Friday, 5 June 2020

کروشی پٹیل برادری شجرہ نسب

Karoshi Patel Family Tree 

Belgaum Karnataka 

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : 
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی ؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولاد کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔
 (مسند احمد)


تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہُوا
گھر مِرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہُوا

علامہ اقبالؒ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر ایک محقق بنا کر پیدا کیا ہے، انسان ہر اس چیز کی تحقیق کرنا چاہتا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہے، بعض کے سوالوں کے جوابات  تو آسانی  سے مل جاتے ہیں بعض کے جوابات نہیں مل پاتے ،اسی قسم کے تین بنیادی سوالات ہیں جس کے متعلق ہر انسان سوچتا  رہتا ہے۔۔۔۔ کہ"میں کون ہوں؟ "ہم کون ہیں ؟" ،"ہمارے کون ہیں"؟ میں کون ہوں یا ہم کون ہیں اس کا جواب عام طور پر گھر کے افراد کے واسطے سے مل جاتا ہے، تیسرا  سوال ہمارے کون ہیں اور کہاں ہیں  یعنی خونی رشتے دار ،اس کا جواب کم ہی افراد جانتے ہیں ، اللہ جزائے خیر دے  مرحوم نثار احمد پٹیل  چچا کے خاندان کے سارے افراد کو  جنہوں نے کروشی کی پٹیل برادری کا نسب نامہ سنبھال رکھا تھا ، میں احسان مند ہوں محمد صدیق پٹیل چچا، محبوب پاشا چچا ، توصیف بھائی،شاہد بھائی،اسد الزماں بھائی کا جنہوں نے 13 جنریشن تک کا مکمل نسب نامہ مجھے دیا ،  اگلی دو جنریشن کے ناموں  کو میں نے اللہ کا نام لے کر شروع کیا  تو میں حیران رہ   گیا کہ ہماری برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ملک اور بیرون ملک میں کئی جگہ   بسے ہیں جن جن لوگوں سے بات کرتا  ان میں سے کئی افراد تو میرے اتنے قریبی رشتے دار  نکلے جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا   الحمد للہ تقریباً  مسلسل 22 دن کے بعد یہ کام مکمل ہوا جب اسے چارٹ پر لکھنے لئے بیٹھا تو اس نسب نامے کا  ایک کارڈ شیٹ میں سمانا  نا ممکن تھا شروع سے کروشی کی پٹیل برادری   6 گڈّوں میں تقسیم ہے اس لئے میں نے اپنی آسانی کے لئے  ہر گڈّے کے ناموں کو الگ الگ صفحے میں تحریر کر دیا ۔جس سے کسی حد تک یہ کا آسان ہوگیا،





(1)مکتوم پٹیل کی اولاد محمد پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

(2)سراج  پٹیل کی اولادبالا پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

(3)قادرپٹیل کی اولادلاڈو  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

(4)امام پٹیل کی اولاد مکتوم پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

(5)درویش پٹیل کی اولاد میراں  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

(6)باپو عرف بالا  پٹیل کی اولادگھوڑو  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

ہر گڈّے کے افراد کا مختصر تعارف

1۔ محمد پٹیل گڈّا

آبادی کے اعتبار سےیہ  گڈّا اول نمبر پر ہے،اس گڈّے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گڈّے کے افراد کو بہادری شجاعت اور کسی کام کو آگے  بڑ چڑھ کر کرنے کی نعمت سے نوازہ ہے ،  اس گڈّے اکثر و بیشتر افراد دنیاوی اعتبار سے بڑے بڑے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

2۔ بالا پٹیل گڈّا

اس گڈّے کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اس گڈّے میں ایسے افراد پیدا کئے ہیں جو دینوی اور دنیوی  زندگی میں اپنا نام روشن کیا ،

3۔ لاڈو گڈّا

اس گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد کو اللہ تعالیٰ سیاسی سمجھ بوجھ عطا کی ہے۔

6،5،4 : مکتوم پٹیل گڈّا،میراں  پٹیل گڈّا، گھوڑو  پٹیل گڈّا
اس  گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد خاموش طبیعت ہیں اس کے علاوہ دین دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔۔


محمد پٹیل گڈّا 





بالا پٹیل گڈّا 



لاڈو  پٹیل گڈّا



مکتوم پٹیل گڈّا



میراں  پٹیل گڈّا 


گھوڑو  پٹیل گڈّا 



کروشی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے گاؤں اور شہر :

مندرجہ ذیل میں شہروں اور گاؤں کا ذکر ہے جہاں سالوں سے ان کے درمیان
رشتہ داریاں رہی ہیں،

شیڑشال،بستواڑ،الاس، اورواڑ، میرج،وڈی،  بلگام،کڑےگاؤں،فقیرباڑا،رکڑی، شیرولی، کتیانی، ہیرےکوڑی،الہ اباد،ہلدی،بیلےواڑی،جنیاڑ،ارجن باڑہ، تمنک باڑا،کاساری،باروا،روزے باغنی،دیندےواڑی،ہکیری،مسرگوپا،مغل بستواڑ،گوڑاڑ،اکتن ناڑ،کندرگی،پاچاپور،انکلا،ماونور،گوڑچنملکی،چمپا ہسور،بساپور، کڑچی،
اس کے علاوہ پچاسوں ایسے گاؤں شہر ہیں جہاں پر کروشی کی پٹیل برادی روزگار کے سلسے میں سالوں سے مقیم ہے جن میں کولھاپور، ستارا،پونا،بمبئی،بیجاپور،گلبرگہ،بنگلور، مہاراشڑرا  کرناٹک کے کئی اضلاع اور عرب ممالک، امریکہ (مچیگن) لندن، ملیشیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

نسب  نامہ بھیجنے کا مقصد:  اس نسب نامے کو ترتیب دے کر بھیجنے کا یہی مقصد ہے کہ آپسی تعلقات مضبوط ہوں جو گاؤں سے دور ہیں وہ کم از کم سال میں ایک دو بار آکر ملاقات کریں   اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل جھل کر رہیں۔۔۔

نوٹ : اگر کوئی ڈی ٹی پی میں ماہر ہے تو ان الگ الگ گڈّوں کو ایک ہی شیٹ میں بنانے کی تدبیر بتائے اور اس میں ہمارا ساتھ دے ۔۔۔

KAROSHI PATEL FAMILY TREE PDF FILE IN 
ENGLISH


01 MUHAMMAD PATEL GADDA

02 BALA PATEL GADDA

03 LADU PATEL GADDA

04 MAKTUM PATEL GADDA

05 MEERA PATEL GADDA

06 GHUDDU PATEL GADDA






طالب دعا : آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام  کرناٹک (انڈیا)
8105493349
7019759431

Wednesday, 1 April 2020

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,30
اورنگ زیب کے جانشین اور سلطنت مغلیہ کا زوال


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

اورنگزیب کے جانشین

اورنگزیب کے چار لڑکے تھے معظم اعظم اکبر اور کام بخش ۔ ان میں سے اکبر تو فارس گیا اور پھر اس کی زندگی یا موت کی کوئی خبر نہ ملی اورنگزیب نے اپنے مرنے سے پہلے سلطنت کو تین بیٹوں میں تقسیم کردیا تھا تاکہ ان میں خانہ جنگی نہ ہو اس نے معظم کو کابل اعظم کو وسط ہند اور دہلی کام بخش کو دکن کا علاقہ سپرد کیا مگر اس کی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اورنگزیب کے مرتے ہی بھائیوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی شہزادہ معظم کامیاب ہوا اور بہادر شاہ کا لقب اختیار کرکے حکومت کرنے لگا ۔

بہادر شاہ اول 1707 سے 1712


بہادر شاہ نے شیواجی کے پوتے ساہو کو 1708 میں اس شرط پر ریا کیا کہ وہ اس کا باجگزار بنا رہے،ساہو جاتے ہی تارا بھائی بیواہ راجارام کو نظر بند کرلیا اور ستارہ میں حکومت کرنے لگا،

راجپوتوں کی بغاوت

راجپوت بغاوت پر آمادہ ہوئے اس لئے بہادر شاہ نے میواڑ جودھ پور اور جے پور کے راجاؤں سے لڑائی کی تیاری کی جب دیکھا کہ کامیابی مشکل ہے تو صلح کرلی

سکھوں کی شورش

بہادر شاہ کے عہد میں بندہ بیراگی سکھوں کا رہنما تھا ۔ اس نے تمام پنجاب میں لوٹ اور تباہی کا بازار گرم کر رکھا تھا بہادر شاہ خود اس کی سرکوبی کے لئے پنجاب میں آیا اور بندہ کو اس کے ساتھیوں سمیت سرمور کی پہاڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا بہادرشاہ سکھوں کے تعاقب میں مصروف تھا کہ 1712 میں لاہور میں مر گیا ۔

جہان دار شاہ 1712 سے 1713


بہادر شاہ کی وفات کے بعد اس کے چار بیٹوں میں تخت کے لیے خوب جنگ ہوئی انجام کار جہاندار شاہ نے سپہ سالار ذوالفقار خان کی مدد سے تخت حاصل کیا اس کے عہد میں سید بھائیوں حسن علی اور عبداللہ نے بہت زور پکڑا انہوں نے 1713 میں جہاندار شاہ کو مروا کر اس کے بھتیجے فرخ سیر کو تخت پر بٹھایا ۔

فرخ سیر 1711 سے 1719


فرخ سیر بہادر شاہ اول کا پوتا تھا بنگال میں ہونے کی وجہ سے جہاندار کے قتل سے بچ رہا تھا اس کے عہد میں دو سید برادران حسین علی اور عبداللہ بڑے رسوخ کے مالک تھے ان سید برادران کی مدد سے فرخ سیر شہنشاہ دہلی بنا تھا اس لئے ان کی قدرومنزلت بہت بڑھ گئی عبداللہ اس کا وزیر اور حسین علی افواج کا سپہ سالار مقرر ہوا فرخ سیر برائے نام بادشاہ تھا دراصل یہ بادشاہ گر جو چاہتے تھے کرتے تھے ۔ فرخ سیر نے سکھوں پر بہت سختیاں کیں ان کے سردار بندہ بیراگی کو 800 ہمراہیوں سمیت بڑی بے رحمی سے قتل کروایا ۔ فرخ سیر  ایک دفعہ سخت بیمار ہوا ایک انگریز ڈاکٹر ہملٹن نے اسے بالکل تندرست کر دیا اس علاج کے صلہ میں بادشاہ نے انگریزوں کو کلکتہ کے قریب چالیس گاؤں خریدنے کی اجازت دے دی اور انگریزی تجارتی مال پر محصول معاف کر دیا سید برادران کے سخت رویے فرخ سیر کا دل کھٹا کر دیا اس نے ان سے چھٹکارہ پانا چاہا مگر انہوں نے اسے قتل کروا دیا ۔
اس کے بعد سید برادران نے رفیع الدرجات کو 1719 میں بادشاہ بنایا جو چند ماہ کے بعد مر گیا اس کے بعد اس کا بھائی رفیع الدولہ بادشاہ ہوا وہ بھی چند ماہ کے بعد دق کی بیماری سے مرگیا اس کے بعد نکو سیر اور ابراہیم تخت پر بٹھائے گئے مگر یہ بھی جلد مروا دیے گئے اب سید برادران نے بہادر شاہ کے پوتے روشن اختر کو محمد شاہ کا لقب دے کر تخت پر بٹھایا ۔

محمد شاہ 1720 سے 1748


سید برادران کا قتل : 

بہادر شاہ چونکہ سید برادران کی مدد سے دہلی کے تخت پر بیٹھا تھا اسلیے سید برادران کی طاقت بہت بڑھ گئی تھی ان کی من مانی کاروائیوں سے بہت سے امراء ان کے خلاف ہو گئے تھے محمدشاہ بھی ان سے تنگ تھا آخری 1721 میں سید برادران مارے گئے اور محمد شاہ کو ان سے نجات حاصل ہوئی ۔
محمد شاہ بڑا عیاش بادشاہ تھا اس لیے اسے محمد شاہ رنگیلا بھی کہتے تھے اس کے عہد میں نادر شاہ ایرانی نے 1738ءمیں ہندوستان پر حملہ کرکے مغلیہ سلطنت کو بہت کمزور کر دیا اس سے مرہٹے دکن میں خود مختار ہو گئے اور کئی علاقوں سے چوتھ اور سرویش مکھی وصول کرنے لگے،نظام الملک آصف جانے دکن میں سلطنت قائم کرلی سعادت علی خان نے اودھ میں اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا اور علی وردی خان نے اپنی سلطنت بنگال میں قائم کرلیں محمد شاہ نے 1748 میں وفات پائی ۔
محمد شاہ کے بعد کی مغلیہ بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے مگر ان کی حکومت برائے نام تھی سے صرف دو بادشاہ قابل ذکر ہوئے ہیں اول شاہ عالم ثانی اور دوسرا بہادر شاہ ثانی شاہ عالم ثانی نے بنگال بہار اڑیسہ کی دیوانی عطا کی ۔ بہادر شاہ ثانی اس خاندان کا آخری بادشاہ تھا اسے 1857 میں غدر میں شامل ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے اسیر سلطانی بناکر رنگون بھیج دیا تھا اس نے 1864 میں فالج کی بیماری سے وفات پائی اس کی وفات پر مغلیہ خاندان کا خاتمہ ہوگیا ۔

نادر شاہ کا حملہ 1739


محمد شاہ کے زمانے میں 1739 میں ایران کا بادشاہ نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا نادرشاہ دراصل خراسان کا ایک گڈریہ تھا ۔ جس نے محض اپنی خداداد لیاقت سے ایران کا تخت حاصل کیا تھا اس نے کابل اور قندھار کو فتح کرنے کے بعد 1739 میں ہند پر حملہ کیا،کرنال کے قریب دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں محمد شاہ کو شکست ہوئی اور نادرشاہ دہلی میں داخل ہوا مگر کچھ دنوں کے بعد اس شہر میں نادر شاہ کے مارے جانے کی غلط افواہ پھیل گئی اس افواہ کے پھیلتے ہی باشندگان دہلی نے کئی ایرانی سپاہیوں کو مار ڈالا،نادرشاہ اسے سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور قتل عام کا حکم دے دیا دہلی میں 12 گھنٹے تک قتل عام کا بازار گرم رہا اور ہزارہا آدمی قتل ہوئے بازاروں گلی کوچے لاشوں کے ڈھیروں سے بھر گئے آخر محمد شاہ کی درخواست پر نادرشاہ نے قتل عام بند کرنے کا حکم دیا،مگر لوٹ کھسوٹ جاری رہی نادرشاہ قریبا دوماہ دہلی میں رہا جانے سے پہلے اس نے محمد شاہ کو دہلی کا شہنشاہ تسلیم کیا اور محمد شاہ نے دریائے سندھ کے مغربی جانب کا تمام علاقہ نادر شاہ کے حوالے کردیا نادرشاہ ہندسے کروڑہا روپیہ بے شمار قیمتی جواہرات سونے چاندی کے برتن مشہور ہیرا کوہ نور اور شاہ جہاں کا مشہور و معروف تخت طاووس اپنے ہمراہ ایران لے گیا،نادر شاہ کے حملے سے سلطنت مغلیہ کو ایک ناقابل برداشت صدمہ پہنچا چاروں طرف بدامنی پھیل گئی کی خود مختار ریاستیں قائم ہوگی ۔

احمد شاہ ابدالی کے ہند پر حملے


نادر شاہ کی وفات کے بعد اس کے ایک سردار احمد شاہ نے کابل اور قندھار پر قبضہ کرلیا،احمدشاہ افغانوں کی درانی قبیلے میں سے تھا،١٧٤٧ میں احمد شاہ ابدالی نے ہند پر حملہ کر کے پنجاب اور ملتان کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور دہلی کی طرف بڑھا لیکن سرہند کے مقام پر محمد شاہ کے بیٹے احمد شاہ کی سرکردگی میں مغلیہ فوج نے اسے شکست دی یہ مغلیہ فوج کی جنگ میں سب سے آخری فتح تھی،احمد شاہ ابدالی شکست کھا کر واپس چلا گیا 1754 میں مغل بادشاہ احمد شاہ کو اس کے وزیر قاضی والدین نے اندھا کر کے قتل کر دیا اور عالمگیر ثانی کو تخت پر بٹھایا اس کے عہد میں 1756 میں احمد شاہ ابدالی نے پھر ہندوستان پر حملہ کیا احمد شاہ ابدالی نے مغلوں کو شکست دی اور اپنے بیٹے کو پنجاب کا حاکم مقرر کرکے واپس چلا گیا، اس کے چلے جانے کے بعد عالمگیر ثانی قتل کیا گیا اور اس کی جگہ شاہ عالم ثانی تخت پر بیٹھا اس کے عہد میں مرہٹوں نے بہت عروج حاصل کیا اور پنجاب پر قبضہ کرکے احمد شاہ ابدالی کے بیٹے کو لاہور سے نکال دیا اس لئے احمد شاہ ابدالی ایک جرار فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا پانی پت کے تاریخی میدان میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا بڑی خونریزی لڑائی ہوئی اس پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست فاش ہوئی احمدشاہ کے ان حملوں نے مغلیہ سلطنت کی رہی سہی طاقت کا خاتمہ کر دیا ۔ 

سلطنت مغلیہ کے زوال کے اسباب

اورنگ زیب کی سیاسی غلطیاں : سلطنت مغلیہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب اورنگزیب کی پالیسی تھی اس کا تعصب اس کی ہندوؤں سے بدسلوکی اس کی شکی طبیعت اور اس کا دکن کی ریاستوں کو فتح کرنا ایسی سیاسی غلطیاں تھیں کہ جن سے اس عالیشان عمارت کو جس کی بنیاد اکبر نے اپنی صلح کل پالیسی سے رکھی تھی زوال آنا شروع ہوگیا ۔

اورنگ زیب کی مذہبی پالیسی : اورنگزیب کے مذہبی جنون نے مرہٹوں سکھوں راجپوتوں اور جاٹوں کو مغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوت پیدا کرنے پر مجبور کردیا جو آخرکار مل کر مغلیہ سلطنت کو تباہ کرنے کا موجب بنے  

بیجاپور اور گولکنڈہ کی فتح : بیجاپور اور گولکنڈا کی اسلامی ریاستوں کو فتح کرنے میں اورنگزیب نے بڑی غلطی کی کیونکہ ان ریاستوں کی تباہی کے بعد مرہٹہ بہت طاقت پکڑ گئے اور انہوں نے مغلیہ علاقے پر چھاپے مارنے شروع کر دیے جس سے مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی ۔

نالائق جانشین : اکبر جہانگیر شاہجہاں اور اورنگزیب اگرچہ ہزاروں نقائص رکھتے تھے لیکن ان میں ذاتی دلیری مردانگی اور دشمن کے مقابلے کی طاقت کے جوہر کوٹ کوٹ کر بھرے تھے مگر اورنگزیب کے جانشین ان خوبیوں سے بالکل خالی تھے وہ کمزور بزدل عیش پرست واقع ہوئے تھے اور اپنے امراء کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہتے تھے اس سے مرکزی حکومت کمزور ہو گئی ۔

وسعت سلطنت : اورنگزیب کے زمانہ میں مغلیہ سلطنت بہت وسیع ہوگئی تھی جس کا خاطر خواہ انتظام کرنا بہت مشکل تھا اس کے کمزور جانشین اتنی وسیع سلطنت کو سنبھالنے کے بالکل ناقابل ثابت ہوئے ۔

صوبوں کی خودمختاری : اورنگزیب کی موت کے بعد جب قابل حکمران نہ رہا تو صوبیدار اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار بن بیٹھے چنانچہ علی وردی خان بنگال میں سعادت علی خان اودھ میں اور نظام الملک دکن میں خودمختار حکومت کرنے لگے اس سے سلطنت دہلی کے گرد و نواح تک محدود ہوگئی ۔

بیرونی حملے : نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کو ہلا دیا

مغلیہ فوج کی کمزوری : مغلیہ فوج کمزور اور آرام طلب ہو گئی تھی نیز افسر بددیانت اور رشوت خور تھے فوجی افسر پالکیوں میں بیٹھ کر میدان جنگ میں جاتے تھے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ہمراہ لے جاتے تھے فوج میں سپاہیوں کی نسبت عورتوں اور بچوں کی تعداد نیز توپوں اور بندوقوں کی نسبت بار برادری کا سامان ہوتا تھا ۔

نئی طاقتوں کا ظہور : دکن میں مرہٹے پنجاب میں سکھ بہت زور پکڑ گئے تھے اس کے علاوہ یورپین قوموں نے بھی ہندوستان میں بہت ترقی کر لی تھی اس سے مغلیہ سلطنت کو بہت نقصان پہنچا جس سے مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی انگریزوں کا ہندوستان میں عروج بھی مغلیہ سلطنت کے زوال کا باعث بنامیں سپرد خاک کردیا گیا ۔

Monday, 30 March 2020

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,29
اورنگ زیب عالمگیرؒ
1666 سے 1707 تک


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

دورِ حکومت: ( 1658ء تا 1707ء) مغلیہ خاندان کا شہنشاہ، نام :محی الدین، اورنگزیب لقب، ان کے والد شاہجہان نے انھیں عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگانہ میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیرنے دونوں بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔
اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے عالم کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلے بادشاہ ہیں جنھوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری، تیراندازی اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔

اسلامی علوم کے علاوہ اورنگزیب نے ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی اور خطاطی میں مہارت حاصل کی۔ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح اورنگزیب بھی بچپن سے ہی ہندوی میں فراٹے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔
کم عمری سے ہی شاہجہاں کے چار بیٹوں میں مغل تخت حاصل کرنے کا مقابلہ تھا۔ مغل وسط ایشیا کے اسی اصول پر یقین رکھتے تھے جس میں تمام بھائیوں کا حکومت پر برابر کا حق تھا۔ شاہ جہاں اپنے سب سے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا، لیکن اورنگزیب کا خیال تھا کہ وہ مغل سلطنت کا سب سے زیادہ قابل وار وارث ہے۔
آڈری ٹریسچکی نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ دارا شکوہ کی شادی کے بعد شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان ایک مقابلہ کروایا۔ یہ مغلوں کے لیے تفریح کا پسندیدہ ذریعہ تھا۔
اچانک سدھاکر گھوڑے پر سوار اورنگزیب کی طرف غصہ سے بڑھا اورنگزیب نے پھرتی سے سدھاکر کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ مزید بپھر گیا۔
اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے مارا کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ عینی شاہدین میں ان کے بھائی شجاع اور راجہ جے سنگھ شامل تھے جنھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوشش کی لیکن بالآخر دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ وہاں سے اپنی جانب کھینچ لی۔

شاہجہاں کے درباری شاعر ابو طالب نے اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔
شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ داراشکوہ کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر داراشکوہ کے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔
اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کر دیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹادیے۔ 1665ء میں آسام، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروزپور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں تھے کہ خود عالمگیر فوت ہو گیا
عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
اورنگزیب نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انھوں نے تقریبا پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔
ٹرسچكی لکھتی ہیں کہ اورنگ زیب کو ایک کچی قبر میں مہاراشٹر کے خلدآباد میں دفن کیا گیا جبکہ اس کے برعکس ہمايوں کے لیے دہلی میں لال پتھر کا مقبرہ بنوایا گیا اور شاہ جہاں کو عالیشان تاج محل میں دفنایا گیا۔
ان کے مطابق؛ 'یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اورنگزیب نے ہزاروں ہندو منادر توڑے۔ ان کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔اورنگزیب کو ادب سے بہت لگاؤ تھا۔

عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کے لیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ پانچ بیٹے (بہادر شاہ،سلطان محمد اکبر،محمد اعظم شاہ، کام بخش،محمد سلطان)اور پانچ بیٹیاں (زیب النساء،زینت النساء،مہرالنساء،بدرالنساء،زبدۃالنساء)چھوڑیں۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔


کرناٹک اردو اکادمی ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔

کرناٹک اردو اکادمی  ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری بلگام کرناٹک 8105493349 "ہر اردو اکادمی اردو کا ای...