مشعل ِ راہ
حکومت کرناٹک کے نصاب پر مبنی
(ٹی ای ٹی )اور
(سی ای ٹی ) کا آن لائن مواد
سماجی سائنس (
دنیا کی قدیم تہذیبیں)
آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام (کرناٹک)
8105493349
Patelkaroshi111@gmail.com
مصری تہذیب:
مصر کی تہذیب قدیم ترین دور کی
پہلی تہذیب ہے، جو دریائے نیل کے کنارے پروان چڑھی ، دریائے نیل دنیا کی سب سے
لمبی ندی ہے، یہ دریا براعظم آفریقہ کے مشرق کی طرف بہتی ہوئی بحر روم میں جاملتی
ہے،مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے،
مصریوں نے تقویم ( کیلنڈر) بنائے
تھے جس سے وقت دریافت کرنا آسان ہوگیا تھا،
مصریوں کی تحریروں کو ہیروگرافکس
(مقدس تحریریں ) کہا جاتا ہے،
مصری قبر کو اصلی محل سمجھتے تھے
، پیرامیڈ یا اہرام کا نام مصریوں نے عطا کیا،
مصر کے بادشاہوں کو فاروس( فرعون)
کہا کرتے تھے فارو کے معنی ہیں جو عظیم الشان محل میں رہتا ہو،
تھٹموس ایک بڑا دلیر حکمران تھا
اس کے بعد اس کی بیٹی ہشپ سوٹ حکمران بنی اسے دنیا کی پہلی ملکہ کہا جاتا ہے،
تقریبا 2300 سال پہلے یونان کے
بادشاہ سکندر اعظم نے اس پر فتح حاصل کرکے اپنا نمائیندہ مقرر کرتے ہوئے ٹالمی
حکومت کی بنیاد ڈالی، مشہور ملکہ قلو پطرہ اسی خاندان کی حکمران تھی،
محفوظ کی گئی لاشوں کو مصری ممی
کہتے تھے،
اَہرامِ جیزہ مصر کے
پایۂ تخت قاہرہ کے
قریب واقع ایک آثارِ قدیمہ ہے۔ یہ اَہرامات جیزہ سطح مرتفع پر
واقع ہیں۔ یہ مصر کے
قدیم یادگاروں میں سے ایک ہے۔ یہاں خصوصاً اَہراماتِ عظیم کے نام سے تین اہرامات
اور ابوالہولِ عظیم کے
نام سے ایک بڑا مجسمہ بھی موجود ہیں۔ دریائے نیل کے
کنارے پر واقع شہرِ جیزہ سے آٹھ کلو میٹر اور قاہرہ سِٹی
سینٹر سے پچیس کلو میٹر جنوب مغرب میں یہ واقع ہیں ۔
دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا
ہے جو براعظم افریقا میں
واقع ہے۔ یہ دو دریاؤں نیل ابیض اور نیل ازرق سے
مل کر تشکیل پاتا ہے۔ آخر الذکر ہی دریائے نیل کے بیشتر پانی اور زرخیز زمینوں کا
سبب ہے لیکن طویل اول الذکر دریا ہے۔ نیل ابیض وسطی افریقا میں
عظیم جھیلوں کے علاقے میں جنوبی روانڈا سے
نکلتا ہے اور شمال کی جانب تنزانیہ، یوگینڈا اور
جنوبی سوڈان سے
گذرتا ہے جبکہ نیل ازرق ایتھوپیا میں جھیل ٹانا سے
شروع ہوتا ہوا جنوب مشرق کی سمت سفر کرتے ہوئے سوڈان سے گذرتا ہے۔ یہ دونوں دریا
سوڈان کے دار الحکومت خرطوم کے
قریب آپس میں ملتے ہیں۔
دریائے نیل کا شمالی حصہ سوڈان سے مصر تک
مکمل طور پر صحرا سے گذرتا ہے۔ جنوبی مصر میں اس دریا پر مشہور اسوان بند تعمیر
کیا گیا ہے جو 1971ء میں مکمل ہوا۔ اس بند کے باعث ایک عظیم جھیل تشکیل پائی جو جھیل ناصر کہلاتی
ہے۔ یہ جھیل مصر اور سوڈان کی سرحد پر واقع ہے تاہم 83 فیصد جھیل مصر میں واقع ہے
جبکہ 17 فیصد حصہ سوڈان میں ہے جہاں اسے جھیل نوبیا کہا
جاتا ہے۔ جھیل ناصر 550 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس
کا کل رقبہ 5،250 مربع کلومیٹر ہے جبکہ پانی کے ذخیرے کی گنجائش 157 مکعب میٹر ہے۔
مصر کی آبادی کی اکثریت اور تمام شہر اسی دریا کے کنارے آباد ہیں۔
مصر کا موجودہ دار الحکومت قاہرہ دریائے
نیل کے کنارے اور اس کے جزائر پر عین اس مقام پر واقع ہے جہاں دریا صحرائی علاقے
سے نکل کر دو شاخوں میں تقسیم ہوکر ڈیلٹائی خطے میں داخل ہوتا ہے ۔
دریائے نیل 6،695 کلومیٹر (4،160 میل) کا سفر طے کرنے
کے بعد اس ڈیلٹائی علاقے سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں
گرتا ہے۔
قدیم مصر کے تمام آثار قدیمہ بھی دریائے نیل کے کناروں
کے ساتھ ملتے ہیں کیونکہ 4 ہزار سال قبل مسیح میں صحرائے اعظم کی
وسعت گیری اور خشک سالی کے باعث مقامی باشندے دریائے نیل کی جانب ہجرت کر گئے جو
عظیم مصری تہذیب کا پیش خیمہ بنی۔
میسوپٹومیا (عراق کی تہذیب)
میسوپٹومیا اس علاقہ کو کہتے ہیں جو دو ندیوں کے درمیان
واقع وادی ہے،
یونانی زبان میں میسوپٹومیا کا مطلب ہے دو دریا کا
درمیانی علاقہ،
میسوپٹومیا پر سمیریں، بیبلون، اسرین، اور نوبیلون نے
حکومت کی،
حمہورابی
(ہمورابی)
حموربی (1792 تا 1750 ق م)
(Hammurabi) [1] اٹھارویں صدی قبل مسیح میں
قدیم بابل کے
پہلے شاہی خاندان کا
چھٹا اور سب سے مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ سمیر اور اکاد ’’جنوبی عراق‘‘ کی شہری
ریاستوں کو اپنی قلمرو میں شامل کیا اور لرسا کے ایلمی بادشاہ کو شکست دے کر اس کے علاقے
پر قبضہ کر لیا۔ مگر فتوحات سے زیادہ اپنے ضابطہ قوانین کے لیے مشہور ہے۔ حموربی
کا قانونی، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کا سب سے قدیم ضابطہ ہے اور 282 قوانین پر
مشتمل ہے۔ اس میں آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کی سزا کا ذکر ہے اور
یہ بھی درج ہے کہ بیل گاڑی والے کا معاوضہ کتنا ہونا چاہئیے اور سرجن کا کتنا۔ اگر
کوئی انجینئر پُل بنائے گا تو اسے اپنے خاندان سمیت اس پل کے نیچے سونا پڑے گا۔
اگر کوئی مکان گر جائے اور مالک مکان اس وجہ سے مر جائے تو معمار کو موت کی سزا
ملتی تھی۔ اگر کپتان کی غلطی سے بحری جہاز تباہ ہو جائے تو کپتان کو نقصان کا
ازالہ کرنا پڑتا تھا۔[2] کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے
ضوابط اسی سے ماخوذ ہیں ۔انجیل میں
اس کا نام ام رافیل ’’فرماں روائے شنار‘‘ (سمیر) ہے۔ ضابطہ قوانین میں عدالت،
کھیتی باڑی، آبپاشی، جہاز رانی، غلاموں کی خریدوفروخت، آقا اور غلام کے تعلقات،
شادی بیاہ، وراثت، ڈاکا، چوری وغیرہ سے متعلق قانون کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یہ
ضابطہ پتھر کی تختی پر کندہ ہے اور برٹش میوزیم میں
محفوظ ہے۔ حموربی نے بکثرت عمارتیں بنوائیں اور نہریں کھدوا کر آبپاشی کا نظام
درست کیا۔
ایک
زبردست بادشاہ ہونے کے علاوہ حموربی ایک زبردست کلدانی ساحر و ماہر طلسمات و
روحانیات بھی تھا، اس کی طلسمات کے موضوع پر سب سے مشہور تصنیف (مکاشفات حموربی)
ہے جو (بابل) کے شہر ایلم کی کهدائی کے دوران میں محلات کے کھنڈر سے پتھر کے کتبوں
پر کھدی ہوئی برآمد ہوئی ہے۔ برٹش میوزیم میں
موجود ہے۔
بابل کے معلق باغات (Hanging Gardens of Babylon) دنیا
کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں - اور یہ وہ واحد عجوبہ ہے
جس کا اصل مقام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا - چھٹی صدی قبل از مسیح میں بنو کد نضر ( بخت نصر) (Nebuch Adnezzar) کے
عہد میں بابل (عراق ) میں
کلدائی سلطنت کا احیاء ہوا تو اس نے اپنی ملکہ شاہ بانو کے لیے یہ عظیم الشان
باغات تعمیر کرائے جس نے اپنے وطن کے سبزہ زار اور حسین وادیاں کھو دیں تھیں۔ یہ
بابل (عراق) کے شہر میں واقع تھے۔ یہ شاہی باغ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ ان
باغات کی اونچائی 80 فٹ تھی یہ باغات حقیقتاََ معلق نہ تھے بلکہ ایسی جگہ لگائے
گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی ہوئی ساڑھے تین سو فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ ان درجوں
کی تعمیر میں اس اَمر کا خیال رکھا گیا تھا کہ زمین ایسی ہو کہ نہ درختوں کی نشو و
نما میں کمی آئے نہ ہی پانی کی زائد مقدار نچلے درجوں میں جا کر دیگر باغات کو
خراب کرے
بابلی متون میں ان باغات کا کوئی لمبا چوڑا ذکر موجود
نہیں اور نہ ہی آثار_ قدیمہ کے پاس ان باغات کا کوئی حتمی ثبوت موجود ہے - شواہد
کی کمی کی وجہ سے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ یہ باغات بالکل افسانوی تھے - قدیم یونان میں
جو وضاحتیں ملی ہیں اور روم کے تاریخ دان ایک بالکل مشرقی باغ کی مثالی اور
رومانوی نمائندگی کرتے ہیں-
اگر یہ باغات حقیقت میں موجود تھے تو پہلی صدی عیسوی کے
کچھ عرصہ بعد ہی تباہ ہو گئے تھے ۔
زیگورات یا زقورات قدیم وادیِ میسوپوٹیمیا اور
مغربی ایرانی سطح مرتفع پر
وسیع طور پر تعمیر کردہ عمارات ہیں۔ یہ ایک سیڑھیدار اہرام کی شکل میں ہیں۔
سمیرین
شمال کے پہاڑی علاقوں کے قبائلی سب سے پہلے یہان آئے تھے، یہ اپنے خداؤں کی پرستش
پہاڑوں کے دامن میں کیا کرتے تھے ، میدانوں میں آنے کے بعد مصنوعی پہاڑ انہوں نے
تعمیر کئے اور اپنے عبادت خانے بنوائے، ان عبادت خانوں کو زگورٹ کا نام دیا
گیا،یہودیوں نے ان معبودوں کو بابل کے مینار کا نام دیا،
چینی
تہذیب :
چینی
لوگوں کا تعلق منگولیا زرد رنگ کے لوگوں سے ہے،
یہاں
کے اہم دریا : یانگ سے، ہوانگ ہو (زرد ندی)
شانگ
چین کا پہلا خاندان تھا،
شانگ
خاندان کے بعد چو کاندان نے زیادہ دیر تک حکومت کی،
چو
خاندان کا مشہور راجا ہوانگ بہت بڑا فلسفی تھا، اس کے دور میں کنفیوشس،اور لاتسے
تھے،
چو
خاندان کا خاتمہ کرکے چن خاندان کی حکومت ہوئی چن خاندان کے نام سے ہی اس خاندان
کا نام چین ہوا،
چن شی ہوانگ (259 BC – 210 BC)،[3][4] ذاتی
نام ینگ
زنگ چن خاندان کے
بانی اور متحدہ چین کے پہلے
شہنشاہ تھے۔ آپ تیرہ برس کی عمر
میں چینی ریاست
چن میں
246 ق م میں بر سر اقتدار آئے اور 238 ق م تک ان کے ساتھ قائم مقام بادشاہ حکمرانی
کرتا رہا۔ 221 ق م میں تمام جاگیر دارانہ ریاستیں فتح کر کے وہ متحدہ چین کے پہلے
حکمران بنے۔ انہوں نے اپنے لیے شی ہوانگ تی نام
منتخب کیا جس کا مطلب ہے پہلا شہنشاہ۔
چین اور روم کی تجارتی راہ ریشمی راہ کے نام سے مشہور
ہوئی،
چینیوں نے چائے اور ریشمی کپڑے کا تعارف کروایا،
دیوار چین
عیسیٰ علیہ السلام کی
پیدائش سے تقریباً دو سو سال پہلے چین کے
بادشاہ چن شی ہوانگ نے
اپنے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے شمالی سرحد پر ایک دیوار بنانے
کی خواہش کی۔ اس دیوار کی ابتدا چین اور
منچوکو کی سرحد کے پاس سے کی گئی۔ چین کے دشمن اس زمانے میں ہن اور تاتار تھے
جو وسط ایشیا میں کافی طاقتور سمجھے جاتے تھے۔ یہ دیوار خلیج لیاؤتنگ سے منگولیا اور تبت کے
سرحدی علاقے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً پندرہ سو میل ہے۔ اور یہ بیس
سے لے کر تیس فٹ تک اونچی ہے۔ چوڑائی نیچے سے پچیس فٹ اور اوپر سے بارہ فٹ کے قریب
ہے۔ ہر دو سو گز کے فاصلے پر پہریداروں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں،
یونانی تہذیب:
قدیم یونان ایک تہذیب ہے جو یونانی تاریخ سے متعلق ہے جس کی مدت
تاریخ آٹھویں صدی سے چھٹی صدی قبل از مسیح سے 146 قبل مسیح تک اور رومیوں کی جنگ کورنتھ میں یونان پر فتح تک محیط
ہے۔ اس مدت کا درمیانی دور یونان کا کلاسیکی دور ہے جو پانچویں تا چوتھی صدی قبل
مسیح کے دوران پھلا پھولا۔
بزرگوں کی مجلس شوریٰ کی رائے پر یونانی راجا راج کیا
کرتے تھے،
ایتھنز (athens) یونان کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر اور جمہوریت کی جائے پیدائش ہے۔ شہر کا نام یونانی دیومالا میں ایتھنے(آتھینا) دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 3.7ملین کی آبادی کا حامل یہ شہر شمال اور مشرق کی جانب مزید وسعت پا رہا ہے اور یونان کا اقتصادی، تجارتی، صنعتی، ثقافتی اور سیاسی قلب سمجھا جاتاہے۔ یہ شہر یورپ کا ابھرتا ہوا کاروباری مرکز ہے۔
قدیم ایتھنز(آتھینا) ایک طاقتور ریاست اور افلاطون اور ارسطو کے
تعلیمی اداروں کے باعث علم کا معروف مرکز تھا۔ اسے چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح
میں اس وقت تک دریافت شدہ یورپ پر
چھوڑے گئے گہرے ثقافتی و سیاسی اثرات کے باعث مغربی تہذیب کی گہوارہ سمجھا جاتا
ہے۔ شہر پارتھینون، ایکروپولس (بلند شہر)، کیلی کریٹس اور فیڈیاس جیسے معروف تعمیراتی شاہکاروں
کے علاوہ کئی قدیم یادگار اور فن تعمیر کے نادر نمونوں کا حامل ہے۔ ان میں سے کئی
ثقافتی یادگاروں کی 2004ءاولمپک گیمز سے
قبل تزئین و آرائش کی گئی۔
شہر کا نام یونانی دیومالائی داستانوں کی دیوی ایتھنا
کے نام پر ایتھنز رکھا گیا ہے۔ 1970ءکی دہائی میں ایتھنا کو شہر کا قانونی نام
قرار دیا گیا۔
ایتھنز کی بنیاد کب رکھی گئی؟ اس بارے میں کچھ نہیں
معلوم تاہم پہلے ہزاریہ قبل مسیح میں یونانی تہذیب کے زریں دور میں ایتھنز یونان
کا ابھرتا ہوا شہر تھا۔ یونان کے سنہرے دور (500 قبل مسیح تا 323قبل مسیح) میں یہ
دنیا کا ثقافتی و تعلیمی مرکز تھا۔ 431 قبل مسیح میں ایتھنز(آتھینا) ایک اور شہری
ریاست اسپارٹا(سپارتا) سے جنگ میں شکست
کھاگیا اور تباہی کا شکار ہوا۔
529ءمیں مسیحی بازنطینی سلطنت نے
فلسفے کی درس گاہوں کو بند کر دیا اور ایتھنز اپنی(آتھینا) تعلیمی حیثیت کھوبیٹھا۔
11 اور 12 صدی عیسوی
کے دوران بازنطینی شہر کی حیثیت سے ایتھنز(آتھینا) ایک مرتبہ پھر عالمی افق پر
ابھرا اور ایتھنز(آتھینا) کے گرد قائم تمام اہم بازنطینی گرجے انہی دو صدیوں کے
دوران تعمیر ہوئے۔
13 اور 15 ویں صدی
میں شہر کو اس وقت زبردست نقصان پہنچا جب یونانی بازنطینیوں اور فرانسیسی و اطالوی
صلیبیوں کے درمیان شہر میں جنگ لڑی گئی۔ 1458ءمیں عثمانی فرمانروا سلطان محمد فاتح نے
شہر کو فتح کر لیا۔ شہر میں داخلے کے بعد سلطان اس کی خوبصورتی سے انتہائی متاثر
ہوااور فرمان جاری کیا کہ شہر کی کسی تاریخی عمارت یا مقام کو کوئی نقصان نہ
پہنچایا جائے۔ فتح ایتھنز(آتھینا) کے بعد پارتھینون کو مسجد میں
تبدیل کر دیا گیا۔
1821ء سے 1831ء کے
دوران یونانی جنگ آزادی میں عثمانیوں کا
ایتھنز(آتھینا) پر اثر و رسوخ ختم ہونے لگا اور جب 29 ستمبر 1834ء کو
ایتھنز(آتھینا) کو آزاد یونان کا دار الحکومت قرار دیا گیا تو اس کی آبادی صرف 5
ہزار تھی۔ اگلی چند دہائیوں میں شہر کی جدید بنیاد پر ازسر نو تعمیر کی گئی۔
1896ءمیں اسی شہر نے پہلے گرمائی اولمپک گیمز کی میزبانی کی۔ شہر میں دوسری بڑی
توسیع 1920ء کی دہائی میں اس وقت کی گئی جب ایشیائے کوچک کے یونانی مہاجرین کے لیے
آبادیاں قائم کی گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے
دوران جرمنی نے
ایتھنز(آتھینا) پر قبضہ کر لیا اور اسے جنگ کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔
دوسری جنگ عظیم کے
بعد 1980ء تک شہر کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا جس سے بڑھتی ہوئی آبادی اور
ٹریفک کے مسائل پیدا ہوئے۔ 1981ء میں یونان کی یورپی یونین میں
شمولیت کے بعد گنجان صنعتی علاقوں اور فضائی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے کے
لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی۔ شہر کے منتظمین نے آلودگی اور ٹریفک کے
مسائل پربڑی حد تک قابو پالیا ہے اور آج ایتھنز جدید ڈھانچے، یادگار قدیم تعمیرات
اور عجائب گھروں، جیتی جاگتی زندگی اور عالمی معیارکے خریداری مراکز کا حامل ایک
جدید شہر ہے۔
یونانی انڈویوروپین نسل سے تعلق
رکھتے ہیں،
یونان کے قدیم لوگوں کو ہیلنے کہا
جاتا ہے، کیونکہ ان کے آبا و اجداد ہیلن تھے،
سقراط افلاطون کا استاد تھا، اور
افلاطون ارسطو کا استاد تھا، اور سکندر اعظم بھی ارسطو کا ممتاز شاگرد تھا،
افلاطون نے ایک سکھلائی ادارہ
قائم کیا جس کا نام (ایکیڈمی) تھا،
ارسطو نے ایک مطالعاتی ادارہ قائم
کیا جس کا نام( لائی سیم) تھا،
ڈیما سھتین ایک عظیم سخنور اور
خطیب تھا،
ہومر آنکھوں کا اندھا ہونے کے
باوجود رزمیہ نظم الیاڈ اور اڈیسی لکھی،
ہیروڈوٹس اور تھیوسی اڈیسین مشہور
مورخ تھے، ہیروڈوٹس کو تاریخ کا باوا آدم کہا جاتا ہے،
آشلیں، سوفوکلس اور یورپیائیڈس
یونان کے اہم ڈرامہ نگار تھے،
سوفوکلس مشہور ڈرامہ نگار تھا،جس
نے اڈیسیں کنگ اور اینٹی گون کی تخلیق کی،
یونانی تار سے بنا ہوا موسیقی کا
آلہ (لائر) کا استعمال کرکے گاتے تھے،
پیری کلس نے سفید سنگ مرمر کا استعمال کرکے (
پارتھیان) کا مندر بھی تعمیر کروایا،مائیرون نامی سنگ تراش نے ڈسکس تھرو تھیلسٹ کی
سنگ تراشی بھی کی جو ڈسکوبلس کے نام سے جانا جاتا ہے،
پالیگنیاٹس یونان کا اس وقت کا
مشہور مصور اور پاٹیڑ ہے،
قدیم
اولمپکس کے اصل کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔ سب سے مقبول روایت کے مطابق ہیراکل اولمپک کھیلوں کا خالق تھا اور اُس نے
اولمپک بازی گاہ اور گردو پیش کے عمارات اپنے والد زیوس کے
احترام میں بنائے
.
اولمپکس
کے آغاز کے بارے میں دانشوروں کے رائے میں اختلاف ہے تاہم 776ء پر
کثرت کا اتفاق ہے۔ آغاز کے فوراً بعد اولمپک کھیلوں نے بہت جلد تمام قدیم یونان میں اہمیت اختیار کرلی۔ اس زمانے میں سب سے
مشہور کھلاڑی کا نام مائلو تھا جو تاریخ میں واحد کھلاڑی ہے جس نے چھ
اولمپکس میں ایک فتح حاصل کی۔
سکندر
اعظم:
سکندر 350 سے 10 جون 323 قبل مسیح تک مقدونیہ کا حکمران رہا۔ اس نے ارسطو جیسے
استاد کی صحبت پائی۔ کم عمری ہی میں یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ مصر اور فارس تک
فتح کر لیا۔ کئی اور سلطنتیں بھی اس نے فتح کیں جس کے بعد اس کی حکمرانی یونان سے
لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیل
گئی۔صرف بائیس سال کی عمر میں وہ دنیا فتح کرنے کے لیے نکلا۔ یہ اس کے باپ کا خواب
تھا اور وہ اس کے لیے تیار ی بھی مکمل کر چکا تھا لیکن اس کے دشمنوں نے اسے قتل
کرا دیا۔ اب یہ ذمہ داری سکندر پر عاید ہوتی تھی کہ وہ اپنے باپ کے مشن کو کسی طرح
پورا کرے۔
سقراط:
سقراط [ق م 470–399] (Socrates) دنیائے فلسفہ کا
سب سے عظیم اور جلیل المرتبت معلم ہے، جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں
مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ میلاد مسیح سے 470 سال پہلے یونان کے معروف شہر ایتھنز میں
پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد ناپید ہیں۔ تاہم افلاطون اور
مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ ایک مجسمہ ساز تھا، جس نے حب الوطنی کے
جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت پائی۔ تاہم اپنے
علمی مساعی کی بدولت اُسے گھر بار اور خاندان سے تعلق نہ تھا۔ احباب میں اس کی
حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی
اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور
مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتاووں کے حقیقی وجود سے انکار کر
دیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا
سنائی۔ اور سقراط نے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا۔
افلاطون:
افلاطون یونانی، تلفظ [b] –
348/347 قبل مسیح) قدیم یونان کا فلسفی اور ایتھنز کی اکادمی کا
بانی تھا یہ اکادمی مغربی دنیا کا اولین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ تھا۔ وہ فلسفہ کی
ترقی میں خاص طور پر مغربی روایت میں سب سے زیادہ اہم شخص تصور کیا جاتا ہے۔[7] دیگر معاصر یونانی
فلسفہ کے
برعکس افلاطون کا پورا کام 2400 سال
سے محفوظ رہا ہے۔[8]
اس کے استاد، سقراط اور
اس کے سب سے مشہور طالب علم، ارسطو اور
افلاطون نے مغربی فلسفہ اور سائنس کی
بنیاد رکھی ہے۔[9] الفرڈ نارتھ
وائٹ ہیڈ نے یورپی
فلسفیانہ روایت کی عمومی خصوصیات کو افلاطونی فکر کے حواشی کا ایک سلسلہ قرار
دیا۔[10] مغربی
سائنس، فلسفہ اور ریاضی کے لیے ایک بانیانہ شخصیت بننے کے علاوہ، افلاطون کا حوالہ
اکثر مغربی مذہب اور روحانیت کے
بانیوں میں بھی دیا جاتا ہے۔ [11]
افلاطون ہی فلسفے میں تحریری مکالمے اور جدلیاتی طرز
کا موجد ہے۔ افلاطون اپنی کتابوں جمہوریت اور قانون اور
دیگر مکالمات، جن میں وہ ابتدائی سیاسی سوالات کے فلسفیانہ نقطہ نظر سے حل پیش
کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان کی وجہ سے مغربی سیاسی فلسفہ کا
بانی نظر آتا ہے۔ افلاطون پر سب سے زیادہ فیصلہ کن فلسفیانہ اثرات کا سبب سقراط، بارامانیاس، ہیرا کلیطس اور فیثاغورث کو مانا جاتا ہے۔[12]
اسٹنفورڈ دائرۃ المعارف برائے فلسفہ افلاطون
کے بارے میں کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ وہ مغربی ادبی روایت میں تاریخ فلسفہ کا سب سے
شاندار، صاحب بصیرت، وسیع الاثر مصنفین میں سے ایک ہے۔ … وہ پہلا مفکر نہیں تھا یا
جس مصنف کے لیے "فلسفی" کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن وہ خود
صاحب شعور تھا جسے فلسفہ تشکیل دینے کا شعور فہم تھا۔
ارسطو:
384 قبل مسیح میں مقدونیہ کے علاقے استاگرہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ شاہی دربار میں طبیب تھا۔ ارسطو نے ابتدائی (طب، حکمت اور حیاتیات کی) تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ وہ بچپن ہی میں اپنی والدہ کے
سائے سے محروم ہو گیا۔ دس برس کا ہوا تو باپ کا بھی انتقال ہو گیا۔ 18 سال کی عمر
میں وہ ایتھنز چلا آیا، جو اس وقت مرکزِ علم و حکمت تھا۔ یہاں وہ 37 سال کی
عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اسے اپنے استاد
افلاطون کے خیالات میں تضاد اور طریق تدریس میں کجی نظر آئی جسے اس نے اپنی
تحریروں میں موضوع بنایا ہے۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے اپنے مدینہ الحکمت کی
بنیاد ڈالی جہاں اس نے نظری و کلاسیکی طریقہ علم کی بجائے عملی اور عقلی مکتب فکر
کو فروغ دیا۔ اخیر عمر میں ارسطو کے اس کے شاگرد سکندر اعظم کے ساتھ اختلافات اور
پھر اس کی موت کے بعد سورشوں نے اسے یونان بدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ اور یوں
ارسطو کا خالکس میں 7 مارچ 322 قبل مسیح میں انتقال ہوا۔
روم کی تہذیب:
زمانۂ قدیم کی ایک سلطنت، جس کا دار الحکومت روم تھا۔
اس سلطنت کا پہلا بادشاہ آگسٹس سیزر تھا جو 27 قبل مسیح میں
تخت پر بیٹھا۔ اس سے قبل روم ایک جمہوریہ تھا جو جولیس سیزر اور پومپے کی
خانہ جنگی اور گائس ماریئس اور سولا کے تنازعات کے باعث کمزور
پڑگئی تھی۔
کئی موجودہ ممالک بشمول انگلستان، اسپین، فرانس، اٹلی، یونان، ترکی اور مصر اس
عظیم سلطنت کا حصہ تھے۔ رومی سلطنت کی زبان لاطینی اور یونانی تھی۔ مغربی رومی سلطنت 500 سال
تک قائم رہی جبکہ مشرقی یعنی بازنطینی سلطنت،
جس میں یونان اور ترکی شامل
تھے، ایک ہزار سال تک موجود رہی۔ مشرقی سلطنت کا دار الحکومت قسطنطنیہ تھا۔
مغربی رومی سلطنت 4 ستمبر 476ء کو
جرمنوں کے ہاتھوں تباہ ہوگئی جبکہ بازنطینی سلطنت 29 مئی 1453ء میں عثمانیوں کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ کے ساتھ ختم کردی۔
اپنے عروج کے دور میں رومی سلطنت 5،900،000 مربع
کلومیٹر (2،300،000 مربع میل) پر پھیلی ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کی ثقافت، قانون،
ٹیکنالوجی، فنون، زبان، مذاہب، طرز حکومت، افواج اور طرز تعمیر میں آج بھی رومی
سلطنت کی جھلک نظر آتی ہے۔
اگسٹس
سیزر کے دور کو روم کا سنہرا دور اور امن کا دور کہا جاتا ہے کہا جاتا ہے، یہ دور
عیسیٰ علیہ السلام کا دور تھا،
ورزیل
روم کا مشہور شاعر ( اینڈاسکی) اس کی مشہور نظم ہے،
اوویڈ
دوسرا مشہور شاعر تھا ،
مشہور
ادیب : سیزیرو، پلوٹس،
مورخ
: جیولیس سیزر، مشہور فلسفی کیاٹو، سیزرو
سینکا دیگر فلسفی تھے،
پلی
نی نے نیچرل ہسٹری نامی اینسائیکلوپیڈیا لکھی ، گیالن روم کا مشہور ڈاکڑتھا،
اسٹرابو
اور ٹالمی اس دور کے مشہور جغرافیہ دان تھے،
لاطینی
زبان روم کی شاہی زبان تھی ، آج بھی قانون سائینس وغیرہ میدان میں لاطینی زبان کے
الفاظ ملتے ہیں،
روم
کے سماج میں دو سماجی جماعتیں تھی ، دی پیاٹریشین اور پلابینس ، پیاٹریشین سماج کے
منتخب افراد ہوتے تھے، وہی زمین کے مالک ہوتے تھے، اور ان کی جماعت ہی اونچی جماعت
ہوا کرتی تھی، پلابینس عام لوگ ہوا کرتے تھے،
گلیڈی ایٹر (انگریزی:
Gladiator) (لاطینی: gladiator، "تیغ زن"، از gladius، "تلوار") رومی جمہوریہ اور رومی سلطنت میں تماشائیوں کو تفریح
فراہم کرنے کے لیے مسلح جنگجو تھے۔ یہ عام طور پر غلام یا قیدی ہوتے تھے جو لوگوں
کی تفریح کے لیے دوسرے گلیڈی ایٹر یا جانوروں کے ساتھ مرنے مارنے تک لڑتے تھے۔
امریکی تہذیب : مایا تہذیب
مایا تہذیب (Maya civilization) ایک
قدیم میسوامیریکی تہذیب تھی جو شمال وسطی امریکا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں
آج کل میکسیکو، ہونڈوراس، بیلیز اور گواتیمالا کی ریاستیں موجود ہیں۔
ماہرین 600 قبل مسیح کو ان کے عروج کا نقطہ
آغاز بتاتے ہیں جو900ء تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے بڑے علاقوں میں شہری
تعمیرات کی۔ اسی دور میں انہوں نے یادگاری تحریریں چھوڑیں اور اسی دور میں انہوں
نے اپنی تہذیب اور تمدن کو باقاعدہ ریکارڈ کیا۔ مایا تہذیب میسو امیریکن کی دیگر
اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز
تحریر تھا۔ اس کے علاوہ ریاضی میں بھی ان کی ترقی حیرت انگیز تھی نہ صرف یہ کہ
انہوں نے نمبروں کو لکھنا سیکھ لیا تھا بلکہ یہ صفر کے استعمال سے بھی واقف تھے۔ فلکیات، طبیعیات، جراحت اور ذراعت میں
ان کی ترقی حیران کن تھی۔ ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے اردگرد کی دیگراقوام
کو بھی متاثر کیا، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتی کہ ہسپانوی نوآبادکار ان علاقوں
میں پہنچی اور مایا تہذیب کو بزور طاقت زوال پزیر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مایا
اقوام کے صحائف ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلائے گئے، ان کی تعمیرات کو نقصان پہنچایا گیا اور
ان کی زبان اور مذہبی رسومات کو شیطانی قرار دے دیا گیا۔ مایا تہذیب زوال پزیر
ہوئی مگر مایا قوم کی اولادیں آج بھی میسو امریکن علاقوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے
بہت سارے لوگ ابھی بھی مایا مذہب کی بہت سی رسومات پر عمل کرتے ہیں مگر مایا کے
پیچیدہ رسم الخط کو وہ بھول چکے ہیں۔
آزٹیک
سرخ ہندی لوگ تھے جو میکسیکو میں
رہتے تھے۔ آزٹیک سلطنت چودہویں سے سولہویں صدی تک چلی۔ وہ اپنے آپ کو
"میکسیکی" یا "ناہوآ" کہلاتے تھے۔ آزٹیک لوگ ناہواتل زبان بولتے
تھے۔ آزٹیک ثقافت میں کچھ عناصر انسانی قربانیوں پر یقین رکھتے تھے۔ وہ انتہائی
درست تقویم کا استعمال کرتے تھے جو
365 دنوں پر مشتمل تھا اس کے علاوہ ان کا ایک مذہبی تقویم بھی تھا جو 260 دنوں پر
مشتمل تھا۔
آزٹیک کا دار الحکومت تینوچتیتلان تھا۔
جو ایک جزیرے پر بنایا گیا تھا۔ تینوچتیتلان اس وقت دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں
سے ایک شہر تھا۔
انکا:
انکا (Inca, Tawantinsuyu) جنوبی امریکا کی ایک قوم جس نے 1200ء
سے 1533ء تک جنوبی امریکا کا بیشتر علاقہ فتح کر لیا۔ اس عظیم الشان انکا سلطنت کا صدر مقام کوزکو (اب
جنوبی پیرو کا ایک شہر) تھا۔ اس سلطنت کے پہلے بادشاہ نے انکا کا لقب اختیار کیا۔
بعد ازاں سلطنت کے سارے باسی انکا کہلانے لگے۔ 1533ء میں ہسپانوی فوج نے اس کے
آخری بادشاہ اتاہولیا کو دھوکے سے گرفتار کر دیا۔ 1569ء تک ساری انکا سلطنت
ہسپانیوں کے زیر نگیں آگئی۔
انکا تہذیب و تمدن اور علم و فن میں اس وقت کی تمام
امریکی اقوام میں بہت آگے تھی۔ انھوں نے اپنا ایک مخصوص نظام سیاست و معیشت وضع
کیا تھا۔ جس کے مطابق بادشاہ ملک کا حکمران ہونے کے علاوہ رعایا کا دینی پیشوا بھی
تھا۔ تمام ذرائع پیداوار حکومت کی تحویل میں تھے اور ریاست عوام کی بنیادی ضرورتیں
پوری کرنے کی پابند تھی۔ انکا نے زراعت کو ترقی دی۔ سڑکیں، پل اور آبی ذخائر تعمیر
کیے۔ کوزہ گری، دھات سازی اور پارچہ بافی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ یہ لوگ آفتاب
پرست تھے۔
No comments:
Post a Comment