محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر5
(سلطان قطب الدین ایبک)
آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک 8105493349
سلاطین دہلی 1206ء سے 1526ء
خاندان غلاماں کی حکومت 1206ء میں قائم ہوئی اور 1290ء میں شمس الدین کیومرث پر اس خاندان کا خاتمہ ہوا۔ اس خاندان نے 84 سال حکومت کی۔
شمار
|
نام سلاطین
|
عہدِ حکومت
|
1
|
20 جون 1206ء – 1210ء
|
|
2
|
1210ء – مئی 1211ء
|
|
3
|
مئی 1211ء – 28 اپریل 1236ء
|
|
4
|
28 اپریل 1236ء – 20 نومبر 1236ء
|
|
5
|
10 نومبر 1236ء – 14 اکتوبر 1240ء
|
|
6
|
15 اکتوبر 1240ء – 10 مئی 1242ء
|
|
7
|
10
مئی 1242ء – 10 جون 1245ء
|
|
8
|
10 جون 1245ء – 18 فروری 1266ء
|
|
9
|
18 فروری 1266ء – جنوری 1287
|
|
10
|
14 جنوری 1287ء – 14 اکتوبر 1290ء
|
|
11
|
1286ء – 13 جون 1290ء
|
خاندان غلاماں 1206 ء سے 1290 ء تک
خاندان غلاماں کا بانی قطب الدین ایبک تھا ،کیونکہ اس خاندان کے تمام بادشاہ اول سے آخر تک یا تو خود غلام رہ چکے تھے، یا غلاموں کی اولاد تھے۔ اس لئے اس خاندان کو خاندان غلاماں کہا جاتا ہے ۔
قطب الدین ایبک کو اس کے بچپن کے زمانے میں ایک سوداگر ترکستان سے نیشاپور لایا ،اور یہاں اسے اسی زمانے میں قاضی فخر الدین ابن عبدالعزیز کوفی جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے کہ پاس بیچ دیا چونکہ خداوند تعالیٰ کو منظور تھا ،کہ قطب الدین ایبک ایک دن بڑا آدمی ہو گا ،اس لیے بچپن ہی سے اس کے چہرے سے عظمت اور برتری کے آثار نمایاں تھے۔ قاضی فخر الدین قطب الدین کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اسے جدا نہ کیا اور اپنے بیٹوں کی طرح اس کی پرورش کرتے رہے۔ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے کسی بیٹے نے قطب الدین کو ایک سوداگر کے ہاتھ فروخت کردیا اس سوداگر نے قطب الدین کو تحفے کے طور پر سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا سلطان نے سوداگر کو قطب الدین کے معاوضے میں ایک بیش قرار رقم دی۔ کیونکہ قطب الدین کے ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس لئے بادشاہ اور درباریوں نے اسے ایبک کہنا شروع کردیا، رفتہ رفتہ یہ لفظ اس کے نام کو جزو ہو کر رہ گیا۔ قطب الدین نے بڑے سلیقے اور محبت کے ساتھ سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مختصر سی مدت میں قطب الدین نے بادشاہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 154
قطب الدین ایبک اپنی ذاتی لیاقت وفاداری اور بہادری کی وجہ سے ترقی کرکے محمد غوری کا جرنیل بن گیا۔ محمد غوری نے اسے ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کیا اس نے بڑی بہادری سے گجرات بندھیل کھنڈ بہار اور بنگال کے علاقے فتح کرکے اپنے آقا محمد غوری کی سلطنت میں شامل کیے وہ محمد غوری کی وفات پر ہندوستان کا بادشاہ بنا وہ دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ اور خاندان غلاماں کا بانی ہوا۔
قطب الدین ایبک بڑا بہادر انصاف پسند اور فیاض بادشاہ تھا وہ اپنی سخاوت کی وجہ سے لکھ داتا یا لکھ بخش مشہور تھا اس نے اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے زبردست سرداروں کے ساتھ رشتے ناطے کیے اس نے اپنی شادی تاج الدین یلدوز حاکم غزنی کی لڑکی سے کی اس نے اپنی بہن کی شادی سندھ اور ملتان کے حاکم ناصر الدین قباچہ کے ساتھ کر دی اور ایک ہونہار غلام التمش کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ اس نے اب ملک میں امن رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ عمارات
قطب الدین نہ صرف فاتح اور لائق فرمانروا تھا بلکہ اس کو فن تعمیر سے بھی فطری لگاؤ تھا چنانچہ اس نے کئی ایک عمارتیں تعمیر کروائی اس کی بنائی گئی مشہور عمارتیں درج ذیل ہیں
مسجد قوت الاسلام
دہلی کی سب سے پہلی مسجد ہے 1192 میں جب دہلی فتح ہوا تو اس
خوشی کی یادگار میں اس نے مسجد تعمیر کرائی۔ بعض لوگوں کے خیال میں اس
مسجد کا اصل
نام قبتہ الاسلام تھا اسلامی سلطنت کا پایہ تخت ہونے کے باعث دہلی قبتہ الاسلام
کہلاتا تھا اس کی چھتوں پر گنبد نما روشن دان بنائے گئے اور محراب اور نئی قسم کے
ستون قائم کیے گئے یہ دہلی سے گیارہ میل کے فاصلے پر مہرؤلی کے قصبہ میں ہے اور
اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے
قطب مینار
کہا جاتا ہے کہ ایبک نے قطب مینار ایک چشتی بزرگ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا یہ مینار اس غرض کے لیے بنوایا گیا تھا کہ یہاں کھڑے ہو کر موذن اذان دے سکے اور اذان کی آواز دور دور تک پہنچ سکے یہ مینار مخروطی شکل کا ہے اور اس کی بلندی 234 فٹ ہے اس وقت اس کی پانچ منزلیں موجود ہیں آخری منزل جو چھتری نما تھی بجلی گرنے سے تباہ ہو گئی۔ زمین پر اس مینار کا قطر 48 فٹ ہے لیکن آخری منزل کا قطرصرف 9 فٹ ہے اس کی دیواروں پر کئی قرآنی آیات کندہ کرائی گئی ہیں ہر منزل کے خاتمہ پر نظاہرا کرنے کے لئے مینار کے اردگرد چبوترے بنے ہوئے ہیں۔ ایبک نے اس کی تعمیر شروع کروائی تھی لیکن اسے مکمل التمش نے مکمل کرایا اس عمارت کی دوسری منزل پچاس فٹ ساڑھے آٹھ انچ بلند ہے تیسری چالیس فٹ ساڑھے تین انچ اور چوتھی پچیس فٹ چار انچ اور پانچویں بائیس فٹ چار انچ بلند ہے۔ 1352 میں جب بجلی گرنے سے اس کی عمارت کو ضعف پہنچا تو سلطان سکندر لودھی نے ضروری مرمت کرائی اس عمارت کی نچلی تین منزلیں سنگ سرخ سے بنی ہوئی ہیں اور اوپر والی دو منزلیں سنگ سرخ اور سنگ مرمر کے امتزاج سے بنائی گئی ہیں خوشنما رنگ اور خوبصورت طرز تعمیر اسے دنیا بھر کے میناروں سے ممتاز کرتا ہے
اڑھائی دن کا جھوپڑا
1200 میں اجمیر کی فتح کی خوشی میں
ایبک نے اجمیر میں مسجد بنوائی جو اڑھائی دن کا جھونپڑا کہلاتی ہے روایت یہ ہے کہ
یہ مسجد اڑھائی دن میں بنائی گئی لیکن یہ بات ناقابل اعتبار معلوم ہوتی ہے بعض
مورخین کا خیال ہے کہ اسی کشادہ اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر میں اڑھائی سال لگے ہوں
گے بعض دیگر مورخین کی رائے میں اس مسجد کا نام اس میلے کی مناسبت سے پڑھا جو یہاں
اڑھائی دن تک رہتا ہے اس مسجد کی آرائش اور طرز تعمیر میں کوہ آبو کے جینی مندروں
کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس مسجد کا فن تعمیر انوکھا تھا عمارت کی طرز پر ہندوستانی
میں معماروں کا اثر نمایاں طور پر موجود ہے۔ ستونوں کی وضع پرانی جینی طرز تعمیر
کی ہے لیکن ان ستونوں کو جس ترتیب سے لگایا گیا ہے وہ خالص اسلامی یعنی مسجدوں کی
طرز ہے ۔
قطب الدین ایبک کی وفات
محمد بن قاسم سے اورنگزیب تک محمد سعید الحق صفحہ نمبر 29
No comments:
Post a Comment