محمد
بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,29
اورنگ
زیب عالمگیرؒ
1666 سے 1707 تک
آفتاب
عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع
بلگام کرناٹک
8105493349
دورِ
حکومت: ( 1658ء تا 1707ء)
مغلیہ
خاندان کا شہنشاہ، نام :محی الدین، اورنگزیب لقب، ان کے والد شاہجہان نے
انھیں عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی
سرحد پر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو
سال کی تھی کہ شاہجہان نے
اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ اور بیوی بچوں کو لے
کر چار سال تک بنگال اور تلنگانہ میں
پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو دربار میں بھیج
کر معافی مانگ لی۔ جہانگیرنے دونوں بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔
اورنگزیب
کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے عالم کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل
بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلے بادشاہ ہیں جنھوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون
نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری، تیراندازی اور فنون سپہ گری میں
بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا
صوبیدار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے
فتح کیے۔ بلخ کے
ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔
اسلامی
علوم کے علاوہ اورنگزیب نے ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی اور خطاطی میں مہارت
حاصل کی۔ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح اورنگزیب بھی بچپن سے ہی ہندوی میں فراٹے کے
ساتھ گفتگو کرتے تھے۔
کم
عمری سے ہی شاہجہاں کے چار بیٹوں میں مغل تخت حاصل کرنے کا مقابلہ تھا۔ مغل وسط
ایشیا کے اسی اصول پر یقین رکھتے تھے جس میں تمام بھائیوں کا حکومت پر برابر کا حق
تھا۔ شاہ جہاں اپنے سب سے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا،
لیکن اورنگزیب کا خیال تھا کہ وہ مغل سلطنت کا سب سے زیادہ قابل وار وارث ہے۔
آڈری
ٹریسچکی نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ دارا شکوہ کی شادی کے بعد شاہ جہاں نے دو
ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان ایک مقابلہ کروایا۔ یہ مغلوں کے لیے تفریح
کا پسندیدہ ذریعہ تھا۔
اچانک
سدھاکر گھوڑے پر سوار اورنگزیب کی طرف غصہ سے بڑھا اورنگزیب نے پھرتی سے سدھاکر کی
پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ مزید بپھر گیا۔
اس
نے گھوڑے کو اتنے زور سے مارا کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ عینی شاہدین میں ان کے بھائی
شجاع اور راجہ جے سنگھ شامل تھے جنھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوشش کی لیکن
بالآخر دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ وہاں سے اپنی جانب کھینچ لی۔
شاہجہاں
کے درباری شاعر ابو طالب نے اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔
شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے
لیا۔ داراشکوہ کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت
کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی۔ شاہ شجاع نے بنگال میں
اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج
کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے
قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست
ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر داراشکوہ کے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دونوں
فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر
لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔
اورنگزیب
ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد
کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف
کر دیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ
کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔
سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹادیے۔ 1665ء میں آسام، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح
کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں
سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے
نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی۔ سکھوں کے
دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی
اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروزپور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں
بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں
تھے کہ خود عالمگیر فوت ہو گیا
عالمگیر
نے 1666ء میں
راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے
خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں
نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار
ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع
کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا
تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں
مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا۔ اس کا بیٹا
ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی
ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں
کے تعاقب میں ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
اورنگزیب
نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی
کہ پہلی بار انھوں نے تقریبا پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔
ٹرسچكی
لکھتی ہیں کہ اورنگ زیب کو ایک کچی قبر میں مہاراشٹر کے خلدآباد میں دفن کیا گیا
جبکہ اس کے برعکس ہمايوں کے لیے دہلی میں لال پتھر کا مقبرہ بنوایا گیا اور شاہ
جہاں کو عالیشان تاج محل میں دفنایا گیا۔
ان
کے مطابق؛ 'یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اورنگزیب نے ہزاروں ہندو منادر توڑے۔ ان کے حکم
سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے
ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم
عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔اورنگزیب کو ادب سے بہت لگاؤ تھا۔
عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے
برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے
قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی
محفوظ ہیں۔ بڑا متقی، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی
خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا
ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام
سلطنت چلانے کے لیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ
عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو
اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ پانچ بیٹے (بہادر شاہ،سلطان محمد اکبر،محمد اعظم
شاہ، کام بخش،محمد سلطان)اور پانچ بیٹیاں (زیب النساء،زینت
النساء،مہرالنساء،بدرالنساء،زبدۃالنساء)چھوڑیں۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی
دختر تھیں۔ بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی سلطنت کا
وارث ہوا۔