Tuesday, 4 February 2020


محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,28
ابو المظفر محمد شہاب الدین شاہجہان
1628 سے 1666
  



آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349


شاہجہاں کا تیس سالہ دور حکومت مغلیہ سلطنت کا دور زریں سنہری زمانہ کہلاتا ہے جیسا کہ ہم عصر مورخ خافی خان اپنی کتاب تاریخ منتخب الباب میں لکھتا ہے کہ ہندوستان کا وہ فرمارواں جس کا عہد زرین مغل دور کا منتہائے کمال تھا جس نے بڑی شان و شوکت سے بادشاہت کی جس کا ابتدائی وقت شدید کشمکش میں اور انجام نہایت عبرتناک ہوا شاہجہان تاج محل کا بانی اور ہندوستان میں مغلیہ تہذیب کا روشن مینار تھا اگرچہ اکبر فاتحہ اور قانون ساز تھا لیکن ملک کے انتظام امن اور مالیات کی بہتری کا اعتبار سے کوئی حکمران شاہجہاں کا ہمعصر نہیں ۔
آغاز میں چند بغاوتوں کے سوا بحیثیت مجموعی داخلی و خارجی لحاظ سے مکمل امن وامان قائم رہا بقول عبدالحمید لاہوری "اگرچہ شاہجہاں کی حدود سلطنت بہت وسیع تھی لیکن اس تیس سالہ دور میں کسی کو سرکشی اور امن و امان تباہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی " (بادشاہ نامہ)  حالانکہ وسط ایشیا سے دکن تک کے علاقے فتح کیے گئے لیکن نہ کسی بیرونی حملہ آور کو حملہ کرنے کی جرات ہوئی، نہ ہی اقتدار اعلی کو کسی نے چیلنج کیا لہذا اس بارے میں شبہ کرنا ناممکن ہے کہ اس کا عہد سلطنت مغلیہ کا اوج کمال ہے ۔
یہ آسودگی اور خوشحالی کا زمانہ تھا اور مورائیڈ اسے مکمل زرعی سکون سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ شاہجہاں کے حکم پر بہت سی نہریں بنائی گئی اور کاشتکاروں کی بہبودی پر نظر رکھی گئی نیز پروفیسر شرما کے بقول سڑکوں کو محفوظ اور سفر کو آرام دہ بنانے کے لئے قلعہ نما سرائیں تعمیر کرکے تجارت میں اضافہ کیا،حکومت کی زیر نگرانی صنعت و حرفت کے متعدد کارخانے قائم کیے گئے چنانچہ عہد اکبری کی نسبت سرکاری آمدنی میں آٹھ گناہ اضافہ ہوا ہمعصر سیاح برنئیر کے الفاظ میں برآمدی اشیاء کی اس قدر فراوانی ہے کہ اس کی نظیر مل سکتی ،سورت کی عظیم بندرگاہ کی راستے ریشم شکر روئی سوتی کپڑا شورہ مصالحہ فسون اورادویہ بہت سے ایشیائی اور یورپی ممالک کو بھیجی جاتی تھیں ۔ اشیا خورونی اور مال و دولت کی بہتات تھی سرکاری تقریبات اور تہوار بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے تھے ۔

ممتاز محل کی میت برہانپور سے آگرہ میں


ملکہ ممتاز محل کی موت کے تقریبا چھ مہینے بعد ملکہ کی لاش جوکہ سپرد زمین کردی گئی تھی 17 جمادی الاول 1041ھ کو برہانپور کے باغ سے کھود کر نکالی گئی اور آگرہ کے لئے روانہ کی گئی شاہ شجاع وزیرخان اور مرحومہ کے وکیل سنی النساء لاش کے ہمراہ تھے ۔ تمام راستے اندازہ روپیہ خیرات کیا گیا لاش کو آگرہ لانے کے بعد ایک نہایت ہی خوبصورت قطع میں جوکہ جنوب میں تھا 15 جمادی الثانی 1041ھ ، 1631ء کو دفن کردیا گیا ۔
ملکہ ممتاز محل کو جس خطہ زمین میں دفن کیا گیا تھا وہاں زمانہ قدیم سے راجہ مان سنگھ کی حویلی بنی ہوئی تھی جو اس کے پوتے راجہ جئے سنگھ کی ملکیت تھی بادشاہ نے راجہ جئے سنگھ سے اسے خرید لیا اور حکم دے دیا کہ ملکہ کی قبر  پر ایک ایسی نادر روزگار عمارت بنائی جائے جس کی نظیر دنیا میں نہ ہو، چنانچہ اس عمارت کی تیاری کے لیے ہندوستان کے علاوہ دور دراز سے بہترین سناع بلائے گئے جن میں مور قوم کے عرب سناع بھی شامل تھے بیس سال اس عمارت کی تیاری پر صرف ہوئے اور پچاس لاکھ روپے کے قریب لاگت آئی چنانچہ مایہ ناز عمارت تاج محل کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے اور اس کو دنیا کا ایک عجوبہ شمار کیا جاتا ہے  ۔ (ہندوستان پر مغلیہ حکومت مفتی شوکت علی فہمی صفحہ نمبر 181 )

شاہجہاں کی دکنی پالیسی

شاہجہان کو دکن کا مسئلہ اپنے دادا اکبر اور باپ جہانگیر سے میراث میں ملا تھا لیکن اس نے دو وجوہات کے پیش نظر ایک جارحانہ دکنی حکمت عملی کی بنیاد ڈالی

دکن میں ایک شدید قحط نے تباہی پھیلا دی

احمد نگر کے حبشی وزیراعظم ملک عنبر کا انتقال ہوگیا تھا جو مغل سالاروں کے لئے دکن میں مزاحمت کا باعث بنا ہوا تھا مزید برآں شاہجہاں جنوبی ہندکی ان ریاستوں کو اپنے زیرنگیں کرنا چاہتا تھا

تسخیر دکن کے اسباب
دکنی ریاستوں کو مغل حکومتوں میں شامل کرنے کے بڑے بڑے اسباب درج ذیل ہیں
احمد نگر بیجاپور گولکنڈہ وغیرہ دکنی ریاستوں کے حکمران شیعہ اعتقاد کے حامل تھے اور شیعہ حکمران مغلوں کے خلاف تخریبی سرگرمیوں میں لگے ہوئے تھے۔
انہوں نے خراج کی بقایا رقم ابھی ادا نہیں کی تھی۔
وہ مغلوں  کے خلاف مرہٹوں کی پشت پناہی کرتے رہتے۔
وہ شہنشاہ ایران کو اپنا محافظ سمجھتے۔
احمد نگر کے حکمران نے خان جہان لودھی کے ساتھ مل کر مغلوں سے جنگ کی۔
مغل حکمران بیش بہا وسائل کی بنا پر بھی ان ریاستوں کا الحاق چاہتا تھا۔
مغل حکمران اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر ان دکنی ریاستوں کو فتح کرنے کا خواہاں تھا۔

احمد نگر کی فتح

احمد نگر کے حکمران نے خان جہاں لودی کی امداد کرکے شاہجہاں کی ناراضگی مول لے لی تھی مغل سالار اعظم خان نے ١٦٣٠ میں حملہ کرایا لیکن وہ پیراندا کے قلعے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا اس نازک موقع پر ملک عنبر کے نالائق جانشیں فتح خان نے اپنے آقا مرتضیٰ ثانی کو قتل کر کے شاہی خاندان کی ایک دس سالہ لڑکے حسین کو تخت پر بٹھا دیا ۔ اور مغلوں کی اطاعت قبول کرلی کچھ عرصہ بعد اس نے دولت آباد کے معاصرے میں مغلوں کی مخالفت شروع کر دی لیکن مہابت خان نے دولت آباد فتح کرلیا دولت آباد کی تسخیر تمام احمد نگر کی فتح تھی فتح خان نے مغل دربار میں ملازمت کرلی حسین شاہ کو قید کر کے ١٦٣٣  سولہ سو تیس میں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا گیا ۔ البتہ شاہ جی بھونسلہ نے کچھ عرصہ نظام شاہی خاندان کے ایک لڑکے کو تخت پر بٹھا دیا لیکن جلد ہی اس نے شاہجہاں اور عادل شاہ والئے بیجاپور نے آپس میں احمد نگر کے علاقوں کو بانٹ کر لیا ۔
فتح خان کو پینشن دے کر لاہور میں رہنے کی اجازت عطا کی گئی اس طرح ریاست احمدنگر کا باقاعدہ طور پر مغلیہ سلطنت کے ساتھ الحاق کر لیا گیا شاہ جی مر ہٹہ نے 1635 نظام شاہی خاندان کے ایک فرد کو تخت نشین کر کے کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن مغلیہ طاقت کے مقابلے پر اسے منہ کی کھانی پڑی ۔

بیجاپور اور گولکنڈہ کی تسخیر

احمد نگر کی فتح کے بعد شاہجہاں بیجاپور اور گولکنڈہ کو بھی مغل سلطنت میں شامل کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ان دونوں حکمرانوں کے نام خطوط لکھے جن میں کہا گیا تھا کہ وہ شاہ جہاں کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے سالانہ خراج ادا کرے اور احمد نگر کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کریں شاہجہاں پانچ ہزار کے لشکر کے ساتھ بنفس نفیس دولت آباد میں وارد ہوا تاکہ انکار کی صورت میں دونوں ریاستوں پر حملہ کر دیا جائے ۔ عبداللہ قطب شاہ والی گولکنڈہ نے شاہجہاں کی فرمابرداری قبول کرلی لیکن سلطان بیجاپور نے اس کی سیادت سے انکار کردیا ۔ اور خطبے سے بادشاہ کا نام نکال لیا شہنشاہ نے یقین دلایا کہ اگر شاہ گولکنڈہ وفادار رہا تو اسے بیجاپور اور مرہٹوں سے محفوظ رکھا جائے گا یوں گولکنڈہ نے سیادت کو تسلیم کرنے کی سفارش پر لڑائی بند کرنے کے احکامات بھیج دیے سلطان بیجاپور نے ناصرف بھاری تاوان ادا کیا بلکہ بیدار، مکیانی، اور پرندہ کے علاقے بھی مغلوں کے حوالے کردیئے ڈاکٹر یم اے رحیم کے مطابق
اورنگزیب موقع پر موجود تھے اور دکن کی سیاست سے انہیں مکمل آگاہی تھی ۔ او ان دونوں زوال پذیر سلطنتوں کا الحاق ضروری سمجھتے تھے چھوٹے بھائی پر دارا کے حسد اور اس کے نتیجے میں شہنشاہ کے تذبذب نے الحاق ملتوی کردیا ۔ شاہجہان کا عمل سلطنت مغلیہ کے مفاد کے صریحاً منافی تھا اس طرح مرہٹہ سرداروں کو مزید علاقے حاصل کرنے اور زوال پذیر سلطنتوں کے نقصان پر اپنے آپ کو طاقتور بنا لینے کے موقع ہاتھ آگئے تخت نشینی کے بعد اورنگزیب کو اپنے باپ کی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔

بیجاپور کے خلاف مہم

بیجاپور کا سلطان محمد شاہ نومبر 1656 میں فوت ہوگیا وہ زندگی بھر مغل سلطنت کا وفادار رہا تھا لیکن نیا سلطان علی عادل 18سالہ نوجوان تھا امراءایک تعداد اس کے خلاف تھی اور اسے محمد عادل شاہ کا لڑکا نہیں مانتی تھیں اورنگزیب کو مداخلت کا موقع مل گیا ۔  اس نے باپ کی اجازت سے بیجاپور پر حملہ کردیا وہ چاہتا تھا کہ اس ریاست کو مکمل طور پر مغلیہ سلطنت میں مدغم کرے لیکن جب بیدار کمیانی اور پرندہ پر قبضہ کر چکا تو دارا شکوہ نے جنگ بندی کا حکم بھجوادیا نیز شاہجہان کی بیماری کی خبر نے اورنگزیب کی توجہ جانشینی کے مسئلہ کی طرف مبذول کروا دی اور اس نے بیجاپور کے سلطان سے صلح کرلی سلطان بیجاپور نے ایک کروڑ روپیہ نقد اور مفتوحہ علاقہ مغل شہزادے کے حوالے کیے ۔

تنقیدی تبصرہ

شاہجہاں کی دکن پالیسی اکبر جہانگیر دونوں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی اس کی خواہش تھی کہ جنوبی ہندوستان بھں مغلوں کے قبضے میں آجائے شمالی ہندوستان پر مکمل قبضہ اور امن و سکون کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں تھا کہ دکن کو فتح کر سکے ۔ لیکن اس کا لڑکا دارا شکوہ اور اس کی بیٹی جہاں آرابیگم اس کی کمزوری بن چکے تھے اور اورنگزیب کو جن اقدامات کی اجازت دیتا داراشکوہ اور جہاں آرابیگم ان کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے اورنگزیب کے خلاف مسلسل اس کو ابھارتے رہتے اس وجہ سے دکن کی تسخیر اس کے عہد میں مکمل نہ ہوسکی اور بعد میں اورنگزیب کے لئے عظیم مسئلہ ثابت ہوئی ایک اور نقطہ نظر سے بھی دکنی پالیسی پر غور کیا جا سکتا ہے سائنسی دور سے پہلے شمالی ہند اور جنوبی ہند پر بیک وقت قبضہ رکھنا قریب قریب ناممکن تھا ۔ اس کے عہد میں تو شمالی ہندوستان میں مکمل امن و امان تھا اور اسے اورنگزیب جیسے لائق سالار کی خدمات حاصل تھیں ۔
اس لیے شمالی و جنوبی ہندوستان کے معاملات کامیابی سے چلتے رہے لیکن جب اورنگزیب کا عہد آیا تو اسے خود ہی دکن میں مہمات کی نگرانی کرنی پڑی اور اسے دکن میں مصروف پاکر شمالی ہندوستان کے ہندوؤں نے بغاوتیں شروع کر دی اس طرح مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا کہا جاسکتا ہے کہ شاہجہاں کے دکّن سمیت پورے برصغیر پر قبضہ رکھنے کی کوشش سلطنت کے زوال کا ایک سبب ثابت ہوئی ۔ ( محمد بن قاسم سے اورنگزیب تک محمد سعید الحق صفحہ نمبر 326 )

ایک کروڑ کی لاگت سے تخت طاوس کی تیاری


تخت طاوس جس کی تاج محل کی طرح ساری دنیا میں شہرت ہوئی اسے شاہجہان ہی نے تیار کرایا تھا شاہجہان نے سولہ سو چونتیس میں حکم دیا کہ جواہرات سے مرصع ایک ایسا تخت شاہی تیار کرایا جائے جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہ مل سکے ۔شاہجہان نے 80 لاکھ کے جواہرات اس تخت شاہی کے لئے جواہر خانہ سے نکلوائے ایک لاکھ تولہ سونا اس تخت کے لیے دیا گیا اور تخت طاوس کی تیاری شروع ہوگئیں یہ سات سال میں بن کر تیار ہوا تخت طاوس دنیا کے نوادرات میں سے تھا ۔ یہ تین گز لمبا اور ڈھائی گز چوڑا تھا اس کی اونچائی 5گز کی تھی اس کی چھت جواہرات سے مرصع تھی جو بارہ زمرود کے ستونوں پر قائم تھی جس پر دو مرصع طاوس رقص کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے ان دونوں طاوسوں کے درمیان جو اس سے مرصع ایک درخت بنایا گیا تھا اگر یہ تخت ہندوستانیوں کی صناعی کا عجوبہ روزگار نمونہ تھا ۔
شاہجہاں کی زمانہ میں جبکہ سونا 12، روپیہ تولہ تھا اور جواہرت بے حد ارزاں تھے اس تخت پر ایک کروڑ روپیہ کی لاگت آئی تھی یہ تخت طاوس کئی پشتوں تک مغل بادشاہوں کے قبضہ میں رہا لیکن حکومت مغلیہ کے زوال کے بعد جب نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو ہندوستان سے جاتے ہوئے اس تخت طاؤس کو اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔

آگرہ کی بجائے دہلی دارالسلطنت

شاہجہان پہلا مغل بادشاہ ہے جس نے 1648 میں آگرہ کی بجائے دہلی کو دارالسلطنت قرار دیا شاہجہاں کو چند خاص وجوہ کی بنا پر ابتدا ہی سے دارالسلطنت کے لیے آگرہ پسند نہ تھا وہ دارالسلطنت کے لیے دہلی کو آگرہ کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتا تھا لیکن دہلی میں کیونکہ نہ تو کوئی اچھا قلعہ تھا اور نہ شاہی ضرورتوں کے لیے عمارتیں تھیں اس لیے وہ اس خیال کو سالہا سال تک عملی جامہ نہ پہنا سکا لیکن 1638 میں شاہجہان جب دہلی آیا ہوا تھا تو اس نے سلیم گڑھ سے متصل اور پرانی دہلی کی فصیل سے دور جمنا کے کنارے شاہجہاں آباد یعنی نئی دہلی کے بنانے کے لئے ایک وسیع زمین تجویز کیا اور طے کیا کہ یہ ایک نیا شہر آباد کیا جائے.
ماہرین تعمیر استاد حامد اور استاد محمود کی خدمات اس نئے شہر کی تعمیر کے لیے حاصل کی گئی ۔ تو انہوں نے شاہجہاں آباد کا جو خوبصورت نقشہ پیش کیا تھا وہ بادشاہ کو بے حد پسند آیا چنانچہ بتاریخ 9 محرم ١٠۴٩ ھ ١٦٣٩ء جمعہ کی رات کو بنیاد کھودنے کا افتتاح ہوا ۔ اور ہزاروں کاریگروں کے ذریعے شہر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا سلطان فیروز کے زمانہ کی نہر بہشت جو بند ہوگئی تھی اسے کاٹ کر اس شہر میں لایا گیا آٹھ سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ١٦٦٨ میں قلعہ اور چند دوسری اہم عمارتیں تیار ہوئی ان کی تیاری پر تقریبا ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوا مسجد بی بی فتح پوری محل رمضان میں تیار ہوئی ۔ اس پر دیڑھ لاکھ روپے لاگت آئی ۔
جب قلعہ اور ضروری شاہی عمارتیں تیار ہوئی تو شاہجہاں شاہی خاندان اور امرا سلطنت کے آگرہ سے دہلی منتقل ہوگیا 24 ربیع الاول ١٠٦٨ ھ ١٦۴٨ کو دہلی کے لال قلعہ میں پہنچ کر بادشاہ نے جلوس کیا اور شاندار جشن منایا جس کی مثال مغلیہ تاریخ میں مفقود ہے ۔ شاہجہاں کے قلعہ میں قدم رکھنے سے قبل اسے آراستہ کرکے دلہن بنادیا گیا اور اس کی آمد پر شہر میں کئی روز تک چراگاہ ہوتا رہا ۔

شاہجہاں کے دہلی آنے کے دو سال بعد 10شوال 1060 سن ہجری 1650 کو سعداللہ خان دیوان اور فاضل خان نے ایک پہاڑی پر دہلی کی اس تاریخی جامع مسجد کی بنیاد رکھی جو ساری دنیا میں اپنی نوعیت کی خوبصورت اور شاندار مسجد شمار کی جاتی ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر میں 5 ہزار کاریگر روزہ نہ کام کرتے تھے اس کی تیاری میں 6 سال لگے اور 10 لاکھ روپیہ خرچ ہوا مسجد کی تیاری کے مہتمم سعداللہ خان دیوان اور خلیل اللہ تھے ۔

جامعہ مسجد کی تعمیر کے علاوہ شاہجہاں آباد میں چند دوسری عمارتوں کی تعمیر کا کام بھی شروع کردیا گیا تھا شاہجہاں آباد کے گرد ایک نہایت ہی مستحکم فصیل تیار کی گئی اور عید گاہ بنائی گئی اگر اس کے ان عمارتوں کی وجہ سے نئی دہلی یعنی شاہجہاں آباد ایک ایسا خوبصورت شہر بن گیا جو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی دنیا کا خوبصورت ترین شہر شمار ہونے لگا ۔ ( ہندوستان پر مغلیہ حکومت مفتی شوکت علی فہمی صفحہ نمبر ٢١٢)

شاہجہاں کی موت

بادشاہ 11 رجب 1076 ھ  مطابق 1666 کو پھر سے پیشاب بند ہونے کے مرض میں مبتلا ہوا ۔ وہ اس بیماری میں تقریبا دو ہفتے مبتلا رہا دو ہفتہ کے بعد جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور بادشاہ کو اپنی زندگی کی کوئی امید باقی نہیں رہی تو اپنے سامنے اپنی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا وصیت کی کہ مجھ کو میری پیاری بیگم ممتاز محل کے برابر دفن کیا جائے غرضکہ 26 رجب 1076ھ 1666.  کو انتقال ہوگیا ۔ بادشا کو وصیت کے مطابق ملک ممتاز محل کے مقبرے میں سپرد خاک کردیا گیا ۔


No comments:

Post a Comment

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...