Thursday, 3 October 2019

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر 25
شیر شاہ سوری
1540 سے 1545 تک


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

شیرشاہ کی ابتدائی زندگی 

شیرشاہ کا اصلی نام فریدخان تھا اس کا باپ حسن خان بہار میں ایک معمولی جاگیردار تھا اس کا دادا افغانستان کا باشندہ تھا اوائل عمر میں فرید خان اپنی سوتیلی ماں کی سختیوں سے تنگ آکر جونپور چلا گیا اور بعد میں سپاہی بھرتی ہو گیا ۔ آہستہ آہستہ کافی ترقی کر گیا ایک دفعہ فرید خان سلطان جونپور کے ہمراہ شکار کے لیے گیا اس نے تلوار کی ایک ہی وار سے شیر کا کام تمام کردیا جس پر سلطان نے خوش ہو کر اسے شیر خاں کا خطاب دیا لیکن بعد میں جب وہ بنگال کا حاکم ہوا تو اس نے شیر شاہ کا لقب اختیار کیا ۔

سلطان جونپور کی وساطت سے شیر خاں بابر کے دربار میں پہنچا بابر نے اسے ہونہار دیکھ کر بہار میں اسے اعلی عہدہ دیا جب ہمایوں گجرات کی بغاوت فرو کرنے میں مشغول تھا تو شیر خان نے بہار میں خودمختاری کا اعلان کردیا ۔ رہتاس اور چنار گڑھ کے قلعے فتح کرلیے اور بنگال پر قابض ہوگیا آخر اس نے ہمایوں کے ساتھ جنگ کی اور قنوج کے مقام پر اسے شکست دے کر دہلی کا تخت حاصل کیا ہمایوں مایوس ہوکر ایران کی طرف بھاگ گیا ۔ 

فتوحات 
١۔  شیر شاہ نے تخت پر بیٹھتے ہیں پنجاب کا صوبہ فتح کرلیا اور دریائے جہلم کے قریب ککھڑوں کی بغاوت کو فتح کیا
٢۔  بنگال کے صوبے دار نے بغاوت کیا سے شکست دے کر موتی کیا 
٣۔  1541 میں مالوہ اور رنتھمبور کو فتح کیا ۔ 
۴۔ 1542 میں مالدیو والئے میواڑ کو شکست دے کر اس کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔ 
۵۔  1545 میں بندھیل کھنڈ کے مشہور قلعہ کالنجر کا محاصرہ کیا لیکن بارود خانہ میں آگ لگ جانے سے سخت زخمی ہوا ۔ 

 عدل وانصاف کا عجیب وغریب نمونہ
مسٹر الفنسٹن نے اپنی تاریخ میں شیر شاہ سوری کی عدالت کا ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے کہ شیر شاہ کا منجھلا لڑکا عادل خان ایک دن ہاتھی پر سوار ہوکر آگرہ کی کسی گلی سے جارہا تھا ، ایک مہاجن کی عورت ،جو حسین جمیل اور خوبصورت تھی ، اپنے آنگن میں نہا رہی تھی ، اس کے گھر کی چہار دیواری نیچی تھی ؛ اسی لیے عادل خان جو ہاتھی پر سوار تھا اس کی نظر اس عورت کے جسم پر پڑ گئی،وہ اسے دیکھنے لگا اور پان کا ایک بیڑہ بھی اس کی طرف پھینکااور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ، وہ عورت پارسا اور باحیا تھی، ایک نامحرم کے بے پردگی کی حالت میں دیکھ لینے کو برداشت نہ کرسکی اور خود کشی کرنے لگی ، اس کے اعزہ واقارب اور شوہر نے بڑی مشکل سے اسے خود کشی سے روکا ۔
اور اس کا شوہر پان کا وہ بیڑہ لے کر شیر شاہ سوری کے دربار میں حاضر ہوا ، جہاں وہ عوام کی شکایتیں سن رہے تھے، اس نے اپنی عزت وناموس کی درد بھری روداد شیر شاہ سوری کے گوش گزار کی، اس واقعہ کو سن کر شیر شاہ سوری بہت رنجیدہ ہوئے ، دیر تک افسوس کرتے رہے ، پھرحکم دیا کہ یہ مہاجن اسی ہاتھی پر سوار ہوکر عادل خان کے گھر آئے اور عادل کی بیوی اسی طرح برہنہ کرکے اس کے سامنے لائی جائے اور یہ مہاجن اس کی طرف بھی پان کا بیڑہ پھینکے۔
ایسا انصاف جو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ہی خلاف اور اپنے گھر کی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر دیا گیا ہو ، شاید ہی کہیں ہمیں ملے؛چنانچہ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا ، امراء اور اراکینِ سلطنت نے عادل خان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سفارش کی ؛مگر شیر شاہ سوری نے پوری متانت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ایسے موقع پر کسی کی سفارش قبول کرنا ہرگز نہیں چاہتا ؛میری نگاہ میں میری اولاد اور رعایا دونوں مساوی ہیں ،میری اولاد ایسی گھٹیا حرکت کرے اور میں اس کے ساتھ روا داری کروں ، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ۔
اس مہاجن نے جب عدل وانصاف کایہ فیصلہ سنا اور ایسا عدل ،جو اس کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا ،تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں پڑگیا اور اس نے خود عاجزی اور اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ یہ حکم نافذ نہ کیا جائے میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتاہوں۔

انتظام سلطنت 

شیرشاہ بڑا مدبر دوراندیش منصف مزاج اور غیر متعصب بادشاہ تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ سلطنت کی بہبودی رعایا کی بہتری پر منحصر ہے اس لئے سلطنت کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی طرف بھی توجہ دیتا تھا ۔ 

ملکی انتظام 
شیرشاہ نے ملک کو 47 صوبوں میں تقسیم کرکے ان پر صوبے دار مقرر کیے ہر صوبہ میں کئی سرکار ضلعے تھے اور ہر سرکارمیں کئ پرگنے ان کے انتظام کے لیے سرکاری افسر مقرر تھے ۔ 

زمین کا بندوبست 
اس نے زمین کی باقاعدہ پیمائش کروائی اور پیداوار کا چوتھائی حصہ لگان مقرر کیا لگان نقد یا جنسمیں ادا کیا جاسکتا تھا کاشتکاروں کو بڑی سہولت دی جاتی تھی ۔ 

فوجی نظام 
شیر شاہ کی فوجی طاقت بڑی زبردست تھی اس کی فوج میں دیڑھ لاکھ سوار اور 25 ہزار پیدل سپاہی اور پانچ ہزار جنگی ہاتھی شامل تھے فوج میں ضبط کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ سپاہیوں کو حکم تھا کہ کوچ کے وقت کسانوں کے کھیتوں کو کسی طرح سے بھی نقصان نہ پہنچائیں بادشاہ سپاہیوں کی بھرتی خود کرتا تھا اور انہیں نقد تنخواہ دیتا تھا جاگیرداروں کے ذمہ گھوڑے مہیا کرنا تھا اس نے گھوڑوں کو داغ دینے اور سواروں کاحلیہ درج کرنے کا طریقہ جاری کیا ۔ 

محکمہ انصاف 
شیرشاہ بڑا منصف مزاج حاکم تھا اس کے عہد میں ہندو اور مسلمانوں سے یکساں سلوک ہوتا تھا اور اعلیٰطعہدت محض قابلیت کی بنا پر دیے جاتے تھے سزائیں بڑی سخت اور عبرتناک تھی چوری اور رشوت ستانی کے جرم میں بعض اوقات موت کی سزا دی جاتی تھی مقدمات فیصل کرنے کے لیے میرعدل مقرر تھے ۔ 

تعمیرات 
شیرشاہ کو عمارتوں کا بڑا شوق تھا اس نے دہلی اور رہتاس پنجاب دو شہر بسائے اس کے علاوہ اس نے سہسرام کے مقام پر اپنا مقبرہ تعمیر کرایا یہ عمارت ہندوستان کی عظیم الشان عمارتوں میں گنی جاتی ہے ۔


رفاہ عام کے کام 
شیرشاہ کو اپنی رعایا کے آرام کا بڑا خیال تھا چنانچہ اس نے ریا کی سہولت کے لیے مندرجہ ذیل کام کئے

خالص چاندی کے خوبصورت نئے سکے جاری کئے ۔ 
ڈاک کا باقاعدہ انتظام کیا اور ڈاک لے جانے کے لیے ہر کارے مقرر کیے اور جابجا فاصلے پر ڈاک کی چوکی بنوائیں ۔ 
سڑکیں بنوائیں کنویں کھدوائے اور سڑکوں کے دونوں طرف سایہ دار درخت لگوائے اور مسافروں کے آرام کے لیے سرائیں تعمیر کرائی اور ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی رہائش و خوراک کا الگ الگ انتظام کیا ۔ 
پیشاور سے لے کر کلکتہ تک ایک پختہ پندرہ سو میل لمبی جرنیلی سڑک بنوائی اس کے علاوہ آگرہ سے برہانپور اور لاہور سے ملتان تک سڑکیں بنوائیں جس سے ملک میں آمدورفت آسان ہوگئی اور تجارت کو خوب ترقی ہوئی ۔ 
دیوانی اور فوجداری قوانین کا ایک نیا مجموعہ تیار کروایا اور جرائم کا انسداد کیا ۔ 
اس نے تعلیم کے لئے بہت سے مدرسے کھولے اور غریب طلباء کو وظیفے دیے 
اس نے غریبوں اور محتاجوں کے لیے شاہی لنگر کھولے جن پر سالانہ لاکھوں روپیہ خرچ آتا تھا  ۔ 

یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا
دو طرفہ برابر درختوں کا سایا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سرِ رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے
اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے
مسدس حالی

شیر شاہ نے پانچ برس کی سلطنت میں ایک سڑک بنوائی جو چار مہینے کے راستہ میں پھیلی ہوئی تھی اس سڑک پر سات سات کوس فاصلے سے ایک پختہ سرائے بنوائی ۔ لب سڑک جابجا کنوئیں اور مسجدیں بنوائیں ۔ ہر مسجد میں امام اور موذن مقرر کیا ۔ ہر سرائے میں مسلمان اور ہندو آدمی نوکر رکھے تاکہ سب کو آرام ملے ۔ سڑک کے دونوں طرف درخت لگوائے ۔ کوس کوس بھر پر ایک منارہ بنوایا جس سے راستہ کا انداز ہو ۔ ۔ 
مسدس حالی ص نمبر 36

شیرشاہ کا درجہ 
شیرشاہ منصف مزاج اور غیر متعصب حکمران تھا وہ ایک بہادر سپاہی اور تجربہ کار جرنیل تھا اگرچہ بہت عالم نہ تھا مگر علماء کا بڑا قدر دان تھا اس نے طلباء اور علماءکے لیے سرکاری وظائف مقرر کرکے اپنی علم دوستی اور فیاضی کا ثبوت دیا ۔ وہ بڑا محنتی تھا اور عیش و عشرت سے نفرت کرتا تھا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں سے یکساں سلوک کرتا تھا اس کے عہد میں اس کے اصلاحات رعایا کے لئے بہت مفید تھی ۔ 

شیر شاہ کے عہد میں ملک میں امن رہا ذراعت کو بہت ترقی ہوئی صنعت و حرفت خوب چمکی مرکزی حکومت مضبوط ہوئی اس کی وجہ سے اکبر نے بھی اس کی نقل کی اسی وجہ سے اسے اکبر کا پیشرو مانا جاتا ہے دن رات رعایا کی بہتری کے لئے کام کرتا تھا ۔ ان نیک صفات کی وجہ سے شیرشاہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں میں ممتاز درجہ رکھتا ہے
اپنی جدوجہد سے شیر شاہ نے عظیم سلطنت قائم کی تھی۔ لیکن اس نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر سہسرام کو ہی پسند کیا تھا جو ادھر اس کا قوم سوری کا اکثریت تھا اس لیے اپنی زندگی میں ہی کیمور کی پہاڑی پر مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس کے چاروں جانب جھیل پھیلی ہوئی ہے۔ اور سوری پشتنوں کی مشہور شاخ اسحاق زئ کا بڑا بیٹا تھا


No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...