Friday, 13 September 2024

"مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف" اذان ایک سچی کہانی

 

"مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف"

اذان ایک سچی کہانی

آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل (شاہ نوری)

کروشی ،کرناٹک ، انڈیا

8105493349

سن 2010 کی بات ہے ۔ ۔ ۔ میں بعد نمازِ عصر ٹہلنے کہیں جا رہا تھا ۔ ۔ اچانک مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔ ۔ آفتاب بھائی ۔ ۔ ۔ آفتاب بھائی ۔ ۔ ۔ !! میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرا ایک قریبی رشتہ دار واصف تھا ۔ ۔میں نے کہا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا ہمارے ہسٹری کے لیکچرار ہیں جن کا نام مشتاق صاحب ہے ۔ ۔ ہیں تو مسلمان مگر برائے نام  ۔ ۔ دین سے بیزار اور دین سے بہت دور ہیں ۔ ۔ انہوں نے ایک سوال پوچھا ہے مجھے اس کا جواب چاہیے ۔ ۔ میں نے پوچھا سوال کیا ہے ۔ ۔ ؟ کہنے لگا جب بھی مجھے ملتے ہیں تو یہی سوال بار بار پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں گھڑی گھنٹہ سب کچھ موجود ہے پھر بھی مسلمان لاؤڈ اسپیکر پر چلا کر کیوں اذان دیتے ہیں ۔ ۔؟ جب کہ ہر ایک مسلمان کو فجر سے لے کر عشاء تک کے نمازوں کے اوقات کا علم ہے ۔ ۔ ۔ !!!! میں نے واصف سے کہا ۔ ۔  بھائی واصف اس وقت میرے ذہن میں تمہارے اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں البتہ میں سوچ کر یا کسی سے پوچھ کر ان شاء اللہ بتاؤں گا ۔ ۔ اس واقعے کو گزرے کئی ہفتے ہو  گئے، مگر میرے ذہن میں اس کے تعلق سے کوئی مناسب جواب نہیں تھا ۔ ۔ میں کئی دنوں اسی سوچ اور فکر میں تھا ایک دن اللہ نے مجھ پر رحم فرمایا اور ایک جواب میرے ذہن میں ڈال دیا ۔ ۔ مغرب کی نماز کے بعد واصف مجھے مسجد کے باہر ہی مل گیا ، میں نے کہا بھائی واصف تمہارے سوال کا جواب مل گیا وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا جلدی بتاؤ ۔ ۔ میں نے کہا اگلی بار جب تمہارے ہسٹری کے لیکچرار مشتاق صاحب تم سے اذان سے متعلق سوال کریں تو تم ان کو جواب دینے سے پہلے ان سے سوال کرنا ۔ ۔ کہنے لگا کیسا سوال؟ ان سے ادب سے پوچھنا کہ سر جی ہماری ایک کلاس کتنے گھنٹے کی ہوتی ہے؟ وہ جواب میں کہیں گے 50 منٹ یا ایک گھنٹے کی ۔ ۔ ۔ پھر ان سے اگلا سوال پوچھنا کہ سر یہ زمانہ تو گھڑی گھنٹے کا زمانہ ہے پھر پریڈ کے مکمل ہونے پر چپراسی bell گھنٹی کیوں بجاتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ جبکہ اساتذہ اور طلبہ کو اپنے اپنے پریڈ کے اوقات کا مکمل علم ہے ۔ ۔ ! تم دیکھو گے کہ لیکچرار مشتاق صاحب خاموش ہو جائیں گے  ۔ ۔ ۔ پھر تم جواب دینا  ۔ ۔ اور یوں کہنا کہ جب آپ پانی پت کی پہلی جنگ کا سبق ہمیں پڑھاتے ہیں ۔ ۔تو ہم پر اس سبق کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ استاد اور طلبہ،خود کو پانی پت کے میدان جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں،تلواروں کی جھنجھناہٹ،نیزوں کی بوچھاریں نظر آنے لگتی ہیں ۔ ۔ استاد اور طلبہ خود کو  2010 کی بجائے 1526 کے میدانِ جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ 1526 سے 2010 میں واپس لانے کے لیے چپراسی گھنٹی بجا کر کہتا ہے عزیز استاد و طلبہ پانی پت تمہاری اصل دنیا نہیں ہے واپس لوٹ آؤ ۔ ۔ ۔ یہ یعنی2010 تمہاری اصل دنیا ہے اس کے بعد تم دوسرا مضمون پڑھو گے جس میں جانوروں اور پودوں کے متعلق پڑھایا جائے گا ۔ ۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان بھی اس دنیا کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اس دنیا کو ہمیشہ رہنے کی جگہ سمجھنے لگتا ہے ۔ ۔ اس غفلت اور گمان سے مسلمان کو باہر نکالنے کے لیے موذن اذان دیتا ہے اور یہ کہتا ہے اے مسلمانو ۔ ۔ ! یہ تمہاری اصل دنیا نہیں ہے اصل جگہ تو آخرت ہے چلو مسجد کی طرف آ جاؤ اور اپنے رب کو راضی کرو ۔ ۔ اس جواب کے سننے کے بعد واصف خوشی سے جھومنے لگا ۔ ۔ ۔ میری بھی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ ۔ میں نے دل میں سوچا "ہسٹری کے لیکچرار مشتاق سر اس جواب کو سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے اللہ نے مجھے اس جواب کو خوب سمجھا دیا ۔ ۔ ۔ ۔"

 

Tuesday, 10 September 2024

’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘‘ ڈابھیل، گجرات کا روحانی سفر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘‘  ڈابھیل، گجرات کا روحانی سفر

حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ایک خوبصورت بات تحریر فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں "علم کی وجہ سے بندہ امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے" ۔ حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بات علم اور علماء کی فضیلت میں لکھی ہے ۔ ۔ میں حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں "اہل علم اور جید علمائے دین علمائے حق کی صحبت کی برکت سے ایک عام آدمی بھی امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے"

یوں تو ڈابھیل جانے کی خواہش برسوں سے دل میں تھی مگر زندگی میں کبھی ایسے حالات نہیں آئے جس کی وجہ سے میں ڈابھیل کا سامان سفر باندھتا ۔ ڈابھیل جانے کی خاص وجہ جو شروع سے میرے دل میں تھی وہ یہ کہ بڑے حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم سے ملاقات اور ہندوستان کے قدیم مدرسہ جامعہ ڈابھیل کو دیکھنا جہاں جید اکابر علماء مشائخ نے اپنی خدمات انجام دی تھیں ۔ اس بار کے سفر میں، میں نے ایک بات یہ بھی شامل کر لی تھی کہ بڑے حضرت سے ملاقات پر ان سے ایک مخصوص دعا کی گزارش کرنی تھی ۔

میرے لیے یہ راستہ حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کے خلیفہ حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب اتھنی ان کے ذریعے آسان ہوا۔ ۔

سن لے اے دوست! جب ایام بھلے آتے ہیں

گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

چند روز پہلے حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب کا مجھے فون آیا وہ کہنے لگے کہ میں ڈابھیل جا رہا ہوں اگر آپ کا آنے کا ارادہ ہے تو بروقت بتا دیں کیونکہ مجھے پہلے سے قاری عبدالحنان صاحب کو اطلاع دینی اور اجازت لینی ہوتی ہے ۔ میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی اس چیز کا انتظار تو مجھے برسوں سے تھا میں نے فورا حامی بھر لی ۔ ۔ ۔ مولانا نے سعید بھائی اتھنی ان کے ذریعے ہم دونوں کا ریزرویشن مریج سے سورت سنیچر 7 ستمبر 2024 کا کروایا ۔ ۔ ۔ چونکہ میرا سسرال میرج سے بالکل قریب ہے اور بچوں کے دو دن کی چھٹیاں بھی تھیں اسی غرض سے میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اپنے سسرال شیڑشال مہاراشٹرا ڈابھیل سفر سے ایک روز پہلے ہی جمعہ کے شام میں چلا گیا ۔ ۔ رات کا کھانہ میں نے اپنی خالہ کے گھر کھایا جو یہیں شیڑشال میں رہتی ہیں ۔ ۔ رات عشاء کی نماز کے بعد فورا سو گیا چونکہ اگلے دن کا طویل سفر تھا ۔ ۔ صبح بعد نماز فجر چائے ناشتے کے بعد اپنے کچھ سسرالی رشتہ داروں کی ملاقات کر لی ۔ ۔ صبح ساڑھےگیارہ بجے میرے فرزند محمد تمیم اور میری دختر نائلہ ان دونوں کو لے کر میرے سسر مجھے بس اسٹاپ چھوڑنے کے لئے کاگواڑ کی طرف نکل پڑے ۔ ۔ ۔ چند منٹوں میں ہم لوگ کاگواڑ کے بس سٹاپ پر پہنچے ہی تھے کہ میرج کے لیے بس لگی ہوئی تھی جب میں اتر کر جانے لگا تو مجھے تنہا بس میں چڑھتا دیکھ میری دختر رونے لگی اور میرے ساتھ آنے کی ضد کرنے لگی میرے سسر نے بہلا پھسلایا  ۔ ۔ ۔ بس میں سوار ہوا کئی کلو میٹر تک دختر کا روتا ہوا چہرہ نظروں کے سامنے آ رہا تھا ۔ ۔  تقریبا 12 بج کر 45 منٹ کے قریب میرج بس سٹاپ پہنچ گیا ۔ ۔ وہاں پہنچ کر میں نے اول وقت میں ہی نمازِ ظہر ادا کر لی اور وہاں سے نزدیک ایک ہوٹل میں گیا اور دوپہر کے لیے کھانا پیک کروا لیا ۔ ۔ ویسے گھر سے نکلتے ہوئے اہلیہ محترمہ نے تلی ہوئی مچھلیاں پیاک کر دی تھیں ۔ ۔ میرج بس اڈے سے میرج کا ریلوے اسٹیشن زیادہ دور نہیں ہے ۔ ۔ وہاں سے میں پیدل ہی اسٹیشن کی طرف بڑھا،راستے میں چیزیں فروخت کرنے والے لوگوں کی آوازوں کے شور کے درمیان سے گزرتا ہوا آخر کار میں ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر میں نے اپنے کرم فرما مولانا حبیب اللہ صاحب کو فون کیا وہ بھی میرج سے بالکل قریب تھے ۔ اسٹیشن پر ایک بینچ پر بیٹھ گیا چند لمحوں بعد ایک صاحب میرے قریب آ کر بیٹھے جو دراصل کڑچی کے باشندے تھے کئی دیر تک ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا حبیب اللہ صاحب کی تشریف آوری ہوئی ۔ ویسے تو ٹرین کا ٹائمنگ دوپہر 2:10 کا تھا مگر آدھے گھنٹہ کی تاخیر سے ٹرین پلیٹ فارم پر نمودار ہوئی ۔ ۔ ٹرین میں بیٹھنے کے دس پندرہ منٹ کے بعد ہم نے اپنا توشہ دان کھولا جس میں چکن بریانی اور شیڈشال سے اہلیہ محترمہ نے جو مچھلیاں فرائی کر کے بھیجی تھی ہم نے خوب سیر ہو کر کھائیں ۔ ۔ ۔ الحمدللہ مولانا کو مچھلیاں بہت پسند آئیں ۔ ۔ ۔کچھ دیر کے بعد میں نے وہیں سے زومیٹو پر پونہ مدینہ ہوٹل سے رات کے کھانے کا آڈر کر لیا ۔ ۔ جو بر وقت ٹھیک رات آٹھ بجے پارسل مل گیا ۔ ۔ ۔ کھانا کھا کر عشاء کی نماز ادا کر کے سو گئے ۔ ۔ رات کے تقریبا تین بجے کے قریب ہم لوگ سورت اسٹیشن پہنچ گئے باہر آ کر دیکھا تو سورت اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے لوگ تہوار کی خریداری کے لئے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں ۔ یقینا سورت شہر بہت جلدی جاگتا ہے اور شاید اسی وجہ سے یہ ہندوستان کے ترقی یافتہ شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔ چائے پینے کے بعد ہم لوگ ایک آٹو رکشہ میں جامعہ ڈابھیل کی طرف روانہ ہو گئے جو وہاں سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔

 

جامعہ دھابیل کی مختصر تاریخ


احمد میاں لاجپوری کے ایک شاگرد احمد حسن بھام سملکی نے سملک مسجد، سملک میں "مدرسہ تعليم الدین" کو قائم کیا تھا، پھر احمد ابراہیم بزرگ سورتی سملکی کے انتقال کے بعد مدرسہ کو ڈابھیل منتقل کیا گیا۔ احمد ابراہیم بزرگ سورتی سملکی کو بطور پرنسپل مقرر کیا گیا تھا اور انھوں ہی نے مدرسہ تعلیم الدین کا نام جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل تبدیل کیا تھا۔

انور شاہ کشمیری، شبیر احمد عثمانی، عبد الرحمن امروہوی، علامہ محمد یوسف بنوری ، محمد شفیع دیوبندی ، مولانا محمد ایوب اعظمی، مولانا اکرام علی بھاگلپوری اور مولانا واجد حسین دیوبندی اس جامعہ کے اساتذۂ حدیث رہے ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کو علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات کے بعد جامعہ کا شیخ الحدیث مقرر کیا گیا تھا۔مفتی احمد صاحب خان پوری موجودہ شیخ الحدیث ہے۔

حوالہ : ویکی پیڈیا

جب ہم جامعہ میں داخل ہوئے تو گیٹ مین نے تفصیلات پوچھیں مولانا صاحب نے تفصیلات بتائیں ہم لوگ گیٹ کے اندر داخل ہوئے اور اپنا سامان مسجد کے سامنے موجود حوض کے اوپر رکھا جسے یہاں کشتی کہتے ہیں ۔ ۔ ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کیا تہجد کی نماز ادا کی اور فجر کی اذان تک ذکر و دعا میں مصروف ہو گئے ۔ کچھ طلبہ اس وقت بھی مسجد کے کونے میں بیٹھے ذکر جہری میں صروف تھے ۔ فجر کی اذان کے بعد ایک ایک کر کے مہمانان رسول کی آمد مسجد میں ہونے لگی چند منٹوں میں مسجد طلبہ سے بھر گئی ان میں اکثروں کے چہرے سرخی و سفیدی مائل نورانی چہرے تھے چونکہ جماعت میں تاخیر تھی کوئی ذکر کوئی تلاوت میں مسلسل مصروف تھا ۔

بعد نماز فجر مولانا صاحب کے فرزند مولانا اسد اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی جو عربی ششم میں پڑھتے ہیں ۔ وہاں سے مولانا  کے فرزند ہمیں چائے پینے کے لئے لے گئے ایک بڑے ہال میں سلیقے سے دسترخوان بچے تھے اور بٹر رکھے ہوئے ہم لوگ چائے اور بٹر کھا کر مہمان خانے کی طرف گئے ۔ ۔ ۔ جہاں ہم لوگوں نے آرام کیا ۔ تقریبا صبح کے 10 بجے تک نہانے دھونے ناشتے سے فارغ ہو کر ہم مسجد کے طرف چلے جہاں حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کا درسِ بخاری تھا ۔ حضرت 10:20 پر بذریعہ ویل چیئر کے مسجد میں داخل ہوئے ۔ حضرت کا پرنور چہرہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔ ۔ ان طلبہ کے ساتھ بیٹھے جب حضرت کا درس سن رہا تھا بار بار دل میں حدیث کا یہ ترجمہ گونج رہا تھا وہ یہ کہ جو کسی جماعت کی تعداد بڑھا دے اس کا شمار انہی لوگوں میں ہے ۔ ۔ حضرت کی شخصیت تو بحر العلوم ہے درس کے دوران ایسے ایسے نقطے بیان کرتے تھے گویا انسان کی عقل حیران رہ جائے ۔ ۔ درس بخاری کی حضرت کی تشریح کردہ احادیث کو بہت مرتبہ پڑھا اور سنا تھا مگر جس انداز سے حضرت نے سمجھایا اور بیان کیا شاید ان احادیث کو میں زندگی بھر کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ۔ درس کے بعد طلبہ اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے اور حضرت کو ویل چیئر کے ذریعے سے کار تک پہنچایا گیا حضرت کار میں سوار ہو کر محمود نگر کی طرف چلے گئے جہاں حضرت کا مکان تھا اور ان کے پیچھے پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت کی گھر کی طرف روانہ ہوا اور ہم بھی اس  قافلے میں شریک ہو گئے ۔ وہاں ایک بڑے ہال میں قاری عبدالحنان صاحب نے تعلیم شروع کی تعلیم کے بعد حضرت نے دعا فرمائی اور آئے ہوئے احباب نے اپنے اپنے احوال سنائے اور حضرت سب سے مصافحہ کر کے وہاں سے اپنے مکان کی طرف چلے گئے جو وہاں سے چند قدم کی دوری پر تھا ۔ ۔ ۔ سارے لوگوں نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد قاری عبدالحنان صاحب سے مولانا نے میری ملاقات کروائی اور ہمیں خصوصی مہمان خانے میں ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا ۔ ۔ اور ہمیں حضرت سے ملنے کا وقت عصر کے بعد دیا گیا ۔ ۔ ظہر کی نماز کے بعد ہم لوگ دوبارہ مہمان خانے میں آ گئے میں نے مولانا کی اجازت لے کر اہل خانہ کے لیے کچھ خریدداری کے لیے سورت چلا گیا ۔ ۔ مگر وہاں جا کر پتہ چلا کہ اتوار کے دن بازار بند رہتا ہے جس کی وجہ سے میں واپس تقریبا چار بجے لوٹ آیا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کی نماز کے لیے چلے گئے ۔ ۔ حضرت سے ملنے کے لیے لوگ قافلہ در قافلہ یکے بعد دیگرے حضرت کے گھر میں جاتے رہے اور ہم لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد ہمیں اجازت مل گئی ہم اندر مکان میں داخل ہوگئے ۔ دیکھا تو حضرت سفید رنگ کا بنیان اور سفید رنگ کی لنگی پہننے کرسی پر بیٹھے تھے ۔ ہم دونوں نے مصافحہ کیا اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئے ۔ یوں تو میں حضرت مفتی صاحب کی زیارت برسوں سے کرتا رہا ہوں مگر اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع آج زندگی میں پہلی مرتبہ ملا اتنا نورانی چہرہ  روشن چہرہ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کا نہیں دیکھا تھا ۔ مولانا حبیب اللہ صاحب نے حضرت کے مزاج پوچھے کے بعد اپنے مکان میں اجتماعی ذکر کی اجازت چاہی تو حضرت نے برجستہ اجازت دے دی ۔ ۔ مولانا نے جب طبیعت کے بارے میں جب پوچھا تو کہا کہ پیروں میں درد رہتا ہے اور واقعتا حضرت کے پیر بہت سوجھے ہوئے تھے ۔ مولانا نے حضرت سے اجازت لے کر حضرت کے قدموں کے قریب بیٹھے اور پیروں کو پکڑ کر دباتے ہوئے کچھ پڑھتے رہے ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں حضرت کے قریب گیا اور میں نے اپنا تعارف کرایا کہ حضرت میرا نام آفتاب عالم پٹیل ہے ۔ ۔ اور جس نیت سے میں نے یہ سفر کیا تھا اس دعا کا ذکر میں نے حضرت سے کیا حضرت نے دعا دی اور میں نے اس پر آمین کہا اور اللہ کی ذات سے امید بھی رکھی کہ حضرت کی زبان سے نکلی ہوئی اس دعا کو اللہ تعالی ضرور قبول کرے گا ۔ حضرت سے اجازت لے کر ہم ان کے مکان سے باہر نکل کر جامعہ کی طرف گئے جہاں مولانا اپنے پرانے اساتذہ سے ملاقات کرنا چاہ رہے تھے ۔ ۔ مغرب کی نماز جامعہ کی مسجد میں ادا کی ۔ مغرب کے بعد میں نے روزانہ کے معمولات پورے کیے ۔ ۔ بعد نماز عشاء کھانا کھایا اور حضرت کے چھوٹے فرزند مولانا ارشد صاحب سے مختصر سی ملاقات ہوئی ۔ کھانے کے بعد فورا سو گئے ۔ ۔ رات کے تقریبا 4:15 بجے مولانا نے مجھے جگایا ۔ ۔ جلدی اٹھو ذکر جہری کے لیے حضرت کے مکان پر جانا ہے ۔ ۔ اتنا سننا تھا میں فورا اٹھا وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر حضرت کے مکان کی طرف گئے ۔ حضرت کے چھوٹے فرزند کے علاوہ ہم  پانچ چھ لوگ تھے جو ذکر جہری میں شامل تھے ۔ میں حضرت کے بالکل قریب ہو کر بیٹھا تھا ۔ جب حضرت الا اللہ کی ضرب لگاتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ضرب میرے سینے پر لگ رہی ہے ۔

نفیِ ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا للہ کا

علامہ اقبال

مطلب: جو شخص معرفت حق سے آگاہ ہو جاتا ہے اسے یہ باور کرنے میں تاخیر نہیں ہوتی کہ نفی کے بعد ہی اثبات کا مرحلہ آتا ہے ۔ اپنے وجود کو مٹانے سے ہی رب ذوالجلال کی معرفت نصیب ہوتی ہے ۔

ذکر مکمل ہونے کے بعد ہم لوگ مہمان خانے کی طرف چلے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد فجر کی اذان ہوئی ہم لوگ نماز ادا کرنے کے لیے قریب کی مسجد میں چلے گئے ۔ نماز فجر کے فورا بعد مہمان خانے میں ناشتے کا انتظام کیا گیا تھا گجراتی ناشتہ کرنے بعد مولانا ذکر میں مصروف ہو گئے میں ادھرادھر ٹہلتا رہا ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آرام کرنے لیٹ گیا ۔ ۔ اور تقریبا ساڑھے نو بجے اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہوا اور ٹھیک 10 بجے مولانا حضرت کے درسِ بخاری میں شرکت کے لئے آگے نکل گئے ۔ ۔ میں نے درس بخاری میں شرکت کی نیت سے نئے کپڑے اور نئی ٹوپی لی تھی ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں بھی تیار ہو کر حضرت کے درس میں شامل ہو گیا ۔ آج کے درس میں حضرت پاکی ناپاکی اور غسل کے متعلق احادیث بیان کر رہے تھے ۔ اس درس میں ایسی کئی نئی باتیں تھیں جو میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سنی تھیں اور واقعتا اس درس سے مجھے بہت بڑا فائدہ ہوا ۔ درس کے بعد حضرت کو قاری عبدالحنان صاحب  ویل چیئر کے ذریعے  کار کی طرف لے گئے اور وہاں سے حضرت اپنے مکان کی طرف گئے ۔ ۔ تقریبا 12 بجے کے قریب ہم لوگ مہمان خانے میں گئے جہاں پہنچنے کے بعد مہمان خانے کے ناظم نے ہمیں دوپہر کا کھانا کھلایا ۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے ظہر کی نماز ادا کی ظہر کی نماز کے بعد میں جامعہ کا کتب خانہ دیکھنے کے لیے چلا گیا ۔ کتب خانے کے ذمہ دار سے میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان سے اجازت چاہی کہ میں کتب خانہ دیکھنا چاہتا ہوں انہوں نے بخوشی اجازت دے دی ۔ ۔ کتب خانے میں داخل ہوتے ہی کتب خانے کے بائیں جانب ایک کانچ کی الماری میں  کتابوں کے قلمی نسخے ، پرانے خطوط، قران کے قلمی نسخے ، اور بھی بہت سی پرانی تحریریں تھیں ۔ ۔ اس کتب خانے میں تقریبا 40 ہزار کتابیں ہیں ۔ میں بہت دیر تک کتب خانے میں الگ الگ موضوعات کی کتابوں کی ہیڈنگ پڑھتے ہوئے سارے کتب خانے کا دورہ کیا اور کتب خانے کے ذمہ دار کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے باہر نکل آیا ۔ ۔ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم جامعہ سے واپسی کے سفر کے لئے نکلے ۔ بیکری سے بچوں کے لیے کھانے کے لیے چیزیں اور عطر وغیرہ خریدنے کے بعد ہم لوگ وہاں پہنچے جہاں سے ہم کو بس پکڑنی تھی ۔ رات کے کھانے کے لیے چکن بریانی کا پارسل ساتھ میں لے لیا ۔ اور ہائی وے سے ذرا دور ہٹ کر مغرب کی نماز ادا کی ۔ تھوڑی دیر کے بعد بس آئی ۔ ہم لوگ بس میں سوار ہوئے ۔ بس جب نکلی تو مجھے بار بار حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کا نورانی چہرہ نظر آ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں گونج رہا تھا ۔

جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی

الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کی سینوں میں

علامہ اقبال

مطلب: اے رب ذوالجلال! یہ تو بتا کہ اہل دل ( اللہ والوں)  کے سینوں میں وہ کون سی قوت پوشیدہ ہو سکتی ہے جو اپنی ایک پھونک سے بجھی ہوئی شمع کو پھر سے روشن کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تو نے ایسی کون سی صلاحیت پیدا کی ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تقریبا رات کے 10 بجے بس ایک جگہ ٹھہر گئی جہاں ہم لوگوں نے عشاء کی نماز ادا کی اور کھانا کھایا اور دوبارہ بس میں سوار ہو گئے رات کے تقریبا ڈھائی بجے کے قریب جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہم لوگ ممبئی شہر میں داخل ہو چکے ہیں ۔ ۔ ممبئی میں زوردار بارش ہو رہی تھی ۔ ۔ اور جا بجا سڑکوں پر گاڑیاں چل رہی تھیں چائے کے ٹھیلے شروع تھے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے گویا کہ شاید رات کو جگتے ہوں گے اور دن کو سوتے ہوں گے ۔ بارش تیز تھی مگر اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہے تھی البتہ بجلی کے کھمبوں سے نکلنے والی روشنی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ بارش کے قطرے اسی روشنی سے نکل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ممبئی شہر کی گھٹتی بڑھتی عمارتوں کو دیکھتے دیکھتے میں سو گیا ۔ ۔ اور دوپہر کے 12 بجے کے قریب کولہاپور پہنچا جہاں میرے سسر پہلے سے میری بائک لے کر میرا انتظار کر رہے تھے ۔ ۔ مولانا سے اپنے سسر کی ملاقات کرائی ۔ ۔ وہاں سے مولانا میرج کی بس کے لئے نکلے ۔ ۔ میرے سسر بس اسٹاپ کی طرف اور میں وہاں سے کاگل نیپانی ہوتا ہوا کروشی کی طرف نکلا ۔ ۔ ۔ اس طرح الحمد للہ بخیر عافیت سے واپس لوٹا ۔ ۔ ۔

 

آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل(  شاہ نوری )

کروشی بلگام کرناٹک انڈیا

8105493349

 

 


Tuesday, 3 September 2024

پیارے نبی ﷺ کی سیرت کو عام کرنے کے آسان اور مؤثر طریقے ۔ ۔ ۔

پیارے نبی ﷺ کی سیرت کو عام کرنے کے آسان اور مؤثر طریقے  ۔  ۔  ۔ 


 


آفتاب عالم ؔ شاہ نوری 

بلگام، کرناٹک

8105493349


جونیئر کالج میں بحیثیت اردو لیکچرار گزشتہ 11 برسوں سے کام کرنے کا مجھے موقع ملا ہے ۔ کرناٹک کے پی یو سی سالِ اول کے نصاب میں شامل پہلا سبق جس کا نام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم انسانیت ہے ۔ اس سبق کی تدریس کے دوران جب بھی میں بچوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوالات پوچھتا ہوں، جیسے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا نام، ازواج و اولاد کی تعداد ، آپ کے حالاتِ زندگی وغیرہ وغیرہ تو یقین جانیے سوائے ایک یا دو طالب علموں کے پوری کی پوری جماعت ان باتوں سے نا واقف ہے ۔ اور یہ مسئلہ صرف ایک بیاچ کا نہیں ہے بلکہ ہر سال کی ہر بیچ کا یہی مسئلہ ہے ۔ اس کے برخلاف اگر انہی طلباء سے کسی کرکٹر ، فلمی اداکار یا اداکارہ یا کسی سلیبرٹی کے متعلق پوچھا جائے تو اس کی مکمل تاریخ بتا دیتے ہیں ۔ ۔ 

ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کہیں نہ کہیں ہم سے ان بچوں کی دینی تربیت میں چُوک ہو رہی ہے ۔ ایک دور تھا کیا بچہ ، کیا بوڑھا ، کیا جوان ہر مسلمان کا سینہ سیرت کے واقعات سے بھرا تھا ۔ یوں تو اس مسئلے کو حل کرنے کے متعدد طریقے موجود ہیں، لیکن ایک ایسا طریقہ بھی ہے جس پر عمل کرنے سے، ان شاء اللہ، اس جہالت کے خلا کو بڑی حد تک پر کیا جا سکتا ہے اور امت کا ایک وسیع حلقہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے روشناس ہو جائے گا۔

چند دنوں میں ربیع الاول کا مقدس مہینہ شروع ہونے والا ہے اس مقدس مہینے میں ہم اپنے بچوں کے لیے سیرت طیبہ جاننے کے لیے راہیں ہموار کر سکتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو متعارف کرانے کا ایک آسان اور سہل طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلی جماعت سے دسویں جماعت کے طلبہ تک معلومات کو سب سے پہلے پہنچایا جائے ۔ ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ امت کے مالدار احباب آگے بڑھیں اور اپنے طور پر سیرت طیبہ سے جڑی کتابیں خریدنے کے لیے رقمیں عطا کریں ۔ ۔ دوسری اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ مسلک اور مکتبِ فکر سے بالاتر ہو کر بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق  سیرت پر مبنی کتابیں اپنی بستی کے ذمہ دار لوگ پرائمری اور ہائی اسکول کے طلبہ کو اپنی طرف سے بطور ہدیہ دیں ۔ اور ان بچوں کو کچھ دنوں کا وقت دیں اور ان سے کہیں کہ آپ اس کتاب کا مطالعہ چند دنوں تک کریں اور اس کے بعد ہم لوگ آپ کا امتحان لیں گے اس امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو انعامات سے نوازیں ۔ انعامات کی ترتیب اس طرح سے رکھیں کہ امتحان میں حصہ لینے والے ہر طالب علم کو کچھ نہ کچھ بطور ہدیہ دیں اور اس امتحان میں اول، دوم اور سوم نمبر پر کامیاب ہونے والے بچے کو خصوصی انعام دیں ۔ ۔


بچوں کے لیے کتبِ سیرت کی فہرست


ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

مہرِ نبوت – قاضی محمد سلیمان منصور پوری

سرکار ﷺ کا دربار – الیاس احمد مجیبی

آں حضرت ﷺ – الیاس احمد مجیبی

آخری نبی ﷺ – الیاس احمد مجیبی

سرکارِ دوعالم ﷺ – محمد حسین حسان ندوی جامعی

رسول پاک ﷺ – عبدالواحد سندھی

ہمارے رسول ﷺ – خواجہ عبدالحی فاروقی

پیارے رسول ﷺ – سلطانہ آصف فیضی

رسول پاک ﷺ کے اخلاق – خلیل احمد جامعی

ہمارے نبی ﷺ – سید نواب علی

آمنہ کا لال ﷺ – راشد الخیری

رحمت عالم ﷺ – سید سلیمان ندوی

پیارے رسول ﷺ – افضل حسین

ہادی اعظم ﷺ – ابوخالد

کیا مسافر تھے؟ – عرفان خلیلی

ہمارے حضور ﷺ – عرفان خلیلی

آپ ﷺ کیسے تھے؟ – عرفان خلیلی

نور محمدی ﷺ – مائل خیر آبادی

پیارے نبی ﷺ ایسے تھے – مائل خیر آبادی

پیشن گوئیاں – مائل خیر آبادی

رسول کریم ﷺ – مائل خیر آبادی

بزم پیغمبر ﷺ – مقبول احمد سیوہاروی

نبی عربی ﷺ – قاضی زین العابدین میرٹھی

سیرت النبی محمد ﷺ – سید راحت ہاشمی

بچوں کے لیے سیرتِ نبوی – مجیب اللہ ندوی

ہمارے حضور ﷺ – امۃ اللہ تسنیم

سیرت النبی کوئز – اختر سلطان اصلاحی و دیگر

سیرت نامہ – محمد یٰسین ذکی


سوالی پرچے کا پیٹرن :


سوالی پرچے کے پیٹرن کے لیے علمائے کرام،  پرانے اساتذہ اور خاص طور سے اس وقت کام کرنے والے اساتذہ سے رہنمائی حاصل کریں اور اس کی ایک صورت مندرجہ ذیل ہے ۔ ۔ ۔

پہلی جماعت سے چوتھی جماعت کے طلبہ کو اورل ٹیسٹ زبانی ٹیسٹ لیا جائے ۔ ۔ ۔

پانچویں جماعت سے ساتویں جماعت کے طلبہ کو ملٹیپل چوائز یعنی متبادل سوالات کے جوابات رکھے جائیں جس میں ایک سوال ہو اور جس کے چار جوبات دیے گئے ہوں صحیح جواب کا انتخاب بچہ کرے ۔

آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت کے طلبہ کے لیے ملٹیپل چوائس سولات، لانگ انسر ،شارٹ انسر رکھا جائے۔

اگر کسی شہر میں اسکول کثیر تعداد میں ہوں تو ہر اسکول سے کامیاب ہونے والے اول نمبر کے طالب علم کا مزید ایک اور امتحان رکھا جائے ۔ ۔ اس چیز کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تعلقہ سطح اور ضلعی اور صوبہ سطح پر کیا جا سکتا ہے اس کار خیر کے لیے علماء کرام ریٹائرڈ اساتذہ کا مشورہ ضرور لیں اور ان کی رہبری میں کام کریں ۔ ۔


سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جوان کیا کریں :

اول وہ سیرت کا مکمل مطالعہ کریں کیوں اس طرح کے نوجوانوں کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بےکار ریلز شارٹس بنانے دیکھنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اس کی بجائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث اور ان سے جڑی ہوئی چیزوں کو علماء کرام کی رہبری اور ان کے مشورے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہیں تاکہ دیگر افراد تک معلومات پہنچے اور خاص طور پر الگ الگ اور علاقائی زبان میں اسے پوسٹ کرنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے ہم وطنوں تک یہ معلومات پہنچے ۔


بڑی عمر کے پڑھے لکھے لوگ کیا کریں؟


مساجد میں علم دین کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں، مگر بعض اوقات بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ایسے پروگرام نہیں ہوتے جو ان کی دلچسپی اور سہولت کے مطابق ہوں۔ اس حوالے سے مسجد کے ٹرسٹیان کے لیے یہ تجویز اہم ہے کہ وہ بڑی عمر کے نمازی حضرات کے لیے سیرت کی تعلیم اور اس پر امتحان کا انتظام کریں۔اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہو سکتا ہے: مسجد میں سیرت کی کتابیں رکھی جائیں، لیکن ہر کتاب کو لوگوں کی ذہانت اور سمجھ بوجھ کے مطابق الگ الگ سطحوں پر تقسیم کیا جائے۔ کچھ کتابیں آسان زبان میں ہوں، کچھ درمیانے درجے کی ہوں اور کچھ تفصیلی یا علمی سطح کی۔ اس طرح ہر طبقہ اپنی سہولت کے مطابق مطالعہ کر سکے گا اور کسی کو بھی مشکل محسوس نہیں ہوگی۔اس کے بعد امام صاحب 100 مارکس پر مشتمل ایک سوالیہ پرچہ تیار کریں جس میں ہر سوال کے چار متبادل آپشن ہوں۔ سوالات آسان سے لے کر قدرے مشکل تک ہوں تاکہ ہر عمر کے افراد اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ لے سکیں۔ اس پروگرام کے ذریعے نہ صرف بڑی عمر کے لوگ سیرت کی معلومات میں اضافہ کریں گے بلکہ مسجد کی تعلیمی سرگرمیوں میں بھی فعال طور پر شریک ہوں گے۔ 

اس مبارک مہینے میں سیرت طیبہ کی کتابوں کا خوب مطالعہ کریں اور اپنی روز مرہ کی زندگی گفتگو میں سیرت سے جڑی باتوں کو بات چیت کا حصہ بنائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں ۔ ۔ ۔ یہ چند گزارشات تھیں امید ہے کہ امت کے فکر مند احباب اس پر کام کریں گے ۔ ۔

Monday, 8 July 2024

شہرِ بنگلور کا’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘ ایک ماں ایسی بھی دیکھی (سفر نامہ)

  


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شہرِ بنگلور کا’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘

ایک ماں ایسی بھی دیکھی

(سفر نامہ)


 

          آفتاب عالم شاہ نوری کرناٹک انڈیا

       موبائل:8105493349

 

  الله تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ صحت ان میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِسی لئے کہا گیا ہے سفر کرو، صحت پاؤ ۔ میرے والد صاحب کی برکت سے مجھ خاکسار کو بچپن سے ملک کے الگ الگ ریاستوں میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ چونکہ میرے والد نے 24 سال تک ہندوستانی افواج میں اپنی خدمات انجام دی ہیں ، اسی وجہ سے شمال میں جموں و کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں سے لے کر جنوب میں کنیا کماری کے اُس علاقے تک کا سفر کرنے کا موقع ملا، جہاں تین سمندر ایک جگہ ملتے ہیں ۔ ہر سفر نے مجھے زندگی کا ایک نیا سبق، نیا تجربہ دیا ۔ اس بار بتاریخ 5 جولائی 2024 تا 8 جولائی 2024 بنگلور کا سفر میرے لئے ہر لحاظ سے یاد گار سفر رہا۔اس کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو ملنے کے لئے میں نے زادِ سفر باندھا تھا، وہ اردو زبان و ادب کی عظیم شخصیت ، جس کا طوطی دنیا کے 6 براعظموں میں بولتا ہے ۔ جہاں جہاں اردو بولی، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں محترم جناب عزیز بلگامی صاحب کا نام بڑے ہی ادب و احترام سے لیا جاتا ہے:

 فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں

یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے

(نامعلوم)

عالمی شہرت یافتہ شاعر محترم عزیز بلگامی صاحب ہمارے گھر کروشی میں سالِ رواں فروری میں تشریف لائے تھے اور ان کی طرف سے کتابوں کا ہدیہ بھی ملا تھا۔یوں تو محترم عزیز بلگامی صاحب میرے ہم وطن ہیں اور ان کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ کڑچی اور بلگام میں گزرا ہے ، مگر روزگار اور بچوں کی تعلیم نے انہیں بنگلور کا بنا دیا ۔ مگر سال میں دو تین مرتبہ وہ اپنے وطن آ کر اپنے پرانے رفقاء سے ضرورملتے ہیں :

 گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

 لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

(مرزا غالبؔ)

شہرِ گلستاں بنگلور کے سفر کی وجہ میرے کرم فرما عزیز بلگامی صاحب ہیصادقہ ہیں ،جن کی مخلصانہ دعوت میں رد نہ کر سکا ۔ میرے اس سفر کا آغاز بذریعہ ٹرین بروز جمعہ 5 جولائی 2024 کو شام ساڑھے چار بجے مرج جنکشن ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوا ۔ ۔ شام کے تقریباً 7 بجے میرے ایک قریبی دوست حضرت مولانا امیر حمزہ صاحب بلگامی جو ایک مشہور عالمِ دین اور شاعر ہیں، انہوں نے اپنے ایک ساتھی حافظ عبدالحسیب صاحب کے ہاتھوں بلگام کے معروف’’ ہوٹل نیاز‘‘ کی گرما گرم بریانی بلگام ریلوے  اِسٹیشن پہنچائی، جسے میں نے بعد نمازِ مغرب اپنے روزانہ کے دینی معمولات مکمل کرنے کے بعد خوب پیٹ بھر کر کھائی ۔ عشاء کی نماز کے بعد پر سکون ہو کرسو گیا ۔ صبح کے تقریباً ساڑھے پانچ کے قریب ٹرین یشونتپور بنگلورریلوے اسٹیشن پہنچ گئی ۔ اسٹیشن سے قریب والی مسجد میں ہی میں نے نمازِ فجر ادا کی ۔اِس سے قبل دیر رات گئے عزیز بلگامی صاحب کا واٹس ایپ مسیج تھا کہ مجھے رسیو کرنے کے لئے محمد اسلم باغسراج صاحب اپنی کار لے کر اسٹیشن تشریف لا رہے ہیں ۔ چونکہ اسلم بھائی سے میری ملاقات پہلے بھی ہوئی تھی ۔اگرچہ کہ ان کا آبائی وطن کڑچی ہے، مگر برسوں پہلے ہی وہ بنگلور شفٹ ہو گئے تھے ۔ساڑھے چھ بجے صبح جب میں نے اسلم بھائی کو کال کی تواس وقت اسلم بھائی اسٹیشن سے بالکل قریب پہنچ چکے تھے ۔ پھر وہیں سے اسلم بھائی مجھے اپنے گھر لے گئے ۔ چائے کے بعد انہوں نے محلے کے آس پاس موجود معروف جگہوں کے بارے میں جانکاری دی ۔ انہوں نے ہندوستان کے مشہور دینی ادارے سبیل الرشاد کا بھی ذکر کیا، جو ان کے مکان سے پیدل صرف پانچ منٹ کی دوری پر ہے ۔ میں نے اسلم بھائی سے سبیل الرشاد لے جانے کی گزارش کی اور وہ مجھے مدرسہ لے گیے ۔ مدرسے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک نورانی ماحول نظر آیا ۔ چاروں جانب عمارتیں درمیان میں بڑا سا میدان ۔ چلتے چلتے ہم لوگ سبیل الرشاد کے کتب خانے میں بھی حاضری دی ۔ نچھلے فلور پر طلبہ کمپیوٹر پر ٹائپنگ کی مشق کرتے نظر آئے ۔ اوپری حصے میںدیگر طلبہ مطالعہ میں مصروف تھے ۔ جب کتب خانے کے ذمہ دارسےمیں نے اپنا تعارف کرایا تو میں حیران رہ گیاکہ وہ میری غزلیات،منظومات و نثر کے حوالے سے وہ پہلے ہی سے مجھ سے متعارف رہے ہیں ۔ کہنے لگے ’’وہ مجھے جانتے ہیں اور میرا کلام اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں ‘‘۔اس بات پر حیرانی ہوئی اور خوشی بھی ۔ انہوں نے کتب خانہ دکھایا اور ہمارے لئے چائے کا انتظام بھی کیا ۔ دیگر علمائے کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ اس عظیم درس گاہ کو دیکھ کر دل مسرور ہوگیا ۔ وہاں سے اسلم بھائی کے مکان پر واپسی ہوئی ۔جب میرے وطن کرویش کا ذکر چھڑا تو اُن کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں کہ ان کی چچا زاد بہن کرویش کی پٹیل برادری میں بیاہی گئی ہیں۔ جب انہوں نے نام بتایا تو وہ ہمارے رشتہ داروں میں سے ہی نکلیں ۔ وہیں سے میں نے ان کی چچا زاد بہن کو اپنے فون سے کال کر کے اسلم بھائی کی اہلیہ سے بات کروائی ۔ کئی سارے ایسے لوگوں کا ذکر ہوا جو میرے اور اسلم بھائی کے مشترکہ رشتہ دار تھے ۔

محترم عزیز بلگامی صاحب شدت سے ہم دونوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ دراصل عزیز صاحب دارالسلام میں بحیثیت مہمان مدعو تھے جہاں ان کو جماعت اسلامی ہند پر ایک تعارفی نظم پڑھنی تھی ۔شہر کی بھیڑبھاڑ اوربے تحاشہ ٹرافک سے گزرتے ہوئے آخر کار ہم لوگ عزیز بلگامی صاحب کے گھر پہنچ گئے ۔ جہاں انہوں بڑے ہی پُر جوش انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔ چائے کے بعد ہم لوگ وہاں سے دارالسلام بفٹ ہال کے لئے نکلے اورحسبِ منصوبہ ہم پہلے سیشن کے اِختتام تک پہنچ تھا ۔ ظہر کی نماز کے بعد  طعام کا بھی نظم تھا ۔ٹھیک ڈھائی بجے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا اور دو بج کر پینتالیس منٹ سے  تین بجے تک محترم عزیز بلگامی صاحب نے نوے اشعار پر مشتمل ’’جماعتِ اِسلامی ہند کا منظوم تعارف‘‘کے عنوان سے ایک یادگار نظم سنائی ،جس کا ہر شعر سونے کی سیاہی سے لکھنے کے قابل تھا ۔ سامعین عزیز صاحب کی نظم میں جیسے کھو سے گئے ۔ اور بے انتہا داد و تحسین سے نوازا ۔ گویا انہوں نے جماعت کے نام اور کام کا مکمل نقشہ کھینچ دیا تھا ۔

 دیگر جگہوں پر بھی ہمارے جانے کا منصوبہ بن گیا تھا ، چنانچہ جماعت کے میزبانوں سے ہم نے اجازت لی اور سیدھے’’ سیدھی بات ٹی وی چینل‘‘ کے دفتر پہنچ گئے ۔یہ وہی چینل ہے جس کے چیف ایڈیٹر و مالک مولانا انصار عزیز ندوی صاحب ہیں،جن سےملاقات کی خواہش کے ساتھ ہم یہاں پہنچے تھے۔ اِسی چینل کے تحت عزیز بلگامی صاحب ’’فکر وفن شعر و سخن‘‘ کا ادارہ چلاتے ہیں، جس پر اب تک 114 شعراء و ادباء کے انٹرویوز محترم عزیز بلگامی صاحب نے پیس کیے ہیں ۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ قسط نمبر 83 میں عزیز صاحب نے میری انٹرویو لے کر سارے عالم میں مجھے متعارف کرایا تھا ۔ ۔مولانا انصار عزیز ندوی صاحب چونکہ بھٹکل کے سفرپر تھے تو موصوف کی ملاقات سےمحرومی رہی ۔ اس کے بعد کرناٹک اردو اکادمی اور دوردرش جانے کا بھی ارادہ تھا، مگر وقت کی کمی کی وجہ سے نہ ہو سکا ۔ شام ساڑھے پانچ بجے عزیز صاحب کی رہائش پر ہماری واپسی ہوئی۔ اسلم بھائی ہمیں الوداع کہہ کر روانہ ہوگئے ۔ عصر کی نماز کے بعد گھر آیا اور مغرب کی اذاں تک آرام کرتا رہا ۔ مغرب کی نماز کے بعد کچھ دینی معمولات تھے، جسے پورا کر کے واپس عزیز صاحب کے گھر پہنچا ۔ محترم عزیز صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ سے مختلف اُمورپر گفتگو ہوتی رہی۔دورانِ گفتگوعزیز صاحب نے اپنی چھوٹی بیٹی یعنی صادقہ باجی اور اُن کے دامادجناب سعید رجیب اور ان کے 3 سالہ نواسے اِلحان یحییٰ کا ذکر فرمایا ۔یہ لوگ بھی عزیز بلگامی والے اپارٹمنٹ کی چوتھی منزل پر قیام پذیر ہیں۔عزیز صاحب نے جب کہا کہ صادقہ باجی ہوم اسکولنگ کے ذریعہ اپنے بیٹے کی دینی و دنیاوی تربیت میں مصروف ہیں۔ میں چونک گیا۔ہوم اسکولنگ کی تفصیلات کو سننے کے بعد میرے تجسس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے صادقہ باجی سے اجازت طلب کی کہ میں اُن کے ہوم اسکول کو دیکھنے کا خواہشمند ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ ہوم اسکولنگ کے کانسیپٹ کے بارے میں معلومات حاصل کروں ۔ہم فورتھ فلور پر پہنچے جہاں عزیز بلگامی صاحب کا نواسہ دروازے کے باہر کھڑا ہوا تھا ۔ عزیز صاحب نے دور سے سلام کرتے ہوئے بچے کو پاس بلایا۔ بچے نے انگریزی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی امی سے اجازت نہیں لی ہے، اجازت لے کر آوٴں گا ۔ اندر جا کربچے نے اِجازت لی اور اپنے نانا سے لپٹ گیا ۔ تین سال کا بچہ اور ماں کی اطاعت کا ایسا جذبہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حیرانی کے عالم میں ہم گھر میں داخل ہوئے۔عزیز صاحب نے ہمیں اپنے داماد سعید رجیب صاحب اورصادقہ باجی سے متعارف کرایا ۔ عزیز صاحب کے داماد کیرلا کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بر سرِ روزگار ہیں ۔ جب ہوم اسکولنگ کا ماڈل دیکھنے ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ گویا یہ کمرہ نہیں، بلکہ بیک وقت اسکول، اِن ڈور کھیل کا میدان اورتعلیمی سرگرمیوں کا ایک کمرہ ہے ۔ میں صادقہ باجی کے متعلق بتاتا چلوں ،کہ صادقہ باجی ایم ایس سی میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔ کئی سارے اداروں میں تدریسی تجربہ رکھتی ہیں ۔ پی ایچ ڈی کا ارادہ تھا، انہی ایام میں الله نے ان کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ۔ تو انہوں نے سارے کاموں کو موقوف کیا اور اپنی ساری توجہ بچے کی پرورش اور تربیت پر لگا دی ۔ میں نے باجی سےپوچھا کہ یہ ہوم اسکولنگ کا کانسیپٹ کیا ہے اور آپ نے کس طرح اسے شروع کیا ۔ ہوم اسکولنگ کے فائدوں، ان کی محنت اور اس کے نتائج دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔ بعض باتیں ایسی تھیں جنہیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گیے تھے ۔ میں سوچتا رہا کہ اس انداز سے بھی کیا کوئی ماں فی زمانہ اپنے بچے کی تربیت کر سکتی ہے ۔!! یہ تین سال کا بچہ نظام شمسی کے سیاروں کے نام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے دوری اور دیگر تفصیلات فر فر بتا سکتا ہے۔ ریاضی ،ماحولیات ،زبان دانی، عربی و دینی معلومات کی ایک ایک چیز کے بارے میںاس قدر معلومات رکھتا ہے کہ یوں لگتا تھا ایک بڑا مفکر میرے سامنے چھوٹے سائز میں بیٹھا ہوا علم کے دریا بہا رہا ہے ۔ ادب، اخلاق ،اعلیٰ سطح کا ڈسپلن ۔اللہ اللہ۔ نظرِ بد کا خطرہ نہ ہوتا تومزید تفصیل بتاتے ہوئے مجھے یقیناً خوشی ہوتی۔ تیسری یاچوتھی جماعت کے بچے سے زیادہ معلوماتِ عامہ میں نے اس بچے میں محسوس کی ۔ صادقہ باجی نے اپنے بچے کے لئے اپنی صواب دید کے ذریعے پورے سال کا نصاب تیار کر لیا ہے، جسے اُنہوں نے ہفتہ وار کے حساب سے تقسیم کر رکھا ہے ۔ یہ ساری چیزیں ’’ایکٹیویٹی بیس‘‘ ہیں ۔ جسے بچہ ماں کی گود میں دن بھر ہنستے کھیلتے سیکھ رہا ہے ۔ میرا خیال ہے اسی انداز سے اگر اس کی تربیت ہوتی رہے گی تو یہ بچہ دُنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔’’ہونہار برْوے کے چِکْنے چِکْنے پات‘‘۔ موجودہ دور میں جہاں ماؤں کو اپنے تین چار سال کے بچے بوجھ بنے ہیں اور وہ انہیں اسکول کے حوالے کر کے اپنی محبت و شفقت سے دور کر رہی ہیں ، ان کے لئے صادقہ باجی ایک مثال ہیں ۔ میں صادقہ باجی سے درخواست کر کے آیا ہوں کے اس موضوع پر کوئی کتاب تحریر کریں، جس سے ملک اور قوم کے دیگر لوگوں کو بھی اس سے فائدہ ہو ۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ اس کانسیپٹ کو اور سمجھا جائے ۔چونکہ اگلے دن میرے واپسی کا سفر تھا اور رات بھی کافی ہوگئی تھی ۔چنانچہ صادقہ باجی سے رُخصت لی ۔ رات کا کھانا ہم نے عزیز بلگامی صاحب کے بڑے فرزندمحمد اطہر بھائی کےساتھ کھایا۔ جو اسی بلڈنگ میں رہتے ہیں ۔ لذیذ بریانی کا مزہ لینے کے بعد ہم نے عشاء کی نماز ادا کی اور بہت دیرتی اسی’’ ہوم اسکولنگ‘‘ کے متعلق سوچتے ہوئے نیندکی آغوش میں چلا گیا۔ صبح کے ٹھیک ساڑھے پانچ بجے آنکھ کھلی، اور اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر فجر کی نماز ادا کی ۔ عزیز صاحب کی اہلیہ نے چائے پیش کی ۔ چونکہ ٹرافک کی زیادتی کی وجہ سے گھر سے جلدی نکلنا ضروری تھا ،چنانچہ عزیز صاحب نے ’’کیاب ‘‘بُک کرائی اور دو رسالے کے تحفوں اور دعاؤں کے ساتھ مجھ جیسے طالبِ علم کو چھوڑنے کار تک آگئے ۔ وہاں سے ایشونت پور ریلوے اسٹیشن پہنچا ۔کچھ دیر بعد ناشتے سے فارغ ہوا ۔ ایک لمبے انتظار کے بعد ٹرین ٹھیک 9 بجے اسٹیشن پر نمودار ہوئی ۔ ٹرین میں سوار ہوا ۔ محترم عزیز بلگامی صاحب کے دئے ہوئے رسالوں کا مطالعہ کرتا رہا اور وقفے وقفے سے آس پاس بیٹھے مسافروں کے چہروں کو بھی پڑھتا رہا، جن میں خوشی، غم اور نہ جانے کیسی کیسی عجیب عجیب چیزوں کا حسین امتزاج نظر آتا تھا ۔بہر کیف میری زندگی کا ایک یاد گار سفر بخیر و عافیت مکمل ہوا۔

.....

 

 

Friday, 28 June 2024

ایک بستی، سولہ پشتیں کروشی

 

 

ایک بستی، سولہ پشتیں

کروشی

 


آفتاب عالم ؔ دستگیر پٹیل ( شاہ نوری)

کروشی ، بلگام ،کرناٹک (انڈیا)

 8105493349

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی ؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولاد کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔ مسند احمد 

 تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جس کہ ذریعہ انسان  ماضی کے آئینے میں جھانک کر حال کو سنوار سکتا ہے ۔مجھے بچپن ہی سے تاریخ سے دلچسپی رہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ،کہ گھر کے بڑے بزرگوں سے اپنے آبا و اجداد کے قصے سننا ، ان کے طور طریقے ،ان کا انداز ِ زندگی ، ان کا رہن سہن ،موسم ، کھیت کھلیان ، تہذیب و تمدن، اِن ساری چیزوں  کی وجہ سے  میرا ذہن تاریخ سے دلچسپی لینے لگا ، جب اسکول جانے لگے تو اساتذہ نے مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کا وہ نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جس  کے نقش اب تک دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں اور انہیں ایام میں ہر سال ایک شخص آیا کرتا تھا  جو اب  بھی آتا  ہے جسے کنڑا زبان میں "ہیڑوا" اور اردو میں میراثی کہتے ہیں، جو اپنی  بڑی ڈائیری میں  گھر  کے نئے پیدا شدا بچوں کے ناموں کا اندراج کرکےہمارے خاندان کا شجرہ نسب پڑھ کرسناتا ہے اور  اس وقت کی موجودہ فصل  یا روپئے پیسے لے کر چلا جاتا ہے۔اس کا  پچھلا سفر 2022کو ہوا تھا جس میں اس نے گھر میں نئے پیدا شدہ بچوں کے ناموں کا اندارج کرلیا تھا  اس شخص کی وجہ سے اور بھی  زیادہ ہمارے بزرگوں کی تاریخ جاننے کا شوق پیدا ہوا ، جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو وہاں عالمی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا  اور بیجاپور کے  دو سالہ قیام اور وہاں سے واپسی کے بعد، حال ایسا ہوا کہ ہر پرانی چیز جس  پر قدامت کے آثار ظاہر ہوتے تھے چاہے وہ کسی کتاب  کا ایک بوسیدہ صفحہ ہی نہ کیوں ہو اسے سنبھال کر رکھنے کی عادت پڑھ گئی،جو آج تک قائم ہےجب اس "ہیڑوے" کا پچھلا سفر ہوا تھا اس وقت میں نےاپنے آباواجداد کے نام تحریر کروا لئے تھے جسے میں نے  مندرجہ ذیل تحریر کر دئے ہیں  ۔

ہیڑوے کا تیار کردہ کروشی پٹیل برادری شجرۂ نسب


 

دل میں ایک خواہش ہورہی تھی کے کرویش کی ایک مستند تاریخ تلاش کرکے لکھی جائے  اچانک مجھے پتا چلا کے بلگام کے مصنف ع ۔صمد خانہ پوری صاحب نے  اور مولانا حبیب اللہ عنایت بیگ جامعی غفرلہ نے اپنی کتاب " بلگام۔ تاریخ کے آئینے میں(تحقیق) "  اور ہ تذکرۂ علماء و مشائخ ِ کرناٹک کے عنوان سے  مستند حوالوں کے ساتھ  کتابیں لکھی ہے ، جس میں کروشی کا مفصل ذکر کیا گیا ہے انہوں نے میرے اس کام کو آسان بناد یا ،اب اسی کتاب سے کروشی کی تاریخ آپ قاریئن کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔

 

کروشی (کرویش) 

چکوڑی سے 7 کلو میٹر کے فاصلہ پر موجود یہ گاؤں یہاں پر موجود حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کی ذات اقدس اور گٹی بسونا مندر کی وجہ سے عام و خاص کا مرکوز نظر رہا ہے۔درگاہ حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کے تعلق سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں ہر آسیب زدہ انسان بابا کی کرامت کی وجہ سے تندرست ہو جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر مذہب و زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کا ہمیشہ ایک اژدہام رہا کرتا ہے۔کروشی کو چکوڑی کی ایک بڑی اور اہم بستی ہونے کا فخر حاصل ہے۔اس مقام کو ایک اہم تعلیمی مرکز ہونے کا بھی شرف رہا ہے۔اس گاؤں  کا جغرافیائی رقبہ 2407.6 ہیکٹر ہے۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 8،481 بتائی جاتی ہے۔ایک سروے کے مطابق یہاں پر کم و بیش 1،919 مکانات ہیں۔یہ علاقہ اپنی  زراعت اور کاشتکاری کے لئے مانا جاتا ہے۔

حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ درگاہ



کروشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس سر زمین کو دارالاولیا ء و بیت الفقراء ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس سر زمین پر حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ  ببانگ دہل اعلان کررہا ہے کہ " یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور عہد کرلیتے ہیں ، اس کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اقرار کو نہیں توڑتے ۔"(۱۳ رعد ۳ ع )۔

 

آپ صاحب کشف و کرامات تھے

اُس وقت بیجاپور علوم و فنون کا مرکز مانا جاتا تھا جہاں بڑے برے صاحب کشف و کرامات بزرگان موجود تھے۔ آپ کی ذاتِ اقدس بھی کشف کرامات تھی اور ہمہ وقت اپنی خانقاہ میں ریاضت اور مجاہدات میں مشغول رہنے لگے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں روشنی کا وجود بہت جلد پہچانا جاتا ہے، آپ کی آمد اور قیام کی خبر دور دور تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، بادشاہ وقت یوسف عادل شاہ تک بھی یہ خبر پہنچ گئی جو اس وقت تخت نشین تھا۔ آپ کی خانقاہ میں دور دور سے لوگ پہنچ کر فیوض سے مستفیض ہونے لگے۔ یوسف عادل شاہ بھی آپ کے حلقہ ارادت کا طلب گار ہوا اور ہر ماہ کم سے کم دو ایک بار آپ کی خدمت میں پہنچنے لگا۔

کرویش گاؤں کی فتح 

روایت ہے کہ یوسف عادل شاہ کو آپ سے گہری نسبت تھی ایک دن جب بادشاہ آپ کے پاس تھا ، خبر ملی کے کہ کرویش گاؤں فتح ہوگیا ہے۔بادشاہ نے اس کو حضرت شاہ نور بابا کی دعاؤں کا نتیجہ سمجھ کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ گاؤں محض آپ کی دعاؤں کی وجہ سے فتح ہوا ہے اس لئے یہ گاؤں آپ کو مبارک ہو۔عادل شاہ نے فرمان شاہی جاری کرتے ہوئے کروشی کی جاگیر آپ کے نام معنون انعام کردی اور اس کی پیشگی کا فرمان جاری فرمایا اور پورے عزت و احترام کے ساتھ کرویش روانہ کردیا کہ اس گھٹاٹوپ اندھیر میں اسلام کی شمع روشن ہو سکے

حضرت محمد میراں  رحمۃ اللہ علیہ

کہا جاتا ہے کہ اپنے کئی سال تک کرویش کے پٹیل کی حیثیت سے اس گاؤں کا نظم و نسق سنبھالا لیکن آپ کی شخصیت ایک مجرد سیاح کی تھی جو خانگی امور کی جکڑ بندیوں سے مبرا رہا کرتا ہے،دنیاداری آپ کا شیوا نہ تھا لیکن بادشاہ وقت کی دی گئی انعامی زمین سے دستبردار ہونا بھی ناگوار تھا۔اس لئے آپ نے پوری جاگیر اپنی بہن کے بیٹے حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردی اس طرح آج پانچ سو سال کا عرصہ ہوا کہ اس گاؤں کی پاٹیلگی اور زمینداری حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے اولاد در اولاد میں جاری و ساری ہے ۔اور اس خاندان کے لوگ آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت عوامی خدمات کا کام کر رہےہیں۔ان کی اولاد میں آج حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی )اس کتاب کی تالیف کےوقت حیات ہیں اور انہیں کی سعی مسلسل کی وجہ سے حضرت  راجےنور عرف شاہ نور رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے آگاہی ہوئی ہے  


عادل شاہی فرمان

 


کرویش کی حوالگی اور زمین داری کے تعلق سے سلطان عادل شاہ کی طرف سے جاری کردہ شاہی فرمان آج بھی کرویش کے پٹیل خاندان کی تحویل میں بابا رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مقدس امانت کے طور پر نسل درنسل محفوظ ہے ،یہ وہ فرمان ہے جس پر عادل شاہ کی مہر ثبت ہے۔ اس میں درج ہے کہ حضرت راجی نور شاہ درویش کو بادشاہ کی فرمائش پر کرویش کی زمین عطا کر دی گئی ہے اور اس خاندان کو کلی اختیارات دیئے گئے ہیں کہ سال در سال اس زمین کا محصول حاصل کرتے رہیں۔ اسی خانوادے سے حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی ) ہیں

 

حضرت شاہ نور بابا رحمتہ اللہ علیہ کا آستانہ:

 

کرویش میں حضرت شاہ نور بابا رحمۃ اللہ علیہ کا آستانہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں پر آج بھی ہزاروں عقیدت مند اور ارادت مند لوگوں کا ایک جم غفیر اور ہجوم ہوا کرتا ہے آپ جس مقام پر آسودہ خاک ہیں اس مزار مقدس پر ایک بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر کیا گیا ہے  ہر سال گھڑی پاڑوا کے کچھ عرصہ بعد آپ کا عرس بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلاتفریق مذہب وملت شریک ہوتے ہیں۔

بلگام۔ تاریخ کے آئینے میں(تحقیق) " ص نمبر 150 

 

عارف کامل ذبدۃ الواصلین وقدوۃالسالکین عارف باللہ حضرت راجی نور شاہ عرف شاہ نور بابا قدس سرہ کے مختصرا احوال زندگی

ریاست کرناٹک، ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح علمی و روحانی فیوض کا ماویٰ و معدن رہا ہے ۔ یہاں کی سرزمین پر بے شمار اساطین علم و فن اور اصحاب طریقت و حقیقت ارباب صدق و صفا اور جامع شریعت و طریقت اولیائے کرام پیدا ہوئے اور مختلف ملکوں سے یہاں آ کر بود و باش اختیار فرمائی اور یہاں بسے اور رہے اور یہاں کی سرزمین کو اپنے علم و فن سے مامور اور اپنے صدق و صفا سے منور کرتے رہے ۔ انہی اولیاء کرام میں کرویش کے عارف باللہ حضرت راجی نور شاہ عرف شاہ نور بابا قدس سرہ بھی ہیں ۔ جن کا مبارک تذکرہ کتاب تذکرہ علماء و مشائخِ کرناٹک مصنف حضرت مولانا حبیب اللہ عنایت بیگ حفظ اللہ ساکن اتھنی میں مذکور ہے ۔ یہ کتاب کرناٹک کے علمی و روحانی ادبی و شعری سیاسی و ملی احوال پر ایک نہایت جامع دستاویز کی حیثیت رکھنے والی پونے چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ہے ۔ جس میں صدیوں پہلے کے تقریبا 175 جید علماء و اولیائے کرام کے مبارک تذکروں کے ساتھ 186 شہروں میں مدفون خاصانِ حق وہ مقبولان الہی کے احوال مذکور ہیں جس کے صفحہ نمبر 510 پر حضرت موصوف رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح عمری مستور ہے یہ احوال وہیں سے ماخوذ ہیں ۔ ۔ ۔

کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں :

مولانا حبیب عنایت اللہ بیگ  9945508352








منقبت

حضرت راجی نور شاہ رحمتہ اللہ علیہ

کروشی ضلع بلگام ،کرناٹک

ہمارے حضرتِ راجی کی اونچی شان ہے لوگو

انہی کے نام سے بستی کی اک پہچان ہے لوگو

ہٹا کر کفر کی چادر کو اس بستی کے ذروں سے

عطا کی ثروتِ ایماں بڑا احسان ہے لوگو

محمد میراں تھے ہمشیر زادہ میرے حضرت کے

مرے اجداد کو حاصل بڑا یہ مان ہے لوگو

عقیدت سے محبت سے نظر والے یہ کہتے ہیں

کہ ان کا آستانہ تو ہماری شان ہے لوگو

قیامت تک رہے جاری جہاں میں فیض حضرت کا

یہی میری تمنا ہے یہی ارمان ہے لوگو

کہاں جاؤں میں ان کی قربتوں کو چھوڑ کر عالمؔ

نکلنا جسم سے کیا روح کا آسان ہے لوگو

آفتاب عالمؔ شاہ نوری

  Manqbat Hazrat Raji Noor Sha Urf ShahNoor baba R.A Karoshi...Aftabalam Shahnoori awaz Zaki Qazi

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہُوا
گھر مِرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہُوا

علامہ اقبالؒ 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر ایک محقق بنا کر پیدا کیا ہے، انسان ہر اس چیز کی تحقیق کرنا چاہتا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہے، بعض کے سوالوں کے جوابات  تو آسانی  سے مل جاتے ہیں بعض کے جوابات نہیں مل پاتے ،اسی قسم کے تین بنیادی سوالات ہیں جس کے متعلق ہر انسان سوچتا  رہتا ہے۔۔۔۔ کہ"میں کون ہوں؟ "ہم کون ہیں ؟" ،"ہمارے کون ہیں"؟ میں کون ہوں یا ہم کون ہیں اس کا جواب عام طور پر گھر کے افراد کے واسطے سے مل جاتا ہے، تیسرا  سوال ہمارے کون ہیں اور کہاں ہیں  یعنی خونی رشتے دار ،اس کا جواب کم ہی افراد جانتے ہیں ، اللہ جزائے خیر دے  مرحوم نثار احمد پٹیل  چچا کے خاندان کے سارے افراد کو  جنہوں نے کروشی کی پٹیل برادری کا نسب نامہ سنبھال رکھا تھا ، میں احسان مند ہوں محمد صدیق پٹیل چچا، محبوب پاشا چچا ، توصیف بھائی،شاہد بھائی،اسد الزماں بھائی کا جنہوں نے 13 جنریشن تک کا مکمل نسب نامہ مجھے دیا ،  اگلی دو  تین جنریشن کے ناموں کو میں نے اللہ کا نام لے کر شروع کیا  تو میں حیران رہ  گیا کہ ہماری برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ملک اور بیرون ملک میں کئی جگہ   بسے ہیں جن جن لوگوں سے بات کرتا  ان میں سے کئی افراد تو میرے اتنے قریبی رشتے دار  نکلے جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا   الحمد للہ تقریباً  مسلسل 22 دن کے بعد یہ کام مکمل ہوا جب اسے چارٹ پر لکھنے لئے بیٹھا تو اس نسب نامے کا  ایک کارڈ شیٹ میں سمانا  نا ممکن تھا شروع سے کروشی کی پٹیل برادری   6 گڈّوں میں تقسیم ہے اس لئے میں نے اپنی آسانی کے لئے  ہر گڈّے کے ناموں کو الگ الگ صفحے میں تحریر کر دیا ۔جس سے کسی حد تک یہ کا آسان ہوگیا،

 

کروشی کے پٹیلوں کی نذر

جہاں والوں نے اپنوں سے عداوت کی سیاست کی

کروشی کے پٹیلوں نے یہاں ہر دم محبت کی

ہمارے نوجوانوں کے بڑے پرنور چہرے ہیں

کہوں تعریف میں کیا کیا میں ان کے جاہ و حشمت کی

رگوں میں خون بہتا ہے جواں مردوں جسوروں کا

مثالیں دے رہی دنیا پٹیلوں کی شجاعت کی

خدا کے دین کی تبلیغ کا مقصد لیے دل میں

کروشی کی زمیں تک میرے آبا نے ہی ہجرت کی

اسے خوبی کہو گاؤں کی یا تحفہ کہو رب کا

بڑی ہے دھوم دنیا میں کروشی کی ضیافت کی

ہمیں ہے فخر عالمؔ حضرتِ راجی کی نسبت پر

پٹیلوں پر نوازش ہے انہی کے نیک نسبت کی

آفتاب عالمؔ شاہ نوری

 

کروشی کے پٹیل خاندان کا شجرہ نسب


 

 

(1)مکتوم پٹیل کی اولاد محمد پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(2)سراج  پٹیل کی اولادبالا پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(3)قادرپٹیل کی اولادلاڈو  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(4)امام پٹیل کی اولاد مکتوم پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

 


(5)درویش پٹیل کی اولاد میراں  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے


 

(6)باپو عرف بالا  پٹیل کی اولادگھوڑو  پٹیل گڈّا کہلاتی ہے

 

 


ہر گڈّے کے افراد کا مختصر تعارف

 

1۔ محمد پٹیل گڈّا

آبادی کے اعتبار سےیہ  گڈّا اول نمبر پر ہے،اس گڈّے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گڈّے کے افراد کو بہادری شجاعت اور کسی کام کو آگے  بڑ چڑھ کر کرنے کی نعمت سے نوازہ ہے ،  اس گڈّے اکثر و بیشتر افراد دنیاوی اعتبار سے بڑے بڑے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

2۔ بالا پٹیل گڈّا

اس گڈّے کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اس گڈّے میں ایسے افراد پیدا کئے ہیں جو دینوی اور دنیوی  زندگی میں اپنا نام روشن کیا ،

3۔ لاڈو گڈّا

اس گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد کو اللہ تعالیٰ سیاسی سمجھ بوجھ عطا کی ہے۔

6،5،4 : مکتوم پٹیل گڈّا،میراں  پٹیل گڈّا، گھوڑو  پٹیل گڈّا

اس  گڈّے کے اکثر و بیشتر افراد خاموش طبیعت ہیں اس کے علاوہ دین دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔۔

 

کروشی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے گاؤں اور شہر :

مندرجہ ذیل میں شہروں اور گاؤں کا ذکر ہے جہاں سالوں سے ان کے درمیان

رشتہ داریاں رہی ہیں،

 

شیڑشال،بستواڑ،الاس، اورواڑ، میرج،وڈی،  بلگام،کڑےگاؤں،فقیرباڑا،رکڑی، شیرولی، کتیانی، ہیرےکوڑی،الہ اباد،ہلدی،بیلےواڑی،جنیاڑ،ارجن باڑہ، تمنک باڑا،کاساری،باروا،روزے باغنی،دیندےواڑی،ہکیری،مسرگوپا،مغل بستواڑ،گوڑاڑ،اکتن ناڑ،کندرگی،پاچاپور،انکلا،ماونور،گوڑچنملکی،چمپا ہسور،بساپور، کڑچی،

اس کے علاوہ پچاسوں ایسے گاؤں شہر ہیں جہاں پر کروشی کی پٹیل برادی روزگار کے سلسے میں برسوں سے مقیم ہے جن میں کولھاپور، ستارا،پونا،بمبئی،بیجاپور،گلبرگہ،بنگلور، مہاراشڑرا  کرناٹک کے کئی اضلاع اور عرب ممالک، امریکہ (مچیگن) لندن، ملیشیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

 

نسب  نامہ بھیجنے کا مقصد:  اس نسب نامے کو ترتیب دے کر بھیجنے کا یہی مقصد ہے کہ آپسی تعلقات مضبوط ہوں جو گاؤں سے دور ہیں وہ کم از کم سال میں ایک دو بار آکر ملاقات کریں   اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل جھل کر رہیں۔۔۔

 

عادل شاہی دور کا پٹیل برادری قبرستان








اس قبرستان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تقریبا 500 سال سے بھی زائد مدت کی پانچ پرانی قبریں ہیں جو دراصل پٹیل برادری کے اجداد کہ ہیں،اس قبرستان کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،جس میں اپنے اپنے گڈے کے اعتبار سے تدفین ہوتی ہے، ایک صاحبِ کشف بزرگ جب اس پرانے قبرستان میں آ کر تھوڑی دیر مراقبہ کرنے کے بعد فرمایا کہ بھائی یہاں تو بڑی پاک روحیں دفن ہیں۔

 

ڈیجیٹل نسب نامہ


چونکہ موجودہ زمانہ ٹیکنولوجی کا زمانہ ہے ، اور زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے، اس خاکسار آفتاب عالم شاہ نوری نے اپنے بہنوی وسیم سید عظیم پاشا  انعامدار (باشیبان انعامدار بلگام) جو کے ایک انجئیر ہیں ان کی مدد سے یہ نسب نامہ ڈیجیٹل کروا لیا ۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کروشی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کا نام لکھا جائے تو اس  فردکی اوپر کے 16 اجداد کے نام آجائیں گے۔اس کا لنک بھی شئیر کر رہا ہوں۔۔

کرناٹک اردو اکادمی ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔

کرناٹک اردو اکادمی  ۔ ۔ ملک کی مثالی اردو اکادمی ۔ ۔ ۔ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری بلگام کرناٹک 8105493349 "ہر اردو اکادمی اردو کا ای...