محمد بن قاسم
سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 10
جلال الدین
فیروز شاہ خلجی 1290 سے 1296
آفتاب عالم
دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349
جلال الدین
خاندانی خلجی کا بانی تھا وہ ستر سال کی عمر میں کیقباد کو قتل کرکے دہلی کے تخت پر
بیٹھا وہ بڑا کابل جرنیل اور دلیر بادشاہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا
۔ اس لئے اس کے عہد میں بغاوتیں ہونےلگیں اس کے عہد میں مغلوں نے بھی ہندوستان پر کئی
حملے کیے لیکن جلال الدین نے انہیں شکست دی اس کے عہد میں کچھ مغل دہلی کے قریب ہی
آباد ہو گئے اور انہوں نے مغلپورہ نام کی
بستی بسائی جلال الدین نے مالوہ پر بھی حملہ کیا مگر ناکام رہا اس کے عہد کا سب سے مشہور واقعہ دکن کی مہم ہے ۔
بستی بسائی جلال الدین نے مالوہ پر بھی حملہ کیا مگر ناکام رہا اس کے عہد کا سب سے مشہور واقعہ دکن کی مہم ہے ۔
شمار
|
نام
سلاطین
|
عہدِ
حکومت
|
1
|
13 جون 1290ء – 20 جولائی 1296ء
|
|
2
|
20 جولائی 1296ء – 4 جنوری 1316ء
|
|
3
|
5 جنوری 1316ء – 13 اپریل 1316ء
|
|
4
|
14 اپریل 1316ء – مئی 1320ء
|
|
5
|
مئی
1320ء – 8 ستمبر 1321ء
|
لفظ خلجی کی
اصل
جب غوری فرمانرواؤں
اور ان کے پروردہ غلاموں نے ہندوستان فتح کیا تو خلجیوں کے گروہ کے گروہ ہندوستان آکر
شاہی ملازمتیں اختیار کرنے لگے ان خلجیوں میں سے بعض افراد نے بہت اقتدار اور رسوخ
حاصل کیا اور شاہی امراء اور اراکین سلطنت کے معزز عہدوں تک پہنچے ۔ ان مقتدرامرائے
خلجی میں سلطان جلال الدین فیروز شاہ اور سلطان محمود خلجی مندوی کے باپ بھی تھے ۔
متذکرہ بالا مورخ کا بیان ہے کہ کالج خان کی نسبت سے ان امراء کو عام طور پر قالجی
کہا جاتا تھا کثرت استعمال سے الف گر گیا اور "ق" کا "خ" سے تبادلہ ہو گیا اور یوں کالجی
سے خلجی بن گیا ۔ لیکن تاریخی سلجوقیاں کے مصنف کی رائے اس سے مختلف ہے اس کا بیان
ہے کہ ترک بن یافث کے 11 بیٹوں میں سے ایک کا نام خلج تھا خلجی اسی کی اولاد کو کہا
جاتا ہے مورخ فرشتہ بھی اسی رائے کو تسلیم کرتا ہے اس لیے کہ اگر نظام الدین کے بیان
کو مان لیا جائے تو پھر خلجیوں کا وجود چنگیزی احد کے بعد ثابت ہوتا ہے اور بالکل غلط
ہے کیونکہ معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر ناصرالدین اور سلطان محمود
غزنوی کے بہت سے امیر خلجی کہلاتے تھے اور ایک بات مسلم ہے کہ یہ دونوں حکمران چنگیز
سے پہلے گزرے ہیں ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قالج خان خود بھی خلجی خاندان سے تعلق رکھتا
ہو اور سلطان جلال الدین دہلوی اور سلطان محمود مندوی اس کی نسل سے ہوں ۔ تاریخ فرشتہ
جلد اول صفحہ نمبر 218
جلال الدین
کا قتل
جلال الدین
خلجی کشتی میں بیٹھا ہوا کلام مجید کی تلاوت کرتا رہا عصر کے وقت کشتی کنارے سے لگے
بادشاہ کشتی سے اترا علاوالدین نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور اپنا سر رکھ دیا جلال
الدین نے پیار سے اس کے گال پر ایک ہلکی سی چپت ماری اور بڑے لطف آمیز لہجے سے کہا میں نے تجھے پیار
اور لاڈ سے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اپنے حقیقی بیٹوں سے زیادہ تجھے عزیز رکھا ہے
تیرے بچپن کی بو اب تک میرے کپڑوں سے نہیں گئی پھر بھلا تیرے دل میں خیال کیسے پیدا
ہوا کہ میں تیرے خلاف ہوں اور تیرا برا چاہتا
ہوں یہ کہہ کر بادشاہ نے علاوالدین کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے کر کشتی کی طرف
روانہ ہوا علاوالدین نے اس موقع پر ان لوگوں کو اشارہ کیا جو بادشاہ کو قتل کرنے کے
لئے متعین کئے گئے تھے سمانہ کے ایک ذلیل سپاہی نے جس کا نام محمود بن سالم تھا بادشاہ
پر تلوار کا وار کیا بادشاہ زخم کھا کر کشتی کی طرف دوڑا اور کہا اے بدبخت علاوالدین
تو نے کیا کیا ابھی جلال الدین کشتی تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اختیارالدین اس کی طرف
لپکا اختیارالدین جو جلال الدین کا پروردہ نعمت تھا اس نے بادشاہ کو پچھاڑ کر اس کا
سر کاٹ لیا اس وقت غروب آفتاب کا وقت تھا بادشاہ کا سر لے کر اختیار الدین علاء الدین
کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ کے وہ ہمراہی جو کشتی میں بیٹھے تھے کہ ملک خرم وغیرہ
انہیں بھی علاوالدین کے حواریوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ
نمبر 236
No comments:
Post a Comment