Thursday, 5 June 2025

نذیر فتح پوری صاحب کے ساتھ ادبی بیٹھک

 نذیر فتح پوری صاحب کے ساتھ ادبی بیٹھک
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری 
بلگام کرناٹک
8105493349

فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں
یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے
نا معلوم
نذیر فتح پوری صاحب اردو ادب کا ایک ایسا معتبر نام ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے جب یہ جملہ میں نے نذیر فتح پوری صاحب کے سامنے دہرایا تو ان کی عاجزگی کا عالم دیکھیے کہنے لگے ارے آفتاب میاں! مجھے پڑوسی نہیں جانتے آپ کہتے ہیں ساری دنیا مجھے جانتی ہے ۔ ۔ دراصل یہ ان کی اپنے آپ میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کی کیفیت ہے ورنہ ایسا کوئی نہیں ہے جو نذیر صاحب کو نہ جانے ۔ نذیر صاحب سے میری پہلی ملاقات کا قصہ بڑا دلچسپ ہے ۔ میں ایک مرتبہ پونا گیا ہوا تھا اور بیٹھے بیٹھے مجھے رئیس الدین رئیس صاحب کا ایک شعر یاد آیا جسے میں نے واٹس ایپ کے کئی سارے گروپس میں فاروڈ کر دیا ۔ شعر کچھ یوں تھا ۔  
ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں
میں زندگی تری تشہیر کرتا رہتا ہوں
رئیس الدین رئیس 


اتفاق ایسا ہوا کہ جن گروپس پر میں نے شعر فاروڈ کیا تھا ان میں سے کسی ایک گروپ میں نذیر فتح پوری صاحب بھی تھے انہوں نے یہ شعر دیکھا تو مجھے میسج کیا اور کہنے لگے کہ رئیس الدین رئیس میرے قریبی دوستوں میں ہیں ۔ میں نے فورا نذیر صاحب کو فون کیا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں کہنے لگے پونہ میں ۔ میں چونک گیا میں نے کہا محترم میں بھی اس وقت کسی کام سے پونا میں ہی ہوں آپ سے بات کرنے کے بعد خواہش ہو رہی ہے کہ آپ سے ملوں ۔ ۔ کہنے لگے کل میرے گھر پر میری کتاب کا اجراء ہے اور ایک شعری نشست بھی ہے آپ پہنچ جائیں ۔ نذیر صاحب نے مجھے گوگل لوکیشن بھیجا اس طرح میں اگلی صبح نذیر صاحب کے مکان کی طرف روانہ ہوا ۔ جب ان کے مکان پر پہنچا تو مراٹھی اور اردو شعراء کا جمگھٹا لگا ہوا تھا کتاب کے اجراء اور شعری نشست بہت بہترین رہی ۔ سارے لوگ دیر تک نذیر صاحب کی باتیں سنتے رہے شعری نشست کے بعد تمام آئے ہوئے شعراء اور ادباء کے لیے نذیر صاحب نے کھانے کا نظم کیا تھا تمام احباب نے مل کر کھانا کھایا ۔ اس پروگرام میں دو اہم شخصیات سے میری ملاقات ہوئی پہلے ادوھو مہاجن بسمل صاحب اور دوسرے ولی احمد خان صاحب ۔ دونوں احباب سے موبائل کی نمبرات کا تبادلہ ہوا ۔ واپسی کے بعد نذیر فتح پوری صاحب سے اور بسمل صاحب وقتا فوقتا بات ہوتی رہتی تھی ۔ کچھ عرصے کے بعد ادھو مہاجن بسمل صاحب نے کال کیا اور کہا کہ آفتاب صاحب میری اٹھارویں ۱۸ کتاب "نئے خواب غزل کے" کا رسم اجرا ہے اور آپ کو پونا آنا ہے میں میں نے حامی بھر لی ۔ اس پروگرام کے ذریعے سے دوسری مرتبہ نذیر فتح پوری صاحب اور ادھو مہاجن بسمل صاحب سے ملاقات کا ایک اور موقع ملا ۔ جب پروگرام کا آغاز ہوا اور کسی تعارف کرنے والے نے مہاجن صاحب کا جو تعارف پیش کیا تو میں سن کر حیران ہوا کہ ایک مراٹھی پڑھے لکھے آدمی نے تقریبا 18 کتابیں اردو میں تحریر کی ہیں مزید یہ سن کر مہاجن صاحب کے لئے اور محبت بڑھ گئی کہ مہاجن صاحب نے ایک نعتیہ مجموعہ "محمد سب کے لیے" کے عنوان سے شائع کروایا ہے ۔ کتاب کی رسم اجرا کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا جہاں میں نے اپنی یہ غزل پڑھی جسے تمام شعراء نے اور خاص طور پر نذیر فتح پوری صاحب نے بہت پسند کیا وہ غزل کچھ یوں ہے ۔ 

شیشہ گر کی بستی میں امتحان پتھر کا
ہے زمین پتھر کی آسمان پتھر کا
کانچ سے بنی چیزیں گھر میں کیسے لاؤ گے
پتھروں کی چوکھٹ ہے سائبان پتھر کا
سَنگ لاخ دھرتی پر پھول بھی ہیں پتھر کے
ہیں شگوفے پتھر کے باغبان پتھر کا
سنگ باری ہوتی ہے جس طرف بھی چلتا ہوں
لڑکھڑاتی دیواریں ہر مکان پتھر کا
میل کا یہ پتھر ہے راستہ بتائے گا
اعتبار کر لینا میری جان پتھر کا
تیری کشتی کا عالم ؔ ڈوبنا یقینی ہے
ناخدا نے باندھا ہے بادبان پتھر کا
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
پونہ میں ایک روز کے قیام کے بعد اگلے روز واپسی ہوئی ۔ اس بار کے
 سفر کے بعد مہاجن صاحب سے اور مزید تعلقات بڑھ گئے ۔ شہر پونہ کے لیے میرا تازہ سفر 2 جون 2025 کو ہوا ۔ اس ریل کے پانچ چھ گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے ایک مضمون تحریر کیا جس کا عنوان " اہلِ اردو میں مطالعہ کا ذوق کیسے پیدا کریں " رات کے تقریبا 11 بجے کے قریب میں گھر پہنچا ۔ دن بھر کے سفر کا تھکا ماندہ فورا سو گیا ۔ اگلے دن صبح سے دوپہر تک مضمون پر دوبارہ نظر ثانی کی اور ٹایپینگ کے بعد الگ الگ اخبارات کو ای میل کیا ۔ جو الحمدللہ دوسرے دن ملک کے کئی سارے اخبارات میں شائع بھی ہوا ۔ شام کے وقت نذیر صاحب ملاقات کی اجازت مانگی تو نذیر صاحب نے اگلے دن صبح ٩ بجے کا وقت دیا ۔ مہاجن صاحب کو ملاقات کے لئے نذیر صاحب کے مکان پر بلوا لیا ۔ گھر سے ٨ بجے کے قریب نکلا شہر کی ٹرافک کی وجہ سے پہنچتے پہنچتے ۹:۱۵ بج گئے ۔ نذیر صاحب انتظار میں تھے میرے پہنچنے کے ۵ منٹ بعد مہاجن صاحب بھی پہنچ گئے ۔ نذیر صاحب سے گفتگو کا آغاز ساڑھے نو سے ایک بجے تک مسلسل چلتا رہا ۔ اس گفگتو میں جن جن شعراء و ادباء کا ذکر ہوا ان کے نام یہ تھے ۔ ندا فاضلی، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر،منور رانا، راحت اندوری، جگن ناتھ آزاد، علامہ اقبال، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، عزیز بلگامی، منیر احمد جامی، ڈاکٹر محبوب راہی، وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں جن جن کا تذکرہ نذیر صاحب نے کیا سب کی خوبیاں ہی بیان کی ۔ یہی ہوتی ہے ایک اچھے انسان کی نشانی ۔ ان شعراء ادباء میں سے اکثر وہ تھے جن سے نذیر صاحب کے تعلقات تھے ۔ ان ساڑھے تین گھنٹوں کی گفتگو میں نذیر صاحب نے تجربات کی ایسی وادیوں کی سیر کرائی جس سے گزرنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں تھی ۔ اسباق رسالہ کے شروعاتی دور کے قصے سنائے کہ کس طرح یہ 44 برسوں تک چلتا رہا ۔ اومان اور عمرہ کے سفر ناموں کے واقعات سنائے ۔ ۔ ۔ جنہیں سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم بھی نذیر صاحب کے ساتھ اس سفر میں ہمراہ ہیں ۔ ویسے تو نذیر صاحب نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ناول سے کیا مگر آہستہ آہستہ ہر طرح کی کتابیں شائع کروائیں ۔ اب تک نذیر صاحب کی 115 سے زائد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں ۔ ۔ جن کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہے ۔ ۔ 
نذیر فتح پوری صاحب کی تصانیف -
نذیر فتح پوری کے فکر و فن پر مرتب کردہ کتابیں 25
ناول 3
ادبِ اطفال 9
شاعری 19
افسانے/ افسانچے 3
ترجمہ1
سفر نامے 3
ادبی مضامین 2
خودنوشت 2
تنقید و تحقیق 4
تذکرہ نگاری 6
ادبی شخصیحات پر کتابیں 21
خواتین اہلِ قلم پر کتابیں 3
مناظر عاشق ہرگانوی پر کتابیں 8
ادبی شخصیحات پر کتابیں ترتیب 19
یاداشتیں 3
مکتوب نگاری 9
اس کے علاوہ دو لوگوں نے نذیر فتح پوری پر phd کی ہے اور ایک نے M.phil کیا ہے ۔ ادبی میدان میں اتنا سارا کام کرنے کے باوجود عاجزگی اور تواضع بھری زندگی بسر کرتے ہیں ۔ نئے لکھنے والوں کو محترم جناب نذیر فتح پوری صاحب ہمت افزائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں " ہم نے اپنے چھوٹوں کے ساتھ وہ نہیں کیا جو ہمارے بڑوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا " یہی وجہ ہے کہ ہمدردی اور انسان دوستی کی وجہ سے ان کے ذہن کا کنواں بہت سارے نا گوارحالات کے باوجود کئی دہائیوں سے سوکھا نہیں ہے ۔ اور اسی ذہن کے کنویں سے سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں آ چکی ہیں اور علم کی پیاس بجھانے والے ان کی کتابوں کے ذریعے سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں اس طویل گفتگو کے بعد میں اور ادھو مہاجن بسمل صاحب نذیر صاحب سے اجازت لے کر اپنی اپنی راہوں کی طرف نکل پڑے ۔ مہاجن صاحب نے اپنی چار کتابیں بطورِ ہدیہ دیں ۔ نذیر صاحب کے یہاں سے نکلتے ہوئے میرے ذہن میں یہ شعر گونج رہا تھا ۔ ۔ 
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
x






No comments:

Post a Comment

آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن سراج زیبائی  شیموگہ کرناٹک  8296694020 کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا  ہے ا...