"مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف"
اذان ایک سچی کہانی
آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل (شاہ نوری)
کروشی ،کرناٹک ، انڈیا
8105493349
سن 2010 کی بات ہے ۔ ۔ ۔ میں بعد نمازِ
عصر ٹہلنے کہیں جا رہا تھا ۔ ۔ اچانک مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔ ۔ آفتاب بھائی
۔ ۔ ۔ آفتاب بھائی ۔ ۔ ۔ !! میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرا ایک قریبی رشتہ دار واصف
تھا ۔ ۔میں نے کہا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا ہمارے ہسٹری کے لیکچرار ہیں جن کا نام مشتاق
صاحب ہے ۔ ۔ ہیں تو مسلمان مگر برائے نام ۔ ۔ دین سے بیزار اور دین سے بہت دور ہیں ۔ ۔ انہوں
نے ایک سوال پوچھا ہے مجھے اس کا جواب چاہیے ۔ ۔ میں نے پوچھا سوال کیا ہے ۔ ۔ ؟ کہنے
لگا جب بھی مجھے ملتے ہیں تو یہی سوال بار بار پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں گھڑی
گھنٹہ سب کچھ موجود ہے پھر بھی مسلمان لاؤڈ اسپیکر پر چلا کر کیوں اذان دیتے ہیں ۔
۔؟ جب کہ ہر ایک مسلمان کو فجر سے لے کر عشاء تک کے نمازوں کے اوقات کا علم ہے ۔ ۔
۔ !!!! میں نے واصف سے کہا ۔ ۔ بھائی واصف
اس وقت میرے ذہن میں تمہارے اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں البتہ میں سوچ کر یا کسی
سے پوچھ کر ان شاء اللہ بتاؤں گا ۔ ۔ اس واقعے کو گزرے کئی ہفتے ہو گئے، مگر میرے ذہن میں اس کے تعلق سے کوئی مناسب
جواب نہیں تھا ۔ ۔ میں کئی دنوں اسی سوچ اور فکر میں تھا ایک دن اللہ نے مجھ پر رحم
فرمایا اور ایک جواب میرے ذہن میں ڈال دیا ۔ ۔ مغرب کی نماز کے بعد واصف مجھے مسجد
کے باہر ہی مل گیا ، میں نے کہا بھائی واصف تمہارے سوال کا جواب مل گیا وہ بہت خوش
ہوا اور کہنے لگا جلدی بتاؤ ۔ ۔ میں نے کہا اگلی بار جب تمہارے ہسٹری کے لیکچرار مشتاق
صاحب تم سے اذان سے متعلق سوال کریں تو تم ان کو جواب دینے سے پہلے ان سے سوال کرنا
۔ ۔ کہنے لگا کیسا سوال؟ ان سے ادب سے پوچھنا کہ سر جی ہماری ایک کلاس کتنے گھنٹے کی
ہوتی ہے؟ وہ جواب میں کہیں گے 50 منٹ یا ایک گھنٹے کی ۔ ۔ ۔ پھر ان سے اگلا سوال پوچھنا
کہ سر یہ زمانہ تو گھڑی گھنٹے کا زمانہ ہے پھر پریڈ کے مکمل ہونے پر چپراسی bell گھنٹی کیوں بجاتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ جبکہ اساتذہ اور طلبہ
کو اپنے اپنے پریڈ کے اوقات کا مکمل علم ہے ۔ ۔ ! تم دیکھو گے کہ لیکچرار مشتاق صاحب
خاموش ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ پھر تم جواب دینا ۔ ۔ اور یوں کہنا کہ جب آپ پانی پت کی پہلی جنگ
کا سبق ہمیں پڑھاتے ہیں ۔ ۔تو ہم پر اس سبق کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ استاد اور
طلبہ،خود کو پانی پت کے میدان جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں
کی آوازیں،تلواروں کی جھنجھناہٹ،نیزوں کی بوچھاریں نظر آنے لگتی ہیں ۔ ۔ استاد اور
طلبہ خود کو 2010 کی بجائے 1526 کے میدانِ
جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ 1526 سے 2010 میں واپس لانے کے لیے چپراسی گھنٹی بجا
کر کہتا ہے عزیز استاد و طلبہ پانی پت تمہاری اصل دنیا نہیں ہے واپس لوٹ آؤ ۔ ۔ ۔ یہ
یعنی2010 تمہاری اصل دنیا ہے اس کے بعد تم دوسرا مضمون پڑھو گے جس میں جانوروں
اور پودوں کے متعلق پڑھایا جائے گا ۔ ۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان بھی اس دنیا کے پیچھے
بھاگ بھاگ کر اس دنیا کو ہمیشہ رہنے کی جگہ سمجھنے لگتا ہے ۔ ۔ اس غفلت اور گمان سے
مسلمان کو باہر نکالنے کے لیے موذن اذان دیتا ہے اور یہ کہتا ہے اے مسلمانو ۔ ۔ ! یہ
تمہاری اصل دنیا نہیں ہے اصل جگہ تو آخرت ہے چلو مسجد کی طرف آ جاؤ اور اپنے رب کو
راضی کرو ۔ ۔ اس جواب کے سننے کے بعد واصف خوشی سے جھومنے لگا ۔ ۔ ۔ میری بھی خوشی
کی انتہا نہ تھی ۔ ۔ میں نے دل میں سوچا "ہسٹری کے لیکچرار مشتاق سر اس جواب کو
سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے اللہ نے مجھے اس جواب کو خوب سمجھا دیا ۔ ۔ ۔ ۔"
No comments:
Post a Comment