Thursday, 11 July 2019





محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 22
خاندان مغلیہ سے پہلے ہند کے حالات

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


بابر کے حملہ کے وقت سلاطین دہلی کی حالت کمزور ہوچکی تھی سلطنت دہلی برائے نام رہ گئی تھی اور ہندوستان میں مندرجہ ذیل خودمختار ریاستیں قائم ہوگئی تھی۔
شمالی ہند میں بنگال بہار جونپور کشمیر ملتان سندھ مالوہ گجرات اور میواڑ کے ریاستیں تھیں دکن میں بہمنی سلطنت اور وجے نگر کی مشہور ریاستیں تھیں

بہمنی سلطنت
سے 15261347

سلطنت بہمنی کا بانی ظفر خان نامی ایک افغان سردار تھا اس نے محمد تغلق کے عہد حکومت میں ،1347 میں اس سلطنت کی بنیاد ڈالی اور علاوالدین حسن بہمنی کے لقب سے حکومت کرنے لگا اس نے گلبرگہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا اس خاندان کی حکومت کوئی ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی ۔ اس کے افسر بادشاہ اپنی ہمسائی ہندو ریاست وجے نگر سے لڑتے رہتے تھے اس میں چودہ بادشاہ ہوئے ان میں احمد شاہ اور محمد شاہ بہت مشہور تھے احمد شاہ نے تلنگانہ کا علاقہ فتح کیا اس کے عہد میں محمودگاواں سب سے مشہور ہوا ۔ او بڑا عقلمند اور مدبر تھا اس نے خاندان کو بہت عروج دیا اس نے بیدر میں ایک کالج کھولا اور انتظام سلطنت میں بہت سی اصطلاحات کیں ۔ مگر حاسدوں نے جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل کروا دیا اس کی وفات کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی اور چند ہی سالوں کے اندر ریاست پانچ حصوں میں بٹ گئی

عادل شاہی سلطنت 1489 میں یوسف عادل شاہ نے ریاست بیجاپور کی بنیاد ڈالی آخر 1686 میں اورنگزیب نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا ۔


نظام شاہی سلطنت 1486 میں احمد ملک ایک صوبیدار نے احمد نگر کی بنیاد ڈالی مشہور چاند بی بی جس نے بڑی بہادری سے اکبر کی فوج کا مقابلہ کرکے شہر کو بچائے رکھا اسی خاندان سے تھیں اس ریاست کا ایک اور مشہور بادشاہ ملک عنبر تھا آخر 1637 میں شاہجہان نے اس کا خاتمہ کیا .


قطب شاہی سلطنت قطب الملک نے 1512 میں ریاست گولکنڈہ کی بنیاد ڈالی1687 میں اورنگزیب نے اس کو فتح کیا  ۔


عماد شاہی سلطنت ریاست عماد کی بنیاد عماد شانے رکھی اس کا دارالخلافہ ایلیچ پور تھا 1572 میں احمد نگر کے بادشاہ نے اسے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا


برید شاہی سلطنت 1497 میں قاسم فرید نے برید ریاست کی بنیاد ڈالی آخر 1657 میں اورنگزیب نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔


سلطنت وجے نگر
 1336 سے  1565

1336 میں ہری ہر اور بکارائے دو بھائیوں نے سلطنت وجے نگر کی بنیاد محمد تغلق کے زمانہ میں ڈالی یہ دکن میں بہمنی سلطنت کے جنوب میں واقع تھی اس سلطنت نے بہت ترقی کی اور دریائے کرشنا سے لے کر راس کماری تک پھیل گئی  ۔ ان کے وزیر مادھو آچاریہ نے ان کی انتظام سلطنت میں بہت مدد کی وہ سنسکرت کا بڑا فاضل تھا اس نے ویدوں اور دیگر مذہبی کتابوں کی شرح لکھی ہے ۔ سلطنت مجھے نگر پر 19 بادشاہوں نے دو سو سال سے کچھ زیادہ حکومت کی اس سلطنت کے راجے اکثر اپنی ہمسایہ بہمنی سلطنت کے بادشاہوں سے لڑتے رہتے تھے اس سلطنت کا سب سے مشہور راجہ کرشنا دیورائے ہوا ہے جس نے 1509 سے 1539 تک حکومت کی تھی ۔ وہ ایک قابل بادشاہ ہونے کے علاوہ اچھا شاعر اور مصنف بھی تھا اس کے عہد میں رعایا بڑی خوشحال اور فارغ البال تھی اس نے اڑیسہ گولکنڈا اور بیجاپور کی ریاست کو شکست دے کر ان کا بہت سا علاقہ ہے اپنی سلطنت میں شامل کیا اس نے رعایا کے لئے بہت سے مندر بنوائے اور آبپاشی کے لئے نہریں کھدوائیں اور پرتگیزوں سے دوستانہ تعلقات بنائے ۔

تالی کوٹہ کی جنگ
1565


اس خاندان کا آخری حکمران رام راجہ تھا وہ بڑا مغرور بد دماغ شخص تھا اس نے بہمنی سلطنت کے مختلف ریاستوں کو آپس میں لڑانے کی پالیسی اختیار کی آخر بیجاپور گولگنڈا احمد نگر اور بیدر کی اسلامی ریاستوں نے متحد ہو کر اس پر حملہ کر دیا ۔ 1565 میں تالی کوٹ کے مقام پر گھماسان کی لڑائی ہوئی ۔ راجہ رام شکست کھا کر قتل ہوا اس لڑائی میں کوئی ایک لاکھ ہندو مارے گئے مسلم فوجوں نے پانچ ماہ تک وجئے نگر کو خوب لوٹا عمارتوں کو گرایا اور شہر کو جلایا اس طرح اس عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ ہوا ۔

انتظام سلطنت

وجے نگر کے راجہ مطلق العنان تھے تمام سلطنت دو سو صوبوں میں تقسیم تھی اور ہرصوبہ دار حسب منشا مطلق العنان تھا وہ جنگ کے موقع پر اپنے راجہ کی فوج اور روپیہ سے پوری مدد کرتا ذرعت کے لئے بند اور نہریں بنی ہوئی تھی قوانین سخت اور سزائے سنگین تھی آمدنی کا بڑا ذریعہ لگان تھا پیداوار کا چوتھائی حصہ نقدی میں لیا جاتا تھا ریاست میں دس لاکھ فوج تھی ریاعا خوشحال تھی ۔

شہر وجے نگر کی عظمت

شہر وجےنگر ریاست کا دارالخلافہ اور عالیشان شہر تھا ایرانی سفیر عبدالرزاق نے جو 1443  میں یہاں آیا ۔ اس شہر کی بڑی تعریف لکھی ہے وہ لکھتا ہے کہ وجے نگر ایک نہایت ہی خوبصورت اور متمول شہر تھا ۔ اور 60 میل کے گہرا میں پھیلا ہوا ہے اس کے گرد مضبوط فصیل تھی جس میں سات برج تھے بازاروں کی رونق قابل دید تھی لوگ سرے بازار جواہرات کی خرید و فروخت کرتے تھے اس میں نہایت عالی شان محل اور مندر بنے ہوئے تھے ۔

ہندومت اور اسلام کا باہمی اثر
ہندو مسلمانوں کے میل جول کا نتیجہ

جب اسلامی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی تو مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ رہنا شروع کردیا اس لیے دو قوموں کے مذہب رسم و رواج اور عادات نے ایک دوسرے پر اثر ڈالا

دونوں قومیں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کے بجائے ہمدردی سے رہنے لگی

کئی ہندو حلقے اسلام میں داخل ہوگئے اس کے علاوہ کئی ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادیاں کر لیں اس طرح ہندوؤں کے رسم و رواج مسلمان گھروں میں پہنچ گئے

ہندوؤں میں پردہ کا رواج ہوا بچپن کی شادی جاری ہوئی اور رسمی ستی کا آغاز ہوا

ہندو لوگ ہندی بولتے تھے مسلمانوں کی زبان فارسی تھی آہستہ آہستہ دونوں زبانوں کے میل جول سے ایک نئی زبان اردو پیدا ہوئی جس نے بعد میں بڑی ترقی حاصل کی

مذہب اسلام کا نمایاں اثر یہ ہوا کہ ہندوؤں میں چھوت چھات کو چھوڑنے اور خدا کی وحدانیت پر زور دیا جانے لگا جس کا اثر یہ ہوا کہ دونوں قوموں سے تعصب کم ہوگیا اس طرح ملک میں بھگتی تحریک نام کی ایک نئی تحریک شروع ہوئی ۔

بھکتی کی تحریک  

بھکتی کے معنی ایک ایشور کی محبت اور عبادت میں محو ہونا کے ہیں بھکتی کی تحریک سے مراد او تحریک ہے جس میں افغان بادشاہوں کے ماتحت ہندوؤں میں چھوت چھات کودورکرنے ایک ایشور کی عبادت کرنے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور رواداری پیدا کرنے پر زور دیا گیا  ۔

اس بھکتی مت کی تحریک نے پندرہویں اور سولہویں صدی میں بہت زور پکڑا اس کی تعلیم مختصر طور پر یہ تھی کہ خدا ایک ہے مگر اس کے نام مختلف ہیں ہر انسان کو خدائے واحد کی پوجا کرنی چاہیے اس نے بت پرستی کے خلاف آواز اٹھائیں اور بہت برا قرار دیا ۔

بھکتی مت کا اثر

اس تحریک سے ہندوؤں میں وحدانیت اور مساوات کا پرچار ہوا چھوت چھات کم ہوگی نیچی ذات کے لوگوں سے بہتر سلوک ہونے لگا جس سے ہندو اسلام میں جذب ہونے سے بچ گئے سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ دونوں قوموں میں محبت اور رواداری پیدا ہوگی ۔

بھکتی مت کے پیشوا

بھکتی مت کے پیشواؤں میں سے مندرجہ ذیل زیادہ مشہور ہیں

رامانج
 ان کا جنم 1150 میں مدراس میں ہوا آپ نے دکن میں وشنومت کا پرچار کیا اور لوگوں کو بھکتی کے ذریعے نجات کا راستہ بتایا ۔


رامانند
آپ تیرہویں صدی میں پیدا ہوئے آپ رامانج کے شاگرد تھے آپ نے شمالی ہند میں وشنومت کا پرچار کیا آپ کا خیال تھا کہ مکتی حاصل کرنے میں ذات کو دخل نہیں اس لیے شودر اور نیچی ذات کے لوگ آپ کی بڑی عزت کرتے تھے ۔راما آنندی فرقے کی کتاب ناتھ جی کی بھگت مالا ان کی مشہور تصنیف ہے ۔


ولبھ اچاریہ 
آپ بلبھی فرقہ کے بانی تھے آپ نے پندرہویں صدی کے آخر میں بھکتی کا پرچار کیا آپ شری کرشن کو وشنو کا اوتار مانتے تھے ان کا خیال تھا کہ وہ وشنو کو خوش کرنے کا طریقہ فاقہ مستی اور جسمانی تکالیف نہیں اس لئے امیر لوگ ان کے ہیرو بن گئے آج کل بھی گجرات بمبئی اور راجپوتانہ میں ان کے پیرو پائے جاتے ہیں ۔


چیتنیہ
آپ 1485 میں ندیا واقعہ بنگال میں پیدا ہوئے آپ کرشن جی کے زبردست بھکت تھے آپ ہندوستان کے مختلف مقامات کا دورہ کرکے کرشن بھگت کا پرچار کرتے رہے اب بھی بنگال اڑیسہ میں ہزاروں آدمی اس کے پیروموجود ہیں ۔


کبیر
آپ 1380 میں پیدا ہوئے اور 1420 میں فوت ہوئے آپ کی ماں برہمن تھی مگر آپ کی پرورش ایک مسلمان جولاہے نے کی تھی آپ رامانند کے چیلے تھے آپ نے پندرہویں صدی میں سکندر لودی کے عہد میں بھکتی کی تحریک کا پرچار کیا آپ ذات پات اور بت پرستی کے سخت مخالف تھے آپ نے دونوں قوموں کو مذہبی رواداری کی تعلیم دی آپ کے پیروکبیر پنتی کہلاتے ہیں ۔


گرو نانک
آپ ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں 1469 میں پیدا ہوئے آپ بت پرستی اور ذات پات کے سخت مخالف تھے آپ کا اعتقاد تھا کہ مذہب و ملت کا جھگڑا بے معنی ہے انسان کو ایک ایشور کی پوجا کرنی چاہیے آپ نے ہندو مسلمانوں میں باھمی رواداری کا پرچار کیا آپ نے سکھ مذہب کی بنیاد ڈالی آپ نے ،1538 میں وفات پائی .



No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...