Wednesday, 3 July 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 21

سلاطین بہمنیہ 1347 سے 1526
سلطان علاوالدین حسن گانگو بہمنی


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی 
ضلع بلگام کرناٹک 
8105493349

سلطان محمد بن تغلق نے 1342ء میں ظفر خان کو جنوبی ہند کا صوبہ دار مقرر کیا- اس نے دکن کے سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر مرکز سے علیحدگی اختیار کی اور 1347ء میں علاء الدین حسن گنگو بہمنی کا لقب اختیار کر کے آزاد بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔(بیدر کے ممتاز مؤرخ محمد عبد الصمدبھارتی لکھتے ہیں ٰٰٰٰاس نے یعنی سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں اپنے داماد سرءیرسلطانی عمادالملک کو ناءب مقرر کیا سندھ اور پنجاب میں بغاوت فرو کرنے میں مصروفیت کی وجہ خود سلطان دکن نہ آ سکا .امراءے صدہ نے پہلے اسمٰعیل مُخ کو اور بعد میں نوجوان سردار حسن ظفر خان کو اپنا امیر چن لیا۔ اس نے بیدر کے قریب سلطانی فوج کو شکست دی اور عمادالملک جو شجاعت اور مردانگی میں ضرب المثل تھا 'اتفاقاً مارا گیا۔ اس نے یعنی سردار حسن ظفر خان نے 1347ء میں دولت آباد میں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی"(بیدر کے آثارِ قدیمہ۔ ص 16) بہمنی سلطنت میں چار بادشاہ ہوئے جنہوں نے بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ یہ سلطنت وجئے نگر کی ہندو مملکت سے اکثر بر سر پیکار رہتی تھی۔ بہمنی سلاطین نے دکن میں زراعت تعلیم اور عمارات پر بڑی توجہ دی۔ اس عہد میں دکن میں اردو زبان نے بھی نشو و نما پائی اور اسلام بھی خوب پھیلا۔ 1490ء کے قریب بہمنی سلطنت کو زوال آنا شروع ہوا۔ 1538ء تک اس کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے کھنڈروں پر پانچ چھوٹی سلطنتوںبرید شاہی سلطنت، عماد شاہی سلطنت، نظام شاہی سلطنت، عادل شاہی سلطنت اور قطب شاہی سلطنت کی بنیادیں رکھی گئیں۔


نام
دور حکومت
دہلی سلطنت کے سلطان، محمد بن تغلق سے خود مختاری-
13 اگست1347ء تا 11 فروری 1358ء
فروری 1358ء تا 21 اپریل 1375ء
21 اپریل 1375ء تا 16 اپریل 1378ء
16 اپریل 1378ء تا 21 مئی 1378ء
12 مئی 1378ء تا 20 اپریل 1397ء
20 اپریل 1397ء تا 14 جون 1397ء
لاچین خان ترک کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
14 جون 1397ء تا 16 نومبر 1397ء
16 نومبر 1397ء تا 22 ستمبر 1422ء
22 ستمبر 1422ء تا 17 اپریل 1436ء
17 اپریل 1436ء تا 6 مئی 1458ء
6 مئی 1458ء تا 4 ستمبر 1461ء
4 ستمبر 1461ء تا 30 جولائی 1463ء
محمد شاہ بہمنی دوم،محمد شاہ لشکری
30 جولائی 1463ء تا 26 مارچ 1486ء
26 مارچ 1486ء تا 7 دسمبر 1518ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
7 دسمبر 1518ء تا 15 دسمبر 1520ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
15 دسمبر 1520ء تا 5 مارچ 1523ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
5 مارچ 1523ء تا 1526ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
1526ء تا 1538ء
پانچ چھوٹی سلطنتوں برید شاہی، عماد شاہی، نظام شاہی، عادل شاہی اور قطب شاہی میں بٹ گئی-

حسب و نسب 

اس بادشاہ کے حسب و نسب کے بارے میں مختلف مورخوں نے مختلف طرح سے خیال آرائی کی ہے لیکن جو بات سب سے زیادہ حقیقت کا پہلو رکھتی ہے اور قرین قیاس بھی ہے فرشتہ نے اسی پر اکتفا کی ہے اور خواہ مخواہ تحریر کو طول دینے سے گریز کیا ہے ۔ ہاں برسبیل تذکرہ لکھ دیا ہے کہ بعض مورخوں کا خیال تھا کہ ایک شخص جس کا نام حسن تھا اور دارالسلطنت دہلی میں ایک آدمی گنگو براہمن منجم کا ملازم تھا یہ منجم محمد تغلق کا اس وقت مقرب خاص تھا جب وہ زمانہ شہزادگی میں تخت دہلی کا وارث ہوا ۔ حسن کو ہمیشہ معاشی مشکلات کا سامنا رہتا تھا اور وہ اپنی تنگ دستی سے کسی حد تک پریشان بھی ہو گیا تھا ۔ لہذا ایک دن تنگ آکر اس نے گنگو برہمن سے فکر معاش کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اس کو کوئی ایسی نوکری روزگار مل جائے جس سے اپنا کفیل ہو سکے اور غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے ۔ گنگو نے اس کے ساتھ یہ ہمدردی کی کے نواح دہلی میں اس کو بنجر زمین کا ایک ٹکڑا ایک جوڑی بیل اور کام کرنے کے لیے دو مزدور دیے تاکہ وہ اس زمین پر کھیتی باڑی کرکے اپنا پیٹ پال سکے مزدور نے زمین کو کاشت کے لیے کھودنا شروع کیا ۔ 

ایک دن مزدور زمین میں ہل چلا رہے تھے کہ حل کی نوک زمین کے اندر پھنس گئی مزدوروں نے حسن کو جاکر بتایا اور بعد میں نکالنے پر معلوم ہوا کہ ہل کی نوک ایک زنجیر سے پھنس گئی تھی اور زنجیر ایک بڑے برتن کے منہ سے بندھی ہوئی ہے برتن کو کھود کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ علائی عہد کے سونے کے سکے اور اشرفیاں اس میں لبالب بھری ہوئی ہے ۔ حسن کی ایمانداری نے یہ قبول نہ کیا کہ آقا کی دی ہوئی زمین کے مال میں خیانت کرے لہذا اس نے اس ساری دولت اس برتن کی چادر میں باندھی اور گنگو کے مکان پر پہنچا اور اس سے سارا ماجرہ بیان کیا ۔ گنگو نے حسن کی ایمانداری کی تعریف کی اور صبح ہوتے ہی اس نے یہ سارا واقعہ محمد تغلق کے سامنے لفظ بلفظ بیان کردیا شہزادہ محمد کو حسن کی ایمانداری اور سچائی پر بہت حیرت ہوئی اور اس نے اپنے دربار میں حسن کو طلب کیا ۔ شہزادہ کو بھی حسن کا حلیہ اس کا رنگ ڈھنگ بہت پسند آیا اور اس نے اپنے والد سلطان غیاث الدین تغلق کو یہ تمام حالات بتائے بادشاہ غیاث الدین تغلق بھی حسن کے اچھے کردار سے بہت متاثر ہوا اور اس کو شاہانہ نوازشات سے سرفراز کیا اور یک صدی کے زمرہ میں شامل کرلیا ۔ 

لفظ بہمنی کی اصل 

ایک دن گنگو برہمن نے حسن سے کہا کہ تمہاری قسمت کا زائچہ بتاتا ہے کہ تم کسی دن بہت بلند اقبال اور باعزت بنو گے اور خدا کے کرم سے کسی اونچے عہدے پر پہنچ جاؤ گے کہنے کے بعد اس نے عہد کر لیا اگر خدا تجھے کوئی باعزت عہدہ دنیا میں عطا کرے تو تم میرا نام بھی اپنے نام کا جزو بنا کر لکھنا تاکہ تمہاری وجہ سے میرا نام بھی حیات جاوداں حاصل کر لے ۔ دوسرا وعدہ یہ لیا کے خزانچی کے عہدہ پر مجھے اور میرے بعد میری اولاد کے سوا کسی اور کو نہ رکھنا حسن نے اپنے محسن کے دونوں وعدوں پر مہر صداقت ثبت کی اور بغیر کوئی بلند عہدہ ملنے ہیں اس نے اپنے نام کے ساتھ گنگو بہمنی لکھنا شروع کیا اور اپنا نام حسن گنگو بہمنی لکھنے لگا ۔ 

  دکن کی حکمرانی 

حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہ کے آستانہ پر ایک دن ہر خاص و عام کی دعوت تھی دسترخوان پر طرح طرح کی کھانے چنے ہوئے تھے اور اس دعوت شیراز میں ہر ایک کو شرکت کرنے کی اجازت تھی لہذا شہزادہ محمد تغلق بھی اس دعوت میں شریک ہوا تاکہ تمام بزرگوں کے فیض صحبت سے مستفید ہو ۔ جب محمد تغلق نیز دیگر مہمان کھانا کھا کر چلے گئے اور دستر خوان اٹھا دیا گیا تب حسن گنگو حضرت شیخ نظام الدین کے آستانے پر پہنچا تاکہ حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل کرے ۔ لیکن اس سے پہلے ہی حضرت کو اپنے انوار باطن سے اس کے آنے کی خبر ہوگئی تھی اس کے آنے کی اطلاع ملے بغیر ہی انہوں نے اپنے ملازم سے کہا ایک شخص جو نہایت شریف باطن اور شکل و صورت سے بھی شرافت و نیکی کی تصویر ہے باہر کھڑا ہے اس کو بلاکر لاؤ ۔ ملازم حسن گنگو کو لینے کے لئے باہر گیا مگر اسے پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں دیکھ کر اس کو اعتبار نہ آیا کہ یہی وہ شخص ہوگا جس کو حضرت نے طلب فرمایا ہے اس نے بارگاہ حضرت میں واپس آکر عرض کیا کہ دروازے پر کوئی بھی آدمی نہیں ہے ہاں ایک مفلوک الحال اور پریشان شخص کھڑا ہوا ہے ۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ ہاں وہی شخص ہے جو بظاہر فقیر معلوم ہو رہا ہے لیکن درحقیقت دکن کا تاجدار ہوگا غرض کے حسن گنگو حضرت شیخ کی خدمت میں آیا اور شرف ملاقات حاصل کیا حضرت نے حسن پر بہت مہربانی کی اور اس سے پرسش احوال کی چونکہ کھانا ختم ہوچکا تھا لہذا حضرت شیخ نے اپنے افطار کے لئے جو روٹی رکھی تھی اس میں سے تھوڑی سی روٹی اپنی انگلی کے سرے پر رکھ کر حسن کو دی اور کہا کہ دکن کے حکمرانی کا تاج ہے جو بہت کشمکش محنت اور عرصہ دراز کے بعد تیرے سر پر رکھا جائے گا ۔ تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 540

رحلت
موت کا یقین ہو جانے کے بعد بادشاہ نے قصداً علاج معالجے سے ہاتھ اٹھایا اور موت کے لیے سراپا انتظار بن کر بیٹھ گیا اسی دوران میں ایک دن حسن نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے محمود کو سامنے نہ پا کر پوچھا کہاں ہےجواب ملا کہ مکتب میں اپنا سبق پڑھ رہا ہے اس کو بلوا کر بادشاہ نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو اس پر شہزادہ محمود نے جواب دیا کہ آجکل حضرت شیخ سعدی شیرازی کی بوستان پڑھ رہا ہوں ۔ اس پر بادشاہ نے سوال کیا کہ کون سی حکایت پڑھ رہے ہو شہزادے نے ایک حکایت پڑھی جس میں حضرت شیخ سعدی نے بادشاہ ایران کی زبان سے دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا ہے ۔ بادشاہ نے اس شکایت کا تیسرا شعر غور سے سنا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہر ایک نے اپنی ہمت اور بہادری سے تمام دنیا کو فتح کر لیا مگر جب دنیا سے گیا تو خالی ہاتھ اور قبر میں اپنے ساتھ کچھ نہ لے گیا ۔ بادشاہ نے جب اے سنا تو بہ آواز بلند رونے لگا اور اپنے دوسرے بیٹوں کو بھی بلوایا اور نصیحت کی کہ اپنے بڑے بھائی کو میرا ولی عہد سمجھ کر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت اپنا فرض سمجھنا ۔ اس کے بعد خزانچی کو بلوایا اور تمام اثاثہ خزانہ شاہی سے منگوا کر اپنے بیٹوں کو دیا کہ جاکر جامع مسجد میں حنفی مذہبی علماء میں یہ تقسیم کر دو ۔ شہزادوں نے اس کے حکم کے بموجب عمل کیا اور سارا مال تقسیم کر دیا اس کے بعد واپس آئے اور بادشاہ کو اطلاع دے دی بادشاہ نے سن کر سکون اور اطمینان کا سانس لیا اور اس کے بعد راہی ملک عدم ہوا ۔ بادشاہ نے پورے گیارہ سال دو مہینے سات دن تک حکومت کی یکم ربیع الاول ٧۵٩ھ کو انتقال کیا اس نے 67 سال کی عمر پائی۔

No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...