محمد بن قاسم
سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 17
معززالدین
ابوالفتح سید مبارک شاہ بن خضر خان
آفتاب
عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام
کرناٹک
8105493349
دوران عدالت
ہی خضر خان کو اندازہ ہو گیا تھا اب اس کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور یہ مرض الموت ہے
اور اس سے نجات نہ ہوگی لہذا اس نے عاقبت اندیشی سے کام لیتے ہوئے اپنے بڑے بیٹے مبارک
شاہ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا مبارک شاہ نے اپنے باپ کے مرنے کے تین دن کے بعد تاج
پوشی کی رسم ادا کی اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس نے اپنا لقب معزالدین ابوالفتح
مبارک شاہ رکھا ۔
جاگیریں اور
عہدے
مبارک شاہ
نے اپنے پرانے امراء اور مشائخ کے عہدوں کو حسب سابق بحال رکھا اور ان کی جاگیریں وظیفہ
بھی وہی رہے بعض لوگوں کو جو روزینہ ملتا تھا اس میں اضافہ بھی کردیا اپنے بھتیجے ملک
بدر کے عہدے کو بڑھا دیا اور اس کو فیروزآباد اور ہانسی کا صوبہ دار بنا دیا ملک رجب
جو سدھو نادری کا بیٹا تھا اس کو ہاہنسی اور فرویزآباد سے ہٹا کر پنجاب اور دیپالپور
کا صوبیدار بنا دیا ٧٢٣ جمادی الاول میں کشمیر کے بادشاہ سلطان علی ٹھٹ کو مسخر کیا
اور وہاں سے واپسی پر سفر کی منازل طے کرتا ہوا فوج سے الگ ہو گیا ادھر جیرت کھکھر
جو اپنے شیخا کھکھر کے انتقال کے بعد اب اپنے قبیلہ کی سردار ی کر رہا تھا اور قوت بھی حاصل کر لی تھی
سلطان علی سے برسر پیکار ہو گیا اور کشمیر کے حکمران کو زندہ گرفتار کر لیا اس نے بےشمار
مال و دولت حاصل کی اس کے بعد اس کی ہمت بڑی اور دہلی کو فتح کرنے کا سودا اس کے سر
میں سمایا اس نے ملک کا طغا کو جو خضرخان کے خوف سے پہاڑوں میں پناہ گزین تھا بلا کر
اپنے ہاں وزرات کے عہدے کر امیرالامراء مقرر کیا اس طرح جیرت لاہور پنجاب کا حکمران
بن گیا جیرت نے لاہور کو تباہ و برباد کر کے پھر دریائے ستلج کو پار کیا اور شہر تلونڈی
جو رائے کمال کی جاگیر تھی اس کو خوب لوٹا تلونڈی کا زمیندار شہر چھوڑ کر بھاگ گیا
اور دریائے جمنا کے ساحل پر پناہ گزین ہوا جیرت لدھیانا پہنچا لدھیانے کے بالائی حصہ
تک تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتا ہوا چلا گیا اس نے دریائے ستلج کے دوسرے ساحل
تک جاکر جالندھر کے قلعہ کو گھیر لیا حصار کا حاکم زیرک خان پہلے خود قلعہ بند ہو گیا
اس کے بعد جیرت کا مقابلہ کرنے لگا جیرت چالبازی سے کام لے کر صلح کی بات چیت کی دونوں
میں یہ عہد ہوا کہ زیرک خان جالندھر کو طغا کے حوالے کر دے اور طغا کے بیٹے کو قیمتی
تحائف نظر کرکے مبارک شاہ کے پاس بھیج دے دوسری جماعت الاول ٧٢۴ زیرک خان نے قلعہ سے نکل کر جیرت کے لشکر سے
تین کوس دور دریا سرستی کے ساحل پر قیام کیا جیرت اپنے عہد پر قائم نہ رہا اور اس نے
زیرک خان پر حملہ کرکے اس کو زندہ گرفتار کر لیا اور لودھیانا واپس چلا گیا بی سی جمادی
الاخر ٧٢۴ میں اسلام خان حاکم سر ہند میں سرحد پر لشکر کشی کی اور اسلام خان بھی چھپ
گیا ( تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 369
)
مبارک شاہ
نے تیرہ سال تک حکومت کی اس حکومت کے دوران کی سارے علاقوں کو فتح کیا اور بہت سارے
حکمرانوں کو شکست دی
اسی عرصہ میں مبارک شاہ نے ایک نئے شہر کی ربیع الاول کی
17 تاریخ کو بنیاد ڈالی اور اس کا نام مبارک آباد رکھا
مبارک شاہ
کا قتل
٩ رجب ٧٣٦ کو بادشاہ حسب سابق چند خاص درباریوں کے ساتھ مبارک آباد گیا اور عمارتوں
کی سیر و تفریح کرکےجمعہ کی نماز کے لئے تیاری کرنے لگا اس وقت اس کے نمک خوار غلاموں
نے نمک حرامی کی اور یہ جماعت جس میں میراں
صدر اور قاضی عبدالصدر اور کانکو کا بیٹا سدران شامل تھا یہاں آئے ۔ ہندوؤں کی ایک
مسلح جماعت کے ساتھ میراں صدر اور قاضی الصدر تو اندر چلے گئے اور سدران مع کچھ لوگوں
کے باہر رہا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے ۔ بادشاہ نے ان لوگوں کو ھتیاربندن دیکھا مگر
اس کے دل میں کوئی برا خیال نہ گزرا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھا رہا ہیلو بادشاہ کے
نزدیک پہنچے اور سدپال نے تلوار کھینچ کر ماری اور بادشاہ کے سر پر کاری ضرب لگی اور
اس کے ساتھ ہی دوسرے ہمراہیوں نے بادشاہ پر پے در پے کئی وار کیے جس سے بادشاہ شہید
ہوگیا افسوس کے اس موذی جماعت نے ایک مدبر اور منصف مزاج بادشاہ کو ختم کردیا ۔ میراں
صدر کی یہ جرات کہ بادشاہ کی خون میں بھری بھی لاش وہیں رہنے دی اور خود فورا سرور
الملک کے پاس گیا اور کہا کہ وعدے کے مطابق میں نے اپنا فرض پورا کیا سرور ملک نے تو
محمد شاہ کو بادشاہ بنانے کا منصوبہ پہلے ہی تیار کر رکھا تھا ۔ سلطان مبارک شاہ اچھا
اور کامیاب حکمران تھا اس نے 13 سال تین مہینے اور 16 دن تک حکومت کی نہایت عقل مند
اور بااخلاق تھا اس نے اپنے عہد حکومت کے پورے عرصہ میں اپنے منہ سے کوئی بد کلمہ نہ
نکالا کبھی کسی کو گالی نہ دی مکروہات سے بہت دور بھاگتا تھا سلطنت کے سارے کاموں کو
خود سرانجام دیتا اور خود ان کی تخلیق کرتا تھا ذمہ داری کا امراء پر کبھی نہیں چھوڑتا
تھا "تاریخ مبارک شاہی" اسی نامی گرامی بادشاہ کے نام سے مشہور ہے ۔
No comments:
Post a Comment