مسلمانوں والے اسلامی جذبوں کے حامل طور طریقوں سے دور ہو۔

شکوَہ 18



بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے، اَوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے!
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تشریح
اب (اے مولا کریم) صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے لوگ ان غیروں دوسری قوموں کو چاہنے والے اور ان سے محبت کرنے والے بن رہے ہیں جو علم و ہنر اور مال و دولت والے ہیں ۔ ان کے برعکس ہم مسلمانوں کے لیے محض ایک خیالی دنیا رہ گئی ہے ۔ نہ وہ علم ہنر والے ہیں اور نہ مال و دولت والے ہیں اور نہ ان کی حکومت ہی رہی ہے بس صرف اپنے کسی اچھے اور سنہری دور کے خواب دیکھ رہے ہیں دنیا کے حکومت وسلطنت دوسری قوموں نے سنبھال لی ہے ہمارا یہ زوال دنیا سے توحید کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے ۔ لہذا یہ شکایت نہ کرنا کہ اب دنیا میں توحید کا ڈنکا نہیں رہا ہماری زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے کہ دنیا میں تیرا نام رہے ۔ تیری توحید برقرار رہے لیکن مذکورہ حالات میں کیا ایسا ممکن ہے کہ ساقی تو نہ رہے لیکن جام شراب رہے (ساقی مسلمانوں کا اور جام توحید کا استعارہ ہے)

جوابِ شکوَہ 18
دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
شجَرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نم ناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک
خود گدازی نمِ کیفیّت صہبایش بود
خالی از خویش شُدن صورتِ مینایش بود
تشریح
کبھی وہ وقت بھی تھا کہ جب مسلمان حق و صداقت کی حامل تقریر کیا کرتے اور ہر طرح کے خوف سے بےنیاز و بےفکر ہوتے ۔ ان کا عدل و انصاف اس اعلیٰ درجے کا تھا کہ اس میں کوئی غرض اور رعایت کا شائبہ تک بھی نہ ہوتا تھا یعنی وہ انصاف کے سلسلے میں کسی سے بھی کوئی رو رعایت نہ کرتے۔ مسلمان کی فطرت کا درخت حیا کے پانی سے تروتازہ رہتا تھا گویا وہ سراسر حیا تھا اور شجاعت اور دلیری میں اس قدر بے مثل تھے کہ عقل و شعور اسے سمجھنے سے قاصر ہے ۔ اپنے آپ کو دوسروں کے غم میں پگلا دینا ان کی غمخواری کرنا ان کی شراب کی خاصیت تھی اور اپنے آپ سے خالی ہو جانا اور اس کی صراحی کی خاصیت تھی یعنی دوسروں کے لیئے ایثار میں اسے لطف آتا تھا اور اس کی روح ذاتی اغراض سے کھالی تھی ۔

شکوَہ 19



تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صِلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عُشّاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
تشریح
ائے ذات اقدس!ماضی کے مسلمان جن کے دل تیرے جذبہ عشق سے سرشار تھے،جو شب و روز تیرے حضور آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے تھے اس دنیا سے رخصت ہوچکے اور نالے اور آنسو بھی نہ رہے وہ عظیم مسلمان (جو تیرے حضور آدھی رات کو نہایت عجز و انکسار سے دعائیں مانگتے)تجھ سے بے حد محبت کرنے والے تھے اور اس محبت کا صلہ بھی انہوں نے پالیا افسوس کے وہ دنیا میں بہت کم عرصہ رہے اور جلد ہی رخصت ہو گئے (محبت کا صلہ یعنی آخرت میں جنت کا وعدہ) ان مسلمانوں نے اشاعت توحید کے خاطر بے حد قربانیاں دیں تیرے یہ عشاق (مجاہد اور غازی )مستقبل کا وعدہ (جنت) لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اب ایسے مسلمان کہیں نہیں ہیں ۔ تو اب اپنے حسین چہرےکا چراغ لے کر ان کو تلاش کر ایسے مسلمان اب نہیں ملیں گے ۔

جوابِ شکوَہ 19
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اُس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اُسے قوّتِ بازو پر تھا
ہے تمھیں موت کا ڈر، اُس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!
تشریح
ماضی کا ہر مسلمان باطل کی رگ کے لیے گویا نشتر تھا اور جہد و عمل اس کی زندگی کے آئینے کی چمک تھی وہ باطل قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہوکر ان کو ملیامیٹ کر دیتا تھااور اس کی زندگی سراپا جہد و عمل کا نمونہ تھی ۔ اسے اپنی قوت بازو پر پورا پورا بھروسہ تھا تم آج کے مسلمان تو موت سے ڈرتے ہو جبکہ اسے صرف خدا تعالی کا ڈر تھا اگر باپ کا علم و ہنر بیٹے کو زبانی یاد نہ ہو تو اس صورت میں بیٹا اپنے باپ کے ورثے کا حق دار کیوں کر ہو سکتا ہے ( نہیں ہوسکتا) گویا قدیم مسلمانوں یا تمہارے اسلاف میں جو خوبیاں اہلتیں تھی اگر تم ان سے محروم ہو تو پھر ان جیسا مقام و مرتبہ تمہیں ملنا ناممکن ہے


شکوَہ 20



دردِ لیلیٰ بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رمِ آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی، حُسن کا جادو بھی وہی
اُمّتِ احمدِ مرسلؐ بھی وہی، تُو بھی وہی
پھر یہ آزردگیِ غیرِ سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چشمِ غضب کیا معنی
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تشریح
لیلیٰ کا درد بھی وہی ہے اور مجنوں کا پہلو بھی وہی ہے ۔ نجد کے جنگل میں اور پہاڑ پر ہرنوں کا چوکڑیاں بھرنا بھی وہی ہے ( ان میں کوئی فرق نہیں آیا ) عشق کا دل بھی وہی اور حسن کا جادو بھی وہی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی وہی ہے اور مولا کریم! تو بھی وہی ہے ۔ جب سب کچھ وہی ہے تو پھر تیری ہم سے بلاوجہ کی ناراضگی وخفگی کا کیا مطلب ہے؟اور اپنے عاشقوں توحید پرستوں/ مسلمانوں) پر تیری چشم غضب کیوں ہے ؟

جوابِ شکوَہ 20
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
تشریح
آج تم میں سے ہر کوئی سستی اور آرام طلبی کی شراب سے مست ہے یعنی تن آسانی اور بے عملی و آرام طلبی ہر کسی کا شیوہ بنا ہوا ہے ۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیا تم حقیقی مسلمان ہو؟ اور کیا تمہارے طور طریقہ مسلمانوں کے سے ہیں؟ (اور یہ افسوسناک صورتحال ہے)نہ توتم میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسا فقر ہے اور نہ تمھارے پاس حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ جیسا مال و متاع ہے ۔ اس صورت میں تمہیں اپنے اسلاف سے کوئی روحانی نسبت نہیں ہے ۔ وہ تمہارے اسلاف اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ہونے کے باعث زمانے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جب کہ تمہاری صورت حال یہ ہے کہ تم نے قرآن کریم سے اپنا تعلق ختم کر رکھا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل سے بالکل بیگانہ ہو اس لئے ذلت و خواری تمہارا مقدر بن چکی ہے ۔


شکوَہ 21



تجھ کو چھوڑا کہ رَسُولِ عرَبیؐ کو چھوڑا؟
بُت گری پیشہ کِیا، بُت شکَنی کو چھوڑا؟
عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسمِ سلمانؓ و اویسِ قرَنیؓ کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلالِ حَبشیؓ رکھتے ہیں
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تشریح
ائے ذات کریم! ذرا یہ تو بتا کہ ہم نے تجھ سے تعلق ختم کر لیا یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت ختم کر لی ہے؟ (ہم تو اب بھی تیری توحید پر ایمان کامل رکھتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی ہیں) ۔ کیا ہم نے بت شکنی چھوڑ کر بت تراشی کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے؟ ایسا نہیں ہے ہم آج بھی باطل قوتوں کے خلاف جنگ آزما ہیں اور اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر ان کی غلامی اختیار نہیں کرتے ۔ ) ہم نے خود کو تیرے عشق کے جذبوں سے سرشار رکھا ہے اور ہم تیرے عشق کا جنون اسی طرح ہے (ہم نے یہ کچھ نہیں چھوڑا ) ہم نے حضرت سلیمانؓ اور حضرت اویس کرنیؓ کے طور طریقوں کو پورے طور پر اپنا رکھا ہے ۔ آج بھی ہمارے سینے/ دل تیری تکبیر کی آگ یا سوز و گداز کے حامل ہیں( بے شک وہ پہلے مسلمانوں کا سوز و گداز نہ سہی ہماری زندگی حضرت بلال حبشی کیسی ہے)

جوابِ شکوَہ 21
تم ہو آپس میں غضب ناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطاپوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
تختِ فغفور بھی اُن کا تھا، سریرِ کَے بھی
یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیّت ہے بھی؟
تشریح
تم آج کے مسلمان نااتفاقی کا شکار ہونے کے باعث آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہو جبکہ تمہارے اسلاف ایک دوسرے پر بڑے رحم کرنے والے اے مہربان تھے تم خود برائیوں خطاؤں کے عادی ہو اور دوسروں کی خطاؤں اور عیبوں پر نظر رکھنے والے اور ان کی تشہیر کرنے والے ہو جبکہ تمہارے بزرگ دوسروں کے عیبوں کو اچھالنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اس لئے ان عیبوں پر پردہ ڈالتے تھے ۔ تم اپنے اسلاف کی طرح بلند مرتبگی اور عظمت کی خواہش تو ضرور رکھتے ہوں لیکن پہلے ان جیسا سچا اور سادہ دل تو پیدا کرو ان میں اسلامی غیرت و حمیت کمال کی تھی جس کی وجہ سے انہیں چین اور ایران جیسے عظیم ملکوں کی بادشاہی حاصل ہوئی یعنی بہت بڑی عظمت و شان ان کا نصیبہ بنی ۔ تم تو بس باتیں کرنا ہی جانتے ہو تم میں اور غیرت و حمیت کہاں ہے جو تمہارے اسلاف میں تھی( یعنی نہیں ہے )


شکوَہ 22



عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائیِ تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مُضطرب دل صفَتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیِ آئینِ وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں، تُو بھی تو ہرجائی ہے!
تشریح
چلو ہم مان لیتے ہیں کہ ہمارا عشق حقیقی کا جذبہ ماضی کے عظیم مسلمانوں کے سے جذبے کے مانند نہیں اور تسلیم و رضا کی راہ پر چلنے کی پہلی سی کیفیت نہیں ہے جو ان مسلمانوں کا شیوہ تھا کہ! سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے بے شک ہمارا دل تیرے عشق میں قبلہ نما کی مانند بے قرار اور مضطرب نہیں ہے،اور ہمارا آئین وفا پر پابند رہنا بھی ان اسلاف جیسا نہیں ہے( کبھی ہم دنیاوی مفاد کے حصول کے لیے تیری طرف توجہ کرنے کی بجائے دنیاوی حکمرانوں کی چاپلوسی کرنے لگتے ہیں)خیر !یہ سب کچھ بجا سہی لیکن اے میرے مولا کریم! تو بھی تو ذرا یہ دیکھ کہ کبھی تو تُو ہم سے دوستی رکھتا ہے اور کبھی دوسری قوموں پر نظر کرم فرماتا ہے مولا کریم !برا نہ مانیو تیر یہ انداز حرجائیوں والا ہے

جوابِ شکوَہ 22
خودکُشی شیوہ تمھارا، وہ غیور و خود دار
تم اخوّت سے گُریزاں، وہ اخوّت پہ نثار
تم ہو گُفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گُلستاں بہ کنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت اُن کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت اُن کی
تشریح
اے آج کے مسلمانو! تم خود ہی اپنے غلط اعمال کے باعث( تمہیں اپنی عزت کا پاس نہیں ہے )اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارکر اور اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہو جب کہ اسلاف بڑے غیرت مند اور خوددار تھے تمہیں بھائی چارے (ایک دوسرے سے محبت سے کوئی رغبت نہیں جبکہ وہ بھائی چارے پر جان نثار کرتے تھے ایک دوسرے کی خاطر جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے تھے) تم سراسر /مکمل طور پر باتوں ہی کے دھنی ہو( صرف باتیں کرنا ہی جانتے ہو اور جہد و عمل سے بیگانے ہو)جب کہ تمہارے اسلاف سراپہ جہد و عمل تھے تم تو باغ میں کلی کو ترستے ہو اور ان کے پہلو میں پورا باغ ہوتا تھا دوسری قوموں کو آج تک ان کی جرات و دلیری کی داستان یاد ہے اور ان کی راست گوئی وصداقت آج تک دنیا کے صفات پر سنہری حروف میں تحریر ہے یہ ایسے نقش ہیں جنہیں مٹایا نہیں جا سکتا ۔

شکوَہ 23



سرِ فاراں پہ کِیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
آتش اندوز کِیا عشق کا حاصل تو نے
پھُونک دی گرمیِ رُخسار سے محفل تو نے
آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں، تجھے یاد نہیں؟
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تشریح
اے مولا! کریم تونے فاران کی چوٹی پر دین اسلام کو تکمیل کے شرف سے نوازا اور ایک ہی اشارے میں ہزاروں انسانوں کے دل تو نے لے لیے انہیں اسلام کا شیدائی بنا دیا( پہلے مصرعے میں اشارہ ہے اس قرآنی آیت کی طرف " الیوم اکملت لکم دینکم " یعنی آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا ۔ جو اس چوٹی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی ۔ پھر تو نے عشق کے حاصل میں غضب کا سوزوگداز بھردیا عشق کو بلند مرتبہ سے نوازہ گویا تونے اپنے چہرے کی شدت و گرمی سے محفل کے دل میں آگ روشن کردی ( حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سن کر بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے اور ان کے ایمان مضبوط ہوگئے تھے تو اے خدا آج کیوں ہم مسلمانوں کے سینے/ دل عشق کی چنگاریوں سے روشن نہیں ہیں کیا تجھے یاد نہیں کہ ہم تو وہی تیرے پرانے عاشق ہیں جو تیرے نام پر جان نثار کیا کرتے تھے ۔

جوابِ شکوَہ 23
مثلِ انجم اُفُقِ قوم پہ روشن بھی ہوئے
بُت ہندی کی محبت میں بَرہمن بھی ہوئے
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں، دِین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنَم خانے میں آباد کیا
تشریح
تمہارے نوجوان قوم کے افق پر ستاروں کی طرح تو چمکے (انکی جوانی میں چمک دمک تو تھی) لیکن ہندوانہ تہذیب سے انہیں اس قدر لگاؤ ہوگیا کہ وہ برہمن کی طرح بتوں کی پوجا کرنے لگے یا باطل کے عاشق ہو گئے ان میں پرواز یعنی دنیاوی ترقی کا ایسا جنون پیدا ہوا کہ وہ اپنے نشیمن یعنی اسلام ہی سے دور ہوگئے ۔ وہ بے عمل تو تھی ہی انھیں مذہب سے کوئی لگاؤ نہ تھا رفتہ رفتہ وہ اپنے دین و مذہب سے بھی بد گمان ہو گئے نئے یا مغربی تہذیب نے نے مادرپدر آزاد کر دیا ۔ ( وہ شریعت سے بیگانہ ہو گئے )اور انہیں کعبہ سے لاکر بت خانے میں آباد کر دیا یعنی انہوں نے اسلامی شریعت ترک کرکے ہندوانہ ذہنیت وتمدن اپنا لیا

شکوَہ 24



وادیِ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظّارۂ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے، ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اُجڑا ہے کہ تُو رونقِ محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سُوئے محفلِ ما باز آئی
تشریح
چونکہ اب مجنوں (عاشق صادق مراد مسلمان) محمل لیلی (اللہ تعالی) کے نظارے کے شوق سے محروم ہوچکا ہے اس لیے نجد کی وادی میں اب کسی سچے/ دیوانے عاشق کی زنجیروں کا شور سنائی نہیں دے رہا ۔ نہ تو ہم ہی پہلے مسلمانوں کے سے جذبوں والے رہے نہ ہمارے حوصلے اور نہ ویسے دل ہی رہے ۔ چونکہ تو ہماری محفل کی رونق نہیں رہا اس لیے یہ گھر ویران ہو کر رہ گیا ہے وہ دن کیسا اور کتنا مبارک دن ہوگا جب تو ہزاروں ناز و ادا کے ساتھ دوبارہ ہماری محفل میں بے پردہ تشریف لائے جلوہ افروز ہو دوسرے لفظوں میں اب جب ہم مسلمانوں پر پھر پہلے کی طرح تیری رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی ۔تو ہمارے لئے وہ دن / دور بڑا ہی برکت و مسرت والا ہوگا ۔

جوابِ شکوَہ 24
قیس زحمت کشِ تنہائیِ صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیما نہ رہے!
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجابِ رُخِ لیلا نہ رہے!
گلۂ جَور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حُسن بھی آزاد نہ ہو!
تشریح
قیس/ مجنوں صحرا کی تنہائی کی تکلیف برداشت کرنے والے نہ رہیں( گویا عشق اور صحرا نوردی لازم و ملزوم ہیں اس کے بغیر عشق بے معنی رہ جاتا ہے ) شہر کی ہوا کھانے والے یعنی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والے تو رہ گئے لیکن بادیہ پیمانہ رہے ۔ وہ قیس تو دیوانہ /سچا عاشق ہے شہر/بستی میں رہے یا نہ رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ضروری ہے کہ لیلیٰ اسے اپنے حسین چہرے کے دیدار سے نوازے یہی مراد ہو سکتی ہے کہ عظیم مقاصد کے حصول کے لیے اگر بےحد دشواریوں سے بھی گزرنا پڑے تو اسے محسوس نہ کرنے ہی سے بات بن سکتی ہے ۔ حسن/ لیلیٰ کے جور و ستم کا کوئی گلہ نہ ہو اور بیداد کا بھی شکوہ نہ ہو اس لیے کہ اگر عشق آزاد ہے تو پھر کیوں حسن بھی آزاد نہ رہے ۔ اس استعارے میں جو کسی قدر طنزیہ انداز کا حامل ہے غالباً یہ کہنا چاہا ہے کہ مسلمان اگر اسی طرح کوتاہیوں اور بے عملیوں کا شکار رہی اور جہد و عمل کی تکالیف سے خوفزدہ رہیں تو وہ کیوں کر عظیم زندگی بسر کر سکتے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول میں کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اس صورت میں مقدر کا شکوہ بے جا ہے (واللہ اعلم بالصواب)

شکوَہ 25



بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جُو بیٹھے
سُنتے ہیں جام بکف نغمۂ کُوکُو بیٹھے
دور ہنگامۂ گُلزار سے یک سُو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظرِ ’ھُو‘ بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خُود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
تشریح
آج صورتحال یہ ہے کہ دوسری قومیں ندی کے کنارے بیٹھی خوب شراب نوشی کر رہے ہیں ۔ عیش و نشاط میں محو و مست ہیں وہاں وہ ہاتھوں میں جام لیے نغمہ کو سننے میں مگن ہیں ۔ انہیں کسی قسم کا غم یا دکھ وغیرہ نہیں ہے ۔ بڑی پر لطف اور عیش و مسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں دوسری طرف تیرے دیوانے اس باغ میں ہنگاموں سے دور ایک گوشے میں بیٹھے نعرہ " ھو" کے منتظر ہیں ۔ اے رب جلیل! تو پھر اپنے دیوانوں عاشقوں یعنی مسلمانوں کو اپنے آپ کو منوّر و روشن کرنے کا ذوق و شوق عطا فرما دے اور پرانی یعنی عشق کی بجلی کو حکم دے کہ وہ ہمارے جگروں دلوں میں پھر وہی آگ لگادے جس سے ماضی کے مسلمانوں کے سینے روشن تھے ۔

جوابِ شکوَہ 25
عہدِ نَو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گُلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کُہن ایندھن ہے
ملّتِ ختمِ رُسُلؐ شُعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا
تشریح
آج کا/ جدید دور (مادہ پرستی کا دور) ایک آسمانی بجلی کی مانند ہے جو ہر کھلیان کو جلا رہا ہے ۔ اس سے نہ تو کوئی صحرا ہی بچا ہوا ہے اور نہ کوئی باغ ہی اس سے محفوظ رہا ہے یہ جو نئی آگ بھڑک اٹھی ہے تو اس میں پرانی قومیں اور ان کی تہذیب ایندھن کی طرح جل رہی ہے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس آگ کی زد میں آئی ہوئی ہے اور اس کا لباس بھی اس آگ کے شعلے کی نظر ہو رہا ہے ۔ اگر آج بھی کوئی ابراہیم (حضرت ابراہیم علیہ السلام) پیدا ہوجائے تو یہی آگ باغ گلزار میں تبدیل ہوسکتی ہے نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا تھا جو خدا کے حکم سے گلزار بن گئی اس حوالے سے یہ مراد ہے کہ اگر آج بھی مسلمانوں میں صحیح ایمانی جذبہ پیدا ہو جائے تو وہ باطل قوتوں کی کافرانہ تہذیب سے دامن بچا کر اپنے عظیم مستقبل کا سامان کر سکتے ہیں ۔

شکوَہ 26



قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سُوئے حجاز
لے اُڑا بُلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بُوئے نیاز
تُو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طُور مضطر ہے اُسی آگ میں جلنے کے لیے
تشریح
اے خدائے بزرگ و برتر مسلمانوں نے آوارہ یعنی بے مقصد ومدعا پھرنے کے بعد اب اپنے گھوڑوں کی باگیں حجاز کی طرف موڑ لی ہیں (ان کے دلوں میں پھر اس کی محبت کا جذبہ بیدار ہو رہا ہے یا ہوچکا ہے)چنانچہ پرواز کے ذوق نے پھر بلبل کو اڑنا سکھا دیا ہے ۔ بلبل مسلمانوں کا استعارہ ہے پہلے مصرع والی بات ۔ اب باغ کی ہر کلی میں سے عجز و نیاز کی خوشبو بکھرنے کے لیے بےقرار ہو رہی ہے گویا یہ ساز مضراب کا پیاسا ہے تو ذرا اس ساز پر مضراب لگا کر تو دیکھ تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اس کے ہر تار میں سینکڑوں نغمے موجود ہیں جو ساز کے پردے سے باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ ادھر کوہ طور پرانی آگ میں جلنے کے لئے مضطرب ہے ۔ مطلب ایک کہ مسلمانوں میں پھر پہلے سے جذبے پیدا ہو رہے ہیں اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور توحید کی اشاعت کی خدمت پر پوری طرح آمادہ ہیں ۔

جوابِ شکوَہ 26
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غُنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گُلستاں خالی
گُل بر انداز ہے خُونِ شُہَدا کی لالی
رنگ گردُوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے
یہ نِکلتے ہوئے سُورج کی اُفُق تابی ہے
تشریح
اے مالی ! آج جو باغ کی صورتحال ہے اسے دیکھ کر تو پریشان نہ ہو کلی کے ستاروں سے شاخیں چمکنے والی ہیں تیرا باغ خس و خاشاک سے پاک ہوجائے گا شہیدوں کے خون کی سرخی پھول برسانے والی ہے تو ذرا یہ تو دیکھ کے آسمان کا رنگ سرخ /شفقی ہے ۔ جو طلوع ہونے والے سورج کی افق تابی ہے اس استعارے سے مراد یہ ہے کہ علامہ نے قوم کو امید کی کرن دکھاتے ہوئے یہ کہنا چاہا ہے کہ اب جو حالات نظر آرہے ہیں ان سے واضح ہورہا ہے کہ مسلمان جلد بیدار ہوکر اپنے عظیم و روشن مستقبل کا سامان کرلیں گے اس لیے قوم کے رہنما یا رہنماؤں کو مایوس نہ ہونا چاہیے ۔

شکوَہ 27



مُشکلیں اُمّتِ مرحُوم کی آساں کر دے
مُورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے
جنسِ نایابِ محبّت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دَیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جُوئے خوں می چکد از حسرتِ دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
تشریح
اے پروردگار عالم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت مرحوم )جس پر تیری رحمت تھی لیکن آج وہ کمزوریوں اور پستیوں کی شکار ہے)کی ساری مشکلیں آسان فرما دے اور ایک بے حیثیت چونٹیوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہمدوش بنا دے ۔ یعنی آج یہ قوم ناتواں اور بے سروسامان ہے اس پر اپنی رحمت فرما کر عزت و مرتبہ اور مال و دولت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہم پلہ بنا دے محبت کی جنس جو آج ہم مسلمانوں میں بالکل نہیں رہی اسے پھر عام کردے اور ہندوستان کے ان مندروں میں بیٹھنے والوں یعنی نام نہاد مسلمانوں کو پھر سے سچے مسلمان بنا دے تاکہ وہ اپنے دین سے محبت کرنے لگیں ہمارے دل سے جو ہر قسم کے کینے سے پاک ہے خون کی نہر جاری ہے اور فریادیں ہمارے نشتروں سے گھائل سینے میں تڑپ رہی ہیں ۔

جوابِ شکوَہ 27
اُمّتیں گُلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
تشریح
دنیا کے اس باغ میں ایسی قومیں بھی آباد ہیں جنہوں نے اپنی محنت کا ثمر/پھل حاصل کرلیا ہے ۔ اور بعض ایسی قومیں بھی ہیں جو پھل سے محروم اور خزاں کا شکار ہیں ۔ ( اپنی بے عملی وہ کاہلی کی بنا پر وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہیں )یہاں اس باغ (دنیا) میں سیکڑوں پودے ایسے ہیں جو مرجھا گئے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو بڑھ پھول کر اچھے بھلے درخت بن گئے ہیں ۔ اور ابھی سیکڑوں ایسے بھی ہیں جو ابھی تک باغ کی زمین کے اندر چھپے ہوئے ہیں ۔ اسلام کا پودا پھولنے پھلنے میں ایک بہت بڑے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے اس کو برسوں کی محنت کا پھل ہے صدیوں اس کی حفاظت اور باغبانی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں یہ ثمرآور/ پھل لانے والا بنا ہے ۔ پودوں سے مراد قومیں ہیں جنہوں نے جہد و عمل سے کام لیا اور پھل پھول گی جو کاہل تھی وہ ختم ہوگئی

شکوَہ 28



بُوئے گُل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھُول ہیں غمّازِ چمن!
عہدِ گُل ختم ہوا، ٹُوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن
ایک بُلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
تشریح
پھول کی خوشبو چمن کا بھید چمن سے باہر لے گئی اور یہ کس قدر دکھ اور قیامت کی بات ہے کہ خود پھول باغ کے غماز بنے ہوئے ہیں پھول کا درد ختم ہوا اور باغ کا ساز ٹوٹ گیا ڈالیوں سے نغمے الاپنے والے اڑگئے ۔ اب صرف ایک بلبل باقی ہے جو اب تک نغمہ الاپنے میں محو ہے اس لیے کہ اس کے سینے میں ہے نغموں کا طوفان برپا ہے علامہ نے اپنے حوالے سے بات کی ہے جو گویا باغ اسلام میں اپنے شیروں کے نغمہ سنانے والے ہیں قوم کی حالت کا انہیں بے حد دکھ اور صدمہ ہے اور وہ اپنی شاعری کے ذریعے اس کا اظہار کر رہے ہیں تاکہ قوم میں صحیح دینی جذبہ پیدا ہو

جوابِ شکوَہ 28
پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
تُو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیرِ یک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
نخلِ شمع استی و درشعلہ دوَد ریشۂ تو
عاقبت سوز بوَد سایۂ اندیشۂ تو
تشریح
تیرا (مسلمان) دامن وطن کی گرد سے پاک ہے تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر تیرا کنعان ہے یعنی مسلمان وطن کی قید سے آزاد ہے ۔ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہے مسلمان ہی کہلائے گا ۔ گویا ساری دنیا اس کا وطن ہے اور اسلام اس کی قومیت ہے ۔ تیرا قافلہ کبھی تباہ نہ ہو سکے گا اس لئے کہ تیرے قافلے کا سامان ایک گھنٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ گویا مسلمان کا سارا اثاثہ توحید قرآن کریم اور اسوہ حسنہ ہے ۔ وہ دنیاوی مال و متاع اور مفاد سے بے نیاز ہے ائے مسلمان! تو چراغوں کا ایک درخت ہے جس کے شعلے/ لو میں تیری / بتی حرارت دوڑ رہی ہے تیرے خیالات کا سایہ روشنی/ انجام سے بے پرواہ ہے ۔ تیرے فکر کا سایہ ایک دن سوز کی صورت اختیار کرے گا ۔

شکوَہ 29



قُمریاں شاخِ صنوبر سے گُریزاں بھی ہوئیں
پیّتاں پھُول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پُرانی روِشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عُریاں بھی ہوئیں
قیدِ موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گُلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!
تشریح
قمریاں صنوبرکے شاخ سے اڑ بھی گئیں یا دور ہوگئیں اور پھول کی پتیاں جھڑ جھڑ کر ادھر ادھر بکھر بھی گئیں اور باغ کی وہ پہلی/ پرانی روشیں بھی برباد ہوگئیں ۔( باغ اسلام میں خزاں آگئی) اس بلبل علامہ کی طبیعت موسم کی قید سے آزاد رہی کاش گلشن میں اس کی فریاد کو کوئی سمجھ لیتا اپنی شاعری کے حوالے سے بات کی ہے جس میں انہوں نے قوم کی پست حالی پر دکھ کا اظہار کیا ہے لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں کی جس کا علامہ کو افسوس ہے ۔

جوابِ شکوَہ 29
تُو نہ مِٹ جائے گا ایران کے مِٹ جانے سے
نشّۂ مے کو تعلّق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نَو رات ہے، دھُندلا سا ستارا تُو ہے
تشریح
بفرض محال اگر ایران / سلطنت ایران مٹ جاتا ہے تو اس سے تو نہیں مٹ سکے گا یعنی اسلام نہیں مٹے گا یا صفحہ ہستی سے نابود نہیں ہوگا اس کی مثال اسی طرح ہے جس طرح شراب کے نشے کو جام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے یعنی جام ٹوٹ بھی جائے تو نشہ بہرطور برقرار رہتا ہے اسی طرح اسلام کا وجود کسی بھی اسلامی ملک پر منحصر نہیں ہے ۔ یورش تاتار کے افسانے واقعات سے یہ بات واضح ہے کہ بت کدے سے کعبہ کو پاسباں مل گئے ۔ تو مسلمان اس دور میں زمانے میں حق و صداقت کی کشتی کا سہارا ہے ۔ جدید دور گویا رات ہے اور تو اس میں ایک دھندلا سا ہلکی روشنی والا ستارہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ باطل کی تاریکیوں میں تیری حیثیت ایک جگنو کی سی ہے ۔

شکوَہ 30



لُطف مرنے میں ہے باقی، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خُونِ جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گُلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں، وہ لالے ہی نہیں
تشریح
مسلمانوں کی مذکورہ حالت دیکھ کر کچھ ایسی حالت ہوگئی ہے کہ نہ تو اب مرنے ہی میں کوئی لطف رہ گیا ہے اور نہ جینے میں ہی ہے ۔ ہاں اگر کچھ لطف اور مزہ ہے تو وہ اپنا خون جگر پینے میں ہے یعنی قوم کی بے حسی اور بے عملی پر میں (علامہ) خون کے گھونٹ پیتا ہوں ۔ قدرت کی طرف سے مجھے بہت سی خوبیوں اور صفتوں سے نوازا گیا ہے جو اپنے اظہار کے لئے بے قرار ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اس گلستان میں دیکھنے والے ہی نہیں ہے اور اسے لالہ کے پھول جن کے سینے میں داغ ہو، یہاں نظر ہی نہیں آتے ۔ یعنی اب سچے مسلمان نظر نہیں آرہے جو میرے پیغام پر توجہ دیں اور جن کے سینے اسلام سے محبت کے جذبوں سے سرشار ہوں اور وہ قوم کی اس پستہ حالی کو دور کرنے کی کوشش کریں

جوابِ شکوَہ 30
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تُو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا
کیوں ہراساں ہے صَہیِلِ فرَسِ اعدا سے
نُورِ حق بُجھ نہ سکے گا نفَسِ اعدا سے
تشریح
بلغاری یورش کا جو ہنگامہ برپا ہے یہ دراصل غفلت کے مارے ہوئے مسلمانوں کے لیے بیداری کا پیغام ہے تو اس حملے کو دل آزاری کا سامان نہ سمجھ بلکہ یہ جان لے کہ قدرت کی طرف سے یہ تیرے ایثار و خودداری کی آزمائش ہے ۔ لہذا تو دشمن کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ کے شور سے پریشان وہ خوفزدہ نہ ہو ۔ اس لئے کہ دشمنوں کی پھونکوں سے نورحق نہیں بجھ سکتا یوں سمجھ لے کے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔

شکوَہ 31



چاک اس بُلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجَمی خُم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری!
تشریح
اے مولا کریم ! اس اکیلے تنہا بلبل کے نغمے سے لوگوں کے دل چاک ہوجائیں اور میری اسی کوچ کی گھنٹی پر سوئے ہوئے جاگ پڑیں ۔ یعنی میری عظیم پیغام بیداری کی حامل شاعری سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوجائے اور وہ جہد و عمل سے اپنی بقا اور کھوئی ہوئی عزت کے حصول کا سامان کریں ان کے دل وفا کے نئے عہد سے پھر سے زندہ ہو جائیں اور ان کے دل پھر اسی شراب کے طلبگار بن جائیں ۔ جس کے عادی ان کے اسلاف تھے ان کے دلوں میں اسلام کی بے حد محبت تھی اگرچہ میری شراب کی صراحیاں ایرانی ہیں لیکن ان میں خالص حجازی شراب ہے اور اگرچہ میرے گیت ہندی ہیں لیکن ان کی دھن تو خالص حجازی ہے مطلب یہ کے میری شاعری کا انداز فارسی شعراءکا سا ہے لیکن اس میں بیان کردہ مضامین خالص اسلامی ہیں ۔ اور میری زبان اردو ہے لیکن میری افکار اسلامی ہیں اور دنیا اسلام کے لئے میرا پیغام ہے ۔

جوابِ شکوَہ 31
چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری
وقتِ فُرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
تشریح
تیری (مسلمان کی) حقیقت دوسری قوموں کی آنکھوں سے ابھی تک پوشیدہ ہے دنیا تیری اہلیتوں صلاحیتوں سے ناواقف ہے ابھی دنیا کی محفل کو تیری ضرورت ہے تیرے ایمان کی حرارت و گرمی اس دنیا کو زندہ رکھے ہوئے ہے خلافت کی قسمت کا چمکتا ہوا ستارہ ہے ۔ گویا اگر یہ ستارہ غروب ہوگیا تو دنیا تاریکیوں میں ڈوب جائے گی ابھی تیرے آرام کا وقت نہیں ہے اس لیے کہ ابھی دنیا میں توحید کے نور کی تکمیل کا کام باقی ہے دوسرے لفظوں میں جب یہ تکمیل ہو جائے گی تو پھر تجھے فراغت حاصل ہوگی




مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا
رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج ہے ہنگامۂ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے
چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے

مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں






No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...