، مضامین آفتاب عالم دستگیر پٹیل شاہ نوری خاندان غلاماں،خلجی خاندان،تغلق خاندان، سید خاندان، لودھی خاندان،ظہیر الدین محمد بابر،نصیر الدین محمد ہمایوں،جلال الدین محمد اکبر،نور الدین محمد سلیم،محی الدین محمداورنگزیب،ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر،احمد نگر سلطنت برار سلطنت،بیدر سلطنت،بیجاپور سلطنت،گولکنڈہ سلطنت Aftabalam Dastageer Patel Karoshi
Wednesday, 28 May 2025
Thursday, 22 May 2025
گُم شُدَہ مُسَوَّدَہ
برسوں سے میں اپنی پشتینی کِرانے کی دکان چلا رہا ہوں کئی طرح کے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ انہی ملنے والوں میں اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار شکیل عباس صاحب بھی ہیں ادھیڑ عمر، چھوٹا قد ، دبلے پتلے، ہاتھوں میں ہمیشہ سلگتی سیگریٹ دس باتوں میں سے پانچ باتیں کھانستے ہوئے کہنا ۔ ۔ ۔ اور وقفے وقفے سے بلغم تھوکتے رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ۔ ۔ ۔ احمد میاں کسی زمانے میں ہم نے خون جگر ایک کر کے 25 لاجواب افسانے تخلیق کئے تھے ۔ ۔ اسے کتابی شکل دینے کا ارادہ بھی تھا مگر معلوم نہیں وہ مسودہ کہاں غائب ہو گیا ۔ ۔ ۔ کبھی لگتا ہے کسی صاحب نے پڑھنے کے بہانے لے لئے ۔ ۔ ۔ اور کبھی لگتا ہے کہ میں ہی کہیں رکھ کر بھول گیا ۔ ۔ ۔ اے کاش اگر وہ مسودہ مل جاتا تو مرنے سے پہلے ان افسانوں کو کتابی شکل میں شائع کر کے سکون کی موت مرتا ۔ ۔ ۔ میں نے شکیل عباس صاحب کو مشورہ دیا کہ پہلے اپنی ذاتی کتابوں کی الماری میں ڈھونڈیں اگر نہ ملے تو اپنے پرانے ملنے والوں کو کال کر کے پوچھ لیں، ممکن ہے مل جائے ۔ ۔ انہوں نے حامی بھر لی ۔ ۔ ۔ اگلے دن صبح سویرے گھر کے صحن میں اپنی پھٹی پرانی بوسیدہ ڈائری لے کر بیٹھ گئے اور باری باری سے کال کرتے گئے اپنا تعارف کروا کر 25 افسانوں کے مسودے کے متعلق پوچھتے ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی کہتا رانگ نمبر، کوئی کہتا معلوم نہیں، کوئی ایسا بھی تھا جو عباس صاحب کو پہچان کر بھی پہچاننے سے انکار کرتا ۔ ۔ ۔ خیر اس طرح یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا ۔ ۔ مگر کسی ایک سے بھی مسودے کی کوئی خبر نہ ملی ۔ ۔ ۔ دن گزرتے گئے مہینے برسوں میں تبدیل ہو گئے ۔ ۔ ۔ شکیل عباس صاحب پر بیماری غربت کے کالے بادل منڈلانے لگے ۔ ۔ نوجوان بیٹا بھری جوانی میں فوت ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ کئی کئی مہینوں تک اُن کی کوئی خبر تک نہیں آتی تھی ۔ ۔ میں بھی دکانداری میں ایسا پھنس گیا جیسے دلدل میں گدھا ۔ ۔ ایک دن میں اپنی کِرانے کی دکان پر تھا کہ خبر موصول ہوئی کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار شکیل عباس صاحب انتقال کر گئے ۔ ۔ ۔ میں نے ایک سرد آہ بھری ۔ ۔ ۔ اور دکان بند کرنے کی تیاری کرنے لگا ۔ ۔ ۔ اچانک میری نظر ردی کے ایک بنڈل پر پڑی جس کے ایک صفحے پر بڑے حرفوں میں لکھا تھا ۔ ۔ ۔ " افسانہ نمبر 25 راکھ شکیل عباس " ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے جلدی سے نوکر کو بلایا اور پوچھا یہ ردی کہاں سے آئی ہے اس کے بقیہ صفحات کہاں ہیں ۔ ۔ ۔ نوکر کہنے لگا مالک اس ردی کو آئے ہوئے کئی ہفتے گزر چکے ہیں ۔ ۔ یہ ردی شکیل عباس صاحب کا پوتا لایا تھا ۔ ۔ کہہ رہا تھا دادا جی کی طبیعت بہت خراب ہے ۔ ۔ ۔ دوائی کے لئے پیسے چاہیے آپ اُس وقت دکان پر نہیں تھے چھوٹے مالک تھے انہوں نے زیادہ روپیے دے کر ردی خرید لی ۔ ۔ ۔ اور اس بنڈل کے دوسرے کاغذات کو تو ہم کئی روز سے باندھ باندھ کر بیچ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ میں نے دل میں سوچا اے کاش شکیل عباس صاحب گم شدہ مسودے کی تلاش اپنے گھر سے ہی کرتے تو اچھا ہوتا ۔ ۔ ۔
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
بلگام کرناٹک انڈیا
8105493349
Subscribe to:
Posts (Atom)
آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن سراج زیبائی شیموگہ کرناٹک 8296694020 کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا ہے ا...

-
ایک بستی، سولہ پشتیں کروشی آفتاب عالم ؔ دستگیر پٹیل ( شاہ نوری) کروشی ، بلگام ،کرناٹک (انڈیا) 8105493349 بسم اللہ ال...
-
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ شکوہ جواب شکوہ شرح شارح : ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی بلگام ...
-
A Brief History Of Karoshi ( Karwaish ) Karoshi (Karwaish) is a village panchayat in Belgaum district of Karnataka state of I...