Monday, 9 June 2025

آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن

سراج زیبائی
 شیموگہ کرناٹک 
8296694020



کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا
 ہے اور اسی طرح علم کا عروج و زوال استاد پر ہوتا ہے۔ آفتاب عالم شاہ نوری ایک محنتی ذہین اور کامیاب استاد ہیں جو نہ صرف طالب علموں کو پابندی، دیانت اور خلوص سے پڑھاتے ہیں بلکہ ان میں علم و ادب کا ذوق بھی پیدا کرتے ہیں۔ آپ کی تعلیم و تدریس سے پرخلوص وابستگی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ یہ ایک ایسی دل آویز شخصیت ہے کہ جس میں وضع داری خود اعتمادی اور نفاست 
پسندی بدرجہء اتم دیکھی جا سکتی ہے۔ ان دنوں سوشیل میڈیا اور اخباروں رسالوں میں ان کی شاعری پڑھنے کو مل جاتی ہے جو سنجیدہ قاریوں کو متاثر کرتی ہے۔ 
شاعر اپنے دور کا آئینہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدات و تجربات کو پوری دیانت داری سے اپنی شاعری میں رقم کر دیتا ہے۔ چوں کہ ان کے اکثر اشعار درس آموز ہوا کرتے ہیں ان میں سہل ممتنع اور تازہ کاری ہوتی ہے اس لئے وہ اشعار انجذاب توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ان کی مستقل مشاقی کی وجہ سے وہ تیزی سے اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر چھوٹی بحروں میں کہے گئے ان کے اشعار ذہنوں کو سرور و انبساط عطا کرتے ہیں۔
مثلا" یہ اشعار
ٹھکراتی ہے دنیا جس کو  
اس رستے پر چلتا ہوں میں
تیرا کردار جیسے صندل یے
تیری صحبت سے ہر بشر مہکے
سنبھال رکھی ہے اب تلک بھی
محبتوں کی ہر اک نشانی
   دنیا میں جو حادثے و واقعات رونما ہوتے ہیں ان کی تصویر کشی عالم صاحب بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے شعروں میں مضمون آفرینی کے ساتھ معنی آفرینی بھی ہوتی ہے۔ روایت کے پاسدار ان کے اشعار نہایت سلیس اور سلیقے کے ہوتے ہیں۔ ہر مومن کی طرح ان کی بھی یہ آرزو ہے کہ
رب سے ہر لمحہ دعا کرتا ہے عالم بھی یہی
حالت سجدہ ہو اور جان ہماری جائے
اس نوعیت کے بہت سارے اشعار عالم صاحب کے ہاں دیکھے جاتے ہیں جو ان کے مزاج میں بسی ہوئی تقدیس ک نشاندہی کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا علم ہے کہ شاعری کے لئے ساز گار حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعری کا خمیر عشق و محبت سے ہی اٹھا ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے عشق کو زندگی کا ساز گردانتے ہوئے کہا تھا کہ 
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے۔ 
عالم صاحب عشق کی بابت کہتے ہیں
سرخ آنکھیں تری یہ کہتی ہیں
آتش عشق میں جلا ہے کہیں
ان کے کلام میں اخلاقی قدروں کی پاسداری نصیحت و محبت سب کچھ ہے جس سے ان کی صلابت فکر کا پتہ چلتا ہے۔
 عالم صاحب کی شاعری سماج سے ہی اپنا مواد اخذ کرتی ہے۔ ان کا فکر زندگی کے تمام کرب انگیز لمحوں سے مکالمہ کرتا ہے۔ چوں کہ موصوف درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ایک جگہ استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں 
جہالت کے اندھیرے میں فقط استاد ہی عالم
چراغ علم کی لو سے بجھے دیپک جلاتا ہے
اس طرح ان کے کلام میں 
پور ی نسل انسانی کے لئے مکالمات خیر ہیں۔ جن کو اپنا کر ہم ایک خوبصورت زندگی گذار سکتے ہیں۔
ان شعروں میں شاعر کا بلند حوصلہ اور استقامت دیکھئے۔ کہتے ہیں
برگد کی طرح ہم نے قدم اپنے جمائے
ہر آن جو گر جائے وہ دیوار نہیں ہیں
اگرچہ تو رستہ مجھے پر خطر دے
نیا حوصلہ دے نیا اک سفر دے
جنگ وجدل سے مجھ کو ڈراتے ہو کس لئے
توپیں تمھارے پاس ابابیل میرے پاس
آفتاب عالم ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ اردو ادب کے دلدادہ ہیں جو اپنے ذہنی سکون کا وسیلہ اردو شعر و ادب کو بنائے ہوئے ہیں۔ دور حاضر میں جو سماجی نا ہمواریاں اور بد عنوانیاں ہیں عالم صاحب ان کا بغور مشاہدہ کرتے اور انھیں اس طرح اپنے شعروں میں ڈھالتے ہیں
کہنے کو تو ہر چیز ہے دنیا میں میسر
پھر بھی یہاں انسان پریشان سا کیوں ہے
صبر کی چوٹ سے اخلاق مکمل کرنا
کتنا دشوار ہے کر دار کو صندل کرنا
لوگ جاتے ہیں امیروں کے گھروں پر ایسے
جیسے مسجد کی طرف کوئی بھکاری جائے
یہ سچ ہے کہ خوبصورت لفظیات کی عمدہ ترتیب سے ہی اچھی شاعری معرض وجود میں آتی ہے۔ اس بات سے عالم صاحب بخوبی واقف ہیں
شاعری اگر صحیح معنوں میں اچھی اور معیاری ہو تو شاعر کو اس کا مقام ضرور دلواتی ہے۔ جیسے خود عالم صاحب کا کہنا ہے
میری غزلوں نے ہی مجھ کو
دنیا میں مشہور کیا ہے
اچھے شاعر کے ہاں منتخب لفظیات کے ساتھ اگر فصیح و بلیغ اشارے کنائے خوبصورت تشبیہات اور عمدہ تمثیلیں ہوتی ہیں تو پھر کیا کہنے۔ ایسے اشعار دلوں کے تحت الثری' میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
آفتاب عالم صاحب کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جو قاری کے دلوں کو چھو لیتے ہیں
سکوں کی نیند میرا رب اسے ہر شب سلاتا ہے
تھکن سے چور جب مزدور گھر کو لوٹ آتا ہے
عالم نے اپنے سر کو جھکا کر دعاوءں میں 
توبہ کے آنسوؤں سے گناہوں کو دھویا ہے
جن کو غرور اپنی بلندی پہ تھابہت
ایسوں کو بھی خدا نے اتارا زمین پر
سچ پوچھئے تو دراصل شاعری میں زبان کی سر فرازی اور سر بلندی ہی اصل چیز ہوتی ہے اس کو قائم رکھتے ہوئے ہی شاعری قابل قدر ہو سکتی یے اور شاعر پوری خود اعتمادی سے یوں کہہ سکتا ہے کہ 
علم و ادب کی خوشنما تمثیل میرے پاس
ظلمت تمھارے پاس ہے قندیل میرے پاس 
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عزیزم آفتاب عالم کی شاعری میں سماجی ہمواریاں صاف نظر آتی ہیں اور اشاریت اور ایمائیت کا عمل عروج پر ہے۔سو کہا جا سکتا ہے کی مستقبل میں ان کے ہاں مزید معیاری شاعری کے امکانات روشن نظر آتے ہیں

Thursday, 5 June 2025

نذیر فتح پوری صاحب کے ساتھ ادبی بیٹھک

 نذیر فتح پوری صاحب کے ساتھ ادبی بیٹھک
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری 
بلگام کرناٹک
8105493349

فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں
یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے
نا معلوم
نذیر فتح پوری صاحب اردو ادب کا ایک ایسا معتبر نام ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے جب یہ جملہ میں نے نذیر فتح پوری صاحب کے سامنے دہرایا تو ان کی عاجزگی کا عالم دیکھیے کہنے لگے ارے آفتاب میاں! مجھے پڑوسی نہیں جانتے آپ کہتے ہیں ساری دنیا مجھے جانتی ہے ۔ ۔ دراصل یہ ان کی اپنے آپ میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کی کیفیت ہے ورنہ ایسا کوئی نہیں ہے جو نذیر صاحب کو نہ جانے ۔ نذیر صاحب سے میری پہلی ملاقات کا قصہ بڑا دلچسپ ہے ۔ میں ایک مرتبہ پونا گیا ہوا تھا اور بیٹھے بیٹھے مجھے رئیس الدین رئیس صاحب کا ایک شعر یاد آیا جسے میں نے واٹس ایپ کے کئی سارے گروپس میں فاروڈ کر دیا ۔ شعر کچھ یوں تھا ۔  
ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں
میں زندگی تری تشہیر کرتا رہتا ہوں
رئیس الدین رئیس 


اتفاق ایسا ہوا کہ جن گروپس پر میں نے شعر فاروڈ کیا تھا ان میں سے کسی ایک گروپ میں نذیر فتح پوری صاحب بھی تھے انہوں نے یہ شعر دیکھا تو مجھے میسج کیا اور کہنے لگے کہ رئیس الدین رئیس میرے قریبی دوستوں میں ہیں ۔ میں نے فورا نذیر صاحب کو فون کیا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں کہنے لگے پونہ میں ۔ میں چونک گیا میں نے کہا محترم میں بھی اس وقت کسی کام سے پونا میں ہی ہوں آپ سے بات کرنے کے بعد خواہش ہو رہی ہے کہ آپ سے ملوں ۔ ۔ کہنے لگے کل میرے گھر پر میری کتاب کا اجراء ہے اور ایک شعری نشست بھی ہے آپ پہنچ جائیں ۔ نذیر صاحب نے مجھے گوگل لوکیشن بھیجا اس طرح میں اگلی صبح نذیر صاحب کے مکان کی طرف روانہ ہوا ۔ جب ان کے مکان پر پہنچا تو مراٹھی اور اردو شعراء کا جمگھٹا لگا ہوا تھا کتاب کے اجراء اور شعری نشست بہت بہترین رہی ۔ سارے لوگ دیر تک نذیر صاحب کی باتیں سنتے رہے شعری نشست کے بعد تمام آئے ہوئے شعراء اور ادباء کے لیے نذیر صاحب نے کھانے کا نظم کیا تھا تمام احباب نے مل کر کھانا کھایا ۔ اس پروگرام میں دو اہم شخصیات سے میری ملاقات ہوئی پہلے ادوھو مہاجن بسمل صاحب اور دوسرے ولی احمد خان صاحب ۔ دونوں احباب سے موبائل کی نمبرات کا تبادلہ ہوا ۔ واپسی کے بعد نذیر فتح پوری صاحب سے اور بسمل صاحب وقتا فوقتا بات ہوتی رہتی تھی ۔ کچھ عرصے کے بعد ادھو مہاجن بسمل صاحب نے کال کیا اور کہا کہ آفتاب صاحب میری اٹھارویں ۱۸ کتاب "نئے خواب غزل کے" کا رسم اجرا ہے اور آپ کو پونا آنا ہے میں میں نے حامی بھر لی ۔ اس پروگرام کے ذریعے سے دوسری مرتبہ نذیر فتح پوری صاحب اور ادھو مہاجن بسمل صاحب سے ملاقات کا ایک اور موقع ملا ۔ جب پروگرام کا آغاز ہوا اور کسی تعارف کرنے والے نے مہاجن صاحب کا جو تعارف پیش کیا تو میں سن کر حیران ہوا کہ ایک مراٹھی پڑھے لکھے آدمی نے تقریبا 18 کتابیں اردو میں تحریر کی ہیں مزید یہ سن کر مہاجن صاحب کے لئے اور محبت بڑھ گئی کہ مہاجن صاحب نے ایک نعتیہ مجموعہ "محمد سب کے لیے" کے عنوان سے شائع کروایا ہے ۔ کتاب کی رسم اجرا کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا جہاں میں نے اپنی یہ غزل پڑھی جسے تمام شعراء نے اور خاص طور پر نذیر فتح پوری صاحب نے بہت پسند کیا وہ غزل کچھ یوں ہے ۔ 

شیشہ گر کی بستی میں امتحان پتھر کا
ہے زمین پتھر کی آسمان پتھر کا
کانچ سے بنی چیزیں گھر میں کیسے لاؤ گے
پتھروں کی چوکھٹ ہے سائبان پتھر کا
سَنگ لاخ دھرتی پر پھول بھی ہیں پتھر کے
ہیں شگوفے پتھر کے باغبان پتھر کا
سنگ باری ہوتی ہے جس طرف بھی چلتا ہوں
لڑکھڑاتی دیواریں ہر مکان پتھر کا
میل کا یہ پتھر ہے راستہ بتائے گا
اعتبار کر لینا میری جان پتھر کا
تیری کشتی کا عالم ؔ ڈوبنا یقینی ہے
ناخدا نے باندھا ہے بادبان پتھر کا
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
پونہ میں ایک روز کے قیام کے بعد اگلے روز واپسی ہوئی ۔ اس بار کے
 سفر کے بعد مہاجن صاحب سے اور مزید تعلقات بڑھ گئے ۔ شہر پونہ کے لیے میرا تازہ سفر 2 جون 2025 کو ہوا ۔ اس ریل کے پانچ چھ گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے ایک مضمون تحریر کیا جس کا عنوان " اہلِ اردو میں مطالعہ کا ذوق کیسے پیدا کریں " رات کے تقریبا 11 بجے کے قریب میں گھر پہنچا ۔ دن بھر کے سفر کا تھکا ماندہ فورا سو گیا ۔ اگلے دن صبح سے دوپہر تک مضمون پر دوبارہ نظر ثانی کی اور ٹایپینگ کے بعد الگ الگ اخبارات کو ای میل کیا ۔ جو الحمدللہ دوسرے دن ملک کے کئی سارے اخبارات میں شائع بھی ہوا ۔ شام کے وقت نذیر صاحب ملاقات کی اجازت مانگی تو نذیر صاحب نے اگلے دن صبح ٩ بجے کا وقت دیا ۔ مہاجن صاحب کو ملاقات کے لئے نذیر صاحب کے مکان پر بلوا لیا ۔ گھر سے ٨ بجے کے قریب نکلا شہر کی ٹرافک کی وجہ سے پہنچتے پہنچتے ۹:۱۵ بج گئے ۔ نذیر صاحب انتظار میں تھے میرے پہنچنے کے ۵ منٹ بعد مہاجن صاحب بھی پہنچ گئے ۔ نذیر صاحب سے گفتگو کا آغاز ساڑھے نو سے ایک بجے تک مسلسل چلتا رہا ۔ اس گفگتو میں جن جن شعراء و ادباء کا ذکر ہوا ان کے نام یہ تھے ۔ ندا فاضلی، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر،منور رانا، راحت اندوری، جگن ناتھ آزاد، علامہ اقبال، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، عزیز بلگامی، منیر احمد جامی، ڈاکٹر محبوب راہی، وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں جن جن کا تذکرہ نذیر صاحب نے کیا سب کی خوبیاں ہی بیان کی ۔ یہی ہوتی ہے ایک اچھے انسان کی نشانی ۔ ان شعراء ادباء میں سے اکثر وہ تھے جن سے نذیر صاحب کے تعلقات تھے ۔ ان ساڑھے تین گھنٹوں کی گفتگو میں نذیر صاحب نے تجربات کی ایسی وادیوں کی سیر کرائی جس سے گزرنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں تھی ۔ اسباق رسالہ کے شروعاتی دور کے قصے سنائے کہ کس طرح یہ 44 برسوں تک چلتا رہا ۔ اومان اور عمرہ کے سفر ناموں کے واقعات سنائے ۔ ۔ ۔ جنہیں سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم بھی نذیر صاحب کے ساتھ اس سفر میں ہمراہ ہیں ۔ ویسے تو نذیر صاحب نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ناول سے کیا مگر آہستہ آہستہ ہر طرح کی کتابیں شائع کروائیں ۔ اب تک نذیر صاحب کی 115 سے زائد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں ۔ ۔ جن کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہے ۔ ۔ 
نذیر فتح پوری صاحب کی تصانیف -
نذیر فتح پوری کے فکر و فن پر مرتب کردہ کتابیں 25
ناول 3
ادبِ اطفال 9
شاعری 19
افسانے/ افسانچے 3
ترجمہ1
سفر نامے 3
ادبی مضامین 2
خودنوشت 2
تنقید و تحقیق 4
تذکرہ نگاری 6
ادبی شخصیحات پر کتابیں 21
خواتین اہلِ قلم پر کتابیں 3
مناظر عاشق ہرگانوی پر کتابیں 8
ادبی شخصیحات پر کتابیں ترتیب 19
یاداشتیں 3
مکتوب نگاری 9
اس کے علاوہ دو لوگوں نے نذیر فتح پوری پر phd کی ہے اور ایک نے M.phil کیا ہے ۔ ادبی میدان میں اتنا سارا کام کرنے کے باوجود عاجزگی اور تواضع بھری زندگی بسر کرتے ہیں ۔ نئے لکھنے والوں کو محترم جناب نذیر فتح پوری صاحب ہمت افزائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں " ہم نے اپنے چھوٹوں کے ساتھ وہ نہیں کیا جو ہمارے بڑوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا " یہی وجہ ہے کہ ہمدردی اور انسان دوستی کی وجہ سے ان کے ذہن کا کنواں بہت سارے نا گوارحالات کے باوجود کئی دہائیوں سے سوکھا نہیں ہے ۔ اور اسی ذہن کے کنویں سے سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں آ چکی ہیں اور علم کی پیاس بجھانے والے ان کی کتابوں کے ذریعے سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں اس طویل گفتگو کے بعد میں اور ادھو مہاجن بسمل صاحب نذیر صاحب سے اجازت لے کر اپنی اپنی راہوں کی طرف نکل پڑے ۔ مہاجن صاحب نے اپنی چار کتابیں بطورِ ہدیہ دیں ۔ نذیر صاحب کے یہاں سے نکلتے ہوئے میرے ذہن میں یہ شعر گونج رہا تھا ۔ ۔ 
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
x






Tuesday, 3 June 2025

اہلِ اردو میں ذوقِ مطالعہ کو کیسے ابھاریں ۔ ۔ ۔ ؟

  اہلِ اردو میں ذوقِ مطالعہ کو کیسے ابھاریں ۔ ۔ ۔ ؟

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری 

بلگام کرناٹک 

8105493349



انسانوں اور جانوروں کے درمیان فرق کرنے والی شئے علم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ دیگر جانداروں کو ان کی ضرورت کا علم، پیدائشی طور پر عطا کیا ہے ۔ اس طرح سے جاندار پیدائش سے لے کر موت تک خدا کے عطا کردہ انہی علوم کا استعمال کر کے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اگر اس معاملے میں انسانوں کی بات کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو پیدائشی طور پر کورے کاغذ کی مانند سفید رکھا ہے ۔ جیسے جیسے اس کی عمر کے شب و روز گزرتے ہیں ویسے ویسے اس کے ذہن پر علم و حکمت کی تحریریں رقم ہونے لگتی ہیں ۔ اور یہ سیکھنے کا سلسلہ موت تک جاری رہتا ہے ۔ 

پرانے زمانے میں چھاپہ خانہ کی ایجاد سے پہلے انسان کام کی اور ضروری باتوں کو پتھروں، پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر تحریر کیا کرتا تھا ۔ یہ بات اَظْہَر مِنَ الشَّمْس ہے کہ تحریر کی عمر ہمیشہ سے لمبی رہی ہے ۔ مگر دور جدید کے ٹیکنالوجی کے زمانے میں علوم کو حاصل کرنے کے بیسیوں ذرائع آ چکے ہیں ۔ جس کے ذریعے انسان علوم کے سمندر میں غوطے لگا کر حکمت اور دانائی کے موتی نکال سکتا ہے ۔ مگر ان سب ذرائعوں میں کتاب ہی ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ انسان صدیوں کی مسافت کو چند ہی دنوں میں طے کر سکتا ہے ۔ 

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

نامعلوم

ایک اچھی کتاب کسی مصنف کے بیس پچیس سال کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے ۔ جسے ایک قاری اس مصنف کے سارے تجربات کو صرف اور صرف تین چار دنوں میں حاصل کر لیتا ہے ۔ ایک اچھی کتاب انسانی ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اور انسانی شعور، فکر میں پختگی لاتی ہے ۔ کتاب ہی وہ واحد دوست ہے جس کے متعلق منافقت کا خدشہ نہیں ہوتا ۔ 

مگر افسوس صد افسوس ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں انسان آہستہ آہستہ کتابوں سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اسلاف کی تحریر کردہ لاکھوں کتابوں سے ہر دن صدا آتی ہے کوئی آئے اور میرے اسرار و رموز کو جانے مگر افسوس لوگ اپنے اسلاف کی صدیوں کی محنتوں کو دیمک کی نذر کر رہے ہیں ۔ دورِ جدید میں لوگ اب کتابیں نہیں موبائل پڑھتے ہیں گھنٹوں انہی میں اپنے اوقات صرف ہیں ۔ ناشر ، کتب فروش ، بڑی بڑی اکادمیاں اور کتب خانے کتابوں کے مطالعے کے شیدائیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ 

علامہ اقبال نے لوگوں میں مطالعہ کے ذوق کو ابھارنے کے لئے اپنے ایک شعر میں ترغیب دلائی ہے ۔ 

اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم

فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں

علامہ اقبال

مطلب: اگر کسی میں ذوق مطالعہ اور حقیقت کو پانے کی تڑپ موجود ہے تو پھر شب کی پرسکون تنہائی میں میرے شعری مجموعے زبور عجم کا مطالعہ کرے کہ اس کے اشعار میں ایسی فریاد پوشیدہ ہے جو انسان خلوص دل کے ساتھ نصف شب کے بعد ہی خدائے پا ک کے روبرو کرتا ہے ۔ ایسی فریاد رازہائے درون پردہ کی امیں ہوتی ہے ۔

دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جسے انسان مصمم ارادے کے ساتھ شروع کرے اور اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے ۔ 

اہلِ اردو میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کی کچھ ترکیبیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

چھوٹے شہروں اور اردو آبادی والے علاقوں میں اردو گھر ، یا اردو ادبی تنظیموں کی تشکیل دے جائے ۔ 

ان اداروں کے ممبران ایسے لوگوں کو بنایا جائے جو مخلص ہوں ورنہ عام طور دیکھا گیا ہے کسی تنظیم میں مخلصین نہ ہونے کی وجہ سے تنظیمیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔ 

اردو کے ریٹائرڈ اساتذہ اور اردو سے محبت رکھنے والے احباب کو ممبر کی حیثیت سے ترجیح دیں ۔ 

اگر ریاستی سطح پر اردو اکادمی موجود ہے تو یہ سارے ادبی تنظیمیں اور اردو گھر اردو اکادمی سے جڑ جائیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے بڑے بڑے کتب خانوں کے رابطے میں رہیں ۔ 

تنظیم کے بنتے ہی پورے سال کا لائحہ عمل تیار کریں ۔ 


اردو کتابوں کے مطالعہ کے ذوق اور شوق کو بڑھانے کے لئے ادبی تنظیمیں اور اردو گھر کیا کریں ۔ ۔ ؟

شہر اور اردو آبادی میں گھوم پھر کر لوگوں سے وہ ساری کتابیں جمع کر لیں جو لوگوں کے مطالعہ میں نہ ہوں یا ان کے پڑھنے والے نہیں رہے ۔ 

پھٹی پرانی کتابوں کو پڑھنے لائق بنانے کے لئے بائنڈگ کا انتظام کریں ۔ 

حاصل کردہ کتابوں کو عناوین کے مطابق الگ الگ کریں ۔ جیسے بچوں کی کتابیں ، نظم ، نثر وغیرہ الگ الگ لسٹ بنائیں ۔ 

شہر کے تمام اردو اسکولوں کا دورہ کریں ۔ اساتذہ سے ملاقات کر کے طلباء کی تعداد حاصل کر لیں ۔ 

جب یہاں تک کے کام مکمل ہو جائیں تو اصل کام کی طرف قدم بڑھائیں ۔ اسکول میں بڑی عمر کے طلبہ کو جمع کر کے مطالعہ کے فوائد گنوائیں اور ان کی ایسی ذہن سازی کریں کے بچے مطالعہ کے لئے خوشی خوشی تیار ہو جائیں ۔ مطالعہ کی اہمیت پر عام لوگوں کے درمیان ماہرینِ مطالعہ کے لیکچر کروائیں ۔ اس کام میں مزید بہتری کے لئے اسکول لیول پر بچوں میں ایک مہم چلائیں جسے عنوان دیں " مطالعہ کرو انعام پاؤ " ۔ ۔ ۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے انعام کی چاہ میں بچے ہر وہ کام کر گزرتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو ۔ بچوں کے ذوق، دلچسی اور عمر کے لحاظ سے کتاب کا انتخاب کر کے اسکولوں میں اعلان کروائیں کہ فلاں فلاں کتاب آپ کے لئے مطالعہ کے لئے دی گئی ہے اگلے پندرہ دن کے بعد اس کے امتحان ہوں گے امتحان معروضی طرز پر ہو گے یعنی ایک سوال کے چار متبادل جوابات ہوں گے ۔ ۔ ۔ امتحان میں اول دوم اور سوم نمبر آنے والے طلباء کو انعام سے نوازا جائے گا اور ایک کتاب بطور ہدیہ دی جائے گی ۔ بقیہ جتنے بچے امتحان میں حصہ لیتے ہیں ان کو ڈیجیٹل سرٹیفیکٹ دی جائے گی ۔ اس طرح ہر پندرہ دن میں ایک مرتبہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ اردو تنظیموں کو چاہیے کے اس طرح کے کاموں کے لئے الگ سے ایک کمیٹی کی تشکیل دیں ۔ اردو اسکول والوں کو چاہیے کہ طلباء کے لئے روزانہ ایک گھنٹہ لائیبرری کی ایک کلاس کے نام سے مختص رکھیں جس میں طلبہ مطالعہ کر سکیں اس طرح دھیرے بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا ۔ کتابوں کو متعین کرتے وقت بچوں کی عمر اور دلچسپی کا دھیان رکھیں ۔ کالج میں پڑھنے والے بچوں کو واٹس ایپ گروپ کے ذریعہ جوڑ کر اسی طرح امتحانات کا انتظام کریں ۔ لڑکے اور لڑکیوں علیحدہ علیحدہ گروپ بنائیں تاکہ فتنہ کا خدشہ نہ رہے ۔ لڑکیوں کی گروپ ایڈمن کسی استانی کو کریں ۔ جب یہ چیزیں قابو میں آنا شروع ہو جائیں تو عام لوگوں میں یہ سلسلہ شروع کریں ۔ اردو اکادمیوں سے کتابوں کو بلک میں خریداری کریں ۔ اہلِ وطن یا ملت کے لوگ جو اردو سیکھنے کے خواہش مند ہیں ان کے لئے کلاسس کا نظم کیا جائے ۔ جہاں جہاں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے وہاں چھوٹی چھوٹی کتابیں رکھیں ۔ لوگوں کو ترغیب دلائیں کے اردو اخبارات خریدیں ۔ "ہر گھر اردو اخبار کی مہم چلائیں" ۔ لوگوں کا ذہن بنائیں کے کتابوں اور اردو اخبارات کے لئے رقم خرچ کریں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم سب کے پیٹ ہزاروں مرغیوں اور بکروں کا قبرستان ہے ہم نے ہزاروں روپئے اس پر خرچ کئے مگر نہ کئے تو کتابیں اور اخبارات خریدنے کے لئے نہیں کئے ۔ یہ صرف مطالعہ کے عنوان سے اردو تنظیموں کے کام ہیں اس کے علاوہ بیسیوں کام ایسے ہیں جو اردو تنظیمیں کر سکتی ہیں ۔ 


گھروں کے ماحول کو کیسے بدلا جائے ؟

گھر کے سربراہ کو چاہیے کہ گھر میں مطالعہ کے ماحول کو پیدا کرے اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ بذات خود کو مطالعہ کا عادی بنائے جس کے ذریعے گھر کے دیگر افراد بھی اس طرف توجہ دیں گے ۔ خاص طور سے گھر کے چھوٹے بچے آپ کی اس عادت سے جلدی اثر قبول کریں گے ۔ بچوں کی عمر ان کی ذہنیت اور ان کی دلچسپی کے مطابق کتابیں منگوا کر رکھیں تاکہ وہ جب چاہیں آسانی سے پڑھ سکیں ۔ کتابوں کے مکمل مطالعہ کے بعد بچوں کو اپنے طور پر کچھ انعام بھی دیں ۔ 


ہر مسجد کے احاطے میں لائبریری کا قیام کریں : 

مسجدوں کے ممبران کو چاہیے کہ مسجد کے احاتے میں چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ایک لائبریری بنائیں جہاں اردو اخبارات اور چھوٹے موٹی کتابیں مہیا کریں جس سے لوگوں میں پڑھنے کا ذوق اور شوق پیدا ہوا ۔ 


گاؤں میں لوگوں کے کثرت سے بیٹھنے کی جگہوں پر اردو اخبارات کا انتظام کریں : 

عام طور پر گاؤں کے ماحول میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بڑے برگد کے گھنے سائے کے تلے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اگر ان کے آس پاس الگ الگ اخبارات رکھے جائیں تو عین ممکن ہے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ اور بھی ایسے کئی طرح کے کام ہیں جس کے ذریعے سے موجودہ دور میں لوگوں کے درمیان مطالعے کے ذوق اور شوق کو ابھارا جا سکتا ہے ۔

Wednesday, 28 May 2025

Thursday, 22 May 2025


گُم شُدَہ مُسَوَّدَہ






برسوں سے میں اپنی پشتینی کِرانے کی دکان چلا رہا ہوں کئی طرح کے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ انہی ملنے والوں میں اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار شکیل عباس صاحب بھی ہیں ادھیڑ عمر، چھوٹا قد ، دبلے پتلے، ہاتھوں میں ہمیشہ سلگتی سیگریٹ دس باتوں میں سے پانچ باتیں کھانستے ہوئے کہنا ۔ ۔ ۔ اور وقفے وقفے سے بلغم تھوکتے رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ۔ ۔ ۔ احمد میاں کسی زمانے میں ہم نے خون جگر ایک کر کے 25 لاجواب افسانے تخلیق کئے تھے ۔ ۔ اسے کتابی شکل دینے کا ارادہ بھی تھا مگر معلوم نہیں وہ مسودہ کہاں غائب ہو گیا ۔ ۔ ۔ کبھی لگتا ہے کسی صاحب نے پڑھنے کے بہانے لے لئے ۔ ۔ ۔ اور کبھی لگتا ہے کہ میں ہی کہیں رکھ کر بھول گیا ۔ ۔ ۔ اے کاش اگر وہ مسودہ مل جاتا تو مرنے سے پہلے ان افسانوں کو کتابی شکل میں شائع کر کے سکون کی موت مرتا ۔ ۔ ۔ میں نے شکیل عباس صاحب کو مشورہ دیا کہ پہلے اپنی ذاتی کتابوں کی الماری میں ڈھونڈیں اگر نہ ملے تو اپنے پرانے ملنے والوں کو کال کر کے پوچھ لیں، ممکن ہے مل جائے ۔ ۔ انہوں نے حامی بھر لی ۔ ۔ ۔ اگلے دن صبح سویرے گھر کے صحن میں اپنی پھٹی پرانی بوسیدہ ڈائری لے کر بیٹھ گئے اور باری باری سے کال کرتے گئے اپنا تعارف کروا کر 25 افسانوں کے مسودے کے متعلق پوچھتے ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی کہتا رانگ نمبر، کوئی کہتا معلوم نہیں، کوئی ایسا بھی تھا جو عباس صاحب کو پہچان کر بھی پہچاننے سے انکار کرتا ۔ ۔ ۔ خیر اس طرح یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا ۔ ۔ مگر کسی ایک سے بھی مسودے کی کوئی خبر نہ ملی ۔ ۔ ۔ دن گزرتے گئے مہینے برسوں میں تبدیل ہو گئے ۔ ۔ ۔ شکیل عباس صاحب پر بیماری غربت کے کالے بادل منڈلانے لگے ۔ ۔ نوجوان بیٹا بھری جوانی میں فوت ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ کئی کئی مہینوں تک اُن کی کوئی خبر تک نہیں آتی تھی ۔ ۔ میں بھی دکانداری میں ایسا پھنس گیا جیسے دلدل میں گدھا ۔ ۔ ایک دن میں اپنی کِرانے کی دکان پر تھا کہ خبر موصول ہوئی کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار شکیل عباس صاحب انتقال کر گئے ۔ ۔ ۔ میں نے ایک سرد آہ بھری ۔ ۔ ۔ اور دکان بند کرنے کی تیاری کرنے لگا ۔ ۔ ۔ اچانک میری نظر ردی کے ایک بنڈل پر پڑی جس کے ایک صفحے پر بڑے حرفوں میں لکھا تھا ۔ ۔ ۔ " افسانہ نمبر 25 راکھ شکیل عباس " ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے جلدی سے نوکر کو بلایا اور پوچھا یہ ردی کہاں سے آئی ہے اس کے بقیہ صفحات کہاں ہیں ۔ ۔ ۔ نوکر کہنے لگا مالک اس ردی کو آئے ہوئے کئی ہفتے گزر چکے ہیں ۔ ۔ یہ ردی شکیل عباس صاحب کا پوتا لایا تھا ۔ ۔ کہہ رہا تھا دادا جی کی طبیعت بہت خراب ہے ۔ ۔ ۔ دوائی کے لئے پیسے چاہیے آپ اُس وقت دکان پر نہیں تھے چھوٹے مالک تھے انہوں نے زیادہ روپیے دے کر ردی خرید لی ۔ ۔ ۔ اور اس بنڈل کے دوسرے کاغذات کو تو ہم کئی روز سے باندھ باندھ کر بیچ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ میں نے دل میں سوچا اے کاش شکیل عباس صاحب گم شدہ مسودے کی تلاش اپنے گھر سے ہی کرتے تو اچھا ہوتا ۔ ۔ ۔ 
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری 
بلگام کرناٹک انڈیا
8105493349

Thursday, 28 November 2024

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

 

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری

کروشی بلگام کرناٹک

8105493349

 

اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا ہے ۔ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو عقل اور شعور کے ساتھ کام کرتے ہوئے پیدائش سے لے کر موت تک کی زندگی بہ حسن خوبی بسر کرتا ہے ۔ دیگر جانوروں کے مقابلے میں انسان ہی تو ہے جو ہر دن نت نئی ایجادات کر کے دنیا میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔انسان کو کھیلوں سے فطری طور پر دلچسپی رہی ہے خواہ وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو ہر انسان اپنی اپنی طبیعت دلچسپی کی بنیاد پر کھیل کھیلتے آ رہے ہیں ۔ مگر آج کے اس ترقی یافتہ موبائیل کے دور میں خاص طور پر بچوں کی زندگی سے وہ سارے کھیل دور ہو گئے ہیں جو سن 1990 یا اس سے پہلے کے لوگ کھیلا کرتے تھے ۔ آج ہم انہی بھولے بسرے کھیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ۔

 

  گلی ڈنڈا  : ان کھیلوں میں سرِ فہرست کھیل گلی ڈنڈا ہے جو تقریبا موجودہ دور میں متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں دو ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جس کا ہر کھلاڑی باری باری کھیلتا ہے اگر پہلی ٹیم کے کھلاڑی کے ذریعے ہوا میں اڑتی ہوئی گلی کو دوسری ٹیم کا کھلاڑی کرکٹ کی گیند کی طرح کیچ کر کے پکڑ لیتا ہے تو یہ کھلاڑی آؤٹ قرار دیا جاتا ہے ڈنڈے سے گلی مارنے کے مخصوص نام ہوتے ہیں ۔ پاؤ، چٹی ،مٹھی ،گھوڑا ،پُوک ،ڈولا ،جِل ۔ ۔ ۔ اس کھیل کے ذریعے پہلی ٹیم کا کھلاڑی دور تک گلی کو مارتا اور ایک اندازے سے بتاتا کہ گلی کے گرنے کی جگہ اور جہاں سے گلی کو مارا گیا ہے وہاں تک کی جگہ کا اندازہ لگا کر ایک عدد بتاتا ہے جیسے 500 یا ہزار اگر سامنے والی ٹیم کو لگتا کہ اس کی بتائی ہوئی عدد کم ہے تو اس کو گِنا جاتا اس طرح اس کھیل کے ذریعے بچے علم ریاضی کے فن میں ماہر ہو جاتے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا ڈسٹنس کا اندازہ ہو جاتا ۔ اس طرح یہی بچے بڑے ہو کر زندگی کے دیگر شعبے میں اپنی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر اندازے لگانے میں ماہر ہو جاتے ۔


 

2- گھوٹی یا کنچے : بچپن کے دور کا ایک اہم کھیل گھوٹی تھا جس میں کانچ کی بنی ہوئی گوٹیاں ہوتی تھیں زمین میں ایک چھوٹا سا گڑا کھود کر کھیلا جاتا تھا اسے کئی ایک لاکھ طریقوں سے کھیلا جاتا تھا اس کھیل کے ذریعے گوٹیوں کو گنتے گنتے بچہ جمع اور تفریق کے حساب میں ماہر ہو جاتا اور ساتھ ہی ساتھ نشانہ لگانے میں ماہر بن جاتا ۔ اس دور میں جس کے پاس جتنی زیادہ گوٹیاں ہوتیں وہی امیر قرار دیا جاتا تھا مگر یوں بھی ہوتا تھا کہ آج جس کے پاس زیادہ گوٹیاں ہوں کل اسے وہ ہار بھی جاتا تھا ۔ اور پھر سے محنت کر کے از سرِ نو اپنی ہاری ہوئی ساری گھوٹیاں دوبارہ حاصل کر لیتا یہ سلسلہ چلتا رہتا اس طرح بچوں میں ہارنے کے بعد پھر سے کھڑے ہونے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا اسی وجہ سے یہی بچہ جب بڑا ہوتا کسی کام میں ناکام ہونے کے بعد ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا تھا بلکہ حالات کا مقابلہ ہمت سے کرتا ۔


 

3۔ جِگ جِگ گھوڑا : یہ کھیل عام طور پر 10 سے 12 بچے مل کر کھیلا کرتے تھے جس کی باری ہوتی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں سے لگا کر جھک جاتا تھا ۔ باری باری سارے کھلاڑی اس کے اوپر سے چھلانگ لگاتے جب سارے کھلاڑی چھلانگ لگانے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ دھیرے دھیرے اپنے قد کو اونچا کرتا اس طرح بچوں میں ڈفیکلٹی لیول کو ہمت سے پورا کرنے کا حوصلہ ملتا اور بچوں کی جسمانی ورزش ہو جاتی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ بچے اے بی جاننے لگتے کہ زندگی تھوڑی تھوڑی دھیرے دھیرے مشکل سے مشکل ہوتی جاتی ہے اس کھیل کے ذریعے سے وہ زندگی کا ایک بہت بڑا سبق سیکھ لیتے ۔ 


 

  چور پولیس : دو ٹیموں پر مشتمل یہ کھیل کھیلا جاتا جس میں سے ایک چوروں کی ٹولی ہوتی اور دوسری پولیس کی ٹیم ہوتی اس کھیل کے ذریعے بچے سارا گاؤں گھوم لیتے اور گلی کے ہر نکڑ سے واقف ہوتے ۔ پولیس کی ٹیم آخر کار ان کو پکڑ ہی لیتی اور جو بچے چور بنے ہوتے انہیں فطری طور پر احساس ہو جاتا کہ ہماری اصل زندگی میں بھی اگر ہم چور بنیں گے تو کبھی نہ کبھی پکڑے ہی جائیں گے اس طرح بچے بچپن ہی سے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہوتے جاتے ۔

  




5۔ چھپا چھپی : عام طور پر یہ کھیل سردیوں کے دنوں میں رات کی تاریکی میں کھیلا جاتا تھا جس کی باری اتی وہ کسی دیوار میں اپنا منہ چھپا کر 10 سے لے کر 100 تک گنتی کرتا تب تک وہ اس کے ساتھی دوست کہیں چھپ جاتے اور وہ ساتھی دوستوں کے ناموں کو پکار پکار کر آؤٹ کر دیتا بعض مرتبہ اس کے ساتھی چال بدل بدل کر اسے قریب آتے مگر وہ ہر بار پہچان لیتا ۔

 


6۔ پیڑ بندر : اس کھیل میں 10 سے 12 بچے ہوا کرتے تھے اس میں ایک لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو کوئی کھلاڑی دور پھینک دیتا دوسرا کھلاڑی لکڑی کے ٹکڑے کو لانے کے لیے دوڑتا تب تک سارے کھلاڑی پیڑ پر چڑھ جاتے ۔ جو کھلاڑی لکڑی لانے کے لیے گیا تھا وہ پیڑ کے نیچے ایک چھوٹا سا دائرہ بنا کر اس میں لکڑی کو رکھ دیتا اور خود اوپر چڑھنے لگتا تاکہ وہ اپنے کسی ایک ساتھی کو آؤٹ کرے ۔ خود کو اؤٹ ہونے سے بچانے کے لیے بعض کھلاڑی اوپر سے نیچے کی جانب چھلانگ لگا دائرے میں رکھی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے کو چھو لیتے ۔ اس طرح دوبارہ اسی کھلاڑی کا نمبر آتا ۔ بعض مرتبہ بچوں کے پاؤں میں موج بھی آتی ۔ درد کی جگہ پر سفید ہاڑ مٹی گیلی کرکے چولہے پر سینکا جاتا ۔ ۔


 

7۔ چیل گھوڑا : یہ کھیل بھی اب مکمل طور پر متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں عام طور پر ایک ٹیم میں چھ سے سات کھلاڑی ہوتے تھے اس میں پہلا کھلاڑی دیوار کو ہاتھ لگا کر جھک جاتا تھا اس کے پیچھے بقیہ کھلاڑی ایک دوسرے کی کمر کو پکڑ کر ایک لمبا ریل جیسا ڈبہ بنا لیتے تھے ۔ دوسرے ٹیم کی کھلاڑی دور سے دوڑتے ہوئے آ کر چھلانگ لگا کر کوششیں کرتے تھے کہ پہلے کھلاڑی کی پیٹھ پر سوار ہو جائے ۔ اس طرح بقیہ کھلاڑی بھی دوڑ کر ان سارے کھلاڑیوں کے پیٹھ پر یکے بعد دیگرے سوار ہو جاتے ۔ جو کھلاڑی گھوڑا بنے ہوئے ہیں اگر وہ وزن کا بار نہ سہ سکے تو دوبارہ اسی طریقے ست کودا جاتا اور اگر چیل کی طرح اتے ہوئے کھلاڑی نیچے گر جاتے ہیں تو ان کی باری آ جاتی ہے ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہا تھا اس کھیل کے ذریعے اجتماعی طور پر کسی کام کے کرنے کا حوصلہ ملتا جذبہ ملتا اور یہی وہ کھیل ہے جو آگے چل کر ایک جماعت کی شکل بن کر اجتماعی طور پر نئے نئے انقلابات لاتا ۔ ۔ 


 

8۔کنویں میں پکڑم پکڑی : بچپن میں سب سے پہلے بچوں کو چھ سال کی عمر کے بعد جو چیز پہلے سکھائی جاتی تھی وہ کنویں میں تیرنا تھا ۔ جو بچے تیراکی میں ماہر ہو جاتے تو وہ ایک نیا کھیل اس کنویں میں کھیلا کرتے ۔ کھلاڑیوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے نہ جانے دینا یہی کھیل کا اہم جز تھا ۔ اس طرح مسلسل بچے اس میں مشق کرتے رہتے ہیں ۔ بعض مرتبہ پلاسٹک کی تھیلی میں پتھر ڈال کر کنویں میں پھینک دیتے ۔ اور بچے اسے کنویں کی گہرائی سے لے کر آنے کے لیے بیک وقت کود جاتے جو سب سے تیز ترار ہوتا وہی اس پتھر کو دوبارہ لے کر آتا ۔

 


9۔ لکڑی پتھر : اس کھیل میں عام طور پر تین سے ساڑھے تین فٹ کی ایک مضبوط لکڑی ہوتی ۔ جس کی باری ہوتی اس کی لکڑی کو یہ لوگ اپنی لکڑی کے نوک سے دور تک پھینکتے اور دوڑتے ہوئے وہاں تک جاتے اگر بالفرض اس دوڑ کے اندر اس پہلے کھلاڑی نے کسی کو اوٹ کر دیا تو باری اس کی آ جاتی ۔ ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ دور دور تک پھیلے کھیتوں وغیرہ میں چلتا رہتا واپسی میں جن جن کھلاڑیوں کی باری آئی تھی ان کو لنگڑاتے ہوئے چلنا پڑتا اور بعض مرتبہ تھوڑی دیر لنگڑاتے چلنے کے بعد جو ساتھی ہوتے اسے معاف کرتے سارے بچے ہنسی خوشی گھر لوٹ آتے ۔ ۔

 


10۔ کاغذ کی کشتی : یہ کھیل عام طور پر بارش کے دنوں میں کھیلا جاتا جب زوردار بارش گر کر تھم جاتی تو فورا اپنے اپنے گھروں سے بچے نکلتے اور چھوٹی سی کاغذ کی کشتی بنا کر اسے پانی میں ڈالتے اور اس کی پیچھے مسلسل دوڑنے لگتے اس طرح بچوں کی ایک جسمانی ورزش ہو جاتی  ۔

 


11۔ کیل مٹی : یہ کھیل بھی عام طور پر بارش کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا جس میں بچے لوہے کی ایک نوکی لی کل سے زمین میں ایک دائرہ بناتے اور اسی دائرے کے درمیان اپنی کیل سے زور سے کیل گاڑنے کی کوشش کرتے جس کا کل گر جاتا وہ کھیل سے باہر ہوتا ۔ ۔

 


12۔ منڈوے کے کھمبے : عام طور پر یہ کھیل شادی بیاہ کے موقعوں پر بچے چار کھمبوں کو پکڑ کر کھیلا کرتے تھے جس میں ہر ایک بچہ ایک ایک کھمبے کو پکڑتا اور بیچ میں ایک بچہ ایسا ہوتا جو دیگر کھلاڑیوں کو ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے کی طرف جانے سے روکتا اس طرح بچے بڑے مزے سے کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ۔

 

اس کے علاوہ بیسیوں کھیل ایسے ہیں جسے آج کے موبائیل کے دور کا بچہ بھولتا جا رہا ہے۔۔


Monday, 25 November 2024

کروشی پٹیل برادری کا میراثی بلگام کرناٹک



 
کروشی پٹیل برادری کا میراثی

بلگام کرناٹک



میراثی ہندوستان کی ایک مشہور قوم ہے جو غیر منقسم ہندوستان اور بعد از تقسیم ہند و پاک میں جابجا آباد ہے۔ میراثی قوم پیشہ ورانہ طور پر انساب کی ماہر، ڈوم اور رقاص ہوتی ہے۔ اس قوم کے افراد اپنے اہل تعلق کے خاندانوں کے شجرہ ہائے نسب یاد کرنے اور یاد رکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، چنانچہ برصغیر میں کسی خاندان کا نسب معلوم کرنا ہو تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، نیز شادی بیاہ کی تقریبات اور ناچ رنگ کی محفلوں میں بھی انہیں بلایا جاتا ہے جہاں یہ اپنے فن نغمہ سرائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لفظ "میراثی" اردو لفظ میراث سے مشتق ہے جس کے معنی وراثت کے ہیں۔ ویکی پیڈیا
کروشی پٹیل برادری کے اس بوڑھے میراثی کی عمر 82 برس ہے ہر سال نومبر سے ڈسمبر کے مہینے عین فصلوں کی کٹائی کے وقت یہ گاؤں آتا ہے ۔ اگر گھر میں کسی بچے کی پیدائش ہوئی ہو تو اس کے نام کا اندراج اپنی مخصوص ڈائری میں کرتا ہے اور اول تا آخر ہمارا مکمل نسب سناتا ہے ۔ اس طرح ہمارے آبا و اجداد کی یاد ہمارے ذہنوں میں پھر سے تازہ کر کے کھیتوں میں فصل کی صورت میں جو موجود ہو وہ اناج اور رقم لیتا ہے ۔ زمانہ قدیم سے ان کا ایک اور کام یہ بھی رہا ہے کہ الگ الگ گاؤں کے پٹیل برادری کی آپسی رشتے کروانا ۔ اس طرح تقریبا 50 سے زائد گاؤں کے پٹیل ، دیسائی اور انعامدار کے علاوہ دیگر برادری کے درمیان یہ میراثی برادری ایک پُل کا کام کرتی آ رہی ہے ۔ ۔ ۔ اس بوڑھے کی 18 پشت ہے جو اس کام کو کر رہی ہے ۔ ۔ یہ لوگ بنجاروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ان کی پوری برادری الگ الگ علاقوں میں بستی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس بوڑھے کے ذریعے آپ کے نسب کی بھی کچھ نہ کچھ معلومات مل جائے ۔ ۔ 
میراثیوں کے کچھ خاندان ہندوؤں میں نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے، پھر وہ مسلمان ہو گئے۔ جبکہ کچھ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ اصلاً وہ ہندوؤں کی چارن برادری سے تھے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ان خاندانوں نے اس وقت کے مشہور صوفی شاعر امیر خسرو کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ شمالی ہندوستان کے میراثی پانچ ذیلی گروپوں میں منقسم ہیں: ابل، پوسلا، بیت کٹو اور کالیٹ۔ان کے رسم و رواج انساب کی ماہر ایک دوسری برادری مسلمان رائے بھٹ سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ میراثی قوم ہی کی ایک برادری پنواڑیا کہلاتی ہے جو اصلاً داستان گو تھی لیکن انھیں گویوں اور بھانڈ کی حیثیث سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔
نغمہ سرائی کے دوران میں میراثی قوم پکھواج کا استعمال کرتی ہے، اس بنا پر ان کو پکھواجی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قوم اپنے متعلقین کے انساب کو حفظ کرنے اور انھیں سینہ بسینہ منتقل کرنے میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔ اسی بنا پر شادی بیاہ کے معاملات میں ان سے خاص مدد لی جاتی ہے۔ ماہر انساب کی حیثیت سے میراثی قوم "نسب خواں" کے لقب سے بھی معروف ہے۔اس قوم کے افراد شمالی ہندوستان میں ہر جگہ آباد ہیں۔ روایتی طور پر وہ شادی بیاہ کی تقریبات وغیرہ میں لوک گیت گاتے ہیں۔ اس قوم کی کچھ برادریاں کاغذی پھول کی صنعت سے بھی وابستہ ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ان کی خوب پزیرائی ہوتی ہے اس لیے وہاں ان کی کثیر آبادی ہے۔ تاہم کچھ برسوں سے بہت سے میراثی پنجاب سے ہجرت کرکے راجستھان، بہار، گجرات، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں جا بسے ہیں۔ویکی پیڈیا
اگر آپ بھی اپنے خاندانی حالات جاننا چاہتے ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں میں اس بوڑھے کے ذریعے سے آپ کے علاقے میں موجود میراثی کا پتا بتا سکتا ہوں ۔ ۔ شرط یہ کہ اس طرح کی میراثی برادری آپ کے مکان پر پہلے آئی ہوئی ہو ۔ ۔ 
آفتاب عالم دستگیر پٹیل
کروشی ، بلگام (کرناٹک) 
8105493349

آفتاب عالم شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کی شاعری کا روایتی حسن سراج زیبائی  شیموگہ کرناٹک  8296694020 کہتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال علم پر منحصر ہوتا  ہے ا...