Thursday, 28 November 2024

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

 

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری

کروشی بلگام کرناٹک

8105493349

 

اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا ہے ۔ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو عقل اور شعور کے ساتھ کام کرتے ہوئے پیدائش سے لے کر موت تک کی زندگی بہ حسن خوبی بسر کرتا ہے ۔ دیگر جانوروں کے مقابلے میں انسان ہی تو ہے جو ہر دن نت نئی ایجادات کر کے دنیا میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔انسان کو کھیلوں سے فطری طور پر دلچسپی رہی ہے خواہ وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو ہر انسان اپنی اپنی طبیعت دلچسپی کی بنیاد پر کھیل کھیلتے آ رہے ہیں ۔ مگر آج کے اس ترقی یافتہ موبائیل کے دور میں خاص طور پر بچوں کی زندگی سے وہ سارے کھیل دور ہو گئے ہیں جو سن 1990 یا اس سے پہلے کے لوگ کھیلا کرتے تھے ۔ آج ہم انہی بھولے بسرے کھیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ۔

 

  گلی ڈنڈا  : ان کھیلوں میں سرِ فہرست کھیل گلی ڈنڈا ہے جو تقریبا موجودہ دور میں متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں دو ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جس کا ہر کھلاڑی باری باری کھیلتا ہے اگر پہلی ٹیم کے کھلاڑی کے ذریعے ہوا میں اڑتی ہوئی گلی کو دوسری ٹیم کا کھلاڑی کرکٹ کی گیند کی طرح کیچ کر کے پکڑ لیتا ہے تو یہ کھلاڑی آؤٹ قرار دیا جاتا ہے ڈنڈے سے گلی مارنے کے مخصوص نام ہوتے ہیں ۔ پاؤ، چٹی ،مٹھی ،گھوڑا ،پُوک ،ڈولا ،جِل ۔ ۔ ۔ اس کھیل کے ذریعے پہلی ٹیم کا کھلاڑی دور تک گلی کو مارتا اور ایک اندازے سے بتاتا کہ گلی کے گرنے کی جگہ اور جہاں سے گلی کو مارا گیا ہے وہاں تک کی جگہ کا اندازہ لگا کر ایک عدد بتاتا ہے جیسے 500 یا ہزار اگر سامنے والی ٹیم کو لگتا کہ اس کی بتائی ہوئی عدد کم ہے تو اس کو گِنا جاتا اس طرح اس کھیل کے ذریعے بچے علم ریاضی کے فن میں ماہر ہو جاتے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا ڈسٹنس کا اندازہ ہو جاتا ۔ اس طرح یہی بچے بڑے ہو کر زندگی کے دیگر شعبے میں اپنی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر اندازے لگانے میں ماہر ہو جاتے ۔


 

2- گھوٹی یا کنچے : بچپن کے دور کا ایک اہم کھیل گھوٹی تھا جس میں کانچ کی بنی ہوئی گوٹیاں ہوتی تھیں زمین میں ایک چھوٹا سا گڑا کھود کر کھیلا جاتا تھا اسے کئی ایک لاکھ طریقوں سے کھیلا جاتا تھا اس کھیل کے ذریعے گوٹیوں کو گنتے گنتے بچہ جمع اور تفریق کے حساب میں ماہر ہو جاتا اور ساتھ ہی ساتھ نشانہ لگانے میں ماہر بن جاتا ۔ اس دور میں جس کے پاس جتنی زیادہ گوٹیاں ہوتیں وہی امیر قرار دیا جاتا تھا مگر یوں بھی ہوتا تھا کہ آج جس کے پاس زیادہ گوٹیاں ہوں کل اسے وہ ہار بھی جاتا تھا ۔ اور پھر سے محنت کر کے از سرِ نو اپنی ہاری ہوئی ساری گھوٹیاں دوبارہ حاصل کر لیتا یہ سلسلہ چلتا رہتا اس طرح بچوں میں ہارنے کے بعد پھر سے کھڑے ہونے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا اسی وجہ سے یہی بچہ جب بڑا ہوتا کسی کام میں ناکام ہونے کے بعد ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا تھا بلکہ حالات کا مقابلہ ہمت سے کرتا ۔


 

3۔ جِگ جِگ گھوڑا : یہ کھیل عام طور پر 10 سے 12 بچے مل کر کھیلا کرتے تھے جس کی باری ہوتی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں سے لگا کر جھک جاتا تھا ۔ باری باری سارے کھلاڑی اس کے اوپر سے چھلانگ لگاتے جب سارے کھلاڑی چھلانگ لگانے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ دھیرے دھیرے اپنے قد کو اونچا کرتا اس طرح بچوں میں ڈفیکلٹی لیول کو ہمت سے پورا کرنے کا حوصلہ ملتا اور بچوں کی جسمانی ورزش ہو جاتی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ بچے اے بی جاننے لگتے کہ زندگی تھوڑی تھوڑی دھیرے دھیرے مشکل سے مشکل ہوتی جاتی ہے اس کھیل کے ذریعے سے وہ زندگی کا ایک بہت بڑا سبق سیکھ لیتے ۔ 


 

  چور پولیس : دو ٹیموں پر مشتمل یہ کھیل کھیلا جاتا جس میں سے ایک چوروں کی ٹولی ہوتی اور دوسری پولیس کی ٹیم ہوتی اس کھیل کے ذریعے بچے سارا گاؤں گھوم لیتے اور گلی کے ہر نکڑ سے واقف ہوتے ۔ پولیس کی ٹیم آخر کار ان کو پکڑ ہی لیتی اور جو بچے چور بنے ہوتے انہیں فطری طور پر احساس ہو جاتا کہ ہماری اصل زندگی میں بھی اگر ہم چور بنیں گے تو کبھی نہ کبھی پکڑے ہی جائیں گے اس طرح بچے بچپن ہی سے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہوتے جاتے ۔

  




5۔ چھپا چھپی : عام طور پر یہ کھیل سردیوں کے دنوں میں رات کی تاریکی میں کھیلا جاتا تھا جس کی باری اتی وہ کسی دیوار میں اپنا منہ چھپا کر 10 سے لے کر 100 تک گنتی کرتا تب تک وہ اس کے ساتھی دوست کہیں چھپ جاتے اور وہ ساتھی دوستوں کے ناموں کو پکار پکار کر آؤٹ کر دیتا بعض مرتبہ اس کے ساتھی چال بدل بدل کر اسے قریب آتے مگر وہ ہر بار پہچان لیتا ۔

 


6۔ پیڑ بندر : اس کھیل میں 10 سے 12 بچے ہوا کرتے تھے اس میں ایک لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو کوئی کھلاڑی دور پھینک دیتا دوسرا کھلاڑی لکڑی کے ٹکڑے کو لانے کے لیے دوڑتا تب تک سارے کھلاڑی پیڑ پر چڑھ جاتے ۔ جو کھلاڑی لکڑی لانے کے لیے گیا تھا وہ پیڑ کے نیچے ایک چھوٹا سا دائرہ بنا کر اس میں لکڑی کو رکھ دیتا اور خود اوپر چڑھنے لگتا تاکہ وہ اپنے کسی ایک ساتھی کو آؤٹ کرے ۔ خود کو اؤٹ ہونے سے بچانے کے لیے بعض کھلاڑی اوپر سے نیچے کی جانب چھلانگ لگا دائرے میں رکھی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے کو چھو لیتے ۔ اس طرح دوبارہ اسی کھلاڑی کا نمبر آتا ۔ بعض مرتبہ بچوں کے پاؤں میں موج بھی آتی ۔ درد کی جگہ پر سفید ہاڑ مٹی گیلی کرکے چولہے پر سینکا جاتا ۔ ۔


 

7۔ چیل گھوڑا : یہ کھیل بھی اب مکمل طور پر متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں عام طور پر ایک ٹیم میں چھ سے سات کھلاڑی ہوتے تھے اس میں پہلا کھلاڑی دیوار کو ہاتھ لگا کر جھک جاتا تھا اس کے پیچھے بقیہ کھلاڑی ایک دوسرے کی کمر کو پکڑ کر ایک لمبا ریل جیسا ڈبہ بنا لیتے تھے ۔ دوسرے ٹیم کی کھلاڑی دور سے دوڑتے ہوئے آ کر چھلانگ لگا کر کوششیں کرتے تھے کہ پہلے کھلاڑی کی پیٹھ پر سوار ہو جائے ۔ اس طرح بقیہ کھلاڑی بھی دوڑ کر ان سارے کھلاڑیوں کے پیٹھ پر یکے بعد دیگرے سوار ہو جاتے ۔ جو کھلاڑی گھوڑا بنے ہوئے ہیں اگر وہ وزن کا بار نہ سہ سکے تو دوبارہ اسی طریقے ست کودا جاتا اور اگر چیل کی طرح اتے ہوئے کھلاڑی نیچے گر جاتے ہیں تو ان کی باری آ جاتی ہے ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہا تھا اس کھیل کے ذریعے اجتماعی طور پر کسی کام کے کرنے کا حوصلہ ملتا جذبہ ملتا اور یہی وہ کھیل ہے جو آگے چل کر ایک جماعت کی شکل بن کر اجتماعی طور پر نئے نئے انقلابات لاتا ۔ ۔ 


 

8۔کنویں میں پکڑم پکڑی : بچپن میں سب سے پہلے بچوں کو چھ سال کی عمر کے بعد جو چیز پہلے سکھائی جاتی تھی وہ کنویں میں تیرنا تھا ۔ جو بچے تیراکی میں ماہر ہو جاتے تو وہ ایک نیا کھیل اس کنویں میں کھیلا کرتے ۔ کھلاڑیوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے نہ جانے دینا یہی کھیل کا اہم جز تھا ۔ اس طرح مسلسل بچے اس میں مشق کرتے رہتے ہیں ۔ بعض مرتبہ پلاسٹک کی تھیلی میں پتھر ڈال کر کنویں میں پھینک دیتے ۔ اور بچے اسے کنویں کی گہرائی سے لے کر آنے کے لیے بیک وقت کود جاتے جو سب سے تیز ترار ہوتا وہی اس پتھر کو دوبارہ لے کر آتا ۔

 


9۔ لکڑی پتھر : اس کھیل میں عام طور پر تین سے ساڑھے تین فٹ کی ایک مضبوط لکڑی ہوتی ۔ جس کی باری ہوتی اس کی لکڑی کو یہ لوگ اپنی لکڑی کے نوک سے دور تک پھینکتے اور دوڑتے ہوئے وہاں تک جاتے اگر بالفرض اس دوڑ کے اندر اس پہلے کھلاڑی نے کسی کو اوٹ کر دیا تو باری اس کی آ جاتی ۔ ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ دور دور تک پھیلے کھیتوں وغیرہ میں چلتا رہتا واپسی میں جن جن کھلاڑیوں کی باری آئی تھی ان کو لنگڑاتے ہوئے چلنا پڑتا اور بعض مرتبہ تھوڑی دیر لنگڑاتے چلنے کے بعد جو ساتھی ہوتے اسے معاف کرتے سارے بچے ہنسی خوشی گھر لوٹ آتے ۔ ۔

 


10۔ کاغذ کی کشتی : یہ کھیل عام طور پر بارش کے دنوں میں کھیلا جاتا جب زوردار بارش گر کر تھم جاتی تو فورا اپنے اپنے گھروں سے بچے نکلتے اور چھوٹی سی کاغذ کی کشتی بنا کر اسے پانی میں ڈالتے اور اس کی پیچھے مسلسل دوڑنے لگتے اس طرح بچوں کی ایک جسمانی ورزش ہو جاتی  ۔

 


11۔ کیل مٹی : یہ کھیل بھی عام طور پر بارش کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا جس میں بچے لوہے کی ایک نوکی لی کل سے زمین میں ایک دائرہ بناتے اور اسی دائرے کے درمیان اپنی کیل سے زور سے کیل گاڑنے کی کوشش کرتے جس کا کل گر جاتا وہ کھیل سے باہر ہوتا ۔ ۔

 


12۔ منڈوے کے کھمبے : عام طور پر یہ کھیل شادی بیاہ کے موقعوں پر بچے چار کھمبوں کو پکڑ کر کھیلا کرتے تھے جس میں ہر ایک بچہ ایک ایک کھمبے کو پکڑتا اور بیچ میں ایک بچہ ایسا ہوتا جو دیگر کھلاڑیوں کو ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے کی طرف جانے سے روکتا اس طرح بچے بڑے مزے سے کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ۔

 

اس کے علاوہ بیسیوں کھیل ایسے ہیں جسے آج کے موبائیل کے دور کا بچہ بھولتا جا رہا ہے۔۔


No comments:

Post a Comment