Thursday, 28 November 2024

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

 

آفتاب عالم ؔ شاہ نوری

کروشی بلگام کرناٹک

8105493349

 

اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا ہے ۔ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو عقل اور شعور کے ساتھ کام کرتے ہوئے پیدائش سے لے کر موت تک کی زندگی بہ حسن خوبی بسر کرتا ہے ۔ دیگر جانوروں کے مقابلے میں انسان ہی تو ہے جو ہر دن نت نئی ایجادات کر کے دنیا میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔انسان کو کھیلوں سے فطری طور پر دلچسپی رہی ہے خواہ وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو ہر انسان اپنی اپنی طبیعت دلچسپی کی بنیاد پر کھیل کھیلتے آ رہے ہیں ۔ مگر آج کے اس ترقی یافتہ موبائیل کے دور میں خاص طور پر بچوں کی زندگی سے وہ سارے کھیل دور ہو گئے ہیں جو سن 1990 یا اس سے پہلے کے لوگ کھیلا کرتے تھے ۔ آج ہم انہی بھولے بسرے کھیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ۔

 

  گلی ڈنڈا  : ان کھیلوں میں سرِ فہرست کھیل گلی ڈنڈا ہے جو تقریبا موجودہ دور میں متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں دو ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جس کا ہر کھلاڑی باری باری کھیلتا ہے اگر پہلی ٹیم کے کھلاڑی کے ذریعے ہوا میں اڑتی ہوئی گلی کو دوسری ٹیم کا کھلاڑی کرکٹ کی گیند کی طرح کیچ کر کے پکڑ لیتا ہے تو یہ کھلاڑی آؤٹ قرار دیا جاتا ہے ڈنڈے سے گلی مارنے کے مخصوص نام ہوتے ہیں ۔ پاؤ، چٹی ،مٹھی ،گھوڑا ،پُوک ،ڈولا ،جِل ۔ ۔ ۔ اس کھیل کے ذریعے پہلی ٹیم کا کھلاڑی دور تک گلی کو مارتا اور ایک اندازے سے بتاتا کہ گلی کے گرنے کی جگہ اور جہاں سے گلی کو مارا گیا ہے وہاں تک کی جگہ کا اندازہ لگا کر ایک عدد بتاتا ہے جیسے 500 یا ہزار اگر سامنے والی ٹیم کو لگتا کہ اس کی بتائی ہوئی عدد کم ہے تو اس کو گِنا جاتا اس طرح اس کھیل کے ذریعے بچے علم ریاضی کے فن میں ماہر ہو جاتے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا ڈسٹنس کا اندازہ ہو جاتا ۔ اس طرح یہی بچے بڑے ہو کر زندگی کے دیگر شعبے میں اپنی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر اندازے لگانے میں ماہر ہو جاتے ۔


 

2- گھوٹی یا کنچے : بچپن کے دور کا ایک اہم کھیل گھوٹی تھا جس میں کانچ کی بنی ہوئی گوٹیاں ہوتی تھیں زمین میں ایک چھوٹا سا گڑا کھود کر کھیلا جاتا تھا اسے کئی ایک لاکھ طریقوں سے کھیلا جاتا تھا اس کھیل کے ذریعے گوٹیوں کو گنتے گنتے بچہ جمع اور تفریق کے حساب میں ماہر ہو جاتا اور ساتھ ہی ساتھ نشانہ لگانے میں ماہر بن جاتا ۔ اس دور میں جس کے پاس جتنی زیادہ گوٹیاں ہوتیں وہی امیر قرار دیا جاتا تھا مگر یوں بھی ہوتا تھا کہ آج جس کے پاس زیادہ گوٹیاں ہوں کل اسے وہ ہار بھی جاتا تھا ۔ اور پھر سے محنت کر کے از سرِ نو اپنی ہاری ہوئی ساری گھوٹیاں دوبارہ حاصل کر لیتا یہ سلسلہ چلتا رہتا اس طرح بچوں میں ہارنے کے بعد پھر سے کھڑے ہونے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا اسی وجہ سے یہی بچہ جب بڑا ہوتا کسی کام میں ناکام ہونے کے بعد ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا تھا بلکہ حالات کا مقابلہ ہمت سے کرتا ۔


 

3۔ جِگ جِگ گھوڑا : یہ کھیل عام طور پر 10 سے 12 بچے مل کر کھیلا کرتے تھے جس کی باری ہوتی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں سے لگا کر جھک جاتا تھا ۔ باری باری سارے کھلاڑی اس کے اوپر سے چھلانگ لگاتے جب سارے کھلاڑی چھلانگ لگانے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ دھیرے دھیرے اپنے قد کو اونچا کرتا اس طرح بچوں میں ڈفیکلٹی لیول کو ہمت سے پورا کرنے کا حوصلہ ملتا اور بچوں کی جسمانی ورزش ہو جاتی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ بچے اے بی جاننے لگتے کہ زندگی تھوڑی تھوڑی دھیرے دھیرے مشکل سے مشکل ہوتی جاتی ہے اس کھیل کے ذریعے سے وہ زندگی کا ایک بہت بڑا سبق سیکھ لیتے ۔ 


 

  چور پولیس : دو ٹیموں پر مشتمل یہ کھیل کھیلا جاتا جس میں سے ایک چوروں کی ٹولی ہوتی اور دوسری پولیس کی ٹیم ہوتی اس کھیل کے ذریعے بچے سارا گاؤں گھوم لیتے اور گلی کے ہر نکڑ سے واقف ہوتے ۔ پولیس کی ٹیم آخر کار ان کو پکڑ ہی لیتی اور جو بچے چور بنے ہوتے انہیں فطری طور پر احساس ہو جاتا کہ ہماری اصل زندگی میں بھی اگر ہم چور بنیں گے تو کبھی نہ کبھی پکڑے ہی جائیں گے اس طرح بچے بچپن ہی سے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہوتے جاتے ۔

  




5۔ چھپا چھپی : عام طور پر یہ کھیل سردیوں کے دنوں میں رات کی تاریکی میں کھیلا جاتا تھا جس کی باری اتی وہ کسی دیوار میں اپنا منہ چھپا کر 10 سے لے کر 100 تک گنتی کرتا تب تک وہ اس کے ساتھی دوست کہیں چھپ جاتے اور وہ ساتھی دوستوں کے ناموں کو پکار پکار کر آؤٹ کر دیتا بعض مرتبہ اس کے ساتھی چال بدل بدل کر اسے قریب آتے مگر وہ ہر بار پہچان لیتا ۔

 


6۔ پیڑ بندر : اس کھیل میں 10 سے 12 بچے ہوا کرتے تھے اس میں ایک لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو کوئی کھلاڑی دور پھینک دیتا دوسرا کھلاڑی لکڑی کے ٹکڑے کو لانے کے لیے دوڑتا تب تک سارے کھلاڑی پیڑ پر چڑھ جاتے ۔ جو کھلاڑی لکڑی لانے کے لیے گیا تھا وہ پیڑ کے نیچے ایک چھوٹا سا دائرہ بنا کر اس میں لکڑی کو رکھ دیتا اور خود اوپر چڑھنے لگتا تاکہ وہ اپنے کسی ایک ساتھی کو آؤٹ کرے ۔ خود کو اؤٹ ہونے سے بچانے کے لیے بعض کھلاڑی اوپر سے نیچے کی جانب چھلانگ لگا دائرے میں رکھی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے کو چھو لیتے ۔ اس طرح دوبارہ اسی کھلاڑی کا نمبر آتا ۔ بعض مرتبہ بچوں کے پاؤں میں موج بھی آتی ۔ درد کی جگہ پر سفید ہاڑ مٹی گیلی کرکے چولہے پر سینکا جاتا ۔ ۔


 

7۔ چیل گھوڑا : یہ کھیل بھی اب مکمل طور پر متروک ہو چکا ہے اس کھیل میں عام طور پر ایک ٹیم میں چھ سے سات کھلاڑی ہوتے تھے اس میں پہلا کھلاڑی دیوار کو ہاتھ لگا کر جھک جاتا تھا اس کے پیچھے بقیہ کھلاڑی ایک دوسرے کی کمر کو پکڑ کر ایک لمبا ریل جیسا ڈبہ بنا لیتے تھے ۔ دوسرے ٹیم کی کھلاڑی دور سے دوڑتے ہوئے آ کر چھلانگ لگا کر کوششیں کرتے تھے کہ پہلے کھلاڑی کی پیٹھ پر سوار ہو جائے ۔ اس طرح بقیہ کھلاڑی بھی دوڑ کر ان سارے کھلاڑیوں کے پیٹھ پر یکے بعد دیگرے سوار ہو جاتے ۔ جو کھلاڑی گھوڑا بنے ہوئے ہیں اگر وہ وزن کا بار نہ سہ سکے تو دوبارہ اسی طریقے ست کودا جاتا اور اگر چیل کی طرح اتے ہوئے کھلاڑی نیچے گر جاتے ہیں تو ان کی باری آ جاتی ہے ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہا تھا اس کھیل کے ذریعے اجتماعی طور پر کسی کام کے کرنے کا حوصلہ ملتا جذبہ ملتا اور یہی وہ کھیل ہے جو آگے چل کر ایک جماعت کی شکل بن کر اجتماعی طور پر نئے نئے انقلابات لاتا ۔ ۔ 


 

8۔کنویں میں پکڑم پکڑی : بچپن میں سب سے پہلے بچوں کو چھ سال کی عمر کے بعد جو چیز پہلے سکھائی جاتی تھی وہ کنویں میں تیرنا تھا ۔ جو بچے تیراکی میں ماہر ہو جاتے تو وہ ایک نیا کھیل اس کنویں میں کھیلا کرتے ۔ کھلاڑیوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے نہ جانے دینا یہی کھیل کا اہم جز تھا ۔ اس طرح مسلسل بچے اس میں مشق کرتے رہتے ہیں ۔ بعض مرتبہ پلاسٹک کی تھیلی میں پتھر ڈال کر کنویں میں پھینک دیتے ۔ اور بچے اسے کنویں کی گہرائی سے لے کر آنے کے لیے بیک وقت کود جاتے جو سب سے تیز ترار ہوتا وہی اس پتھر کو دوبارہ لے کر آتا ۔

 


9۔ لکڑی پتھر : اس کھیل میں عام طور پر تین سے ساڑھے تین فٹ کی ایک مضبوط لکڑی ہوتی ۔ جس کی باری ہوتی اس کی لکڑی کو یہ لوگ اپنی لکڑی کے نوک سے دور تک پھینکتے اور دوڑتے ہوئے وہاں تک جاتے اگر بالفرض اس دوڑ کے اندر اس پہلے کھلاڑی نے کسی کو اوٹ کر دیا تو باری اس کی آ جاتی ۔ ۔ ۔ اس طرح یہ سلسلہ دور دور تک پھیلے کھیتوں وغیرہ میں چلتا رہتا واپسی میں جن جن کھلاڑیوں کی باری آئی تھی ان کو لنگڑاتے ہوئے چلنا پڑتا اور بعض مرتبہ تھوڑی دیر لنگڑاتے چلنے کے بعد جو ساتھی ہوتے اسے معاف کرتے سارے بچے ہنسی خوشی گھر لوٹ آتے ۔ ۔

 


10۔ کاغذ کی کشتی : یہ کھیل عام طور پر بارش کے دنوں میں کھیلا جاتا جب زوردار بارش گر کر تھم جاتی تو فورا اپنے اپنے گھروں سے بچے نکلتے اور چھوٹی سی کاغذ کی کشتی بنا کر اسے پانی میں ڈالتے اور اس کی پیچھے مسلسل دوڑنے لگتے اس طرح بچوں کی ایک جسمانی ورزش ہو جاتی  ۔

 


11۔ کیل مٹی : یہ کھیل بھی عام طور پر بارش کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا جس میں بچے لوہے کی ایک نوکی لی کل سے زمین میں ایک دائرہ بناتے اور اسی دائرے کے درمیان اپنی کیل سے زور سے کیل گاڑنے کی کوشش کرتے جس کا کل گر جاتا وہ کھیل سے باہر ہوتا ۔ ۔

 


12۔ منڈوے کے کھمبے : عام طور پر یہ کھیل شادی بیاہ کے موقعوں پر بچے چار کھمبوں کو پکڑ کر کھیلا کرتے تھے جس میں ہر ایک بچہ ایک ایک کھمبے کو پکڑتا اور بیچ میں ایک بچہ ایسا ہوتا جو دیگر کھلاڑیوں کو ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے کی طرف جانے سے روکتا اس طرح بچے بڑے مزے سے کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ۔

 

اس کے علاوہ بیسیوں کھیل ایسے ہیں جسے آج کے موبائیل کے دور کا بچہ بھولتا جا رہا ہے۔۔


Monday, 25 November 2024

کروشی پٹیل برادری کا میراثی بلگام کرناٹک



 
کروشی پٹیل برادری کا میراثی

بلگام کرناٹک



میراثی ہندوستان کی ایک مشہور قوم ہے جو غیر منقسم ہندوستان اور بعد از تقسیم ہند و پاک میں جابجا آباد ہے۔ میراثی قوم پیشہ ورانہ طور پر انساب کی ماہر، ڈوم اور رقاص ہوتی ہے۔ اس قوم کے افراد اپنے اہل تعلق کے خاندانوں کے شجرہ ہائے نسب یاد کرنے اور یاد رکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، چنانچہ برصغیر میں کسی خاندان کا نسب معلوم کرنا ہو تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، نیز شادی بیاہ کی تقریبات اور ناچ رنگ کی محفلوں میں بھی انہیں بلایا جاتا ہے جہاں یہ اپنے فن نغمہ سرائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لفظ "میراثی" اردو لفظ میراث سے مشتق ہے جس کے معنی وراثت کے ہیں۔ ویکی پیڈیا
کروشی پٹیل برادری کے اس بوڑھے میراثی کی عمر 82 برس ہے ہر سال نومبر سے ڈسمبر کے مہینے عین فصلوں کی کٹائی کے وقت یہ گاؤں آتا ہے ۔ اگر گھر میں کسی بچے کی پیدائش ہوئی ہو تو اس کے نام کا اندراج اپنی مخصوص ڈائری میں کرتا ہے اور اول تا آخر ہمارا مکمل نسب سناتا ہے ۔ اس طرح ہمارے آبا و اجداد کی یاد ہمارے ذہنوں میں پھر سے تازہ کر کے کھیتوں میں فصل کی صورت میں جو موجود ہو وہ اناج اور رقم لیتا ہے ۔ زمانہ قدیم سے ان کا ایک اور کام یہ بھی رہا ہے کہ الگ الگ گاؤں کے پٹیل برادری کی آپسی رشتے کروانا ۔ اس طرح تقریبا 50 سے زائد گاؤں کے پٹیل ، دیسائی اور انعامدار کے علاوہ دیگر برادری کے درمیان یہ میراثی برادری ایک پُل کا کام کرتی آ رہی ہے ۔ ۔ ۔ اس بوڑھے کی 18 پشت ہے جو اس کام کو کر رہی ہے ۔ ۔ یہ لوگ بنجاروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ان کی پوری برادری الگ الگ علاقوں میں بستی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس بوڑھے کے ذریعے آپ کے نسب کی بھی کچھ نہ کچھ معلومات مل جائے ۔ ۔ 
میراثیوں کے کچھ خاندان ہندوؤں میں نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے، پھر وہ مسلمان ہو گئے۔ جبکہ کچھ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ اصلاً وہ ہندوؤں کی چارن برادری سے تھے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ان خاندانوں نے اس وقت کے مشہور صوفی شاعر امیر خسرو کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ شمالی ہندوستان کے میراثی پانچ ذیلی گروپوں میں منقسم ہیں: ابل، پوسلا، بیت کٹو اور کالیٹ۔ان کے رسم و رواج انساب کی ماہر ایک دوسری برادری مسلمان رائے بھٹ سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ میراثی قوم ہی کی ایک برادری پنواڑیا کہلاتی ہے جو اصلاً داستان گو تھی لیکن انھیں گویوں اور بھانڈ کی حیثیث سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔
نغمہ سرائی کے دوران میں میراثی قوم پکھواج کا استعمال کرتی ہے، اس بنا پر ان کو پکھواجی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قوم اپنے متعلقین کے انساب کو حفظ کرنے اور انھیں سینہ بسینہ منتقل کرنے میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔ اسی بنا پر شادی بیاہ کے معاملات میں ان سے خاص مدد لی جاتی ہے۔ ماہر انساب کی حیثیت سے میراثی قوم "نسب خواں" کے لقب سے بھی معروف ہے۔اس قوم کے افراد شمالی ہندوستان میں ہر جگہ آباد ہیں۔ روایتی طور پر وہ شادی بیاہ کی تقریبات وغیرہ میں لوک گیت گاتے ہیں۔ اس قوم کی کچھ برادریاں کاغذی پھول کی صنعت سے بھی وابستہ ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ان کی خوب پزیرائی ہوتی ہے اس لیے وہاں ان کی کثیر آبادی ہے۔ تاہم کچھ برسوں سے بہت سے میراثی پنجاب سے ہجرت کرکے راجستھان، بہار، گجرات، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں جا بسے ہیں۔ویکی پیڈیا
اگر آپ بھی اپنے خاندانی حالات جاننا چاہتے ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں میں اس بوڑھے کے ذریعے سے آپ کے علاقے میں موجود میراثی کا پتا بتا سکتا ہوں ۔ ۔ شرط یہ کہ اس طرح کی میراثی برادری آپ کے مکان پر پہلے آئی ہوئی ہو ۔ ۔ 
آفتاب عالم دستگیر پٹیل
کروشی ، بلگام (کرناٹک) 
8105493349

Friday, 4 October 2024

بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے" ۔ ۔ ۔ ۔ بہت سفر ہونا ضروری ہے تاکہ خام پکا بن جاوئے ۔ ۔ ۔ ۔

بسم  اللہ الرحمن الرحیم

کرناٹک اردو اکادمی بنگلور کا سفر

’’بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے‘‘

بہت سفر ہونا ضروری ہے تاکہ خام پکا بن جاوئے


آفتاب عالم دستگیر پٹیل ( شاہ نوری) 

کروشی بلگام کرناٹک 

8105493349


اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے، ہر ایک نعمت ایسی عظیم جس کا شکر ادا کرنے کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کی عمر بھی کم ہے۔ ان میں علم حاصل کرنے کے لیے جو اسفار ہوتے ہیں -چاہے دینی ہو یا دنیوی -یہ بھی عظیم نعمت ہے۔ اس بار کا میرا ’’کرناٹک اردو اکادمی بنگلور‘‘ کا سفر یقیناً ایک عظیم نعمت کے طور پر ثابت ہوا۔

میرا یہ مضمون دراصل سفرنامہ،شیری اور نثری کارگاہ کی رپورٹ کا ایک حسین امتزاج ہے۔ شُعراء، اُدبا کے پروگرام کے افتتاحی جلسے کے بعد مَیں بے صبری سے منتظر تھا کہ کب ان کلاسس کا آغاز ہوگا ؟ الحمدللہ، اللہ کے فضل و کرم سے وہ دن آ ہی گیا۔ اِس پروگرام کی تاریخ 21 ؍ستمبر 2024  سے 23 ؍ستمبر 2024 تک کی تھی۔اس سفر کے ساتھیوں میں مولانا حبیب اللہ صاحب،مفتی نوشاد صاحب، مولانا آصف صاحب، اشرف بھائی اور میں خاکسار آفتاب عالَم شاہ نوری رہے۔ ہمارے سفر کا آغاز جمعہ کے روز 20؍ ستمبر رات نو بجے ’’بیلگام‘‘ سے شروع ہوا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگ آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ میرا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے کہ مجھے کسی بھی نئی جگہ پر نیند نہیں آتی، جب تک کہ دو تین دن اس جگہ سے مانوس نہ ہو جاؤں۔ رات بھر کے سفر کے بعد ہم بہ وقت ساڑھے سات بجے کے قریب بنگلور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ چوں کہ مولانا حبیب اللہ صاحب اور مولانا آصف صاحب کی کلاس اگلے روز کی تھی؛ اس لیے وہ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی زیارت کے لیے ’’سری رنگا پٹن‘‘ چلے گئے۔ اور ہم تین لوگ بنگلور اسٹیشن سے قریب ’’مستان شاہ ولی درگاہ‘‘ کی طرف روانہ ہو گئے۔ چوں کہ درگاہ کے احاطے میں ایک عالی شان مسجد ہے وہیں پر ضروریات سے فارغ ہو کر ٹھیک ساڑھے نو بجے ہم ’’کرناٹک اردو اکادمی‘‘ کے دفتر پہنچ گئے۔ دفتر چوں کہ کھلا نہیں تھا، وہیں سے سید عرفان اللہ قادری صاحب کو فون کیا، وہ بھی چند منٹوں میں کرناٹک اردو اکادمی کے ممبر محترم جناب منیر احمد جامی صاحب کو لے کر پہنچ گئے۔ اِس پروگرام کی ساری ذمہ داری دراصل کرناٹک اردو اکادمی کی ایک متحرک شخصیت: محترم جناب منیر احمد جامی صاحب کے ذمے تھی۔ 

منیر احمد جامی صاحب کو جب بھی دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ شعر گونج اٹھتا ہے:

فقیہ عصر سے ملئے ضرور محفل میں

یہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے

(نامعلوم)





اکادمی پہنچنے کے بعد منیر احمد جامی صاحب اور سید عرفان اللہ قادری نے پُرجوش ہو کر ہمارا استقبال کیا، ہمیں گلے سے لگایا۔ کولکاتہ کے مشہور و معروف شاعر: انظار البشر صاحب کی حافظ کرناٹکی پر لکھی ہوئی کتاب بہ طور ہدیہ منیر احمد جامی صاحب اور سید عرفان اللہ قادری صاحب کو پہنچانے کے بعد ہم لوگ اکادمی کے دفتر میں دیگر احباب کے انتظار میں لگے رہے۔ ٹریننگ حاصل کرنے والے احباب وقفے وقفے سے آنے لگے، ہمارے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی ہمیں ٹریننگ دینے والے ہمارے استاد محترم: قدیر سرگرو سر -جو کرناٹک اردو اکادمی کے سابق چیئرمین ہیں- بھی پہنچ گئے؛ تھوڑی دیر بعد اکادمی کے رجسٹرار صاحب معاذالدین صاحب بھی پہنچ گئے۔ مختصر سے افتتاحی پروگرام کے بعد ہمارے سیشن کا آغاز ہوا۔قدیر سر ایک نکھری ہوئی شخصیت کے مالک ہیں، نام و نمود سے کوسوں دور؛ مگر خود میں علم کا ایک سمندر لئے پھرتے ہیں، جو وقفے وقفے سے قیمتی جملوں اور علوم کی شکل میں ہم جیسے علم کے پیاسوں کو سیراب کرتے ہیں۔ 

آئیے احباب! محترم جناب قدیر سر کے سیشن کے متعلق بات کرتے ہیں: اس سیشن کا عنوان تھا: حمد، نعت اور غزل۔ بات کی شروعات کرتے ہوئے سر نے ادب کے دو حصوں کے متعلق بتایا: پہلا نثر، دوسرا نظم؛ اور نثر اور نظم کا صحیح تلفُّظ کس طرح سے ادا کیا جاتا ہے؟ وہ بھی ہمیں بتایا ۔ فنکار کے لیے ضروری ہے کہ فن پر مکمل عبور حاصل کر لے، اس کے بغیر شاعری میں پختگی نہیں آ سکتی۔۔ پھر اس کے بعد سر نے اہلِ زبان کا مختصر تعارف کرایا، کہ کون ہیں؟ اور کسے کہا جاتا ہے؟ ’’اہل زبان‘‘ دراصل دو الفاظ سے مل کر بنا ہے: ’’اہل‘‘ اور ’’زبان‘‘؛ اہل یعنی والے ،اور زبان یعنی جسے ہم عام روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں، اہلِ زبان یعنی: زبان والے۔ 

مزید اس چیز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: اہل زبان وہ ہیں جن کو فطری طور پر زبان حاصل ہوتی ہے۔ لفظ ’’فطری‘‘ کو سمجھانے کے لیے انہوں نے یوں کہا: مچھلی کا تیرنا فطری ہے، اور انسان کا تیرنا مشقی ہے۔  واہ! کیا بہترین انداز ہے! بات اس انداز سے سمجھائی کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ یقیناً ایسی باتیں ہمیں وسیع مطالعے سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ جغرافیہ اعتبار سے سمجھاتے ہوئے سر نے کہا کہ: شمالی ہند والے اہل زبان ہیں، اور جنوب والے زبان دان ہیں۔سر کے مطابق زبان پر گرفت ہونا بے حد ضروری ہے۔سر نے مزید قواعد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’’صَرف‘‘ کا تعلق لفظ سے ہے اور ’’نحو‘‘ کا تعلق جملے سے ہے۔ مزید نصیحت کرتے ہوئے کہ: اہل زبان کی کتابیں پڑھا کریں اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ ’’نظم‘‘ سے مراد: جچا تلا کلام، موزوں کلام؛ اور نثر سے مراد: بکھرا ہوا کلام، غیر موزوں کلام۔ 

چلو اس کی اہمیت اور افادیت کو بتاتے ہوئے چند مثالیں بتائیں۔ پھر انہوں نے تلفظ معلوم کرنے کے طریقے بتائے:

اہلِ زبان سے تلفظ سنا جائے۔

لغت کا استعمال کیا جائے۔

اساتذہ کا شعر پڑھیں جس میں وہ لفظ شامل ہے۔ 

مزید تلفظ کے متعلق ایک لفظ ’’شمع‘‘ بتایا، جسے اکثر و بیشتر افراد غلط پڑھتے ہیں۔ لفظ ’’شعر‘‘ کی تعریف کی اور یوں کہا کہ: شعر دو مصرعوں کا مجموعہ ہوتا ہے، مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی۔ مصرع لگانا اور مصرع اٹھانا کے تعلق سے بھی مختصر معلومات فراہم کی۔ 

قدیر سر کے مطابق شعر کی عمارت کو اٹھانے کے چار طریقے ہیں: (۱)لفظ  (۲)وزن (۳)معنیٰ  (۴)قافیہ۔

ہم وزن الفاظ کی معلومات فراہم کرنے کے بعد عماراقبال صاحب کا ایک خوبصورت شعر پڑھا:

ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا

تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جاسکتے ہو

(عمار اقبال)

اس کے بعد قدیر سر نے غزل کا رخ کیا ۔ غزل کے معنیٰ و مفہوم کو اہلِ مجلس سے پوچھتے رہے، اور معلومات فراہم کرتے رہے۔ قدیر سر نے شمسی حرف اور قمری حرف کا مختصر تعارف کرایا، اور ساتھ ہی ساتھ چند مثالیں دیں۔

 ؁2005 میں جس وقت مَیں ’’بیجاپور‘‘ میں ڈی ایڈ کا طالب علم تھا، ہمارے اساتذہ نے ہمیں تدریس کے چند گُر سکھائے تھے، ان میں یہ بھی بتایا تھا کہ: ’’آسان سے مشکل کی طرف جایا جائے، کسی بھی کام کو آسانی سے مشکل کی طرف کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھنا چاہیے‘‘۔ بالکل یہی بات ہمارے قدیر سر نے ارشاد فرمائی کہ: شاعری میں بھی آسان سے مشکل کی طرف بڑھا جائے۔ شروع کے دور کی غزلوں میں اور موجودہ دور کی غزلوں میں فرق کو بتاتے ہوئے سر نے کہا کہ: پرانے دور کی غزلوں کے اکثر و بیشتر اشعار محبوب کے گالوں اور بالوں پر ہی محیط تھے؛ مگر دورِ جدید میں حالاتِ حاضرہ پر شاعری کی جا رہی ہے؛ غزل ہر دور میں بدلتی رہی۔ مجھ خاکسار (آفتاب عالم شاہ نوری) کے مطابق غزل کی مثال اس  پیمانے کی سی  ہے جس میں جونسی بھی مائع چیز ڈالی جائے، اپنے اندر سمو لیتی ہے،  غزل بھی بالکل اسی طرح اپنے اندر بدلتے ہوئے دَور کے مضامین اور مواد کو سمو لیتی ہے۔ 

تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا

ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے

(شاعر جمالی)

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

(منور رانا)

غزل کی بات کو جاری کرتے ہوئے انہوں نے غزل کے تعلق سے کچھ یوں کہا کہ: غزل کا پہلا شعر ’’مَطلع‘‘ کہلاتا ہے جو ’’ہم قافیہ‘‘ اور ’’ہم ردیف‘‘ ہوتا ہے۔ ’’مطلع‘‘ لفظ ’’طلوع‘‘ سے نکلا ہے، اگر شاعر مطلع کی طرح دوسرا مطلع کہے، تو اسے ’’حسنِ مطلع‘‘ کہتے ہیں۔ غزل کے بہترین شعر کو ’’شاہ بیت‘‘ یا ’’بیت الغزل‘‘ کہا جاتا ہے،غزل کے آخری شعر کو ’’مقطع‘‘ کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے تخلص کا استعمال کرتا ہے۔ بھرتی کے شعروں کا بھی مختصر مفہوم سمجھایا ۔ ساتھ ہی سر نے ایک نکتے کی بات یہ فرمائی کہ: غزل میں کئی کئی نظموں کا لطف ہوتا ہے۔ شاعری میں منظر نگاری کی اہمیت بتاتے ہوئے ایک شعر یہ پڑھا:

مَیں نے کہا کہ:بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

(مرزا غالب)

اس شعر کے ساتھ قدیر سر نے پہلے سیشن کا اختتام کیا، آخر میں منیر احمد جامی صاحب نے مزید بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ: اردو شاعری میں ’’استاد شاعر‘‘ صرف سات شعراء کو کہا جاتا ہے، ان میں سے ان کے ذہن میں جو دو نام تھے انہوں نے بتائے: بہزاد لکھنوی، اور آرزو لکھنوی؛ امید کرتے ہیں کہ آنے والے سیشن میں بقیہ پانچ نام ہمیں ضرور بتائیں گے؛ تاکہ اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو۔ جامی صاحب نے ’’جانسن‘‘ نام کے ایک مفکر کا قول بتایا کہ:’’ہر انسان اپنی جگہ شاعر ہے‘‘۔ مزید بات کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ: ایک عام انسان اور شاعر میں فرق یہ ہے کہ شاعر کو اللہ تعالیٰ نے قوتِ اظہار دی ہے۔ 

اس طرح سر کی اِن جملوں کے ساتھ ہمارے اس سیشن کا اختتام ہوا۔دوپہر کے کھانے کا انتظام ’’کرناٹک اردو اکادمی‘‘ کی جانب سے تھا۔ ہم سب لوگوں نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد ہم تین لوگ ’’شیواجی نگر‘‘ کی طرف چل پڑے، جہاں ہمارے رہنے کا انتظام مولانا آصف صاحب نے مدرسے میں کیا تھا۔ بنگلور کے تعلق سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ: جتنی آبادی مکانوں اور کمپنیوں میں بستی ہے، اس سے کہیں زیادہ آبادی راستوں میں ٹرافک کی صورت میں چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ پے در پے رفتار شکن راستے پر ٹرافک سے گزرتے ہوئے ہم لوگ شیواجی نگر کے مدرسے میں پہنچے۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر ہم لوگوں نے آرام کیا، اور شام کے قریب شیواجی نگر مارکیٹ گھومنے اور کچھ خریداری کی غرض سے نکلے۔ 

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

(ناصر کاظمی)

راستے کی دکانیں اور اس پر سجی ہوئی چیزیں مجھے بار بار پکارتی تھیں کہ: ’’آؤ! مجھے خریدو، مَیں ضرورت کی چیز ہوں، مجھے لے لو‘‘، میں اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتا گیا۔ عین اُسی وقت ہمارے کرم فرما  :اسلم بھائی کا فون آیا، جواصلاً تو ’’کُڑچی‘‘ کے رہنے والے ہیں؛ مگر برسوں سے بنگلور میں مقیم ہیں، یا یوں کہیں کہ: یہیں کے بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم سب ساتھی ان کی کار میں سوار ہو کر شیواجی نگر میں موجود تبلیغی مرکز ’’سلطان شاہ‘‘ پہنچے، یہاں ہم لوگوں نے عصر اور مغرب کی نماز ادا کی۔ مغرب کے بعد میں اپنے معمولات پورے کرنے میں لگ گیا۔ معمولات سے فراغت کے بعد بچوں کے لیے اور اپنے لیے چند عربی جبے خریدے۔ وہاں سے ہم تینوں لوگ چلتے چلتے ’’رسل مارکیٹ‘‘ تک پہنچے۔ یہی وہ مارکیٹ ہے جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ: براعظم ایشیا میں سب سے پہلے بجلی کے قمقمے ان ہی راستوں پر روشن ہوئے تھے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد مولانا حبیب اللہ صاحب اور مولانا آصف صاحب ’’سری رنگا پٹن‘‘ سے واپس آئے، ہم سب نے مل کر کھانا کھایا، اور واپس مدرسے کی جانب نکلے جہاں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سو گئے۔

فجر کی نماز کے لیے جاگے اور مفتی نوشاد صاحب کی امامت میں ہم سب لوگوں نے مل کر نماز فجر ادا کی۔ نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آرام کے لیے لیٹ گئے، تقریبا ساڑھے نو بجے جاگے۔جلدی جلدی سارے احباب تیار ہو ئے،اور ناشتے کی غرض سے ہم لوگ ہوٹلوں کی طرف نکلے ہی تھے کہ اچانک مولانا امیر صاحب کا فون آگیا، وہ بھی اُس دن کی نثر نگاری کی کلاس میں شمولیت کرنے والے تھے، ان کے ساتھ مفتی اسماعیل صاحب بھی تھے۔ ناشتے سے فراغت کے بعد ہم لوگ دو الگ الگ گاڑیاں کرنے کے بعد ’’کرناٹک اردو اکادمی‘‘ کے دفتر پہنچے۔۔ راستے میں سید عرفان اللہ قادری صاحب کا فون بھی آیا، ٹریفک کی وجہ سے تھوڑی تاخیر سے ہم لوگ پہنچے؛ مگر اللہ کا شکر ہے کہ دوسرے سیشن یعنی نثر نگاری کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ آج کے سیشن کی ذمہ داری بھی محترم جناب قدیر سر کی ہی تھی۔ محترم جناب منیر احمد جامی صاحب کی تمہیدی گفتگو کے بعد دوسرے شیشن کا آغاز ہوا۔ 

آج کے سیشن کی شروعات انہوں نے گزشتہ دن چھوڑے ہوئے غزل کے عنوان سے کی، فن شاعری میں ابہام اور ایہام کے متعلق مختصر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: انسان اس وقت تک شاعری اور نثر نگاری نہیں کر سکتا جب تک اس میں فن کے جراثیم نہ ہوں۔ شاعری میں ’’تشبیہ، استعارہ اور علامت‘‘ کی اہمیت کو بتاتے ہوئے قدیر سر نے ’’جان نثار اختر‘‘ کا ایک شعر پڑھا:

ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح

ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح

(جاں نثار اختر )

اس شعر کے بعد سر نے فن ِافسانہ نگاری کے متعلق بات کی شروعات کی۔ افسانوی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب؛ افسانوی ادب کا تعلق کہانی سے ہے، کہانی سننا اور کہنا انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور ایک عورت ہی ہے جو کہانی کو بہترین انداز میں پیش کر سکتی ہے۔ ’’داستان‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے کہا: گزرے زمانے میں جنگوں کے بعد انسان کو تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں ہوا کرتا تھا؛ اسی لیے اس دور میں داستان گوئی کا آغاز ہوا۔ داستان قصہ در قصہ مسلسل چلتی رہتی ہے گویا شیطان کی آنت ہو۔ داستان کے تعلق سے سر کی رائے یہ ہے کہ: پہلے انسان وقت پر حکومت کرتا تھا  اس لیے داستان جیسی چیز وجود میں آئی، پھر ایک دور ایسا آیا کہ وقت انسان پر حکومت کرنے لگا۔ افسانے کے تعلق سے معلومات فراہم کرتے ہوئے سر نے کہا: ’’افسانہ‘‘ کہانی سے جڑی ہوئی صنف ہے، جس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں: آغاز، مرکزی خیال، عروج، خاتمہ۔  کامیاب افسانہ نگاری کے لوازمات کے تعلق سے سر نے مزید چار نکات بیان کیے:پلاٹ، کردار،مکالمہ، منظر نگاری۔

پلاٹ کے متعلق سر کا کہنا تھا کہ: نفس موزوں پلاٹ کا چست ہونا چاہیے، ڈھیلا پلاٹ کہانی کے تانے بانے بکھیر دیتا ہے۔ 

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں: اہم کردار اور معاون کردار۔  

مکالمہ کردار کے نظریات کو بتاتا ہے۔ 

 منظر نگاری سے کہانی میں لطف پیدا ہوتا ہے۔ منظر نگاری کے تعلق سے سر نے کہا کہ: منظر نگاری کے باب میں نثر نگاری میں ’’کرشن چند‘‘ ماہر تھے اور شاعری میں ’’میر انیس‘‘۔

ناول نگاری کے تعلق سے سر نے جو اہم بات بتائی وہ یہ تھی کہ: ’’چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، نقطہ عروج یعنی کلائمیکس سے تعلق ضروری ہے‘‘۔خاکسار (آفتاب عالم شاہ نوری) کی ناقص رائے کے مطابق سب سے بہترین ناول افسانہ اور افسانچہ وہی ہے جو کسی سوال یا  جواب پر ختم ہو جائے، یا یوں کہیں کہ: کہانی کاغذ پر تو ختم ہو جائے؛ مگر قاری کے ذہن میں آگے بڑھتی رہے۔ افسانچہ نگاری کے تعلق سے سر نے معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ: ’’افسانچہ‘‘ نثری بیانیہ ہے، اس کے تین اہم جز ہیں: کردار، مکالمہ، منظر؛ ساتھ ہی ساتھ ابتدا ،وسط اور اختتام ۔ 

انہیں جملوں کے ساتھ سر نے اپنی بات مکمل کی۔ اخیر میں منیر احمد جامع صاحب نے اختتامی گفتگو کی، اور اگلے پروگرام کی تاریخ کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ: 9؍ نومبر 2024 اور 1؍ دسمبر 2024 کو فن شاعری اور نثر نگاری کی کلاسز ہوں گے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگوں نے اکادمی کے ہال میں ظہر کی نماز ادا کی، اور وہیں سے کرناٹک کے پہلے دینی مدرسے: ’’سبیل الرشاد‘‘ کی جانب رخ کیا، جہاں مولانا حبیب اللہ صاحب کے واسطے سے ایک بہت بڑی علمی و ادبی شخصیت قاضیٔ شہر مفتی ہارون صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔ مفتی صاحب سے یہ میری دوسری ملاقات ہے، میں جتنا وقت بھی مفتی صاحب کی صحبت میں رہا ہوں یقیناً مجھے دینی اعتبار سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ حضرت مفتی صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوتی رہی، وہاں ہم لوگوں نے عصر کی نماز ادا کی، حضرت نے ہم سب کو  اپنی کتاب: ’’تشویقات‘‘ بہ طور ہدیہ دی۔ ہم سب لوگوں نے عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد بنگلور ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ جب اسٹیشن پہنچے تو چوں کہ ہم لوگ ابھی تک مغرب کی نماز ادا نہیں کرپائے تھے، اس وجہ سے ہم سب احباب ’’مستان شاہ ولی درگاہ‘‘ کی مسجدمیں گئے،وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی، اور درگاہ کے احاطے میں موجود ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل میں لذیذ کھانا کھایا، اور وہیں سے واپس اسٹیشن آگئے۔ رات ٹھیک نو بجے ہماری ٹرین ’’بیلگام‘‘ کے لیے نکلی، اور ٹھیک صبح پونے سات بجے ہم لوگ خیر و عافیت سے بیلگام پہنچ گئے۔اس طرح ہمارے سفر کا اختتام ہوا۔ فللّٰه الحمد وله المنة


Friday, 13 September 2024

"مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف" اذان ایک سچی کہانی

 

"مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف"

اذان ایک سچی کہانی

آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل (شاہ نوری)

کروشی ،کرناٹک ، انڈیا

8105493349

سن 2010 کی بات ہے ۔ ۔ ۔ میں بعد نمازِ عصر ٹہلنے کہیں جا رہا تھا ۔ ۔ اچانک مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔ ۔ آفتاب بھائی ۔ ۔ ۔ آفتاب بھائی ۔ ۔ ۔ !! میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرا ایک قریبی رشتہ دار واصف تھا ۔ ۔میں نے کہا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا ہمارے ہسٹری کے لیکچرار ہیں جن کا نام مشتاق صاحب ہے ۔ ۔ ہیں تو مسلمان مگر برائے نام  ۔ ۔ دین سے بیزار اور دین سے بہت دور ہیں ۔ ۔ انہوں نے ایک سوال پوچھا ہے مجھے اس کا جواب چاہیے ۔ ۔ میں نے پوچھا سوال کیا ہے ۔ ۔ ؟ کہنے لگا جب بھی مجھے ملتے ہیں تو یہی سوال بار بار پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں گھڑی گھنٹہ سب کچھ موجود ہے پھر بھی مسلمان لاؤڈ اسپیکر پر چلا کر کیوں اذان دیتے ہیں ۔ ۔؟ جب کہ ہر ایک مسلمان کو فجر سے لے کر عشاء تک کے نمازوں کے اوقات کا علم ہے ۔ ۔ ۔ !!!! میں نے واصف سے کہا ۔ ۔  بھائی واصف اس وقت میرے ذہن میں تمہارے اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں البتہ میں سوچ کر یا کسی سے پوچھ کر ان شاء اللہ بتاؤں گا ۔ ۔ اس واقعے کو گزرے کئی ہفتے ہو  گئے، مگر میرے ذہن میں اس کے تعلق سے کوئی مناسب جواب نہیں تھا ۔ ۔ میں کئی دنوں اسی سوچ اور فکر میں تھا ایک دن اللہ نے مجھ پر رحم فرمایا اور ایک جواب میرے ذہن میں ڈال دیا ۔ ۔ مغرب کی نماز کے بعد واصف مجھے مسجد کے باہر ہی مل گیا ، میں نے کہا بھائی واصف تمہارے سوال کا جواب مل گیا وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا جلدی بتاؤ ۔ ۔ میں نے کہا اگلی بار جب تمہارے ہسٹری کے لیکچرار مشتاق صاحب تم سے اذان سے متعلق سوال کریں تو تم ان کو جواب دینے سے پہلے ان سے سوال کرنا ۔ ۔ کہنے لگا کیسا سوال؟ ان سے ادب سے پوچھنا کہ سر جی ہماری ایک کلاس کتنے گھنٹے کی ہوتی ہے؟ وہ جواب میں کہیں گے 50 منٹ یا ایک گھنٹے کی ۔ ۔ ۔ پھر ان سے اگلا سوال پوچھنا کہ سر یہ زمانہ تو گھڑی گھنٹے کا زمانہ ہے پھر پریڈ کے مکمل ہونے پر چپراسی bell گھنٹی کیوں بجاتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ جبکہ اساتذہ اور طلبہ کو اپنے اپنے پریڈ کے اوقات کا مکمل علم ہے ۔ ۔ ! تم دیکھو گے کہ لیکچرار مشتاق صاحب خاموش ہو جائیں گے  ۔ ۔ ۔ پھر تم جواب دینا  ۔ ۔ اور یوں کہنا کہ جب آپ پانی پت کی پہلی جنگ کا سبق ہمیں پڑھاتے ہیں ۔ ۔تو ہم پر اس سبق کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ استاد اور طلبہ،خود کو پانی پت کے میدان جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں،تلواروں کی جھنجھناہٹ،نیزوں کی بوچھاریں نظر آنے لگتی ہیں ۔ ۔ استاد اور طلبہ خود کو  2010 کی بجائے 1526 کے میدانِ جنگ میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ 1526 سے 2010 میں واپس لانے کے لیے چپراسی گھنٹی بجا کر کہتا ہے عزیز استاد و طلبہ پانی پت تمہاری اصل دنیا نہیں ہے واپس لوٹ آؤ ۔ ۔ ۔ یہ یعنی2010 تمہاری اصل دنیا ہے اس کے بعد تم دوسرا مضمون پڑھو گے جس میں جانوروں اور پودوں کے متعلق پڑھایا جائے گا ۔ ۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان بھی اس دنیا کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اس دنیا کو ہمیشہ رہنے کی جگہ سمجھنے لگتا ہے ۔ ۔ اس غفلت اور گمان سے مسلمان کو باہر نکالنے کے لیے موذن اذان دیتا ہے اور یہ کہتا ہے اے مسلمانو ۔ ۔ ! یہ تمہاری اصل دنیا نہیں ہے اصل جگہ تو آخرت ہے چلو مسجد کی طرف آ جاؤ اور اپنے رب کو راضی کرو ۔ ۔ اس جواب کے سننے کے بعد واصف خوشی سے جھومنے لگا ۔ ۔ ۔ میری بھی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ ۔ میں نے دل میں سوچا "ہسٹری کے لیکچرار مشتاق سر اس جواب کو سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے اللہ نے مجھے اس جواب کو خوب سمجھا دیا ۔ ۔ ۔ ۔"

 

Tuesday, 10 September 2024

’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘‘ ڈابھیل، گجرات کا روحانی سفر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘‘  ڈابھیل، گجرات کا روحانی سفر

حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ایک خوبصورت بات تحریر فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں "علم کی وجہ سے بندہ امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے" ۔ حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بات علم اور علماء کی فضیلت میں لکھی ہے ۔ ۔ میں حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں "اہل علم اور جید علمائے دین علمائے حق کی صحبت کی برکت سے ایک عام آدمی بھی امت کے بہترین افراد تک پہنچ جاتا ہے"

یوں تو ڈابھیل جانے کی خواہش برسوں سے دل میں تھی مگر زندگی میں کبھی ایسے حالات نہیں آئے جس کی وجہ سے میں ڈابھیل کا سامان سفر باندھتا ۔ ڈابھیل جانے کی خاص وجہ جو شروع سے میرے دل میں تھی وہ یہ کہ بڑے حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم سے ملاقات اور ہندوستان کے قدیم مدرسہ جامعہ ڈابھیل کو دیکھنا جہاں جید اکابر علماء مشائخ نے اپنی خدمات انجام دی تھیں ۔ اس بار کے سفر میں، میں نے ایک بات یہ بھی شامل کر لی تھی کہ بڑے حضرت سے ملاقات پر ان سے ایک مخصوص دعا کی گزارش کرنی تھی ۔

میرے لیے یہ راستہ حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کے خلیفہ حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب اتھنی ان کے ذریعے آسان ہوا۔ ۔

سن لے اے دوست! جب ایام بھلے آتے ہیں

گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

چند روز پہلے حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب کا مجھے فون آیا وہ کہنے لگے کہ میں ڈابھیل جا رہا ہوں اگر آپ کا آنے کا ارادہ ہے تو بروقت بتا دیں کیونکہ مجھے پہلے سے قاری عبدالحنان صاحب کو اطلاع دینی اور اجازت لینی ہوتی ہے ۔ میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی اس چیز کا انتظار تو مجھے برسوں سے تھا میں نے فورا حامی بھر لی ۔ ۔ ۔ مولانا نے سعید بھائی اتھنی ان کے ذریعے ہم دونوں کا ریزرویشن مریج سے سورت سنیچر 7 ستمبر 2024 کا کروایا ۔ ۔ ۔ چونکہ میرا سسرال میرج سے بالکل قریب ہے اور بچوں کے دو دن کی چھٹیاں بھی تھیں اسی غرض سے میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اپنے سسرال شیڑشال مہاراشٹرا ڈابھیل سفر سے ایک روز پہلے ہی جمعہ کے شام میں چلا گیا ۔ ۔ رات کا کھانہ میں نے اپنی خالہ کے گھر کھایا جو یہیں شیڑشال میں رہتی ہیں ۔ ۔ رات عشاء کی نماز کے بعد فورا سو گیا چونکہ اگلے دن کا طویل سفر تھا ۔ ۔ صبح بعد نماز فجر چائے ناشتے کے بعد اپنے کچھ سسرالی رشتہ داروں کی ملاقات کر لی ۔ ۔ صبح ساڑھےگیارہ بجے میرے فرزند محمد تمیم اور میری دختر نائلہ ان دونوں کو لے کر میرے سسر مجھے بس اسٹاپ چھوڑنے کے لئے کاگواڑ کی طرف نکل پڑے ۔ ۔ ۔ چند منٹوں میں ہم لوگ کاگواڑ کے بس سٹاپ پر پہنچے ہی تھے کہ میرج کے لیے بس لگی ہوئی تھی جب میں اتر کر جانے لگا تو مجھے تنہا بس میں چڑھتا دیکھ میری دختر رونے لگی اور میرے ساتھ آنے کی ضد کرنے لگی میرے سسر نے بہلا پھسلایا  ۔ ۔ ۔ بس میں سوار ہوا کئی کلو میٹر تک دختر کا روتا ہوا چہرہ نظروں کے سامنے آ رہا تھا ۔ ۔  تقریبا 12 بج کر 45 منٹ کے قریب میرج بس سٹاپ پہنچ گیا ۔ ۔ وہاں پہنچ کر میں نے اول وقت میں ہی نمازِ ظہر ادا کر لی اور وہاں سے نزدیک ایک ہوٹل میں گیا اور دوپہر کے لیے کھانا پیک کروا لیا ۔ ۔ ویسے گھر سے نکلتے ہوئے اہلیہ محترمہ نے تلی ہوئی مچھلیاں پیاک کر دی تھیں ۔ ۔ میرج بس اڈے سے میرج کا ریلوے اسٹیشن زیادہ دور نہیں ہے ۔ ۔ وہاں سے میں پیدل ہی اسٹیشن کی طرف بڑھا،راستے میں چیزیں فروخت کرنے والے لوگوں کی آوازوں کے شور کے درمیان سے گزرتا ہوا آخر کار میں ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر میں نے اپنے کرم فرما مولانا حبیب اللہ صاحب کو فون کیا وہ بھی میرج سے بالکل قریب تھے ۔ اسٹیشن پر ایک بینچ پر بیٹھ گیا چند لمحوں بعد ایک صاحب میرے قریب آ کر بیٹھے جو دراصل کڑچی کے باشندے تھے کئی دیر تک ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا حبیب اللہ صاحب کی تشریف آوری ہوئی ۔ ویسے تو ٹرین کا ٹائمنگ دوپہر 2:10 کا تھا مگر آدھے گھنٹہ کی تاخیر سے ٹرین پلیٹ فارم پر نمودار ہوئی ۔ ۔ ٹرین میں بیٹھنے کے دس پندرہ منٹ کے بعد ہم نے اپنا توشہ دان کھولا جس میں چکن بریانی اور شیڈشال سے اہلیہ محترمہ نے جو مچھلیاں فرائی کر کے بھیجی تھی ہم نے خوب سیر ہو کر کھائیں ۔ ۔ ۔ الحمدللہ مولانا کو مچھلیاں بہت پسند آئیں ۔ ۔ ۔کچھ دیر کے بعد میں نے وہیں سے زومیٹو پر پونہ مدینہ ہوٹل سے رات کے کھانے کا آڈر کر لیا ۔ ۔ جو بر وقت ٹھیک رات آٹھ بجے پارسل مل گیا ۔ ۔ ۔ کھانا کھا کر عشاء کی نماز ادا کر کے سو گئے ۔ ۔ رات کے تقریبا تین بجے کے قریب ہم لوگ سورت اسٹیشن پہنچ گئے باہر آ کر دیکھا تو سورت اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے لوگ تہوار کی خریداری کے لئے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں ۔ یقینا سورت شہر بہت جلدی جاگتا ہے اور شاید اسی وجہ سے یہ ہندوستان کے ترقی یافتہ شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔ چائے پینے کے بعد ہم لوگ ایک آٹو رکشہ میں جامعہ ڈابھیل کی طرف روانہ ہو گئے جو وہاں سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔

 

جامعہ دھابیل کی مختصر تاریخ


احمد میاں لاجپوری کے ایک شاگرد احمد حسن بھام سملکی نے سملک مسجد، سملک میں "مدرسہ تعليم الدین" کو قائم کیا تھا، پھر احمد ابراہیم بزرگ سورتی سملکی کے انتقال کے بعد مدرسہ کو ڈابھیل منتقل کیا گیا۔ احمد ابراہیم بزرگ سورتی سملکی کو بطور پرنسپل مقرر کیا گیا تھا اور انھوں ہی نے مدرسہ تعلیم الدین کا نام جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل تبدیل کیا تھا۔

انور شاہ کشمیری، شبیر احمد عثمانی، عبد الرحمن امروہوی، علامہ محمد یوسف بنوری ، محمد شفیع دیوبندی ، مولانا محمد ایوب اعظمی، مولانا اکرام علی بھاگلپوری اور مولانا واجد حسین دیوبندی اس جامعہ کے اساتذۂ حدیث رہے ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کو علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات کے بعد جامعہ کا شیخ الحدیث مقرر کیا گیا تھا۔مفتی احمد صاحب خان پوری موجودہ شیخ الحدیث ہے۔

حوالہ : ویکی پیڈیا

جب ہم جامعہ میں داخل ہوئے تو گیٹ مین نے تفصیلات پوچھیں مولانا صاحب نے تفصیلات بتائیں ہم لوگ گیٹ کے اندر داخل ہوئے اور اپنا سامان مسجد کے سامنے موجود حوض کے اوپر رکھا جسے یہاں کشتی کہتے ہیں ۔ ۔ ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کیا تہجد کی نماز ادا کی اور فجر کی اذان تک ذکر و دعا میں مصروف ہو گئے ۔ کچھ طلبہ اس وقت بھی مسجد کے کونے میں بیٹھے ذکر جہری میں صروف تھے ۔ فجر کی اذان کے بعد ایک ایک کر کے مہمانان رسول کی آمد مسجد میں ہونے لگی چند منٹوں میں مسجد طلبہ سے بھر گئی ان میں اکثروں کے چہرے سرخی و سفیدی مائل نورانی چہرے تھے چونکہ جماعت میں تاخیر تھی کوئی ذکر کوئی تلاوت میں مسلسل مصروف تھا ۔

بعد نماز فجر مولانا صاحب کے فرزند مولانا اسد اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی جو عربی ششم میں پڑھتے ہیں ۔ وہاں سے مولانا  کے فرزند ہمیں چائے پینے کے لئے لے گئے ایک بڑے ہال میں سلیقے سے دسترخوان بچے تھے اور بٹر رکھے ہوئے ہم لوگ چائے اور بٹر کھا کر مہمان خانے کی طرف گئے ۔ ۔ ۔ جہاں ہم لوگوں نے آرام کیا ۔ تقریبا صبح کے 10 بجے تک نہانے دھونے ناشتے سے فارغ ہو کر ہم مسجد کے طرف چلے جہاں حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کا درسِ بخاری تھا ۔ حضرت 10:20 پر بذریعہ ویل چیئر کے مسجد میں داخل ہوئے ۔ حضرت کا پرنور چہرہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔ ۔ ان طلبہ کے ساتھ بیٹھے جب حضرت کا درس سن رہا تھا بار بار دل میں حدیث کا یہ ترجمہ گونج رہا تھا وہ یہ کہ جو کسی جماعت کی تعداد بڑھا دے اس کا شمار انہی لوگوں میں ہے ۔ ۔ حضرت کی شخصیت تو بحر العلوم ہے درس کے دوران ایسے ایسے نقطے بیان کرتے تھے گویا انسان کی عقل حیران رہ جائے ۔ ۔ درس بخاری کی حضرت کی تشریح کردہ احادیث کو بہت مرتبہ پڑھا اور سنا تھا مگر جس انداز سے حضرت نے سمجھایا اور بیان کیا شاید ان احادیث کو میں زندگی بھر کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ۔ درس کے بعد طلبہ اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے اور حضرت کو ویل چیئر کے ذریعے سے کار تک پہنچایا گیا حضرت کار میں سوار ہو کر محمود نگر کی طرف چلے گئے جہاں حضرت کا مکان تھا اور ان کے پیچھے پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت کی گھر کی طرف روانہ ہوا اور ہم بھی اس  قافلے میں شریک ہو گئے ۔ وہاں ایک بڑے ہال میں قاری عبدالحنان صاحب نے تعلیم شروع کی تعلیم کے بعد حضرت نے دعا فرمائی اور آئے ہوئے احباب نے اپنے اپنے احوال سنائے اور حضرت سب سے مصافحہ کر کے وہاں سے اپنے مکان کی طرف چلے گئے جو وہاں سے چند قدم کی دوری پر تھا ۔ ۔ ۔ سارے لوگوں نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد قاری عبدالحنان صاحب سے مولانا نے میری ملاقات کروائی اور ہمیں خصوصی مہمان خانے میں ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا ۔ ۔ اور ہمیں حضرت سے ملنے کا وقت عصر کے بعد دیا گیا ۔ ۔ ظہر کی نماز کے بعد ہم لوگ دوبارہ مہمان خانے میں آ گئے میں نے مولانا کی اجازت لے کر اہل خانہ کے لیے کچھ خریدداری کے لیے سورت چلا گیا ۔ ۔ مگر وہاں جا کر پتہ چلا کہ اتوار کے دن بازار بند رہتا ہے جس کی وجہ سے میں واپس تقریبا چار بجے لوٹ آیا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کی نماز کے لیے چلے گئے ۔ ۔ حضرت سے ملنے کے لیے لوگ قافلہ در قافلہ یکے بعد دیگرے حضرت کے گھر میں جاتے رہے اور ہم لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد ہمیں اجازت مل گئی ہم اندر مکان میں داخل ہوگئے ۔ دیکھا تو حضرت سفید رنگ کا بنیان اور سفید رنگ کی لنگی پہننے کرسی پر بیٹھے تھے ۔ ہم دونوں نے مصافحہ کیا اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئے ۔ یوں تو میں حضرت مفتی صاحب کی زیارت برسوں سے کرتا رہا ہوں مگر اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع آج زندگی میں پہلی مرتبہ ملا اتنا نورانی چہرہ  روشن چہرہ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کا نہیں دیکھا تھا ۔ مولانا حبیب اللہ صاحب نے حضرت کے مزاج پوچھے کے بعد اپنے مکان میں اجتماعی ذکر کی اجازت چاہی تو حضرت نے برجستہ اجازت دے دی ۔ ۔ مولانا نے جب طبیعت کے بارے میں جب پوچھا تو کہا کہ پیروں میں درد رہتا ہے اور واقعتا حضرت کے پیر بہت سوجھے ہوئے تھے ۔ مولانا نے حضرت سے اجازت لے کر حضرت کے قدموں کے قریب بیٹھے اور پیروں کو پکڑ کر دباتے ہوئے کچھ پڑھتے رہے ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں حضرت کے قریب گیا اور میں نے اپنا تعارف کرایا کہ حضرت میرا نام آفتاب عالم پٹیل ہے ۔ ۔ اور جس نیت سے میں نے یہ سفر کیا تھا اس دعا کا ذکر میں نے حضرت سے کیا حضرت نے دعا دی اور میں نے اس پر آمین کہا اور اللہ کی ذات سے امید بھی رکھی کہ حضرت کی زبان سے نکلی ہوئی اس دعا کو اللہ تعالی ضرور قبول کرے گا ۔ حضرت سے اجازت لے کر ہم ان کے مکان سے باہر نکل کر جامعہ کی طرف گئے جہاں مولانا اپنے پرانے اساتذہ سے ملاقات کرنا چاہ رہے تھے ۔ ۔ مغرب کی نماز جامعہ کی مسجد میں ادا کی ۔ مغرب کے بعد میں نے روزانہ کے معمولات پورے کیے ۔ ۔ بعد نماز عشاء کھانا کھایا اور حضرت کے چھوٹے فرزند مولانا ارشد صاحب سے مختصر سی ملاقات ہوئی ۔ کھانے کے بعد فورا سو گئے ۔ ۔ رات کے تقریبا 4:15 بجے مولانا نے مجھے جگایا ۔ ۔ جلدی اٹھو ذکر جہری کے لیے حضرت کے مکان پر جانا ہے ۔ ۔ اتنا سننا تھا میں فورا اٹھا وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر حضرت کے مکان کی طرف گئے ۔ حضرت کے چھوٹے فرزند کے علاوہ ہم  پانچ چھ لوگ تھے جو ذکر جہری میں شامل تھے ۔ میں حضرت کے بالکل قریب ہو کر بیٹھا تھا ۔ جب حضرت الا اللہ کی ضرب لگاتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ضرب میرے سینے پر لگ رہی ہے ۔

نفیِ ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا للہ کا

علامہ اقبال

مطلب: جو شخص معرفت حق سے آگاہ ہو جاتا ہے اسے یہ باور کرنے میں تاخیر نہیں ہوتی کہ نفی کے بعد ہی اثبات کا مرحلہ آتا ہے ۔ اپنے وجود کو مٹانے سے ہی رب ذوالجلال کی معرفت نصیب ہوتی ہے ۔

ذکر مکمل ہونے کے بعد ہم لوگ مہمان خانے کی طرف چلے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد فجر کی اذان ہوئی ہم لوگ نماز ادا کرنے کے لیے قریب کی مسجد میں چلے گئے ۔ نماز فجر کے فورا بعد مہمان خانے میں ناشتے کا انتظام کیا گیا تھا گجراتی ناشتہ کرنے بعد مولانا ذکر میں مصروف ہو گئے میں ادھرادھر ٹہلتا رہا ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آرام کرنے لیٹ گیا ۔ ۔ اور تقریبا ساڑھے نو بجے اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہوا اور ٹھیک 10 بجے مولانا حضرت کے درسِ بخاری میں شرکت کے لئے آگے نکل گئے ۔ ۔ میں نے درس بخاری میں شرکت کی نیت سے نئے کپڑے اور نئی ٹوپی لی تھی ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں بھی تیار ہو کر حضرت کے درس میں شامل ہو گیا ۔ آج کے درس میں حضرت پاکی ناپاکی اور غسل کے متعلق احادیث بیان کر رہے تھے ۔ اس درس میں ایسی کئی نئی باتیں تھیں جو میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سنی تھیں اور واقعتا اس درس سے مجھے بہت بڑا فائدہ ہوا ۔ درس کے بعد حضرت کو قاری عبدالحنان صاحب  ویل چیئر کے ذریعے  کار کی طرف لے گئے اور وہاں سے حضرت اپنے مکان کی طرف گئے ۔ ۔ تقریبا 12 بجے کے قریب ہم لوگ مہمان خانے میں گئے جہاں پہنچنے کے بعد مہمان خانے کے ناظم نے ہمیں دوپہر کا کھانا کھلایا ۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے ظہر کی نماز ادا کی ظہر کی نماز کے بعد میں جامعہ کا کتب خانہ دیکھنے کے لیے چلا گیا ۔ کتب خانے کے ذمہ دار سے میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان سے اجازت چاہی کہ میں کتب خانہ دیکھنا چاہتا ہوں انہوں نے بخوشی اجازت دے دی ۔ ۔ کتب خانے میں داخل ہوتے ہی کتب خانے کے بائیں جانب ایک کانچ کی الماری میں  کتابوں کے قلمی نسخے ، پرانے خطوط، قران کے قلمی نسخے ، اور بھی بہت سی پرانی تحریریں تھیں ۔ ۔ اس کتب خانے میں تقریبا 40 ہزار کتابیں ہیں ۔ میں بہت دیر تک کتب خانے میں الگ الگ موضوعات کی کتابوں کی ہیڈنگ پڑھتے ہوئے سارے کتب خانے کا دورہ کیا اور کتب خانے کے ذمہ دار کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے باہر نکل آیا ۔ ۔ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم جامعہ سے واپسی کے سفر کے لئے نکلے ۔ بیکری سے بچوں کے لیے کھانے کے لیے چیزیں اور عطر وغیرہ خریدنے کے بعد ہم لوگ وہاں پہنچے جہاں سے ہم کو بس پکڑنی تھی ۔ رات کے کھانے کے لیے چکن بریانی کا پارسل ساتھ میں لے لیا ۔ اور ہائی وے سے ذرا دور ہٹ کر مغرب کی نماز ادا کی ۔ تھوڑی دیر کے بعد بس آئی ۔ ہم لوگ بس میں سوار ہوئے ۔ بس جب نکلی تو مجھے بار بار حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم کا نورانی چہرہ نظر آ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں گونج رہا تھا ۔

جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی

الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کی سینوں میں

علامہ اقبال

مطلب: اے رب ذوالجلال! یہ تو بتا کہ اہل دل ( اللہ والوں)  کے سینوں میں وہ کون سی قوت پوشیدہ ہو سکتی ہے جو اپنی ایک پھونک سے بجھی ہوئی شمع کو پھر سے روشن کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تو نے ایسی کون سی صلاحیت پیدا کی ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تقریبا رات کے 10 بجے بس ایک جگہ ٹھہر گئی جہاں ہم لوگوں نے عشاء کی نماز ادا کی اور کھانا کھایا اور دوبارہ بس میں سوار ہو گئے رات کے تقریبا ڈھائی بجے کے قریب جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہم لوگ ممبئی شہر میں داخل ہو چکے ہیں ۔ ۔ ممبئی میں زوردار بارش ہو رہی تھی ۔ ۔ اور جا بجا سڑکوں پر گاڑیاں چل رہی تھیں چائے کے ٹھیلے شروع تھے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے گویا کہ شاید رات کو جگتے ہوں گے اور دن کو سوتے ہوں گے ۔ بارش تیز تھی مگر اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہے تھی البتہ بجلی کے کھمبوں سے نکلنے والی روشنی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ بارش کے قطرے اسی روشنی سے نکل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ممبئی شہر کی گھٹتی بڑھتی عمارتوں کو دیکھتے دیکھتے میں سو گیا ۔ ۔ اور دوپہر کے 12 بجے کے قریب کولہاپور پہنچا جہاں میرے سسر پہلے سے میری بائک لے کر میرا انتظار کر رہے تھے ۔ ۔ مولانا سے اپنے سسر کی ملاقات کرائی ۔ ۔ وہاں سے مولانا میرج کی بس کے لئے نکلے ۔ ۔ میرے سسر بس اسٹاپ کی طرف اور میں وہاں سے کاگل نیپانی ہوتا ہوا کروشی کی طرف نکلا ۔ ۔ ۔ اس طرح الحمد للہ بخیر عافیت سے واپس لوٹا ۔ ۔ ۔

 

آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل(  شاہ نوری )

کروشی بلگام کرناٹک انڈیا

8105493349

 

 


Tuesday, 3 September 2024

نبیﷺ کی محبت میں کیا یہ ہم سے ممکن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟

نبیﷺ کی محبت میں کیا یہ ہم سے ممکن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟


 

مجھ خاکسار کو گزشتہ 10 برسوں سے زائد جونیئر کالجز میں بحیثیت اردو لیکچرار کام کرنے کا موقع ملا ہے ۔ ہمارےیہاں کرناٹک کے پی یو سی سالِ اول کے نصاب میں شامل پہلا سبق جس کا نام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم انسانیت ہے ۔ اس سبق کی تدریس کے دوران جب بھی میں بچوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوالات پوچھتا ہوں، جیسے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا نام، ازواج و اولاد کی تعداد وغیرہ وغیرہ تو یقین جانیے سوائے ایک یا دو طالب علموں کے پوری کی پوری جماعت ان باتوں سے نا آشنا ہے ۔ اور یہ مسئلہ صرف ایک بیاچ کا نہیں ہے بلکہ ہر سال کی ہر بیچ کا مسئلہ ہے ۔ اس کے برخلاف اگر انہی طلباء سے کسی کرکٹر ، فلمی اداکار یا اداکارہ یا کسی سلیبرٹی کے متعلق پوچھا جائے تو اس کی مکمل تاریخ بتا دیتے ہیں ۔ ۔

ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کہیں نہ کہیں ہم سے ان بچوں کی دینی تربیت میں ان بچوں کی تعلیم میں چُوک ہو رہی ہے ۔ لہذا مجھ خاکسار کے ذہن میں اللہ نے ایک بات ڈالی ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ بہت حد تک اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے اور امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے آشنا ہو جائیں گے ۔ چونکہ دو ایک روز میں ربیع الاول کا مقدس مہینہ آرہا ہے اس مقدس مہینے میں ہم اپنے بچوں کے لیے سیرت طیبہ جاننے کے لیے راہیں ہموار کر سکتے ہیں ۔

سیرت طیبہ کو متعارف کرانے کا ایک آسان اور سہل طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلی جماعت سے دسویں جماعت کے طلبہ تک معلومات کو سب سے پہلے پہنچا جائے ۔ ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ امت کے مالدار احباب آگے بڑھیں اور اپنے طور پر سیرت طیبہ سے جڑی کتابیں خریدنے کے لیے رقم عطا کریں ۔ ۔ دوسری اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ مسلک اور مکتب فکر سے بالاتر ہو کر بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق  سیرت پر مبنی کتابیں اپنی بستی کے ذمہ دار لوگ پرائمری اور ہائی سکول کے طلبہ کو اپنی طرف سے بطور ہدیہ دیں ۔ اور ان بچوں کو کچھ دنوں کا وقت دیں اور ان سے کہیں کہ آپ اس کتاب کا مطالعہ چند دنوں تک کریں اور اس کے بعد ہم لوگ آپ کا امتحان لیں گے اس امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے گا ۔ انعامات کی ترتیب اس طرح سے رکھیں کہ امتحان میں حصہ لینے والے ہر طالب علم کو کچھ نہ کچھ بطور ہدیہ دیں اور اس امتحان میں اول، دوم اور سوم نمبر پر کامیاب ہونے والے بچے کو خصوصی انعام دیں ۔ ۔

سوالی پرچے کا پیٹرن :

سوالی پرچے کے پیٹرن کے لیے آپ پرانے اساتذہ اور خاص طور سے اس وقت کام کرنے والے اساتذہ سے رہنمائی حاصل کریں اور اس کی ایک صورت مندرجہ ذیل ہے ۔ ۔ ۔

پہلی جماعت سے چوتھی جماعت کے طلبہ کو اورل ٹیسٹ زبانی ٹیسٹ لیا جائے ۔ ۔ ۔

پانچویں جماعت سے ساتویں جماعت کے طلبہ کو ملٹیپل چوائز یعنی متبادل سوالات کے جوابات رکھے جائیں جس میں ایک سوال ہو اور جس کے چار جوبات دیے گئے ہوں صحیح جواب کا انتخاب بچہ کرے ۔

آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت کے طلبہ کے لیے ملٹیپل چوائس سولاتا، لانگ انسر ،شارٹ انسر رکھا جائے۔

اگر کسی شہر میں اسکول کثیر تعداد میں ہوں تو ہر اسکول سے کامیاب ہونے والے اول نمبر کے طالب علم کا مزید ایک اور امتحان رکھا جائے ۔ ۔ اس چیز کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تعلقہ سطح اور ضلعی اور صوبہ سطح پر کیا جا سکتا ہے اس کار خیر کے لیے علماء کرام ریٹائرڈ اساتذہ کا مشورہ ضرور لیں اور ان کی رہبری میں کام کریں ۔ ۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جوان کیا کریں :

اکثر دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوان بےکار ریلز شارٹس بنانے دیکھنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اس کی بجائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث اور ان سے جڑی ہوئی چیزوں کو علماء کرام کی رہبری اور ان کے مشورے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہیں تاکہ دیگر افراد تک معلومات پہنچے اور خاص طور پر الگ الگ اور علاقائی زبان میں اسے پوسٹ کرنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے ہم وطنوں تک یہ معلومات پہنچے ۔

بڑی عمر کے پڑھے لکھے لوگ کیا کریں؟

بڑی عمر کے لوگ اپنی اپنی ذہنی صلاحیت اور لیاقت کے حساب سے اس مبارک مہینے میں سیرت طیبہ کی کتابوں کا خوب مطالعہ کریں اور اپنی روز مرہ کی زندگی گفتگو میں سیرت سے جڑی باتوں کو بات چیت کا حصہ بنائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں ۔ ۔ ۔ یہ چند گزارشات تھیں امید ہے کہ امت کے فکر مند احباب اس پر کام کریں گے ۔

 

آفتاب عالمؔ دستگیر پٹیل(شاہ نوری)

کروشی ،بلگام، کرناٹک، انڈیا

918105493349


آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...