محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 23
خاندان ِمغلیہ
ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ غازی1526 سے 1530
آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349
خاندان مغول یا سلسلہ مغل یا آل تیموری یا گورکانیان
تصویر
|
لقب
|
پیدائشی نام
|
پیدائش
|
دورِ حکومت
|
وفات
|
نوٹس
|
|
بابر
|
ظہیر الدین محمد
|
23 فروری 1483
|
30 اپریل 1526ء – 26 دسمبر 1530ء
|
26 دسمبر 1530
(عمر 47)
|
|
|
ہمایوں
|
نصیر الدین محمد ہمایوں
|
17 مارچ 1508
|
26 دسمبر 1530ء – 17 مئی 1540ء
22 فروری 1555ء – 27 جنوری 1556ء
|
27 جنوری 1556
(عمر 47)
|
|
اکبر اعظم
|
جلال الدین محمد اکبر
|
14 اکتوبر 1542
|
27 جنوری 1556 – 27 اکتوبر 1605
|
27 اکتوبر 1605ء
(63 سال)
|
||
|
جہانگیر
|
نور الدین محمد سلیم
|
20 ستمبر 1569
|
15 اکتوبر 1605 – 8 نومبر 1627
|
8 نومبر 1627
( 58 سال)
|
|
|
شاہ جہان اعظم
|
شہاب الدین محمد خرم
|
5 جنوری 1592
|
8 نومبر 1627 – 2 اگست 1658
|
22 جنوری 1666
( 74 سال )
|
|
|
عالمگیر
|
محی الدین محمداورنگزیب
|
4 نومبر 1618
|
31 جولائی 1658 – 3 مارچ 1707
|
3 مارچ 1707
(88 سال)
|
|
|
اعظم شاہ
|
28 جون 1653
|
14 مارچ 1707 – 8 جون 1707
|
8 جون 1707
( 53 سال)
|
||
|
بہادر شاہ
|
14 اکتوبر 1643
|
19 جون 1707 – 27 فروری 1712
(4 سال، 253 دن)
|
27 فروری 1712 (عمر 68)
|
||
|
جہاں دار شاہ
|
9 مئی 1661
|
27 فروری 1712 – 11 فروری 1713
(0 سال، 350 دن)
|
12 فروری 1713 (عمر 51)
|
||
|
فرخ سیر
|
20 اگست 1685
|
11 جنوری 1713 – 28 فروری 1719
(6 سال، 48 دن)
|
29 اپریل 1719 (عمر 33)
|
||
|
رفیع الدرجات
|
30 نومبر 1699
|
28 فروری – 6 جون 1719
(0 سال، 98 دن)
|
9 جون 1719 (عمر 19)
|
||
|
شاہجہان ثانی
|
جون 1696
|
6 جون 1719 – 19 ستمبر 1719
(0 سال، 105 دن)
|
19 ستمبر 1719 (عمر 23)
|
----
|
|
|
محمد شاہ
|
17 اگست 1702
|
27 ستمبر 1719 – 26 اپریل 1748
(28 سال، 212 دن)
|
26 اپریل 1748 (عمر 45)
|
||
|
احمد شاہ بہادر
|
23 دسمبر 1725
|
26 اپریل 1748 – 2 جون 17
|
1 جنوری 1775 (عمر 49)
|
||
|
عالمگیر ثانی
|
6 جون 1699
|
2 جون 1754 – 29 نومبر 1759
(5 سال، 180 دن)
|
29 نومبر 1759 (عمر 60)
|
||
|
شاہجہان ثالث
|
1711
|
10 دسمبر 1759 – 10 اکتوبر 1760
|
1772
|
||
|
شاہ عالم ثانی
|
25 جون 1728
|
24 دسمبر 1759 – 19 نومبر 1806 (46 سال،
330 دن)
|
19 نومبر 1806 (عمر 78)
|
||
|
اکبر شاہ ثانی
|
22 اپریل 1760
|
19 نومبر 1806 – 28 ستمبر 1837
|
28 ستمبر 1837 (عمر 77)
|
||
|
بہادر شاہ ثانی
|
24 اکتوبر 1775
|
28 ستمبر 1837 – 14 ستمبر 1857 (19 سال،
351 دن)
|
7 نومبر 1862
|
انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کو جنگ آزادی ہند 1857ء میں شکست دینے
کے بعد مکمل طور پر قبضہ بھی کر لیا اور خاندان مغول کو برطرف کر دیا
|
| |
دور حکومت
|
30 اپریل 1526 (قدیم تقویم) — 26 دسمبر 1530
(قدیم تقویم)
|
تاج پوشی
|
رسمی تاجپوشی نہیں ہوئی
|
بابر
|
|
خطاب
|
|
معلومات شخصیت
|
|
پیدائش
|
|
وفات
|
|
مدفن
|
|
تاریخ دفن
|
1531
|
شہریت
|
|
مذہب
|
|
زوجہ
|
|
اولاد
|
مرزا ہندال، گلبدن بیگم، نصیر الدین
محمد ہمایوں، کامران مرزا، عسکری مرزا، فخر النسا، گل چہرہ بیگم، التون
بشیک
|
نسل
|
|
خاندان
|
|
دیگر معلومات
|
|
پیشہ
|
|
کارہائے نمایاں
|
مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر مغل قوم سے تھا اس کا باپ عمر
شیخ مرزا ترکستان کی ایک چھوٹی سی ریاست فرغانہ کا حکم تھا ۔ 1483 میں پیدا ہوا ۔
وہ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا وہ ابھی بارہ
برس کا نہ ہوا تھا کہ اس کا باپ مر گیا اور سلطنت کا تمام بوجھ اس کے سر پر آ پڑا
اس کے چچا نے چڑھائی کی اور شکست دے کر اس کی سلطنت پر قبضہ کرلیا لیکن اس نے ہمت
نہ ہاری اور بہادری سے مصیبتوں کا مقابلہ کرتا رہا اور اس طرح دس سال گزار دیئے ۔ آخر
اپنے وطن کو چھوڑ کر 1504 میں افغانستان چلا گیا ۔ یہاں اس کی قسمت نے ساتھ دیا
اور کابل کا بادشاہ بن گیا اس نے 1504 سے 1526 تک کابل پر حکومت کی ۔ اس عرصہ میں
اس نے غزنی بدخشاں اور قندھار کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اس نے پانی
پت کی لڑائی سے پہلے ہندوستان پر تین دفعہ حملے کیے مگر پنجاب سے آگے نہ بڑھ سکا
آخر 1526 میں پانی پت کی لڑائی میں فتح حاصل کر کے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا
بانی ہوا ۔
پانی پت کی پہلی لڑائی 1526
وجہ
ابراہیم لودی کے سلوک سے تمام امراءتنگ تھے اس لئے دولت خان لودھی
حاکم پنجاب اور رانا سانگا والیے میواڑ نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت
دی گئی ۔
واقعات
بابر بارہ ہزار سپاہیوں اور توپ خانہ کے ساتھ ابراہیم لودھی کے
مقابلہ کے لیے پانی پت میں آ موجود ہوا ابراہیم کے پاس ایک لاکھ سپاہی اور دو ہزار
جنگجو ہاتھی دے مگر ابراہیم کوئی اعلیٰ پایا کا جرنیل نہ تھا ۔ آخر ٢١ اپریل ١۵٢٦ کو بڑے گھمسان کی
لڑائی ہوئی ہندوستان میں یہ پہلا موقع تھا کہ توپ خانہ کا استعمال ہوا ابراہیم کے
ہاتھی گولا باری سے ڈر کر بھاگ نکلے ابراہیم کو شکست ہوئی اور چالیس ہزار سپاہیوں
سمیت جنگ میں قتل ہوا اس سے بابر دہلی اور آگرہ کا بادشاہ بن گیا ۔
جنگ کنواہہ 1527
راجپوتوں کا خیال تھا کہ بابر بھی امیر تیمور کی طرح لوٹ مار کر کے
واپس چلا جائے گا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ہندوستان میں ایک مستقل
حکومت قائم کرنے کا ہے تو انہوں نے راناسانگا والئے چتوڑ کی سرگردگی میں بابر کے
خلاف جنگ چھیڑ دی اور یہ جنگ بابر اور راناسانگا کے درمیان سیکری کے قریب کے
کنواہہ کےمیدان میں 1527 میں ہوئی ۔ اس لڑائی میں راناسانگا والئے میواڑ نے سب
راجپوت راجاؤں کو بابر کے خلاف شامل ہونے کے لئے بلایا ۔ ایک لاکھ راجپوت بابر کے
مقابلہ کے لیے آموجود ہوئے راناسانگا بڑا جواں مرد اور بہادر جرنیل تھا اور کئی
لڑائیوں میں جوانمردی کے جوہر دکھا چکا تھا اس کے جسم پر اسی
زخموں کے نشانات موجود تھے راجپوتوں کی اتنی بڑی فوج
دیکھ کر بابر کے سپاہی بہت گھبرائے ۔ مگر بابر نے بڑے حوصلہ سے کام لیا اور ایک جوشیلی
تقریر کرکے اپنی فوج کی ہمت بڑھائی اور قسم کھائی کہ وہ آئندہ کبھی شراب نہ پیئے
گا ۔ اس لڑائی میں راجپوتوں نے جان توڑ کر مقابلہ کیا لیکن بابر کے توپ خانوں کے سامنے ان کی کوئی نہ چلی ۔ راجپوتی سپاہ کے پاؤں اکھڑ گئے
اور بابر کو فتح نصیب ہوئی ۔
فتح چندیری 1528
1528 میں بابر نے چندیری کے مضبوط قلعہ پر حملہ کیا اس پر رانا سانگا کے باقی
ماندہ راجپوت سردار میدنی رائے کے ساتھ موجود تھے ۔ یہ ابھی راجپوتوں نے خوب
مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور اس قلعہ پر بابر کا قبضہ ہوگیا اس لڑائی کے بعد
راجپوتوں کی طاقت کا خاتمہ ہوگیا ۔
گھاگرا کی لڑائی 1529
راجپوتوں کی طرف سے جب بابر کو کوئی خطرہ نہ رہا تو اس نے بنگال اور
بہارکے افغان سرداروں کو دریائے گھاگھرا کے کنارے پر 1529 میں ہرایا ۔اور بیھار پر
قبضہ کرلیا لیکن نصرت شاہ حاکم بنگال نے بابر کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کر لئے
اور اپنی سلطنت کو بچالیا ۔
بابر کی موت
1530 میں بابر کا سب سے بڑا بیٹا ہمایوں سخت بیمار ہوا شاہی حکماء علاج کرتے
ہوئے تھک گئے کہتے ہیں کہ جب ہمایوں کے بچنے کی امید باقی نہ رہی تو بابر نے اپنے
بیٹے ہمایوں کی چارپائی کے گرد تین دفعہ چکر لگایا اور خدا سے دعا کی کہ ہمایوں کی
بیماری مجھے لگ جائے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی وقت سے ہمایوں تندرست ہوتا گیا
اور بابر بیمار پڑ گیا اور ،1530 میں مر گیا اس کی نعش اس کی وصیت کے مطابق کابل
میں لے جا کر دفن کر دی گئی ۔
بابرکا چال چلن
بابر ناصرف غضب کا بہادر اور دلیر سپاہی تھا بلکہ تجربہ کار جرنیل
بھی تھا وہ زبردست تیراک ۔ مشہور تیر انداز اور گھوڑے کی سواری کا شائق تھا وہ
اتنا طاقتور تھا کہ دو آدمیوں کو بغل میں دبا کر آگرہ کے قلعہ کی فصیل پر بھاگ
سکتا تھا اس کی تمام عمر مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھانے میں گزری لیکن وہ بڑا صابر
مستقل مزاج اور زبردست قوت ارادی کا مالک تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تکلیفوں کی
کچھ پروا نہ کی بابر پہلے مغل بادشاہوں کی طرح بے رحم نہ تھا بلکہ وہ رحم دل اور
رعایہ کا ہمدرد بادشاہ تھا ۔ بابر ایک اچھا مصنف اور شاعر بھی تھا
وہ علم ادب کا مربی اور علماء کی مجلس کا مشتاق تھا علاوہ ازیں اور قدرتی نظاروں
کا شوقین تھا اس نے اپنی سوانح عمری خود لکھی جو تزک بابری کے نام سے مشہور ہے ۔
No comments:
Post a Comment