سماجی ذرائع ابلاغ
جس طرح دیمک لکڑی کو کھاتا ہے ،اسی طرح موجودہ دور میں سماجی میڈیا انسانیت کو
برباد کر رہا ہے۔بات کڑوی ہے مگر یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے سماجی میڈیا نے جتنا
نقصان موجودہ دورمیں انسانیت کا کیا ہے شاید ہی گزرے زمانے میں کسی اور چیز نے
ایسا نقصان کیا ہو،یہ ایک ایسا آلہ ہے جو دور بیٹھے شخص کو قریب اور قریب والے فرد
کو دور کردیتا ہے ۔زندگی کا ہر شعبہ اس سم قاتل سے متاثر ہے۔سنتری سے لے کر منتری
ہر کوئی اپنی ا نگلیوں کو جنبش دینے میں مست ہے، اکثرافراد کے اوقات واٹس ایپ گروپ
بنانے، ڈی پی ادلنے بدلنے، فیس بک پرلایئک،ٹیاگ، کمنٹ اور شئیر کرنے میں گزر جاتے
ہیں۔یوں تو واٹس ایپ میں بہت ساری سہولتیں ہوتی ہیں جیسے پیغام ، تصاویر ،
ویڈیووغیرہ کو دنیا کے کسی بھی مقام پر بھیجنا ، حاصل کرنا اور گروپ بنا کر بیک
وقت احباب کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا وغیرہ وغیرہ۔واٹس ایپ جتناسہل ہے اس میں اتنی
ہی دشواریاں بھی ہیں ۔واٹس ایپ کا ایک گروپ بناناگویا بیوی کے ناز و نخرے برداشت
کرنے جیسا ہے ۔کیونکہ گروپ کے ہر ممبر کی پسند نہ پسند کو دھیان میں رکھنا پڑتا
ہے۔اگر بالفرض کوئی گروپ ممبر پیغام بھیجتا ہے تو دوسرا کوئی ممبر اس پر کمینٹ کرے
یا نہ کرے مگر گروپ ایڈمن کو انگوٹھے یا اسمائل کی علامتیں دکھانی ہی پڑتی ہیں،
اگر کسی موقع پر گروپ کے ممبران آپس میں جھگڑ بیٹھیں تو اپسی صلح صفائی کی ذمہ
داری بھی اڈمن ہی کی ہوتی ہے ۔بعض مضبوط دل نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیک وقت
چار چارواٹس ایپ گروپ سنبھالتے ہیں،
اب آیئے ان بھولے بھالے گروپ ممبران کی بات کریں جو بنا سوچے سمجھے ہر کسی گروپ
میں شامل ہوتے ہیں اور گروپ کی تعداد میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں، گروپ میں چاہے
جتنی بھی فحش کلامی ، تصاویر اور ویڈیو ہی کیوں نہ ہو گروپ سے ہر گز بھی لیفٹ نہیں
ہوتے، جب ان سے وجہ پوچھی جائے تو کہتے ہیں بھائی گروپ اڈمِن میرا خاص دوست ہے
۔اگر میں گروپ سے لیفٹ ہو جاؤں گا تو دوست اس بات کا برا مانے گا، جب کے حدیث کا
مفہوم ہے " جس نے کسی جماعت کی تعداد بڑھادی اس کا شمار انہی میں
ہے"
ہمیں خود اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا ہم کیسی کیسی جماعتوں کی تعداد میں اضافہ
کرتے ہیں،اکثر و بیشتر گروپس پیشوں کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں مثلاً ڈاکٹروں
کا گروپ، انجیروں کا ، اساتذہ کا وغیرہ وغیرہ ، سینکڑوں پیغامات میں سے مشکل سے
کوئی دو چار پڑتا ہوگا ورنا تو انگلی کو اوپر نیچے کرکے ایسا جتانے کی کوشش کرتے
ہیں گویا ہم نے سارے ہی پیغامات ایک نظر میں پڑھ لئے ۔ اور آنے والے ہر پیغام کو
بنا سوچے سمجھے دوسروں کو فاروڈ کر دیتے ہیں۔جب کے یہ ایک برا فعل ہے۔
جب اس سے تھک جائیں تو ایک اور فتنہ ہے جسے دنیا فیس بک کے نام سے جانتی ہے، دراصل
فیس بک کا کوئی اور آسان نام رکھا جائے تو وہ ہے "نیکیوں کی اشتہار کی
جگہ" یہاں اکثر ا فرد اپنی ایسی تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں جس میں کسی کو کچھ
کھلایا ، پلایا، حادثے میں کسی کی مدد یا کسی کا بھلا کیا گیا ہو ، افسوس تو اس
وقت ہوتا ہے کہ لوگ کعبۃاللہ جا کر اپنی تصاویر کو اپ لوڈ کرتے ہیں جیسے یہ کعبہ
کی حاضری کا ثبوت منکیر نکیر کو پیش کرنے والے ہوں ،بے حد افسوس کا مقام ہے انسان
کو چاہیئے تھا کہ سماجی ذرائع ابلاغ کو غلام بناکر رکھے، مگر افسوس خود سماججی
ذرائع ابلاغ کا غلام بنا بیٹھا ہے۔۔۔۔
بلگام کرناٹک
8105493349
No comments:
Post a Comment