Thursday, 31 January 2019


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 04

شہاب الدین محمد غوری

1173 ء سے 1206 ء تک

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
بلگام کرناٹک
8105493349

سلطان محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کا کوئی زبردست جانشین نہ ہوا جو غزنی کی وسیع سلطنت کو سنبھال سکتا اس لیے غزنی کی سلطنت کمزور ہوتی گئی اس زمانے میں غور کی چھوٹی سی کوہسانی ریاست غزنی کے شمال میں واقع تھی،وہاں کے امیر غیاث  الدین نے 1173ء  میں غزنی پر قبضہ کر لیا اور اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین محمد غوری کو وہاں ان کا حاکم مقرر کردیا،محمد غوری بڑا قابل اور تجربہ کار سپاہی تھا اس نے پہلے غزنی کی سلطنت کو مستحکم کیا اور پھر ہندوستان کو فتح کرنے میں لگ گیا وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھاجس نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔

محمد غوری کی فتوحات

1۔ پنجاب اور سندھ کی فتح

محمد غوری نے جب اپنی سلطنت غزنی میں اچھی طرح سے قائم کرلی تو اس نے ہندوستان کا رخ کیا سب سے پہلے پیشاور فتح کیا۔1175 میں ملتان کو فتح کیا 1176ء سے 1182ء تک صوبہ سندھ کو فتح کرنے میں لگایا ،1186 ءمیں لاہور پر حملہ کیا اور غزنی کے آخری بادشاہ خسرو ملک کو قتل کرکے پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اس طرح وہ پنجاب اور سندھ کا حاکم بن گیا



۔ ترائن کی پہلی لڑائی  2


ء1191 میں محمد غوری نے سلطنت دہلی پر حملہ کرنے کے غرض سے آگے بڑھا اس وقت شمالی ہند کے تمام راجے پرتھوی راج والئے دہلی اور اجمیر کے ماتحت تھانیسر میں اکھٹا ہوئے ۔ بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی مسلمان شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے محمد غوری بھی زخمی ہوا اور بڑی مشکل سے جان بچا کے غزنی پہنچا یہ لڑائی ترائن کی پہلی لڑائی کہلاتی ہے

 ۔ ترائن کی دوسری لڑائی 3



پہلی شکست سے محمد غوری کو بہت غصہ آیا غور میں پہنچ کر اس نے ان تمام افسروں کو جو میدان جنگ سے بھاگ نکلے تھے ذلیل سزائیں دیں اس کے بعد اس نے بہت تیاری کی اب جئے چند اور پرتھوی راج میں سخت عداوت تھی اس لئے جئے چند نے بدلہ لینے کی غرض سے محمد غوری کو ہندوستان میں آنے کی دعوت دی ۔ محمد غوری موقع کی تلاش میں تھا وہ ایک لاکھ بیس ہزار فوج کے ساتھ 1192ء میں ترائن کے میدان میں آ موجود ہوا ۔ پرتھوی راج مقابلہ کے لئے آیا گھماسان کی جنگ ہوئی آخر پرتھوی راج اپنے بہادر سرداروں کے ساتھ میدان جنگ میں قتل ہوا راجپوت شکست کھا کر بھاگ نکلے اور محمد غوری دہلی اور اجمیر پر قابض ہو گیا
اس جنگ کی اہمیت
ہندوستان کی تاریخ میں ترائن کی دوسری جنگ ہندوستان کے فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہوتی ہے اس فتح سے ہندوستان میں مستقل اسلامی حکومت قائم ہو گئی

۔قنوج کی فتح 4

ء1194 میں محمد غوری قنوج کو فتح کرنے کی غرض سے بڑی فوج کے ساتھ ہندوستان پر حملہ آور ہوا جئے چند کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑی اس نے چندواڑہ کے مقام پر محمد غوری کا مقابلہ مگر شکست کھاکر قتل ہوا محمد غوری نے  قنوچ اور بنارس کو اپنی سلطنت میں شامل کیا

  ۔ گجرات اور بندھیل کھنڈ کی فتح5

قنوج کی فتح کے بعد محمد غوری واپس چلا گیا مگر اس کے نائب قطب الدین ایبک نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا چنانچہ اس نے 1196ء میں راجہ بھیم دیو کوانہلواڑہ کے مقام پر شکست دے کر گجرات کو سلطنت دہلی میں شامل کرلیا 1202 ءمیں اس نے کالنجر دارالخلافہ بندھیل کھنڈ کو فتح کر لیا

 ۔ بہار اور بنگال کی فتح 6

محمد غوری کے ایک بہادر جرنیل بختیار خلجی نے 1197 ءمیں بہار کو فتح کیا اور 1199 ءمیں بنگال پر قبضہ کرلیا ۔ کیونکہ وہاں کا راجہ لکشمن سین ڈر کے مارے ملک چھوڑ کر بھاگ گیا تھا ۔ اس طرح تمام شمالی ہندوستان پر اسلامی سلطنت پھیل گئی اور راجپوت راجاؤں نے اسے اپنا شہنشاہ تسلیم کر لیا

شہاب الدین کا قتل

2 شعبان 602 سن ہجری کو سلطان شہاب الدین دریائے سندھ کے کنارے پر پہنچا اور وہاں برمہیک نامی ایک مقام پر مقیم ہوا یہاں کے قیام کے دوسرے روز سلطان شہاب الدین کے قتل کا المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا جس کی تفصیل یہ ہے کہ کھکروں کی قوم میں سے بیس افراد سلطان شہاب الدین سے بے حد نالاں تھے کیونکہ اس نے ان کے عزیزوں کو قتل اور خود ان کے گھر سے بے گھر کر دیا تھا ان 20 کھکروں نے آپس میں مل کر شہاب الدین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لئے اپنی جانیں وقف کردی جس دن سلطان برمہیک کے مقام پر خیمہ زن ہوا اس کے دوسرے روز یہ کھکر کسی نہ کسی طرح شاہی خیمے تک پہنچ گئے اس وقت شاہی لشکر کوچ کی تیاریاں کررہا تھا اور فراش سراپردہ اتار رہے ایک قاتل شاہی خیمے کے اندر داخل ہو گیااور شعبان کی تیسری رات تھی ایک کھکر بڑھ کر دربان پر چاقو سے حملہ کیا اور بھاگ نکلا اس دربان کے زخمی ہوتے ہی چاروں طرف ایک غلغلہ مچ گیا شاہی خدمت گار بھی سراپردہ کو چھوڑ کر اس زخمی دربان کے پاس پہنچ گئے جب کھکروں نے یہ دیکھا کہ اس وقت شاہی خیمہ خالی ہے اور تمام محافظ اپنے بادشاہ کو تنہا چھوڑ کر زخمی دربان کے گرد جمع ہیں تو وہ لوگ سراپردہ کو پھاڑ کر ہاتھوں میں چھری اور خنجر لینے بادشاہ کی خواب گاہ میں داخل ہوگئے اس وقت دو تین ترکی غلام بادشاہ کے پاس کھڑے تھے لیکن وہ ان کھکروں کو دیکھ کر سخت بدحواس ہوئے ۔ اور خوف کی وجہ سے بے حس و حرکت کھڑے رہے شہاب الدین ابھی اٹھنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ ان سفاکوں نے اس پر حملہ کردیا اور چھروں سے 22 گہرے زخم اس کے جسم پر لگائے اور ایسے عظیم الشان فرمانروا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا سلطان شہاب الدین کا قطعہ تاریخ شہات یہ ہے
تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر 152


شہادت ملک بحروبر معز الدین کز ابتدائے جہاں مثل الدنیا مدیکک
سوم زغزہ شعبان بساک ششصرود فتادور رہ غزنی بمنزل رہتک


ہندوستان نے اسلامی حکومت کا بانی محمد غوری

محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملےکیے اور ان تمام حملوں میں اسے فتح نصیب ہوئی مگر اس نے سوائے پنجاب کے باقی کسی علاقہ کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا کیونکہ اس کا مقصد ہندوستان کے دولت حاصل کرنا اور اشاعت اسلام تھا اس کے مقابلے میں محمد غوری ہندوستان پر بہت تھوڑے حملے کیے مگر ان حملوں میں اس نے جس علاقے کو فتح کیا اسے مستقل طور پر اسلامی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس طرح ہندوستان میں مستقل طور پر اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔ اس میں شک نہیں کہ محمود غزنوی اور محمد غوری دونوں زبردست فاتح تھے ۔ اور دونوں میں جنگی قابلیت موجود تھی مگر ان دونوں کی فتوحات میں بڑا فرق تھا محمود غزنوی نے ہندوستان کی دولت لوٹنے پر ہی اکتفا کیا مگر محمد غوری نے اپنی تمام کوششیں ہندوستان کے فتح اور اسلامی حکومت کے قائم کرنے میں صرف کیں اس لئے بجا طور پر اسے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا بانی کہتے ہیں

مسلمانوں کی فتح کی اسباب

مسلمانوں کی فتح کے اسباب حسب ذیل تھے

1  ۔ مسلمان سرد کوہستانی علاقہ کے باشندے ہونے کی وجہ سے راجپوتوں کی بہ نسبت زیادہ بہادر مضبوط اور جنگجو واقع ہوئے تھے

  2۔ مسلمان لوگ فنون جنگ میں زیادہ ماہر تھے اور جنگ کے نئے طریقوں سے واقف تھے مگر راجپوتوں کا فن جنگ پرانا تھا

  3۔ ہندوستان میں پھوٹ کا بازار گرم تھا چھوٹی چھوٹی راجپوت ریاستیں آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی مرکزی حکومت سے دشمن کا متفقہ طور پر مقابلہ نہ کر سکتی تھی 

  4۔ مسلمانوں میں بڑا مذہبی جوش تھا ان کا یقین تھا کہ اگر وہ غیر مسلموں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے تو نے جنت نصیب ہوگی اور وہ شہید کا درجہ حاصل کرلیں گے اور اگر دشمن کو مار لیا تو غازی کا لقب پائیں گے اور فتح کی صورت میں حکومت حاصل ہوگی اس لئے دل و جان سے لڑتے تھے مگر راجپوتوں میں اس قسم کا کوئی خیال نہ تھا

  5۔ مسلمان چونکہ غیر ملک سے آئے تھے اس لیے جانتے تھے کہ شکست ہونے کی صورت میں وطن واپس نہیں جا سکیں گے بلکہ راستے میں ہی قتل ہو جائیں گے اس لئے دل و جان سے بہادری سے لڑتے تھے

  6۔ مسلمانوں کی ساری فوج ایک سپہ سالار کے ماتحت لڑتی تھی  مگر راج پوت فوج مختلف سرداروں کے ماتحت تھی اور ہر قبیلہ اپنے سردار کو مانتا تھا اس لئے مل کر دشمن کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے

۔ جے چند اور پرتھوی راج کی باہمی عداوت سے بھی راجپوتوں کی طاقت کو بہت نقصان پہنچا 7


سلطان شہاب الدین ایک خدا ترس اور رحم دل اور انصاف پسند بادشاہ تھا اگرچہوہ ایک خود مختار حکمران تھا لیکن عالموں اور اولیاء کی صحبت میں بیٹھنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتا تھا اور ان کی عزت اور خدمت کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتا تھا

No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...