Monday, 6 May 2019




ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی ؟؟
انگریزی کیوں نہیں۔۔۔؟ قسط نمبر4



آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


موجودہ زمانے میں اگر دیکھا جائے تو دو چیزیں ایسی ہیں جو  کافی عروج پر ہیں ایک ہے، سیاست اور دوسری ہے تجارت ، اگر سیاست کی بات کی جائے تو گلی کے نکڑ سے لے کر، دلی کے پارلیمنٹ تک صرف اور صرف سیاست ہی کا چرچہ ہے،اور اگر تجارت کی بات کی جائے، تو لوگوں نے ایسی ایسی چیزوں کی تجارت شروع کردی ہے جس میں چیزیں نہیں بکتی بلکہ انسانوں کا مستقبل تک بک جاتا ہے ۔ دیکھنے میں تو یہ بڑا پاکیزہ شعبہ نظر آتا ہے مگر ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے،دراصل یہ تجارت انگریزی میڈیم اسکولوں کی تجارت ہے، ایسی تجارت ہے جس میں آمدنی کے ساتھ ساتھ مینیجمنٹ کو عزتوں پر عزتیں ملا کرتی ہیں ۔ پہلے پہل یہ کام عیسائی مشنریاں کیا کرتی تھی۔ اس کے بعد سیاستدانوں نے اس میں قدم رکھا، اب تو بس دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ہر ایرا غیرا  ہر کوئی اب انگریزی اسکول کھولنے لگا ہے، جب ایسے لوگ اسکول کھولنے لگیں تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے آپ بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں، ان اسکولوں میں ہوتا یہ ہے جس میں ماں باپ ہزاروں روپے دلے کر اسکول میں داخلہ کرواتے ہیں اور ادارہ انہیں  بارہ تیرہ سال کے بعد ایک ایسا نوجوان ماں باپ کے حوالے کر دیتا ہے جو نہ دین کا ہوتا ہے نہ دنیا کا،

انگریزی میڈیم اسکول کن علاقوں اور کس طرح کی سوسائیٹی کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔۔۔؟


اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انگریزی میڈیم کے اسکول صرف اور صرف انہیں سوسائٹی، انہی لوگوں کے لئے بہتر ہیں جن کے ہاں اسکول کا ماحول اور گھر کا ماحول آس پڑوس کا ماحول ایک جیسا ہو میرے کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اگر بچہ اسکول کے ماحول میں رہ کر انگریزی بول چال کرتا ہے تو بالکل ویسا ہی ماحول اس کے آس پڑوس اور گھر کا ہونا چاہیے اگر ایسا ہے تو اس علاقے اور اس ماحول کے بچے کے لئے انگریزی میڈیم اسکول مناسب ہیں اور  ایسا ماحول عام طور پر بڑے بڑے شہروں اور اونچے طبقے میں دیکھا جا سکتا ہے  ۔

انگریزی میڈیم سکول کی خرابیاں

داخلے کے عمر


انگریزی میڈیم اسکولوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہاں پر بچے کا داخلہ نہایت کم عمر میں کروایا جاتا ہے یعنی کہ صرف تین سال کی عمر میں بچے کا داخلہ نرسری جماعت میں کروایا جاتا ہے یہ ایسی عمر ہوتی ہے جس میں بچہ ماں باپ کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا سائنسدانوں نے اس بات پر ریسرچ کی ہے کہ کس عمر میں بچے کا داخلہ اسکول میں کروایا جانا چاہیے تو کافی لمبی تحقیق کے بعد انھوں نے بتایا کہ پانچ سال سے لے کر سات سال کی عمر میں بچے کا داخلہ اسکول میں کیا جا نا چاہیے ۔ پانچ سال سے سات سال کے درمیان کی عمر بچے کے لیے اسکول کے لئے مناسب عمر ہے اس عمر میں بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ میل جول کامیابی کے ساتھ کرسکتا ہے جرمنی میں 3000 بچوں پر تجربہ کیا گیا تو سائنسدانوں نے نتیجہ نکالا کہ جن بچوں کو کا داخلہ پانچ سال کی عمر میں کروایا گیا تھا اور جن بچوں کا داخلہ سات سال کی عمر میں کروایا گیا تھا تو بیس سال کی عمر میں جاکر  یہ تیجہ نکالا گیا کہ پانچ سال کی عمر میں داخلہ لینے والے بچے ذہانت اور یاداشت کے اعتبار سے سات سال میں داخلہ لینے والے بچوں سے پیچھے رہ گئے ۔ ان ساری چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے حکومت نے بچوں کے داخلے کے صحیح عمر پانچ سال دس مہینے متعین کی ہے مگر انگریزی اسکولوں میں تین سال کے بچوں کو لاکر  بے جان کھلونوں کہ بیچ بٹھایا جاتا ہے اور یہ تصورکیا جاتا ہے کہ  یہ بچے ان کھلونوں سے بہل جائیں گے نہیں ہر گز نہیں۔۔۔! اس عمر میں بچوں کو کھلونوں سے زیادہ ماں باپ کی محبتوں اور قربتوں کی ضرورت ہوتی ہے  ۔

انگریزی میڈیم کا نصاب بچے کے ذہن پر بوجھ




میں نے بیسیوں مرتبہ جماعتی کمروں کا معائنہ کر کے دیکھا ہے کہ انگریزی میڈیم کا نصاب بچوں کے ذہن پر ایک بوجھ ہے کچھ ایسے اداروں میں مجھے کام کرنے کا تفاق ہوا جہاں مادری زبان اردو بھی بچوں کو پڑھائی جاتی تھی جب اردو کی کلاس ہوتی تو میں نے کئی دفعہ یوں محسوس کیا ہے کہ بچے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اردو زبان کو پڑھنے اور سیکھنے میں دلچسپی لیتے ہیں،ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں میں دوم جماعت میں کلاس کا معائنہ کرنے کے غرض سے داخل ہوا  جہاں پر ٹیچر بچوں کو علم ریاضی سکھلا رہی تھی،معلم نے بچوں سے سوال کیا سیون  پلس ٹو ایزایکول ٹو کتنے ؟؟بچے بالکل خاموش تھے کسی ایک بچے نے بھی سوال کا جواب نہ دیا میں نے معلمہ سے کہا کہ اسی سوال کو اردو میں ترجمہ کرکے  پوچھیے،تم معلمہ نے بچوں سے پوچھا کہ بتاؤ بچوں ساتھ جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو بچے پورے کے پورے ایک آواز میں کہنے لگے کہ ٹیچر نو ۔ اصل میں بچے انگریزی کے الفاظ سے آشنا نہیں ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو جواب دینے میں دشواری ہو رہی تھی بس علم ریاضی ہی نہیں بلکہ ہر وہ کلاس جو انگریزی زبان میں چلتی تھی جب تک بچوں کو اردو زبان میں بات سمجھائی نہ جائے تب تک بچے جواب دے ہی نہیں سکتے تھے اگر اردو زبان میں ہی سمجھانا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو اردو میڈیم ہی میں داخلہ کروایں ۔

قابل اساتذہ کی کمی


انگریزی اسکولوں میں ایک اور بات دیکھی جاتی ہے کہ یہاں پر قابل اساتذہ کی کمی ہوتی ہے اس کے پیچھے جو وجہ ہے ان اداروں کا مقصد صرف پیسے کمانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اعلی تعلیم یافتہ اور بی ایڈ یا ڈی ایڈ وغیرہ کیے ہوئے ٹیچر کو نہیں رکھتے بلکہ بس عام طور پر بارویں ، دسویں یا پھر ڈگری کے اساتذہ کو کافی کم تنخواہ دے کر یہ لوگ اپنی یہاں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کا بڑا نقصان ہوتا ہے،

زبان کی تدریس میں ہنر مندی کی کمی

مدرسے میں داخلے سے قبل بچے زبان کے تلفظ اور صوتیاتی محاسن سے غیرشعوری طور پر واقف ہوتے ہیں ،سننا ۔ ۔ ۔ ۔بولنا ۔ ۔ ۔ پڑھنا ۔ ۔ ۔ لکھنا یہ زبان کی تدریس کے اصول ہیں اکثر و بیشتر جگہ انگریزی میڈیم اسکولوں میں اس پر کام نہیں ہوتا ۔

زائد کتابوں اور نصاب کا بوجھ
 

انگریزی میڈیم اسکولوں میں جتنی مضامین کی کتابیں ہوا کرتی ہیں اس سے زائد کتابوں کابوجھ بچوں کے ذہن پر ڈالا جاتا ہے جس کی وجہ سے اصل مضمون کو پڑھنے سے بچوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔جو اکثر و بیشتر بچوں کو ایک بوجھ اور مشکل مضمون بننے لگتا ہے۔



اسکول اور گھر میں انگریزی میں بول چال کے ماحول کی کمی

اکثر ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اساتذہ بچوں کے ساتھ اور بچے بچوں کے ساتھ اور بچے اساتذہ کے ساتھ جو زبان گفتگو کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ صرف اور صرف مادری زبان استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے انگریزی میں سدھار نہیں آتا اگر بالفرض کسی اسکول میں  انگریزی بول چال کا ماحول ہوتا بھی ہے تو ضروری ہے کہ گھر اور اس کے آس پڑوس میں ایسا ماحول ہو جو دس میں سے کم از کم چار پانچ الفاظ بچے کے ساتھ انگریزی کے استعمال کرے تب جا کر کہیں کام بن سکتا ہے ۔

سالانہ جلسہ اینیول  گیادرینگ کا دھوکا

اسکول مینجمنٹ اور اساتذہ مل کر سال میں ایک مرتبہ والدین اور سرپرستوں کو ایک ایسا منظر دکھا دیتے ہیں جسے دیکھ کر آنے والے سال والدین اسی اسکول میں اپنے بچے کا داخلہ کراتے ہیں جسے سالانہ جلسہ یا اینیول گیادرنگ کہا جاتا ہے ۔ اس سالانہ جلسے میں ہوتا یہ کہ  جلسہ کے قریباً تین چار ماہ پہلے سے بچوں کو کسی نغمے کسی گانے کسی ڈرامے کے مکالمے رٹا کر اس کی روز بروز مشق کرائی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچہ ایسی روانی سے بولتا ہے جس سے ماں باپ کو لگتا ہے کہ ہمارے بچے نے فرفر انگریزی بولنی سیکھ لی ۔ مگر یہ صرف اور صرف دھوکا ہوتا ہے اصل میں بچہ کچھ بولنا سیکھتا نہیں بلکہ وہ طوطے کی طرح رٹھتا رہتا ہے ۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس دھوکے سے خود بھی نکلیں اور دوسروں کو بھی نکالیں ۔۔۔

اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار

2 comments:

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...