Thursday, 3 January 2019

یومِ مزدور یا یومِ مجبور۔۔۔۔؟




یومِ مزدور یا یومِ مجبور۔۔۔۔؟
                                                                

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349



الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين
  
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

عالمِ انسانیت پر اللہ تعالیٰ کی یوں تو بے شمار نعمتیں ہیں ان میں امیروں اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے لئے مزدور بھی ایک بڑی نعمت ہیں اگر مزدور نہ ہوتے تو یا تو اس کام کو خود امیروں کو کرنا پڑتا یا ایسی مشینوں کا سہارا لینا پڑتا جو ان کے اس کام کو بنا سکے۔مزدور کے دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک جسمانی مزدور دوسرا ذہنی مزدور۔۔جسمانی مزدور وہ ہے جو جسمانی محنت کرتا ہے،جیسے کھیتی ،معمار،فیکٹری،مل میں کام
کرنے والا،سڑکیں بنانے والا ،وغیرہ وغیر آسان جملے میں جسمانی مزدور کا مفہوم یوں بھی ہو سکتا ہے کہ " روز کنواں کھود کر پانی پینے والا"

اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

دوسرا ہے ذہنی مزدور جو اپنے ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے اپنا پیٹ پالتا ہے اس طرح کا کام کلرک،کمپیوٹر آپریٹر،غیر سرکاری اداروں کے اساتذہ،وغیرہ وغیرہ شعبے سے جڑے افراد کرتے ہیں ،آسان جملے میں ذہنی مزدور کا مفہوم یوں بھی ہوسکتا ہے کہ "اپنے وقت سے زیادہ کام اور مہینے میں ایک مرتبہ ، اور بعض جگہ کئی کئی مہینوں کےانتظار کے بعد ہاتھ لگنے والی مٹھی بھر تنخواہ حاصل کرنے والاہی ذہنی مزدور ہے"

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے ہاتھ میں نوالا رکھ دیا جائے

میں سمجھتا ہوں جتنی زیادتی آج کے دور میں ان مزدور طبقہ افراد کے ساتھ ہورہی ہے شاید ہی کسی اور شعبے کے افراد کے ساتھ ہوتی ہوگی، امیر لوگ آفسس کے مالک ان مزدورں کو بوتل سے نکلا ہوا جِن سمجھتے ہیں ایک کام ہوا نہیں دوسرا کا م تیار رکھتے ہیں شاید یہ سوچتے ہونگے ان کو آرام نہیں دینا ہے،اور طرح طرح کے ظلم و ستم کہ پہاڑ ان پر توڑتے ہیں اور ہر خطا کو یاد رکھ کے ان کو وقتاً فوقتاً یاد دلاتے رہتے ہیں ، ان کا اصول بنایا ہوتا ہے آنا جلدی اور جایں دیر سے،اور کسی دن تاخیر ہوجائے تو اس مزدور کی تنخواہ تک کاٹ لی جاتی ہے، جب کے اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم دنیا سے جاتے ہوئے بھی یہی فرما کر گئے کے اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔
بعض افراد تو دل کے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ مہینوں کی تنخواہ دینے میں اتنی تاخیر کر دیتے ہیں کہ بے چارے مزدور مانگ مانگ کر تھک جاتے ہیں ان امیروں اور مالکوں کو ہرگز بھی شرم نہیں آتی ایسے افراد کو اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه " . رواه ابن ماجه
اور حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیدو یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فورًا دیدو اس میں تاخیر نہ کرو (ابن ماجہ)
اگر ان سے تنخواہ بڑھانے کی مانگ کی جائے تو ان کا جواب بھی بڑا عجیب ہوتا ہے کہتے ہیں صاحب قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ آپ میں نہیں ہے ہر کا م آپ پیسوں کے لئے کرتے ہیں ،جب کہ آج کی اس مہنگائی کے دور میں اتنی کم تنخواہ پر ایک مزدور کا گذر بسر ہونا کافی دشور ہے اس مہنگائی اور ملنے والی نتخواہ کو دیکھ کر مجھے جوش ؔ ملیح آبادی صاحب کا شعر یاد آتا ہے۔

صرف ایک پتلون سلوانا قیامت ہوگیا

وہ سلائی لی میاں درزی نے ننگا کر دیا

آپ کو معلوم بھی ہے چل رہی ہے کیا ہوا؟

صرف ایک ٹائی کی قیمت گھونٹ دیتی ہے گلا

حیف، ملک و قوم کی خدمت گذاری کے لئے

رہ گئے ہیں ایک ہمیں ایمان داری کے لئے

جو لوگ خود کو دیندار بھی سمجھتے ہیں اور خود کو سماجی کارکن کہتے ہیں اور بڑے حاجی پاجی بنے پھرتے ہیں اور جب اس قسم کے لوگوں کےیہاں کام کرنے کے بعد تنخواہ کی مانگ کی جاتی ہے تو دینے سے صاف انکار کر دیتے ہیں اور ایسے کئ ذہنی اور جسمانی مزدور ہیں جن کی تنخواہ ان جیسے سفید پوش سیاہ کاروں نے مار رکھی ہے،اور اس قسم کے افراد زیادہ تر نجی اسکول چلانے والے چیرمین ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دو چار ہزار تنخواہ دے کر ان یہاں پڑھنے والے بچے سائنس دان بن کر نکلیں یہ تو ایسی مثال ہوئی کے پانچ ہزار میں وہ ہیرا خریدنا چاہتا ہو بھائی یہ کیسے ممکن ہے جی ہاں بالکل نا ممکن ہے اتنے کم پیسوں میں یہ چیز نہیں مل سکتی، اتنی کم تنخواہ دے کر آپ استاد سے یہ کام نہیں کروا سکتے ،کم تنخواہ اور کئی کئی مہینوں کے بعد ملنے کا رواج آج کل کا نہیں بلکہ چچا غالبؔ کے زمانے سے شروع ہے اسی لئے انہوں وقت کے بادشاہ کو اپنی تنخواہ کے متعلق یوں لکھا

مجھ کو دیکھو تو ہوں بقید حیات

اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار

بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض

اور رہتی ہے سود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا

ہو گیا ہے شریک ساہوکار

آج مجھ سا نہیں زمانے میں

شاعر نغز گوے خوش گفتار

رزم کی داستان گر سنیے

ہے زباں میری تیغ جوہر دار

بزم کا التزام گر کیجیے

ہے قلم میری ابر گوہر بار

ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد

قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار

آپ کا بندہ اور پھروں ننگا

آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

میری تنخواہ کیجیے ماہ بماہ

تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار

ختم کرتا ہوں اب دعا پہ کلام

شاعری سے نہیں مجھے سروکار

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

اب دو آیتیں قرآن عظیم الشان سے پیش کر کے اپنی بات کو مکمل کرتا ہوں۔
فَانْطَلَقَاۚ حَتّــٰٓى اِذَآ اَتَيَآ اَهْلَ قَرْيَةِ ِۨ اسْتَطْعَمَآ اَهْلَـهَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِيْـهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٝ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًا( سورہ کہف) (77)
پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزرے تو ان سے کھانا مانگا انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کردیا پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنے ہی والی تھی تب اسے سیدھا کر دیا، کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کوئی اجرت ہی لے لیتے۔
قَالُوْا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰٓى اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَـهُـمْ سَدًّا( سورہ کہف) (94)
انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بے شک یاجوج ماجوج اس ملک میں فساد کرنے والے ہیں پھر کیا ہم آپ کے لیے کچھ محصول مقرر کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں۔
مندرجہ بالا دو آیتیں سمجھدار کے لئے اشارہ ہیں جو قوم و ملت ، کا نام لے کر مزدور سے کام لیتے ہیں اور اجرت دینے میں کمی کرتے ہیں یا سرے سے تنخواہ ہی نہیں دیتے۔۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں مزدوروں کا حق مارنے سے ہماری حفاظت فرمائے

میری یہ دعائیں بھی تاثیر کے قابل ہیں
ہاتھوں میں میرے اب بھی محنت کا نوالا ہے
آفتاب عالم شاہنوری




No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...