Saturday, 12 January 2019







دسویں کے امتحانی نتائج اور اس کا کڑوا سچ


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين

ہر طالب علم کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ امتحان میں اعلیٰ نمبرات لے کر
کامیاب ہو جائے ، جس کے لئے وہ دن رات محنت کرتا ہے اور کامیابی کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔مگر ان تمام طلبہ میں بہت کم ایسے طلبہ ہوتے ہیں جو امتحانی ہال میں 100 فی صد اپنی محنت اور بغیر کسی کی مدد حاصل کئے اپنا پرچہ حل کرتے ہیں ورنا عام طور پر یہی دیکھا جاتا ہے کہ بچے یا تو خود نقل کرتے ہیں یا باہر سے کوئی امداد ملتی ہے، یا روم سپر وائزر ان کی مدد کر دیتا ہے۔افسوس صد افسوس جن کے ہاتھوں ہم اپنی قوم اور سماج کی باگ ڈور دینے والے ہیں انکی زندگی 

کا شروعاتی سبق ہی غلط دیا جا رہا ہے۔

شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا


اگر امتحانی نقل مکاری کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر ان کے ذمہ داروں میں سب سے پہلے تعلیمی اداروں کے مینیجمنٹ، اساتذہ ،والدین و سرپرست ہیں۔۔۔
آیئے اس نقل مکاری کےذمہ دار ، وجوہات اور اسے روکنے تدابیرجانتے ہیں


تعلیمی ادارے مینیجمنٹ : چونکہ درس و تدریس کا سارا نظام اداروں میں چلتا ہے انہیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ہمارے ادارے کے نتائج کم نا ہوجائیں اس لئے جہاں تک ان کی رسائی ہوتی ہے وہاں تک یہ لوگ اس کی کوشش کرتے ہیں اور نقل مکاری کے لئے بہت ہی پیارا نام دیا ہے "نیئو ٹائیپ

ارے بھائی۔۔۔۔۔

نہالے دودھ میں کوّا تو بگلا ہو نہیں سکتا
قسم کھا لے کوئی جھوٹا تو سچا ہو نہیں سکتا
چھپاؤ لاکھ چاندی کے ورق میں فائدہ کیا ہے
گوبر ہے سو گوبر رہے گا حلوا ہو نہیں سکتا

ہمارے دیش کا ایک رونا یہ بھی ہے کہ یہاں سنتری سے لے کر منتری سب بِک جاتے ہیں دورانِ نقل مکاری اگر کوئی سیاسی یا تعلیم رکاوٹ آ بھی جاتی ہے تو ادارے اس مسئلہ سے نپٹنا بخوبی جانتے ہیں بعض جگہ سوالی پرچے امتحان سے گھنٹہ پہلے ہی اس قسم کے اداروں کے حوالے کر دئے جاتے ہیں جہاں یہ لوگ ان کے فوٹو کاپی بنوا کر یہ بچوں تک پہنچا دیتے ہیں ایک طرف بچوں کے نصاب میں دین سے جڑی ایک ایسی کتاب رکھی جاتی ہے جہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ دھوکا ، فریب، حسد ، کینہ یہ سب چیزیں اللہ کو ناپسندیدہ ہیں اور دوسری طرف ان ہی بچوں کے ہاتھوں میں نقل کرنے کے لئے چٹی دی جاتی ہے کتنی شرم کی بات ہے۔
اداروں کو چاہیئے کہ شروع سال سے ایسی محنت کی جائے بچے اس گناہ سے بچ جائیں اور بچوں کے ذہنوں کو نقل مکاری کے دنیاوی اور اخروی نقصانات بتائے جائیں۔میں ایسا نہیں کہتا کے ہر ادارے والی نقل کرواتے ہیں بہت سے ادارے آج بھی ایسے ہیں جہاں پر کسی قسم کی نقالی نہیں ہوتی۔۔


اساتذہ: نقل مکاری کے دوسرے ذمہ دار اساتذہ ہیں اسکول میں چلنے والے سہ ماہی، ششماہی ، اور سیریز امتحانات میں بچوں کو ایسی ڈھیل دیتے ہیں کہ بچے ایک دوسرے کے ساتھ ڈسکس کر کے اپنا پرچہ حل کرلیتے ہیں استاتذہ اس معاملے میں اندھے بنے رہتے ہیں انہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر یہ فیل ہو جائیں گے تو دوسرے اساتذہ ان کی تدریس کی ناکامی پر ہنسیں گے، کاش یہ اساتذہ شروع سے اس معاملے میں سختی کرتے تو سال کے آخر تک یہ بچے خود سے اپنا پرچہ حل کرنے کے قابل بن جاتے، ان ہی اساتذہ میں سے اکثر و بیشتر پیپر چیک کرنے جایا کرتے ہیں جہاں بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کی غرض سے بِنا سوچے سمجھے ہر وہ کام کرتے ہیں جو عدل و انصاف کے خلاف ہوتا ہے۔۔


والدین و سر پرست: بچوں کے اخلاق و عادات کو سنوارنے کا کام دراصل یہاں سے شروع ہونا تھا والدین تربیت اولاد کی ذمہ داری کو بھول گئے جس کی وجہ سے آج پریشان پھرتے ہیں۔

طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

امتحان کے دن امتحان گاہ کے چاروں طرف یہی والدین اور سر پرست ہاتھوں میں نقل کے لئے چھوٹے چھوٹے چِٹ بنا کر امتحان گاہ میں پھینکتے نظر آتے ہیں،کاش یہ والدین و سر پرست بچے کو تعلیم کے آغاز سے ہی اس کی برائی سمجھاتے تو آج ہمارے سماج میں ایسے دھوکے بازی کے مسائل نہ کھڑے ہوتے۔
آیئے عزم کریں کے آئندہ سال ادارے ،اساتذہ اور والدین اس نقل مکاری کی برائی کو تعلیمی نظام سے دور کریں اور سماج کو اچھے افراد مہیا کریں۔۔۔۔





No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...