محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,27
نورالدین جہانگیر
1605سے
1627
آفتاب
عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع
بلگام کرناٹک
8105493349
جہانگیر
کی تخت نشینی
اکبر
کے تین بیٹے تھے،سلیم، مراد اور دانیال ،مراد اور دانیال تو اس کی زندگی میں ہی مر
چکے تھے اب صرف سلیم باقی تھا جو اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا
۔
اصلاحات
جہانگیر
چھوٹی عمر میں ایک سرکش نوجوان تھا وہ تیز مزاج اور بے رحم تھا لیکن اس نے تخت پر بیٹھے
ہیں اپنی تمام عادات بدل ڈالی اور رعایا کی بہتری کے لیے کئی مفید اصلاحات جاری کیں
۔
اس
نے محاصل چونگی کے نقص دور کردیے اور کئی ناجائز محصولات ہٹادئیے
اس
نے مجرموں کے ناک اور کان کاٹنے کی وحشیانہ سزائیں منسوخ کردی
اس
نے رعایا کے لیے شراب کا پینا اور دیگر نشیلی اشیاء کا استعمال حکماً بند کر دیا
اس
نے فوجی سپاہیوں کا عام لوگوں کی طرح گلی کوچوں میں رہنا بند کر دیا
اس
نے لوگوں کی سہولیت کے لیے شفاخانے کھولے،جن کا خرچہ سرکاری خزانوں سے ادا کیا جاتا
تھا
اس
نے فریادیوں کی سہولیت کے لیے اپنے محل کی دیوار سے زنجیر لٹکا دیں جس کے کھینچنے سے
شاہی کمرے میں سونے کی گھنٹیاں بجنے لگتی تھی اس کو فریادی بوقت ضرورت کھینچ سکتا تھا
اور بادشاہ فورا اس فریادی کو بلاکر فریاد سنتا اور دادرسی کرتا تھا
جہانگیر
کے دور کے اہم واقعات درج ذیل ہیں
١ خسرو کی بغاوت
جہانگیر
کے بڑے بیٹے خسرو نے اس کی تخت نشینی کے چند ماہ بعد بغاوت کردی اور لاہور پر قابض
ہوگیا جانگیر نے اس کا تعاقب کیا اور خسرو کابل کی طرف بھاگ گیا مگر دریائے چناب کو
عبور کرتے ہوئے پکڑا گیا جہانگیر نے اس کے ساتھیوں کو بڑی سختی سے مروا ڈالا اور خسرو
کو قید کر دیا ۔ گورو ارجن دیو جی کو بھی اس شہزادے کی مدد کرنے میں اپنی جان قربان
کرنی پڑی،آخر شہزادہ خرم نے اسے 1622میں مروا ڈالا
٢ شہزادہ خرم کی بغاوت
نورجہان
کی ایک لڑکی شیرافگن سے تھی،جو شہریار سے بیاہی ہوئی تھی نور جہاں جہانگیر کے بعد اپنے
داماد شہریار کو تخت نشین کرانا چاہتی تھی،اس لیے اس نے جہانگیر کو مجبور کیا کہ شہزادہ
خرم کو قندھار فتح کرنے کے لیے روانہ کرے کیونکہ شاہ ایران نے قندھار پر قبضہ کرلیا
تھا مگر شہزادہ خرم نورجہاں کی اس چال کو سمجھ گیا اور مہم پر جانے سے انکار کر دیا
اور بغاوت کردی جہانگیر اس کے تعاقب میں پہلے بنگال اور پھر وہاں سے دکن کی طرف گیا
۔ آخر جب خرم کو کامیابی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اس نے بادشاہ سے معافی مانگ لی
۔
٣) مہابت خان کی بغاوت
مہابت
خان کابل کا رہنے والا تھا اور جہانگیر کا سب سے بڑا جرنیل تھا شہزادہ خرم کی بغاوت
کو اسی نے دبایا تھا مہابت خان کی بہادری ناموری اور بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر نور
جہاں اس سے حسد رکھنے لگیں چنانچہ اسے ایک معاملہ کی جوابدہی کیلئے دربار میں طلب کیا
مگر مہابت خان بلا کا موقع شناس تھا،او اس بلاوجہ طلبی کے مقصد کو تاڑ گیا اور
5000 منچلے جان نثار راجپوت سوار ہمراہ لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ اس
وقت کابل کی طرف جا رہا تھا مہابت خان نے آکر جو بادشاہ دریا جھلم کو عبور کر رہا تھا
قید کر لیا مگر نورجہاں نے بڑی حکمت عملی سے جہانگیر کو قید سے چھڑا لیا اور مہابت
خان بھاگ کر دکن کی طرف چلا گیا ۔
جہانگیر
کے عہد کی لڑائیاں
جنگ
میواڑ
رانا
پرتاب کے بعد اس کا بیٹا امرسنگھ اودھےپور کی گدی پر بیٹھا اس نے جہانگیر کی اطاعت
قبول کرنے سے انکارکردیا جہانگیر نے کئی دفعہ فوجییں بھیج کر اسے مغلوب کرنے کی کوشش
کی مگر اسے کامیابی نہ ہوئی آخر 1614 میں شہزاد خرم نے اسے مغلوب کیا،جہانگیر اس فتح
سے بہت خوش ہوا اور خرم کو اس کارنامہ کے سلسلہ میں شاہجہاں کا لقب اور 30000 کا منصب
عطا کیا ۔
کانگڑہ
کی فتح
اس
کے عہد میں کانگڑا کا مشہورقلعہ 1620 میں فتح ہوا،جسے اکبر جیسا طاقتور بادشاہ بھی
فتح کرنے میں ناکام رہا تھا،جہانگیر کو اس فتح پر بہت ناز تھا ۔
ریاست
احمدنگر کی فتح ہے
1610
میں
شاہ احمد نگر نے اپنے قابل وزیر ملک عنبر کی مدد سے مغلیہ فوج کو کئی ایک شکستیں دیں
آخر 1611 سن عیسوی میں جہانگیر نے شاہجہاں کو اس مقابلے کے لئے روانہ کیا ۔ 1620 سن
عیسوی میں شاہجہان نے ملک عنبر کو شکست فاش دے کر احمدنگر کو فتح کرلیا لیکن دکن میں
بغاوت کا حقیقی خاتمہ 1629 میں ہوا جب ملک ممبر نے وفات پائی ۔
قندھار
کا کھویا جانا
1623
میں
شاہ ایران نے قندھار دوبارہ فتح کرلیا اور یہ علاقہ ہمیشہ کے لئے سلطنت دہلی سے الگ
ہوگیا ۔
سر
طامس رو
سر
طامس رو جیمس اول شاہ انگلستان کا سفیر تھا
۔ 1615 میں بادشاہ جہانگیر کے دربار میں آیا ۔ اس کی غرض بادشاہ جہانگیر سے ہند میں
انگریزوں کے لئے تجارتی حقوق حاصل کرنا تھا اس نے اپنی دانائی سے انگریزوں کے لئے سورت
کمبایت اور احمدآباد میں تجارتی کوٹھیاں بنانے کی اجازت حاصل کرلی ۔ سرطامس رو تین
سال میں یعنی 1615 سے 1618 تک جہانگیر کے دربار میں رہا ۔ وہ لکھتا ہے کہ جہانگیر کا
دربار بڑی شان و شوکت والا تھا بادشاہ عیش پسند تھا اکثر رشید جانوروں کی لڑائیاں دیکھا
کرتا تھا سلطنت کا کام نورجہاں کے ہاتھ میں تھا جو خوش قسمتی سے نظام حکومت میں ماہر
تھی ۔ ملک میں دولت بہت تھی درباری زبان فارسی تھی مگر عام ہندوستانی بولتے تھے رشوت
کا بڑا زور تھا سڑکیں غیر محفوظ تھی کیونکہ راستہ میں ڈاکو مسافروں کو لوٹ لیتے تھے ۔
نورجہان
نورجہان
کا اصلی نام مہرالنساء تھا وہ مرزا غیاث نامی ایک امیر کی لڑکی تھی اس کا باپ گردش
ایام سے لاچار ہو کر روزگار کی تلاش میں قندھار کے قریب اس کا قافلہ لٹ گیا ۔ اور اسی
مصیبت کے ایام میں مہرالنساء پیدا ہوئی جو بعد میں ملکہ ہندوستان بنی لڑکی کی پرورش
کا کوئی ذریعہ نہ دیکھ کر اس معصوم بچے کو ایک چوڑی سل پر لٹادیا یہ ننھی سے جان جنگل
میں پڑی رو رہی تھی مگر اس کی قسمت سرہانے کھڑی ہنس رہی تھی اور کہہ رہی کہ اے بچہ
رو مت جس محل میں تونے ملکہ بن کر بیٹھنا ہے وہ بھی تیار نہیں ہوا خدا کی قدرت دیکھیے
پیچھے سے ایک اور قافلہ آ رہا تھا ۔ اس قافلہ کے سردار نے لڑکی کو اٹھا لیا اور جب
اسے اصل حالات کا علم ہوا تو اس نے لڑکی کو مرزا غیاث کے سپرد کر دیا اور پرورش کا
خرچ اپنا ذمے لے لیا جب یہ قافلہ ہندوستان آیا ۔ تو مرزا غیاث کی اس سوداگر کے ذریعہ
دربار میں رسائی ہوئی اور اکبر نے اسے دربار میں بڑے عہدے پر مامور کر دیا ۔ مرزا غیاث
اپنی حسن لیاقت سے اعلی عہدے پر ممتاز ہو گیا اب اس کی لڑکی مہرانسا اور اس کی ماں
دونوں شاہی محلات میں آیا جایا کرتی تھیں ایک دن شہزادہ سلیم نے اسے شاہی باغ میں دیکھ
پایا اور اس کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا جب اکبر تک یہ خبر پہنچی تو اس نے مہرانساء
کی شادی ایک افغان سردار شیرافکن سے کردی اور اسے بنگال کا صوبے دار بنایا جب سلیم
بادشاہ ہوا اور شیرافگن لڑائی میں مارا گیا تو مہرانساء آگرے میں آگئی اور ١٦١١ میں
اس نے بادشاہ جہانگیر سے شادی کرلی اس کا نام مہرالنساء کی بجائے نورجہاں ہوا ۔ نورجہاں
حسین ہونے کے علاوہ بڑی عقلمند اور اعلی حوصلہ عورت تھی ملکہ بنتے ہی جہانگیر نے اپنی
سلطنت کا کاروبار اس کے ہاتھ میں دے دیا اس کا باپ مرزا غیاث وزیراعظم مقرر ہوا اور
اس کا بھائی آصف جا فوج میں ایک اعلی رتبہ پر مقرر ہوا،جہانگیر کی موت کے بعد شاہجہان
نے ہر طرح سے اس کا ادب کیا باقی ماندہ زندگی کے لیے ایک معقول وظیفہ مقرر کر دیا اس
نے ١٦۴۴ میں وفات پائی اور شاہدرہ میں جہانگیر کے مقبرہ کے قریب دفن کی گئی اس کی قبر
پر یہ شعر لکھا ہوا ہے
برمزار
ماغریبان نی چراغی نی گلی
نی
پرپروانہ سوزد نی صادی بلبلی
جہانگیر
کی وفات
مہابت
خان کی قید سے رہائی پانے کے بعد جہانگیر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا گرمیوں کے موسم میں
اس نے کشمیر میں قیام کیا کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعدل28 اکتوبر 1627ء میں کشمیر
سے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ اس کی میت کو لاہور لایا
گیا جہاں دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشا لاہور موجودہ شاہدرہ میں دفن ہوا۔ یہ مقام
اب مقبرہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہے۔