Wednesday, 28 May 2025

موبائل سے کیسے جان چھڑائی ؟ 






آفتاب عالم ؔ شاہ نوری 
بلگام کرناٹک
8105493349


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کئی طرح کی مخلوقات کو وجود بخشا ہے ۔ ان تمام مخلوقات میں انسان ہی وہ سب سے اعلیٰ اور برتر مخلوق ہے جسے اللہ نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا ہے ۔ اور اس کی عظمت اور وقار کو بلند کیا ہے ۔ اگر انسان کا موازنہ دیگر مخلوقات سے کیا جائے تو دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان میں سوچنے سمجھنے کی قوت زیادہ ہے اور انسانوں میں روز بروز ترقی کرنے کی خواہش اور آرزو بھی زیادہ ہے ۔ جانوروں کو اگر دیکھا جائے تو اپنے محدود سی دنیا میں رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک بندر کو لیجئے کہ وہ جنگل میں ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر کودنا اور اپنا پیٹ بھرنا یہی زندگی سمجھتا ہے ۔ مگر انسان اپنی فکر اور شعور کے ذریعے کائنات کی تسخیر میں مسلسل لگا ہوا ہے ۔ اور نئی نئی چیزوں کی ایجاد میں زندگی صرف کر رہا ہے کسی نے سچ کہا ہے "ضرورت ایجاد کی ماں ہے" ۔ دور جدید میں اسی ایجاد کا ایک حصہ اسمارٹ فون یا موبائل فون بھی ہے جس نے موجودہ دور کے انسانوں کو ہر طرح سے اپنے جال میں جکڑ لیا ہے ۔ کیا بچہ کیا بوڑھا کیا جوان ہر ایک اس کا شکار ہوگیا ہے ۔ جس طرح انسانی اعضاء ناک، منہ، ہاتھ، پیر ہیں اب موبائل بھی ہمارے جسم کا حصہ بنتا جا رہا ہے انسان اسے خود سے جدا کرنا ہی نہیں چاہتا ۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے کر بھی لے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے جسم سے جان نکل گئی ہے ۔ 
اسمارٹ فون کے ہماری زندگیوں پر برے اثرات 
وقت کی بربادی : یوں تو اللہ تعالی نے انسانوں کو ہزاروں لاکھوں کروڑوں نعمتوں میں رکھا ہے مگر وقت ان میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت ہے جس کے متعلق کسی نے خوب کہا ہے کہ وقت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے ۔ ۔ مگر افسوس صد افسوس آج کا انسان صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک مسلسل موبائل میں مصروف رہتا ہے ۔ آج کا انسان صبح اٹھتے ہی سب سے پہلا کام موبائل اٹھا کر دیر تک واٹس ایپ کے گروپس اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پیغامات دیکھنے میں صرف کرتا ہے ۔ ۔ سب کو باری باری لائک شیئر اور کمنٹس کے ذریعے سے اپنی موجودگی کا احساس گروپ کے ممبران کو دلاتا ہے ۔ پھر اس کے بعد یوٹیوب انسٹاگرام اور فیس بک پر دیر تک ویڈیوز دیکھتا رہتا ہے ۔ پھر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد بیت الخلا کا رخ کرتا ہے عجیب بات ہے کہ وہاں بھی یہ انسان موبائل کے ساتھ ہی داخل ہوتا ہے اور موبائل پر دو تین لیول گیم game کے مکمل کر کے واپس باہر آتا ہے ۔ نہا دھو کر ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد سے لے کر کوئی کام اگلا ہاتھ میں آنے تک اس کے ہاتھ میں صرف اور صرف موبائل ہی رہتا ہے ۔ یہ سلسلہ رات کے ایک دو بجے تک چلتا رہتا ہے ہلکی سی بیپ کے بجتے ہی جاگ اٹھتا ہے ۔ ۔ 
گندی ویب سائٹ سے نوجوانوں میں بے حیائی : 
موجودہ دنیا بے حیائی کے اس دور سے گزر رہی ہے کہ جوانوں کی آنکھوں سے شرم و حیا رخصت ہو چکی ہے ۔ اس کی ایک وجہ رات کا ایک لمبا حصہ موبائل پر گندی ویڈیوز اور گندی تصویریں دیکھ دیکھ کر گزارنا ہے ۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ لڑکی دہلیز کے باہر نکل جائے تو کہا جاتا تھا کہ یہ لڑکی بگڑ گئی ہے ۔ لیکن آج لڑکی ماں کے بگل میں لیٹ کر ایسے ایسے بے حیائی کے کام کر رہی ہے جس کی خبر ماں تو ماں گھر کے کسی فرد کو بھی نہیں ہوتی ۔ 
شہرت کی بھوک : 
راجے مہاراجوں اور نوابوں کے دور میں بڑے بڑے بگڑے ہوئے امیر زادے غریب کی بیٹی کو نچوا کر مجرہ دیکھا کرتے تھے اور ان پر پیسے اڑایا کرتے تھے ۔ ۔ آج انہی امیر زادوں کی بیٹیاں اور بہوئیں نیم برہنہ ہو کر انسٹاگرام فیس بک پر ریلس ویڈیوز بنا بنا کر دنیا کے سامنے ناچ رہی ہیں اور اپنے اجداد کے قرضوں کو اس طرح چکا رہی ہے ۔ اچھے اچھے گھرانوں کی بہو بیٹیاں صرف اور صرف کچھ لائکس اور کمنٹس کے لیے اس طرح کے کام کر رہی ہیں جس سے انسانیت کی روح کانپ جائے ۔ 
گھریلو زندگی کا متاثر ہونا : 
موبائل کے کثرت استعمال کی وجہ سے گھریلو زندگی متاثر ہو رہی ہے ۔ گھر کے ہال میں سارے کے سارے گھر کے افراد بیٹھے ہوئے ہیں مگر ہر ایک کا اپنا الگ الگ موبائل ہے جو اس میں مگن اور مصروف ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ موبائل نے نزدیک والوں کو دور اور دور والوں کو نزدیک کر دیا ہے ۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ گھر میں دس لوگوں کا روٹی کمانا بڑی بات نہیں ہے بلکہ بڑی بات تو یہ ہے کہ ان دس لوگوں کا ایک دسترخوان پر مل بیٹھ کر پیار محبت سے روٹی کھانا اہم ہے ۔ آج کل کے گھروں کا ماحول دیکھا جائے تو شوہر بیوی سے بیوی شوہر سے بیوی بچوں سے بچہ ماؤں سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ یہاں انسان ہر وقت موبائل کو دل سمجھ کر گردن جھکائے اسے میں مراقب ہے ۔ 
چھوٹے بچوں پر موبائل کے برے اثرات : 
آج ایسا کوئی گھر نہیں بچا جہاں ایک سال سے اوپر کے بچے موبائل کے عادی نہ بنے ہوں ۔ ایک دور ہوا کرتا تھا کہ گھروں سے شام کے وقت دادی ماں کی کہانیوں اور لوریوں کی صدا گونجتی تھی ۔ مگر آج انہی مکانوں سے موبائل پر لکڑی کی کاٹی ۔ ۔ ایک موٹا ہاتھی ۔ ۔ بندر ماما ۔ ۔ اور اسی طرح کے بیسیوں گیت بج رہے ہیں اور بچے اس میں گھنٹوں گھنٹوں مصروف ہیں ۔ آج کے دور میں ایسا کوئی گھر نہیں ہوگا جس گھر کے بچے بغیر موبائل دیکھے کھانا کھاتے ہوں ۔ ادھر ویڈیو جاری ہے اور ادھر ماں لقمے پر لقمہ بچے کے منہ میں ٹھونس رہی ہے حالانکہ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کھانا، کھانا یعنی موبائل کے دیکھتے ہوئے کھانا، کھانا مائنڈلس ایٹنگ Mindless eating کہلاتا ہے ۔ بچے کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ میں کیا کھا رہا ہوں کھانے کا ذائقہ کیسا ہے میں کتنا کھا چکا ہوں مجھے اور کتنا کھانا ہے بس مسلسل وہ لقمے کو نگلتا رہتا ہے اور اسکرین کو دیکھتا رہتا ہے ۔ اس طرح چھوٹے بچوں کے موبائل کے کثرت استعمال سے طرح طرح کی بیماریاں بچوں کو لاحق ہو رہی ہیں ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جو بچہ ریلزس اور شارٹس ویڈیوز دیکھنے کا عادی ہوگا وہ بڑا ہو کر کسی کام کو استقامت کے ساتھ نہیں کر سکے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ریلز اور شارٹس ویڈیوز میں چند سیکنڈز کے بعد دوسرا ویڈیو نظر آتا ہے جس کی وجہ سے بچے کا ذہن اسٹیبل نہیں رہتا ۔ 
موبائل سے جان چھڑانے کے چند طریقے : 
موبائل سے جان چھڑانے کے لیے ہمیں کسی واعظ و نصیحت یا موٹیویشنل اسپیکر کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ انسان کا ذہن ایسا موٹیویشنل اسپیکر ہے کہ جو کسی بھی چیز کے کرنے کا عزم کر لے تو کر گزرتا ہے ۔
موبائل سے جان چھڑانے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ انسان کو اس بات کا احساس ہو کہ موبائل کے کثرت استعمال سے میرے وقت میں اور میری دیگر چیزوں میں نقصان ہو رہا ہے اسے مجھے چھوڑنا ہے اگر یہ عزم کر لے گا تو اس کے لیے آگے کی راہیں ہموار ہوں گی ۔ 
سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح کرے ۔ ۔ ؟
موجودہ دور حاضر میں انسان کا وقت جتنا سوشل میڈیا نے ضائع کیا ہے شاید ہی کسی نے اتنا ضائع کیا ہو ۔ سوشل میڈیا سے دور رہنے کا آسان اور سہل طریقہ یہ ہے کہ شروع شروع میں دو گھنٹے میں ایک مرتبہ صرف اور صرف دس منٹ کے لیے انٹرنیٹ آن کریں واٹس ایپ پر ہزاروں میسجز پیغامات آئیں گے ان میں سے جتنے پیغامات آپ کے لیے ضروری ہیں وہ دیکھ لیں اور ان کا رپلائی کر لیں اور اگلے دو گھنٹے تک کے لیے انٹرنیٹ کو دوبارہ آف کر دیں ۔ اگلے دو گھنٹے کے بعد دوبارہ انٹرنیٹ آن کریں پھر ضروری پیغامات کا ریپلائی کریں اور پھر سے بند کر دیں اس طرح دن بھر یہی سلسلہ چلتا رہے ۔ جیسے جیسے آپ سوشل میڈیا سے دور ہوتے جائیں گے ویسے ویسے دو گھنٹے سے ڈھائی، ڈھائی سے تین، تین سے چار گھنٹے کے مقدار کرتے جائیں ۔ جب آپ دو دو گھنٹوں کے بعد انٹرنیٹ کو آن کر کے دیکھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان میں سے آپ کے کام کے صرف اور صرف دو یا چار پیغامات تھے ورنہ عام طور پر فارورڈ میسجز تھے جس سے آپ کا کوئی بھی لینا دینا نہیں تھا ۔ واٹس ایپ نے نئے فیوچرز اپ ڈیٹ کئے ہیں جس میں ارچیو archive میں گروپس کو ڈال سکتے ہیں جہاں آپ کو نوٹیفکیشن کی تک خبر نہیں ہوگی ۔ والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ جب بھی وہ گھر میں داخل ہوں تو اپنا موبائل فون انٹرنیٹ کو آف کر کے کسی اونچی جگہ پر رکھ دیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی ہدایت دیں کہ بغیر موبائل کو لاک کیے انٹرنیٹ کو آف کر کے رکھ دیں ۔ رات 10 بجے کے بعد انٹرنیٹ بند ہو اور سارے نوجوان بچے اور بچیوں کے موبائل والدین کے کمرے میں ہوں ۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے نوجوان بچے اور بچیوں کے کمروں کی کنڈیاں نکلوا دیں تاکہ وہ جس وقت بھی چاہیں اپنے بچوں کے کمروں میں داخل ہو کر دیکھ سکیں کہ بچے کیا کر رہے ہیں ۔ کسی نے کیا ہی سچ کہا ہے کہ اپنے بچوں کو سونے کے لقمے کھلائیں مگر ان پر نگرانی شیر سی کریں ۔ جو دن کا اکثر و بیشتر حصہ انٹرنیٹ کے ساتھ گزرا کرتا تھا والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے ان کی عمر کے حساب سے کتابیں مہیا کرائیں ۔ چھوٹے بچوں کے لیے یہ چند کتابیں بڑی مفید ہیں جس کے پڑھنے سے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا ۔ جیسے کہ پنچ تنتر کی کہانیاں، کلیلا و دمنہ، بچوں کی قصص الانبیاء، مولانا اسماعیل میرٹھی کی نظمیں، بچوں کے اقبال وغیرہ ایسی کتابیں ہیں جس کے مطالعہ سے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں بے انتہا اضافہ ہوگا ۔ بچوں میں مطالعے کے جذبے کو بڑھانے کے لیے والدین کو چاہیے کہ خود بھی بچوں کے سامنے کتابوں کا مطالعہ کریں آہستہ آہستہ بچے بھی مطالعہ کے شوقین بن جائیں گے ۔ اگر چند مہینوں تک ان چیزوں پر عمل کیا جائے تو یقین جانیے کہ ہم سب کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوگا ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ ۔ 

1 comment:

  1. Bahout khub Mashallah,jab hum mobile se dur rahenge tabhi hum Khushi iss duniya mein rehenge

    ReplyDelete

آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن سراج زیبائی  شیموگہ کرناٹک  8296694020 کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا  ہے ا...