Monday, 8 July 2024

شہرِ بنگلور کا’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘ ایک ماں ایسی بھی دیکھی (سفر نامہ)

  


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شہرِ بنگلور کا’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘

ایک ماں ایسی بھی دیکھی

(سفر نامہ)


 

          آفتاب عالم شاہ نوری کرناٹک انڈیا

       موبائل:8105493349

 

  الله تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ صحت ان میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِسی لئے کہا گیا ہے سفر کرو، صحت پاؤ ۔ میرے والد صاحب کی برکت سے مجھ خاکسار کو بچپن سے ملک کے الگ الگ ریاستوں میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ چونکہ میرے والد نے 24 سال تک ہندوستانی افواج میں اپنی خدمات انجام دی ہیں ، اسی وجہ سے شمال میں جموں و کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں سے لے کر جنوب میں کنیا کماری کے اُس علاقے تک کا سفر کرنے کا موقع ملا، جہاں تین سمندر ایک جگہ ملتے ہیں ۔ ہر سفر نے مجھے زندگی کا ایک نیا سبق، نیا تجربہ دیا ۔ اس بار بتاریخ 5 جولائی 2024 تا 8 جولائی 2024 بنگلور کا سفر میرے لئے ہر لحاظ سے یاد گار سفر رہا۔اس کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو ملنے کے لئے میں نے زادِ سفر باندھا تھا، وہ اردو زبان و ادب کی عظیم شخصیت ، جس کا طوطی دنیا کے 6 براعظموں میں بولتا ہے ۔ جہاں جہاں اردو بولی، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں محترم جناب عزیز بلگامی صاحب کا نام بڑے ہی ادب و احترام سے لیا جاتا ہے:

 فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں

یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے

(نامعلوم)

عالمی شہرت یافتہ شاعر محترم عزیز بلگامی صاحب ہمارے گھر کروشی میں سالِ رواں فروری میں تشریف لائے تھے اور ان کی طرف سے کتابوں کا ہدیہ بھی ملا تھا۔یوں تو محترم عزیز بلگامی صاحب میرے ہم وطن ہیں اور ان کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ کڑچی اور بلگام میں گزرا ہے ، مگر روزگار اور بچوں کی تعلیم نے انہیں بنگلور کا بنا دیا ۔ مگر سال میں دو تین مرتبہ وہ اپنے وطن آ کر اپنے پرانے رفقاء سے ضرورملتے ہیں :

 گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

 لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

(مرزا غالبؔ)

شہرِ گلستاں بنگلور کے سفر کی وجہ میرے کرم فرما عزیز بلگامی صاحب ہیصادقہ ہیں ،جن کی مخلصانہ دعوت میں رد نہ کر سکا ۔ میرے اس سفر کا آغاز بذریعہ ٹرین بروز جمعہ 5 جولائی 2024 کو شام ساڑھے چار بجے مرج جنکشن ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوا ۔ ۔ شام کے تقریباً 7 بجے میرے ایک قریبی دوست حضرت مولانا امیر حمزہ صاحب بلگامی جو ایک مشہور عالمِ دین اور شاعر ہیں، انہوں نے اپنے ایک ساتھی حافظ عبدالحسیب صاحب کے ہاتھوں بلگام کے معروف’’ ہوٹل نیاز‘‘ کی گرما گرم بریانی بلگام ریلوے  اِسٹیشن پہنچائی، جسے میں نے بعد نمازِ مغرب اپنے روزانہ کے دینی معمولات مکمل کرنے کے بعد خوب پیٹ بھر کر کھائی ۔ عشاء کی نماز کے بعد پر سکون ہو کرسو گیا ۔ صبح کے تقریباً ساڑھے پانچ کے قریب ٹرین یشونتپور بنگلورریلوے اسٹیشن پہنچ گئی ۔ اسٹیشن سے قریب والی مسجد میں ہی میں نے نمازِ فجر ادا کی ۔اِس سے قبل دیر رات گئے عزیز بلگامی صاحب کا واٹس ایپ مسیج تھا کہ مجھے رسیو کرنے کے لئے محمد اسلم باغسراج صاحب اپنی کار لے کر اسٹیشن تشریف لا رہے ہیں ۔ چونکہ اسلم بھائی سے میری ملاقات پہلے بھی ہوئی تھی ۔اگرچہ کہ ان کا آبائی وطن کڑچی ہے، مگر برسوں پہلے ہی وہ بنگلور شفٹ ہو گئے تھے ۔ساڑھے چھ بجے صبح جب میں نے اسلم بھائی کو کال کی تواس وقت اسلم بھائی اسٹیشن سے بالکل قریب پہنچ چکے تھے ۔ پھر وہیں سے اسلم بھائی مجھے اپنے گھر لے گئے ۔ چائے کے بعد انہوں نے محلے کے آس پاس موجود معروف جگہوں کے بارے میں جانکاری دی ۔ انہوں نے ہندوستان کے مشہور دینی ادارے سبیل الرشاد کا بھی ذکر کیا، جو ان کے مکان سے پیدل صرف پانچ منٹ کی دوری پر ہے ۔ میں نے اسلم بھائی سے سبیل الرشاد لے جانے کی گزارش کی اور وہ مجھے مدرسہ لے گیے ۔ مدرسے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک نورانی ماحول نظر آیا ۔ چاروں جانب عمارتیں درمیان میں بڑا سا میدان ۔ چلتے چلتے ہم لوگ سبیل الرشاد کے کتب خانے میں بھی حاضری دی ۔ نچھلے فلور پر طلبہ کمپیوٹر پر ٹائپنگ کی مشق کرتے نظر آئے ۔ اوپری حصے میںدیگر طلبہ مطالعہ میں مصروف تھے ۔ جب کتب خانے کے ذمہ دارسےمیں نے اپنا تعارف کرایا تو میں حیران رہ گیاکہ وہ میری غزلیات،منظومات و نثر کے حوالے سے وہ پہلے ہی سے مجھ سے متعارف رہے ہیں ۔ کہنے لگے ’’وہ مجھے جانتے ہیں اور میرا کلام اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں ‘‘۔اس بات پر حیرانی ہوئی اور خوشی بھی ۔ انہوں نے کتب خانہ دکھایا اور ہمارے لئے چائے کا انتظام بھی کیا ۔ دیگر علمائے کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ اس عظیم درس گاہ کو دیکھ کر دل مسرور ہوگیا ۔ وہاں سے اسلم بھائی کے مکان پر واپسی ہوئی ۔جب میرے وطن کرویش کا ذکر چھڑا تو اُن کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں کہ ان کی چچا زاد بہن کرویش کی پٹیل برادری میں بیاہی گئی ہیں۔ جب انہوں نے نام بتایا تو وہ ہمارے رشتہ داروں میں سے ہی نکلیں ۔ وہیں سے میں نے ان کی چچا زاد بہن کو اپنے فون سے کال کر کے اسلم بھائی کی اہلیہ سے بات کروائی ۔ کئی سارے ایسے لوگوں کا ذکر ہوا جو میرے اور اسلم بھائی کے مشترکہ رشتہ دار تھے ۔

محترم عزیز بلگامی صاحب شدت سے ہم دونوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ دراصل عزیز صاحب دارالسلام میں بحیثیت مہمان مدعو تھے جہاں ان کو جماعت اسلامی ہند پر ایک تعارفی نظم پڑھنی تھی ۔شہر کی بھیڑبھاڑ اوربے تحاشہ ٹرافک سے گزرتے ہوئے آخر کار ہم لوگ عزیز بلگامی صاحب کے گھر پہنچ گئے ۔ جہاں انہوں بڑے ہی پُر جوش انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔ چائے کے بعد ہم لوگ وہاں سے دارالسلام بفٹ ہال کے لئے نکلے اورحسبِ منصوبہ ہم پہلے سیشن کے اِختتام تک پہنچ تھا ۔ ظہر کی نماز کے بعد  طعام کا بھی نظم تھا ۔ٹھیک ڈھائی بجے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا اور دو بج کر پینتالیس منٹ سے  تین بجے تک محترم عزیز بلگامی صاحب نے نوے اشعار پر مشتمل ’’جماعتِ اِسلامی ہند کا منظوم تعارف‘‘کے عنوان سے ایک یادگار نظم سنائی ،جس کا ہر شعر سونے کی سیاہی سے لکھنے کے قابل تھا ۔ سامعین عزیز صاحب کی نظم میں جیسے کھو سے گئے ۔ اور بے انتہا داد و تحسین سے نوازا ۔ گویا انہوں نے جماعت کے نام اور کام کا مکمل نقشہ کھینچ دیا تھا ۔

 دیگر جگہوں پر بھی ہمارے جانے کا منصوبہ بن گیا تھا ، چنانچہ جماعت کے میزبانوں سے ہم نے اجازت لی اور سیدھے’’ سیدھی بات ٹی وی چینل‘‘ کے دفتر پہنچ گئے ۔یہ وہی چینل ہے جس کے چیف ایڈیٹر و مالک مولانا انصار عزیز ندوی صاحب ہیں،جن سےملاقات کی خواہش کے ساتھ ہم یہاں پہنچے تھے۔ اِسی چینل کے تحت عزیز بلگامی صاحب ’’فکر وفن شعر و سخن‘‘ کا ادارہ چلاتے ہیں، جس پر اب تک 114 شعراء و ادباء کے انٹرویوز محترم عزیز بلگامی صاحب نے پیس کیے ہیں ۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ قسط نمبر 83 میں عزیز صاحب نے میری انٹرویو لے کر سارے عالم میں مجھے متعارف کرایا تھا ۔ ۔مولانا انصار عزیز ندوی صاحب چونکہ بھٹکل کے سفرپر تھے تو موصوف کی ملاقات سےمحرومی رہی ۔ اس کے بعد کرناٹک اردو اکادمی اور دوردرش جانے کا بھی ارادہ تھا، مگر وقت کی کمی کی وجہ سے نہ ہو سکا ۔ شام ساڑھے پانچ بجے عزیز صاحب کی رہائش پر ہماری واپسی ہوئی۔ اسلم بھائی ہمیں الوداع کہہ کر روانہ ہوگئے ۔ عصر کی نماز کے بعد گھر آیا اور مغرب کی اذاں تک آرام کرتا رہا ۔ مغرب کی نماز کے بعد کچھ دینی معمولات تھے، جسے پورا کر کے واپس عزیز صاحب کے گھر پہنچا ۔ محترم عزیز صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ سے مختلف اُمورپر گفتگو ہوتی رہی۔دورانِ گفتگوعزیز صاحب نے اپنی چھوٹی بیٹی یعنی صادقہ باجی اور اُن کے دامادجناب سعید رجیب اور ان کے 3 سالہ نواسے اِلحان یحییٰ کا ذکر فرمایا ۔یہ لوگ بھی عزیز بلگامی والے اپارٹمنٹ کی چوتھی منزل پر قیام پذیر ہیں۔عزیز صاحب نے جب کہا کہ صادقہ باجی ہوم اسکولنگ کے ذریعہ اپنے بیٹے کی دینی و دنیاوی تربیت میں مصروف ہیں۔ میں چونک گیا۔ہوم اسکولنگ کی تفصیلات کو سننے کے بعد میرے تجسس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے صادقہ باجی سے اجازت طلب کی کہ میں اُن کے ہوم اسکول کو دیکھنے کا خواہشمند ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ ہوم اسکولنگ کے کانسیپٹ کے بارے میں معلومات حاصل کروں ۔ہم فورتھ فلور پر پہنچے جہاں عزیز بلگامی صاحب کا نواسہ دروازے کے باہر کھڑا ہوا تھا ۔ عزیز صاحب نے دور سے سلام کرتے ہوئے بچے کو پاس بلایا۔ بچے نے انگریزی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی امی سے اجازت نہیں لی ہے، اجازت لے کر آوٴں گا ۔ اندر جا کربچے نے اِجازت لی اور اپنے نانا سے لپٹ گیا ۔ تین سال کا بچہ اور ماں کی اطاعت کا ایسا جذبہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حیرانی کے عالم میں ہم گھر میں داخل ہوئے۔عزیز صاحب نے ہمیں اپنے داماد سعید رجیب صاحب اورصادقہ باجی سے متعارف کرایا ۔ عزیز صاحب کے داماد کیرلا کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بر سرِ روزگار ہیں ۔ جب ہوم اسکولنگ کا ماڈل دیکھنے ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ گویا یہ کمرہ نہیں، بلکہ بیک وقت اسکول، اِن ڈور کھیل کا میدان اورتعلیمی سرگرمیوں کا ایک کمرہ ہے ۔ میں صادقہ باجی کے متعلق بتاتا چلوں ،کہ صادقہ باجی ایم ایس سی میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔ کئی سارے اداروں میں تدریسی تجربہ رکھتی ہیں ۔ پی ایچ ڈی کا ارادہ تھا، انہی ایام میں الله نے ان کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ۔ تو انہوں نے سارے کاموں کو موقوف کیا اور اپنی ساری توجہ بچے کی پرورش اور تربیت پر لگا دی ۔ میں نے باجی سےپوچھا کہ یہ ہوم اسکولنگ کا کانسیپٹ کیا ہے اور آپ نے کس طرح اسے شروع کیا ۔ ہوم اسکولنگ کے فائدوں، ان کی محنت اور اس کے نتائج دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔ بعض باتیں ایسی تھیں جنہیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گیے تھے ۔ میں سوچتا رہا کہ اس انداز سے بھی کیا کوئی ماں فی زمانہ اپنے بچے کی تربیت کر سکتی ہے ۔!! یہ تین سال کا بچہ نظام شمسی کے سیاروں کے نام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے دوری اور دیگر تفصیلات فر فر بتا سکتا ہے۔ ریاضی ،ماحولیات ،زبان دانی، عربی و دینی معلومات کی ایک ایک چیز کے بارے میںاس قدر معلومات رکھتا ہے کہ یوں لگتا تھا ایک بڑا مفکر میرے سامنے چھوٹے سائز میں بیٹھا ہوا علم کے دریا بہا رہا ہے ۔ ادب، اخلاق ،اعلیٰ سطح کا ڈسپلن ۔اللہ اللہ۔ نظرِ بد کا خطرہ نہ ہوتا تومزید تفصیل بتاتے ہوئے مجھے یقیناً خوشی ہوتی۔ تیسری یاچوتھی جماعت کے بچے سے زیادہ معلوماتِ عامہ میں نے اس بچے میں محسوس کی ۔ صادقہ باجی نے اپنے بچے کے لئے اپنی صواب دید کے ذریعے پورے سال کا نصاب تیار کر لیا ہے، جسے اُنہوں نے ہفتہ وار کے حساب سے تقسیم کر رکھا ہے ۔ یہ ساری چیزیں ’’ایکٹیویٹی بیس‘‘ ہیں ۔ جسے بچہ ماں کی گود میں دن بھر ہنستے کھیلتے سیکھ رہا ہے ۔ میرا خیال ہے اسی انداز سے اگر اس کی تربیت ہوتی رہے گی تو یہ بچہ دُنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔’’ہونہار برْوے کے چِکْنے چِکْنے پات‘‘۔ موجودہ دور میں جہاں ماؤں کو اپنے تین چار سال کے بچے بوجھ بنے ہیں اور وہ انہیں اسکول کے حوالے کر کے اپنی محبت و شفقت سے دور کر رہی ہیں ، ان کے لئے صادقہ باجی ایک مثال ہیں ۔ میں صادقہ باجی سے درخواست کر کے آیا ہوں کے اس موضوع پر کوئی کتاب تحریر کریں، جس سے ملک اور قوم کے دیگر لوگوں کو بھی اس سے فائدہ ہو ۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ اس کانسیپٹ کو اور سمجھا جائے ۔چونکہ اگلے دن میرے واپسی کا سفر تھا اور رات بھی کافی ہوگئی تھی ۔چنانچہ صادقہ باجی سے رُخصت لی ۔ رات کا کھانا ہم نے عزیز بلگامی صاحب کے بڑے فرزندمحمد اطہر بھائی کےساتھ کھایا۔ جو اسی بلڈنگ میں رہتے ہیں ۔ لذیذ بریانی کا مزہ لینے کے بعد ہم نے عشاء کی نماز ادا کی اور بہت دیرتی اسی’’ ہوم اسکولنگ‘‘ کے متعلق سوچتے ہوئے نیندکی آغوش میں چلا گیا۔ صبح کے ٹھیک ساڑھے پانچ بجے آنکھ کھلی، اور اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر فجر کی نماز ادا کی ۔ عزیز صاحب کی اہلیہ نے چائے پیش کی ۔ چونکہ ٹرافک کی زیادتی کی وجہ سے گھر سے جلدی نکلنا ضروری تھا ،چنانچہ عزیز صاحب نے ’’کیاب ‘‘بُک کرائی اور دو رسالے کے تحفوں اور دعاؤں کے ساتھ مجھ جیسے طالبِ علم کو چھوڑنے کار تک آگئے ۔ وہاں سے ایشونت پور ریلوے اسٹیشن پہنچا ۔کچھ دیر بعد ناشتے سے فارغ ہوا ۔ ایک لمبے انتظار کے بعد ٹرین ٹھیک 9 بجے اسٹیشن پر نمودار ہوئی ۔ ٹرین میں سوار ہوا ۔ محترم عزیز بلگامی صاحب کے دئے ہوئے رسالوں کا مطالعہ کرتا رہا اور وقفے وقفے سے آس پاس بیٹھے مسافروں کے چہروں کو بھی پڑھتا رہا، جن میں خوشی، غم اور نہ جانے کیسی کیسی عجیب عجیب چیزوں کا حسین امتزاج نظر آتا تھا ۔بہر کیف میری زندگی کا ایک یاد گار سفر بخیر و عافیت مکمل ہوا۔

.....

 

 

Friday, 28 June 2024

ایک بستی، سولہ پشتیں کروشی

 

 

ایک بستی، سولہ پشتیں

کروشی

 


آفتاب عالم ؔ دستگیر پٹیل ( شاہ نوری)

کروشی ، بلگام ،کرناٹک (انڈیا)

 8105493349

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی ؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولاد کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔ مسند احمد 

 تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جس کہ ذریعہ انسان  ماضی کے آئینے میں جھانک کر حال کو سنوار سکتا ہے ۔مجھے بچپن ہی سے تاریخ سے دلچسپی رہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ،کہ گھر کے بڑے بزرگوں سے اپنے آبا و اجداد کے قصے سننا ، ان کے طور طریقے ،ان کا انداز ِ زندگی ، ان کا رہن سہن ،موسم ، کھیت کھلیان ، تہذیب و تمدن، اِن ساری چیزوں  کی وجہ سے  میرا ذہن تاریخ سے دلچسپی لینے لگا ، جب اسکول جانے لگے تو اساتذہ نے مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کا وہ نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جس  کے نقش اب تک دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں اور انہیں ایام میں ہر سال ایک شخص آیا کرتا تھا  جو اب  بھی آتا  ہے جسے کنڑا زبان میں "ہیڑوا" اور اردو میں میراثی کہتے ہیں، جو اپنی  بڑی ڈائیری میں  گھر  کے نئے پیدا شدا بچوں کے ناموں کا اندراج کرکےہمارے خاندان کا شجرہ نسب پڑھ کرسناتا ہے اور  اس وقت کی موجودہ فصل  یا روپئے پیسے لے کر چلا جاتا ہے۔اس کا  پچھلا سفر 2022کو ہوا تھا جس میں اس نے گھر میں نئے پیدا شدہ بچوں کے ناموں کا اندارج کرلیا تھا  اس شخص کی وجہ سے اور بھی  زیادہ ہمارے بزرگوں کی تاریخ جاننے کا شوق پیدا ہوا ، جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو وہاں عالمی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا  اور بیجاپور کے  دو سالہ قیام اور وہاں سے واپسی کے بعد، حال ایسا ہوا کہ ہر پرانی چیز جس  پر قدامت کے آثار ظاہر ہوتے تھے چاہے وہ کسی کتاب  کا ایک بوسیدہ صفحہ ہی نہ کیوں ہو اسے سنبھال کر رکھنے کی عادت پڑھ گئی،جو آج تک قائم ہےجب اس "ہیڑوے" کا پچھلا سفر ہوا تھا اس وقت میں نےاپنے آباواجداد کے نام تحریر کروا لئے تھے جسے میں نے  مندرجہ ذیل تحریر کر دئے ہیں  ۔

ہیڑوے کا تیار کردہ کروشی پٹیل برادری شجرۂ نسب


 

دل میں ایک خواہش ہورہی تھی کے کرویش کی ایک مستند تاریخ تلاش کرکے لکھی جائے  اچانک مجھے پتا چلا کے بلگام کے مصنف ع ۔صمد خانہ پوری صاحب نے  اور مولانا حبیب اللہ عنایت بیگ جامعی غفرلہ نے اپنی کتاب " بلگام۔ تاریخ کے آئینے میں(تحقیق) "  اور ہ تذکرۂ علماء و مشائخ ِ کرناٹک کے عنوان سے  مستند حوالوں کے ساتھ  کتابیں لکھی ہے ، جس میں کروشی کا مفصل ذکر کیا گیا ہے انہوں نے میرے اس کام کو آسان بناد یا ،اب اسی کتاب سے کروشی کی تاریخ آپ قاریئن کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔

 

کروشی (کرویش) 

چکوڑی سے 7 کلو میٹر کے فاصلہ پر موجود یہ گاؤں یہاں پر موجود حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کی ذات اقدس اور گٹی بسونا مندر کی وجہ سے عام و خاص کا مرکوز نظر رہا ہے۔درگاہ حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کے تعلق سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں ہر آسیب زدہ انسان بابا کی کرامت کی وجہ سے تندرست ہو جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر مذہب و زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کا ہمیشہ ایک اژدہام رہا کرتا ہے۔کروشی کو چکوڑی کی ایک بڑی اور اہم بستی ہونے کا فخر حاصل ہے۔اس مقام کو ایک اہم تعلیمی مرکز ہونے کا بھی شرف رہا ہے۔اس گاؤں  کا جغرافیائی رقبہ 2407.6 ہیکٹر ہے۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 8،481 بتائی جاتی ہے۔ایک سروے کے مطابق یہاں پر کم و بیش 1،919 مکانات ہیں۔یہ علاقہ اپنی  زراعت اور کاشتکاری کے لئے مانا جاتا ہے۔

حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ درگاہ



کروشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس سر زمین کو دارالاولیا ء و بیت الفقراء ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس سر زمین پر حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ  ببانگ دہل اعلان کررہا ہے کہ " یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور عہد کرلیتے ہیں ، اس کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اقرار کو نہیں توڑتے ۔"(۱۳ رعد ۳ ع )۔

 

آپ صاحب کشف و کرامات تھے

اُس وقت بیجاپور علوم و فنون کا مرکز مانا جاتا تھا جہاں بڑے برے صاحب کشف و کرامات بزرگان موجود تھے۔ آپ کی ذاتِ اقدس بھی کشف کرامات تھی اور ہمہ وقت اپنی خانقاہ میں ریاضت اور مجاہدات میں مشغول رہنے لگے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں روشنی کا وجود بہت جلد پہچانا جاتا ہے، آپ کی آمد اور قیام کی خبر دور دور تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، بادشاہ وقت یوسف عادل شاہ تک بھی یہ خبر پہنچ گئی جو اس وقت تخت نشین تھا۔ آپ کی خانقاہ میں دور دور سے لوگ پہنچ کر فیوض سے مستفیض ہونے لگے۔ یوسف عادل شاہ بھی آپ کے حلقہ ارادت کا طلب گار ہوا اور ہر ماہ کم سے کم دو ایک بار آپ کی خدمت میں پہنچنے لگا۔

کرویش گاؤں کی فتح 

روایت ہے کہ یوسف عادل شاہ کو آپ سے گہری نسبت تھی ایک دن جب بادشاہ آپ کے پاس تھا ، خبر ملی کے کہ کرویش گاؤں فتح ہوگیا ہے۔بادشاہ نے اس کو حضرت شاہ نور بابا کی دعاؤں کا نتیجہ سمجھ کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ گاؤں محض آپ کی دعاؤں کی وجہ سے فتح ہوا ہے اس لئے یہ گاؤں آپ کو مبارک ہو۔عادل شاہ نے فرمان شاہی جاری کرتے ہوئے کروشی کی جاگیر آپ کے نام معنون انعام کردی اور اس کی پیشگی کا فرمان جاری فرمایا اور پورے عزت و احترام کے ساتھ کرویش روانہ کردیا کہ اس گھٹاٹوپ اندھیر میں اسلام کی شمع روشن ہو سکے

حضرت محمد میراں  رحمۃ اللہ علیہ

کہا جاتا ہے کہ اپنے کئی سال تک کرویش کے پٹیل کی حیثیت سے اس گاؤں کا نظم و نسق سنبھالا لیکن آپ کی شخصیت ایک مجرد سیاح کی تھی جو خانگی امور کی جکڑ بندیوں سے مبرا رہا کرتا ہے،دنیاداری آپ کا شیوا نہ تھا لیکن بادشاہ وقت کی دی گئی انعامی زمین سے دستبردار ہونا بھی ناگوار تھا۔اس لئے آپ نے پوری جاگیر اپنی بہن کے بیٹے حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردی اس طرح آج پانچ سو سال کا عرصہ ہوا کہ اس گاؤں کی پاٹیلگی اور زمینداری حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے اولاد در اولاد میں جاری و ساری ہے ۔اور اس خاندان کے لوگ آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت عوامی خدمات کا کام کر رہےہیں۔ان کی اولاد میں آج حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی )اس کتاب کی تالیف کےوقت حیات ہیں اور انہیں کی سعی مسلسل کی وجہ سے حضرت  راجےنور عرف شاہ نور رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے آگاہی ہوئی ہے  


عادل شاہی فرمان

 


کرویش کی حوالگی اور زمین داری کے تعلق سے سلطان عادل شاہ کی طرف سے جاری کردہ شاہی فرمان آج بھی کرویش کے پٹیل خاندان کی تحویل میں بابا رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مقدس امانت کے طور پر نسل درنسل محفوظ ہے ،یہ وہ فرمان ہے جس پر عادل شاہ کی مہر ثبت ہے۔ اس میں درج ہے کہ حضرت راجی نور شاہ درویش کو بادشاہ کی فرمائش پر کرویش کی زمین عطا کر دی گئی ہے اور اس خاندان کو کلی اختیارات دیئے گئے ہیں کہ سال در سال اس زمین کا محصول حاصل کرتے رہیں۔ اسی خانوادے سے حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی ) ہیں

 

حضرت شاہ نور بابا رحمتہ اللہ علیہ کا آستانہ:

 

کرویش میں حضرت شاہ نور بابا رحمۃ اللہ علیہ کا آستانہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں پر آج بھی ہزاروں عقیدت مند اور ارادت مند لوگوں کا ایک جم غفیر اور ہجوم ہوا کرتا ہے آپ جس مقام پر آسودہ خاک ہیں اس مزار مقدس پر ایک بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر کیا گیا ہے  ہر سال گھڑی پاڑوا کے کچھ عرصہ بعد آپ کا عرس بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلاتفریق مذہب وملت شریک ہوتے ہیں۔

بلگام۔ تاریخ کے آئینے میں(تحقیق) " ص نمبر 150 

 

عارف کامل ذبدۃ الواصلین وقدوۃالسالکین عارف باللہ حضرت راجی نور شاہ عرف شاہ نور بابا قدس سرہ کے مختصرا احوال زندگی

ریاست کرناٹک، ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح علمی و روحانی فیوض کا ماویٰ و معدن رہا ہے ۔ یہاں کی سرزمین پر بے شمار اساطین علم و فن اور اصحاب طریقت و حقیقت ارباب صدق و صفا اور جامع شریعت و طریقت اولیائے کرام پیدا ہوئے اور مختلف ملکوں سے یہاں آ کر بود و باش اختیار فرمائی اور یہاں بسے اور رہے اور یہاں کی سرزمین کو اپنے علم و فن سے مامور اور اپنے صدق و صفا سے منور کرتے رہے ۔ انہی اولیاء کرام میں کرویش کے عارف باللہ حضرت راجی نور شاہ عرف شاہ نور بابا قدس سرہ بھی ہیں ۔ جن کا مبارک تذکرہ کتاب تذکرہ علماء و مشائخِ کرناٹک مصنف حضرت مولانا حبیب اللہ عنایت بیگ حفظ اللہ ساکن اتھنی میں مذکور ہے ۔ یہ کتاب کرناٹک کے علمی و روحانی ادبی و شعری سیاسی و ملی احوال پر ایک نہایت جامع دستاویز کی حیثیت رکھنے والی پونے چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ہے ۔ جس میں صدیوں پہلے کے تقریبا 175 جید علماء و اولیائے کرام کے مبارک تذکروں کے ساتھ 186 شہروں میں مدفون خاصانِ حق وہ مقبولان الہی کے احوال مذکور ہیں جس کے صفحہ نمبر 510 پر حضرت موصوف رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح عمری مستور ہے یہ احوال وہیں سے ماخوذ ہیں ۔ ۔ ۔

کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں :

مولانا حبیب عنایت اللہ بیگ  9945508352








منقبت

حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ

کروشی ضلع بلگام ،کرناٹک

ہمارے حضرتِ راجی کی اونچی شان ہے لوگو

انہی کے نام سے بستی کی اک پہچان ہے لوگو

ہٹا کر کفر کی چادر کو اس بستی کے ذروں سے

عطا کی ثروتِ ایماں بڑا احسان ہے لوگو

محمد میراں تھے ہمشیر زادہ میرے حضرت کے

مرے اجداد کو حاصل بڑا یہ مان ہے لوگو

عقیدت سے محبت سے نظر والے یہ کہتے ہیں

کہ ان کا آستانہ تو ہماری شان ہے لوگو

قیامت تک رہے جاری جہاں میں فیض حضرت کا

یہی میری تمنا ہے یہی ارمان ہے لوگو

کہاں جاؤں میں ان کی قربتوں کو چھوڑ کر عالمؔ

نکلنا جسم سے کیا روح کا آسان ہے لوگو

آفتاب عالمؔ شاہ نوری

  Manqbat Hazrat Raji Noor Sha Urf ShahNoor baba R.A Karoshi...Aftabalam Shahnoori awaz Zaki Qazi

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہُوا
گھر مِرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہُوا

علامہ اقبالؒ 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر ایک محقق بنا کر پیدا کیا ہے، انسان ہر اس چیز کی تحقیق کرنا چاہتا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہے، بعض کے سوالوں کے جوابات  تو آسانی  سے مل جاتے ہیں بعض کے جوابات نہیں مل پاتے ،اسی قسم کے تین بنیادی سوالات ہیں جس کے متعلق ہر انسان سوچتا  رہتا ہے۔۔۔۔ کہ"میں کون ہوں؟ "ہم کون ہیں ؟" ،"ہمارے کون ہیں"؟ میں کون ہوں یا ہم کون ہیں اس کا جواب عام طور پر گھر کے افراد کے واسطے سے مل جاتا ہے، تیسرا  سوال ہمارے کون ہیں اور کہاں ہیں  یعنی خونی رشتے دار ،اس کا جواب کم ہی افراد جانتے ہیں ، اللہ جزائے خیر دے  مرحوم نثار احمد پٹیل  چچا کے خاندان کے سارے افراد کو  جنہوں نے کروشی کی پٹیل برادری کا نسب نامہ سنبھال رکھا تھا ، میں احسان مند ہوں محمد صدیق پٹیل چچا، محبوب پاشا چچا ، توصیف بھائی،شاہد بھائی،اسد الزماں بھائی کا جنہوں نے 13 جنریشن تک کا مکمل نسب نامہ مجھے دیا ،  اگلی دو  تین جنریشن کے ناموں کو میں نے اللہ کا نام لے کر شروع کیا  تو میں حیران رہ  گیا کہ ہماری برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ملک اور بیرون ملک میں کئی جگہ   بسے ہیں جن جن لوگوں سے بات کرتا  ان میں سے کئی افراد تو میرے اتنے قریبی رشتے دار  نکلے جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا   الحمد للہ تقریباً  مسلسل 22 دن کے بعد یہ کام مکمل ہوا جب اسے چارٹ پر لکھنے لئے بیٹھا تو اس نسب نامے کا  ایک کارڈ شیٹ میں سمانا  نا ممکن تھا شروع سے کروشی کی پٹیل برادری   6 گڈّوں میں تقسیم ہے اس لئے میں نے اپنی آسانی کے لئے  ہر گڈّے کے ناموں کو الگ الگ صفحے میں تحریر کر دیا ۔جس سے کسی حد تک یہ کا آسان ہوگیا،

 

کروشی کے پٹیلوں کی نذر

جہاں والوں نے اپنوں سے عداوت کی سیاست کی

کروشی کے پٹیلوں نے یہاں ہر دم محبت کی

ہمارے نوجوانوں کے بڑے پرنور چہرے ہیں

کہوں تعریف میں کیا کیا میں ان کے جاہ و حشمت کی

رگوں میں خون بہتا ہے جواں مردوں جسوروں کا

مثالیں دے رہی دنیا پٹیلوں کی شجاعت کی

خدا کے دین کی تبلیغ کا مقصد لیے دل میں

کروشی کی زمیں تک میرے آبا نے ہی ہجرت کی

اسے خوبی کہو گاؤں کی یا تحفہ کہو رب کا

بڑی ہے دھوم دنیا میں کروشی کی ضیافت کی

ہمیں ہے فخر عالمؔ حضرتِ راجی کی نسبت پر

پٹیلوں پر نوازش ہے انہی کے نیک نسبت کی

آفتاب عالمؔ شاہ نوری

 

کروشی کے پٹیل خاندان کا شجرہ نسب


 

 

(1)مکتوم پٹیل کی اولاد محمد پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(2)سراج  پٹیل کی اولادبالا پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(3)قادرپٹیل کی اولادلاڈو  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(4)امام پٹیل کی اولاد مکتوم پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

 


(5)درویش پٹیل کی اولاد میراں  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(6)باپو عرف بالا  پٹیل کی اولادگھوڑو  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

 

 


ہر گڈّے کے افراد کا مختصر تعارف

 

1۔ محمد پٹیل گڈّا

آبادی کے اعتبار سےیہ  گڈّا اول نمبر پر ہے،اس گڈّے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گڈّے کے افراد کو بہادری شجاعت اور کسی کام کو آگے  بڑ چڑھ کر کرنے کی نعمت سے نوازہ ہے ،  اس گڈّے اکثر و بیشتر افراد دنیاوی اعتبار سے بڑے بڑے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

2۔ بالا پٹیل گڈّا

اس گڈّے کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اس گڈّے میں ایسے افراد پیدا کئے ہیں جو دینوی اور دنیوی  زندگی میں اپنا نام روشن کیا ،

3۔ لاڈو گڈّا

اس گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد کو اللہ تعالیٰ سیاسی سمجھ بوجھ عطا کی ہے۔

6،5،4 : مکتوم پٹیل گڈّا،میراں  پٹیل گڈّا، گھوڑو  پٹیل گڈّا

اس  گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد خاموش طبیعت ہیں اس کے علاوہ دین دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔۔

 

کروشی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے گاؤں اور شہر :

مندرجہ ذیل میں شہروں اور گاؤں کا ذکر ہے جہاں سالوں سے ان کے درمیان

رشتہ داریاں رہی ہیں،

 

شیڑشال،بستواڑ،الاس، اورواڑ، میرج،وڈی،  بلگام،کڑےگاؤں،فقیرباڑا،رکڑی، شیرولی، کتیانی، ہیرےکوڑی،الہ اباد،ہلدی،بیلےواڑی،جنیاڑ،ارجن باڑہ، تمنک باڑا،کاساری،باروا،روزے باغنی،دیندےواڑی،ہکیری،مسرگوپا،مغل بستواڑ،گوڑاڑ،اکتن ناڑ،کندرگی،پاچاپور،انکلا،ماونور،گوڑچنملکی،چمپا ہسور،بساپور، کڑچی،

اس کے علاوہ پچاسوں ایسے گاؤں شہر ہیں جہاں پر کروشی کی پٹیل برادی روزگار کے سلسے میں برسوں سے مقیم ہے جن میں کولھاپور، ستارا،پونا،بمبئی،بیجاپور،گلبرگہ،بنگلور، مہاراشڑرا  کرناٹک کے کئی اضلاع اور عرب ممالک، امریکہ (مچیگن) لندن، ملیشیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

 

نسب  نامہ بھیجنے کا مقصد:  اس نسب نامے کو ترتیب دے کر بھیجنے کا یہی مقصد ہے کہ آپسی تعلقات مضبوط ہوں جو گاؤں سے دور ہیں وہ کم از کم سال میں ایک دو بار آکر ملاقات کریں   اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل جھل کر رہیں۔۔۔

 

عادل شاہی دور کا پٹیل برادری قبرستان








اس قبرستان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تقریبا 500 سال سے بھی زائد مدت کی پانچ پرانی قبریں ہیں جو دراصل پٹیل برادری کے اجداد کہ ہیں،اس قبرستان کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،جس میں اپنے اپنے گڈے کے اعتبار سے تدفین ہوتی ہے، ایک صاحبِ کشف بزرگ جب اس پرانے قبرستان میں آ کر تھوڑی دیر مراقبہ کرنے کے بعد فرمایا کہ بھائی یہاں تو بڑی پاک روحیں دفن ہیں۔

 

ڈیجیٹل نسب نامہ


چونکہ موجودہ زمانہ ٹیکنولوجی کا زمانہ ہے ، اور زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے، اس خاکسار آفتاب عالم شاہ نوری نے اپنے بہنوی وسیم سید عظیم پاشا  انعامدار (باشیبان انعامدار بلگام) جو کے ایک انجئیر ہیں ان کی مدد سے یہ نسب نامہ ڈیجیٹل کروا لیا ۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کروشی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کا نام لکھا جائے تو اس  فردکی اوپر کے 16 اجداد کے نام آجائیں گے۔اس کا لنک بھی شئیر کر رہا ہوں۔۔

Sunday, 16 June 2024

مشترکہ غزلیات کی جانب ایک انقلابی قدم ( عزیزؔ بلگامی)

مشترکہ غزلیات کی جانب ایک انقلابی قدم

 


اللہ نے انسان کی طبیعت کو فطرتاً تازگی پسند بنایا ہے،اور تبدیلی انسانی زندگی کا خاصہ رہا ہے، چاہے وہ روز مرہ کے معاملات ہوں یا ادب سے جڑا ہوا  کوئی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔۔ جہاں تک ادب میں نظم کی بات کی جائے تو وقتا فوقتا اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔۔ بعض لوگ ان تبدیلیوں کو پسند کرتے ہوئے اس میں اپنا کلام بھی کہتے رہے ہیں اور بعض لوگ ایسے بھی رہے ہیں جنہوں نے فقط تنقید بلکہ تنقیص کو اپنا شیوہ بنایا اور نتیجتاً ادب کو اس قبیل کے لوگوں  نے کچھ نہیں دیا۔۔

اس صورتحال کے درمیان عالمِ اردو ادب و سخنوری کی نامور شخصیت محترم جناب عزیز بلگامی صاحب نے ایک منفرد قدم اٹھایا جو "مشترکہ غزل" کی نئی صنف کی تخلیق سے تعلق رکھتی ہے۔۔یعنی کسی شاعر کی غزل کے مصرع اولیٰ یا مصرع ثانی پر اپنے مصرع کی گرہ لگا کر غزل کو مکمل کرنا۔۔ محترم عزیز بلگامی صاحب نے اس صنف کا آغاز 2010ء میں کیا اور اس صنفِ نٙو کے موجد بن گئے۔۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہنسور یوپی حئنساوار ءُ کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر آفتاب عرشی صاحب نے  جناب عزیز بلگامی کی مشترکہ غزل کے حوالے سے ایک مضمون اپنے تحقیقی مقالے میں شامل کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور یوں انہوں نے عزیز بلگامی کی اس صنف سخن "مشترکہ غزل" کی ایجاد پر مہرِ تصدیق ثبت کردی اور "فکروفن شعر سخن" کے ادبی چینل پر اپنی انٹرویو میں اس تصدیق کا اعادہ بھی کیا۔۔ یہ انٹرویو یو ٹیوب پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔۔

بہر کیف، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا دیگر شعراء بھی اس مشترکہ غزل میں طبع آزمائی کرنے لگے اور اس سلسلے کو پسند کرنے لگے، جن میں جدہ کے بزرگ شاعر  محترم وحید القادری عارف بھی شامل ہیں اور حال ہی میں "مشترکہ غزل"پر ایک مضمون بھی منظرِ عام پر آیا ہے۔۔ اس دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ایک نئے کام کا آغاز کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ محترم جناب عزیز بلگامی صاحب کے مجموعہ کلام "دل کے دامن پر" کی اُن کی غزلیات پر مشترکہ غزل کہنے کے لئے دنیا بھر کے شعراء کو دعوتِ سخن دی جا رہی ہے تاکہ وہ ان غزلیات کے مصرعوں پر طبع آزمائی کریں اور اپنی مشترکہ غزل پیش کریں۔۔اس کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی کہ ایک واٹس ایپ کا نیا گروپ بنایا جائے گا، جس کا لنک آپ احباب کو دیا جائے گا۔۔ روزانہ ایک غزل پوسٹ کی جائے گی اور 24 گھنٹے کا وقت دیا جائے گا ان 24 گھنٹوں میں آپ اپنی "مشترکہ غزل" مکمل کر کے اسی گروپ میں پوسٹ کردیں۔۔ کسی ایک کی غزل کو صاحب کتاب اپنے نئے مجموعۂ کلام کے لیے منتخب کرلیں گے ۔ ۔ یہ سلسلہ آخری غزل تک چلتا رہے گا اور اس طرح مشترکہ غزلیات پر مشتمل یہ اہم اور تاریخی کتاب مکمل ہو جائے گی ۔ ۔ محترم عزیز بلگامی صاحب کے مجمموعہ کلام "دل کے دامن پر " میں ایک حمد، ایک نعت کے علاوہ 68 غزلیات ہیں۔۔یعنی کل 70 کی تعداد بنتی ہے۔۔ اس طرح یہ کام دو ڈھائی مہینے کے عرصے میں مکمل ہو جائے گا۔۔اور ان شاءاللہ بہت جلد اسے کتابی شکل دی جائے گی۔۔ میری آپ تمام ہی معزز شعراء سے گزارش ہے کہ "مشترکہ غزل" والے گروپ میں شامل ہو کر خود کو مشترکہ غزل کے بنیاد گزاروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرالیں۔۔ یاد رہے کہ تحریر کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے، اور آنے والی نسلیں ان "مشترکہ غزلیات" کو پڑھ کر بھرپور استفادہ کرسکتی ہیں اور ان شاء اللہ محترم عزیز بلگامی جیسے شاعر کے نام کے ساتھ آپ کا نام بھی ادب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے گا۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔

 

خاکسار

آفتاب عالمؔ شاہ نوری

 کرناٹک انڈیا


کرناٹک اردو اکادمی ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔

کرناٹک اردو اکادمی  ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری بلگام کرناٹک 8105493349 "ہر اردو اکادمی اردو کا ای...