Friday, 4 October 2024

بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے" ۔ ۔ ۔ ۔ بہت سفر ہونا ضروری ہے تاکہ خام پکا بن جاوئے ۔ ۔ ۔ ۔

بسم  اللہ الرحمن الرحیم

کرناٹک اردو اکادمی بنگلور کا سفر

’’بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے‘‘

بہت سفر ہونا ضروری ہے تاکہ خام پکا بن جاوئے


آفتاب عالم دستگیر پٹیل ( شاہ نوری) 

کروشی بلگام کرناٹک 

8105493349


اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے، ہر ایک نعمت ایسی عظیم جس کا شکر ادا کرنے کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کی عمر بھی کم ہے۔ ان میں علم حاصل کرنے کے لیے جو اسفار ہوتے ہیں -چاہے دینی ہو یا دنیوی -یہ بھی عظیم نعمت ہے۔ اس بار کا میرا ’’کرناٹک اردو اکادمی بنگلور‘‘ کا سفر یقیناً ایک عظیم نعمت کے طور پر ثابت ہوا۔

میرا یہ مضمون دراصل سفرنامہ،شیری اور نثری کارگاہ کی رپورٹ کا ایک حسین امتزاج ہے۔ شُعراء، اُدبا کے پروگرام کے افتتاحی جلسے کے بعد مَیں بے صبری سے منتظر تھا کہ کب ان کلاسس کا آغاز ہوگا ؟ الحمدللہ، اللہ کے فضل و کرم سے وہ دن آ ہی گیا۔ اِس پروگرام کی تاریخ 21 ؍ستمبر 2024  سے 23 ؍ستمبر 2024 تک کی تھی۔اس سفر کے ساتھیوں میں مولانا حبیب اللہ صاحب،مفتی نوشاد صاحب، مولانا آصف صاحب، اشرف بھائی اور میں خاکسار آفتاب عالَم شاہ نوری رہے۔ ہمارے سفر کا آغاز جمعہ کے روز 20؍ ستمبر رات نو بجے ’’بیلگام‘‘ سے شروع ہوا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگ آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ میرا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے کہ مجھے کسی بھی نئی جگہ پر نیند نہیں آتی، جب تک کہ دو تین دن اس جگہ سے مانوس نہ ہو جاؤں۔ رات بھر کے سفر کے بعد ہم بہ وقت ساڑھے سات بجے کے قریب بنگلور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ چوں کہ مولانا حبیب اللہ صاحب اور مولانا آصف صاحب کی کلاس اگلے روز کی تھی؛ اس لیے وہ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی زیارت کے لیے ’’سری رنگا پٹن‘‘ چلے گئے۔ اور ہم تین لوگ بنگلور اسٹیشن سے قریب ’’مستان شاہ ولی درگاہ‘‘ کی طرف روانہ ہو گئے۔ چوں کہ درگاہ کے احاطے میں ایک عالی شان مسجد ہے وہیں پر ضروریات سے فارغ ہو کر ٹھیک ساڑھے نو بجے ہم ’’کرناٹک اردو اکادمی‘‘ کے دفتر پہنچ گئے۔ دفتر چوں کہ کھلا نہیں تھا، وہیں سے سید عرفان اللہ قادری صاحب کو فون کیا، وہ بھی چند منٹوں میں کرناٹک اردو اکادمی کے ممبر محترم جناب منیر احمد جامی صاحب کو لے کر پہنچ گئے۔ اِس پروگرام کی ساری ذمہ داری دراصل کرناٹک اردو اکادمی کی ایک متحرک شخصیت: محترم جناب منیر احمد جامی صاحب کے ذمے تھی۔ 

منیر احمد جامی صاحب کو جب بھی دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ شعر گونج اٹھتا ہے:

فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں

یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے

(نامعلوم)





اکادمی پہنچنے کے بعد منیر احمد جامی صاحب اور سید عرفان اللہ قادری نے پُرجوش ہو کر ہمارا استقبال کیا، ہمیں گلے سے لگایا۔ کولکاتہ کے مشہور و معروف شاعر: انظار البشر صاحب کی حافظ کرناٹکی پر لکھی ہوئی کتاب بہ طور ہدیہ منیر احمد جامی صاحب اور سید عرفان اللہ قادری صاحب کو پہنچانے کے بعد ہم لوگ اکادمی کے دفتر میں دیگر احباب کے انتظار میں لگے رہے۔ ٹریننگ حاصل کرنے والے احباب وقفے وقفے سے آنے لگے، ہمارے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی ہمیں ٹریننگ دینے والے ہمارے استاد محترم: قدیر سرگرو سر -جو کرناٹک اردو اکادمی کے سابق چیئرمین ہیں- بھی پہنچ گئے؛ تھوڑی دیر بعد اکادمی کے رجسٹرار صاحب معاذالدین صاحب بھی پہنچ گئے۔ مختصر سے افتتاحی پروگرام کے بعد ہمارے سیشن کا آغاز ہوا۔قدیر سر ایک نکھری ہوئی شخصیت کے مالک ہیں، نام و نمود سے کوسوں دور؛ مگر خود میں علم کا ایک سمندر لئے پھرتے ہیں، جو وقفے وقفے سے قیمتی جملوں اور علوم کی شکل میں ہم جیسے علم کے پیاسوں کو سیراب کرتے ہیں۔ 

آئیے احباب! محترم جناب قدیر سر کے سیشن کے متعلق بات کرتے ہیں: اس سیشن کا عنوان تھا: حمد، نعت اور غزل۔ بات کی شروعات کرتے ہوئے سر نے ادب کے دو حصوں کے متعلق بتایا: پہلا نثر، دوسرا نظم؛ اور نثر اور نظم کا صحیح تلفُّظ کس طرح سے ادا کیا جاتا ہے؟ وہ بھی ہمیں بتایا ۔ فنکار کے لیے ضروری ہے کہ فن پر مکمل عبور حاصل کر لے، اس کے بغیر شاعری میں پختگی نہیں آ سکتی۔۔ پھر اس کے بعد سر نے اہلِ زبان کا مختصر تعارف کرایا، کہ کون ہیں؟ اور کسے کہا جاتا ہے؟ ’’اہل زبان‘‘ دراصل دو الفاظ سے مل کر بنا ہے: ’’اہل‘‘ اور ’’زبان‘‘؛ اہل یعنی والے ،اور زبان یعنی جسے ہم عام روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں، اہلِ زبان یعنی: زبان والے۔ 

مزید اس چیز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: اہل زبان وہ ہیں جن کو فطری طور پر زبان حاصل ہوتی ہے۔ لفظ ’’فطری‘‘ کو سمجھانے کے لیے انہوں نے یوں کہا: مچھلی کا تیرنا فطری ہے، اور انسان کا تیرنا مشقی ہے۔  واہ! کیا بہترین انداز ہے! بات اس انداز سے سمجھائی کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ یقیناً ایسی باتیں ہمیں وسیع مطالعے سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ جغرافیہ اعتبار سے سمجھاتے ہوئے سر نے کہا کہ: شمالی ہند والے اہل زبان ہیں، اور جنوب والے زبان دان ہیں۔سر کے مطابق زبان پر گرفت ہونا بے حد ضروری ہے۔سر نے مزید قواعد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’’صَرف‘‘ کا تعلق لفظ سے ہے اور ’’نحو‘‘ کا تعلق جملے سے ہے۔ مزید نصیحت کرتے ہوئے کہ: اہل زبان کی کتابیں پڑھا کریں اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ ’’نظم‘‘ سے مراد: جچا تلا کلام، موزوں کلام؛ اور نثر سے مراد: بکھرا ہوا کلام، غیر موزوں کلام۔ 

چلو اس کی اہمیت اور افادیت کو بتاتے ہوئے چند مثالیں بتائیں۔ پھر انہوں نے تلفظ معلوم کرنے کے طریقے بتائے:

اہلِ زبان سے تلفظ سنا جائے۔

لغت کا استعمال کیا جائے۔

اساتذہ کا شعر پڑھیں جس میں وہ لفظ شامل ہے۔ 

مزید تلفظ کے متعلق ایک لفظ ’’شمع‘‘ بتایا، جسے اکثر و بیشتر افراد غلط پڑھتے ہیں۔ لفظ ’’شعر‘‘ کی تعریف کی اور یوں کہا کہ: شعر دو مصرعوں کا مجموعہ ہوتا ہے، مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی۔ مصرع لگانا اور مصرع اٹھانا کے تعلق سے بھی مختصر معلومات فراہم کی۔ 

قدیر سر کے مطابق شعر کی عمارت کو اٹھانے کے چار طریقے ہیں: (۱)لفظ  (۲)وزن (۳)معنیٰ  (۴)قافیہ۔

ہم وزن الفاظ کی معلومات فراہم کرنے کے بعد عماراقبال صاحب کا ایک خوبصورت شعر پڑھا:

ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا

تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جاسکتے ہو

(عمار اقبال)

اس کے بعد قدیر سر نے غزل کا رخ کیا ۔ غزل کے معنیٰ و مفہوم کو اہلِ مجلس سے پوچھتے رہے، اور معلومات فراہم کرتے رہے۔ قدیر سر نے شمسی حرف اور قمری حرف کا مختصر تعارف کرایا، اور ساتھ ہی ساتھ چند مثالیں دیں۔

 ؁2005 میں جس وقت مَیں ’’بیجاپور‘‘ میں ڈی ایڈ کا طالب علم تھا، ہمارے اساتذہ نے ہمیں تدریس کے چند گُر سکھائے تھے، ان میں یہ بھی بتایا تھا کہ: ’’آسان سے مشکل کی طرف جایا جائے، کسی بھی کام کو آسانی سے مشکل کی طرف کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھنا چاہیے‘‘۔ بالکل یہی بات ہمارے قدیر سر نے ارشاد فرمائی کہ: شاعری میں بھی آسان سے مشکل کی طرف بڑھا جائے۔ شروع کے دور کی غزلوں میں اور موجودہ دور کی غزلوں میں فرق کو بتاتے ہوئے سر نے کہا کہ: پرانے دور کی غزلوں کے اکثر و بیشتر اشعار محبوب کے گالوں اور بالوں پر ہی محیط تھے؛ مگر دورِ جدید میں حالاتِ حاضرہ پر شاعری کی جا رہی ہے؛ غزل ہر دور میں بدلتی رہی۔ مجھ خاکسار (آفتاب عالم شاہ نوری) کے مطابق غزل کی مثال اس  پیمانے کی سی  ہے جس میں جونسی بھی مائع چیز ڈالی جائے، اپنے اندر سمو لیتی ہے،  غزل بھی بالکل اسی طرح اپنے اندر بدلتے ہوئے دَور کے مضامین اور مواد کو سمو لیتی ہے۔ 

تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا

ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے

(شاعر جمالی)

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

(منور رانا)

غزل کی بات کو جاری کرتے ہوئے انہوں نے غزل کے تعلق سے کچھ یوں کہا کہ: غزل کا پہلا شعر ’’مَطلع‘‘ کہلاتا ہے جو ’’ہم قافیہ‘‘ اور ’’ہم ردیف‘‘ ہوتا ہے۔ ’’مطلع‘‘ لفظ ’’طلوع‘‘ سے نکلا ہے، اگر شاعر مطلع کی طرح دوسرا مطلع کہے، تو اسے ’’حسنِ مطلع‘‘ کہتے ہیں۔ غزل کے بہترین شعر کو ’’شاہ بیت‘‘ یا ’’بیت الغزل‘‘ کہا جاتا ہے،غزل کے آخری شعر کو ’’مقطع‘‘ کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے تخلص کا استعمال کرتا ہے۔ بھرتی کے شعروں کا بھی مختصر مفہوم سمجھایا ۔ ساتھ ہی سر نے ایک نکتے کی بات یہ فرمائی کہ: غزل میں کئی کئی نظموں کا لطف ہوتا ہے۔ شاعری میں منظر نگاری کی اہمیت بتاتے ہوئے ایک شعر یہ پڑھا:

مَیں نے کہا کہ:بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

(مرزا غالب)

اس شعر کے ساتھ قدیر سر نے پہلے سیشن کا اختتام کیا، آخر میں منیر احمد جامی صاحب نے مزید بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ: اردو شاعری میں ’’استاد شاعر‘‘ صرف سات شعراء کو کہا جاتا ہے، ان میں سے ان کے ذہن میں جو دو نام تھے انہوں نے بتائے: بہزاد لکھنوی، اور آرزو لکھنوی؛ امید کرتے ہیں کہ آنے والے سیشن میں بقیہ پانچ نام ہمیں ضرور بتائیں گے؛ تاکہ اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو۔ جامی صاحب نے ’’جانسن‘‘ نام کے ایک مفکر کا قول بتایا کہ:’’ہر انسان اپنی جگہ شاعر ہے‘‘۔ مزید بات کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ: ایک عام انسان اور شاعر میں فرق یہ ہے کہ شاعر کو اللہ تعالیٰ نے قوتِ اظہار دی ہے۔ 

اس طرح سر کی اِن جملوں کے ساتھ ہمارے اس سیشن کا اختتام ہوا۔دوپہر کے کھانے کا انتظام ’’کرناٹک اردو اکادمی‘‘ کی جانب سے تھا۔ ہم سب لوگوں نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد ہم تین لوگ ’’شیواجی نگر‘‘ کی طرف چل پڑے، جہاں ہمارے رہنے کا انتظام مولانا آصف صاحب نے مدرسے میں کیا تھا۔ بنگلور کے تعلق سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ: جتنی آبادی مکانوں اور کمپنیوں میں بستی ہے، اس سے کہیں زیادہ آبادی راستوں میں ٹرافک کی صورت میں چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ پے در پے رفتار شکن راستے پر ٹرافک سے گزرتے ہوئے ہم لوگ شیواجی نگر کے مدرسے میں پہنچے۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر ہم لوگوں نے آرام کیا، اور شام کے قریب شیواجی نگر مارکیٹ گھومنے اور کچھ خریداری کی غرض سے نکلے۔ 

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

(ناصر کاظمی)

راستے کی دکانیں اور اس پر سجی ہوئی چیزیں مجھے بار بار پکارتی تھیں کہ: ’’آؤ! مجھے خریدو، مَیں ضرورت کی چیز ہوں، مجھے لے لو‘‘، میں اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتا گیا۔ عین اُسی وقت ہمارے کرم فرما  :اسلم بھائی کا فون آیا، جواصلاً تو ’’کُڑچی‘‘ کے رہنے والے ہیں؛ مگر برسوں سے بنگلور میں مقیم ہیں، یا یوں کہیں کہ: یہیں کے بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم سب ساتھی ان کی کار میں سوار ہو کر شیواجی نگر میں موجود تبلیغی مرکز ’’سلطان شاہ‘‘ پہنچے، یہاں ہم لوگوں نے عصر اور مغرب کی نماز ادا کی۔ مغرب کے بعد میں اپنے معمولات پورے کرنے میں لگ گیا۔ معمولات سے فراغت کے بعد بچوں کے لیے اور اپنے لیے چند عربی جبے خریدے۔ وہاں سے ہم تینوں لوگ چلتے چلتے ’’رسل مارکیٹ‘‘ تک پہنچے۔ یہی وہ مارکیٹ ہے جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ: براعظم ایشیا میں سب سے پہلے بجلی کے قمقمے ان ہی راستوں پر روشن ہوئے تھے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد مولانا حبیب اللہ صاحب اور مولانا آصف صاحب ’’سری رنگا پٹن‘‘ سے واپس آئے، ہم سب نے مل کر کھانا کھایا، اور واپس مدرسے کی جانب نکلے جہاں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سو گئے۔

فجر کی نماز کے لیے جاگے اور مفتی نوشاد صاحب کی امامت میں ہم سب لوگوں نے مل کر نماز فجر ادا کی۔ نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آرام کے لیے لیٹ گئے، تقریبا ساڑھے نو بجے جاگے۔جلدی جلدی سارے احباب تیار ہو ئے،اور ناشتے کی غرض سے ہم لوگ ہوٹلوں کی طرف نکلے ہی تھے کہ اچانک مولانا امیر صاحب کا فون آگیا، وہ بھی اُس دن کی نثر نگاری کی کلاس میں شمولیت کرنے والے تھے، ان کے ساتھ مفتی اسماعیل صاحب بھی تھے۔ ناشتے سے فراغت کے بعد ہم لوگ دو الگ الگ گاڑیاں کرنے کے بعد ’’کرناٹک اردو اکادمی‘‘ کے دفتر پہنچے۔۔ راستے میں سید عرفان اللہ قادری صاحب کا فون بھی آیا، ٹریفک کی وجہ سے تھوڑی تاخیر سے ہم لوگ پہنچے؛ مگر اللہ کا شکر ہے کہ دوسرے سیشن یعنی نثر نگاری کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ آج کے سیشن کی ذمہ داری بھی محترم جناب قدیر سر کی ہی تھی۔ محترم جناب منیر احمد جامی صاحب کی تمہیدی گفتگو کے بعد دوسرے شیشن کا آغاز ہوا۔ 

آج کے سیشن کی شروعات انہوں نے گزشتہ دن چھوڑے ہوئے غزل کے عنوان سے کی، فن شاعری میں ابہام اور ایہام کے متعلق مختصر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: انسان اس وقت تک شاعری اور نثر نگاری نہیں کر سکتا جب تک اس میں فن کے جراثیم نہ ہوں۔ شاعری میں ’’تشبیہ، استعارہ اور علامت‘‘ کی اہمیت کو بتاتے ہوئے قدیر سر نے ’’جان نثار اختر‘‘ کا ایک شعر پڑھا:

ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح

ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح

(جاں نثار اختر )

اس شعر کے بعد سر نے فن ِافسانہ نگاری کے متعلق بات کی شروعات کی۔ افسانوی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب؛ افسانوی ادب کا تعلق کہانی سے ہے، کہانی سننا اور کہنا انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور ایک عورت ہی ہے جو کہانی کو بہترین انداز میں پیش کر سکتی ہے۔ ’’داستان‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے کہا: گزرے زمانے میں جنگوں کے بعد انسان کو تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں ہوا کرتا تھا؛ اسی لیے اس دور میں داستان گوئی کا آغاز ہوا۔ داستان قصہ در قصہ مسلسل چلتی رہتی ہے گویا شیطان کی آنت ہو۔ داستان کے تعلق سے سر کی رائے یہ ہے کہ: پہلے انسان وقت پر حکومت کرتا تھا  اس لیے داستان جیسی چیز وجود میں آئی، پھر ایک دور ایسا آیا کہ وقت انسان پر حکومت کرنے لگا۔ افسانے کے تعلق سے معلومات فراہم کرتے ہوئے سر نے کہا: ’’افسانہ‘‘ کہانی سے جڑی ہوئی صنف ہے، جس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں: آغاز، مرکزی خیال، عروج، خاتمہ۔  کامیاب افسانہ نگاری کے لوازمات کے تعلق سے سر نے مزید چار نکات بیان کیے:پلاٹ، کردار،مکالمہ، منظر نگاری۔

پلاٹ کے متعلق سر کا کہنا تھا کہ: نفس موزوں پلاٹ کا چست ہونا چاہیے، ڈھیلا پلاٹ کہانی کے تانے بانے بکھیر دیتا ہے۔ 

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں: اہم کردار اور معاون کردار۔  

مکالمہ کردار کے نظریات کو بتاتا ہے۔ 

 منظر نگاری سے کہانی میں لطف پیدا ہوتا ہے۔ منظر نگاری کے تعلق سے سر نے کہا کہ: منظر نگاری کے باب میں نثر نگاری میں ’’کرشن چند‘‘ ماہر تھے اور شاعری میں ’’میر انیس‘‘۔

ناول نگاری کے تعلق سے سر نے جو اہم بات بتائی وہ یہ تھی کہ: ’’چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، نقطہ عروج یعنی کلائمیکس سے تعلق ضروری ہے‘‘۔خاکسار (آفتاب عالم شاہ نوری) کی ناقص رائے کے مطابق سب سے بہترین ناول افسانہ اور افسانچہ وہی ہے جو کسی سوال یا  جواب پر ختم ہو جائے، یا یوں کہیں کہ: کہانی کاغذ پر تو ختم ہو جائے؛ مگر قاری کے ذہن میں آگے بڑھتی رہے۔ افسانچہ نگاری کے تعلق سے سر نے معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ: ’’افسانچہ‘‘ نثری بیانیہ ہے، اس کے تین اہم جز ہیں: کردار، مکالمہ، منظر؛ ساتھ ہی ساتھ ابتدا ،وسط اور اختتام ۔ 

انہیں جملوں کے ساتھ سر نے اپنی بات مکمل کی۔ اخیر میں منیر احمد جامع صاحب نے اختتامی گفتگو کی، اور اگلے پروگرام کی تاریخ کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ: 9؍ نومبر 2024 اور 1؍ دسمبر 2024 کو فن شاعری اور نثر نگاری کی کلاسز ہوں گے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگوں نے اکادمی کے ہال میں ظہر کی نماز ادا کی، اور وہیں سے کرناٹک کے پہلے دینی مدرسے: ’’سبیل الرشاد‘‘ کی جانب رخ کیا، جہاں مولانا حبیب اللہ صاحب کے واسطے سے ایک بہت بڑی علمی و ادبی شخصیت قاضیٔ شہر مفتی ہارون صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔ مفتی صاحب سے یہ میری دوسری ملاقات ہے، میں جتنا وقت بھی مفتی صاحب کی صحبت میں رہا ہوں یقیناً مجھے دینی اعتبار سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ حضرت مفتی صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوتی رہی، وہاں ہم لوگوں نے عصر کی نماز ادا کی، حضرت نے ہم سب کو  اپنی کتاب: ’’تشویقات‘‘ بہ طور ہدیہ دی۔ ہم سب لوگوں نے عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد بنگلور ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ جب اسٹیشن پہنچے تو چوں کہ ہم لوگ ابھی تک مغرب کی نماز ادا نہیں کرپائے تھے، اس وجہ سے ہم سب احباب ’’مستان شاہ ولی درگاہ‘‘ کی مسجدمیں گئے،وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی، اور درگاہ کے احاطے میں موجود ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل میں لذیذ کھانا کھایا، اور وہیں سے واپس اسٹیشن آگئے۔ رات ٹھیک نو بجے ہماری ٹرین ’’بیلگام‘‘ کے لیے نکلی، اور ٹھیک صبح پونے سات بجے ہم لوگ خیر و عافیت سے بیلگام پہنچ گئے۔اس طرح ہمارے سفر کا اختتام ہوا۔ فللّٰه الحمد وله المنة


No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...