Thursday, 11 July 2019





محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 22
خاندان مغلیہ سے پہلے ہند کے حالات

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


بابر کے حملہ کے وقت سلاطین دہلی کی حالت کمزور ہوچکی تھی سلطنت دہلی برائے نام رہ گئی تھی اور ہندوستان میں مندرجہ ذیل خودمختار ریاستیں قائم ہوگئی تھی۔
شمالی ہند میں بنگال بہار جونپور کشمیر ملتان سندھ مالوہ گجرات اور میواڑ کے ریاستیں تھیں دکن میں بہمنی سلطنت اور وجے نگر کی مشہور ریاستیں تھیں

بہمنی سلطنت
سے 15261347

سلطنت بہمنی کا بانی ظفر خان نامی ایک افغان سردار تھا اس نے محمد تغلق کے عہد حکومت میں ،1347 میں اس سلطنت کی بنیاد ڈالی اور علاوالدین حسن بہمنی کے لقب سے حکومت کرنے لگا اس نے گلبرگہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا اس خاندان کی حکومت کوئی ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی ۔ اس کے افسر بادشاہ اپنی ہمسائی ہندو ریاست وجے نگر سے لڑتے رہتے تھے اس میں چودہ بادشاہ ہوئے ان میں احمد شاہ اور محمد شاہ بہت مشہور تھے احمد شاہ نے تلنگانہ کا علاقہ فتح کیا اس کے عہد میں محمودگاواں سب سے مشہور ہوا ۔ او بڑا عقلمند اور مدبر تھا اس نے خاندان کو بہت عروج دیا اس نے بیدر میں ایک کالج کھولا اور انتظام سلطنت میں بہت سی اصطلاحات کیں ۔ مگر حاسدوں نے جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل کروا دیا اس کی وفات کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی اور چند ہی سالوں کے اندر ریاست پانچ حصوں میں بٹ گئی

عادل شاہی سلطنت 1489 میں یوسف عادل شاہ نے ریاست بیجاپور کی بنیاد ڈالی آخر 1686 میں اورنگزیب نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا ۔


نظام شاہی سلطنت 1486 میں احمد ملک ایک صوبیدار نے احمد نگر کی بنیاد ڈالی مشہور چاند بی بی جس نے بڑی بہادری سے اکبر کی فوج کا مقابلہ کرکے شہر کو بچائے رکھا اسی خاندان سے تھیں اس ریاست کا ایک اور مشہور بادشاہ ملک عنبر تھا آخر 1637 میں شاہجہان نے اس کا خاتمہ کیا .


قطب شاہی سلطنت قطب الملک نے 1512 میں ریاست گولکنڈہ کی بنیاد ڈالی1687 میں اورنگزیب نے اس کو فتح کیا  ۔


عماد شاہی سلطنت ریاست عماد کی بنیاد عماد شانے رکھی اس کا دارالخلافہ ایلیچ پور تھا 1572 میں احمد نگر کے بادشاہ نے اسے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا


برید شاہی سلطنت 1497 میں قاسم فرید نے برید ریاست کی بنیاد ڈالی آخر 1657 میں اورنگزیب نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔


سلطنت وجے نگر
 1336 سے  1565

1336 میں ہری ہر اور بکارائے دو بھائیوں نے سلطنت وجے نگر کی بنیاد محمد تغلق کے زمانہ میں ڈالی یہ دکن میں بہمنی سلطنت کے جنوب میں واقع تھی اس سلطنت نے بہت ترقی کی اور دریائے کرشنا سے لے کر راس کماری تک پھیل گئی  ۔ ان کے وزیر مادھو آچاریہ نے ان کی انتظام سلطنت میں بہت مدد کی وہ سنسکرت کا بڑا فاضل تھا اس نے ویدوں اور دیگر مذہبی کتابوں کی شرح لکھی ہے ۔ سلطنت مجھے نگر پر 19 بادشاہوں نے دو سو سال سے کچھ زیادہ حکومت کی اس سلطنت کے راجے اکثر اپنی ہمسایہ بہمنی سلطنت کے بادشاہوں سے لڑتے رہتے تھے اس سلطنت کا سب سے مشہور راجہ کرشنا دیورائے ہوا ہے جس نے 1509 سے 1539 تک حکومت کی تھی ۔ وہ ایک قابل بادشاہ ہونے کے علاوہ اچھا شاعر اور مصنف بھی تھا اس کے عہد میں رعایا بڑی خوشحال اور فارغ البال تھی اس نے اڑیسہ گولکنڈا اور بیجاپور کی ریاست کو شکست دے کر ان کا بہت سا علاقہ ہے اپنی سلطنت میں شامل کیا اس نے رعایا کے لئے بہت سے مندر بنوائے اور آبپاشی کے لئے نہریں کھدوائیں اور پرتگیزوں سے دوستانہ تعلقات بنائے ۔

تالی کوٹہ کی جنگ
1565


اس خاندان کا آخری حکمران رام راجہ تھا وہ بڑا مغرور بد دماغ شخص تھا اس نے بہمنی سلطنت کے مختلف ریاستوں کو آپس میں لڑانے کی پالیسی اختیار کی آخر بیجاپور گولگنڈا احمد نگر اور بیدر کی اسلامی ریاستوں نے متحد ہو کر اس پر حملہ کر دیا ۔ 1565 میں تالی کوٹ کے مقام پر گھماسان کی لڑائی ہوئی ۔ راجہ رام شکست کھا کر قتل ہوا اس لڑائی میں کوئی ایک لاکھ ہندو مارے گئے مسلم فوجوں نے پانچ ماہ تک وجئے نگر کو خوب لوٹا عمارتوں کو گرایا اور شہر کو جلایا اس طرح اس عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ ہوا ۔

انتظام سلطنت

وجے نگر کے راجہ مطلق العنان تھے تمام سلطنت دو سو صوبوں میں تقسیم تھی اور ہرصوبہ دار حسب منشا مطلق العنان تھا وہ جنگ کے موقع پر اپنے راجہ کی فوج اور روپیہ سے پوری مدد کرتا ذرعت کے لئے بند اور نہریں بنی ہوئی تھی قوانین سخت اور سزائے سنگین تھی آمدنی کا بڑا ذریعہ لگان تھا پیداوار کا چوتھائی حصہ نقدی میں لیا جاتا تھا ریاست میں دس لاکھ فوج تھی ریاعا خوشحال تھی ۔

شہر وجے نگر کی عظمت

شہر وجےنگر ریاست کا دارالخلافہ اور عالیشان شہر تھا ایرانی سفیر عبدالرزاق نے جو 1443  میں یہاں آیا ۔ اس شہر کی بڑی تعریف لکھی ہے وہ لکھتا ہے کہ وجے نگر ایک نہایت ہی خوبصورت اور متمول شہر تھا ۔ اور 60 میل کے گہرا میں پھیلا ہوا ہے اس کے گرد مضبوط فصیل تھی جس میں سات برج تھے بازاروں کی رونق قابل دید تھی لوگ سرے بازار جواہرات کی خرید و فروخت کرتے تھے اس میں نہایت عالی شان محل اور مندر بنے ہوئے تھے ۔

ہندومت اور اسلام کا باہمی اثر
ہندو مسلمانوں کے میل جول کا نتیجہ

جب اسلامی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی تو مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ رہنا شروع کردیا اس لیے دو قوموں کے مذہب رسم و رواج اور عادات نے ایک دوسرے پر اثر ڈالا

دونوں قومیں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کے بجائے ہمدردی سے رہنے لگی

کئی ہندو حلقے اسلام میں داخل ہوگئے اس کے علاوہ کئی ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادیاں کر لیں اس طرح ہندوؤں کے رسم و رواج مسلمان گھروں میں پہنچ گئے

ہندوؤں میں پردہ کا رواج ہوا بچپن کی شادی جاری ہوئی اور رسمی ستی کا آغاز ہوا

ہندو لوگ ہندی بولتے تھے مسلمانوں کی زبان فارسی تھی آہستہ آہستہ دونوں زبانوں کے میل جول سے ایک نئی زبان اردو پیدا ہوئی جس نے بعد میں بڑی ترقی حاصل کی

مذہب اسلام کا نمایاں اثر یہ ہوا کہ ہندوؤں میں چھوت چھات کو چھوڑنے اور خدا کی وحدانیت پر زور دیا جانے لگا جس کا اثر یہ ہوا کہ دونوں قوموں سے تعصب کم ہوگیا اس طرح ملک میں بھگتی تحریک نام کی ایک نئی تحریک شروع ہوئی ۔

بھکتی کی تحریک  

بھکتی کے معنی ایک ایشور کی محبت اور عبادت میں محو ہونا کے ہیں بھکتی کی تحریک سے مراد او تحریک ہے جس میں افغان بادشاہوں کے ماتحت ہندوؤں میں چھوت چھات کودورکرنے ایک ایشور کی عبادت کرنے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور رواداری پیدا کرنے پر زور دیا گیا  ۔

اس بھکتی مت کی تحریک نے پندرہویں اور سولہویں صدی میں بہت زور پکڑا اس کی تعلیم مختصر طور پر یہ تھی کہ خدا ایک ہے مگر اس کے نام مختلف ہیں ہر انسان کو خدائے واحد کی پوجا کرنی چاہیے اس نے بت پرستی کے خلاف آواز اٹھائیں اور بہت برا قرار دیا ۔

بھکتی مت کا اثر

اس تحریک سے ہندوؤں میں وحدانیت اور مساوات کا پرچار ہوا چھوت چھات کم ہوگی نیچی ذات کے لوگوں سے بہتر سلوک ہونے لگا جس سے ہندو اسلام میں جذب ہونے سے بچ گئے سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ دونوں قوموں میں محبت اور رواداری پیدا ہوگی ۔

بھکتی مت کے پیشوا

بھکتی مت کے پیشواؤں میں سے مندرجہ ذیل زیادہ مشہور ہیں

رامانج
 ان کا جنم 1150 میں مدراس میں ہوا آپ نے دکن میں وشنومت کا پرچار کیا اور لوگوں کو بھکتی کے ذریعے نجات کا راستہ بتایا ۔


رامانند
آپ تیرہویں صدی میں پیدا ہوئے آپ رامانج کے شاگرد تھے آپ نے شمالی ہند میں وشنومت کا پرچار کیا آپ کا خیال تھا کہ مکتی حاصل کرنے میں ذات کو دخل نہیں اس لیے شودر اور نیچی ذات کے لوگ آپ کی بڑی عزت کرتے تھے ۔راما آنندی فرقے کی کتاب ناتھ جی کی بھگت مالا ان کی مشہور تصنیف ہے ۔


ولبھ اچاریہ 
آپ بلبھی فرقہ کے بانی تھے آپ نے پندرہویں صدی کے آخر میں بھکتی کا پرچار کیا آپ شری کرشن کو وشنو کا اوتار مانتے تھے ان کا خیال تھا کہ وہ وشنو کو خوش کرنے کا طریقہ فاقہ مستی اور جسمانی تکالیف نہیں اس لئے امیر لوگ ان کے ہیرو بن گئے آج کل بھی گجرات بمبئی اور راجپوتانہ میں ان کے پیرو پائے جاتے ہیں ۔


چیتنیہ
آپ 1485 میں ندیا واقعہ بنگال میں پیدا ہوئے آپ کرشن جی کے زبردست بھکت تھے آپ ہندوستان کے مختلف مقامات کا دورہ کرکے کرشن بھگت کا پرچار کرتے رہے اب بھی بنگال اڑیسہ میں ہزاروں آدمی اس کے پیروموجود ہیں ۔


کبیر
آپ 1380 میں پیدا ہوئے اور 1420 میں فوت ہوئے آپ کی ماں برہمن تھی مگر آپ کی پرورش ایک مسلمان جولاہے نے کی تھی آپ رامانند کے چیلے تھے آپ نے پندرہویں صدی میں سکندر لودی کے عہد میں بھکتی کی تحریک کا پرچار کیا آپ ذات پات اور بت پرستی کے سخت مخالف تھے آپ نے دونوں قوموں کو مذہبی رواداری کی تعلیم دی آپ کے پیروکبیر پنتی کہلاتے ہیں ۔


گرو نانک
آپ ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں 1469 میں پیدا ہوئے آپ بت پرستی اور ذات پات کے سخت مخالف تھے آپ کا اعتقاد تھا کہ مذہب و ملت کا جھگڑا بے معنی ہے انسان کو ایک ایشور کی پوجا کرنی چاہیے آپ نے ہندو مسلمانوں میں باھمی رواداری کا پرچار کیا آپ نے سکھ مذہب کی بنیاد ڈالی آپ نے ،1538 میں وفات پائی .



Wednesday, 3 July 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 21

سلاطین بہمنیہ 1347 سے 1526
سلطان علاوالدین حسن گانگو بہمنی


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی 
ضلع بلگام کرناٹک 
8105493349

سلطان محمد بن تغلق نے 1342ء میں ظفر خان کو جنوبی ہند کا صوبہ دار مقرر کیا- اس نے دکن کے سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر مرکز سے علیحدگی اختیار کی اور 1347ء میں علاء الدین حسن گنگو بہمنی کا لقب اختیار کر کے آزاد بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔(بیدر کے ممتاز مؤرخ محمد عبد الصمدبھارتی لکھتے ہیں ٰٰٰٰاس نے یعنی سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں اپنے داماد سرءیرسلطانی عمادالملک کو ناءب مقرر کیا سندھ اور پنجاب میں بغاوت فرو کرنے میں مصروفیت کی وجہ خود سلطان دکن نہ آ سکا .امراءے صدہ نے پہلے اسمٰعیل مُخ کو اور بعد میں نوجوان سردار حسن ظفر خان کو اپنا امیر چن لیا۔ اس نے بیدر کے قریب سلطانی فوج کو شکست دی اور عمادالملک جو شجاعت اور مردانگی میں ضرب المثل تھا 'اتفاقاً مارا گیا۔ اس نے یعنی سردار حسن ظفر خان نے 1347ء میں دولت آباد میں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی"(بیدر کے آثارِ قدیمہ۔ ص 16) بہمنی سلطنت میں چار بادشاہ ہوئے جنہوں نے بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ یہ سلطنت وجئے نگر کی ہندو مملکت سے اکثر بر سر پیکار رہتی تھی۔ بہمنی سلاطین نے دکن میں زراعت تعلیم اور عمارات پر بڑی توجہ دی۔ اس عہد میں دکن میں اردو زبان نے بھی نشو و نما پائی اور اسلام بھی خوب پھیلا۔ 1490ء کے قریب بہمنی سلطنت کو زوال آنا شروع ہوا۔ 1538ء تک اس کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے کھنڈروں پر پانچ چھوٹی سلطنتوںبرید شاہی سلطنت، عماد شاہی سلطنت، نظام شاہی سلطنت، عادل شاہی سلطنت اور قطب شاہی سلطنت کی بنیادیں رکھی گئیں۔


نام
دور حکومت
دہلی سلطنت کے سلطان، محمد بن تغلق سے خود مختاری-
13 اگست1347ء تا 11 فروری 1358ء
فروری 1358ء تا 21 اپریل 1375ء
21 اپریل 1375ء تا 16 اپریل 1378ء
16 اپریل 1378ء تا 21 مئی 1378ء
12 مئی 1378ء تا 20 اپریل 1397ء
20 اپریل 1397ء تا 14 جون 1397ء
لاچین خان ترک کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
14 جون 1397ء تا 16 نومبر 1397ء
16 نومبر 1397ء تا 22 ستمبر 1422ء
22 ستمبر 1422ء تا 17 اپریل 1436ء
17 اپریل 1436ء تا 6 مئی 1458ء
6 مئی 1458ء تا 4 ستمبر 1461ء
4 ستمبر 1461ء تا 30 جولائی 1463ء
محمد شاہ بہمنی دوم،محمد شاہ لشکری
30 جولائی 1463ء تا 26 مارچ 1486ء
26 مارچ 1486ء تا 7 دسمبر 1518ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
7 دسمبر 1518ء تا 15 دسمبر 1520ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
15 دسمبر 1520ء تا 5 مارچ 1523ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
5 مارچ 1523ء تا 1526ء
امیر برید اول کے ماتحت ایک کٹھ پتلی
1526ء تا 1538ء
پانچ چھوٹی سلطنتوں برید شاہی، عماد شاہی، نظام شاہی، عادل شاہی اور قطب شاہی میں بٹ گئی-

حسب و نسب 

اس بادشاہ کے حسب و نسب کے بارے میں مختلف مورخوں نے مختلف طرح سے خیال آرائی کی ہے لیکن جو بات سب سے زیادہ حقیقت کا پہلو رکھتی ہے اور قرین قیاس بھی ہے فرشتہ نے اسی پر اکتفا کی ہے اور خواہ مخواہ تحریر کو طول دینے سے گریز کیا ہے ۔ ہاں برسبیل تذکرہ لکھ دیا ہے کہ بعض مورخوں کا خیال تھا کہ ایک شخص جس کا نام حسن تھا اور دارالسلطنت دہلی میں ایک آدمی گنگو براہمن منجم کا ملازم تھا یہ منجم محمد تغلق کا اس وقت مقرب خاص تھا جب وہ زمانہ شہزادگی میں تخت دہلی کا وارث ہوا ۔ حسن کو ہمیشہ معاشی مشکلات کا سامنا رہتا تھا اور وہ اپنی تنگ دستی سے کسی حد تک پریشان بھی ہو گیا تھا ۔ لہذا ایک دن تنگ آکر اس نے گنگو برہمن سے فکر معاش کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اس کو کوئی ایسی نوکری روزگار مل جائے جس سے اپنا کفیل ہو سکے اور غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے ۔ گنگو نے اس کے ساتھ یہ ہمدردی کی کے نواح دہلی میں اس کو بنجر زمین کا ایک ٹکڑا ایک جوڑی بیل اور کام کرنے کے لیے دو مزدور دیے تاکہ وہ اس زمین پر کھیتی باڑی کرکے اپنا پیٹ پال سکے مزدور نے زمین کو کاشت کے لیے کھودنا شروع کیا ۔ 

ایک دن مزدور زمین میں ہل چلا رہے تھے کہ حل کی نوک زمین کے اندر پھنس گئی مزدوروں نے حسن کو جاکر بتایا اور بعد میں نکالنے پر معلوم ہوا کہ ہل کی نوک ایک زنجیر سے پھنس گئی تھی اور زنجیر ایک بڑے برتن کے منہ سے بندھی ہوئی ہے برتن کو کھود کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ علائی عہد کے سونے کے سکے اور اشرفیاں اس میں لبالب بھری ہوئی ہے ۔ حسن کی ایمانداری نے یہ قبول نہ کیا کہ آقا کی دی ہوئی زمین کے مال میں خیانت کرے لہذا اس نے اس ساری دولت اس برتن کی چادر میں باندھی اور گنگو کے مکان پر پہنچا اور اس سے سارا ماجرہ بیان کیا ۔ گنگو نے حسن کی ایمانداری کی تعریف کی اور صبح ہوتے ہی اس نے یہ سارا واقعہ محمد تغلق کے سامنے لفظ بلفظ بیان کردیا شہزادہ محمد کو حسن کی ایمانداری اور سچائی پر بہت حیرت ہوئی اور اس نے اپنے دربار میں حسن کو طلب کیا ۔ شہزادہ کو بھی حسن کا حلیہ اس کا رنگ ڈھنگ بہت پسند آیا اور اس نے اپنے والد سلطان غیاث الدین تغلق کو یہ تمام حالات بتائے بادشاہ غیاث الدین تغلق بھی حسن کے اچھے کردار سے بہت متاثر ہوا اور اس کو شاہانہ نوازشات سے سرفراز کیا اور یک صدی کے زمرہ میں شامل کرلیا ۔ 

لفظ بہمنی کی اصل 

ایک دن گنگو برہمن نے حسن سے کہا کہ تمہاری قسمت کا زائچہ بتاتا ہے کہ تم کسی دن بہت بلند اقبال اور باعزت بنو گے اور خدا کے کرم سے کسی اونچے عہدے پر پہنچ جاؤ گے کہنے کے بعد اس نے عہد کر لیا اگر خدا تجھے کوئی باعزت عہدہ دنیا میں عطا کرے تو تم میرا نام بھی اپنے نام کا جزو بنا کر لکھنا تاکہ تمہاری وجہ سے میرا نام بھی حیات جاوداں حاصل کر لے ۔ دوسرا وعدہ یہ لیا کے خزانچی کے عہدہ پر مجھے اور میرے بعد میری اولاد کے سوا کسی اور کو نہ رکھنا حسن نے اپنے محسن کے دونوں وعدوں پر مہر صداقت ثبت کی اور بغیر کوئی بلند عہدہ ملنے ہیں اس نے اپنے نام کے ساتھ گنگو بہمنی لکھنا شروع کیا اور اپنا نام حسن گنگو بہمنی لکھنے لگا ۔ 

  دکن کی حکمرانی 

حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہ کے آستانہ پر ایک دن ہر خاص و عام کی دعوت تھی دسترخوان پر طرح طرح کی کھانے چنے ہوئے تھے اور اس دعوت شیراز میں ہر ایک کو شرکت کرنے کی اجازت تھی لہذا شہزادہ محمد تغلق بھی اس دعوت میں شریک ہوا تاکہ تمام بزرگوں کے فیض صحبت سے مستفید ہو ۔ جب محمد تغلق نیز دیگر مہمان کھانا کھا کر چلے گئے اور دستر خوان اٹھا دیا گیا تب حسن گنگو حضرت شیخ نظام الدین کے آستانے پر پہنچا تاکہ حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل کرے ۔ لیکن اس سے پہلے ہی حضرت کو اپنے انوار باطن سے اس کے آنے کی خبر ہوگئی تھی اس کے آنے کی اطلاع ملے بغیر ہی انہوں نے اپنے ملازم سے کہا ایک شخص جو نہایت شریف باطن اور شکل و صورت سے بھی شرافت و نیکی کی تصویر ہے باہر کھڑا ہے اس کو بلاکر لاؤ ۔ ملازم حسن گنگو کو لینے کے لئے باہر گیا مگر اسے پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں دیکھ کر اس کو اعتبار نہ آیا کہ یہی وہ شخص ہوگا جس کو حضرت نے طلب فرمایا ہے اس نے بارگاہ حضرت میں واپس آکر عرض کیا کہ دروازے پر کوئی بھی آدمی نہیں ہے ہاں ایک مفلوک الحال اور پریشان شخص کھڑا ہوا ہے ۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ ہاں وہی شخص ہے جو بظاہر فقیر معلوم ہو رہا ہے لیکن درحقیقت دکن کا تاجدار ہوگا غرض کے حسن گنگو حضرت شیخ کی خدمت میں آیا اور شرف ملاقات حاصل کیا حضرت نے حسن پر بہت مہربانی کی اور اس سے پرسش احوال کی چونکہ کھانا ختم ہوچکا تھا لہذا حضرت شیخ نے اپنے افطار کے لئے جو روٹی رکھی تھی اس میں سے تھوڑی سی روٹی اپنی انگلی کے سرے پر رکھ کر حسن کو دی اور کہا کہ دکن کے حکمرانی کا تاج ہے جو بہت کشمکش محنت اور عرصہ دراز کے بعد تیرے سر پر رکھا جائے گا ۔ تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ نمبر 540

رحلت
موت کا یقین ہو جانے کے بعد بادشاہ نے قصداً علاج معالجے سے ہاتھ اٹھایا اور موت کے لیے سراپا انتظار بن کر بیٹھ گیا اسی دوران میں ایک دن حسن نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے محمود کو سامنے نہ پا کر پوچھا کہاں ہےجواب ملا کہ مکتب میں اپنا سبق پڑھ رہا ہے اس کو بلوا کر بادشاہ نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو اس پر شہزادہ محمود نے جواب دیا کہ آجکل حضرت شیخ سعدی شیرازی کی بوستان پڑھ رہا ہوں ۔ اس پر بادشاہ نے سوال کیا کہ کون سی حکایت پڑھ رہے ہو شہزادے نے ایک حکایت پڑھی جس میں حضرت شیخ سعدی نے بادشاہ ایران کی زبان سے دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا ہے ۔ بادشاہ نے اس شکایت کا تیسرا شعر غور سے سنا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہر ایک نے اپنی ہمت اور بہادری سے تمام دنیا کو فتح کر لیا مگر جب دنیا سے گیا تو خالی ہاتھ اور قبر میں اپنے ساتھ کچھ نہ لے گیا ۔ بادشاہ نے جب اے سنا تو بہ آواز بلند رونے لگا اور اپنے دوسرے بیٹوں کو بھی بلوایا اور نصیحت کی کہ اپنے بڑے بھائی کو میرا ولی عہد سمجھ کر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت اپنا فرض سمجھنا ۔ اس کے بعد خزانچی کو بلوایا اور تمام اثاثہ خزانہ شاہی سے منگوا کر اپنے بیٹوں کو دیا کہ جاکر جامع مسجد میں حنفی مذہبی علماء میں یہ تقسیم کر دو ۔ شہزادوں نے اس کے حکم کے بموجب عمل کیا اور سارا مال تقسیم کر دیا اس کے بعد واپس آئے اور بادشاہ کو اطلاع دے دی بادشاہ نے سن کر سکون اور اطمینان کا سانس لیا اور اس کے بعد راہی ملک عدم ہوا ۔ بادشاہ نے پورے گیارہ سال دو مہینے سات دن تک حکومت کی یکم ربیع الاول ٧۵٩ھ کو انتقال کیا اس نے 67 سال کی عمر پائی۔

Sunday, 30 June 2019

 محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 20
سلطان ابراہیم لودھی 1517 سے 1526

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

سکندر لودھی کی وفات پر اس کا بیٹا ابراہیم لودھی تخت پر بیٹھا وہ خاندان لودھی کا بادشاہ تھا وہ بڑا ضدی اور ظالم بادشاہ تھا اس کا سلوک افغان سرداروں کے ساتھ بہت برا تھا تمام افغان سردار دربار کے وقت کے بادشاہ کے سامنے دست بستہ بت کی طرح کھڑے رہتے تھے ۔باپ دادا کے برعکس مزاج کا اکھڑ اور غصیلا تھا۔ امرا ناراض ہو گئے۔ بزور دبانا چاہا تو زیادہ بگڑ گئے اور بغاوتیں کیں۔ اس کے بھائی جلال خان نے بغاوت کی اور مارا گیا۔ چچیرے بھائی اعظم ہمایون کو شبہے کی بنا پر پکڑا۔ اس کے بیٹے فتح خان کو بھی قید میں ڈال دیا۔ ان واقعات سے مشتعل ہو کر سب افغان باغی ہو گئے۔ خانہ جنگی میں قوت ضائع ہوئی۔ میواڑ کے رانا سانگا کو شکست دی۔ بہادر خان بہار میں خود مختار ہو گیا۔ ابراہیم اس کی سرکوبی نہ کر سکا۔ اسی اثنا میں رانا سانگا نے کابل سے ظہیر الدین بابر کو بلایا۔ پانی پت کی پہلی لڑائی میں ابراہیم مارا گیا۔ اور یوں 1526ء میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا آغاز ہوا۔
 
 1206 میں قطب الدین ایبک نے شمالی ہندوستان میں سلطنت دہلی کی بنیاد ڈالی 1526 میں بابر نے اس کے آخری بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اس سلطنت کا خاتمہ کردیا اس عرصہ میں پانچ خاندان سلطنت دہلی پر حکمران ہوئے اور انہوں نے ،320 سال تک حکومت کی ۔

سلاطین دہلی کے زوال کے اسباب

افغان بادشاہ مطلق العنان تھے اگر بادشاہ طاقتور ہوتا تو سب سلطنت کے ماتحت ہوجاتے اور حکومت دور تک پھیل جاتی اگر بادشاہ کمزور ہوتا تو صوبےدار خود مختار ہوجاتے اور سلطنت کی وسعت اردگرد تک ہی رہ جاتی ۔

اس زمانہ میں ذرائع آمد و رفت اچھے نہ تھے اس لیے دور دراز علاقوں پر ضبط رکھنا آسان نہ تھا اس لئے کمزور بادشاہوں کے عہد میں صوبےدار خودمختار ہوتے گئے 

محمد تغلق کی جاہلانہ تجاویز نے سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا جس سے جابجا بغاوتیں ہوئیں اور کئی خودمختار سلطنتیں قائم ہوگی ۔

فیروز تغلق کا تنخواہ کی بجائے جاگیریں دینے کا طریقہ ایک بڑی سیاسی غلطی تھی اس سے جاگیرداروں کے لئے بغاوت کرنا آسان ہوگیا اور مرکزی حکومت کمزور ہو گئی ۔

تیمور کے حملہ نے سلطنت دہلی کو زبردست نقصان پہنچایا ۔

مغلوں کے درپے حملوں نے بھی سلطنت دہلی کو کمزور کردیا ۔

سلاطین دہلی سرد ملکوں سے آئے تھے اس لئے شروع میں بڑے بہادر اور جفاکش تھے مگر ہندوستان کی گرم آب و ہوا نے انہیں  اور سست بنا دیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شمال سے مغل حملہ آور ہوئے تو ان کا مقابلہ نہ کرسکے ۔

ابراہیم لودھی بڑا مغرور اور ظالم بادشاہ تھا تمام اُمرا اس کی سخت گیری سے ناراض تھے چنانچہ بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا اور ابراہیم کو شکست دے کر سلاطین دہلی کا خاتمہ کر دیا ۔




کرناٹک اردو اکادمی ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔

کرناٹک اردو اکادمی  ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری بلگام کرناٹک 8105493349 "ہر اردو اکادمی اردو کا ای...