Sunday, 6 October 2019

لاؤڈ اسپیکر پر اذان کیوں۔۔۔؟
 ایک دلچسپ اور سچا واقعہ


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349
7019759431

Patelkaroshi111@gmail.com




سن 2010  کی بات ہے ۔ ۔۔

میں بعد نماز عصر ،ٹہلتے کہیں جا رہا تھا کہ ۔ ۔

اچانک مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔ ۔ آفتاب بھائی ۔۔۔۔آفتاب بھائی ۔ ۔۔۔!

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو میرا ایک قریبی رشتہ دار واصف تھا ۔ ۔۔۔،

میں نے کہا کیا  بات ہے۔۔۔۔۔۔؟

کہنے لگا۔۔۔۔ ہمارے پرنسپل صاحب نے ایک سوال پوچھا ہے مجھے اس کا جواب چاہیے ۔ ۔۔۔

میں نے کہا۔۔۔ ۔سوال کیا ہے ۔ ۔ ۔ ؟

پرنسپل صاحب اکثر مجھے  یہی، ایک سوال بار بار پوچھتے رہتے  ہیں کہ، موجودہ زمانہ میں  گھڑی گھنٹہ سب کچھ موجود ہے ۔پھر تم مسلمان اذان لاؤڈ اسپیکر پر میں پکار کر کیوں دیتے ہو۔۔۔؟ جبکہ تم لوگوں کو نمازوں کے اوقات کی پوری جانکاری ہے۔ ۔ ۔؟

میں نے کہا بھائی اس وقت میرے ذہن میں اس کا کوئی مناسب  جواب نہیں ہے۔۔ میں سوچ کر یا کسی سے پوچھ کر بتاؤں گا ۔ ۔

اس واقعے کو کئی ہفتے گزرے ،مگر میرے ذہن میں اس سوال کا کچھ بھی جواب نہ تھا ۔ کئی سارے احباب سے اس کے متعلق پوچھا بھی، مگر کہیں سے تسلی بخش جواب نہ ملا ۔ ۔ ۔
مسلسل اسی سوچ و فکر میں تھا ۔۔۔۔، ایک دن اللہ  نے مجھ پر رحم فرمایا اور ایک جواب میرے ذہن میں ڈال دیا۔۔۔

مغرب کی نماز کے بعد واصف مجھے مسجد کہ باہر  ہی مل گیا۔۔۔ میں نے کہا بھائی  واصف۔۔۔ تمہارے سوال کا جواب مل گیا ۔ ۔
وہ بہت خوش ہوا کہنے لگا جلدی بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے کہا اگلی بار جب تمہارے پرنسپل صاحب تم سے اذان  سے متعلق سوال کریں۔۔۔ تو تم ان کو جواب دینے سے پہلے ان سے ایک سوال کرنا ۔ ۔ ۔
کہنے لگا کیسا سوال۔۔۔۔۔؟

ان سے مودبانہ انداز سے پوچھنا کہ "سر ہماری ایک کلاس کتنے گھنٹے کی ہوتی ہے۔۔۔؟"، وہ جواب میں کہیں گے 45،  یا 50، منٹ ۔۔۔۔پھر ان سے اگلا سوال پوچھنا کہ "سر یہ زمانہ تو گھڑی گھنٹے کا زمانہ  ہے۔۔۔ آپ پریڈ کے مکمل ہونے پر چپراسی  سے ( بیل / گھنٹی ) کیوں بجواتے ہیں ۔۔۔؟"جبکہ اساتذہ اور طلبہ کو اپنے اپنے پریڈ کے اوقات کا مکمل علم ہے۔۔۔۔ !

تم دیکھو گے کہ پرنسپل صاحب خاموش ہوجائیں گے۔۔۔۔ پھر تم جواب دینا  ۔۔۔۔اور یوں کہنا کہ جب ایک تاریخ کا استاد " پانی پت کی پہلی جنگ" سبق طلبہ کو پڑھاتا ہے۔۔ تو  بچوں پر اس سبق کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ استاد اور طلبہ خود کو پانی پت کے میدانِ جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔۔،انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں، تلوار وں کی جھنجھناہٹ ، نیزوں کی پوچھاریں نظر آنے لگتی ہیں۔۔۔ استاد اور طلبہ خود کو 2010 کی بجائے 1526 میں محسوس کرنے لگتے ہیں۔۔۔ 1526 سے دوبارہ 2010 میں واپس لانے کے لئے چپراسی گھنٹی بجا کر کہتا ہے  بھائی "پانی پت "تمہاری اصل دنیا نہیں  ہے  وہاں سے لوٹ آؤ ۔۔۔۔یہ تمہاری اصل دنیا ہے اس کے بعد تم دوسرامضمون پڑھو گے جس میں جانوروں اور پودوں کے متعلق پڑھایا جائے گا۔۔۔۔

بالکل اسی طرح  ایک مسلمان بھی اس دنیا کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اسی دنیا کو  ہمیشہ رہنے کی جگہ سمجھنے لگتا ہے، اس غفلت اور گمان سے مسلمان کو نکالنے کے لئے موذن لاؤڈ اسپیکر پر اذان دیتا ہے  اور یہ کہتا ہے "ائے مسلمانوں یہ تمہاری اصل دنیا نہیں ہے اصل جگہ تو آخرت ہے چلو مسجد کی طرف آجاؤ۔۔۔۔اور اپنے اللہ  کو راضی کرو۔۔۔۔

اس جواب کے سننے کے بعد واصف خوشی سے جھومنے لگا۔۔۔۔۔میری بھی خوشی کی انتہا نہ  تھی میں نے دل میں سوچا پرنسپل صاحب اس جواب کو سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے اللہ نے مجھے خوب سمجھا دیا۔۔۔۔۔۔۔


Thursday, 3 October 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 25
شیر شاہ سوری
1540 سے 1545 تک


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

شیرشاہ کی ابتدائی زندگی 

شیرشاہ کا اصلی نام فریدخان تھا اس کا باپ حسن خان بہار میں ایک معمولی جاگیردار تھا اس کا دادا افغانستان کا باشندہ تھا اوائل عمر میں فرید خان اپنی سوتیلی ماں کی سختیوں سے تنگ آکر جونپور چلا گیا اور بعد میں سپاہی بھرتی ہو گیا ۔ آہستہ آہستہ کافی ترقی کر گیا ایک دفعہ فرید خان سلطان جونپور کے ہمراہ شکار کے لیے گیا اس نے تلوار کی ایک ہی وار سے شیر کا کام تمام کردیا جس پر سلطان نے خوش ہو کر اسے شیر خاں کا خطاب دیا لیکن بعد میں جب وہ بنگال کا حاکم ہوا تو اس نے شیر شاہ کا لقب اختیار کیا ۔

سلطان جونپور کی وساطت سے شیر خاں بابر کے دربار میں پہنچا بابر نے اسے ہونہار دیکھ کر بہار میں اسے اعلی عہدہ دیا جب ہمایوں گجرات کی بغاوت فرو کرنے میں مشغول تھا تو شیر خان نے بہار میں خودمختاری کا اعلان کردیا ۔ رہتاس اور چنار گڑھ کے قلعے فتح کرلیے اور بنگال پر قابض ہوگیا آخر اس نے ہمایوں کے ساتھ جنگ کی اور قنوج کے مقام پر اسے شکست دے کر دہلی کا تخت حاصل کیا ہمایوں مایوس ہوکر ایران کی طرف بھاگ گیا ۔ 

فتوحات 
١۔  شیر شاہ نے تخت پر بیٹھتے ہیں پنجاب کا صوبہ فتح کرلیا اور دریائے جہلم کے قریب ککھڑوں کی بغاوت کو فتح کیا
٢۔  بنگال کے صوبے دار نے بغاوت کیا سے شکست دے کر موتی کیا 
٣۔  1541 میں مالوہ اور رنتھمبور کو فتح کیا ۔ 
۴۔ 1542 میں مالدیو والئے میواڑ کو شکست دے کر اس کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔ 
۵۔  1545 میں بندھیل کھنڈ کے مشہور قلعہ کالنجر کا محاصرہ کیا لیکن بارود خانہ میں آگ لگ جانے سے سخت زخمی ہوا ۔ 

 عدل وانصاف کا عجیب وغریب نمونہ
مسٹر الفنسٹن نے اپنی تاریخ میں شیر شاہ سوری کی عدالت کا ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے کہ شیر شاہ کا منجھلا لڑکا عادل خان ایک دن ہاتھی پر سوار ہوکر آگرہ کی کسی گلی سے جارہا تھا ، ایک مہاجن کی عورت ،جو حسین جمیل اور خوبصورت تھی ، اپنے آنگن میں نہا رہی تھی ، اس کے گھر کی چہار دیواری نیچی تھی ؛ اسی لیے عادل خان جو ہاتھی پر سوار تھا اس کی نظر اس عورت کے جسم پر پڑ گئی،وہ اسے دیکھنے لگا اور پان کا ایک بیڑہ بھی اس کی طرف پھینکااور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ، وہ عورت پارسا اور باحیا تھی، ایک نامحرم کے بے پردگی کی حالت میں دیکھ لینے کو برداشت نہ کرسکی اور خود کشی کرنے لگی ، اس کے اعزہ واقارب اور شوہر نے بڑی مشکل سے اسے خود کشی سے روکا ۔
اور اس کا شوہر پان کا وہ بیڑہ لے کر شیر شاہ سوری کے دربار میں حاضر ہوا ، جہاں وہ عوام کی شکایتیں سن رہے تھے، اس نے اپنی عزت وناموس کی درد بھری روداد شیر شاہ سوری کے گوش گزار کی، اس واقعہ کو سن کر شیر شاہ سوری بہت رنجیدہ ہوئے ، دیر تک افسوس کرتے رہے ، پھرحکم دیا کہ یہ مہاجن اسی ہاتھی پر سوار ہوکر عادل خان کے گھر آئے اور عادل کی بیوی اسی طرح برہنہ کرکے اس کے سامنے لائی جائے اور یہ مہاجن اس کی طرف بھی پان کا بیڑہ پھینکے۔
ایسا انصاف جو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ہی خلاف اور اپنے گھر کی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر دیا گیا ہو ، شاید ہی کہیں ہمیں ملے؛چنانچہ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا ، امراء اور اراکینِ سلطنت نے عادل خان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سفارش کی ؛مگر شیر شاہ سوری نے پوری متانت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ایسے موقع پر کسی کی سفارش قبول کرنا ہرگز نہیں چاہتا ؛میری نگاہ میں میری اولاد اور رعایا دونوں مساوی ہیں ،میری اولاد ایسی گھٹیا حرکت کرے اور میں اس کے ساتھ روا داری کروں ، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ۔
اس مہاجن نے جب عدل وانصاف کایہ فیصلہ سنا اور ایسا عدل ،جو اس کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا ،تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں پڑگیا اور اس نے خود عاجزی اور اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ یہ حکم نافذ نہ کیا جائے میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتاہوں۔

انتظام سلطنت 

شیرشاہ بڑا مدبر دوراندیش منصف مزاج اور غیر متعصب بادشاہ تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ سلطنت کی بہبودی رعایا کی بہتری پر منحصر ہے اس لئے سلطنت کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی طرف بھی توجہ دیتا تھا ۔ 

ملکی انتظام 
شیرشاہ نے ملک کو 47 صوبوں میں تقسیم کرکے ان پر صوبے دار مقرر کیے ہر صوبہ میں کئی سرکار ضلعے تھے اور ہر سرکارمیں کئ پرگنے ان کے انتظام کے لیے سرکاری افسر مقرر تھے ۔ 

زمین کا بندوبست 
اس نے زمین کی باقاعدہ پیمائش کروائی اور پیداوار کا چوتھائی حصہ لگان مقرر کیا لگان نقد یا جنسمیں ادا کیا جاسکتا تھا کاشتکاروں کو بڑی سہولت دی جاتی تھی ۔ 

فوجی نظام 
شیر شاہ کی فوجی طاقت بڑی زبردست تھی اس کی فوج میں دیڑھ لاکھ سوار اور 25 ہزار پیدل سپاہی اور پانچ ہزار جنگی ہاتھی شامل تھے فوج میں ضبط کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ سپاہیوں کو حکم تھا کہ کوچ کے وقت کسانوں کے کھیتوں کو کسی طرح سے بھی نقصان نہ پہنچائیں بادشاہ سپاہیوں کی بھرتی خود کرتا تھا اور انہیں نقد تنخواہ دیتا تھا جاگیرداروں کے ذمہ گھوڑے مہیا کرنا تھا اس نے گھوڑوں کو داغ دینے اور سواروں کاحلیہ درج کرنے کا طریقہ جاری کیا ۔ 

محکمہ انصاف 
شیرشاہ بڑا منصف مزاج حاکم تھا اس کے عہد میں ہندو اور مسلمانوں سے یکساں سلوک ہوتا تھا اور اعلیٰطعہدت محض قابلیت کی بنا پر دیے جاتے تھے سزائیں بڑی سخت اور عبرتناک تھی چوری اور رشوت ستانی کے جرم میں بعض اوقات موت کی سزا دی جاتی تھی مقدمات فیصل کرنے کے لیے میرعدل مقرر تھے ۔ 

تعمیرات 
شیرشاہ کو عمارتوں کا بڑا شوق تھا اس نے دہلی اور رہتاس پنجاب دو شہر بسائے اس کے علاوہ اس نے سہسرام کے مقام پر اپنا مقبرہ تعمیر کرایا یہ عمارت ہندوستان کی عظیم الشان عمارتوں میں گنی جاتی ہے ۔


رفاہ عام کے کام 
شیرشاہ کو اپنی رعایا کے آرام کا بڑا خیال تھا چنانچہ اس نے ریا کی سہولت کے لیے مندرجہ ذیل کام کئے

خالص چاندی کے خوبصورت نئے سکے جاری کئے ۔ 
ڈاک کا باقاعدہ انتظام کیا اور ڈاک لے جانے کے لیے ہر کارے مقرر کیے اور جابجا فاصلے پر ڈاک کی چوکی بنوائیں ۔ 
سڑکیں بنوائیں کنویں کھدوائے اور سڑکوں کے دونوں طرف سایہ دار درخت لگوائے اور مسافروں کے آرام کے لیے سرائیں تعمیر کرائی اور ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی رہائش و خوراک کا الگ الگ انتظام کیا ۔ 
پیشاور سے لے کر کلکتہ تک ایک پختہ پندرہ سو میل لمبی جرنیلی سڑک بنوائی اس کے علاوہ آگرہ سے برہانپور اور لاہور سے ملتان تک سڑکیں بنوائیں جس سے ملک میں آمدورفت آسان ہوگئی اور تجارت کو خوب ترقی ہوئی ۔ 
دیوانی اور فوجداری قوانین کا ایک نیا مجموعہ تیار کروایا اور جرائم کا انسداد کیا ۔ 
اس نے تعلیم کے لئے بہت سے مدرسے کھولے اور غریب طلباء کو وظیفے دیے 
اس نے غریبوں اور محتاجوں کے لیے شاہی لنگر کھولے جن پر سالانہ لاکھوں روپیہ خرچ آتا تھا  ۔ 

یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا
دو طرفہ برابر درختوں کا سایا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سرِ رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے
اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے
مسدس حالی

شیر شاہ نے پانچ برس کی سلطنت میں ایک سڑک بنوائی جو چار مہینے کے راستہ میں پھیلی ہوئی تھی اس سڑک پر سات سات کوس فاصلے سے ایک پختہ سرائے بنوائی ۔ لب سڑک جابجا کنوئیں اور مسجدیں بنوائیں ۔ ہر مسجد میں امام اور موذن مقرر کیا ۔ ہر سرائے میں مسلمان اور ہندو آدمی نوکر رکھے تاکہ سب کو آرام ملے ۔ سڑک کے دونوں طرف درخت لگوائے ۔ کوس کوس بھر پر ایک منارہ بنوایا جس سے راستہ کا انداز ہو ۔ ۔ 
مسدس حالی ص نمبر 36

شیرشاہ کا درجہ 
شیرشاہ منصف مزاج اور غیر متعصب حکمران تھا وہ ایک بہادر سپاہی اور تجربہ کار جرنیل تھا اگرچہ بہت عالم نہ تھا مگر علماء کا بڑا قدر دان تھا اس نے طلباء اور علماءکے لیے سرکاری وظائف مقرر کرکے اپنی علم دوستی اور فیاضی کا ثبوت دیا ۔ وہ بڑا محنتی تھا اور عیش و عشرت سے نفرت کرتا تھا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں سے یکساں سلوک کرتا تھا اس کے عہد میں اس کے اصلاحات رعایا کے لئے بہت مفید تھی ۔ 

شیر شاہ کے عہد میں ملک میں امن رہا ذراعت کو بہت ترقی ہوئی صنعت و حرفت خوب چمکی مرکزی حکومت مضبوط ہوئی اس کی وجہ سے اکبر نے بھی اس کی نقل کی اسی وجہ سے اسے اکبر کا پیشرو مانا جاتا ہے دن رات رعایا کی بہتری کے لئے کام کرتا تھا ۔ ان نیک صفات کی وجہ سے شیرشاہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں میں ممتاز درجہ رکھتا ہے
اپنی جدوجہد سے شیر شاہ نے عظیم سلطنت قائم کی تھی۔ لیکن اس نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر سہسرام کو ہی پسند کیا تھا جو ادھر اس کا قوم سوری کا اکثریت تھا اس لیے اپنی زندگی میں ہی کیمور کی پہاڑی پر مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس کے چاروں جانب جھیل پھیلی ہوئی ہے۔ اور سوری پشتنوں کی مشہور شاخ اسحاق زئ کا بڑا بیٹا تھا


Sunday, 25 August 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 24
خاندان ِمغلیہ
نصیر الدین ہمایوں
1530 سے 1540
اور 1555 سے 1556

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


ہمایوں کی تخت نشینی 

بابر کی وفات پر اس کا سب سے بڑا بیٹا ہمایوں تخت پر بیٹھا ہمایوں نے اپنے باپ کی وصیت کے مطابق اپنے بھائی کامران کو کابل اورقندھار مرزا عسکری کو میوات اور ہندال کو سنبھل ضلع مراد آباد کا علاقہ دیا ۔ 

ہمایوں کی مشکلات 

بابر کو اپنی زندگی میں اتنی فرصت نہ ملی کہ سلطنت کو مضبوط کرتا مغلیہ سلطنت اس وقت بالکل ابتدائی حالت میں تھی اور کئی مخالف طاقتیں اس کا خاتمہ کر دینے پر تلی ہوئی تھیں اسلئے تخت نشین ہوتے ہی ابتدائی مشکلات نے ہمایوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ جونپور میں محمود لودھی بہار میں شیرخان بنگال میں نصرت شاہ اور گجرات میں بہادر شاہ نے بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا ادھر راجپوت الگ سرکش ہوگئے اس کے علاوہ اس کے تینوں بھائی بے وفا ثابت ہوئے اور انہوں نے ہمایوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔ چنانچہ کامران نے پنجاب پر قبضہ کرلیا اور اپنے علاقہ سے فوج بھرتی کرنے کی ممانعت کردی جس سے ہمایوں کی فوجی طاقت کمزور ہو گی اور آخر میں اس کو سلطنت سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ 

ہمایوں کی لڑائیاں 

بہار پرچڑھائی  

ہمایون سب سے پہلے جونپور کے خلاف چڑھائی کی اور اسے فتح کر لیا پھر اس نے بہار کے حاکم شیر خان کو چنار کے مقام پر شکست دی لیکن ہمایوں سے ایک غلطی ہوئی کہ اس نے شیرخان کی طاقت کو پوری طرح سے نہیں مٹایا اور واپس چلا آیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ افغان طاقت پکڑ گئے اور اسے ہندوستان کا تخت چھوڑنا پڑا 

گجرات پر حملہ 


بہادر شاہ والئے گجرات ایک بڑا زبردست بادشاہ تھا اس نے خاندیش برار احمد نگر اور مالوہ فتح کرکے اپنی سلطنت کو وسیع کرلیا تھا اس نے ہمایوں کے ایک باغی رشتہ دار کو پناہ دی اس لئے 1535 میں ہمایوں نے گجرات پر حملہ کردیا بہادر شاہ بھاگ گیا اور ہمایوں نے گجرات پر قبضہ کرلیا اسی عرصہ میں ہمایوں نے قلعہ چمپا نیر کا محاصرہ کیا اس مضبوط قلعہ میں گجرات کے بادشاہوں کا کہیں پشتوں سے دبا ہوا خزانہ موجود تھا ہمایوں نے اس قلعہ کو فتح کرنے میں بہت بہادری دکھائی سپاہیوں کے ساتھ قلعے کی دیوار میں لوہے کی کیلیں گاڈ کر چڑھ گیا اور قلعہ کو فتح کرلیا ۔ یہاں سے اسے بہت خزانہ ملا ہمایوں اپنے بھائی عسکری کو گجرات کا گورنر مقرر کرآیا مگر بہادر شاہ نے جلد ہی قبضہ کرلیا اور عسکری آگرہ کو بھاگ گیا ۔ 

شیرشاہ سے جنگ 

ہمایوں کی گجرات میں مصروفیت سے فائدہ اٹھا کر شیرخان نے بنگال اور بہار پر قبضہ کرلیا جب ہمایوں کو یہ خبر ملی تو بنگال کی طرف روانہ ہوا اور چنار گڑھ کو فتح کرلیا ۔ شیرخان بڑا موقع شناس تھا اس نے سب خزانہ لےکر رہتاس کے قلعہ میں جا بیٹھا اور اس کا لڑکا ہمایوں کا مقابلہ کرتا رہا ہمایوں نےشیر خان کے بیٹے کو کئی مقامات پر شکست دی اور مشرقی کے دارالخلافہ گوڑ پر قبضہ کرلیا اب موسم برسات شروع ہوگیا اور ہمایوں کی فوج موسمی بخار میں مبتلا ہوگئی ۔ ادھر شیرخان نے رسد رسانی کے تمام وسائل بند کر دیے جس سے ہمایوں کو بہت مصیبت کا سامنا ہوا آخر تنگ آکر ہمایوں نے شیرخان سے معمولی شرائط پر صلح کرلی مگر جب ہمایوں بکسر کے قریب چوسہ کے مقام پر سو رہے تھے تو شیر خان کے سپاہی نے اچانک مغلیہ فوج پر حملہ کر دیا جس سے ہمایوں جان بچا کر بھاگا اور اپنے گھوڑے کو دریائے گنگا میں ڈال دیا ۔ گھوڑا تو طغیانی کی وجہ سے ڈوب گیا مگر ہمایوں نظام سقہ کی مدد سے دریائےگنگا پار ہوا جب آگرہ پہنچا تو ہمایوں نے نظام کو آدھا دن سلطنت کرنے کی اجازت بخشی نظام نے اس عرصہ حکومت میں چمڑے کا سکہ چلایا اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو مالامال کر دیا ۔ ایک سال بعد ہمایوں نے بھاری فوج کے ساتھ شعر خاں پر حملہ کیا مگر 1540 میں قنوج کے مقام پر شکست کھائی اور جان بچاکر آگرہ کی طرف بھاگ آیا ۔ 

ہمایوں کی جلاوطنی

ہمایوں شکست کھانے کے بعد لاہور پہنچا تاکہ اپنے بھائی کامران سے مدد حاصل کرے مگر کامران شیرخان سے ڈر کر کابل بھاگ گیا تھا اس لئے ہمایوں مایوس ہوکر اپنی ملکہ حمیدہ بیگم اور چند وفادار سرداروں کے ساتھ صحرائےراجپوتانہ کی طرف روانہ ہوا ۔ کئی مصیبتیں سہتا ہوا امرکوٹ پہنچا یہاں 14 اکتوبر 1542 کو اس کے ہاں اکبر پیدا ہوا جو اکبر اعظم کے لقب سے ہندوستان کا بادشاہ ہوا یہاں سے بعد ازاں وہ قندھار کی طرف آ گیا ۔ اور اپنے بھائی عسکری سے مدد کا طلبگار ہوا مگر مدد دینے کی بجائے عسکری نے اسے قید کرنا چاہا اس لئے ہمایوں اکبر اور اپنی بیوی کو اس کے رحم پر چھوڑ کر ایران بھاگ گیا ایران کا بادشاہ طماسب اس کے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آیا اس جگہ ہمایوں نے پندرہ سال کے قریب قیام کیا ۔ 

ہمایوں کا دوبارہ سلطنت حاصل کرنا اور موت 


شاہ ایران نے 14 ہزار سپاہ سے ہمایوں کی مدد کی اس ایرانی فوج کی مدد سے 1547میں ہمایوں نے قندھار اور کابل فتح کرلئے کامران کی آنکھیں نکلوا دی اور وہ عسکری کے ساتھ حج کو چلا گیا ۔ 1555 میں ہمایوں نے ہند پر حملہ کیا اس وقت شیرشاہ سوری فوت ہوچکا تھا اس کے جانشین کمزور تھے اس لئے ہمایوں کے لیے راستہ صاف تھا سکندر سوری کو سرہند کے مقام پر شکست دے کر دہلی اور آگرہ پر قبضہ کرلیا لیکن اس کی قسمت میں چھ ماہ سے زیادہ حومت کرنی نصیب نہ ہوئی  ہندوستان کی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے بعد ہمایوں طویل عرصہ زندہ نہ رہاوہ ایک شام کو اپنے کتب خانہ کی سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ اذان مغرب کی آواز سنی وہ سیڑھیوں پر ہی رک گیا مگر بدقسمتی سے اس کی لاٹھی پھسل گئی اور وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گیا اور انہیں زخموں سے اس کا انتقال ہو گیا۔ مشہور یورپی مؤرخ لین پول کے مطابق “اس نے تما م عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا“


ہمایوں کا چال چلن 


ہمایوں خصائل پسندیدہ کا مجموعہ تھا اپنے باپ بابر کی طرح بڑا عالم اور عالموں کا قدردان تھا علم ریاضی اور نجوم میں اسے کمال حاصل تھا فارسی نظم فلاسفی میں ماہر تھا وہ قول کا پکا تھا اور دوسروں پر جلدی اعتبار کر لیتا تھا فنون جنگ میں ماہر تھا مگر زبردست بادشاہ ثابت نہ ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں انتظامی قابلیت کی کمی تھی اور زیادہ نرم اور متلون مزاج تھا ۔ ایک کام ختم نہ ہوتا تھا کہ دوسرا شروع کر دیتا تھا اس کی نرمی کی وجہ سے اس کے بھائیوں نے اسے بہت تنگ کیا اور اس کی تباہی کا باعث بنے وہ فتوحات کے بعد لا پرواہ ہوجاتا اور بہت سا وقت جشن منانے میں ضائع کر دیتا تھا بڑھاپے میں افیون کھانے کی عادت پڑ گئی تھی مگر اپنی فیاضی اور رحمدلی میں ہمایوں سب مغل بادشاہوں میں ممتاز درجہ رکھتا تھا


Sunday, 28 July 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 23
خاندان ِمغلیہ
ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ غازی1526 سے 1530


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


فہرستِ شاہانِ مغل[ترمیم]
خاندان مغول یا سلسلہ مغل یا آل تیموری یا گورکانیان
تصویر
لقب
پیدائشی نام
پیدائش
دورِ حکومت
وفات
نوٹس
Babur of India.jpg
بابر
ظہیر الدین محمد
23 فروری 1483
30 اپریل 1526ء – 26 دسمبر 1530ء
26 دسمبر 1530
(عمر 47)
Humayun of India.jpg
ہمایوں
نصیر الدین محمد ہمایوں
17 مارچ 1508
26 دسمبر 1530ء – 17 مئی 1540ء
22 فروری 1555ء – 27 جنوری 1556ء
27 جنوری 1556
(عمر 47)
Akbar Shah I of India.jpg
اکبر اعظم
جلال الدین محمد اکبر
14 اکتوبر 1542
27 جنوری 1556 – 27 اکتوبر 1605
27 اکتوبر 1605ء
(63 سال)
Jahangir of India.jpg
جہانگیر
نور الدین محمد سلیم
20 ستمبر 1569
15 اکتوبر 1605 – 8 نومبر 1627
8 نومبر 1627
( 58 سال)
Shah Jahan I of India.jpg

شاہ جہان اعظم
شہاب الدین محمد خرم
5 جنوری 1592
8 نومبر 1627 – 2 اگست 1658
22 جنوری 1666
( 74 سال )
تاج محل بنوایا
Alamgir I of India.jpg
عالمگیر
محی الدین محمداورنگزیب
4 نومبر 1618
31 جولائی 1658 – 3 مارچ 1707
3 مارچ 1707
(88 سال)
Muhammad Azam of India.jpg
اعظم شاہ
28 جون 1653
14 مارچ 1707 – 8 جون 1707
8 جون 1707
( 53 سال)
Bahadur Shah I of India.jpg
بہادر شاہ
14 اکتوبر 1643
19 جون 1707 – 27 فروری 1712
(4 سال، 253 دن)
27 فروری 1712 (عمر 68)
Jahandar Shah of India.jpg
جہاں دار شاہ
9 مئی 1661
27 فروری 1712 – 11 فروری 1713
(0 سال، 350 دن)
12 فروری 1713 (عمر 51)
Farrukhsiyar of India.jpg
فرخ سیر
20 اگست 1685
11 جنوری 1713 – 28 فروری 1719
(6 سال، 48 دن)
29 اپریل 1719 (عمر 33)
Rafi ud-Darajat of India.jpg
رفیع الدرجات
30 نومبر 1699
28 فروری – 6 جون 1719
(0 سال، 98 دن)
9 جون 1719 (عمر 19)
Shah Jahan II of India.jpg
شاہجہان ثانی
جون 1696
6 جون 1719 – 19 ستمبر 1719
(0 سال، 105 دن)
19 ستمبر 1719 (عمر 23)
----
Muhammad Shah of India.jpg
محمد شاہ
17 اگست 1702
27 ستمبر 1719 – 26 اپریل 1748
(28 سال، 212 دن)
26 اپریل 1748 (عمر 45)
Ahmad Shah Bahadur of India.jpg
احمد شاہ بہادر
23 دسمبر 1725
26 اپریل 1748 – 2 جون 17
1 جنوری 1775 (عمر 49)
Alamgir II of India.jpg
عالمگیر ثانی
6 جون 1699
2 جون 1754 – 29 نومبر 1759
(5 سال، 180 دن)
29 نومبر 1759 (عمر 60)
Sin foto.svg
شاہجہان ثالث
1711
10 دسمبر 1759 – 10 اکتوبر 1760
1772
Ali Gauhar of India.jpg
شاہ عالم ثانی
25 جون 1728
24 دسمبر 1759 – 19 نومبر 1806 (46 سال، 330 دن)
19 نومبر 1806 (عمر 78)
Akbar Shah II of India.jpg
اکبر شاہ ثانی
22 اپریل 1760
19 نومبر 1806 – 28 ستمبر 1837
28 ستمبر 1837 (عمر 77)
Bahadur Shah II of India.jpg
بہادر شاہ ثانی
24 اکتوبر 1775
28 ستمبر 1837 – 14 ستمبر 1857 (19 سال، 351 دن)
7 نومبر 1862
انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کو جنگ آزادی ہند 1857ء میں شکست دینے کے بعد مکمل طور پر قبضہ بھی کر لیا اور خاندان مغول کو برطرف کر دیا


دور حکومت
30 اپریل 1526 (قدیم تقویم) — 26 دسمبر 1530 (قدیم تقویم)
تاج پوشی
رسمی تاجپوشی نہیں ہوئی
بابر
خطاب
السلطان الاعظم والخاقان المکرم پادشاہ غازی شاہِ فرغانہ (1495–1497) ، شاہِ سمرقند (1497) ، شاہِ کابل (1501–1530)
معلومات شخصیت
پیدائش
وفات
26 دسمبر 1530 (47 سال)  خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں تاریخ وفات (P570) ویکی ڈیٹا پر
مدفن
تاریخ دفن
1531
شہریت
مذہب
زوجہ
اولاد
خاندانِ تیمور
نسل
ہمایوں ، کامران مرزا ، عسکری مرزا ، ہندال مرزا ، گلبدن بیگم ، فخر النساء ، التون بِشِک
خاندان
دیگر معلومات
پیشہ
شاعر،  آپ بیتی نگار  خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں پیشہ (P106) ویکی ڈیٹا پر
کارہائے نمایاں

مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر مغل قوم سے تھا اس کا باپ عمر شیخ مرزا ترکستان کی ایک چھوٹی سی ریاست فرغانہ کا حکم تھا ۔ 1483 میں پیدا ہوا ۔ وہ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا وہ ابھی بارہ برس کا نہ ہوا تھا کہ اس کا باپ مر گیا اور سلطنت کا تمام بوجھ اس کے سر پر آ پڑا اس کے چچا نے چڑھائی کی اور شکست دے کر اس کی سلطنت پر قبضہ کرلیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور بہادری سے مصیبتوں کا مقابلہ کرتا رہا اور اس طرح دس سال گزار دیئے ۔ آخر اپنے وطن کو چھوڑ کر 1504 میں افغانستان چلا گیا ۔ یہاں اس کی قسمت نے ساتھ دیا اور کابل کا بادشاہ بن گیا اس نے 1504 سے 1526 تک کابل پر حکومت کی ۔ اس عرصہ میں اس نے غزنی بدخشاں اور قندھار کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اس نے پانی پت کی لڑائی سے پہلے ہندوستان پر تین دفعہ حملے کیے مگر پنجاب سے آگے نہ بڑھ سکا آخر 1526 میں پانی پت کی لڑائی میں فتح حاصل کر کے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ہوا ۔


پانی پت کی پہلی لڑائی 1526    

وجہ
ابراہیم لودی کے سلوک سے تمام امراءتنگ تھے اس لئے دولت خان لودھی حاکم پنجاب اور رانا سانگا والیے میواڑ نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی گئی ۔

واقعات

بابر بارہ ہزار سپاہیوں اور توپ خانہ کے ساتھ ابراہیم لودھی کے مقابلہ کے لیے پانی پت میں آ موجود ہوا ابراہیم کے پاس ایک لاکھ سپاہی اور دو ہزار جنگجو ہاتھی دے مگر ابراہیم کوئی اعلیٰ پایا کا جرنیل نہ تھا ۔ آخر ٢١ اپریل ١۵٢٦ کو بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی ہندوستان میں یہ پہلا موقع تھا کہ توپ خانہ کا استعمال ہوا ابراہیم کے ہاتھی گولا باری سے ڈر کر بھاگ نکلے ابراہیم کو شکست ہوئی اور چالیس ہزار سپاہیوں سمیت جنگ میں قتل ہوا اس سے بابر دہلی اور آگرہ کا بادشاہ بن گیا ۔

جنگ کنواہہ 1527

راجپوتوں کا خیال تھا کہ بابر بھی امیر تیمور کی طرح لوٹ مار کر کے واپس چلا جائے گا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ہندوستان میں ایک مستقل حکومت قائم کرنے کا ہے تو انہوں نے راناسانگا والئے چتوڑ کی سرگردگی میں بابر کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور یہ جنگ بابر اور راناسانگا کے درمیان سیکری کے قریب کے کنواہہ کےمیدان میں 1527 میں ہوئی ۔ اس لڑائی میں راناسانگا والئے میواڑ نے سب راجپوت راجاؤں کو بابر کے خلاف شامل ہونے کے لئے بلایا ۔ ایک لاکھ راجپوت بابر کے مقابلہ کے لیے آموجود ہوئے راناسانگا بڑا جواں مرد اور بہادر جرنیل تھا اور کئی لڑائیوں میں جوانمردی کے جوہر دکھا چکا تھا اس کے جسم پر اسی  زخموں کے نشانات موجود تھے راجپوتوں کی اتنی بڑی فوج دیکھ کر بابر کے سپاہی بہت گھبرائے ۔ مگر بابر نے بڑے حوصلہ سے کام لیا اور ایک جوشیلی تقریر کرکے اپنی فوج کی ہمت بڑھائی اور قسم کھائی کہ وہ آئندہ کبھی شراب نہ پیئے گا ۔ اس لڑائی میں راجپوتوں نے جان توڑ کر مقابلہ کیا لیکن بابر کے توپ خانوں  کے سامنے ان کی کوئی نہ چلی ۔ راجپوتی سپاہ کے پاؤں اکھڑ گئے اور بابر کو فتح نصیب ہوئی ۔

فتح چندیری  1528

1528 میں بابر نے چندیری کے مضبوط قلعہ پر حملہ کیا اس پر رانا سانگا کے باقی ماندہ راجپوت سردار میدنی رائے کے ساتھ موجود تھے ۔ یہ ابھی راجپوتوں نے خوب مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور اس قلعہ پر بابر کا قبضہ ہوگیا اس لڑائی کے بعد راجپوتوں کی طاقت کا خاتمہ ہوگیا ۔

گھاگرا کی لڑائی 1529


راجپوتوں کی طرف سے جب بابر کو کوئی خطرہ نہ رہا تو اس نے بنگال اور بہارکے افغان سرداروں کو دریائے گھاگھرا کے کنارے پر 1529 میں ہرایا ۔اور بیھار پر قبضہ کرلیا لیکن نصرت شاہ حاکم بنگال نے بابر کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کر لئے اور اپنی سلطنت کو بچالیا ۔

بابر کی موت

1530 میں بابر کا سب سے بڑا بیٹا ہمایوں سخت بیمار ہوا شاہی حکماء علاج کرتے ہوئے تھک گئے کہتے ہیں کہ جب ہمایوں کے بچنے کی امید باقی نہ رہی تو بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کی چارپائی کے گرد تین دفعہ چکر لگایا اور خدا سے دعا کی کہ ہمایوں کی بیماری مجھے لگ جائے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی وقت سے ہمایوں تندرست ہوتا گیا اور بابر بیمار پڑ گیا اور ،1530 میں مر گیا اس کی نعش اس کی وصیت کے مطابق کابل میں لے جا کر دفن کر دی گئی ۔

بابرکا چال چلن

بابر ناصرف غضب کا بہادر اور دلیر سپاہی تھا بلکہ تجربہ کار جرنیل بھی تھا وہ زبردست تیراک ۔ مشہور تیر انداز اور گھوڑے کی سواری کا شائق تھا وہ اتنا طاقتور تھا کہ دو آدمیوں کو بغل میں دبا کر آگرہ کے قلعہ کی فصیل پر بھاگ سکتا تھا اس کی تمام عمر مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھانے میں گزری لیکن وہ بڑا صابر مستقل مزاج اور زبردست قوت ارادی کا مالک تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تکلیفوں کی کچھ پروا نہ کی بابر پہلے مغل بادشاہوں کی طرح بے رحم نہ تھا بلکہ وہ رحم دل اور رعایہ کا ہمدرد بادشاہ تھا  ۔ بابر ایک اچھا مصنف اور شاعر بھی تھا وہ علم ادب کا مربی اور علماء کی مجلس کا مشتاق تھا علاوہ ازیں اور قدرتی نظاروں کا شوقین تھا اس نے اپنی سوانح عمری خود لکھی جو تزک بابری کے نام سے مشہور ہے ۔



کرناٹک اردو اکادمی ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔

کرناٹک اردو اکادمی  ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری بلگام کرناٹک 8105493349 "ہر اردو اکادمی اردو کا ای...