جدید غلامی کا نام: سوشل میڈیا
✍️ آفتاب عالم ؔ شاہ نوری
بلگام، کرناٹک
📞 8105493349
جس طرح دیمک آہستہ آہستہ لکڑی کو کھا جاتی ہے، اسی طرح آج کے دور میں سوشل میڈیا انسانیت کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یہ بات کڑوی ضرور ہے مگر ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ جتنا نقصان سوشل میڈیا نے حالیہ زمانے میں انسان کو پہنچایا ہے، شاید ہی کسی اور ایجاد نے کیا ہو۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو دور کے شخص کو قریب اور قریب کے فرد کو دور کر دیتا ہے۔
زندگی کا کوئی شعبہ اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ عام مزدور سے لے کر وزیر تک، ہر کوئی اپنی انگلیوں کی جنبش سے اس دنیا میں مست ہے۔ بیشتر لوگوں کا قیمتی وقت واٹس ایپ گروپ بنانے، ڈی پی بدلنے، فیس بک پر لائیک، کمنٹ اور شیئر کرنے میں ضائع ہو رہا ہے۔
واٹس ایپ
واٹس ایپ بظاہر سہولتوں سے بھرپور ہے۔ پیغام رسانی، تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ، گروپ میں اجتماعی بات چیت—سب کچھ آسان۔ لیکن یہی آسانی کئی مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔ ایک گروپ بنانا بیوی کے ناز و نخرے برداشت کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ ہر رکن کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی پیغام آتا ہے تو ایڈمن کو چے نہ چاہے انگوٹھا یا اسمائل دینا ہی پڑتا ہے۔ اور اگر جھگڑا چھڑ جائے تو صلح کرانے کی ذمہ داری بھی اسی پر آتی ہے۔ کچھ نوجوان تو ایک وقت میں کئی کئی گروپوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب ذرا ان معصوم ممبران کو دیکھئے جو سوچے سمجھے بغیر ہر گروپ میں شامل ہو جاتے ہیں اور یوں صرف تعداد بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ چاہے گروپ میں فحش کلامی ہو یا نامناسب ویڈیوز، وہ پھر بھی نہیں نکلتے۔ وجہ پوچھو تو کہتے ہیں: ’’ایڈمن میرا خاص دوست ہے، اگر میں لیفٹ ہو گیا تو برا مانے گا۔‘‘ حالانکہ حدیث کا مفہوم ہے: ’’جو کسی جماعت کی تعداد میں اضافہ کرے، اس کا شمار انہی میں ہوگا۔‘‘ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کن جماعتوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اکثر گروپ پیشے کے حساب سے بنائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے، انجینئروں کے، اساتذہ کے۔ سینکڑوں پیغامات آتے ہیں مگر مشکل سے چند پڑھے جاتے ہیں۔ باقی پر محض اسکرین اوپر نیچے کر کے ایسا ظاہر کیا جاتا ہے جیسے سب پڑھ لیا ہو۔ پھر انھی پیغامات کو بغیر سوچے سمجھے آگے بھیج دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک بری عادت ہے۔
فیس بک
جب اس سے جی بھر جائے تو ایک اور فتنہ فیس بک کے نام سے سامنے آ جاتا ہے۔ اگر اس کا دوسرا نام رکھا جائے تو شاید وہ ہوگا: ’’نیکیوں کا اشتہاری بورڈ‘‘۔ یہاں اکثر لوگ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں جن میں وہ کسی کو کھانا کھلا رہے ہوں، کسی کی مدد کر رہے ہوں یا کوئی نیک عمل کر رہے ہوں۔ افسوس اس وقت بڑھ جاتا ہے جب لوگ کعبۃ اللہ میں حاضری کے لمحات بھی فیس بک پر ڈال دیتے ہیں، گویا یہ منکیر نکیر کے سامنے پیش کرنے کے ثبوت ہوں۔
انسٹاگرام
تیسرا بڑا سماجی رابطے کا پلیٹ فارم انسٹاگرام ہے۔ اگر اسے آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک وقت تھا جب امیر لوگ غریبوں کی بیٹیوں کو نچوا کر ان پر دولت لٹاتے تھے۔ آج منظر مختلف ہے مگر حقیقت قریب قریب وہی ہے۔ اب انہی امیر گھرانوں کی بیٹیاں خود دنیا کے سامنے ناچ گانا کرکے اپنے آباء و اجداد کا قرض اتار رہی ہیں اور اسی کو ذریعہ بنا کر آن لائن دولت کما رہی ہیں۔ دکھاوا، خودنمائی اور بے پردگی اس پلیٹ فارم کا سب سے بڑا سرمایہ بن چکا ہے۔ اس کے اثرات نوجوانوں کی ذہنی اور اخلاقی زندگی پر نہایت خطرناک پڑ رہے ہیں۔
---
❗ افسوس یہ ہے کہ انسان کو چاہئے تھا کہ سماجی ذرائع ابلاغ کو اپنا غلام بنائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود انسان ان کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment