Wednesday, 1 April 2020

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک قسط نمبر ,30
اورنگ زیب کے جانشین اور سلطنت مغلیہ کا زوال


آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی
ضلع بلگام کرناٹک
8105493349

اورنگزیب کے جانشین

اورنگزیب کے چار لڑکے تھے معظم اعظم اکبر اور کام بخش ۔ ان میں سے اکبر تو فارس گیا اور پھر اس کی زندگی یا موت کی کوئی خبر نہ ملی اورنگزیب نے اپنے مرنے سے پہلے سلطنت کو تین بیٹوں میں تقسیم کردیا تھا تاکہ ان میں خانہ جنگی نہ ہو اس نے معظم کو کابل اعظم کو وسط ہند اور دہلی کام بخش کو دکن کا علاقہ سپرد کیا مگر اس کی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اورنگزیب کے مرتے ہی بھائیوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی شہزادہ معظم کامیاب ہوا اور بہادر شاہ کا لقب اختیار کرکے حکومت کرنے لگا ۔

بہادر شاہ اول 1707 سے 1712


بہادر شاہ نے شیواجی کے پوتے ساہو کو 1708 میں اس شرط پر ریا کیا کہ وہ اس کا باجگزار بنا رہے،ساہو جاتے ہی تارا بھائی بیواہ راجارام کو نظر بند کرلیا اور ستارہ میں حکومت کرنے لگا،

راجپوتوں کی بغاوت

راجپوت بغاوت پر آمادہ ہوئے اس لئے بہادر شاہ نے میواڑ جودھ پور اور جے پور کے راجاؤں سے لڑائی کی تیاری کی جب دیکھا کہ کامیابی مشکل ہے تو صلح کرلی

سکھوں کی شورش

بہادر شاہ کے عہد میں بندہ بیراگی سکھوں کا رہنما تھا ۔ اس نے تمام پنجاب میں لوٹ اور تباہی کا بازار گرم کر رکھا تھا بہادر شاہ خود اس کی سرکوبی کے لئے پنجاب میں آیا اور بندہ کو اس کے ساتھیوں سمیت سرمور کی پہاڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا بہادرشاہ سکھوں کے تعاقب میں مصروف تھا کہ 1712 میں لاہور میں مر گیا ۔

جہان دار شاہ 1712 سے 1713


بہادر شاہ کی وفات کے بعد اس کے چار بیٹوں میں تخت کے لیے خوب جنگ ہوئی انجام کار جہاندار شاہ نے سپہ سالار ذوالفقار خان کی مدد سے تخت حاصل کیا اس کے عہد میں سید بھائیوں حسن علی اور عبداللہ نے بہت زور پکڑا انہوں نے 1713 میں جہاندار شاہ کو مروا کر اس کے بھتیجے فرخ سیر کو تخت پر بٹھایا ۔

فرخ سیر 1711 سے 1719


فرخ سیر بہادر شاہ اول کا پوتا تھا بنگال میں ہونے کی وجہ سے جہاندار کے قتل سے بچ رہا تھا اس کے عہد میں دو سید برادران حسین علی اور عبداللہ بڑے رسوخ کے مالک تھے ان سید برادران کی مدد سے فرخ سیر شہنشاہ دہلی بنا تھا اس لئے ان کی قدرومنزلت بہت بڑھ گئی عبداللہ اس کا وزیر اور حسین علی افواج کا سپہ سالار مقرر ہوا فرخ سیر برائے نام بادشاہ تھا دراصل یہ بادشاہ گر جو چاہتے تھے کرتے تھے ۔ فرخ سیر نے سکھوں پر بہت سختیاں کیں ان کے سردار بندہ بیراگی کو 800 ہمراہیوں سمیت بڑی بے رحمی سے قتل کروایا ۔ فرخ سیر  ایک دفعہ سخت بیمار ہوا ایک انگریز ڈاکٹر ہملٹن نے اسے بالکل تندرست کر دیا اس علاج کے صلہ میں بادشاہ نے انگریزوں کو کلکتہ کے قریب چالیس گاؤں خریدنے کی اجازت دے دی اور انگریزی تجارتی مال پر محصول معاف کر دیا سید برادران کے سخت رویے فرخ سیر کا دل کھٹا کر دیا اس نے ان سے چھٹکارہ پانا چاہا مگر انہوں نے اسے قتل کروا دیا ۔
اس کے بعد سید برادران نے رفیع الدرجات کو 1719 میں بادشاہ بنایا جو چند ماہ کے بعد مر گیا اس کے بعد اس کا بھائی رفیع الدولہ بادشاہ ہوا وہ بھی چند ماہ کے بعد دق کی بیماری سے مرگیا اس کے بعد نکو سیر اور ابراہیم تخت پر بٹھائے گئے مگر یہ بھی جلد مروا دیے گئے اب سید برادران نے بہادر شاہ کے پوتے روشن اختر کو محمد شاہ کا لقب دے کر تخت پر بٹھایا ۔

محمد شاہ 1720 سے 1748


سید برادران کا قتل : 

بہادر شاہ چونکہ سید برادران کی مدد سے دہلی کے تخت پر بیٹھا تھا اسلیے سید برادران کی طاقت بہت بڑھ گئی تھی ان کی من مانی کاروائیوں سے بہت سے امراء ان کے خلاف ہو گئے تھے محمدشاہ بھی ان سے تنگ تھا آخری 1721 میں سید برادران مارے گئے اور محمد شاہ کو ان سے نجات حاصل ہوئی ۔
محمد شاہ بڑا عیاش بادشاہ تھا اس لیے اسے محمد شاہ رنگیلا بھی کہتے تھے اس کے عہد میں نادر شاہ ایرانی نے 1738ءمیں ہندوستان پر حملہ کرکے مغلیہ سلطنت کو بہت کمزور کر دیا اس سے مرہٹے دکن میں خود مختار ہو گئے اور کئی علاقوں سے چوتھ اور سرویش مکھی وصول کرنے لگے،نظام الملک آصف جانے دکن میں سلطنت قائم کرلی سعادت علی خان نے اودھ میں اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا اور علی وردی خان نے اپنی سلطنت بنگال میں قائم کرلیں محمد شاہ نے 1748 میں وفات پائی ۔
محمد شاہ کے بعد کی مغلیہ بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے مگر ان کی حکومت برائے نام تھی سے صرف دو بادشاہ قابل ذکر ہوئے ہیں اول شاہ عالم ثانی اور دوسرا بہادر شاہ ثانی شاہ عالم ثانی نے بنگال بہار اڑیسہ کی دیوانی عطا کی ۔ بہادر شاہ ثانی اس خاندان کا آخری بادشاہ تھا اسے 1857 میں غدر میں شامل ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے اسیر سلطانی بناکر رنگون بھیج دیا تھا اس نے 1864 میں فالج کی بیماری سے وفات پائی اس کی وفات پر مغلیہ خاندان کا خاتمہ ہوگیا ۔

نادر شاہ کا حملہ 1739


محمد شاہ کے زمانے میں 1739 میں ایران کا بادشاہ نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا نادرشاہ دراصل خراسان کا ایک گڈریہ تھا ۔ جس نے محض اپنی خداداد لیاقت سے ایران کا تخت حاصل کیا تھا اس نے کابل اور قندھار کو فتح کرنے کے بعد 1739 میں ہند پر حملہ کیا،کرنال کے قریب دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں محمد شاہ کو شکست ہوئی اور نادرشاہ دہلی میں داخل ہوا مگر کچھ دنوں کے بعد اس شہر میں نادر شاہ کے مارے جانے کی غلط افواہ پھیل گئی اس افواہ کے پھیلتے ہی باشندگان دہلی نے کئی ایرانی سپاہیوں کو مار ڈالا،نادرشاہ اسے سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور قتل عام کا حکم دے دیا دہلی میں 12 گھنٹے تک قتل عام کا بازار گرم رہا اور ہزارہا آدمی قتل ہوئے بازاروں گلی کوچے لاشوں کے ڈھیروں سے بھر گئے آخر محمد شاہ کی درخواست پر نادرشاہ نے قتل عام بند کرنے کا حکم دیا،مگر لوٹ کھسوٹ جاری رہی نادرشاہ قریبا دوماہ دہلی میں رہا جانے سے پہلے اس نے محمد شاہ کو دہلی کا شہنشاہ تسلیم کیا اور محمد شاہ نے دریائے سندھ کے مغربی جانب کا تمام علاقہ نادر شاہ کے حوالے کردیا نادرشاہ ہندسے کروڑہا روپیہ بے شمار قیمتی جواہرات سونے چاندی کے برتن مشہور ہیرا کوہ نور اور شاہ جہاں کا مشہور و معروف تخت طاووس اپنے ہمراہ ایران لے گیا،نادر شاہ کے حملے سے سلطنت مغلیہ کو ایک ناقابل برداشت صدمہ پہنچا چاروں طرف بدامنی پھیل گئی کی خود مختار ریاستیں قائم ہوگی ۔

احمد شاہ ابدالی کے ہند پر حملے


نادر شاہ کی وفات کے بعد اس کے ایک سردار احمد شاہ نے کابل اور قندھار پر قبضہ کرلیا،احمدشاہ افغانوں کی درانی قبیلے میں سے تھا،١٧٤٧ میں احمد شاہ ابدالی نے ہند پر حملہ کر کے پنجاب اور ملتان کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور دہلی کی طرف بڑھا لیکن سرہند کے مقام پر محمد شاہ کے بیٹے احمد شاہ کی سرکردگی میں مغلیہ فوج نے اسے شکست دی یہ مغلیہ فوج کی جنگ میں سب سے آخری فتح تھی،احمد شاہ ابدالی شکست کھا کر واپس چلا گیا 1754 میں مغل بادشاہ احمد شاہ کو اس کے وزیر قاضی والدین نے اندھا کر کے قتل کر دیا اور عالمگیر ثانی کو تخت پر بٹھایا اس کے عہد میں 1756 میں احمد شاہ ابدالی نے پھر ہندوستان پر حملہ کیا احمد شاہ ابدالی نے مغلوں کو شکست دی اور اپنے بیٹے کو پنجاب کا حاکم مقرر کرکے واپس چلا گیا، اس کے چلے جانے کے بعد عالمگیر ثانی قتل کیا گیا اور اس کی جگہ شاہ عالم ثانی تخت پر بیٹھا اس کے عہد میں مرہٹوں نے بہت عروج حاصل کیا اور پنجاب پر قبضہ کرکے احمد شاہ ابدالی کے بیٹے کو لاہور سے نکال دیا اس لئے احمد شاہ ابدالی ایک جرار فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا پانی پت کے تاریخی میدان میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا بڑی خونریزی لڑائی ہوئی اس پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست فاش ہوئی احمدشاہ کے ان حملوں نے مغلیہ سلطنت کی رہی سہی طاقت کا خاتمہ کر دیا ۔ 

سلطنت مغلیہ کے زوال کے اسباب

اورنگ زیب کی سیاسی غلطیاں : سلطنت مغلیہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب اورنگزیب کی پالیسی تھی اس کا تعصب اس کی ہندوؤں سے بدسلوکی اس کی شکی طبیعت اور اس کا دکن کی ریاستوں کو فتح کرنا ایسی سیاسی غلطیاں تھیں کہ جن سے اس عالیشان عمارت کو جس کی بنیاد اکبر نے اپنی صلح کل پالیسی سے رکھی تھی زوال آنا شروع ہوگیا ۔

اورنگ زیب کی مذہبی پالیسی : اورنگزیب کے مذہبی جنون نے مرہٹوں سکھوں راجپوتوں اور جاٹوں کو مغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوت پیدا کرنے پر مجبور کردیا جو آخرکار مل کر مغلیہ سلطنت کو تباہ کرنے کا موجب بنے  

بیجاپور اور گولکنڈہ کی فتح : بیجاپور اور گولکنڈا کی اسلامی ریاستوں کو فتح کرنے میں اورنگزیب نے بڑی غلطی کی کیونکہ ان ریاستوں کی تباہی کے بعد مرہٹہ بہت طاقت پکڑ گئے اور انہوں نے مغلیہ علاقے پر چھاپے مارنے شروع کر دیے جس سے مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی ۔

نالائق جانشین : اکبر جہانگیر شاہجہاں اور اورنگزیب اگرچہ ہزاروں نقائص رکھتے تھے لیکن ان میں ذاتی دلیری مردانگی اور دشمن کے مقابلے کی طاقت کے جوہر کوٹ کوٹ کر بھرے تھے مگر اورنگزیب کے جانشین ان خوبیوں سے بالکل خالی تھے وہ کمزور بزدل عیش پرست واقع ہوئے تھے اور اپنے امراء کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہتے تھے اس سے مرکزی حکومت کمزور ہو گئی ۔

وسعت سلطنت : اورنگزیب کے زمانہ میں مغلیہ سلطنت بہت وسیع ہوگئی تھی جس کا خاطر خواہ انتظام کرنا بہت مشکل تھا اس کے کمزور جانشین اتنی وسیع سلطنت کو سنبھالنے کے بالکل ناقابل ثابت ہوئے ۔

صوبوں کی خودمختاری : اورنگزیب کی موت کے بعد جب قابل حکمران نہ رہا تو صوبیدار اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار بن بیٹھے چنانچہ علی وردی خان بنگال میں سعادت علی خان اودھ میں اور نظام الملک دکن میں خودمختار حکومت کرنے لگے اس سے سلطنت دہلی کے گرد و نواح تک محدود ہوگئی ۔

بیرونی حملے : نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کو ہلا دیا

مغلیہ فوج کی کمزوری : مغلیہ فوج کمزور اور آرام طلب ہو گئی تھی نیز افسر بددیانت اور رشوت خور تھے فوجی افسر پالکیوں میں بیٹھ کر میدان جنگ میں جاتے تھے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ہمراہ لے جاتے تھے فوج میں سپاہیوں کی نسبت عورتوں اور بچوں کی تعداد نیز توپوں اور بندوقوں کی نسبت بار برادری کا سامان ہوتا تھا ۔

نئی طاقتوں کا ظہور : دکن میں مرہٹے پنجاب میں سکھ بہت زور پکڑ گئے تھے اس کے علاوہ یورپین قوموں نے بھی ہندوستان میں بہت ترقی کر لی تھی اس سے مغلیہ سلطنت کو بہت نقصان پہنچا جس سے مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی انگریزوں کا ہندوستان میں عروج بھی مغلیہ سلطنت کے زوال کا باعث بنامیں سپرد خاک کردیا گیا ۔

2 comments:

  1. As salaam u alaikum
    Aap please apni likhi gayi kitaabon ke baare mein batayen, agar yahi aapki pehli kitaab hai to isme mazeed kitni qistein hongi?

    ReplyDelete
  2. Wallekum assalam....duwa kijiye isi ko kitabi shakal dena hai....

    ReplyDelete

آؤ کھیلیں کھیل پرانے

آ ؤ کھیلیں کھیل پرانے   آفتاب عالم ؔ شاہ نوری کروشی بلگام کرناٹک 8105493349   اللہ تعالی نے انسان کو تمام دنیا میں اشرف المخلوقا...