Thursday, 31 January 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 04

شہاب الدین محمد غوری

1173 ء سے 1206 ء تک

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

سلطان محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کا کوئی زبردست جانشین نہ ہوا جو غزنی کی وسیع سلطنت کو سنبھال سکتا اس لیے غزنی کی سلطنت کمزور ہوتی گئی اس زمانے میں غور کی چھوٹی سی کوہسانی ریاست غزنی کے شمال میں واقع تھی،وہاں کے امیر غیاث  الدین نے 1173ء  میں غزنی پر قبضہ کر لیا اور اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین محمد غوری کو وہاں ان کا حاکم مقرر کردیا،محمد غوری بڑا قابل اور تجربہ کار سپاہی تھا اس نے پہلے غزنی کی سلطنت کو مستحکم کیا اور پھر ہندوستان کو فتح کرنے میں لگ گیا وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھاجس نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔

محمد غوری کی فتوحات

1۔ پنجاب اور سندھ کی فتح

محمد غوری نے جب اپنی سلطنت غزنی میں اچھی طرح سے قائم کرلی تو اس نے ہندوستان کا رخ کیا سب سے پہلے پیشاور فتح کیا۔1175 میں ملتان کو فتح کیا 1176ء سے 1182ء تک صوبہ سندھ کو فتح کرنے میں لگایا ،1186 ءمیں لاہور پر حملہ کیا اور غزنی کے آخری بادشاہ خسرو ملک کو قتل کرکے پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اس طرح وہ پنجاب اور سندھ کا حاکم بن گیا



۔ ترائن کی پہلی لڑائی  2


ء1191 میں محمد غوری نے سلطنت دہلی پر حملہ کرنے کے غرض سے آگے بڑھا اس وقت شمالی ہند کے تمام راجے پرتھوی راج والئے دہلی اور اجمیر کے ماتحت تھانیسر میں اکھٹا ہوئے ۔ بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی مسلمان شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے محمد غوری بھی زخمی ہوا اور بڑی مشکل سے جان بچا کے غزنی پہنچا یہ لڑائی ترائن کی پہلی لڑائی کہلاتی ہے

 ۔ ترائن کی دوسری لڑائی 3



پہلی شکست سے محمد غوری کو بہت غصہ آیا غور میں پہنچ کر اس نے ان تمام افسروں کو جو میدان جنگ سے بھاگ نکلے تھے ذلیل سزائیں دیں اس کے بعد اس نے بہت تیاری کی اب جئے چند اور پرتھوی راج میں سخت عداوت تھی اس لئے جئے چند نے بدلہ لینے کی غرض سے محمد غوری کو ہندوستان میں آنے کی دعوت دی ۔ محمد غوری موقع کی تلاش میں تھا وہ ایک لاکھ بیس ہزار فوج کے ساتھ 1192ء میں ترائن کے میدان میں آ موجود ہوا ۔ پرتھوی راج مقابلہ کے لئے آیا گھماسان کی جنگ ہوئی آخر پرتھوی راج اپنے بہادر سرداروں کے ساتھ میدان جنگ میں قتل ہوا راجپوت شکست کھا کر بھاگ نکلے اور محمد غوری دہلی اور اجمیر پر قابض ہو گیا
اس جنگ کی اہمیت
ہندوستان کی تاریخ میں ترائن کی دوسری جنگ ہندوستان کے فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہوتی ہے اس فتح سے ہندوستان میں مستقل اسلامی حکومت قائم ہو گئی

۔قنوج کی فتح 4

ء1194 میں محمد غوری قنوج کو فتح کرنے کی غرض سے بڑی فوج کے ساتھ ہندوستان پر حملہ آور ہوا جئے چند کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑی اس نے چندواڑہ کے مقام پر محمد غوری کا مقابلہ مگر شکست کھاکر قتل ہوا محمد غوری نے  قنوچ اور بنارس کو اپنی سلطنت میں شامل کیا

  ۔ گجرات اور بندھیل کھنڈ کی فتح5

قنوج کی فتح کے بعد محمد غوری واپس چلا گیا مگر اس کے نائب قطب الدین ایبک نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا چنانچہ اس نے 1196ء میں راجہ بھیم دیو کوانہلواڑہ کے مقام پر شکست دے کر گجرات کو سلطنت دہلی میں شامل کرلیا 1202 ءمیں اس نے کالنجر دارالخلافہ بندھیل کھنڈ کو فتح کر لیا

 ۔ بہار اور بنگال کی فتح 6

محمد غوری کے ایک بہادر جرنیل بختیار خلجی نے 1197 ءمیں بہار کو فتح کیا اور 1199 ءمیں بنگال پر قبضہ کرلیا ۔ کیونکہ وہاں کا راجہ لکشمن سین ڈر کے مارے ملک چھوڑ کر بھاگ گیا تھا ۔ اس طرح تمام شمالی ہندوستان پر اسلامی سلطنت پھیل گئی اور راجپوت راجاؤں نے اسے اپنا شہنشاہ تسلیم کر لیا

شہاب الدین کا قتل

2 شعبان 602 سن ہجری کو سلطان شہاب الدین دریائے سندھ کے کنارے پر پہنچا اور وہاں برمہیک نامی ایک مقام پر مقیم ہوا یہاں کے قیام کے دوسرے روز سلطان شہاب الدین کے قتل کا المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا جس کی تفصیل یہ ہے کہ کھکروں کی قوم میں سے بیس افراد سلطان شہاب الدین سے بے حد نالاں تھے کیونکہ اس نے ان کے عزیزوں کو قتل اور خود ان کے گھر سے بے گھر کر دیا تھا ان 20 کھکروں نے آپس میں مل کر شہاب الدین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لئے اپنی جانیں وقف کردی جس دن سلطان برمہیک کے مقام پر خیمہ زن ہوا اس کے دوسرے روز یہ کھکر کسی نہ کسی طرح شاہی خیمے تک پہنچ گئے اس وقت شاہی لشکر کوچ کی تیاریاں کررہا تھا اور فراش سراپردہ اتار رہے ایک قاتل شاہی خیمے کے اندر داخل ہو گیااور شعبان کی تیسری رات تھی ایک کھکر بڑھ کر دربان پر چاقو سے حملہ کیا اور بھاگ نکلا اس دربان کے زخمی ہوتے ہی چاروں طرف ایک غلغلہ مچ گیا شاہی خدمت گار بھی سراپردہ کو چھوڑ کر اس زخمی دربان کے پاس پہنچ گئے جب کھکروں نے یہ دیکھا کہ اس وقت شاہی خیمہ خالی ہے اور تمام محافظ اپنے بادشاہ کو تنہا چھوڑ کر زخمی دربان کے گرد جمع ہیں تو وہ لوگ سراپردہ کو پھاڑ کر ہاتھوں میں چھری اور خنجر لینے بادشاہ کی خواب گاہ میں داخل ہوگئے اس وقت دو تین ترکی غلام بادشاہ کے پاس کھڑے تھے لیکن وہ ان کھکروں کو دیکھ کر سخت بدحواس ہوئے ۔ اور خوف کی وجہ سے بے حس و حرکت کھڑے رہے شہاب الدین ابھی اٹھنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ ان سفاکوں نے اس پر حملہ کردیا اور چھروں سے 22 گہرے زخم اس کے جسم پر لگائے اور ایسے عظیم الشان فرمانروا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا سلطان شہاب الدین کا قطعہ تاریخ شہات یہ ہے
تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 152


شہادت ملک بحروبر معز الدین کز ابتدائے جہاں مثل الدنیا مدیکک
سوم زغزہ شعبان بساک ششصرود فتادور رہ غزنی بمنزل رہتک


ہندوستان نے اسلامی حکومت کا بانی محمد غوری

محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملےکیے اور ان تمام حملوں میں اسے فتح نصیب ہوئی مگر اس نے سوائے پنجاب کے باقی کسی علاقہ کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا کیونکہ اس کا مقصد ہندوستان کے دولت حاصل کرنا اور اشاعت اسلام تھا اس کے مقابلے میں محمد غوری ہندوستان پر بہت تھوڑے حملے کیے مگر ان حملوں میں اس نے جس علاقے کو فتح کیا اسے مستقل طور پر اسلامی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس طرح ہندوستان میں مستقل طور پر اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔ اس میں شک نہیں کہ محمود غزنوی اور محمد غوری دونوں زبردست فاتح تھے ۔ اور دونوں میں جنگی قابلیت موجود تھی مگر ان دونوں کی فتوحات میں بڑا فرق تھا محمود غزنوی نے ہندوستان کی دولت لوٹنے پر ہی اکتفا کیا مگر محمد غوری نے اپنی تمام کوششیں ہندوستان کے فتح اور اسلامی حکومت کے قائم کرنے میں صرف کیں اس لئے بجا طور پر اسے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا بانی کہتے ہیں

مسلمانوں کی فتح کی اسباب

مسلمانوں کی فتح کے اسباب حسب ذیل تھے

1  ۔ مسلمان سرد کوہستانی علاقہ کے باشندے ہونے کی وجہ سے راجپوتوں کی بہ نسبت زیادہ بہادر مضبوط اور جنگجو واقع ہوئے تھے

  2۔ مسلمان لوگ فنون جنگ میں زیادہ ماہر تھے اور جنگ کے نئے طریقوں سے واقف تھے مگر راجپوتوں کا فن جنگ پرانا تھا

  3۔ ہندوستان میں پھوٹ کا بازار گرم تھا چھوٹی چھوٹی راجپوت ریاستیں آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی مرکزی حکومت سے دشمن کا متفقہ طور پر مقابلہ نہ کر سکتی تھی 

  4۔ مسلمانوں میں بڑا مذہبی جوش تھا ان کا یقین تھا کہ اگر وہ غیر مسلموں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے تو نے جنت نصیب ہوگی اور وہ شہید کا درجہ حاصل کرلیں گے اور اگر دشمن کو مار لیا تو غازی کا لقب پائیں گے اور فتح کی صورت میں حکومت حاصل ہوگی اس لئے دل و جان سے لڑتے تھے مگر راجپوتوں میں اس قسم کا کوئی خیال نہ تھا

  5۔ مسلمان چونکہ غیر ملک سے آئے تھے اس لیے جانتے تھے کہ شکست ہونے کی صورت میں وطن واپس نہیں جا سکیں گے بلکہ راستے میں ہی قتل ہو جائیں گے اس لئے دل و جان سے بہادری سے لڑتے تھے

  6۔ مسلمانوں کی ساری فوج ایک سپہ سالار کے ماتحت لڑتی تھی  مگر راج پوت فوج مختلف سرداروں کے ماتحت تھی اور ہر قبیلہ اپنے سردار کو مانتا تھا اس لئے مل کر دشمن کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے

۔ جے چند اور پرتھوی راج کی باہمی عداوت سے بھی راجپوتوں کی طاقت کو بہت نقصان پہنچا 7


سلطان شہاب الدین ایک خدا ترس اور رحم دل اور انصاف پسند بادشاہ تھا اگرچہوہ ایک خود مختار حکمران تھا لیکن عالموں اور اولیاء کی صحبت میں بیٹھنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتا تھا اور ان کی عزت اور خدمت کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتا تھا

Monday, 28 January 2019




محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک
سلطان الملت یمین الدولہ سلطان محمود غزنوی:قسط نمبر  03

آفتاب عالم دتگیر پٹیل کروشی 
08105493349



سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات پر ۹۹۷ ؁ ء میں غزنی کا حاکم ہوا ،اس وقت اس کی عمر ۲۶ سال کی تھی۔وہ بڑا بہادر سپاہی اور قابل جرنیل تھا۔تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ محمود دینی اور دنیاوی اعتبار سے کئی ساری خوبیوں کا مالک تھا۔ اپنی بہادری ، عدل و انصاف ، انتظام سلطنت کی وجہ سے مشہور ہوا۔کتاب ’’ منہاج السراج ‘‘ میں جو زجانی لکھتا ہے کہ سلطان محمود کے پیدا ہونے سے ایک گھڑی پہلے اس کے باپ سبکتگین نے خواب میں دیکھا کہ اس کے مکان میں آتش دان کے اندر سے ایک درخت نکلا اور اس قدر بلند ہوا کہ ساری دنیا اس کے سائے میں آگئی، سبکتگین کی جب آنکھ کھلی تو وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کے اتنے میں ایک شخص نے آکر محمود کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی، یہ خبر سن کر سبکتگین کو بے انتہا خوشی ہوئی ، یہی لڑکا بڑا ہوکر ایک بہت بڑا حکمران بنا جسے دنیا آج محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔ 
محمود غزنوی کے حملے: محمود نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے جن میں مندرجہ ذیل بہت مشہور ہیں:

۱۔ جئے پال پر چڑائی : محمود نے پہلا حملہ ۱۰۰۱ ؁ء میں راجہ جئے پال حاکم لاہور پر کیا۔ اس میں راجہ جئے پال کو شکست ہوئی ۔لگاتار شکستیں کھانے سے راجہ جئے پال شرمندگی برداشت نہ کر سکا ۔چنانچہ وہ چتا میں بیٹھ کر زندہ جل مرا۔اس کے بعد اس کا بیٹا انند پال تخت کا مالک بنا۔

۲۔انند پال کی شکست : ۱۰۰۸ ؁ء میں محمود نے انند پال حاکم لاہور پر حملہ کیا ، انند پال نے دہلی، قنوج، اجمیر، گوالیار، کالنجر اور اُجین کے راجاؤں کی مدد سے محمود کا مقابلہ کرنے کے ایک بھاری فوج تیار کی، پیشاور کے قریب لڑائی ہوئی چالیس روز تک خونریز جنگ ہوتی رہی محمود کو شکست ہونے والی تھی کے کہ راجہ انند پال کا ہاتھی ڈر کر پیچھے کو بھاگ نکلا اس سے ہندو فوج میں کھلبلی مچ گئی اور ہندوؤں کی جیت ہار میں تبدیل ہوگئی۔انند پال اس شکست کے بعد ہی مر گیا۔

۳۔ نگر کوٹ ( کانگڑہ) پر حملہ: ۱۰۰۹ ؁ ء میں محمود نے نگر کوٹ کے مندر پر حملہ کیا یہاں کے مشہور مندر سے محمود کو بے انتہا دولت ہاتھ آئی جس کو لوٹ کر محمود واپس غزنی چلا گیا۔

۴۔ قنوج پر حمل اور متھرا کی تباہی: ۱۰۱۸ ؁ ء میں محمود نے قنوج کے مقم پر حملہ کیا ۔ قنوج کے راجہ نے اس کی اطاعت قبول کرلی ۔قنوج سے واپس جاتے اس نے کشمیر اور متھرا کے مندروں کو لوٹا ۔متھرا ہندوؤں کا مشہور تیرتھ ہے۔جس میں سنگ مر مر کے عظیم الشان مندر بنے ہوئے ہیں، محمود نے ان مندروں کو مسمار کر دیا اور مورتیاں توڑ ڈالیں۔یہاں بھی بے شمار دولت محمود کے ہاتھ آئی جس کو لے کر وہ غزنی چلا گیا۔

۵۔ لاہور پر حملہ : ۱۰۲۱ ؁ ء میں محمود نے راجہ جئے پال دوم حاکم لاہور پر حملہ کردیا۔جس میں محمود کو فتح ہوئی اور اس نے پنجاب سلطنت غزنی کا حصہ بنا کر اس پر ایک مسلمان گورنر مقرر کیا ۔


۶۔سومناتھ پر حملہ : محمود کا سب سے مشہور اور آخری حملہ ۱۰۲۴ ؁ء میں سومناتھ کے مندر واقع گجرات پر تھا ،سومناتھ کا مندر اس زمانے میں پرانا اور مقدس خیال کیا جاتا تھااس میں ایک ہزار برہمن پوجا پاٹھ کے لئے اور پانچ سو عورتیں بھجن گانے کے لئے مقرر تھیں۔ ہر روز شِو جی کی مورتی کو گنگا جل سے اشنان کرایا جاتا تھا۔اس کی شہرت سن کر محمود ریگستان سندھ کا ۳۵۰ میل لمبا سفر طے کرکے سومناتھ تک جا پہنچا ۔راجپوتوں نے اس مندر کی حفاظت میں محمود کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تین روز بڑی خونریز لڑائی ہوئی۔آخر محمود کی فتح ہوئی ۔جب محمود مندر میں داخل ہوا تو پچاریوں نے التجا کی کے اگر وہ سومناتھ دیوتا کی مورتی کو نہ توڑے تو وہ اسے بے شمار دولت دینے کو تیار ہیں۔مگر محمود اس بات سے انکار کیا اور فوراََ ہی مورتی توڑ ڈالی اور بے شمار مال و دولت لے کر غزنی چلا گیا ۔

عجیب و غریب بت


’’ جامع الحکایات ‘‘ میں مذکور ہے کہ سلطان محمود نے نہروالہ کے سفر میں شہر کے مندر میں ایک ایسا بت بھی دیکھا جو بغیر کسی سہارے کے ہوا میں معلق تھا ۔سلطان اس بت کو دیکھ کر بہت حیران ہوا، اس نے اپنے دربار کے علماء فضلاء سے اس کی وجہ پوچھی ان لوگوں نے بہت غور وخوص کے بعد جواب دیا کہ اس بت خانے کی چھت اور تمام دیواریں مقناطیسی پتھر کی بنی ہوئی ہیں اور یہ بت لوہے کا ہے ۔آس پاس کی مقناطیسی کشش اور اس بت میں خاص تعلق ہے ہر جگہ کی کشش مساوی ہونے کی وجہ سے بت کسی ایک طرف جھکنے نہیں پاتااور بالکل درمیان میں معلق ہوگیا ہے،اس بات کو آزمانے کے لئے سلطان نے حکم دیا کہ اس بت خانے کی ایک دیوار گرادی جائے فوراََ اس حکم کی تعمیل کی گئی جو نہی ایک جانب کی دیوار گری بت بھی زمین پر گر پڑا۔

محمود کے حملوں کا نتیجہ : محمود نے ہندوستان پر سترا حملے کئے لیکن سوائے پنچاب شامل کرنے کے کوئی اسلامی سلطنت ہندوستان میں قائم نہیں کی ۔اس کا مُدعاہندوستان پر اسلامی حکومت قائم کرنے کا نہیں تھا بلکہ اسکا مقصد ہندوستان کی دولت لوٹنا اور مذہب اسلام کی اشاعت تھا۔اس کے حملوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ پنجاب میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔ مسلمانوں کے لئے باقی ہندوستان فتح کرنا آسان ہوگیا ۔کیونکہ اس کے لگاتار حملوں سے شمالی ہند کی راجپوت ریاستیں کمزور ہوگئیں تھیں۔



محمود کا عدل و انصاف :




محمود کے عدل و انصاف کے بہت سے واقعات مشہور ہیں جس میں سب سے زیادہ مشہور اور اہم واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز ایک شخص محمود کے دربار میں انصاف حاصل کرنے کے لئے حاضر ہواجب محمود اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس شخص نے عرض کیا ’’ میری شکایت ایسی نہیں ہے کہ میں اسے سر دربار سب لوگوں کے سامنے بیان کر دوں ‘‘ محمود فوراََ اٹھا اور اسے اکیلے میں لے جا کر اس کا حال پوچھا اس شخص نے کہا ’’ آپ کے بھانجے نے ایک عرصے سے روش اختیار کر رکھی ہے کہ وہ رات کو مسلح ہوکر میرے گھر پر آتا ہے اور اندر داخل ہوکر مجھے کوڑے مار مار کر باہر نکالتا ہے اور پھر خود تمام رات میری بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے میں نے ہر امیر کو اپنا حال سنایا لیکن کسی کو میری حالت پر رحم نا آیا اور کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ آپ سے یہ بات بیان کرتا جب میں ان امراء سے مایوس ہوگیا تو میں نے آپ کے دربار میں آنا شروع کر دیا ۔اور اس موقع کے انتظار میں رہا کہ جب آپ سے اپنا حال بیان کر سکوں ، اتفاق سے آپ میری طرف متوجہ ہوئے ہیں تو میں نے آپ سے اپنی داستان بیان کر دی ۔خدا وند تعالیٰ نے آپ کو ملک کا حاکم اعلیٰ بنایا ہے اس لئے رعایا اور کمزور بندوں کی نگہداشت آپ کا فرض ہے۔اگر آپ مجھ پر رحم فرما کر میرے معاملے میں انصاف کریں گے تو زہے نصیب ورنہ میں اس معاملے کو خدا کے سپرد کروں گا اور اس کے منصفانہ فیصلے کا انتظار کروں گا ’’ محمود پر ان واقعات کا بہت اثر ہوا اور وہ یہ سب کچھ سن کر رونے لگا اور اس شخص سے یوں مخاطب ہوا ’’ ائے مظلوم تو اس سے پہلے میرے پاس کیوں نہیں آیا اور اتنے دنوں تک یہ ظلم کیوں برداشت کرتا رہا‘‘ اس شخص نے جواب میں کہا ’’ اے بادشاہ میں ایک مدت سے یہ کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح آپ کے حضور حاضر ہو سکوں لیکن دربار کے چوکیداروں اور دربانوں کی روک تھام کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آج میں کس تدبیر اور بہانے سے یہاں تک پہنچا ہوں اور کس طرح ان چوکیداروں کی نظر بچا کر آپ کے حضور میں حاضر ہوا ہوں ہم جیسے فقیروں اور غریبوں کی ایسی قسمت کہاں ہے کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سکطانی دربار میں چلے آئیں اور بادشاہ سے بالمشافہ اپنی اپنی رودادغم بیان کریں ۔محمود نے جواب دیا تم یہاں مطمئن ہو کر بیٹھو ، لیکن اس ملاقات کا حال کسی کو نہ بتانا اور اس بات کاخیا ل رکھو کہ جب وہ سفاک تمہارے گھر میں آکر تمہاری بیوی کی آبرو ریزی کرے تو فوراََ اسی وقت مجھے اطلاع دینا پھر میں تمہارے ساتھ انصاف کروں گا اس سفاک کو اس کی بدکاری کی سزا دوں گا۔ ’’ اس شخص نے یہ سن کر کہا ۔۔۔۔’’ اے بادشاہ ! مجھ جیسے نادار شخص کے لئے یہ ناممکن ہے کہ جب چاہوں بلا کسی روک ٹوک کے آپ سے مل سکوں ‘‘ اس پر محمود نے اسی وقت دربانو ں کو بلایا اور ان سے اس شخص کو متعارف کروا کر دربانوں کو حکم دیا ۔’’جس وقت بھی یہ شخص ہمارے حضور میں آنا چاہے اسے بغیر کسی اطلاع اور روک ٹوک کے آنے دیا جائے اس سے کسی قسم کی باز پرس نہ کی جائے۔‘‘
ان دربانوں کے رخصت کے بعد سلطان محمود نے اس شخص سے چپکے سے کہا ’’ اگر چہ میرے حکم کے مطابق یہ لوگ تمہیں یہاں آنے سے روکنے کی جرات نہ کریں گے، لیکن پھر بھی احتیاطََ تمہیں یہ بتائے دیتا ہوں کہ اگر کبھی اتفاقاََ چوکیدار میرے آرام کا عذر کرکے تمہیں روکنا چاہیں اور میرے پاس نہ آنے دیں تو تم فلاں جگہ سے چھپ کر چلے آنا اور آہستہ سے مجھے آواز دینا میں یہ آواز سنتے ہی تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا اس گفتگو کے بعد محمود نے اس شخص کو رخصت کیا اور خود اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
وہ شخص اپنے گھر آیا دو راتیں تو آرام سے گزار دیں اور کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا اسے محمود سے ملاقات کی ضرور پیش آتی۔ تیسری شب اس شخص کا رقیب ( یعنی سلطان محمود کا بھانجا) حسب دستور اس کے گھر آیا اور اسے مار کر گھر سے نکا ل دیا اور خود اس کی بیوی کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہوگیا۔ وہ شخص اسی وقت دوڑتا ہوا بادشاہی محل کی طرف آیا اس نے دربانوں سے کہا کہ بادشاہ کو اس کی آمد کی اطلاع دی جائے ۔دربانوں نے جواب دیا بادشاہ اس وقت دیوان خانے کی بجائے اپنی حرم سرا میں ہے اس لئے اس تک اطلاع کا پہنچانا نا ممکن ہے‘‘ وہ شخص مایوس ہوکر اس جگہ پہنچا جس کے بارے میں سلطان نے اس کو بتارکھا تھا یہاں اس نے آہستہ سے کہا ’’ اے بادشاہ اس وقت آپ کس کام میں مشغول ہیں ؟ ‘‘ سلطان محمود نے جواب دیا ٹہرو میں آتا ہوں ‘‘ تھوڑی دیر کے بعد محمود باہر آیا اور اس شخص کے ساتھ اس کے گھر پہنچا وہاں جا کر سلطان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کا بھانجا اس غریب شخص کی بیوی سے ہم آغوش ہو کر سویا ہوا ہے اور شمع اس کے پلنگ کے سرہانے جل رہی ہے ۔محمود نے اسی وقت شمع کو بجھایا اور اپنا خنجر نکال کر اس ظالم کا سر تن سے جدا کردیا اس مظلوم شخص سے کہ جس کے گھر میں محمود آیا ہو ا تھا محمود نے کہا ’’ ائے بندہء خدا ایک گھونٹ پانی اگر تجھے مل سکے تو فوراََ لے آ تاکہ میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
اس شخص نے فوراََ پیالے میں پانی لاکر سلطان کی خدمت میں پیش کیا ۔محمود نے پانی پیا اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نادار سے یوں مخاطب ہوا ۔’’ اے شخص اب تو اطمینان کے ساتھ آرام کر میں جاتا ہوں ‘‘اور رخصت ہونے لگا لیکن اس شخص نے بادشاہ کا دامن پکڑ لیا اور کہا ’’ ائے بادشاہ ! تجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس نے تجھے اس عظیم الشان مرتبے پر سرفراز کیا ہے تو مجھے یہ بتا کہ شمع گل کرنے اور سفاک کا سر تن سے جدا کرنے کے فوراََ بعد پانی مانگنے اور پینے کی وجہ کیا ہے اور تو نے کس طرح اس قصے کو ختم کیا۔’’ سلطان محمود نے جواب دیا ۔ائے شخص میں نے تجھے ظالم سے نجات دلا دی ہے اور اس ظالم کا سر میں اپنے ساتھ لئے جاتا ہوں ۔شمع کو میں نے اس لئے بجھا دیا تھا کہ کہیں اس کی روشنی میں مجھے اپنے بھانجے کا چہرہ نظر نہ آجائے اور میں اس پر رحم کھا کر انصاف سے باز نہ رہ سکوں ۔ پانی مانگ کر پینے کی وجہ یہ تھی کہ جب تم نے مجھ سے اپنی روداد غم بیان کی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ جب تک تمہارے ساتھ پورا پورا انصاف نہ ہوگا تب تک نہ میں کھانا کھاؤں گا نہ پانی پیوں گا‘‘ قارئینِ کرام اس قصے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر چہ تاریخوں میں بادشاہوں کے عدل و انصاف کے بہت سے قصے لکھے ہیں لیکن ایسا قصہ کسی بادشاہ کے متعلق نہیں ملتا ۔( و اللہ اعلم بالصواب ) تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر ۹۰

جب سلطان محمود غزنوی کی قبر کو کھولاگیا تو کیا ہوا؟





1974 میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیاجس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال سے مرے ہوئے اور تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت ، ہزار سال گزرنے کے باوجود ، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو جس آدمی نے کھولا تو پلٹ کر پیچھے گرا اور بےہوش ہوگیا تو جب پیچھے لوگوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سلطان جو تینتیس سال حکومت کرکے مرا اور مرے ہوئے ہزار سال گزر چکے ہیں وہ اپنے تابوت میں ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور اس کا سیدھا ہاتھ سینے پر تھا الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں اور ہزار سال مرے بیت چکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھلک دیکھائی کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ بادشاہ بھی ہو گئے تو وہ اللہ کے محبوب بن کے اللہ کے پیارے بن کے اللہ کے دربار میں کامیاب ہو کر پیش ہوگے۔

محمود ایک بہاد سپاہی ،زبردست جرنیل اور عظیم الشان فاتح تھا۔ محمود بڑا علم دوست اور فارسی علم ادب کا مربی تھا۔اسی لئے اس کے دربار میں فردوسی، البرونی ،عنصری اور بلخی جیسے عالم اور شعراء موجود تھے۔ اس نے اپنے دارالخلافہ غزنی میں کئے عظیم الشان مساجد اور محلات تعمیر کروائے ،چشمے حوض اور حمام بنوائے ۔اشاعت علم کے لئے اس نے ایک یونیورسٹی قائم کی اس کے ساتھ ایک لائبریری اور ایک عجائب گھر بھی بنوایا ، طلباء کے لئے وظائف مقرر کئے۔ اس طرح اس نے بے شمار دولت اپنے وطن کی ترقی اور رعایا کی بہتری میں خرچ کی۔ ۱۰۳۰ ؁ء میں ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی۔

Sunday, 27 January 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک 

امیر ناصر الدین سبکتگین قسط 02


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی

بلگام کرناٹک

 08105493349





سبکتگین
(امارت.
۹۷۷- ۹۹۷ میلادی)
امیر غزنه
بغراچق
(
۹۹۷- ?)
والی هرات
'محمود
(
۹۹۸-۱۰۳۰)
سلطان غزنه
ابوالمظفر نصر
(
۹۹۷- ?)
والی بست
اسماعیل
(
۹۹۷-۹۹۸)
امیر غزنه
محمد
(
۱۰۳۰)
سلطان غزنه
مسعود
(
۱۰۳۰-۱۰۴۱)
سلطان غزنه
عبدالرشید
(
۱۰۴۹-۱۰۵۲)
سلطان غزنه
مودود
(
۱۰۴۱-۱۰۴۸)
سلطان غزنه
علی
(
۱۰۴۸-۱۰۴۹)
سلطان غزنه
فرخزاد
(
۱۰۵۳-۱۰۵۹)
سلطان غزنه
ابراهیم
(
۱۰۵۹-۱۰۹۹)
سلطان غزنه
مسعود دوم
(
۱۰۴۸)
سلطان غزنه
مسعود سوم
(
۱۰۹۹-۱۱۱۵)
سلطان غزنه
شیرزاد
(
۱۱۱۵-۱۱۱۶)
سلطان غزنه
ارسلان‌شاه
(
۱۱۱۶-۱۱۱۷)
سلطان غزنه
بهرام‌شاه
(
۱۱۱۷-۱۱۵۷)
سلطان غزنه
خسروشاه
(
۱۱۵۷-۱۱۶۰)
سلطان غزنه
خسروملک
(
۱۱۶۰-۱۱۸۶)
سلطان غزنه



محمد بن قاسم کے ہندوستان کی آمد کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا ، اگر اس کی بنیادی وجہ دیکھی جائے تو اس دور میں مسلمان آفریقہ اور یوروپی ممالک کی فتوحات میں مصروف تھے۔ایک مدت کے بعد امیر ناصر الدین سبکتگین نے بر صغیر ہند و پاک کے علاقے کو فتح کرنے کی کوشش کی اگرچہ سبکتگین کی فتوحات کا سیلاب دریائے سندھ سے آگے نہ بڑھا مگر اس کے باوجود اس کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔اکثر و بیشتر مورخین کا کہنا ہے کے نصر حاجی نام کا ایک سوداگر تھا اس نے سبکتگین کو ترکستان سے بخارا لا کر الپتگین کے ہاتھوں فروخت کیا،الپتگین نے سبکتگین کے چہرے پر عقل و دانش کے آثار دیکھ کر اسے اپنے مخسوص حلقے میں شامل کرلیا۔اور کچھ ہی عرصہ میں سبکتگین ایک بہترین منتظم بن کر ابھرا۔اور کئی سارے علاقے فتح کر لئے بخارا کی فتح کے بعد سبتگین نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔اور ۳۶۷ھ کے آخر میں ہندوستان پہنچ کر کئی سارے علاقے اور قلعے فتح کر لئے اور اکثر و بیشتر جگہوں پر مسجدیں بھی تعمیر کروائیں اور مالِ غنیمت لے کر کامیاب اور بامراد اپنے ملک غزنی پہنچا۔اسی دور میں جئے پال نامی راجا تھا جس کی حکومت سر ہند سے لمغان تک اور کشمیر سے ملتان پھیلی ہوئی تھی۔راجا جئے پال جانتا تھا وہ دن دور نہیں جب مسلمان اس کے علاقے میں پہنچیں گے ، ان حملوں کو روکنے کے لئے بھٹنڈہ میں مقیم تھا۔ سبکتگین اپنی فوج لے کر راجا جئے پال پر حملے کے لئے نکل پڑا جب اس کی اطلاع راجا کو ملی تو یہ بھی اپنی فوج لے کر ملتان کی سرحد پر پہنچ گیا، اس جنگ میں سبکتگین کا بیٹا سلطان محمود غزنوی بھی تھا ۔کئی دنوں تک جنگ جاری رہی مگر فاتح اور مفتوح کی تمیز کرنا دشوار تھی۔ایک دن ایک گروہ نے سلطان محمود سے جا کر کہا کہ راجا جئے پال کی فوج جہاں مقیم ہے وہاں قریب ہی ایک چشمہ ہے ،جس کی خاصیت یہ ہے اگر اس میں تھوڑی سی نجاست ڈال دی جائے تو آندھی کے تیز تھپیڑوں ، بادل کی گرج اور بجلی کی چمک دمک سے فوراً ایک طوفان بپا ہوجاتا ہے۔یہ سن کر سلطان محمود نے حکم دیا کہ اس چشمے میں فوراًنجاست ڈالی جائے۔سلطان کے حکم کی تعمیل کی گئی نجاست جونہی چشمے میں پڑی آسمان پر انتہائی گہرے بادل چھا گئے، اور پورا ماحول سرد ہو گیا جس کی وجہ سے کئی گھوڑے اور دیگر جانور مارے گئے،راجا جئے پال نے جب دیکھا کہ اس مصیبت سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے تو اس نے صلح کرنے کی غرض سے سبکتگین کے پاس اپنا ایلچی بھیجا ، اور سبکتگین کو یہ پیغام دیا کہ اگر یہ جنگ بند کرو گے تو اپنے ملک میں سبکتگین کا حکم چلائے گا، اور کوہ پیکر ہاتھیوں کی کچھ قطاریں اور چند بیش قیمت تحفے دے گا اور ہر سال خراج اور جزیہ کی قیمت ادا کرتا رہے گا۔سبکتگین نے انسانی ہمدردی کے پیش نظر اس درخواست کو قبول کیا مگر سلطان محمود اس بات سے راضی نہیں تھا۔راجا جئے پال نے ایک سمجھدار ایلچی سلطان محمود کی خدمت میں روانا کیا۔ اس ایلچی نے راجا کا پیغام دیا کہ ( ابھی آپ اہل ہند اور خاص طور پر راجپوتوں کی جہالت اور تعصب کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ،اس قوم کی جہالت اور بے فکری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا تو یہ آخر کار مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتے ہیں کہ اپنا تمام مال اور بیش قیمت اشیاء مایوس ہوکر آگ کی نظر کرتے ہیں۔اور اس فعل کو اپنی آخرت کی بہبودی تصور کرتے ہیں ۔اگر اس کے بعد بھی مصیبت سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو اپنے قدیم رواج کے مطابق اپنی عورتوں کو نذرِ آتش کردیتے ہیں، اور پھر جب یہ دیکھتے ہیں ان کے پاس دنیاوی مال و متاع نہیں رہا تو یہ دشمن سے زبردست معرکہ آرائی کرتے ہیں۔ اور اس معرکہ میں خود کو فنا کر دیتے ہیں۔ اب ان کی مصیبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اپنے پرانے دستور کے مطابق عمل کریں اگر آپ کو ان کی تباہی و بربادی ہی منظور ہے تو خیر ورنا بہتر یہ ہے کہ آپ صلح کرکے ہم سب کا اپنا ممنوع بنا لیں۔جب سلطان نے یہ باتیں سنی تو صلح کے لئے حامی بھر لی۔اور سلطان نے یہ شرط رکھی کے راجا جئے پال ایک لاکھ درہم اور ۵۰ ہاتھی بطور نذرانہ پیش کرے۔راجا چونکہ اس جنگ سے نجات چاہتا تھا اس لئے اس نے اپنے خاص وزیر جس کا نام دولت تھا اسے گروی سلطان کے پاس رکھ دیا اور مسلمان فوجی دستے کو اپنے علاقے میں لے گیا تاکہ شرط پوری کی جائے مگر اپنے ملک پہنچتے ہی اس نے دھوکا دے دیا اور سبکتگین کو یہ پیغام بھیجا کے اگر وہ اپنے مسلمان سپاہی چاہتا ہے تو اس کے وزیر کو رہا کر دے ،اس پیغام کے بعد سبکتگین اور سلطان محمود آگ بگولہ ہو گئے۔سبکتگین اس کی بد عہدی کی سزا دینے کے لئے ہندوستان کا رخ کیا ،ادھر راجا جئے پال نے دہلی، کالنجر، قنوج، اور اجمیر کے راجاؤں کے ساتھ مل کر ایک بڑی فوج تیار کی مورخین لکھتے ہیں اس وقت راجا جئے پال کے پاس ایک لاکھ کا لشکر تھا۔سبکتگین ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر جئے پال کی فوج پر ایک نظر کی تو فوجیوں کا ایک سمندر نظر آرہا تھا ، اتنا بڑا لشکر دیکھ کر مسلمان فوج کی کہیں ہمت پست نہ ہو جائے اس لئے سبکتگین نے جہاد کے ثواب اور فوائد سے آگاہ کیا۔اور پانچ پانچ سو فوجیوں کے دستے بنائے اور دستوں کو حکم دیا کے باری باری دشمن پر حملہ کرے سبکتگین کے حکم کے مطابق فوجیوں نے باری باری حملہ کر کے راجا جئے پال کی فوج کو میدان جنگ چھوڑنے پر مجبور کیا اس جنگ سے راجا جئے پال بھی فرار ہوگیا اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ بہت سارا مال غنیمت آیا اور لغمان و پشاور کے ملک اور دریائے نیلاب تک کے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔


سبکتگین کا ایک عجیب و غریب واقعہ


جامع الحقایت میں لکھا ہے کہ نیشاپور میں جب امیر ناصر الدین ، الپتگین کی ملازمت میں تھا تو اس کے پاس صرف ایک گھوڑا تھا اور وہ تمام دن اسی گھوڑے پر سوار ہوکر جنگل میں گھوما کرتا تھااور جانورں کا شکار کیا کرتا تھا۔اس نیدیکھا کے ایک ہرنی مع اپنے بچے کے جنگل میں چر رہی ہے۔ سبکتگین نے اسے دیکھتے ہی اپنے گھوڑے کو دوڑایا اور ہرنی کے بچے کو پکڑ لیا۔اور اس کے پیر باندھ کر اس بچے کو اپنی زین سے باندھ دیا اور شہر کی طرف روانا ہوا۔ ابھی وہ کچھ ہی دیر گیا ہوگا اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کے وہ ہرنی پیچھے پیچھے آرہی ہے اور اس کی صورت سے رنج کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ عالم دیکھ کر سبکتگین کو اس بے زبان جانور پر بہت رحم آیا اور اس نے بچے کو چھوڑ دیا ، ہرنی اپنے بچے کی رہائی سے بہت خوش ہوئی اور بچے کو ہمراہ لے کر جنگل کی طرف چل پڑی اور تھوڑی تھوڑی دور چل کر سبکتگین کی طرف دیکھ لیتی تھی جیسے اپنی خوشی کا اظہار کر رہی ہو۔جس دن کا یہ واقعہ ہے اسی رات کو سبکتگین نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا۔انہوں نے فرمایا "ائے ناصر الدین تو نے ایک بے زبان جانور پر جو رحم کیا وہ خدا وند تعالیٰ کے دربار میں بہت مقبول ہوا لہٰذا اس کے صلے میں تجھے چاہیے کہ یہی طریق اختیار کرے اور کبھی رحم کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ یہ طریق دین و دنیا کا سرمایہ ہے"اس نیک دل بادشاہ نے ساری عمر عدل اور انصاف کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیااور ایک مثالی حکومت قائم کر کے دکھلائی۔


سبکتگین کا انتقال

 
ترجمہ یمینی یعنی مشہور تاریخ یمینی میں لکھا ہے کہ سبکتگین نے اپنی وفات سے چند روز قبل ایک دن شیخ ابو الفتح سے دوران گفتگو میں کہا ہم انسان نازل شدہ مصائب کو دور کرنے کی تدابیر اور لاحق شدہ امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں ایسی ہی بات ہے جیسے کہ قصاب سے بھیڑ کو اس کے بال کرنے کے لئے پہلی مرتبہ زمین پر پٹکتا اور اس کے پاؤں مضبوطی سے باندھ دیتا ہے بھیڑ اپنے اوپر ایک نئی اور عجیب مصیبت دیکھ کر زندگی سے مایوس ہو جاتی ہے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے لیکن قصاب اپنے کام سے فارغ ہو کر اسے آزاد چھوڑ دیتا ہے اور خوشی سے اچھلنے کودنے لگتی ہے دوسری مرتبہ پھر جب قصاب اسے پکڑتا ہے تو وہ ایک شب شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتی ہے خوف اور امید دونوں کا اسے خیال رہتا ہے یعنی وہ یہ خیال بھی کرتی ہے کہ اسے ذبح کر دیا جائے اور ساتھ یہ امید بھی ہوتی ہے کہ گزشتہ موقع کی طرح اس بار بھی اسے رہا کر دیا جائے گا اور جب قصاب اس کے بال کتر کر اسے آزاد کردیتا ہے تو پھر خوش ہو جاتی ہے اور خوف کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے تیسری مرتبہ جب قصاب اسے ذبح کرنے کے خیال سے زمین پر گراتا ہے تو اس کے دل میں کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور وہی خیال کرتی ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی تھوڑی سی دیر کے لئے اس کی آزادی سلب کی گئی ہے اور کچھ لمحوں کے بعد وہ پہلے کی طرح آزاد ہوجائے گی اور بے خبری اور بے خوفی کے عالم میں رہتی ہے اور اسی عالم میں اس کے گلے پر چھری پھیر دی جاتی ہے اور دنیا سے گزر جاتی ہے ہم انسان بھی چونکہ ہمیشہ طرح طرح کی مصیبتوں اور نت نئے امراض میں آئے دن مبتلا ہوئے رہتے ہیں اس لئے ہر مصیبت اور ہر مرض میں اس سے رہائی کا خیال کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ آخری مصیبت موت کا پیغام لے کر آتی ہے اور اسی غفلت کے عالم میں ہمارے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر ہمیں اس دنیا سے لے جاتی ہے مورخین لکھتے ہیں کہ سبکتگین نےیہ باتیں اپنی موت سے چار روز قبل کہی تھی واللہ و اعلم بالصواب(تاریخ فرشتہ جلد اول ص نمبر56)

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...