Tuesday, 26 February 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 11
علاؤالدین خلجی 1296 سے 1315

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349



علاؤالدین خلجی جلال الدین خلجی کا بھتیجا اور داماد تھا وہ بڑا چالاک شخص تھا اپنے چچا جلال الدین کو قتل کر کے تخت پر بیٹھا دہلی میں پہنچ کر اس نے اپنی فوج اور عام لوگوں میں دل کھول کر روپیہ تقسیم کیا تاکہ وہ اس کے چچا کے قتل کو بھول جائیں اس نے بیس سال حکومت کی وہ ایک قابل اور زبردست بادشاہ ثابت ہوا وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے دکن کو فتح کیا۔۔

فتوحات

علاؤالدین نے تخت نشین ہوتے ہی اپنی سلطنت کو وسیع کرنا شروع کیا اس کے فتوحات حسب ذیل ہیں

گجرات

1290 میں علاؤالدین کے جرنیل الف خان نے گجرات پر حملہ کیا وہاں کا راجہ کرن بھاگ نکلا گجرات فتح ہوا اور راجہ کرن کی بیوی کملا دیوی دہلی میں لائی گئی جہاں اس کی شادی علاوالدین سے ہوگء اس حملہ میں شہر کھمبایت سے شاہی فوجوں کو ایک ہندو غلام ہاتھ آیا جس کا نام ملک کافور تھا اس نے اپنی قابلیت سے اتنی ترقی کی کے بادشاہ کا سپاہ سالار بن گیا اور بعد میں اس نے بادشاہ کے لیے دکن کو فتح کیا۔۔

رنتھمبور
1300 میں علاؤالدین نے رنتھمبور کے قلعہ کو فتح کیا۔۔

چتوڑ

1301 میں علاؤالدین نے راجہ بھیم سین والئے چتوڑ کی خوبصورت رانی پدمنی کو حاصل کرنے کے لئے چتوڑ پر حملہ کیا راجہ اور بہادر راجپوتوں نے بڑی بہادری دکھلائی اس لیے علاؤالدین کامیاب نہ ہوا دو برس بعد 1303 میں علاوالدین نے پھر ایک زبردست فوج کے ساتھ چتوڑ پر حملہ کیا راجپوت بڑی بہادری سے لڑے مگر ہار گئے رانی پدمنی دیگر راجپوت عورتوں کے ساتھ چتا میں بیٹھ کر زندہ جل گئی

جیسلمیر، مالوہ، چندیری

1303 میں علاؤالدین نے آٹھ مہینہ کے محاصرے کے بعد جیسلمیر کا قلعہ فتح کیا یہاں بھی راجپوتوں نے بہادری دکھائی اور ہزاروں راجپوت لڑائی میں مارے گئے پھر اس نے مالوہ اور چندیری کی راجپوت ریاستوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔۔

دکن کی فتح

1306 سے 1311 شمالی ہند کی فتح کے بعد علاؤالدین نے اپنے سپاہ سالار ملک کافور کو دکن کی فتح کے لیے روانہ کیا اس نے 1307 میں دیوگری پر حملہ کرکے اسے فتح کیا اس لڑائی میں کملا دیوی کی لڑکی دیول دیوی ماں کی خواہش کے مطابق دہلی پہنچائی گئی جہاں اس کی شادی علاؤالدین کے بیٹے خضر خان سے کردی گئی اس کے بعد ملک کافور نے 1310 وارنگل اور 1311 میں دوارسمدراور کی ریاستوں کو فتح کیا اور بے شمار دولت ہاتھی گھوڑے لے کر دہلی واپس لوٹا ان فتوحات سے علاوالدین کی سلطنت پھیل گئی۔

مغلوں کے حملے

علاؤالدین کے عہد میں مغلوں نے ہند پر پانچ دفعہ حملے کئے اور پانچوں مرتبہ پسپا ہوئے آخری دفعہ کوئی دو لاکھ مغل دہلی تک آ پہنچے لیکن علاؤالدین نے انہیں ایسی شکست دی کہ پھر انھوں نے اس کے عہد میں کبھی حملہ نہ کیا۔۔

علاؤالدین کی پالیسی اور نظام سلطنت

جنگی پالیسی

علاؤالدین کی جنگی پالیسی کا مقصد ملک کو مغلوں کے حملوں سے بچانا اور تمام ہندوستان کو فتح کرنا تھا اس مقصد کے لیے اس نے ایک زبردست مستقل فوج تیار کی نئے نئے قلعے تعمیر کرائے پرانے قلعوں کی مرمت بھی کرائی گئی فوجی قواعد بنائے اور گھوڑوں کو داغ دینے کا طریقہ جاری کیا جاگیرداروں اور سرداروں کو باقاعدہ فوج رکھنے کا حکم دیا سپاہیوں کی تنخواہیں مقرر کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جنگی پالیسی سے اس کے عظیم الشان سلطنت تمام ہندوستان پر پھیل گئی اور مغلوں کی روک تھام بھی ہوگی۔۔

اندرونی پالیسی

علاؤالدین کے عہد حکومت کے شروع میں بہت سی بغاوتیں ہوئیں اور مغلوں نے بھی کئی حملے کیے اس کی پالیسی کا مقصد ملک کو ان حملوں اور بغاوتوں سے محفوظ رکھنا اور سلطنت میں امن قائم کرنا تھا اس لیے اس نے مندرجہ ذیل طریقے سوچے

اس نے شراب پینا اور بیچنا قانوناً منع کردیا۔

اس نے بڑے بڑے امیروں کی آزادی چھین لی وہ بادشاہ کی منظوری کے بغیر آپس میں رشتے ناطے نہیں کر سکتے تھے اور نہ دعوت دے سکتے تھے اس طرح سازشوں کا خاتمہ ہو گیا۔

اس نے مکانات اور مال مویشی پر ٹیکس لگائے تاکہ سرکاری آمدنی بڑی

اس نے مالیہ جنس کی صورت میں وصول کیے جانے کا حکم دیا اور ملک میں اناج سستا رکھنے کے لیے دلی میں اناج کے ذخیرے کے گودام بنوائے۔۔

اس نے ملک بھر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے ایک زبردست جاسوسی محکمہ جاری کیا جو ہر بات کی اطلاع بادشاہ کو پہنچاتے تھے اس انتظام سے بڑے بڑے وزیر امیر گھروں کے اندر بھی معمولی بات چیت کرتے ہوئے ڈرتے تھے

اس نے ہر چیز کا نرخ اور تول کے بٹے مقرر کیے اور افسر تعینات کیے جن کا کام ان میں کمی بیشی کرنے والوں کو سزا دینا تھا

اس نے شاہی خزانہ بھرنے کے غرض سے بہت سے امیروں اور وزیروں سے جائدادیں چھین لی جاگیر ضبط کر لی اور وظیفے بند کردیئے

علاؤالدین کا چال چلن

علاؤالدین خلجی بہادر سالار اور اعلی درجہ کا منتظم بادشاہ تھا خود ان پڑھ تھا مگر علماء کا بڑا قدر دان تھا انتظام سلطنت میں کسی اصول کا پابند نہ تھا بلکہ اپنی ضرورت کو ہی قانون سمجھتا تھا وہ قدرے ضدی بھی تھا۔ وہ تجربہ کار جرنیل اور فنون جنگ میں ماہر تھا اپنی بہادری قابلیت اور زبردست فتوحات کی وجہ سے وہ ہندوستان کے بڑے بادشاہوں میں گنا جاتا ہے

ملک کافور

ملک کافور دراصل ہندو غلام تھا جو علاؤالدین کوفتح گجرات کے وقت شہر کھمبایت سے ہاتھ آیا تھا وہ بعد میں مسلمان ہو گیا اس نے اپنی خداداد لیاقت کی وجہ سے بہت ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے علاوالدین خلجی کا سپہ سالار بن گیا علاوالدین کے عہد میں دکن کی فتوحات اس کی بہادری کا نتیجہ تھی اس نے سب سے پہلے ماراشٹر کو فتح کیا پھر دیوگری پر دوبارہ حملہ کرکے 1305 میں راجہ رام دیو کو شکست دی اور کملا دیوی کے خواہش کے مطابق اس کی لڑکی دیول دیوی کو اس کے پاس پہنچا دیا 1309 میں اس نے وارنگل کو فتح کیا اور 1311 میں عین جنوب کے تامل ریاستوں کو فتح کرکے راس کماری تک پہنچا جہاں اس نے فتح کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور بے شمار دولت لے کر واپس دہلی آ پہنچا

علاؤالدین کا انتقال

گجرات کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بادشاہ نے ملک نائب کی رائے سے سید کمال الدین کرک کو روانہ کیا لیکن الغ خان کی حمایت و اور طرفداروں نے کمال الدین کو پکڑ کر بڑی بری طرح موت کے گھاٹ چتور کے حاکم نے بھی بغاوت کی اور شاہی ملازموں کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر انہیں قلعے سے نیچے پھینک دیا دکن میں ہرپال دیو نے جو رام دیو کا داماد تھا ہنگامہ کھڑا کیا اور بہت سے شاہی تھانوں کو تباہ و برباد کردیا علاؤالدین ان خبروں کو سن سن کر دل ہی دل میں بل کھا کر رہ جاتا غم و الم کی اس فضا میں اس کی صحت کی دیوار گرتی ہی چلی گئی اور آخرکار 6 شوال 716 ہجری کی رات کو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی بے شمار زروجواہر اور دولت جو محمود غزنوی کو بھی میسر نہ ہوئی اور جسے علاؤالدین نے بڑی محنت سے جمع کیا تھا دوسروں کے لئے چھوڑ گیا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بادشاہ کی موت زہر خورانی سے ہوئی تھی ملک نائب نے اسے زہر دیا تھا واللہ اعلم بالصواب تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 278

خاندان خلجی کا خاتمہ

ملک کافور کے قتل کے بعد امرای سلطنت نے شہزادہ مبارک کو تخت پر بٹھایا۔ مبارک خاندان خلجی کا بڑا منحوس اور نالائق بادشاہ تھا اس لیے ملک میں بدنظمی پھیل گئی وہ بڑا عیاش پسند تھا اس لئے اس اس نے سلطنت کا تمام کام اپنے ایک منظور نظر غلام خسرو خان کو سونپ کر اسے وزیراعظم مقرر کردیا۔ خوبصورت خان نے بادشاہ مبارک کو 1318 میں قتل کردیا اور خود ناصر الدین کے لقب سے بادشاہت کرنے لگا آخر لوگوں نے تنگ آکر غیاث الدین تغلق حاکم پنجاب کو دہلی پر حملہ کرنے کے لئے بلایا اس نے ناصرالدین کو قتل کرکے خلجی خاندان کا خاتمہ کردیا


Tuesday, 19 February 2019


محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 10
جلال الدین فیروز شاہ خلجی 1290 سے 1296

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

جلال الدین خاندانی خلجی کا بانی تھا وہ ستر سال کی عمر میں کیقباد کو قتل کرکے دہلی کے تخت پر بیٹھا وہ بڑا کابل جرنیل اور دلیر بادشاہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا ۔ اس لئے اس کے عہد میں بغاوتیں ہونےلگیں اس کے عہد میں مغلوں نے بھی ہندوستان پر کئی حملے کیے لیکن جلال الدین نے انہیں شکست دی اس کے عہد میں کچھ مغل دہلی کے قریب ہی آباد ہو گئے اور انہوں نے مغلپورہ نام کی 
بستی بسائی جلال الدین نے مالوہ پر بھی حملہ کیا مگر ناکام رہا اس کے عہد کا سب سے مشہور واقعہ دکن کی مہم ہے ۔


شمار
نام سلاطین
عہدِ حکومت
1
13 جون 1290ء – 20 جولائی 1296ء
2
20 جولائی 1296ء – 4 جنوری 1316ء
3
5 جنوری 1316ء – 13 اپریل 1316ء
4
14 اپریل 1316ء – مئی 1320ء
5
مئی 1320ء – 8 ستمبر 1321ء

لفظ خلجی کی اصل

جب غوری فرمانرواؤں اور ان کے پروردہ غلاموں نے ہندوستان فتح کیا تو خلجیوں کے گروہ کے گروہ ہندوستان آکر شاہی ملازمتیں اختیار کرنے لگے ان خلجیوں میں سے بعض افراد نے بہت اقتدار اور رسوخ حاصل کیا اور شاہی امراء اور اراکین سلطنت کے معزز عہدوں تک پہنچے ۔ ان مقتدرامرائے خلجی میں سلطان جلال الدین فیروز شاہ اور سلطان محمود خلجی مندوی کے باپ بھی تھے ۔ متذکرہ بالا مورخ کا بیان ہے کہ کالج خان کی نسبت سے ان امراء کو عام طور پر قالجی کہا جاتا تھا کثرت استعمال سے الف گر گیا اور "ق"  کا "خ" سے تبادلہ ہو گیا اور یوں کالجی سے خلجی بن گیا ۔ لیکن تاریخی سلجوقیاں کے مصنف کی رائے اس سے مختلف ہے اس کا بیان ہے کہ ترک بن یافث کے 11 بیٹوں میں سے ایک کا نام خلج تھا خلجی اسی کی اولاد کو کہا جاتا ہے مورخ فرشتہ بھی اسی رائے کو تسلیم کرتا ہے اس لیے کہ اگر نظام الدین کے بیان کو مان لیا جائے تو پھر خلجیوں کا وجود چنگیزی احد کے بعد ثابت ہوتا ہے اور بالکل غلط ہے کیونکہ معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر ناصرالدین اور سلطان محمود غزنوی کے بہت سے امیر خلجی کہلاتے تھے اور ایک بات مسلم ہے کہ یہ دونوں حکمران چنگیز سے پہلے گزرے ہیں ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قالج خان خود بھی خلجی خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور سلطان جلال الدین دہلوی اور سلطان محمود مندوی اس کی نسل سے ہوں ۔ تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 218

جلال الدین کا قتل

جلال الدین خلجی کشتی میں بیٹھا ہوا کلام مجید کی تلاوت کرتا رہا عصر کے وقت کشتی کنارے سے لگے بادشاہ کشتی سے اترا علاوالدین نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور اپنا سر رکھ دیا جلال الدین نے پیار سے اس کے گال پر ایک ہلکی سی چپت ماری  اور بڑے لطف آمیز لہجے سے کہا میں نے تجھے پیار اور لاڈ سے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اپنے حقیقی بیٹوں سے زیادہ تجھے عزیز رکھا ہے تیرے بچپن کی بو اب تک میرے کپڑوں سے نہیں گئی پھر بھلا تیرے دل میں خیال کیسے پیدا ہوا کہ میں  تیرے خلاف ہوں اور تیرا برا چاہتا ہوں یہ کہہ کر بادشاہ نے علاوالدین کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے کر کشتی کی طرف روانہ ہوا علاوالدین نے اس موقع پر ان لوگوں کو اشارہ کیا جو بادشاہ کو قتل کرنے کے لئے متعین کئے گئے تھے سمانہ کے ایک ذلیل سپاہی نے جس کا نام محمود بن سالم تھا بادشاہ پر تلوار کا وار کیا بادشاہ زخم کھا کر کشتی کی طرف دوڑا اور کہا اے بدبخت علاوالدین تو نے کیا کیا ابھی جلال الدین کشتی تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اختیارالدین اس کی طرف لپکا اختیارالدین جو جلال الدین کا پروردہ نعمت تھا اس نے بادشاہ کو پچھاڑ کر اس کا سر کاٹ لیا اس وقت غروب آفتاب کا وقت تھا بادشاہ کا سر لے کر اختیار الدین علاء الدین کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ کے وہ ہمراہی جو کشتی میں بیٹھے تھے کہ ملک خرم وغیرہ انہیں بھی علاوالدین کے حواریوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 236

Friday, 15 February 2019

محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر 9
غیاث الدین بلبن 1266 ء سے1287 ء

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

غیاث الدین بلبن ناصر الدین کی وفات کے بعد ساٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا بلبن در اصل التمش کا ایک زرخرید غلام تھا ۔ اور اپنی بہادری اور وفاداری کی وجہ سے بادشاہ کے اعلی رتبہ تک جا پہنچا وہ بڑا بارعب بادشاہ تھا اور دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا تھا ۔
بلبن کے عہد میں بغاوتیں
 اس کے عہد میں میواتیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا بادشاہ نے اسے بڑی سختی سے فرو کیا بنگال کے صوبہ دار طغزل خان نے بادشاہ کو بوڑھا سمجھ کر خراج دینا بند کردیا اور بغاوت کا جھنڈا بلند کیا اس نے دو دفعہ شاہی فوجوں کو بھی شکست دی آخر بلبن خود فوج لے کر بنگال پر حملہ آور ہوا جہاں طغرل خان نے شکست کھائی اور قتل ہوا ۔ بلبن نے اس کے ساتھیوں کو قتل کروا دیا اور اپنے بیٹے بغرا خان کو گورنر بنگال مقرر کردیا
مغلوں کی روک تھام





بلبن کے عہد میں مغلوں نے ہندوستان پر کئی بار حملے کیے بادشاہ نے ان کی روک تھام کے لیے شمال مغربی سرحد پر کی مضبوط قلعے بنوا دیے اور ان میں مسلح فوج رکھ دی اور ان کی نگرانی کا کام اپنے بیٹے محمد شہید خان کے سپرد کیا محمد نے کئی بار شکست دے کر مغلوں کو واپس لوٹا دیا ۔ آخر 1285 ءمیں مغلوں سے لڑتا ہوا لڑائی میں مارا گیا بلبن کو اس کی موت کا اتنا صدمہ ہوا کہ وہ 1286 ءمیں اسی غم میں فوت ہو گیا ۔
بلبن کا دربار
بلبن کا دربار بڑی شان و شوکت والا تھا اس کے درباری قوانین بڑے سخت تھے دربار میں نہ تو خود کبھی ہنستا تھا اور نہ کسی دوسرے کو ہنسنے کی جرات ہوتی تھی کوئی سردار درباری لباس پہنے بنا اس کے دربار میں نا آسکتا تھا اس کے دربار میں کئی بادشاہ مغلوں سے بھاگ کر پناہ گزیں تھے بلبن بڑا علم دوست بادشاہ تھا اسی وجہ سے اس کے دربار میں عربی اور فارسی کے شاعر جمع رہتے تھے فارسی کے مشہور شاعر امیر خسرو دہلوی اس کے درباری شاعر تھے ۔

بلبن کا نظام سلطنت
بلبل بڑا کابل بادشاہ تھا اس نے مغلوں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے دہلی سے لے کر اپنی سلطنت کی سرحد تک کے تمام قلعوں کی مرمت کرائی اور کئی نئے قلعے تعمیر کروائے اس نے اپنی فوج کو اس سر نو ترتیب دی نکمے افسروں کو نکال کر بہادر وفادار سرداروں کو ملازم رکھا اس نے امراکی طاقت کو ختم کر دیا اور اپنی حکومت کو مضبوط کیا اس نے محکمہ انصاف قائم کیا جہاں بلا رد و رعایت تمام مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا تھا ۔ اس نے محکمہ جاسوسی کو بہت مضبوط کیا اس سے اپنے تمام سلطنت کے واقعات کی خبر ملتی رہتی تھی اس نے شراب پینا بند کردیا اور اخلاقی سختیوں کو بڑی سختی سے دبا دیا ۔

دستور جہانبانی

بلبن اپنے بیٹوں سے ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ سلطان شمس الدین التمش فرماتے تھے کہ میں نے معزالدین بنا بہاؤالدین سام کی محفل میں دو بار سید مبارک غزنوی سے سنا ہے کہ بادشاہوں کے اکثر افعال شرک کی حدود کو چھو لیتے ہیں اور بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتے ہیں لیکن وہ اس وقت اور بھی زیادہ گنہگار ہو جاتے ہیں جبکہ ان چار باتوں پر عمل نہیں کرتے اور چار باتیں یہ ہیں
بادشاہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنی شان و شوکت کے اور رعب و داب کو مناسب موقع پر استعمال کرے اور خدا ترسی اور خلق خدا کی بھلائی ہمیشہ اس کے پیش نظر رہے

بادشاہ کو ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے ملک میں بدکاری مروج نہ ہو فاسقوں اور بے غیرتوں کو ہمیشہ ذلیل اور رسوا کرنا چاہیے

امور سلطنت کو عقلمند اور مہذب لوگوں کے سپرد کرنا چاہیے خلق خدا پر جن کو حاکم مقرر کیا جائے وہ دیندار اور خدا ترس لوگ ہونے چاہیے بد عقیدہ لوگوں کو ملک میں پنپنے نہیں دینا چاہیے کیونکہ ایسے لوگ رعایہ کو غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں

چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ بادشاہ کو چاہیے کہ وہ انصاف سے پورا پورا کام لے ماتحتوں کی کارگزاری کا  بنظر عدل جائزہ لیتا رہے تاکہ ملک سے ظلم و ستم کا نشان تک مٹ جائے پس تم سب جو میرے جگر گوشے ہو یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر تم میں سے کسی نے کسی عاج اور لاچار کو ستایا تو اس کی پوری پوری سزا دوں گا تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 194

خاندان غلاماں کا خاتمہ

بلبن کی موت کے بعد اس کے بیٹے بغرا خان کو تخت پیش کیا گیا مگر اس نے بادشاہ بننے سے انکار کردیا اس لئے اس کا بیٹا کا کیقباد تخت پر بیٹھا ۔ وہ بڑا نالائق اور عیاش تھا اس کے عہد میں بڑی بدنظمی پھیلی اور بہت سے صوبیدار خود مختار ہو گیا آخر 1290 ء میں جلال الدین خلجی حاکم پنجاب نے اسے قتل کروا دیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا اس طرح خاندان غلاماں کا خاتمہ ہوا

Wednesday, 13 February 2019





محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارےتک قسط نمبر 8
ناصر الدین 1246 سے 1266
آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

ناصر الدین التمش کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا وہ 1246 میں تخت نشین ہوا وہ بڑا نیک خداپرست اور سادہ مزاج بادشاہ تھا وہ مطالعہ کا شوقین اور علم و ادب کا مربی تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے دربار میں بہت سے علماء موجود تھے اس کے عہد کے تاریخی حالات طبقات ناصری میں درج ہیں ۔ ناصرالدین بڑی فقیرانہ زندگی بسر کرتا تھا دوسرے بادشاہوں کی طرح شان و شوکت کو پسند نہ کرتا تھا وہ گھر میں کوئی نوکر نہ رکھتا تھا بلکہ اس کی بیوی خود اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتی اور گھر کا تمام کام کاج کرتی تھی اپنے خرچ کے لئے شاہی خزانہ سے 
ایک پائی تک بھی کبھی نہ لیتا تھا بلکہ قرآن شریف نقل کرکے اپنا گزارا کرتا تھا ۔

طہارت نفس

کہا جاتا ہے کہ ناصر الدین کے مصاحب کا نام محمد تھا ۔ بادشاہ اسے ہمیشہ اسی نام سے پکارا کرتا تھا ایک روز ناصر الدین نے اس مصاحب کو تاج الدین کہہ کر آواز دی ۔ اس مصاحب نے اس وقت تو بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی لیکن بعد میں اپنے گھر چلا گیا اور تین روز تک بادشاہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا ناصر الدین اس مصاحب کو طلب کیا اور اس کی غیر حاضری کا سبب دریافت کیا ۔ مصاحب نے جواب دیا آپ ہمیشہ مجھے محمد کے نام سے پکارا کرتے تھے لیکن اس دفعہ اپنے خلاف معمول تاج الدین کہ کر پکارا میں نے اس سے نتیجہ اخذ کیا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی بدگمانی پیدا ہو گئی ہے اس وجہ سے آپ کی خدمت کی خدمت اقدس میں حاضر نہ ہوا اور یہ سارا وقت انتہائی پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بسر کیا بادشاہ نے قسم کھا کر کہا میں ہرگز ہرگز تم سے بدگمان نہیں ہوں لیکن میں نے جس وقت تم کو تاج الدین کے نام سے پکارا تھا اس وقت میں باوضو نہ تھا مجھے مناسب نہ ہوا کہ بغیر وضو کے محمد کا مقدس نام اپنی زبان پر لاؤں ۔
تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 188

ناصرالدین سلطنت کا تمام کام اپنے قابل اور مدبر وزیر بلبن کے سپرد کر رکھا تھا اس نے اپنی قابلیت سے راجپوتوں کی بغاوتوں کو دور کیا اور مغلوں کو شکست دے کر ہندوستان سے نکال دیا اس درویش صفت بادشاہ نے 22 سال کی حکومت کے بعد 1266 میں وفات پائی

Monday, 11 February 2019

محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر  7 رضیہ بیگم 1336 سے 1339 تک

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349


التمش کی وفات کے بعد اس کا لڑکا رکن الدین تخت پر بیٹھا ۔وہ نااہل اور عیاش پسند بادشاہ تھا ۔ اس لئے سات ماہ کی حکومت کے بعد تخت سے اتار دیا گیا اور پھر اس کی بہن رضیہ کو بٹھا دیا گیا ۔ رضیہ التمش کی ہونہار بیٹی تھی اور ہندوستان کی پہلی ملکہ تھی وہ بڑی قابل اور دلیر سلطانہ تھے اور انتظام سلطنت میں ماہر تھی یہی وجہ تھی کہ التمش جب کبھی دور دراز علاقوں میں لڑائیوں کے لئے جایا کرتا تھا تو انتظام سلطنت رضیہ کے سپرد کر جایا کرتا تھا اگر اس میں کوئی نقص تھا تو وہ یہ کہ وہ عورت ذات تھی اور وہ جنگ سے نہ ڈرتی تھی بلکہ زرہ بکتر لگا گھوڑے پر سوار ہو کر فوج کی کمان خود سنبھالا کرتی تھی ۔ وہ مردانہ لباس پہن کر ہر روز دربار میں جاتی تھی خود مقدمات کو سنتیں اور انصاف کرتی تھی اس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو نیک بادشاہ ہوں میں ہونی چاہیے تھی رضیہ نے یاقوت نامی حبشی غلام کو جو اس کا دا روغہ اصطبل تھا ۔ سپہ سالار مقرر کیا اس وجہ سے بہت سے درباری افغان ناراض ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں بغاوت ہو گئی سب سے پہلے 1239 میں لاہور اور بھٹنڈا کے صوبہ داروں نے بغاوت کی رضیہ نے التونیہ حاکم بھٹنڈا کے خلاف چڑھائی کی لیکن راستے میں اسکی فوج ہی باغی ہوں گی باغیوں نے اسے قید کرکے اس کے سپہ سالار یاقوت کو قتل کردیا رضیہ نے حکمت عملی سے کام لیا اور بھٹنڈا کے حاکم التونیہ سے شادی کر لی اس پر درباریوں نے دہلی کے تخت پر رضیہ کے چھوٹے بھائی بہرام کو تخت پر بٹھادیا اب رضیہ نے التونیہ کے ساتھ مل کر دوبارہ تخت دہلی بھارت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا اسے شکست ہوئی اور اپنے خاوند کے ساتھ قتل 
25 ربیع الاول 637 سن ہجری کو قتل کر دی گئیں ۔


رضیہ سلطانہ کے دور کے سکے





رضیہ سلطانہ کا مقبرہ




Friday, 8 February 2019



محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک  شمس الدین التمش قسط نمبر 6
1211 ء سے 1236 ء تک
آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

قطب الدین ایبک کی وفات کے بعد اس کا بیٹا آرام شاہ تخت نشین ہوا مگر کمزور اور ناہل تھا ۔ اس لئے التمش حاکم بہار نے جلدی سے اسے تخت سے اتار کر سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ شمس الدین التمش شروع میں قطب الدین ایبک کا ایک معمولی غلام تھا مگر اپنی حسن لیاقت سے اس نے اتنی ترقی کی کہ قطب الدین ایبک نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی التمش کو تخت پر بیٹھتے ہی بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔  کیونکہ بہت سے صوبے دار اس سے بگڑ بیٹھے مگر اس نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا اور آخر ان کو دبانے میں کامیاب ہوا   ۔ 1215 ءمیں اس نے تاج الدین یلدوز صوبہ دار غزنی و پنجاب کو شکست دی بار 1217 ء میں ناصر الدین قباچہ حاکم سندھ کو مطیع کیا بار 1225 ءمیں بنگال و بہار کے صوبہ دار بختیار خلجی نے بغاوت کی التمش نے اسے بھی شکست دے کر قتل کیا اور اپنے بیٹے رکن الدین کو بنگال و بہار کا حاکم مقرر کیا بعد ازاں اس نے رنتھمبور مانڈوا گولیار اور اجین کے قلعے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیے ان فتوحات کی شہرت کی بنا پر خلیفہ بغداد نے اسے سلطان ہند کا خطاب عطا فرمایا ۔

منگول

منگول جو وسط ایشیا میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے اور آپس میں لڑتے رہتے تھے ان کے سردار چنگیز خان نے اپنے ہمسایہ سلطنت خوارزم شاہی پر حملہ کیا اور ایک وسیع علاقے پر قابض ہو گیا اور خوارزم شاہ کو بھاگ جانا پڑا خوارزم شاہ نے غزنی کا رخ کیا اور یلدوز کو ہندوستان کی طرف دھکیل دیا لیکن چنگیز خان نے اس کے تعاقب میں غزنی بھی آیا ۔ سلطان التمش نے جلال الدین خوارزم شاہ کو نہایت مہذبانہ طریقے سے اپنے سفیر کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ مرکزی ہندوستان کی آب و ہوا آپ کو راس نہیں اور اس طرح التمش نے دہلی کو تاتاریوں سے بچا لیا جو کہ بے حد خطرناک تھے اس طرح التمش کی دوراندیشی اور فہم و فراست سے ہندوستان کو تباہی سے بچا لیا ۔

اسلامی سکے کا اجراء

التمش پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے برصغیر میں پہلی مرتبہ قدیم ہندو طرز کے سکوں کو یکسر ختم کرکے خالص عربی طرز کے سکے رائج کئے اور مرکزی ٹکسال بھی ختم کی طلائی سکوں کے علاوہ اس نے چاندی کا معیاری سکہ جاری کیا جس کا وزن 175 گرین تھا التمش کے سکے بہت ہی خوبصورت اور معیاری تھے ان پر دیوناگری رسم الخط کی بجائے عربی رسم الخط میں خلیفہ بغداد کے نام کے علاوہ سلطان کا لقب ناصر امیرالمومنین کنندہ تھا ۔

تعمیرات

اگرچہ التمش کی بیشتر زندگی فتوحات میں گزری پھر بھی اس کی تعمیرات کی جانب خصوصی توجہ دی دہلی کی عظمت میں بہت اضافہ کیا اس میں خوبصورت عمارت تعمیر کروائی مسجد قوت اسلام میں توسیع کرائی ایک انتہائی خوبصورت حوض بھی تعمیر کروایا التمش نے اپنے لڑکے ناصر الدین جو بنگال میں فوت ہوا تھا دہلی میں لا کر دفن کیا اور اس کا خوبصورت مقبرہ بھی تعمیر کروایا
محمد بن قاسم سے اورنگزیب تک محمد سعید الحق صفحہ نمبر 36

حوض شمسی

حضرت شیخ الاسلام فریدالدین شکرگنج رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد حضرت قطب الدین بختیار اوشی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات تحریر فرماتے ہیں کہ ایک بار التمش کو حوض شمسی تعمیر کروانے کا شوق پیدا ہوا اس سلسلے میں اور روزانہ حضرت قطب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور حوض کی جگہ اور اس کے رقبے وغیرہ کے بارے میں ان سے بات چیت کرتا ہے اس حوض کی تعمیر کے لیے التمش کے ذہن میں جو مقام آتا وہ فوراً اسے جا کر دیکھتا اور پھر کسی وجہ سے اس مقام کا خیال ذہن سے نکال دیتا اتفاق سے ایک دن التمش کا گزر اسی جگہ ہوا کہ جہاں اب حوض شمسی ہے بہت پسند آیا اور اس نے اسی جگہ پر حوض کی تعمیر کا ارادہ کیا جس روز کا واقعہ ہے اسی رات کو التمش نے خواب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ۔ التمش نے دیکھا کہ سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہو کر اس منتخب مقام کی طرف تشریف لائے ہیں اور التمش سے  دریافت فرماتے ہیں کہ وہ کس امر کا خواہاں ہے التمش جواب دیتا ہے کہ اس جگہ ایک حوض تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التمش کی التجا کو پسند فرمایا اور ان کے گھوڑے نے زمین پر لات ماری جس سے چشمہ پھوٹ نکلا اور زوروشور سے بہنے لگا التمش نے بھی اسی قدر خواب میں دیکھا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس وقت قدرے رات باقی تھی اور التمش اسی وقت حضرت قطب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بڑے ادب کے ساتھ ان سے اپنے خواب کی تمام روداد بیان کردی حضرت فرید شکر گنج اپنے پیر و مرشد سے روایت کرتے ہیں کہ التمش قطب صاحب کو اپنے ساتھ اس جگہ لے گیا قطب صاحب نے شمع کی روشنی میں دیکھا کہ وہاں ایک چشمہ پھوٹا ہوا ہے اور اس کا پانی ہر چہار طرف بہ رہا ہے تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ ہندوستان کے دیگر مشائخ کے ملفوظات میں بھی درج ہے واللہ اعلم بالصواب
تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 170

التمش خاندان غلاماں کے پہلے مسلمان بادشاہوں میں سب سے اقبال مند اور کامیاب بادشاہ ہوا ہے اس نے قریباً اپنی ساری عمر مسلمان سرداروں کی بغاوتیں دور کرنے اور راجپوت ریاستوں کو فتح کرنے میں گزاری وہ بڑا بہادر جرنیل اور قابل حکمران تھا اس کے عہد میں ملک میں امن اور رعایا خوشحال تھی ۔ اس نے کتب مینار کو مکمل کرایا  شمس الدین التمش نے 1236 ءمیں وفات پائی

Monday, 4 February 2019



 محمد بن قاسم سے ہندوپاک بٹوارے تک قسط نمبر5  
(سلطان قطب الدین ایبک) 


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک 8105493349

سلاطین دہلی 1206ء سے 1526ء

خاندان غلاماں کی حکومت 1206ء میں قائم ہوئی اور 1290ء میں شمس الدین کیومرث پر اس خاندان کا خاتمہ ہوا۔ اس خاندان نے 84 سال حکومت کی۔


شمار
نام سلاطین
عہدِ حکومت
1
20 جون 1206ء – 1210ء
2
1210ء –  مئی 1211ء
3
مئی 1211ء – 28 اپریل 1236ء
4
28 اپریل 1236ء –  20 نومبر 1236ء
5
10 نومبر 1236ء –  14 اکتوبر 1240ء
6
15 اکتوبر 1240ء –  10 مئی 1242ء
7
 10 مئی 1242ء – 10 جون 1245ء
8
10 جون 1245ء – 18 فروری 1266ء
9
18 فروری 1266ء – جنوری 1287
10
14 جنوری 1287ء – 14 اکتوبر 1290ء
11
1286ء – 13 جون 1290ء

خاندان غلاماں 1206 ء سے 1290 ء تک

خاندان غلاماں کا بانی قطب الدین ایبک تھا ،کیونکہ اس خاندان کے تمام بادشاہ اول سے آخر تک یا تو خود غلام رہ چکے تھے، یا غلاموں کی اولاد تھے۔ اس لئے اس خاندان کو خاندان غلاماں کہا جاتا ہے ۔
قطب الدین ایبک کو اس کے بچپن کے زمانے میں ایک سوداگر ترکستان سے نیشاپور لایا ،اور یہاں اسے اسی زمانے میں قاضی فخر الدین ابن عبدالعزیز کوفی جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے کہ پاس بیچ دیا چونکہ خداوند تعالیٰ کو منظور تھا ،کہ قطب الدین ایبک ایک دن بڑا آدمی ہو گا ،اس لیے بچپن ہی سے اس کے چہرے سے عظمت اور برتری کے آثار نمایاں تھے۔ قاضی فخر الدین قطب الدین کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اسے جدا نہ کیا اور اپنے بیٹوں کی طرح اس کی پرورش کرتے رہے۔ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے کسی بیٹے نے قطب الدین کو ایک سوداگر کے ہاتھ فروخت کردیا اس سوداگر نے قطب الدین کو تحفے کے طور پر سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا سلطان نے سوداگر کو قطب الدین کے معاوضے میں ایک بیش قرار رقم دی۔ کیونکہ قطب الدین کے ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس لئے بادشاہ اور درباریوں نے اسے ایبک کہنا شروع کردیا، رفتہ رفتہ یہ لفظ اس کے نام کو جزو ہو کر رہ گیا۔ قطب الدین نے بڑے سلیقے اور محبت کے ساتھ سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مختصر سی مدت میں قطب الدین نے بادشاہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 154 

قطب الدین ایبک اپنی ذاتی لیاقت وفاداری اور بہادری کی وجہ سے ترقی کرکے محمد غوری کا جرنیل بن گیا۔ محمد غوری نے اسے ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کیا اس نے بڑی بہادری سے گجرات بندھیل کھنڈ بہار اور بنگال کے علاقے فتح کرکے اپنے آقا محمد غوری کی سلطنت میں شامل کیے وہ محمد غوری کی وفات پر ہندوستان کا بادشاہ بنا وہ دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ اور خاندان غلاماں کا بانی ہوا۔ 
قطب الدین ایبک بڑا بہادر انصاف پسند اور فیاض بادشاہ تھا وہ اپنی سخاوت کی وجہ سے لکھ داتا یا لکھ بخش مشہور تھا اس نے اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے زبردست سرداروں کے ساتھ رشتے ناطے کیے اس نے اپنی شادی تاج الدین یلدوز حاکم غزنی کی لڑکی سے کی اس نے اپنی بہن کی شادی سندھ اور ملتان کے حاکم ناصر الدین قباچہ کے ساتھ کر دی اور ایک ہونہار غلام التمش کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ اس نے اب ملک میں امن رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 

قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ عمارات

قطب الدین نہ صرف فاتح اور لائق فرمانروا تھا بلکہ اس کو فن تعمیر سے بھی فطری لگاؤ تھا چنانچہ اس نے کئی ایک عمارتیں تعمیر کروائی اس کی بنائی گئی مشہور عمارتیں درج ذیل ہیں 

 مسجد قوت الاسلام 



دہلی کی سب سے پہلی مسجد ہے 1192 میں جب دہلی فتح ہوا تو اس خوشی کی یادگار میں اس نے مسجد تعمیر کرائی۔ بعض لوگوں کے خیال میں اس 
مسجد کا اصل نام قبتہ الاسلام تھا اسلامی سلطنت کا پایہ تخت ہونے کے باعث دہلی قبتہ الاسلام کہلاتا تھا اس کی چھتوں پر گنبد نما روشن دان بنائے گئے اور محراب اور نئی قسم کے ستون قائم کیے گئے یہ دہلی سے گیارہ میل کے فاصلے پر مہرؤلی کے قصبہ میں ہے اور اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے 



 قطب مینار



کہا جاتا ہے کہ ایبک نے قطب مینار ایک چشتی بزرگ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا یہ مینار اس غرض کے لیے بنوایا گیا تھا کہ یہاں کھڑے ہو کر موذن اذان دے سکے اور اذان کی آواز دور دور تک پہنچ سکے یہ مینار مخروطی شکل کا ہے اور اس کی بلندی 234 فٹ ہے اس وقت اس کی پانچ منزلیں موجود ہیں آخری منزل جو چھتری نما تھی بجلی گرنے سے تباہ ہو گئی۔ زمین پر اس مینار کا قطر 48 فٹ ہے لیکن آخری منزل کا قطرصرف 9 فٹ ہے اس کی دیواروں پر کئی قرآنی آیات کندہ کرائی گئی ہیں ہر منزل کے خاتمہ پر نظاہرا کرنے کے لئے مینار کے اردگرد چبوترے بنے ہوئے ہیں۔ ایبک نے اس کی تعمیر شروع کروائی تھی لیکن اسے مکمل التمش نے مکمل کرایا اس عمارت کی دوسری منزل پچاس فٹ ساڑھے آٹھ انچ بلند ہے تیسری چالیس فٹ ساڑھے تین انچ اور چوتھی پچیس فٹ چار انچ اور پانچویں بائیس فٹ چار انچ بلند ہے۔ 1352 میں جب بجلی گرنے سے اس کی عمارت کو ضعف پہنچا تو سلطان سکندر لودھی نے ضروری مرمت کرائی اس عمارت کی نچلی تین منزلیں سنگ سرخ سے بنی ہوئی ہیں اور اوپر والی دو منزلیں سنگ سرخ اور سنگ مرمر کے امتزاج سے بنائی گئی ہیں خوشنما رنگ اور خوبصورت طرز تعمیر اسے دنیا بھر کے میناروں سے ممتاز کرتا ہے

 اڑھائی دن کا جھوپڑا


1200 میں اجمیر کی فتح کی خوشی میں ایبک نے اجمیر میں مسجد بنوائی جو اڑھائی دن کا جھونپڑا کہلاتی ہے روایت یہ ہے کہ یہ مسجد اڑھائی دن میں بنائی گئی لیکن یہ بات ناقابل اعتبار معلوم ہوتی ہے بعض مورخین کا خیال ہے کہ اسی کشادہ اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر میں اڑھائی سال لگے ہوں گے بعض دیگر مورخین کی رائے میں اس مسجد کا نام اس میلے کی مناسبت سے پڑھا جو یہاں اڑھائی دن تک رہتا ہے اس مسجد کی آرائش اور طرز تعمیر میں کوہ آبو کے جینی مندروں کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس مسجد کا فن تعمیر انوکھا تھا عمارت کی طرز پر ہندوستانی میں معماروں کا اثر نمایاں طور پر موجود ہے۔ ستونوں کی وضع پرانی جینی طرز تعمیر کی ہے لیکن ان ستونوں کو جس ترتیب سے لگایا گیا ہے وہ خالص اسلامی یعنی مسجدوں کی طرز ہے ۔



 قطب الدین ایبک کی وفات 






قطب الدین ایبک کو چوگان پولو کھیلنے کا بہت شوق تھا 1210 ء میں لاہور میں چوگان کھیلتے وقت گھوڑے سے گر کر مر گیا تاج الماثر کے مصنف حسن نظامی کے بیان کے مطابق گھوڑے سے گرا گھوڑا بھی لڑکھڑا کر سلطان پر گرپڑا زین کا اگلا آہنی حصہ اس کے سینے میں لگا اور اس کی روح پرواز کر گئی کہا جاتا ہے کہ ایبک کی قبر پر ایک عالیشان مقبرہ بھی تھا لیکن رنجیت سنگھ کے دور میں اس مقبرے کو گرا دیا گیا اور اس کی قبر کے تعویز کی جگہ کو چھوڑ کر ایک ہندو بنیے نے وہاں مکان بنا لیا قیام پاکستان کے بعد اس قبر کے بالائی مکان کو گرا کر مزار کے گرد کنہرا بنا دیا گیا۔ یہ قبر انارکلی میں ایبک روڈ پر موجود ہے لیکن انگریز مورخین اس مقام کو قطب الدین ایبک کی اصلی قبر تسلیم نہیں کرتے ۔
محمد بن قاسم سے اورنگزیب تک محمد سعید الحق صفحہ نمبر 29



آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...