آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن
سراج زیبائی
شیموگہ کرناٹک
8296694020
کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا
ہے اور اسی طرح علم کا عروج و زوال استاد پر ہوتا ہے۔ آفتاب عالم شاہ نوری ایک محنتی ذہین اور کامیاب استاد ہیں جو نہ صرف طالب علموں کو پابندی، دیانت اور خلوص سے پڑھاتے ہیں بلکہ ان میں علم و ادب کا ذوق بھی پیدا کرتے ہیں۔ آپ کی تعلیم و تدریس سے پرخلوص وابستگی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ یہ ایک ایسی دل آویز شخصیت ہے کہ جس میں وضع داری خود اعتمادی اور نفاست
پسندی بدرجہء اتم دیکھی جا سکتی ہے۔ ان دنوں سوشیل میڈیا اور اخباروں رسالوں میں ان کی شاعری پڑھنے کو مل جاتی ہے جو سنجیدہ قاریوں کو متاثر کرتی ہے۔
شاعر اپنے دور کا آئینہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدات و تجربات کو پوری دیانت داری سے اپنی شاعری میں رقم کر دیتا ہے۔ چوں کہ ان کے اکثر اشعار درس آموز ہوا کرتے ہیں ان میں سہل ممتنع اور تازہ کاری ہوتی ہے اس لئے وہ اشعار انجذاب توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ان کی مستقل مشاقی کی وجہ سے وہ تیزی سے اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر چھوٹی بحروں میں کہے گئے ان کے اشعار ذہنوں کو سرور و انبساط عطا کرتے ہیں۔
مثلا" یہ اشعار
ٹھکراتی ہے دنیا جس کو
اس رستے پر چلتا ہوں میں
تیرا کردار جیسے صندل یے
تیری صحبت سے ہر بشر مہکے
سنبھال رکھی ہے اب تلک بھی
محبتوں کی ہر اک نشانی
دنیا میں جو حادثے و واقعات رونما ہوتے ہیں ان کی تصویر کشی عالم صاحب بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے شعروں میں مضمون آفرینی کے ساتھ معنی آفرینی بھی ہوتی ہے۔ روایت کے پاسدار ان کے اشعار نہایت سلیس اور سلیقے کے ہوتے ہیں۔ ہر مومن کی طرح ان کی بھی یہ آرزو ہے کہ
رب سے ہر لمحہ دعا کرتا ہے عالم بھی یہی
حالت سجدہ ہو اور جان ہماری جائے
اس نوعیت کے بہت سارے اشعار عالم صاحب کے ہاں دیکھے جاتے ہیں جو ان کے مزاج میں بسی ہوئی تقدیس ک نشاندہی کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا علم ہے کہ شاعری کے لئے ساز گار حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعری کا خمیر عشق و محبت سے ہی اٹھا ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے عشق کو زندگی کا ساز گردانتے ہوئے کہا تھا کہ
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے۔
عالم صاحب عشق کی بابت کہتے ہیں
سرخ آنکھیں تری یہ کہتی ہیں
آتش عشق میں جلا ہے کہیں
ان کے کلام میں اخلاقی قدروں کی پاسداری نصیحت و محبت سب کچھ ہے جس سے ان کی صلابت فکر کا پتہ چلتا ہے۔
عالم صاحب کی شاعری سماج سے ہی اپنا مواد اخذ کرتی ہے۔ ان کا فکر زندگی کے تمام کرب انگیز لمحوں سے مکالمہ کرتا ہے۔ چوں کہ موصوف درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ایک جگہ استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں
جہالت کے اندھیرے میں فقط استاد ہی عالم
چراغ علم کی لو سے بجھے دیپک جلاتا ہے
اس طرح ان کے کلام میں
پور ی نسل انسانی کے لئے مکالمات خیر ہیں۔ جن کو اپنا کر ہم ایک خوبصورت زندگی گذار سکتے ہیں۔
ان شعروں میں شاعر کا بلند حوصلہ اور استقامت دیکھئے۔ کہتے ہیں
برگد کی طرح ہم نے قدم اپنے جمائے
ہر آن جو گر جائے وہ دیوار نہیں ہیں
اگرچہ تو رستہ مجھے پر خطر دے
نیا حوصلہ دے نیا اک سفر دے
جنگ وجدل سے مجھ کو ڈراتے ہو کس لئے
توپیں تمھارے پاس ابابیل میرے پاس
آفتاب عالم ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ اردو ادب کے دلدادہ ہیں جو اپنے ذہنی سکون کا وسیلہ اردو شعر و ادب کو بنائے ہوئے ہیں۔ دور حاضر میں جو سماجی نا ہمواریاں اور بد عنوانیاں ہیں عالم صاحب ان کا بغور مشاہدہ کرتے اور انھیں اس طرح اپنے شعروں میں ڈھالتے ہیں
کہنے کو تو ہر چیز ہے دنیا میں میسر
پھر بھی یہاں انسان پریشان سا کیوں ہے
صبر کی چوٹ سے اخلاق مکمل کرنا
کتنا دشوار ہے کر دار کو صندل کرنا
لوگ جاتے ہیں امیروں کے گھروں پر ایسے
جیسے مسجد کی طرف کوئی بھکاری جائے
یہ سچ ہے کہ خوبصورت لفظیات کی عمدہ ترتیب سے ہی اچھی شاعری معرض وجود میں آتی ہے۔ اس بات سے عالم صاحب بخوبی واقف ہیں
شاعری اگر صحیح معنوں میں اچھی اور معیاری ہو تو شاعر کو اس کا مقام ضرور دلواتی ہے۔ جیسے خود عالم صاحب کا کہنا ہے
میری غزلوں نے ہی مجھ کو
دنیا میں مشہور کیا ہے
اچھے شاعر کے ہاں منتخب لفظیات کے ساتھ اگر فصیح و بلیغ اشارے کنائے خوبصورت تشبیہات اور عمدہ تمثیلیں ہوتی ہیں تو پھر کیا کہنے۔ ایسے اشعار دلوں کے تحت الثری' میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
آفتاب عالم صاحب کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جو قاری کے دلوں کو چھو لیتے ہیں
سکوں کی نیند میرا رب اسے ہر شب سلاتا ہے
تھکن سے چور جب مزدور گھر کو لوٹ آتا ہے
عالم نے اپنے سر کو جھکا کر دعاوءں میں
توبہ کے آنسوؤں سے گناہوں کو دھویا ہے
جن کو غرور اپنی بلندی پہ تھابہت
ایسوں کو بھی خدا نے اتارا زمین پر
سچ پوچھئے تو دراصل شاعری میں زبان کی سر فرازی اور سر بلندی ہی اصل چیز ہوتی ہے اس کو قائم رکھتے ہوئے ہی شاعری قابل قدر ہو سکتی یے اور شاعر پوری خود اعتمادی سے یوں کہہ سکتا ہے کہ
علم و ادب کی خوشنما تمثیل میرے پاس
ظلمت تمھارے پاس ہے قندیل میرے پاس
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عزیزم آفتاب عالم کی شاعری میں سماجی ہمواریاں صاف نظر آتی ہیں اور اشاریت اور ایمائیت کا عمل عروج پر ہے۔سو کہا جا سکتا ہے کی مستقبل میں ان کے ہاں مزید معیاری شاعری کے امکانات روشن نظر آتے ہیں
No comments:
Post a Comment