مضامین آفتاب عالم دستگیر پٹیل شاہ نوری
، مضامین آفتاب عالم دستگیر پٹیل شاہ نوری خاندان غلاماں،خلجی خاندان،تغلق خاندان، سید خاندان، لودھی خاندان،ظہیر الدین محمد بابر،نصیر الدین محمد ہمایوں،جلال الدین محمد اکبر،نور الدین محمد سلیم،محی الدین محمداورنگزیب،ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر،احمد نگر سلطنت برار سلطنت،بیدر سلطنت،بیجاپور سلطنت،گولکنڈہ سلطنت Aftabalam Dastageer Patel Karoshi
Monday, 9 June 2025
آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن
Thursday, 5 June 2025
نذیر فتح پوری صاحب کے ساتھ ادبی بیٹھک
نذیر فتح پوری صاحب کے ساتھ ادبی بیٹھک
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
بلگام کرناٹک
8105493349

فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں
یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے
نا معلوم
نذیر فتح پوری صاحب اردو ادب کا ایک ایسا معتبر نام ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے جب یہ جملہ میں نے نذیر فتح پوری صاحب کے سامنے دہرایا تو ان کی عاجزگی کا عالم دیکھیے کہنے لگے ارے آفتاب میاں! مجھے پڑوسی نہیں جانتے آپ کہتے ہیں ساری دنیا مجھے جانتی ہے ۔ ۔ دراصل یہ ان کی اپنے آپ میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کی کیفیت ہے ورنہ ایسا کوئی نہیں ہے جو نذیر صاحب کو نہ جانے ۔ نذیر صاحب سے میری پہلی ملاقات کا قصہ بڑا دلچسپ ہے ۔ میں ایک مرتبہ پونا گیا ہوا تھا اور بیٹھے بیٹھے مجھے رئیس الدین رئیس صاحب کا ایک شعر یاد آیا جسے میں نے واٹس ایپ کے کئی سارے گروپس میں فاروڈ کر دیا ۔ شعر کچھ یوں تھا ۔
ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں
میں زندگی تری تشہیر کرتا رہتا ہوں
رئیس الدین رئیس
Tuesday, 3 June 2025
اہلِ اردو میں ذوقِ مطالعہ کو کیسے ابھاریں ۔ ۔ ۔ ؟
اہلِ اردو میں ذوقِ مطالعہ کو کیسے ابھاریں ۔ ۔ ۔ ؟
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
بلگام کرناٹک
8105493349
انسانوں اور جانوروں کے درمیان فرق کرنے والی شئے علم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ دیگر جانداروں کو ان کی ضرورت کا علم، پیدائشی طور پر عطا کیا ہے ۔ اس طرح سے جاندار پیدائش سے لے کر موت تک خدا کے عطا کردہ انہی علوم کا استعمال کر کے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اگر اس معاملے میں انسانوں کی بات کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو پیدائشی طور پر کورے کاغذ کی مانند سفید رکھا ہے ۔ جیسے جیسے اس کی عمر کے شب و روز گزرتے ہیں ویسے ویسے اس کے ذہن پر علم و حکمت کی تحریریں رقم ہونے لگتی ہیں ۔ اور یہ سیکھنے کا سلسلہ موت تک جاری رہتا ہے ۔
پرانے زمانے میں چھاپہ خانہ کی ایجاد سے پہلے انسان کام کی اور ضروری باتوں کو پتھروں، پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر تحریر کیا کرتا تھا ۔ یہ بات اَظْہَر مِنَ الشَّمْس ہے کہ تحریر کی عمر ہمیشہ سے لمبی رہی ہے ۔ مگر دور جدید کے ٹیکنالوجی کے زمانے میں علوم کو حاصل کرنے کے بیسیوں ذرائع آ چکے ہیں ۔ جس کے ذریعے انسان علوم کے سمندر میں غوطے لگا کر حکمت اور دانائی کے موتی نکال سکتا ہے ۔ مگر ان سب ذرائعوں میں کتاب ہی ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ انسان صدیوں کی مسافت کو چند ہی دنوں میں طے کر سکتا ہے ۔
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
نامعلوم
ایک اچھی کتاب کسی مصنف کے بیس پچیس سال کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے ۔ جسے ایک قاری اس مصنف کے سارے تجربات کو صرف اور صرف تین چار دنوں میں حاصل کر لیتا ہے ۔ ایک اچھی کتاب انسانی ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اور انسانی شعور، فکر میں پختگی لاتی ہے ۔ کتاب ہی وہ واحد دوست ہے جس کے متعلق منافقت کا خدشہ نہیں ہوتا ۔
مگر افسوس صد افسوس ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں انسان آہستہ آہستہ کتابوں سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اسلاف کی تحریر کردہ لاکھوں کتابوں سے ہر دن صدا آتی ہے کوئی آئے اور میرے اسرار و رموز کو جانے مگر افسوس لوگ اپنے اسلاف کی صدیوں کی محنتوں کو دیمک کی نذر کر رہے ہیں ۔ دورِ جدید میں لوگ اب کتابیں نہیں موبائل پڑھتے ہیں گھنٹوں انہی میں اپنے اوقات صرف ہیں ۔ ناشر ، کتب فروش ، بڑی بڑی اکادمیاں اور کتب خانے کتابوں کے مطالعے کے شیدائیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔
علامہ اقبال نے لوگوں میں مطالعہ کے ذوق کو ابھارنے کے لئے اپنے ایک شعر میں ترغیب دلائی ہے ۔
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم
فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں
علامہ اقبال
مطلب: اگر کسی میں ذوق مطالعہ اور حقیقت کو پانے کی تڑپ موجود ہے تو پھر شب کی پرسکون تنہائی میں میرے شعری مجموعے زبور عجم کا مطالعہ کرے کہ اس کے اشعار میں ایسی فریاد پوشیدہ ہے جو انسان خلوص دل کے ساتھ نصف شب کے بعد ہی خدائے پا ک کے روبرو کرتا ہے ۔ ایسی فریاد رازہائے درون پردہ کی امیں ہوتی ہے ۔
دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جسے انسان مصمم ارادے کے ساتھ شروع کرے اور اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے ۔
اہلِ اردو میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کی کچھ ترکیبیں مندرجہ ذیل ہیں ۔
چھوٹے شہروں اور اردو آبادی والے علاقوں میں اردو گھر ، یا اردو ادبی تنظیموں کی تشکیل دے جائے ۔
ان اداروں کے ممبران ایسے لوگوں کو بنایا جائے جو مخلص ہوں ورنہ عام طور دیکھا گیا ہے کسی تنظیم میں مخلصین نہ ہونے کی وجہ سے تنظیمیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔
اردو کے ریٹائرڈ اساتذہ اور اردو سے محبت رکھنے والے احباب کو ممبر کی حیثیت سے ترجیح دیں ۔
اگر ریاستی سطح پر اردو اکادمی موجود ہے تو یہ سارے ادبی تنظیمیں اور اردو گھر اردو اکادمی سے جڑ جائیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے بڑے بڑے کتب خانوں کے رابطے میں رہیں ۔
تنظیم کے بنتے ہی پورے سال کا لائحہ عمل تیار کریں ۔
اردو کتابوں کے مطالعہ کے ذوق اور شوق کو بڑھانے کے لئے ادبی تنظیمیں اور اردو گھر کیا کریں ۔ ۔ ؟
شہر اور اردو آبادی میں گھوم پھر کر لوگوں سے وہ ساری کتابیں جمع کر لیں جو لوگوں کے مطالعہ میں نہ ہوں یا ان کے پڑھنے والے نہیں رہے ۔
پھٹی پرانی کتابوں کو پڑھنے لائق بنانے کے لئے بائنڈگ کا انتظام کریں ۔
حاصل کردہ کتابوں کو عناوین کے مطابق الگ الگ کریں ۔ جیسے بچوں کی کتابیں ، نظم ، نثر وغیرہ الگ الگ لسٹ بنائیں ۔
شہر کے تمام اردو اسکولوں کا دورہ کریں ۔ اساتذہ سے ملاقات کر کے طلباء کی تعداد حاصل کر لیں ۔
جب یہاں تک کے کام مکمل ہو جائیں تو اصل کام کی طرف قدم بڑھائیں ۔ اسکول میں بڑی عمر کے طلبہ کو جمع کر کے مطالعہ کے فوائد گنوائیں اور ان کی ایسی ذہن سازی کریں کے بچے مطالعہ کے لئے خوشی خوشی تیار ہو جائیں ۔ مطالعہ کی اہمیت پر عام لوگوں کے درمیان ماہرینِ مطالعہ کے لیکچر کروائیں ۔ اس کام میں مزید بہتری کے لئے اسکول لیول پر بچوں میں ایک مہم چلائیں جسے عنوان دیں " مطالعہ کرو انعام پاؤ " ۔ ۔ ۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے انعام کی چاہ میں بچے ہر وہ کام کر گزرتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو ۔ بچوں کے ذوق، دلچسی اور عمر کے لحاظ سے کتاب کا انتخاب کر کے اسکولوں میں اعلان کروائیں کہ فلاں فلاں کتاب آپ کے لئے مطالعہ کے لئے دی گئی ہے اگلے پندرہ دن کے بعد اس کے امتحان ہوں گے امتحان معروضی طرز پر ہو گے یعنی ایک سوال کے چار متبادل جوابات ہوں گے ۔ ۔ ۔ امتحان میں اول دوم اور سوم نمبر آنے والے طلباء کو انعام سے نوازا جائے گا اور ایک کتاب بطور ہدیہ دی جائے گی ۔ بقیہ جتنے بچے امتحان میں حصہ لیتے ہیں ان کو ڈیجیٹل سرٹیفیکٹ دی جائے گی ۔ اس طرح ہر پندرہ دن میں ایک مرتبہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ اردو تنظیموں کو چاہیے کے اس طرح کے کاموں کے لئے الگ سے ایک کمیٹی کی تشکیل دیں ۔ اردو اسکول والوں کو چاہیے کہ طلباء کے لئے روزانہ ایک گھنٹہ لائیبرری کی ایک کلاس کے نام سے مختص رکھیں جس میں طلبہ مطالعہ کر سکیں اس طرح دھیرے بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا ۔ کتابوں کو متعین کرتے وقت بچوں کی عمر اور دلچسپی کا دھیان رکھیں ۔ کالج میں پڑھنے والے بچوں کو واٹس ایپ گروپ کے ذریعہ جوڑ کر اسی طرح امتحانات کا انتظام کریں ۔ لڑکے اور لڑکیوں علیحدہ علیحدہ گروپ بنائیں تاکہ فتنہ کا خدشہ نہ رہے ۔ لڑکیوں کی گروپ ایڈمن کسی استانی کو کریں ۔ جب یہ چیزیں قابو میں آنا شروع ہو جائیں تو عام لوگوں میں یہ سلسلہ شروع کریں ۔ اردو اکادمیوں سے کتابوں کو بلک میں خریداری کریں ۔ اہلِ وطن یا ملت کے لوگ جو اردو سیکھنے کے خواہش مند ہیں ان کے لئے کلاسس کا نظم کیا جائے ۔ جہاں جہاں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے وہاں چھوٹی چھوٹی کتابیں رکھیں ۔ لوگوں کو ترغیب دلائیں کے اردو اخبارات خریدیں ۔ "ہر گھر اردو اخبار کی مہم چلائیں" ۔ لوگوں کا ذہن بنائیں کے کتابوں اور اردو اخبارات کے لئے رقم خرچ کریں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم سب کے پیٹ ہزاروں مرغیوں اور بکروں کا قبرستان ہے ہم نے ہزاروں روپئے اس پر خرچ کئے مگر نہ کئے تو کتابیں اور اخبارات خریدنے کے لئے نہیں کئے ۔ یہ صرف مطالعہ کے عنوان سے اردو تنظیموں کے کام ہیں اس کے علاوہ بیسیوں کام ایسے ہیں جو اردو تنظیمیں کر سکتی ہیں ۔
گھروں کے ماحول کو کیسے بدلا جائے ؟
گھر کے سربراہ کو چاہیے کہ گھر میں مطالعہ کے ماحول کو پیدا کرے اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ بذات خود کو مطالعہ کا عادی بنائے جس کے ذریعے گھر کے دیگر افراد بھی اس طرف توجہ دیں گے ۔ خاص طور سے گھر کے چھوٹے بچے آپ کی اس عادت سے جلدی اثر قبول کریں گے ۔ بچوں کی عمر ان کی ذہنیت اور ان کی دلچسپی کے مطابق کتابیں منگوا کر رکھیں تاکہ وہ جب چاہیں آسانی سے پڑھ سکیں ۔ کتابوں کے مکمل مطالعہ کے بعد بچوں کو اپنے طور پر کچھ انعام بھی دیں ۔
ہر مسجد کے احاطے میں لائبریری کا قیام کریں :
مسجدوں کے ممبران کو چاہیے کہ مسجد کے احاتے میں چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ایک لائبریری بنائیں جہاں اردو اخبارات اور چھوٹے موٹی کتابیں مہیا کریں جس سے لوگوں میں پڑھنے کا ذوق اور شوق پیدا ہوا ۔
گاؤں میں لوگوں کے کثرت سے بیٹھنے کی جگہوں پر اردو اخبارات کا انتظام کریں :
عام طور پر گاؤں کے ماحول میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بڑے برگد کے گھنے سائے کے تلے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اگر ان کے آس پاس الگ الگ اخبارات رکھے جائیں تو عین ممکن ہے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ اور بھی ایسے کئی طرح کے کام ہیں جس کے ذریعے سے موجودہ دور میں لوگوں کے درمیان مطالعے کے ذوق اور شوق کو ابھارا جا سکتا ہے ۔
Thursday, 22 May 2025
گُم شُدَہ مُسَوَّدَہ
Thursday, 28 November 2024
آؤ کھیلیں کھیل پرانے
آؤ کھیلیں کھیل پرانے
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
کروشی بلگام کرناٹک
8105493349
اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں
اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا ہے ۔ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو عقل اور شعور
کے ساتھ کام کرتے ہوئے پیدائش سے لے کر موت تک کی زندگی بہ حسن خوبی بسر کرتا ہے ۔
دیگر جانوروں کے مقابلے میں انسان ہی تو ہے جو ہر دن نت نئی ایجادات کر کے دنیا میں
انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔انسان کو کھیلوں سے فطری طور پر دلچسپی رہی ہے خواہ وہ بچہ
ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو ہر انسان اپنی اپنی طبیعت دلچسپی کی بنیاد پر کھیل کھیلتے آ
رہے ہیں ۔ مگر آج کے اس ترقی یافتہ موبائیل کے دور میں خاص طور پر بچوں کی زندگی سے
وہ سارے کھیل دور ہو گئے ہیں جو سن 1990 یا اس سے پہلے کے لوگ کھیلا کرتے تھے ۔ آج
ہم انہی بھولے بسرے کھیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ۔
1۔ گلی ڈنڈا
: ان کھیلوں میں سرِ فہرست کھیل گلی ڈنڈا ہے جو تقریبا موجودہ دور میں متروک
ہو چکا ہے اس کھیل میں دو ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جس کا ہر کھلاڑی باری باری کھیلتا ہے
اگر پہلی ٹیم کے کھلاڑی کے ذریعے ہوا میں اڑتی ہوئی گلی کو دوسری ٹیم کا کھلاڑی کرکٹ
کی گیند کی طرح کیچ کر کے پکڑ لیتا ہے تو یہ کھلاڑی آؤٹ قرار دیا جاتا ہے ڈنڈے سے گلی
مارنے کے مخصوص نام ہوتے ہیں ۔ پاؤ، چٹی ،مٹھی ،گھوڑا ،پُوک ،ڈولا ،جِل ۔ ۔ ۔ اس کھیل
کے ذریعے پہلی ٹیم کا کھلاڑی دور تک گلی کو مارتا اور ایک اندازے سے بتاتا کہ گلی کے
گرنے کی جگہ اور جہاں سے گلی کو مارا گیا ہے وہاں تک کی جگہ کا اندازہ لگا کر ایک عدد
بتاتا ہے جیسے 500 یا ہزار اگر سامنے والی ٹیم کو لگتا کہ اس کی بتائی ہوئی عدد کم
ہے تو اس کو گِنا جاتا اس طرح اس کھیل کے ذریعے بچے علم ریاضی کے فن میں ماہر ہو جاتے
اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا ڈسٹنس کا اندازہ ہو جاتا ۔ اس طرح
یہی بچے بڑے ہو کر زندگی کے دیگر شعبے میں اپنی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر اندازے لگانے
میں ماہر ہو جاتے ۔
2-
گھوٹی یا کنچے : بچپن کے دور کا ایک اہم کھیل گھوٹی تھا جس میں کانچ کی بنی ہوئی گوٹیاں
ہوتی تھیں زمین میں ایک چھوٹا سا گڑا کھود کر کھیلا جاتا تھا اسے کئی ایک لاکھ طریقوں
سے کھیلا جاتا تھا اس کھیل کے ذریعے گوٹیوں کو گنتے گنتے بچہ جمع اور تفریق کے حساب
میں ماہر ہو جاتا اور ساتھ ہی ساتھ نشانہ لگانے میں ماہر بن جاتا ۔ اس دور میں جس کے
پاس جتنی زیادہ گوٹیاں ہوتیں وہی امیر قرار دیا جاتا تھا مگر یوں بھی ہوتا تھا کہ آج
جس کے پاس زیادہ گوٹیاں ہوں کل اسے وہ ہار بھی جاتا تھا ۔ اور پھر سے محنت کر کے از
سرِ نو اپنی ہاری ہوئی ساری گھوٹیاں دوبارہ حاصل کر لیتا یہ سلسلہ چلتا رہتا اس طرح
بچوں میں ہارنے کے بعد پھر سے کھڑے ہونے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا اسی وجہ سے یہی بچہ
جب بڑا ہوتا کسی کام میں ناکام ہونے کے بعد ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا تھا بلکہ حالات
کا مقابلہ ہمت سے کرتا ۔
3۔
جِگ جِگ گھوڑا : یہ کھیل عام طور پر 10 سے 12 بچے مل کر کھیلا کرتے تھے جس کی باری
ہوتی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں سے لگا کر جھک جاتا تھا ۔ باری
باری سارے کھلاڑی اس کے اوپر سے چھلانگ لگاتے جب سارے کھلاڑی چھلانگ لگانے میں کامیاب
ہو جاتے تو وہ دھیرے دھیرے اپنے قد کو اونچا کرتا اس طرح بچوں میں ڈفیکلٹی لیول کو
ہمت سے پورا کرنے کا حوصلہ ملتا اور بچوں کی جسمانی ورزش ہو جاتی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ
بچے اے بی جاننے لگتے کہ زندگی تھوڑی تھوڑی دھیرے دھیرے مشکل سے مشکل ہوتی جاتی ہے
اس کھیل کے ذریعے سے وہ زندگی کا ایک بہت بڑا سبق سیکھ لیتے ۔
4۔ چور پولیس : دو ٹیموں پر مشتمل یہ کھیل کھیلا جاتا
جس میں سے ایک چوروں کی ٹولی ہوتی اور دوسری پولیس کی ٹیم ہوتی اس کھیل کے ذریعے بچے
سارا گاؤں گھوم لیتے اور گلی کے ہر نکڑ سے واقف ہوتے ۔ پولیس کی ٹیم آخر کار ان کو
پکڑ ہی لیتی اور جو بچے چور بنے ہوتے انہیں فطری طور پر احساس ہو جاتا کہ ہماری اصل
زندگی میں بھی اگر ہم چور بنیں گے تو کبھی نہ کبھی پکڑے ہی جائیں گے اس طرح بچے بچپن
ہی سے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہوتے جاتے ۔
5۔
چھپا چھپی : عام طور پر یہ کھیل سردیوں کے دنوں میں رات کی تاریکی میں کھیلا جاتا تھا
جس کی باری اتی وہ کسی دیوار میں اپنا منہ چھپا کر 10 سے لے کر 100 تک گنتی کرتا تب
تک وہ اس کے ساتھی دوست کہیں چھپ جاتے اور وہ ساتھی دوستوں کے ناموں کو پکار پکار کر
آؤٹ کر دیتا بعض مرتبہ اس کے ساتھی چال بدل بدل کر اسے قریب آتے مگر وہ ہر بار پہچان
لیتا ۔
6۔
پیڑ بندر : اس کھیل میں 10 سے 12 بچے ہوا کرتے تھے اس میں ایک لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے
کو کوئی کھلاڑی دور پھینک دیتا دوسرا کھلاڑی لکڑی کے ٹکڑے کو لانے کے لیے دوڑتا تب
تک سارے کھلاڑی پیڑ پر چڑھ جاتے ۔ جو کھلاڑی لکڑی لانے کے لیے گیا تھا وہ پیڑ کے نیچے
ایک چھوٹا سا دائرہ بنا کر اس میں لکڑی کو رکھ دیتا اور خود اوپر چڑھنے لگتا تاکہ وہ
اپنے کسی ایک ساتھی کو آؤٹ کرے ۔ خود کو اؤٹ ہونے سے بچانے کے لیے بعض کھلاڑی اوپر
سے نیچے کی جانب چھلانگ لگا دائرے میں رکھی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے کو چھو لیتے ۔ اس طرح
دوبارہ اسی کھلاڑی کا نمبر آتا ۔ بعض مرتبہ بچوں کے پاؤں میں موج بھی آتی ۔ درد کی
جگہ پر سفید ہاڑ مٹی گیلی کرکے چولہے پر سینکا جاتا ۔ ۔
7۔
چیل گھوڑا : یہ کھیل بھی اب مکمل طور پر متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں عام طور پر ایک
ٹیم میں چھ سے سات کھلاڑی ہوتے تھے اس میں پہلا کھلاڑی دیوار کو ہاتھ لگا کر جھک جاتا
تھا اس کے پیچھے بقیہ کھلاڑی ایک دوسرے کی کمر کو پکڑ کر ایک لمبا ریل جیسا ڈبہ بنا
لیتے تھے ۔ دوسرے ٹیم کی کھلاڑی دور سے دوڑتے ہوئے آ کر چھلانگ لگا کر کوششیں کرتے
تھے کہ پہلے کھلاڑی کی پیٹھ پر سوار ہو جائے ۔ اس طرح بقیہ کھلاڑی بھی دوڑ کر ان سارے
کھلاڑیوں کے پیٹھ پر یکے بعد دیگرے سوار ہو جاتے ۔ جو کھلاڑی گھوڑا بنے ہوئے ہیں اگر
وہ وزن کا بار نہ سہ سکے تو دوبارہ اسی طریقے ست کودا جاتا اور اگر چیل کی طرح اتے
ہوئے کھلاڑی نیچے گر جاتے ہیں تو ان کی باری آ جاتی ہے ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ بہت دیر
تک چلتا رہا تھا اس کھیل کے ذریعے اجتماعی طور پر کسی کام کے کرنے کا حوصلہ ملتا جذبہ
ملتا اور یہی وہ کھیل ہے جو آگے چل کر ایک جماعت کی شکل بن کر اجتماعی طور پر نئے نئے
انقلابات لاتا ۔ ۔
8۔کنویں
میں پکڑم پکڑی : بچپن میں سب سے پہلے بچوں کو چھ سال کی عمر کے بعد جو چیز پہلے سکھائی
جاتی تھی وہ کنویں میں تیرنا تھا ۔ جو بچے تیراکی میں ماہر ہو جاتے تو وہ ایک نیا کھیل
اس کنویں میں کھیلا کرتے ۔ کھلاڑیوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے نہ جانے دینا یہی
کھیل کا اہم جز تھا ۔ اس طرح مسلسل بچے اس میں مشق کرتے رہتے ہیں ۔ بعض مرتبہ پلاسٹک
کی تھیلی میں پتھر ڈال کر کنویں میں پھینک دیتے ۔ اور بچے اسے کنویں کی گہرائی سے لے
کر آنے کے لیے بیک وقت کود جاتے جو سب سے تیز ترار ہوتا وہی اس پتھر کو دوبارہ لے کر
آتا ۔
9۔
لکڑی پتھر : اس کھیل میں عام طور پر تین سے ساڑھے تین فٹ کی ایک مضبوط لکڑی ہوتی ۔
جس کی باری ہوتی اس کی لکڑی کو یہ لوگ اپنی لکڑی کے نوک سے دور تک پھینکتے اور دوڑتے
ہوئے وہاں تک جاتے اگر بالفرض اس دوڑ کے اندر اس پہلے کھلاڑی نے کسی کو اوٹ کر دیا
تو باری اس کی آ جاتی ۔ ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ دور دور تک پھیلے کھیتوں وغیرہ میں چلتا
رہتا واپسی میں جن جن کھلاڑیوں کی باری آئی تھی ان کو لنگڑاتے ہوئے چلنا پڑتا اور بعض
مرتبہ تھوڑی دیر لنگڑاتے چلنے کے بعد جو ساتھی ہوتے اسے معاف کرتے سارے بچے ہنسی خوشی
گھر لوٹ آتے ۔ ۔
10۔
کاغذ کی کشتی : یہ کھیل عام طور پر بارش کے دنوں میں کھیلا جاتا جب زوردار بارش گر
کر تھم جاتی تو فورا اپنے اپنے گھروں سے بچے نکلتے اور چھوٹی سی کاغذ کی کشتی بنا کر
اسے پانی میں ڈالتے اور اس کی پیچھے مسلسل دوڑنے لگتے اس طرح بچوں کی ایک جسمانی ورزش
ہو جاتی ۔
11۔
کیل مٹی : یہ کھیل بھی عام طور پر بارش کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا جس میں بچے لوہے
کی ایک نوکی لی کل سے زمین میں ایک دائرہ بناتے اور اسی دائرے کے درمیان اپنی کیل سے
زور سے کیل گاڑنے کی کوشش کرتے جس کا کل گر جاتا وہ کھیل سے باہر ہوتا ۔ ۔
12۔
منڈوے کے کھمبے : عام طور پر یہ کھیل شادی بیاہ کے موقعوں پر بچے چار کھمبوں کو پکڑ
کر کھیلا کرتے تھے جس میں ہر ایک بچہ ایک ایک کھمبے کو پکڑتا اور بیچ میں ایک بچہ ایسا
ہوتا جو دیگر کھلاڑیوں کو ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے کی طرف جانے سے روکتا اس طرح بچے
بڑے مزے سے کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ۔
اس کے علاوہ بیسیوں کھیل ایسے ہیں جسے
آج کے موبائیل کے دور کا بچہ بھولتا جا رہا ہے۔۔
Monday, 25 November 2024
کروشی پٹیل برادری کا میراثی بلگام کرناٹک
کروشی پٹیل برادری کا میراثی
بلگام کرناٹک
آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن سراج زیبائی شیموگہ کرناٹک 8296694020 کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا ہے ا...

-
ایک بستی، سولہ پشتیں کروشی آفتاب عالم ؔ دستگیر پٹیل ( شاہ نوری) کروشی ، بلگام ،کرناٹک (انڈیا) 8105493349 بسم اللہ ال...
-
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ شکوہ جواب شکوہ شرح شارح : ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی بلگام ...
-
A Brief History Of Karoshi ( Karwaish ) Karoshi (Karwaish) is a village panchayat in Belgaum district of Karnataka state of I...