محمد بن قاسم سے ہند و
پاک بٹوارے تک قسط نمبر 11
علاؤالدین خلجی 1296 سے 1315
علاؤالدین خلجی 1296 سے 1315
آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349
علاؤالدین خلجی جلال الدین خلجی کا بھتیجا اور داماد تھا وہ بڑا چالاک شخص تھا اپنے چچا جلال الدین کو قتل کر کے تخت پر بیٹھا دہلی میں پہنچ کر اس نے اپنی فوج اور عام لوگوں میں دل کھول کر روپیہ تقسیم کیا تاکہ وہ اس کے چچا کے قتل کو بھول جائیں اس نے بیس سال حکومت کی وہ ایک قابل اور زبردست بادشاہ ثابت ہوا وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے دکن کو فتح کیا۔۔
فتوحات
علاؤالدین نے تخت نشین ہوتے ہی اپنی سلطنت کو وسیع کرنا شروع کیا اس کے فتوحات حسب ذیل ہیں
گجرات
1290 میں علاؤالدین کے جرنیل الف خان نے گجرات پر حملہ کیا وہاں کا راجہ کرن بھاگ نکلا گجرات فتح ہوا اور راجہ کرن کی بیوی کملا دیوی دہلی میں لائی گئی جہاں اس کی شادی علاوالدین سے ہوگء اس حملہ میں شہر کھمبایت سے شاہی فوجوں کو ایک ہندو غلام ہاتھ آیا جس کا نام ملک کافور تھا اس نے اپنی قابلیت سے اتنی ترقی کی کے بادشاہ کا سپاہ سالار بن گیا اور بعد میں اس نے بادشاہ کے لیے دکن کو فتح کیا۔۔
رنتھمبور
1300 میں علاؤالدین نے رنتھمبور کے قلعہ کو فتح کیا۔۔
چتوڑ
1301 میں علاؤالدین نے راجہ بھیم سین والئے چتوڑ کی خوبصورت رانی پدمنی کو حاصل کرنے کے لئے چتوڑ پر حملہ کیا راجہ اور بہادر راجپوتوں نے بڑی بہادری دکھلائی اس لیے علاؤالدین کامیاب نہ ہوا دو برس بعد 1303 میں علاوالدین نے پھر ایک زبردست فوج کے ساتھ چتوڑ پر حملہ کیا راجپوت بڑی بہادری سے لڑے مگر ہار گئے رانی پدمنی دیگر راجپوت عورتوں کے ساتھ چتا میں بیٹھ کر زندہ جل گئی
جیسلمیر، مالوہ، چندیری
1303 میں علاؤالدین نے آٹھ مہینہ کے محاصرے کے بعد جیسلمیر کا قلعہ فتح کیا یہاں بھی راجپوتوں نے بہادری دکھائی اور ہزاروں راجپوت لڑائی میں مارے گئے پھر اس نے مالوہ اور چندیری کی راجپوت ریاستوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔۔
دکن کی فتح
1306 سے 1311 شمالی ہند کی فتح کے بعد علاؤالدین نے اپنے سپاہ سالار ملک کافور کو دکن کی فتح کے لیے روانہ کیا اس نے 1307 میں دیوگری پر حملہ کرکے اسے فتح کیا اس لڑائی میں کملا دیوی کی لڑکی دیول دیوی ماں کی خواہش کے مطابق دہلی پہنچائی گئی جہاں اس کی شادی علاؤالدین کے بیٹے خضر خان سے کردی گئی اس کے بعد ملک کافور نے 1310 وارنگل اور 1311 میں دوارسمدراور کی ریاستوں کو فتح کیا اور بے شمار دولت ہاتھی گھوڑے لے کر دہلی واپس لوٹا ان فتوحات سے علاوالدین کی سلطنت پھیل گئی۔
مغلوں کے حملے
علاؤالدین کے عہد میں مغلوں نے ہند پر پانچ دفعہ حملے کئے اور پانچوں مرتبہ پسپا ہوئے آخری دفعہ کوئی دو لاکھ مغل دہلی تک آ پہنچے لیکن علاؤالدین نے انہیں ایسی شکست دی کہ پھر انھوں نے اس کے عہد میں کبھی حملہ نہ کیا۔۔
علاؤالدین کی پالیسی اور نظام سلطنت
جنگی پالیسی
علاؤالدین کی جنگی پالیسی کا مقصد ملک کو مغلوں کے حملوں سے بچانا اور تمام ہندوستان کو فتح کرنا تھا اس مقصد کے لیے اس نے ایک زبردست مستقل فوج تیار کی نئے نئے قلعے تعمیر کرائے پرانے قلعوں کی مرمت بھی کرائی گئی فوجی قواعد بنائے اور گھوڑوں کو داغ دینے کا طریقہ جاری کیا جاگیرداروں اور سرداروں کو باقاعدہ فوج رکھنے کا حکم دیا سپاہیوں کی تنخواہیں مقرر کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جنگی پالیسی سے اس کے عظیم الشان سلطنت تمام ہندوستان پر پھیل گئی اور مغلوں کی روک تھام بھی ہوگی۔۔
اندرونی پالیسی
علاؤالدین کے عہد حکومت کے شروع میں بہت سی بغاوتیں ہوئیں اور مغلوں نے بھی کئی حملے کیے اس کی پالیسی کا مقصد ملک کو ان حملوں اور بغاوتوں سے محفوظ رکھنا اور سلطنت میں امن قائم کرنا تھا اس لیے اس نے مندرجہ ذیل طریقے سوچے
اس نے شراب پینا اور بیچنا قانوناً منع کردیا۔
اس نے بڑے بڑے امیروں کی آزادی چھین لی وہ بادشاہ کی منظوری کے بغیر آپس میں رشتے ناطے نہیں کر سکتے تھے اور نہ دعوت دے سکتے تھے اس طرح سازشوں کا خاتمہ ہو گیا۔
اس نے مکانات اور مال مویشی پر ٹیکس لگائے تاکہ سرکاری آمدنی بڑی
اس نے مالیہ جنس کی صورت میں وصول کیے جانے کا حکم دیا اور ملک میں اناج سستا رکھنے کے لیے دلی میں اناج کے ذخیرے کے گودام بنوائے۔۔
اس نے ملک بھر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے ایک زبردست جاسوسی محکمہ جاری کیا جو ہر بات کی اطلاع بادشاہ کو پہنچاتے تھے اس انتظام سے بڑے بڑے وزیر امیر گھروں کے اندر بھی معمولی بات چیت کرتے ہوئے ڈرتے تھے
اس نے ہر چیز کا نرخ اور تول کے بٹے مقرر کیے اور افسر تعینات کیے جن کا کام ان میں کمی بیشی کرنے والوں کو سزا دینا تھا
اس نے شاہی خزانہ بھرنے کے غرض سے بہت سے امیروں اور وزیروں سے جائدادیں چھین لی جاگیر ضبط کر لی اور وظیفے بند کردیئے
علاؤالدین کا چال چلن
علاؤالدین خلجی بہادر سالار اور اعلی درجہ کا منتظم بادشاہ تھا خود ان پڑھ تھا مگر علماء کا بڑا قدر دان تھا انتظام سلطنت میں کسی اصول کا پابند نہ تھا بلکہ اپنی ضرورت کو ہی قانون سمجھتا تھا وہ قدرے ضدی بھی تھا۔ وہ تجربہ کار جرنیل اور فنون جنگ میں ماہر تھا اپنی بہادری قابلیت اور زبردست فتوحات کی وجہ سے وہ ہندوستان کے بڑے بادشاہوں میں گنا جاتا ہے
ملک کافور
ملک کافور دراصل ہندو غلام تھا جو علاؤالدین کوفتح گجرات کے وقت شہر کھمبایت سے ہاتھ آیا تھا وہ بعد میں مسلمان ہو گیا اس نے اپنی خداداد لیاقت کی وجہ سے بہت ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے علاوالدین خلجی کا سپہ سالار بن گیا علاوالدین کے عہد میں دکن کی فتوحات اس کی بہادری کا نتیجہ تھی اس نے سب سے پہلے ماراشٹر کو فتح کیا پھر دیوگری پر دوبارہ حملہ کرکے 1305 میں راجہ رام دیو کو شکست دی اور کملا دیوی کے خواہش کے مطابق اس کی لڑکی دیول دیوی کو اس کے پاس پہنچا دیا 1309 میں اس نے وارنگل کو فتح کیا اور 1311 میں عین جنوب کے تامل ریاستوں کو فتح کرکے راس کماری تک پہنچا جہاں اس نے فتح کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور بے شمار دولت لے کر واپس دہلی آ پہنچا
علاؤالدین کا انتقال
گجرات کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بادشاہ نے ملک نائب کی رائے سے سید کمال الدین کرک کو روانہ کیا لیکن الغ خان کی حمایت و اور طرفداروں نے کمال الدین کو پکڑ کر بڑی بری طرح موت کے گھاٹ چتور کے حاکم نے بھی بغاوت کی اور شاہی ملازموں کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر انہیں قلعے سے نیچے پھینک دیا دکن میں ہرپال دیو نے جو رام دیو کا داماد تھا ہنگامہ کھڑا کیا اور بہت سے شاہی تھانوں کو تباہ و برباد کردیا علاؤالدین ان خبروں کو سن سن کر دل ہی دل میں بل کھا کر رہ جاتا غم و الم کی اس فضا میں اس کی صحت کی دیوار گرتی ہی چلی گئی اور آخرکار 6 شوال 716 ہجری کی رات کو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی بے شمار زروجواہر اور دولت جو محمود غزنوی کو بھی میسر نہ ہوئی اور جسے علاؤالدین نے بڑی محنت سے جمع کیا تھا دوسروں کے لئے چھوڑ گیا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بادشاہ کی موت زہر خورانی سے ہوئی تھی ملک نائب نے اسے زہر دیا تھا واللہ اعلم بالصواب تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 278
خاندان خلجی کا خاتمہ
ملک کافور کے قتل کے بعد امرای سلطنت نے شہزادہ مبارک کو تخت پر بٹھایا۔ مبارک خاندان خلجی کا بڑا منحوس اور نالائق بادشاہ تھا اس لیے ملک میں بدنظمی پھیل گئی وہ بڑا عیاش پسند تھا اس لئے اس اس نے سلطنت کا تمام کام اپنے ایک منظور نظر غلام خسرو خان کو سونپ کر اسے وزیراعظم مقرر کردیا۔ خوبصورت خان نے بادشاہ مبارک کو 1318 میں قتل کردیا اور خود ناصر الدین کے لقب سے بادشاہت کرنے لگا آخر لوگوں نے تنگ آکر غیاث الدین تغلق حاکم پنجاب کو دہلی پر حملہ کرنے کے لئے بلایا اس نے ناصرالدین کو قتل کرکے خلجی خاندان کا خاتمہ کردیا